Tag: اسلام آباد ہائیکورٹ

  • تحریک انصاف کا ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن پر جانب داری کا الزام، عدالت سے رجوع

    تحریک انصاف کا ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن پر جانب داری کا الزام، عدالت سے رجوع

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن پر جانب داری کا الزام لگاتے ہوئے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا، پی ٹی آئی نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ 17 سیاسی جماعتوں کے خلاف کیسز کا فیصلہ ایک ماہ میں کیا جائے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی میں جانب داری کا مظاہرہ کر رہا ہے، الیکشن کمیشن 17 سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کی اسکروٹنی سے انکاری ہے، اس رویے سے پی ٹی آئی متاثرہ پارٹی ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن کو 17 سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کی چھان بین کا حکم دیا جائے، اسٹیٹ بینک تمام سیاسی جماعتوں کے اکاؤنٹس کی چھان بین کرے، اور اسٹیٹ بینک رپورٹ کے بعد الیکشن کمیشن اکاؤنٹس کی تفصیلات عام کرے۔

    پی ٹی آئی نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ 17 سیاسی جماعتوں کے کیسز روزانہ کی بنیاد پر سن کر ایک ماہ میں فیصلہ کیا جائے، الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جائے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ جانب دارانہ رویہ نہ رکھے۔

    وکیل انور منصور اور شاہ خاور نے پی ٹی آئی رہنما عامر کیانی کی جانب سے یہ درخواست دائر کی ہے، جس میں ن لیگ، پی پی پی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، عوامی مسلم لیگ، تحریک لبیک، باپ، بی این پی، اے این پی و دیگر کو فریق بنایا گیا ہے، درخواست میں الیکشن کمیشن کے علاوہ 17 سیاسی جماعتوں کو فریق بنایا گیا ہے۔

  • ہائیکورٹ کا غیر معمولی اقدام، مقدمات کی سماعت کو براہ راست دیکھا جاسکے گا

    ہائیکورٹ کا غیر معمولی اقدام، مقدمات کی سماعت کو براہ راست دیکھا جاسکے گا

    اسلام آباد: پاکستان کی عدالتی تاریخ میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے مقدمات کی لائیو اسٹریمنگ کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں عدالتی کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ کا فیصلہ کیا گیا ہے، ہائیکورٹ کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ نےچیف جسٹس کی عدالت میں سسٹم نصب کر دیا۔

    ٹرائل کے طور پر آج سے عدالتی کارروائی کو محدود پیمانے پر براہ راست دکھایا جائے گا، ٹرائل کی کامیابی کے بعد ویب سائٹ پر کوئی بھی براہ راست عدالتی کارروائی دیکھ سکے گا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر کہا کہ ہائیکورٹ کا مقدمات کو براہ راست دکھانے فیصلہ درست ہے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کورٹ بھی اسلام آباد ہائیکورٹ کی تقلید کرے اور شہباز شریف کے منی لانڈرنگ کیس کو براہ راست دکھایا جائے، ان کی ضمانت کی تاریخ آنے والی ہے اس پر ہی اس فیصلے پر عملدرآمد ہونا چاہیئے۔

  • عدالت نے پی ایم سی کے تمام ممبران کو فوری عہدوں سے ہٹانے کا حکم دے دیا

    عدالت نے پی ایم سی کے تمام ممبران کو فوری عہدوں سے ہٹانے کا حکم دے دیا

    اسلام آباد: عدالت نے پی ایم سی کے تمام ممبران کو فوری عہدوں سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان میڈیکل کونسل (پی ایم سی) کے تمام ممبران کی تعیناتی غیر قانونی قرار دے دی ہے۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے کونسل کے تمام ممبران کو فوری طور پر عہدوں سے ہٹانے کا حکم دے دیا ہے، حکم کے مطابق کونسل کے صدر ڈاکٹر ارشد تقی، اور نائب صدر علی رضا ایڈووکیٹ کی تعیناتی غیر قانونی قرار دی گئی ہے۔

    عدالت نے حکم میں کہا ہے کہ ممبران کی قانون کے مطابق تعیناتی تک حکومت روزانہ کی بنیاد پر امور چلائے، پی ایم ڈی سی کے جن ملازمین کو پنشن مل چکی، ان سے وہ واپس نہیں لی جا سکتی، تاہم جن ملازمین کو پنشن نہیں ملی اب وہ اس کے اہل نہیں ہیں۔

    واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے محفوظ فیصلہ سنایا، یہ فیصلہ پی ایم سی ممبران کی تعیناتی کے خلاف ملازمین کی درخواستوں پر سنایا گیا ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ پی ایم سی کی نئی کونسل گولڈن ہینڈ شیک والے ملازمین کا کیس دیکھ سکتی ہے۔

  • عدالت نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام نو فلائی لسٹ سے نکال دیا

    عدالت نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام نو فلائی لسٹ سے نکال دیا

    اسلام آباد: عدالت نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام نو فلائی لسٹ سے نکال دیا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے علاوہ کوئی بلیک لسٹ میں نام نہیں ڈال سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی شخصیات ‏شہزاد اکبر اور شہباز گل کی اسٹاپ لسٹ سے نام نکلوانے کی درخواست پر سماعت کی، مرزا شہزاد اکبر اور ڈاکٹر شہباز گل اپنے وکیل رئیس عبدالواحد ایڈووکیٹ اور دیگر وکلا کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔

    وکیل نے کہا کہ درخواست گزاروں کا نام بغیر کسی شکایت یا انکوائری یا کسی اور کارروائی کے ‘نو فلائی لسٹ/اسٹاپ لسٹ’ میں ڈالا گیا ہے، سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کا عمل بد دیانتی پر مبنی ہے، عدالت غیر قانونی اور غیر آئینی عمل کو کالعدم قرار دے۔

    وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے نے درخواست گزاروں کے نام نو فلائی لسٹ میں صبح تقریباً 1.55 پر ڈالا ہے، اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو رہی تھی، جو بدنیتی کے ارادے اور بدسلوکی کو ظاہر کرتی ہے۔

    وکیل نے کہا سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کی غیر قانونی کارروائی من مانی اور خلاف قانون ہے، سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے نے پی ایم ایل ن کے اراکین کی آواز پر عمل کیا، یہ سیاسی انتقام ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

    وکیل نے کہا دونوں درخواست گزار سابق وزیر اعظم کے مشیر تھے، یہ طے شدہ قانون ہے کہ محض مقدمے کا زیر التوا ہونا بھی کسی شہری کی نقل و حرکت کی آزادی کو روکنے اور ملک سے آزادانہ طور پر باہر جانے اور آنے سے روکنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے، نقل و حرکت کی آزادی درخواست گزار کا بنیادی حق ہے، جسے اسلامی جمہوریہ پاکستان 1973 کے آئین نے عطا کیا ہے۔

    وکیل کے مطابق درخواست گزاروں کے نام اسٹاپ لسٹ میں ڈالنے پر جواب دہندگان کی طرف سے کوئی بھی قابل فہم بنیاد فراہم نہیں کی گئی ہے، نہ ہی انھیں مطلع کیا گیا ہے، یہ پاکستان کنٹرول آرڈیننس 1981 کے سیکشن 2 کے ذیلی سیکشن 2 کی سراسر خلاف ورزی ہے، درخواست گزاروں کے بنیادی حقوق کی بھی سنگین خلاف ورزی ہوئی ہے۔

    وکیل نے عدالت سے کہا کہ سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات اختیارات کے ناجائز استعمال کے مترادف ہیں، عدالت ایف آئی اے کے غیر قانونی عمل کو کالعدم قرار دے۔

    وکیل نے یہ بھی کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتی اہل کاروں کو مزید ہدایت کی گئی ہے کہ وہ بغیر این او سی کے پرواز نہیں کر سکتے، جنھوں نے حکومت کو ہٹانے کے لیے سازش کی اس لیے جواب دہندگان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ یہ عمل ایسے وقت میں کیا گیا جب ملک میں کوئی وزیر اعظم نہیں تھا، چیف جسٹس نے کہا بلیک لسٹ کے حوالے سے اس عدالت کی ججمنٹ موجود ہے، نوٹس جاری کر کے کل پوچھ لیتے ہیں۔

    عدالت نے سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، اور عدالت نے سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی، عدالت نے سیکرٹری داخلہ سے وضاحت طلب کی ہے اور کہا کہ سیکریٹری داخلہ کسی آفیسر کو عدالتی معاونت کے لیے مقرر کر دے۔

    عدالت نے شہزاد اکبر اور شہباز گل کا نام نو فلائی لسٹ سے نکال دیا، اور وزارت داخلہ کا نوٹیفکیشن کل تک کے لیے معطل کر دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت کے علاوہ نام کوئی بلیک لسٹ میں ڈال نہیں سکتا۔

  • بلوچ طلبہ کے آبائی علاقوں کا دورہ کر کے تحفظ سے متعلق ان کے خدشات دور کرنے کا عدالتی حکم

    بلوچ طلبہ کے آبائی علاقوں کا دورہ کر کے تحفظ سے متعلق ان کے خدشات دور کرنے کا عدالتی حکم

    اسلام آباد: عدالت نے سیکریٹری وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ قائد اعظم یونیورسٹی میں درخواست گزاروں اور بلوچستان کے طلبہ تک پہنچیں، وزارت داخلہ ان کے آبائی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے سیکیورٹی سے متعلق خدشات کو دور کرے۔

    تفصیلات کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں طالب علموں کو ہراساں کرنے کے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری حکم جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ نسلی پروفائلنگ سے متعلق شکایت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار طلبہ جن کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے اور اس وقت قائد اعظم یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، کو خدشات ہیں کہ اگر وہ اپنے آبائی علاقوں میں جاتے ہیں تو انھیں ہراساں اور اغوا کیا جائے گا، نسلی پروفائلنگ سے متعلق ان کی شکایت بھی سنگین ہے۔

    عدالت نے کہا عدالتی ہدایت پر وزیر داخلہ نے ان سے ملاقات کی تھی، لیکن یہ ملاقات محض رسمی معلوم ہوتی ہے، یونیورسٹی کے چانسلر صدر پاکستان نے ان سے ملاقات نہیں کی، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ یونیورسٹی کے چانسلر صدر پاکستان نے طلبہ سے ملاقات کی تاریخ مقرر کی تھی لیکن ناگزیر حالات کی وجہ سے اس پر عمل نہیں ہو سکا۔

    تحریری حکم نامے کے مطابق طلبہ کی طرف سے اٹھائی گئی شکایات ناقابل برداشت ہیں، سب سے زیادہ تشویشناک اور پریشان کن پہلو جو عدالت نے کارروائی کے دوران دیکھا وہ عوامی عہدے داروں کا طرز عمل ہے، عوامی نمائندوں میں ہمدردی کا فقدان ہے، کسی شہری کے لیے اس سے زیادہ سنگین شکایت نہیں ہو سکتی کہ وہ یہ محسوس کرے کہ اسے نسلی پروفائلنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، عدالت عوامی عہدہ داروں کے طرز عمل کی مذمت کرتی ہے۔

    عدالت نے کہا صدر پاکستان کے سکریٹری کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس آرڈر کی ایک کاپی صدر پاکستان کے سامنے رکھیں، نسلی پروفائلنگ سے متعلق شکایت کو برداشت نہیں کیا جا سکتا، بلوچستان کے طلبہ کے معاملے میں ایسی شکایت زیادہ گہری ہو جاتی ہے۔

    یونیورسٹی کے چانسلر صدر پاکستان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ دیگر یونیورسٹیوں کے چانسلرز کے ساتھ مشاورت کے بعد مناسب کارروائی کریں گے، تاکہ صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی نسلی پروفائلنگ کے حوالے سے کسی بھی قسم کے خدشات کو واضح طور پر دور کیا جا سکے۔

    حکم نامے کے مطابق سیکریٹری وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ قائد اعظم یونیورسٹی میں درخواست گزاروں اور بلوچستان کے طلبہ تک پہنچیں، وزارت داخلہ ان کے آبائی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے سیکیورٹی سے متعلق خدشات کو دور کریں۔

    رجسٹرار کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اس آرڈر کی کاپیاں مذکورہ حکام کو بھیجیں، صدر پاکستان کے سیکریٹری اور سیکریٹری وزارت داخلہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مقررہ تاریخ سے پہلے اپنی رپورٹیں جمع کرائیں، اس کیس پر مزید سماعت 15 اپریل کو کی جائے گی۔

  • نور مقدم کیس: مجرموں کی سزا بڑھانے کے لیے درخواست دائر

    نور مقدم کیس: مجرموں کی سزا بڑھانے کے لیے درخواست دائر

    اسلام آباد: نور مقدم کے والد نے مجرمون کی سزا بڑھانے کے حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کر دی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نور مقدم کے والد نے مجرموں کی سزا بڑھانے کے لیے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں ظاہر ذاکر جعفر، محمد افتخار اور محمد جان کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ سزاؤں کے حکم میں مجرموں کے حق میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے نرمی برتی گئی ہے، موجودہ کیس قانون اور حقائق کے مطابق نہیں ہے۔

    نور مقدم قتل کیس : مجرم کی سزا کے خلاف اپیل پر شوکت مقدم اور وفاق کو نوٹس جاری

    درخواست میں کہا گیا کہ دستیاب شواہد کے ریکارڈ سے ظاہر ہو چکا ہے کہ جواب دہندگان نمبر 01 تا 03 اپنے متعلقہ الزامات کے حوالے سے مکمل طور پر ملوث تھے، وقوعہ کا وقت، مقام اور طریقہ دفاع مقدمے کے جج نے تسلیم کیا۔

    نور مقدم قتل کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

    درخواست کا مؤقف تھا کہ ٹرائل کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے سزا کی مقدار کے حوالے سے طے شدہ اعلیٰ عدالتوں کے متعلقہ اصولوں کی خلاف ورزی کی، ایک معصوم انسان کے لرزہ خیز، افسوس ناک اور وحشیانہ قتل پر عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

  • بلوچ طلبہ پر تشدد، اسلام آباد ہائیکورٹ نے نسلی پروفائلنگ ناقابل برداشت قرار دے دی

    بلوچ طلبہ پر تشدد، اسلام آباد ہائیکورٹ نے نسلی پروفائلنگ ناقابل برداشت قرار دے دی

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر شیری مزاری کی بیٹی وکیل ایمان مزاری کی جانب سے دائر درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کر دیا، عدالت نے بلوچ طلبہ پر تشدد کے حوالے سے نسلی پروفائلنگ ناقابل برداشت قرار دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایمان مزاری کی درخواست پر سماعت کے بعد تحریری حکمنامہ جاری کر دیا، عدالت میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر محمد شعیب شاہین عدالت میں پیش ہوئے۔

    عدالت کے تحریری حکم نامے کے مطابق شعیب شاہین نے نیشنل پریس کلب کے باہر صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی جانب سے لگائے گئے کیمپ کا دورہ کیا تھا، انھوں نے محسوس کیا کہ وفاق کی طرف سے انھیں نظر انداز کرنے کے علاوہ انھیں نگرانی اور نسلی پروفائلنگ کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔

    عدالت کے مطابق سیکریٹری وزارت انسانی حقوق انعام اللہ خان نے بتایا کہ واقعے پر مقامی انتظامیہ سے رپورٹ طلب کی گئی تھی، کیوں کہ پہلی نظر میں طاقت کا استعمال حد سے زیادہ تھا، عدالت میں چیف کمشنر عامر علی احمد، آئی جی احسن یونس، انسپکٹر جنرل آف پولیس کے ساتھ پیش ہوئے، آئی جی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ معاملے کی جانچ کی جائے گی اور مناسب کارروائی کی جائے گی۔

    حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر اس معاملے کو دیکھیں گے اور اس کے مطابق وفاقی حکومت اور اسلام آباد انتظامیہ کو مشورہ دیں گے۔

    ایمان مزاری اور بلوچ طلبہ کے خلاف غداری کے مقدمے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا سخت فیصلہ

    عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کئی دنوں سے نیشنل پریس کلب کے سامنے پرامن احتجاج کر رہے ہیں، عدالت کو بتایا گیا کہ احتجاجی کیمپ کا مقصد وفاقی حکومت کو بلوچستان سے ایک طالب علم کی مبینہ طور پر جبری گمشدگی کی طرف متوجہ کرانا تھا، اور اس بات سے انکار نہیں کیا گیا کہ کسی عہدیدار یا کابینہ کے کسی رکن نے ان نوجوان شہریوں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی۔

    مزید کہا گیا کہ ایف آئی آر کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی دنوں تک پرامن احتجاج کرنے کے باوجود طلبہ کو منتشر کرنے اور ان کے کیمپ کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کیا گیا، تیل اور معدنیات سے مالا مال صوبہ بلوچستان پاکستان کے تقریباً 44% رقبے پر مشتمل ہے، یہ ملک کے سب سے کم ترقی یافتہ اضلاع پر مشتمل ہے، اور بلوچستان کے باسیوں کی قربانیاں اور ان کی حب الوطنی شک و شبہ سے بالاتر ہے، لیکن اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ گزشتہ 7 دہائیوں کے دوران غلط پالیسیوں اور خراب طرز حکمرانی نے شکایات کو جنم دیا ہے، جنھیں وفاقی حکومت نظر انداز نہیں کر سکتی۔

    تحریری فیصلے میں عدالت نے کہا یہ بتانا ستم ظریفی اور پریشان کن ہے کہ بلوچستان کے نوجوان طلبہ محسوس کرتے ہیں کہ انھیں عوامی سطح پر نظر انداز کیا جا رہا ہے، وفاقی حکومت کی نمائندگی کرنے والے عوامی کارکنوں کی بے حسی سے ایسا لگتا ہے کہ اسلام آباد انتظامیہ نے ایسے تاثرات پیدا کیے ہیں، یہ نوٹ کیا جاتا ہے کہ نسلی پروفائلنگ کا تصور انتہائی خراب اور ناقابل دفاع ہے، پاکستان میں اسے برداشت نہیں کیا جا سکتا، جو کہ آئین کے تحت چل رہا ہے۔

    عدالت نے حکم دیا کہ وفاقی حکومت غیر معمولی دیکھ بھال اور ہمدردی کا مظاہرہ کرے، تاکہ بلوچستان کے باشندوں خاص طور پر اس کے نوجوانوں کے کسی بھی اندیشے یا تاثر کو دور کیا جا سکے، لیکن وفاقی حکومت اس بھاری ذمہ داری میں ناکام نظر آتی ہے، وفاقی حکومت کی سربراہی ایک منتخب وزیر اعظم کرتی ہے، عدالت توقع کرتی ہے کہ وزیر اعظم اور وفاقی حکومت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ تک پہنچ کر ان کی شکایات سنیں گے۔

    عدالت نے یہ حکم بھی دیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے نسلی طور پر پیش کیے جانے کے خدشات یا تاثر کو دور کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو اب آئین کے تحت ان کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے، ان کی آواز کو دبائے جانے یا ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیے جانے کی وجہ سے وہ غمگین محسوس کریں گے، عدالت نے لوگوں کو ہراساں کرنے یا گرفتار کرنے سے روک دیا ہے۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے آئندہ سماعت تک حکم امتناع توسیع کر دی، آئندہ سماعت تک ایف آئی آر نمبر 203 پر کسی کو گرفتار نہیں کیا جائے، نیز عدالت نے کیس پر مزید سماعت 21 مارچ تک کے لیے ملتوی کر دی۔

  • ایمان مزاری اور بلوچ طلبہ کے خلاف غداری کے مقدمے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا سخت فیصلہ

    ایمان مزاری اور بلوچ طلبہ کے خلاف غداری کے مقدمے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا سخت فیصلہ

    اسلام آباد: ایمان زینب مزاری اور بلوچ طلبہ کے خلاف غداری کے مقدمے پر اسلام آباد ہائیکورٹ کا سخت فیصلہ سامنے آیا ہے، عدالت نے یہ بھی واضح کر دیا کہ غداری اصل میں کیا ہے۔

    وفاقی وزیر شیریں مزاری کی بیٹی ایمان زینب مزاری ایڈووکیٹ کے خلاف گزشتہ روز غداری کے مقدمے کا اندراج کیا گیا تھا، جسے انھوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا، آج چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس درخواست پر سماعت کے بعد تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔

    عدالت نے کہا کہ ایف آئی آر پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پہلا کیس نہیں ہے جو پولیس نے طاقت کا غلط استعمال کیا، پاکستان کے دارالحکومت میں بعض طبقات کو نشانہ بنانے اور اختلاف رائے، تنقید اور سیاسی بحث کو دبانے کے لیے اختیارات کا بار بار غلط استعمال ناقابل برداشت ہے۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ جواب دہندگان نے اختلاف رائے اور حق کی آواز کو دبانے کے لیے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا، قائد اعظم یونیورسٹی سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے طلبہ نے پریس کلب کے سامنے مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف پُر امن احتجاج کیا تھا، لیکن جواب دہندگان نے پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ضرورت سے زیادہ طاقت کا استعمال کر کے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔

    عدالتی حکم نامے کے مطابق درخواست گزار کو الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اطلاع ملی تھی کہ پرامن شرکا کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیا گیا ہے، سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس فیصل کامران ایک اور کیس کے سلسلے میں عدالت میں موجود تھے، انھوں نے ایک فوجداری مقدمہ ایف آئی آر نمبر 203/2022 کے تحت درج کیا۔

    عدالت نے قرار دیا کہ صوبہ بلوچستان کے نعرے بلند کرنا خواہ کتنا ہی سخت کیوں نہ ہو، تخیل کی حد تک کیوں نہ ہو، اسے مجرمانہ سازش یا جرم نہیں سمجھا جا سکتا، ایف آئی آر میں جن جرائم کا ذکر کیا گیا ہے ان سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی نظر میں، اختلاف رائے کی حوصلہ شکنی کرنے اور ریاست کے اقدامات یا عدم فعالیت سے پیدا ہونے والی شکایات کا اظہار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    عدالت نے واضح کیا کہ آئین کے تحت چلنے والے معاشرے میں طاقت کا اس طرح کا غلط استعمال ناقابل برداشت ہے، اختلاف رائے کی آوازوں کو دبانا یا ریاست اس کے اداروں یا عوامی اداروں کے خلاف شکایات اٹھانے کی حوصلہ شکنی کرنا غداری ہے، نوجوان شہریوں خاص طور پر صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد کو ریاست اور عوامی اداروں کی طرف سے اپنے اظہار کے لیے حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، ایک سازگار ماحول پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ سیاسی مباحثوں میں بلا روک ٹوک اور بغیر کسی خوف کے حصہ لے سکیں۔

    حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ریاست اور ادارے شہریوں کو نقصان سے بچانے اور ان کی خدمت کرنے اور انھیں آئین کے تحت فراہم کردہ اپنے بنیادی حقوق کے استعمال اور ان سے لطف اندوز ہونے کے قابل بنانے کے لیے موجود ہیں، طاقت کے غلط استعمال کے ذریعے پرامن اجتماع کو دبانا یا اس میں مداخلت کرنا سب سے سنگین خلاف ورزی اور وفاداری کے فرائض کی خلاف ورزی ہے۔

    عدالت نے حکم دیا کہ سیکریٹری وزارت داخلہ، چیف کمشنر، انسپکٹر جنرل پولیس اور سیکریٹری وزارت انسانی حقوق عدالت کے روبرو ذاتی طور پر پیش ہوں، اور پرامن نوجوان شہریوں کے خلاف استعمال کیے جانے والے طاقت کے زیادہ استعمال کا جواز پیش کریں، اور فوجداری مقدمے درج کرنے کی وجہ پیش کریں اور عدالت کو مطمئن کریں، آئین کے تحت ضمانت دیے گئے بنیادی حقوق کے حوالے سے بھی عدالت کو مطمئن کیا جائے۔

    عدالت نے کہا کہ ریاستی اہل کاروں کی جانب سے تشدد اور بغاوت کی کارروائیاں ناقابل معافی اور ناقابل برداشت ہیں، رجسٹرار آفس اس حکم کی کاپیاں جواب دہندگان اور مذکورہ بالا حکام کو تعمیل کے لیے خصوصی میسنجر کے ذریعے بھیجیں، رجسٹرار آفس اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کرے، اور اس کیس پر دوبارہ سماعت 7 مارچ کے لیے رجسٹرار آفس مقرر کرے۔

    یاد رہے کہ بلوچ طلبہ نے یکم مارچ کو نیشنل پریس کلب کے سامنے مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کیا تھا جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کیا، بعد ازاں رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ اور زینب ایمان مزاری سمیت احتجاج میں شریک سیکڑوں طلبہ کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا گیا۔

  • محسن بیگ کی جانب سے ایف آئی آر کے اخراج کے لیے  ایک اور درخواست دائر

    محسن بیگ کی جانب سے ایف آئی آر کے اخراج کے لیے ایک اور درخواست دائر

    اسلام آباد : محسن بیگ نے ایف آئی آر کے اخراج کے لیے ہائی کورٹ میں ایک اور درخواست دائر کردی،جس کے ساتھ متفرق درخواست بھی موجود ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محسن بیگ کی جانب سے ایف آئی آر کی اخراج کے لیے ایک اور درخواست دائر کردی گئی ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ آج سماعت کریں گے۔

    درخواست میں سیکرٹری داخلہ،آئی جی ، ڈی جی ایف آئی اے،ایس ایچ او تھانہ مارگلہ ، ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے ،ریاست سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ مقدمے اور تمام نتیجہ خیز کارروائیوں کو منسوخ کیا جائے، درخواست گزار کے خاندان کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

    ایف آئی آر کا شکایت کنندہ ایک وفاقی وزیر ہے، سیاسی عزائم، رنجش کی بنیاد پر فوجداری مقدمات بنائے گئے، محسن بیگ سرکاری اہلکاروں کےطرز عمل سےشدیدزخمی ہوا ، تاہم محسن بیگ کےزخمی ہونےکاتذکرہ ایف آئی آر میں نہیں کیا گیا۔

    درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا کہ کچھ نامعلوم افراد محسن بیگ کے گھر میں سول ڈریس میں گھس گئے تھے، پولیس کو ایمرجنسی کال 15 بھی کیا گیا، سول افراد سے وارنٹ اور سرچ وارنٹ دکھانےکاکہاگیاتھا۔

    دوسری جانب محسن بیگ کی جانب سے ایک اور متفرق درخواست دائر کی گئی ، جس میں کہا گیا کہ محسن بیگ کو سول لباس میں افراد نے حملے کا نشانہ بنایا اور محسن بیگ کوغیرقانونی طورپرحراست میں لےکرتھانےمیں پندرہ افراد اُن پر تشدد کیا، اتنا مارا کہ ناک سے خون بہنے لگا، ان کی جان کو خطرہ ہے۔

    متفرق درخواست کے مطابق محسن بیگ کا بیٹا تاحال لاپتا ہے، محسن بیگ کے بیٹے کو اگر کچھ ہوا تو ایف آئی اے حکام ذمےدار ہوں گے، سیشن جج نے بھی قانون کے غلط استعمال کا مشاہدہ کیا، استدعا ہے کہ محسن بیگ کو عدالت میں ذاتی طور پر پیش کرنےکاحکم دیاجائے۔

  • عدالت کی نیب کو پرویز مشرف کے خلاف انکوائری ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت

    عدالت کی نیب کو پرویز مشرف کے خلاف انکوائری ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت

    اسلام آباد: ہائی کورٹ نے نیب کو پرویز مشرف کے خلاف انکوائری ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے چیئرمین نیب کے خلاف توہین عدالت کا کیس نمٹا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق آرمی چیف اور سابق صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر چیئرمین نیب کے خلاف توہین عدالت کا کیس اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کی جانب سے مطمئن کرنے پر نمٹا دیا۔

    عدالت نے نیب کو پرویز مشرف کے خلاف انکوائری ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس نمٹایا، درخواست گزار نے نیب انکوائری مکمل ہونے تک سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی تھی، تاہم عدالت نے درخواست گزار کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کی ذمہ داری ہے کہ یہ تاثر زائل کرے کہ صرف منتخب نمائندوں کا احتساب ہوتا ہے، پرویز مشرف آرمڈ فورسز سے نہیں، پبلک آفس ہولڈر تھے، پرویز مشرف کا کیس نیب کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے پرویز مشرف کے اثاثوں کی انکوائری کے حوالے سے چئیرمین نیب کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کی انکوائریاں اتنے سال کیوں زیر التوا رہتی ہیں؟ کیا بیرون ملک سے ایم ایل اے کا جواب آنے میں تین تین سال لگتے ہیں؟

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کئی بار تو بیرون ملک سے ہمیں جواب دیا ہی نہیں جاتا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار پرویز مشرف کے خلاف کب تک انکوائری مکمل ہو سکتی ہے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا ایک ماہ میں رپورٹ پیش کر دیں گے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہم نیب کی تفتیش میں مداخلت نہیں کریں گے، ہم کہہ دیتے ہیں ایک ماہ میں تفتیش مکمل کریں اور کیا کریں؟

    قبل ازیں نیب نے عدالت کو پرویز مشرف کی صحت کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مشرف کو ہارٹ فیلیئر، گردے کی دائمی بیماری ہے، ضرورت سے زیادہ غنودگی، ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ اور فریکچر ہے۔

    نیب نے جواب میں یہ بھی کہا کہ نیب انکوائری کا عمل سختی سے قانون کے مطابق چل رہا ہے، قانون کے مطابق اسے حتمی شکل دی جائے گی، کرنل (ر) انعام الرحیم غلط فہمی میں ہے مبتلا ہے، پرویز مشرف کے اکاؤنٹس اور جائیدادوں پر بھی کارروائی جاری ہے۔