Tag: اسلام آباد ہائی کورٹ

  • پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس 30 روز میں مکمل کرنے کا حکم معطل

    پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس 30 روز میں مکمل کرنے کا حکم معطل

    اسلام آباد :اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس 30 روز میں مکمل کرنے کا حکم آئندہ سماعت تک معطل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں تحریک انصاف کی سنگل رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اور جسٹس بابر ستار نے سماعت کی۔

    تحریک انصاف کے وکیل نے بتایا کہ فیصلے میں کہاگیااسی نوعیت کی درخواستوں کافیصلہ عدالت نےپہلے کیا، الیکشن کمیشن نے انکشاف کیا اکبر ایس بابر شکایت ثابت کرنے میں ناکام رہے۔

    شاہ خاور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ دستاویزات اسکروٹنی کمیٹی سےحاصل مواد ہےجو شکایت کا حصہ نہیں بنتا ،مواداکبر ایس بابر کے ساتھ شیئر نہیں کیا جا سکتا،اسکروٹنی کمیٹی کے سامنے کارروائی زیر التوا ہے۔

    وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ سنگل رکنی بنچ نے کہا الیکشن بذات خود ایک آئینی ادارہ ہے، ہائی کورٹ کاالیکشن کمیشن پرنگرانی کادائرہ اختیار نہیں ، سنگل رکنی بنچ کا فیصلہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کے منافی ہے۔

    شاہ خاور نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن ایک انتظامی اتھارٹی ہے، سنگل رکنی بنچ نے زیر التواشکایت کی کارروائی 30 دن میں مکمل کرنے کا حکم دیا ، حکم الیکشن کمیشن کےدائرہ کار میں دخل اندازی کےمترادف ہو سکتا ہے۔

    عدالت میں تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ آرٹیکل199کےتحت ہی متاثرہ شخص کی درخواست پراختیاراستعمال کرسکتی ہے، الیکشن کمیشن کے سامنے زیر التواکارروائی تفتیشی نوعیت کی ہے۔

    وکیل نے بتایا کہ فیصلے میں کہا فنڈنگ ممنوع ذرائع سے ہونے پر پارٹی اور چیئرمین پراثرپڑےگا، درخواست گزار سیاسی جماعت ہونے کے ناطے اپناوقار برقرار رکھنے کا پابند ہے، مذکورہ پیرا میں الفاظ کے انتخاب کی قانون میں کوئی ضمانت نہیں۔

    شاہ خاور ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ بینچ نےایسے معاملات پربحث کی جودرخواستوں کا حصہ نہیں تھے، سنگل رکنی بنچ کامن گھڑت فیصلہ قانون کے لحاظ سے قابل عمل نہیں ، اسلام آباد ہائیکورٹ کاڈویژن بنچ سنگل رکنی بنچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے۔

    فارن فنڈنگ کی دو درجہ بندی ہیں، ایک وہ جوپاکستانی نژاد فنڈز دیں، دوسرا وہ جو غیر ملکی فنڈزدیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ مناسب نہیں ہم الیکشن کمیشن کو ہدایات جاری کریں، الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کے کسی حکم سے آپ متاثر ہیں تو بتائیں۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس 30 روز میں مکمل کرنےکا حکم معطل کردیا ، سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ آئندہ سماعت تک معطل کیا گیا۔

    خیال رہے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کو فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ 30 دن میں کرنے کا حکم دیا تھا۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ  نے عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیل عام کرنے کا حکم

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیل عام کرنے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیل عام کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کیس کی سماعت کی۔

    دوران سماعت وفاق کی جانب سے ہائی کورٹ میں کیس ملتوی کرنے کا استدعا کی گئی ، ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی نے کہا کہ نئی حکومت آئی ہے ان سے ہدایت لینی ہے ، عدالت سے استدعا ہے کیس ایک ماہ کیلئےملتوی کیا جائے۔

    جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ توشہ خانہ کا حساب دینا ہو گا، عوام کی دلچسپی کا کیس ہے، اپیل فائل کرنے سے کیس ختم نہیں ہوگا ، قانون سے بالا تر کوئی نہیں۔

    وکیل درخواست گزار نے بتایا کہ توشہ خانہ گفت فروخت کر دیئے گئے ہیں، جس پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے کہا 20 فیصد ادا کرکے گفٹ فروخت کرنا عجیب ہے۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اٹارنی جنرل مستعفی ہوگئے ہیں ، وقت دیاجائے،جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ دیکھیں پالیسی واضح ہے اس کو کابینہ کے سامنے اٹھایاجائے ، جو کچھ توشہ خانہ سے لیا گیا وہ سب کچھ آئندہ سماعت پر بتانا ہے۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکریٹری کابینہ ڈویژن نےنئی حکومت کیساتھ معاملہ اٹھایا ہے، جس پر جسٹس گل حسن اورنگزیب نے استفسار کی ہم باہر جاتے ہیں تو واپسی پر پوچھا جاتا ہے کیا سیکھا؟ انصاف ہر کسی کے ساتھ ہونا چاہیے،یہ پبلک انٹرسٹ کا کیس ہے بتایا جائے توشہ خانہ سے کیا ملا ؟

    عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو کابینہ ڈویژن سے ہدایات لینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا جو چیزیں گھر لے گئے وہ واپس لیں چاہے 20سال پرانامعاملہ کیوں نہ ہو، ہم اس معاملے کو متنازع نہیں بنا رہے، تحائف صرف وزیر اعظم نہیں سب سے واپس لانا چاہیے۔

    جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مکالمہ میں کہا کہ ایک حد تک پیسے دیکر تحفہ رکھ لیناکوئی بات نہیں ، پالیسی بنائیں جو تحفہ آئے گا وہ خزانےمیں جمع ہو۔

    جسٹس میاں گل حسن کا کہنا تھا کہ تحائف صرف ملتےنہیں بیرون ملک لوگوں کودیئےبھی جاتےہیں ، بیرون ملک جانیوالےتحائف قومی خزانےسےخریدےجاتے ہیں اور باہرسےآئےسب تحائف بھی نمائش کیلئے رکھے جانے چاہئیں۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ مجھے تازہ ہدایات لینےکیلئے وقت چاہیے، جس پر عدالت نے کہا آپ ہدایات لیں مگرتب تک انفارمیشن کمیشن کےحکم پرعمل کریں، انفارمیشن کمیشن نے کہاتحائف کی معلومات شہری کودیں تودیں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو ملنے والے تحائف کی تفصیل عام کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ڈپٹی اٹارنی جنرل کی استدعا منظور کرلی اور کہا آپ بیرون ممالک جائیں توپاکستانی تحائف میوزیم میں لگےنظرآئیں گے۔

    بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتوں تک کے لئے ملتوی کردی۔

  • اثاثے چھپانے یا ڈیکلیئر نہ کرنے پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنانا غیر قانونی قرار، ہائی کورٹ کا بڑا فیصلہ

    اثاثے چھپانے یا ڈیکلیئر نہ کرنے پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنانا غیر قانونی قرار، ہائی کورٹ کا بڑا فیصلہ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے اثاثے چھپانے یا ڈیکلیئر نہ کرنے پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنانا غیر قانونی قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے اثاثے چھپانے یا ڈیکلیئر نا کرنے پر منی لانڈرنگ کے مقدمے کے حوالے سے فیصلہ جاری کردیا، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 5 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔

    فیصلے میں اثاثے چھپانے یا ڈیکلیئر نا کرنے پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنانا غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا اثاثے جرم کی رقم سے نہ بنے ہوں تو منی لانڈرنگ ایکٹ کااطلاق نہیں ہو گا۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ منی لانڈرنگ مقدمے کیلئے جرم کےپیسےسےاثاثے ثابت کرناضروری ہے، ایف بی آر اینٹلی جنس مقدمے میں منی لانڈرنگ ثابت نہ کرسکا۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ کاروباری شخصیت الطاف گوندل کیجانب سے کیس کی پیروی عدنان رندھاوا ایڈووکیٹ نےکی ، 2010 کا ایکٹ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی فنڈنگ روکنے کیلئے جاری کیا گیا۔

    فیصلے میں کہا کہ 2010ایکٹ کی سیکشن 4کےتحت منی لانڈرنگ قابل سزاجرم ہے، 29 جون 2021 کو ایف آئی آر درج ہوئی، جس میں اثاثے چھپانے کا الزام ہے۔

    عدالت نے فیصلے میں کہا کہ پٹیشنر کیخلاف منی لانڈرنگ کیس بنانےکی کارروائی غیرقانونی ہے، یہ صرف اثاثے چھپانے کا کیس تھا، منی لانڈرنگ کا جرم نہیں بنتا۔

    عدالت نےمنی لانڈرنگ ایکٹ کےتحت درج ایف آئی آر خارج کرتے ہوئے کہا ادارہ اثاثے چھپانے پر کارروائی کرنا چاہے تو متعلقہ قانون کے تحت کر سکتا ہے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ  کا شہزاد اکبر اور شہباز گل پر سفری پابندیاں ختم کرنے کا حکم

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا شہزاد اکبر اور شہباز گل پر سفری پابندیاں ختم کرنے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہزاد اکبر اور شہباز گل پر سفری پابندیاں ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا آج ہی تمام کے نام اسٹاپ لسٹ سے نکالیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی رہنماوں شہزاد اکبر اور شہباز گل کااسٹاپ لسٹ سےنام نکلوانے کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    اسلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس کی سماعت کی، چیف جسٹس نے کہا کہ 2 سے 3 سال میں ایف آئی اے کا کردار انتہائی مایوس کن رہا ہے، حکومت کو ظاہر کرنا ہوگا کہ کوئی زیادتی نہیں ہورہی ہے، ایف آئی اے کب سے اتنی آزاد ہوگئی رات کو انکوائری شروع کردی۔

    جس پر ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ ہمیں 2 دن کا وقت دیا جائے شہزاد اکبر کیس کا مکمل جواب دیں گے تو جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ یہ ہتھکنڈے بہت پرانے ہوچکے ہیں، یہ ادارےعوام کی خدمت کے لیے ہیں حکومتوں کی خدمت کے لیے نہیں۔

    شہزاد اکبر نے کہا کہ میرےعلاوہ 6 اور لوگوں کے نام اسٹاپ لسٹ میں ڈالے گئے ، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے اپنے اختیارات سے تجاوز کیوں کرتا ہے، جو کہانی ایف آئی اے حکام کی جانب سے بتائی جارہی ہے ناقابل فہم ہے، ہر حکومت ایف آئی اے کو غلط استعمال کرتی ہے، ان کو ہراساں نہیں کریں۔

    شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ میں خوداڈیالہ جانے کو تیار ہوں اگر ایف آئی اے نے گرفتار کرنا ہے، جس پر چیف جسٹس نے شہزاد اکبر سے استفسار کیا کیاآپ اڈیالہ جانا چاہیے، تو شہزاد اکبر نے جواب دیا کہ نہیں نہیں سر۔

    اسلام آبا دہائی کورٹ کاشہزاد اکبر اور شہباز گل پر سفری پابندیاں ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے دونوں کے نام اسٹاپ لسٹ سے نکالنے کے حکم امتناع میں توسیع کردی۔

    عدالت نے ایف آئی اے کی جواب جمع کرانے کی مزید مہلت کی استدعا منظور کرتے ہوئے 18 اپریل تک درخواستوں پر جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کل کے حکم پرابھی تک عمل درآمدنہیں ہوا، آج ہی تمام کے نام اسٹاپ لسٹ سے نکالیں ، آج عدالتی حکم پرعمل درآمد نہیں ہوا تو اس کے نقصانات کی ذمہ داری اٹھانہ پڑےگی۔

    عدالت نے آئندہ سماعت پرسیکرٹری داخلہ ،ڈی جی ایف آئی اے سے تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ادارے عوام کی خدمت کیلئے ہیں حکومتوں کی خدمت کیلئےنہیں۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت پیر کے روز تک کے لئے ملتوی کر دی۔

  • عمران خان کیخلاف غداری کی کارروائی کی درخواست خارج ، وکیل  پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد

    عمران خان کیخلاف غداری کی کارروائی کی درخواست خارج ، وکیل پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان، یو ایس سفارتخار، قاسم سوری سمیت دیگر رہنماؤں کے خلاف غداری کی کارروائی کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیر اعظم عمران خان، یو ایس سفارتخار، فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی اور قاسم سوری کے خلاف غداری کی کارروائی کے لئے درخواست پر سماعت ہوئی۔

    سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی ، درخواست گزار وکیل ملوی اقبال حیدر ایڈووکیٹ نے اپنی درخواست کی پیروی خود کی۔

    ملوی اقبال حیدر نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نے امریکی سازش کے خلاف الزام لگایا تھا، سابق وزیر اعظم دھمکی آمیز خط کی انکوائری، تفتیش اور تصدیق کرنے کے پابند تھے۔

    درخواست گزار وکیل کا کہنا تھا کہ متنازعہ خط عالمی انصاف میں چیلنج کرنے کی ضرورت تھی، لیکن عمران خان نے ایسا کرنے میں ناکام رہے اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 2A، 4 کی خلاف ورزی کی گئی۔

    ، ملوی اقبال حیدر نے مزید کہا کہ پاکستان کی یکجہتی، سالمیت، خودمختاری اور سلامتی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا ہے،امریکہ کے ساتھ غیر ملکی تعلقات کو ختم کر کے پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچایا۔

    وکیل نے استدعا کی کہ سابق وزیر اعظم عمران خان، یو ایس سفارتخار، فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی اور قاسم سوری کے خلاف سنگین غداری ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔

    ملوی اقبال حیدر کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کی شکایت پر وزارت داخلہ وزیر اعظم عمران خان، یو ایس سفارتخار، فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی اور قاسم سوری کے خلاف انکوائری شروع کرے اور قانون کے مطابق اور شکایت ہائی ٹریزن ایکٹ وغیرہ کے تحت دائرہ اختیار رکھنے والی ٹرائل کورٹ کو بھیجی جائے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عدالت وزارت داخلہ کو حکم دے کہ درخواست کے فیصلہ ہونے تک وزیر اعظم عمران خان، یو ایس سفارتخار، فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی اور قاسم سوری کا نام ای سی ایل میں ڈالیں۔

    اقبال حیدر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم نے ایک جلسہ کے دوران ایک خط عوام کو دکھایا، ایو ایس سفارتخانہ نے متنازعہ خط کو جعلی قرار دیا ہے۔

    جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ریاست کو اپنا کام کرنے دیں، سیاسی مسائل کو عدالت کیوں لائے ہو، آپ نے اپنی درخواست میں استدعا کیا کی ہے،عمران خان منتخب وزیراعظم تھے،پرویزمشرف سےموازنہ نہ کریں۔

    عدالت نے درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا ، بعد محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے اسلام آبادہائی کورٹ نے درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دی۔

    عدالت نے وکیل درخواست گزار کو ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا ، حکمنامہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے جاری کیا۔
    اسلام آباد ہائیکورٹ نے محفوظ شدہ فیصلہ سنا یا

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کیخلاف حتمی کارروائی سے روک دیا

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کیخلاف حتمی کارروائی سے روک دیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو وزیراعظم کیخلاف حتمی کارروائی سے روکتے ہوئے کہا نوٹسز کیخلاف حکم امتناع جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں وزیراعظم عمران خان اور اسد عمر کو الیکشن کمیشن کی جانب سےنوٹس کیخلاف سماعت ہوئی ، جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل خالد جاوید عدالت کے سامنے پیش ہوئے ، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کیا الیکشن کمیشن آرڈیننس کو ختم کر سکتا ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس آرڈیننس کالعدم قرار دینے کا اختیار نہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ 2018 تھری کے تحت کوڈ آف کنڈکٹ بنایا تو کیا آرڈیننس سے ختم کیا جا سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اس نوعیت کا معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر بحث آیا تھا۔

    اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا وزیراعظم سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتےہوئےغیرجانبدار نہیں رہ سکتا، پارلیمنٹری فارم آف گورنمنٹ میں اسٹار پرفارمر کو کیسے الگ کیاجاسکتاہے۔

    اٹارنی جنرل کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے آئین کی ہر گز یہ اسکیم نہیں، یہ ہو سکتاالیکشن کمیشن یقینی کرے حکومتی اسکیم کا اعلان نہیں کر سکتے، الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے کوئی وزیر سرکاری گاڑی استعمال نہ کرے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کی تحریری ہدایات تھیں کہ اپنی جیب سےیا پارٹی اخراجات کروں گا، کبھی نہیں سنا کہ الیکشن کمیشن کہےکہ وزیراعظم کو سوات جانے سے روک دیا گیا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن ڈیڈی کی طرح ایکٹ کر رہا ہے، ہیڈ آف اسٹیٹ کو روکا جا سکتا، ہیڈ آف گورنمنٹ کو نہیں، الیکشن کمیشن وزیر اعظم کو نوٹس اور جرمانہ کر رہا ہے، اگلہ مرحلہ نااہلی ہے، وہ کیسے یہ کر سکتے ہیں؟

    عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے لکھا ہے کہ وزیراعظم نے سرکاری مشینری استعمال کی ہے، کمیشن کی بات درست ہے کہ سرکاری خرچے پر انتخابی مہم نہیں کی جا سکتی۔

    وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا کہ پبلک آفس ہولڈر اپنے حلقے میں جا سکتا ہے لیکن انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتا، صدر، وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، اسپیکرز، وزراء، انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتے۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اگر استعمال کیا ہے تو اخراجات پاکستان کے خزانے میں جمع کرائیں گے۔

    اسلام آبادہائیکورٹ نےالیکشن کمیشن کو وزیراعظم کیخلاف حتمی کارروائی سے روک دیا اور الیکشن کمیشن کے نوٹس پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے کہا الیکشن کمیشن وزیر اعظم کیخلاف کوئی حتمی فیصلہ نہ دے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی نظرآئے تو الیکشن کمیشن نوٹس کرسکتا ہے، الیکشن کمیشن نوٹس پر جرمانہ اور نااہلی نہیں کرے گاْ

    عدالت نے الیکشن کمیشن کو آئندہ سماعت تک کسی بھی قسم کی کارروائی سے روکتے ہوئے کیس کی سماعت 6 اپریل تک ملتوی کر دی۔

    الیکشن کمیشن نے وزیراعظم کو سوات جلسے میں شرکت سےروکنے کیلئے نوٹس جاری کیا تھا۔

  • پاکستانی عدالت کا  بھارت کو کلبھوشن یادیو کیلئے وکیل مقرر کرنے کا آخری موقع

    پاکستانی عدالت کا بھارت کو کلبھوشن یادیو کیلئے وکیل مقرر کرنے کا آخری موقع

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارت کو کلبھوشن یادیو کیلئے وکیل مقرر کرنے کا آخری موقع دے دیا ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ انسان ہونے کے ناطے شفاف ٹرائل کلبھوشن کا حق ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں کلبوشن یادیو کیلئے سرکاری وکیل مقرر کرنے کی درخواست پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ بھارتی سفارت خانے نے ابھی تک کوئی وکالت نامہ جمع نہیں کرایا۔

    عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اس کا کوئی ایکٹ پاس ہوگیا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرڈیننس میں کچھ چیزیں نہیں تھیں جو ایکٹ میں ترامیم کی گئی۔ ایکٹ کے سیکشن 2 میں ہائیکورٹ میں نظر ثانی اپیل دائر کرنے کی اجازت دی گئی۔ واضح ہے کہ بھارت اس کیس میں دلچسپی نہیں لے رہا، اور بین الاقوامی عدالت انصاف جانا چاہتا ہے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف نے تو پشاور ہائیکورٹ کے فیصلوں کا حوالہ دیا تھا۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے تو ہماری عدالتی نظام کو مانا تھا آپ نے تو مزید بھی ترمیم کی۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بھارت اس کیس میں خود کو انگیج نہیں کرنا چاہتا۔ بھارت صرف یہی چاہتا ہے کہ پاکستان کو کسی طرح سے بین الاقوامی عدالت انصاف پہنچایا جائے جبکہ پارلیمنٹ نے کوشش کی کہ ملزم کو وکیل کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔

    ٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے میں پاکستانی عدالتوں میں اپیل دائر کرنے کا کہا گیااور کلبھوشن یادیو کو پاکستان نے کونسلر رسائی بھی دی ہے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس میں کہا بین الاقوامی عدالت انصاف کا فیصلہ شاید بھارت نے پڑھا نہیں یا غلط تشریح کررہے ہیں، اگر بھارت اس کیس میں نہیں آنا چاہتا تو کیس کو کیسے آگے لیکر چلیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بھارت نے آئی سی جے کا فیصلہ پڑھا ہے مگر غلط تشریح کررہے، اگر بھارت نہیں چاہتا تو عدالت کلبھوشن یادیو کے لیے نمائندہ مقرر کرے۔

    جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ وزارت قانون ہی اس کے لیے نمائندہ مقرر کرے گی، مگر کیس آگے کیسے لیکر جانا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارت کو نہ کلبھوشن یادیو کیس میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی ایکٹ آف پارلیمنٹ میں ہیں۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو کیس کو بنیادی انسانی حقوق حاصل ہیں اور ہونا چاہیے، کمانڈر کلبھوشن یادیو کو فئر ٹرائل کا حق حاصل ہے، بھارتی حکومت کو اس فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، کلبھوشن یادیو کو بھارتی شہری کی طرح ٹریٹ نہیں کرنا چاہیے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا کہ شروع دن سے اس عدالت نے غیر جانبدار اور بڑے قانون دانوں کو عدالتی معاون بنائے ہیں۔ عدالت اگر سمجھتی ہے کہ ایک اور موقع فراہم کیا جائے تو بہتر فیصلہ ہے۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھارت کو کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کا آخری موقع دیتے ہوئے سماعت 13 اپریل تک ملتوی کر دی۔

  • 16سال سے کم عمر  لڑکی کا نکاح کرنا جرم قرار ، عدالت کا ایک اور فیصلہ

    16سال سے کم عمر لڑکی کا نکاح کرنا جرم قرار ، عدالت کا ایک اور فیصلہ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے کم سن بچوں کی شادی سے متعلق فیصلے میں کہا ہے کہ 16 سال سے کم عمر کسی لڑکی کا نکاح کرنا جرم ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قرآن و سنت کی روشنی میں اسلام آباد کے شہریوں کے لئے کم سن بچوں کی شادی کے لئے اسلام آباد ہائیکورٹ کا ایک اور فیصلہ آ گیا۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا ہے کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کے تحت کسی بھی شخص کے لیے جرم ہے، جو 16 سال سے کم عمر کی کسی لڑکی کا نکاح کرتا ہے۔

    عدالت نے فیصلے میں کہا کہ مسلم لڑکی 18 سال کی ہو تو ولی کے بغیر معاہدہ کر سکتی ہے سوئی فقہ کا مطلب ہے 18 سال لڑکی جبکہ حنفی مکتبہ فکر کے مطابق لڑکی عمر 17 سال کو پہنچنے پر نکاح کر سکتی ہے جبکہ ڈی ایف مولا کے مطابق لڑکی 15 سال کی عمر میں نکاح کر سکتی ہے۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ کسی بھی صورت میں کسی شخص کو نکاح کرنے کے لیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اسے نہ صرف بلوغت حاصل کرنا ضروری ہے، بلکہ اس کی جلد بازی بھی ضروری ہے، یعنی ایک ایسا شخص جو معقول فیصلہ کرنے کے لیے کافی بالغ ہو۔

    عدالت نے ہدایت کی کہ وفاقی حکومت اس معاملے پر مداخلت کرے اور قانون سازی کرے، شریعت کے مطابق اگرچہ نکاح کی عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، اس لیے ریاست اس معاملے پر قانون سازی کرنے اور مذکورہ مقاصد کے لیے عمر کا تعین کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے جیسا کہ حکومت سندھ نے کیا ہے۔

    فیصلے کے مطابق لائبہ نور کی عمر متعلقہ وقت پر 16 سال اور 5 ماہ تھی، اس لیے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 1929 کی طرف متوجہ نہیں کیا گیا، تاہم حنفی مکتبہ فکر کے مطابق معاہدہ کرنے کی اہل نہیں ہے اورسپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ولی کی ضرورت لاگو ہو گی۔

    عدالت نے کہا کہ چونکہ نکاح نامہ اور محترمہ کی طرف سے حلف نامہ موجود ہے، لائبہ نور نے سیکشن 164 سی آر پی سی کے تحت اپنے بیان کے برعکس جہاں اس نے جبر کا الزام لگایا ہے،درخواست گزار کے خلاف مزید انکوائری کے لیے ایک کیس بنتا ہے۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ تفتیش مکمل ہو گئی ہے اور درخواست گزار کی مسلسل قید سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو گا،تاہم پولیس حقائق اور حالات کو بھی مدنظر رکھے گی اور سیکشن 498-B PPC کو حقائق اور حالات میں شامل کرنے پر غور کرے گی،

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے مطابق درخواست گزار کو مذکورہ کیس میں گرفتاری کے بعد ضمانت پر توسیع دی جاتی ہے، جس کے تحت 1,00,000/- روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا جبکہ اتنی ہی رقم میں ایک شخصی ضامن بھی ٹرائل کورٹ میں جمع کرائیں۔

    عدالت نے کہا مشاہدات کی روشنی میں قانون میں ترمیم کرنے کے لیے وزارت قانون و داخلہ، حکومت پاکستان کو فیصلے کی کاپی بھیجا جائے،اس بات کا مشاہدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ مشاہدات عارضی نوعیت کے ہیں۔

  • نور مقدم قتل کیس : مجرم کی سزا کے خلاف اپیل پر شوکت مقدم اور وفاق کو نوٹس جاری

    نور مقدم قتل کیس : مجرم کی سزا کے خلاف اپیل پر شوکت مقدم اور وفاق کو نوٹس جاری

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے نور مقدم قتل کیس میں مجرم جان محمد کی سزاکےخلاف اپیل پر شوکت مقدم اور وفاق کو نوٹس جاری کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں نور مقدم کیس میں ٹرائل کورٹ سے دس سال سزا پانے والے مجرم جان محمد کی اپیل پر سماعت ہوئی ، سماعت جسٹس عامر فاروق نے کی۔

    عدالت نے مجرم جان محمد کی سزا کے خلاف درخواست پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، نوٹس شوکت مقدم اور وفاق کو نوٹس جاری کئے گئے اور سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

    گذشتہ روز نور مقدم کیس کے مجرم جان محمد نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی ، جس میں 10سال کی سزا کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

    اپیل میں کہا گیا تھا کہ مجھے قتل کی ایف آئی آر میں بطور ملزم نامزد نہیں کیا گیا تھا لیکن بعد میں ضمنی بیان میں ان کا نام شامل کیا گیا، میں پی ایم سیکرٹریٹ کا ملازم ہوں اور ظاہر جعفر کے گھر پر پارٹ ٹائم باغبانی کا کام کرتا ہوں، اس کیس میں ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے۔

    یاد رہے اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج عطا ربانی نے نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مرکزی ملزم ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی تھی۔

    عدالت نے کیس کے شریک ملزمان کو 10، 10 سال قید کی سزا سنائی تھی ، سزا پانے والا مجرم افتخار چوکیدار اور مجرم جان محمد مالی تھے۔

  • پیکا آرڈیننس سے متعلق ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی درخواستیں مسترد

    پیکا آرڈیننس سے متعلق ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی درخواستیں مسترد

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا آرڈیننس سے متعلق ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی درخواستیں مسترد کردیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے سیاسی جماعتوں کوعدالتوں میں آنےکے بجائے پارلیمنٹ جانا چاہیے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی پیکا آرڈیننس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی ، سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا سیاسی پارٹیوں کوپارلیمنٹ میں جاناچاہیے، عدالت نے پہلے ہی پیکا کیس میں نوٹس جاری کردیاہے، عدالتوں کو پارلیمنٹ کےمعاملات میں جاناہی نہیں چاہیے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کی اپنی اہمیت ہے، سیاسی پارٹی کوعدالت آناہی نہیں چاہیے اور پارلیمنٹ کومضبوط بنانا چاہیے۔

    جس پر وکیل نے کہا ہم عدالت کی معاونت کرناچاہتےہیں تو چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آپ کوعدالت کی معاونت کی ضرورت نہیں ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا سیاسی جماعت عدالت کی بجائےپارلیمنٹ جائے، عدالت مسلم لیگ ن کی درخواست کونہیں سنےگی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے پپکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف مسلم لیگ ن کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردی۔

    دوسری جانب پیپلز پارٹی نےبھی پیکاقانون کواسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا ، پیپلز پارٹی کی درخواست پرآفس اعتراضات کےساتھ چیف جسٹس نےسماعت کی ، عدالت نے پیپلز پارٹی کی درخواست پرآفس اعتراضات برقرار رکھے۔