Tag: اسلام آباد ہائی کورٹ

  • سابق ڈی جی ایف آئی اے کی پنشن روکنے کا نوٹیفکیشن معطل

    سابق ڈی جی ایف آئی اے کی پنشن روکنے کا نوٹیفکیشن معطل

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کی پنشن روکنے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کی پنشن روکنے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے کہا کہ جواب جمع کرنے کے لیے 4 ہفتے چاہئیں جس پر چیف جسٹس استفسار کیا کہ جواب کی ضرورت نہیں، آپ کیسے پنشن روک سکتے ہیں؟ آپ نے کس قانون کے تحت پنشن روکی۔

    نمائندہ اکاؤنٹنٹ جنرل آفس نے عدالت کو بتایا کہ سی ایس آر 420 ون کے تحت پنشن روکی گئی، عدالت نے نمائندہ اکاؤنٹنٹ جنرل آفس کو قانون پڑھنے کا حکم دیا۔

    سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ بشیر میمن نے نوکری سے استعفیٰ دیا تھا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا استعفیٰ دینے پر پابندی ہے؟استعفیٰ منظور کر لیا،دستاویز مکمل ہوگئے تو پنشن کیسے روکی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے اکاؤنٹنٹ جنرل آفس کے افسر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیا آج تک کسی بڑے افسر کی پنشن روکی گئی ہے؟

    چیف جسٹس نے کہا کہ جس قانون کا آپ حوالہ دے رہے اس کے تحت تو پنشن نہیں روک سکتے،آپ کے ساتھ یہ کون ہے کیا یہ آپ کے آفس کے کرتا دھرتا ہے، کیوں ناں ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے بشیر میمن کی پنشن روکنے کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے اکاؤنٹنٹ جنرل آفس کو کیس پر نظرثانی کا حکم دے دیا۔بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 10 دن کے لیے ملتوی کر دی۔

  • نواز شریف کن امراض میں مبتلا ہیں، ڈاکٹر ڈیوڈ کی رپورٹ سامنے آ گئی

    نواز شریف کن امراض میں مبتلا ہیں، ڈاکٹر ڈیوڈ کی رپورٹ سامنے آ گئی

    اسلام آباد: عدالت میں جمع کرائی گئی میاں نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ اے آر وائی نیوز نے حاصل کر لی، نواز شریف نے وکیل کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں طبی بنیاد پر حاضری سے استثنیٰ مانگ لیا۔

    تفصیلات کے مطابق نواز شریف نے طبی بنیاد پر حاضری سے استثنیٰ مانگ لیا، وکیل خواجہ حارث کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر دی، انھوں نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ میں بیماری کے باعث عدالت میں پیش ہونے سے قاصر ہوں۔ درخواست کے ساتھ نواز شریف کی 4 ستمبر کی میڈیکل رپورٹ بھی منسلک کی گئی ہے۔

    یہ میڈیکل رپورٹ نواز شریف کے معالج ڈاکٹر ڈیوڈ آر لارنس نے جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف ہائپر ٹینشن، امراض قلب سمیت دیگر بیماریوں میں مبتلا ہیں، وہ ایڈوانس کورونری آرٹری مرض کا شکار ہیں، میڈیکل تھراپی کے باوجود نواز شریف کلاس ٹو انجائنا لاحق ہے۔

    رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ مریض کی کورونری انجیوگرافی کرائی جائے، جب کہ انجیو گرافی سے متعلق باقی رپورٹس ابھی آنی ہیں، نیز نواز شریف کو ریڈو کرونری آرٹری بائی پاس گرافٹنگ کی ضرورت ہو سکتی ہے، نواز شریف کو انجیو گرافی تک دوائیں جاری رکھنی ہوں گی۔

    توشہ خانہ ریفرنس، نواز شریف اشتہاری قرار ، یوسف رضاگیلانی اورآصف زرداری پرفردِجرم عائد

    جسمانی سرگرمی کے لیے میڈیکل رپورٹ میں ڈاکٹر نے تجویز دی ہے کہ نواز شریف روز کھلی فضا میں واک کریں، ڈاکٹر ڈیوڈ کی تجویز سے نواز شریف کے لندن میں ذاتی معالج بھی متفق ہیں۔

    ڈاکٹر ڈیوڈ نے نواز شریف کو انجیو گرافی تک لندن میں رہنے کا مشورہ بھی دیا ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نواز شریف کرونا وبا کے دوران کوئی سفر نہ کریں، کرونا میں مبتلا ہوئے تو جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

    میڈیکل رپورٹ میں ذہنی مسائل کا بھی ذکر کیا گیا ہے، رپورٹ کے مطابق حالیہ چیک اپ سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ نواز شریف شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، پاکستان جانے اور قید تنہائی سے ذہنی دباؤ بڑھ سکتا ہے، اپنے ساتھی کی جدائی اور قید تنہائی دل کی بیماری کو بڑھا سکتی ہے، خدشہ ہے ذہنی دباؤ سے نواز شریف ایک اور دل کی بیماری کا شکار ہو جائیں۔

    اس میڈیکل سرٹیفکیٹ میں نواز شریف کو دی جانے والی ادویات کا بھی ذکر ہے۔

    واضح رہے کہ آج احتساب عدالت نے توشہ خانہ ریفرنس میں نواز شریف کو اشتہاری قرار دے دیا ہے، دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیا گیا، 7 روز میں نواز شریف کی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد کی تفصیل طلب کی گئی، احتساب عدالت کے جج نے کہا نواز شریف کو اشتہاری قرار دے کر کیس الگ کر رہے ہیں۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست مسترد کردی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست مسترد کردی

    اسلام آباد : اسلام آبادہائیکورٹ نے تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست مسترد کردی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا پالیسی کا معاملہ ہے،عدالت مداخلت نہیں کرتی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں کورونا کی وجہ سے بند تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، وکیل درخواست گزار نے کہا پہلے بھی پٹیشن دائرکی عدالت نےمتعلقہ ادارےسےرجوع کی ہدایت کی، متعلقہ اداروں میں درخواست دی مگرکچھ نہیں ہوا، حکومت تعلیمی ادارے کھولنے کے حوالے سے سنجیدگی نہیں دکھارہی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ عدالت مفروضےپرکوئی حکم جاری نہیں کرسکتی، یہ ہوہی نہیں سکتا مفاد عامہ کا اتنا اہم معاملہ ایگزیکٹو کے مدنظرنہ ہو، یہ ایگزیکٹو کاکام ہے انہیں اپنا کام کرنے دیں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ پالیسی کا معاملہ ہے،عدالت مداخلت نہیں کرتی ، عدالت نے درخواست گزار وکیل کے دلائل کے بعد تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست مسترد کردی ۔

    خیال رہے حکومت نے کورونا کے باعث بند تعلیمی اداروں کو 15 ستمبر سے کھولنے کا اعلان کیا ہے تاہم اسکول کھولنے کا7 ستمبر کو وزارت تعلیم حتمی فیصلہ کرے گی۔

  • العزیزیہ اورایون فیلڈریفرنسز:  اسلام آباد ہائی کورٹ کا نوازشریف کو عدالت میں سرنڈر کرنے کا حکم

    العزیزیہ اورایون فیلڈریفرنسز: اسلام آباد ہائی کورٹ کا نوازشریف کو عدالت میں سرنڈر کرنے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کو عدالت میں سرنڈر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا وہ جس حالت میں بھی ہیں عدالت میں پیش ہوں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف اور نیب کی اپیلوں پر سماعت کی، نواز شریف کی جانب سے خواجہ حارث پیش ہوئے جبکہ مریم نواز اورکیپٹن (ر) بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

    دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے کہا نواز شریف کی لیگل پوزیشن عدالت کو بتائی جائے، وکیل خواجہ حارث نے بتایا نوازشریف کےعلاج کیلئے پاکستان میں کوئی سہولت نہیں، نواز شریف کو بیرون ملک علاج کیلئےایک باراجازت دی گئی تھی، میڈیکل رپورٹ کے مطابق نواز شریف کی طبیعت کافی خراب ہے۔

    عدالت نے استفسار کیا عدالت میں رش ہے کسی کو کورونا ہوگیا توکون ذمہ دارہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا مجھے عدالت میں پہنچنے میں بہت مشکلات ہوئیں، ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی میرٹ پر ضمانت منظور ہوئی، نواز شریف کےواپس نہ آنے کی وجوہات درخواست میں لکھی ہیں۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ اس وقت نواز شریف ضمانت پر ہیں یا نہیں ؟ وکیل نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے نواز شریف کی درخواست ضمانت مسترد کردی، جس پر عدالت نے سوال کیا کیا ضمانت ختم ہونے کے بعد نواز شریف کو سرنڈر نہیں کرنا چاہیے تھا ؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نوازشریف اسوقت سرینڈر کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کیا نواز شریف خود کو سرنڈر کرنا چاہتے ہیں؟ وکیل نے کہا نواز شریف اس وقت بیرون ملک زیرعلاج ہے، عدالت نے نوازشریف کو 8 ہفتے پر مقررہ وقت کی ضمانت دی، ذاتی،حکومتی میڈیکل بورڈ نے بیرون ملک علاج کا کہا تھا، اس عدالت نے صرف طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی۔

    خواجہ حارث نے مزید کہا پنجاب حکومت کومیڈیکل رپورٹ دی مگر توسیع نہیں کی گئی، وفاقی کابینہ سب کمیٹی نے نواز شریف کو باہر جانے کیلئے بانڈز کا کہا تھا، وفاقی کابینہ کے اس فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا، شہبازشریف کی درخواست پر عدالت نے نواز شریف کی ضمانت منظورکی تھی اور لاہورہائیکورٹ نےشیورٹی بانڈز پر کابینہ فیصلہ مسترد کرکے بیان حلفی لیا تھا۔

    جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا عدالت کو بتائیں کہ کیا سزا ختم ہوچکی یا نہیں؟ وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی سزا اپنی جگہ موجود ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا نواز شریف کے جانے کیلئے حلفیہ بیان دیا، پڑھ کر سنایا جائے۔

    دوران سماعت جسٹس عامر فاروق نے کہا پنجاب حکومت کا موقف آ چکا ہے، جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا نواز شریف اسپتال میں زیر علاج ہیں، جس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ جی نہیں اس وقت گھر پر علاج جاری ہے، اسوقت نواز شریف پوزیشن میں نہیں کہ پاکستان واپس آسکیں، وہ اس وقت لندن میں زیر علاج ہیں۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس میں کہا کہ ہائیکورٹ نے جو انڈر ٹیکنگ لی تھی وہ ای سی ایل کیلئےتھی، وکیل خواجہ حارث نے بتایا کوئی وجہ نہیں کہ وہ واپس کیوں نہیں آرہا، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ انڈر ٹیکنگ کا پیرا نمبر 2آپ پڑھیں ، لاہور ہائیکورٹ نےاسی انڈر ٹیکنگ پر4 ہفتوں کیلئے باہر بھیجاتھا، نواز شریف نے پنجاب حکومت یاوفاق کو کوئی نئی رپورٹس جمع کرائیں۔

    وکیل نے کہا نواز شریف کی نئی میڈیکل رپورٹس رجسٹرارلاہور ہائیکورٹ کوجمع کرائی، جس پر جسٹس عامرفاروق نے نواز شریف کے بیرون ملک علاج سےمتعلق ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کووفاقی حکومت نےکچھ کہا ؟ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا وفاقی حکومت نے ابھی تک مجھے کچھ نہیں کہا۔

    جسٹس محسن اختر نے کہا پنجاب حکومت نےجواب دیا ہواتووفاق کوبھی جواب جمع کراناچاہیے تو خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ کورونا کی وجہ سے نوازشریف کے علاج میں تاخیر ہوئی، پنجاب حکومت کو ہم نے کئی بار ضمانت میں توسیع کا کہا ہے۔

    جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ لاہورہائیکورٹ کے فیصلے کا ضمانت یاسزا معطلی سے کوئی تعلق نہیں، ضمانت،سزا معطلی کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے دیا تھا، ہائی کورٹ نےنام ای سی ایل سے نکلنے والی درخواست پرفیصلہ کیا، ہم نے یہاں سزا معطلی،ضمانت کیس کو ریگولیٹ کرنا ہے۔

    جسٹس محسن اختر نے کہا نواز شریف کی صحت سے متعلق عدالت کو مطمئن کریں، کیا نوازشریف نے پنجاب حکومت کے27 فروری کےحکم کو چیلنج کیا، جس پر وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ میں عدالت کو مطمئن کرنے کے لئے تیار ہوں۔

    نواز شریف اور نیب کی اپیلوں پر سماعت میں نیب کے وکیل جہانزیب بھروانا نے دلائل دیتے ہوئے کہا نواز شریف مفرور ہیں، جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ نواز شریف سےمتعلق ساری رپورٹس پرانی ہیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے کہا وفاق نے ابھی تک پتہ نہیں لگایا،ہائی کمیشن سےکوئی دیکھنےنہیں گیا اور خواجہ حارث سے استفسار کیا عدالت کو بتائیں آگے کیا ہوگا ؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ نواز شریف کو اشتہاری قرار دینا بھی میرٹ پر ہوگا، سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق کوئی سرنڈر نہیں ہو رہا تواشتہاری ہوگا۔

    جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ عدالت کو مطمئن کریں عدالت سے اشتہاری ہے یا نہیں؟ اگر آپ دوران سماعت پیش نہیں ہوتے تو سزا ہوسکتی ہے، وکیل خواجہ حارث نے کہا عدالت یہ فیکٹردیکھیں کہ نواز شریف بیمار ہے۔

    جسٹس محسن اختر کیانی نے وکیل نواز شریف سے استفسار کیا کیا آپ نے پنجاب حکومت کے فیصلے کو چیلنج کیا؟ خواجہ حارث نے بتایا کہ پنجاب حکومت نے جب فیصلہ سنایا تو نواز شریف باہر تھے، لاہور ہائیکورٹ آرڈر میں لکھا ہے وفاقی نمائندہ جاکر نواز شریف کودیکھےگا، اب تک وفاق کی جانب سے کوئی بندہ دیکھنے نہیں گیا۔

    وکیل نواز شریف نے کہا نئی میڈیکل فارن آفس سے اٹسٹ کرنے بھیجی گئی ہے، ایک رپورٹ جمع کراچکے دوسری بھی آجائے گی، اس وقت عدالت کوئی حتمی فیصلہ نہ دے۔

    جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے آپ کو ایسا کیوں لگ رہا ہم آج ہی فیصلہ دےرہےہیں، اگر یہ اپیل آپ کےخلاف جاتی ہے پھر کیاہوگا؟ اور اگر ہم آپ کی استدعا منظور نہیں کرتے تو کیا ہوگا؟ وکیل نے کہا کہ فیصلہ ہمارے خلاف جاتا ہے تو وارنٹ آف اریسٹ جاری کیا جائے گا، عدالت اپیل کوصرف میرٹ پر ہی سن کرفیصلہ کرسکتی ہے، پیپر بکس ہمیں نہیں ملی، مگر ایک کیس میں پیپر ورکس مکمل ہے۔

    پراسیکوٹرجنرل نیب جہانزیب بھروانہ کا کہنا تھا کہ یہاں ایک دو اور درخواستیں زیرسماعت ہیں، یہاں ویڈیو ، آڈیو ریکارڈنگ کا بھی کیس زیر سماعت ہے۔

    اسلام آباد:نیب کی جانب سے استثنیٰ کی درخواستوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا کہ استثنیٰ کی درخواستیں قابل سماعت ہے ہی نہیں، حاضری سے استثنیٰ دیاتو نیب آرڈیننس 9بی پراثراندازہوگا، نواز شریف کی کوئی تفصیلی ایفیڈیٹ فراہم نہیں کی گئی، نواز شریف کو اس عدالت کے سامنے سرینڈرکرنا ہے۔

    نیب نے نواز شریف کا وارنٹ گرفتاری جاری کرنے اور نواز شریف کوعدالتی اشتہاری قرار دینے کی استدعا کی، جہانزیب بھروانا نے کہا
    نواز شریف جیل نہیں بیرون ملک ہیں، نواز شریف کو کسی بھی ریلیف سے پہلے سرنڈر ہونا ہوگا، سزا معطلی،ضمانت کا معاملہ لاہور ہائی کورٹ کا ہے ہی نہیں، پنجاب حکومت نے ضمانت میں توسیع کی درخواست مستردکی تھی، پنجاب حکومت کے فیصلے کو آج تک چیلنج نہیں کیا گیا۔

    جسٹس عامر فاروق نے وکیل نواز شریف سے مکالمے میں کہا فرض کریں ہم نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست منظور کرلیں، مرکزی اپیل کا فیصلہ نواز شریف کیخلاف آتا ہے تو پھرکیا ہوگا، درخواست منظور نہ کرکے اشتہاری قرار دیتے ہیں تومرکزی اپیل کا کیا ہوگا تو خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ اس صورت میں مرکزی اپیل کا فیصلہ میرٹ پر ہوگا۔

    اسلام آبادہائی کورٹ نے نوازشریف کو عدالت میں سرنڈر کرنے کاحکم دیتے ہوئے کہا نوازشریف کو عدالت میں پیش ہونے کا موقع دیتے ہیں، وہ جس حالت میں بھی ہیں عدالت میں پیش ہوں۔

    دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز اور محمد صفدر کا کیس نوازشریف سے الگ کردیا، مریم نواز،محمد صفدر کے معاملے کی سماعت23ستمبر کو ہوگی۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف،نیب کی اپیلوں پر سماعت ایک ہفتے کیلئےملتوی کردی۔

    مریم نواز اور کیپٹن صفدرکی پیشی کے موقع پر سیکیورٹی کے لیے اسلام آباد انتظامیہ نےرینجرزکوطلب کیا گیا تھا جبکہ اسلام آباد پولیس کے ایک ہزار اہلکار تعینات تھے اور عدالت جانے والے راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئی تھی جبکہ ہائی کورٹ کے سامنے اور سروس روڈ کو مکمل بند کر دیا گیا تھا ۔

    مزید پڑھیں : نواز شریف کی جان کو شوگر اور پلیٹ لیٹس کے مسئلے کی وجہ سے خطرہ ہے، میڈیکل رپورٹ

    یاد رہے نواز شریف نے حاضری سے استثنیٰ کی 2درخواستیں دائرکررکھی ہیں، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نواز شریف طبی بنیادوں پرعدالت پیش نہیں ہوسکتے ہیں۔

    خیال رہے گذشتہ روز میاں نواز شریف کی 26 جون 2020 کی میڈیکل رپورٹ کی کاپی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی۔

    رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ نواز شریف کی جان کو شوگر اور پلیٹ لیٹس کے مسئلے کی وجہ سے خطرہ ہے، نواز شریف کے پلیٹ لیٹس کبھی اوپر کبھی نیچے ہوتے رہتے ہیں، اگر اس حالت میں ان کا باقاعدہ علاج شروع کیا گیا تو وہ کرونا وائرس انفیکشن میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف کو اگر کرونا ہو گیا تو پھر ان کا بچنا مشکل ہے، اس لیے اس صورت حالت میں ان کا باقاعدہ علاج شروع نہیں کیا جا سکتا۔

    واضح رہے احتساب عدالت نے ایون فیلڈریفرنس 6جولائی 2018 کوقید وجرمانہ کی سزا سنائی تھی، نوازشریف کو 10،مریم صفدر کو7 اور کیپٹن صفدر کو1سال قید کی سزاسنائی گئی تھی جبکہ العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید کی سزا ہوئی تھی۔

    ریفرنس میں سزا معطلی کے بعد نوازشریف، مریم نواز،کیپٹن صفدر ضمانت پرہیں۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا بڑا فیصلہ،  معروف گیم ‘پب جی’ پر پابندی ختم

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا بڑا فیصلہ، معروف گیم ‘پب جی’ پر پابندی ختم

    اسلام آباد : اسلام آبادہائی کورٹ نے مقبول ترین آن لائن گیم پب جی گیم پر پابندی ہٹا دی اور کہا پی ٹی اے پب جی گیم کے حوالے سے ایک ہفتے میں فیصلہ کرے، پی ٹی اے کی جانب سے پب جی گیم کو بند کیاگیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آبادہائی کورٹ نے مقبول ترین آن لائن گیم پب جی پر پابندی کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سنادیا ، فیصلے میں عدالت نے پب جی گیم پر سے پابندی ہٹا دی۔

    فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج پب جی گیم کو مشروط طور پر بحال کیا ہے، پی ٹی اے پب جی گیم کے حوالے سے ایک ہفتے میں فیصلہ کرے۔

    کمپنی کے وکیل نے پب جی گیم پر پابندی ہٹانے کی درخواست دی تھی، درخواست پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور کہا تھا پی ٹی اے کو وضاحت دینی ہے کہ یہ گیم کس طرح خود کشی کا باعث بن رہا ہے اور عدالت کو دیکھنا ہے کہ معطلی کے احکامات میں قانونی طریقہ کار پر عمل ہوا ہے یا نہیں۔

    درخواست گزار کمپنی کے وکیل نے کہا تھا کہ پی ٹی اے نے گیم کی بندش شے متعلق کمپنی کو کوئی نوٹس جاری نہیں کیا اور نہ ہی اس نے معطلی سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔

    مزید پڑھیں : پب جی پر پابندی برقرار رہے گی، پی ٹی اے کا اعلان

    یاد رہے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ آن لائن گیم ’پلیئرز ان نان بیٹل گراؤنڈ (پب جی) پر پابندی برقرار رہے گی، لاہور ہائی کورٹ کی ہدایت پر 9 جولائی کو پی ٹی اے میں ہونے والی تفصیلی سماعت میں گیم کی بندش کا فیصلہ کیا گیا۔

    اعلامیے کے مطابق پی ٹی اے نے پب جی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ وہ گیم کے سیزنز، پاکستانی صارفین کا ڈیٹا اور کمپنی کے کنٹرولز کے حوالے سے معلومات فراہم کرے۔ پاکستان کی درخواست پر پب جی انتظامیہ نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا۔

    واضح رہے تین نوجوانوں‌ کی خودکشی کے بعد پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے یکم جولائی کو ملک بھر میں موبائل پر کھیلے جانے والے گیم پب جی پر عارضی پابندی عائد کی تھی۔

  • چینی انکوائری کمیشن کیس: شوگر ملز کے خلاف کارروائی کی اجازت

    چینی انکوائری کمیشن کیس: شوگر ملز کے خلاف کارروائی کی اجازت

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے چینی انکوائری رپورٹ پر حکم امتناع ختم کرتے ہوئے حکومت کو شوگر ملز کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے شوگر ملز مالکان کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے حکم امتناع بھی ختم کر دیا۔عدالت نے مختصر فیصلے میں شوگر انکوائری رپورٹ پر متعلقہ اداروں کو کارروائی کی بھی اجازت دے دی ہے۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے 4 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔کیس پرتفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائےگا۔

    قبل ازیں چینی انکوائری کمیشن کیس میں ملز مالکان کی درخواست پر سماعت کے دوران اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان نے دلائل کے دوران پانامہ کیس اور جعلی اکاؤنٹ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت نے پاناما کیس اور جعلی بنک اکاؤنٹس کیس میں جی آئی ٹی تشکیل دی جس میں مختلف اداروں کے افسران کو شامل کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ وجہ تھی کہ شوگر انکوائری کمیشن میں حکومت نے تحقیقات کے لیے مختلف اداروں کے افسران شامل کیے، یہ کہنا غلط ہو گا کہ انکوائری کمیشن سیاسی مخالفین سے انتقام کے لیے بنایا گیا۔

    خالد جاوید خان کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ انکوائری تو حکومت کے اپنے مضبوط اتحادیوں اور دوستوں کےخلاف بھی ہو رہی ہے، اپنے دوستوں اور اتحادیوں کےخلاف کارروائی کے لیے بڑی جرات اور عزم چاہیے، دوستوں اور اتحادیوں کے خلاف بھی کارروائی ثبوت ہے کہ یہ کسی تعصب پر مبنی کارروائی نہیں ہے۔

    عدالت میں سماعت کے دوران ان کا کہنا تھا کہ کہا کہ کہا گیا کہ آگے چل کر اس رپورٹ کا غلط استعمال ہو گا، مستقبل کے کسی مفروضے پر آج تحقیقات روکی نہیں جا سکتیں، بغیر کسی دلیل کے کہا گیا کہ انکوائری کمیشن تعصب پر مبنی ہے، انکوائری کمیشن کے کسی ممبر پر بزنس مفادات، سیاسی وابستگی کا الزام نہیں ہے۔

    اٹارنی جنرل پاکستان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے ممبران قابل افسران اور کسی بھی حکومت کا پریشر نہ لینے والے ہیں، انکوائری کمیشن کا ٹاسک فیکٹ فائنڈنگ کے بعد اپنی سفارشات دینا تھا، انکوائری کمیشن نے اپنی دو طرح کی سفارشات دیں، انکوائری کمیشن نے فوری نوعیت کی کارروائی کے علاوہ طویل مدتی اقدامات کی بھی سفارش کی۔

    انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انکوائری کا مقصد جب کسی بدنیتی سے زاتی فائدہ لینا ہے ہی نہیں تو تعصب کیسا؟ آئین کا آرٹیکل نو ہر شہری کو زندگی کا بنیادی حق دیتا ہے، شہری کو زندگی کا تحفظ فراہم کرنے سے مراد اس کی خوراک کی ضروریات پوری کرنا بھی ہے، شہریوں کو زندگی کا یہ حق مہیا کرنا صرف صوبائی نہیں، وفاقی حکومت کا بھی کام ہے، چینی بحران کے اصل محرکات اور ذمہ داروں کا تعین بھی اسی جذبے کے تحت کیا جا رہا ہے۔

    خالد جاوید خان کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت شوگر انکوائری پر خود کوئی “پِک اینڈ چُوز” نہیں کرنا چاہتی، حکومت نے اسی لیے معاملہ متعلقہ اداروں کو بھیج دیا ہے، نیب، ایف بی آر ، ایس ای سی پی آزادانہ طور پر اس معاملے کو دیکھیں گے، ادارے اپنے قانون کے مطابق دیکھیں گے کس کے خلاف کیا کارروائی بنتی ہے۔

    شوگر ملز ایسوسی ایشن کے وکیل نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے شوگر ملز مالکان کو مافیا تک کہا جا رہا ہے، جو لوگ پہلے سے اپنی سوچ کا اظہار کرچکے انہیں کارروائی جاری رکھنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے، جن اداروں کے لوگ خود انکوئری کمیشن میں بیٹھ کر رپورٹ لکھ چکے وہ اب تحقیقات کریں گے،اگر تعصب پر مبنی اس کارروائی پر ٹرائل ہو جائے تو نا انصافی ہو گی۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ چینی رپورٹ میں موجودہ حکومت کے ذمہ داران کو بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا، ملز مالکان تو فائدہ لینے والے ہیں، اصل مسئلہ تو عوامی عہدہ رکھنے والوں کو ہونا چاہیے،ذمہ دار قرار دیے گئے کسی حکومتی رکن نے چینی رپورٹ کو چیلنج نہیں کیا؟

    شوگر ملز مالکان کے وکیل کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ کابینہ کا الگ اور معاون خصوصی کا الگ فیصلہ ہوا،شہزاد اکبر کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد کرائیں گے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کابینہ اپنے اختیارات کسی اور کو دے سکتی ہے؟ عدالت نے مسابقتی کمیشن کیس کے فیصلے میں کہا ہے کہ کابینہ اپنا اختیار کسی کو نہیں دے سکتی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں حکومت کو ایڈوائس دیتا ہوں کہ وہ اس پر نظرثانی کرے۔

  • ملک بھر میں تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست مسترد

    ملک بھر میں تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست مسترد

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ملک بھر میں تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست مسترد کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ملک بھر کے تعلیمی ادارے کھولنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ پرائیوٹ اسکولوں سے منسلک لوگوں کی نوکریاں ختم ہو رہی ہیں۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران استفسار کیا کہ کیا باقی ممالک میں اسکول کھولے گئے؟ ترقی یافتہ ممالک میں بھی اسکول نہیں کھلے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کرونا وبا کے ساتھ کیسے نمٹنا ہے یہ حکومت کا کام ہے، ہم نے تو عدالتیں بھی حکومتی پالیسی کو مدنظر رکھ کر کھولی ہیں، عدالت اس حوالے سے مداخلت نہیں کرے گی، یہ ایگزیکٹو کا کام ہے اور وہی اس کو دیکھے۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے تعلیمی ادارے کھولنے کی درخواست مسترد کرتے کر دی۔

  • کرونا وائرس،  اسلام آباد ہائی کورٹ کا اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی رہائی سے متعلق بڑا حکم

    کرونا وائرس، اسلام آباد ہائی کورٹ کا اڈیالہ جیل میں قیدیوں کی رہائی سے متعلق بڑا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے: کرونا وائرس کے باعث  اڈیالہ جیل میں معمولی جرائم والے قیدیوں کو ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دے دیا اور کہا  ڈپٹی کمشنر ایک افسر مقرر کریں، جو ضمانتی مچلکوں کے معاملات دیکھے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 10 سال سےکم سزاکےانڈرٹرائل قیدیوں کی ضمانت پررہائی کی درخواست پر سماعت کی۔

    عدالتی حکم پرڈپٹی ڈی آئی جی وقاراحمد اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے پیش ہوئے، رپورٹ میں بتایا گیا اڈیالہ جیل میں 2174 قیدیوں کی گنجائش موجود ہے، اڈیالہ جیل میں اس وقت 5001 قیدی موجودہیں ، جس میں سے 1362قیدیوں کےعدالتوں میں ٹرائل زیرالتوا ہیں۔

    ڈی سی اسلام آباد حمزہ شفقات نے عدالت کو بتایا کہ اڈیالہ جیل میں کسی قیدی کو کرونا وائرس کی تشخیص نہیں ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ چین میں کرونا وائرس اس وقت پھیلا جب قیدیوں میں ہوا، جب غیر ضروری گرفتاریاں ہوتی ہیں تب بھی جیل کی گنجائش کم ہوتی ہے۔

    چیف جسٹس نے کہا جیل میں صفائی ستھرائی کا بھی برا حال ہے، خدانخواستہ کسی قیدی کو ہو گیا تو پھر قابو نہیں آئے گا، جو بھی جیل قید میں جائے گا اس کی مکمل اسکریننگ ہو گی، کیونکہ اگر ایک بھی جیل کے اندر چلا گیا تو جیل میں موجود قیدیوں کو متاثر کر سکتا ہے، جو قیدی جیل سے باہر آئے گا اس کی بھی مستقل اسکریننگ ہو گی۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ایران نے تو جیلوں سے سارے قیدی نکال دئیے ہیں ، کرونا وائرس کے پیش نظر عدالت قبل از وقت اقدامات اٹھا رہی ہے۔ یہ ایمرجنسی کی صورتحال ہے، جو چین نے کیا ہے وہ ایک مثال ہے۔

    عدالت نے کہا کروناکےپیش نظرکیوں نہ انڈرٹرائل قیدیوں کورہاکردیاجائے، ایسے قیدی جو بغیر سزا جیل میں ہیں انہیں ضمانت پرکیوں نہ رہاکردیاجائے، ڈی سی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ جیلوں کےلئےکیاپالیسی ہے، جیلوں سےملاقاتیوں کوفاصلےسےملاقات کرائی جارہی ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا حدسے زیادہ قیدی جیل میں موجودہیں، قیدیوں کےلئےسپریم کورٹ کی ججمنٹ موجود ہے، متعلقہ ایس ایچ اوکی یقین دہانی پرقیدیوں کورہاکیاجائے، اگرقیدمیں کوئی ایچ آئی وی ایڈزمیں مبتلاہےتواسےبھی رہاکیاجائے ، کسی قیدی کی کم سزارہ گئی ہے توپےرول پررہاکیاجائے۔

    ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی نے عدالت سے رہنمائی مانگی کہ اگر کسی ملزم کی ضمانت کی درخواست پہلے مسترد ہو چکی تو اس کا کیا ہو گا اور کیا نیب کیسز میں گرفتار ملزمان بھی ضمانت پر رہا ہوں گے؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جو افراد گرفتاری کے بعد ابھی جیل نہیں گئے انہیں تھانے کے حوالات سے ہی قانونی کارروائی کر کے رہا کیا جائے، یہ معاملہ صوبائی حکومت نے دیکھنا ہے۔

    عدالت نے معمولی جرائم والے قیدیوں کو ضمانتی مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ ڈپٹی کمشنر ایک افسر نامزد کریں جن کی تسلی کے بعد ملزموں کو ضمانت پر رہا کیا جائے اور جو قیدی مچلکے جمع نہیں کرا سکتے حکومت کو ان قیدیوں کے مچلکے خود دینا پڑیں تو دے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے آخر میں کہا کہ اس کیس میں ججمنٹ دونگا تاکہ اس ججمنٹ کے تحت قیدیوں کی رہائی ممکن ہو۔

    گذشتہ روز اسلام آبادہائیکورٹ میں 1362 قیدیوں کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر سماعت میں چیف جسٹس نےڈی سی،ڈپٹی آئی جی پولیس،سیکرٹری ہیلتھ اور ڈی جی ہیلتھ کو بھی طلب کیا تھا۔

  • شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی ضمانت منظور

    شاہد خاقان عباسی اور احسن اقبال کی ضمانت منظور

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی اور سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کی ضمانت منظور کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال کے خلاف نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ مقدمہ ثابت ہونے تک ملزم بے گناہ ہوتا ہے، شہری کا حق آزادی اور عزت نفس مجروع ہونے سے بچانا بھی ضروری ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ نیب کو ملزم کی گرفتاری کا اختیار اسے آئینی حقوق سے محروم نہیں کرسکتا۔ ایڈیشنل پراسیکیوٹر نیب نے احسن اقبال کی درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کے بیرون ملک فرار ہونے کا خدشہ ہے۔

    ایڈیشنل پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر احسن اقبال اپنا پاسپورٹ عدالت میں جمع کرائیں تو ضمانت پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔عدالت نے احسن اقبال کی ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔

    بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے ایل این جی کیس میں شاہد خاقان عباسی کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ایل این جی کیس میں پیپرا رولز کا تو اطلاق ہی نہیں ہوتا، اس میں تو پبلک فنڈ کا استعمال ہی نہیں ہوتا اس میں تو پبلک فنڈ کا استعمال ہی نہیں ہوا، گرانٹ استعمال ہوئی، ایک معاملے میں پبلک فنڈز کا استعمال ہی نہیں ہوا تو آپ کا کیس کیا ہے؟

    ایڈیشنل نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ تمام پراسیس کیا جس میں اوگرا کو بھی شامل نہیں کیا گیا، شاہد خاقان عباسی نے ایل این جی ٹرمینل کی تعمیر کے منصوبے میں اختیارات کا غلط استعمال کیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب پراسیکیوٹر کے دلائل سننے کے بعد سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی بھی ایل این جی کیس میں ضمانت منظور کر لی۔ عدالت نے شاہد خاقان عباسی کو بھی ایک کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

  • تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد ، حکومت سے 2 ہفتے میں جواب طلب

    تعلیمی اداروں میں بچوں پر تشدد ، حکومت سے 2 ہفتے میں جواب طلب

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کی درخواست پر سیکرٹریز داخلہ، قانون، تعلیم، انسانی حقوق اورآئی جی پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے زندگی ٹرسٹ کے صدر معروف گلوکار شہزاد رائے کی درخواست پر سماعت ہوئی ، سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کی۔

    شہزاد رائے اپنے وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے ، وکیل نے کہا تعلیمی اداروں میں بچوں کو سزا دینا معمول بن چکا ہے، پڑھائی میں بہتری کے لئے بچوں کو سزا کو ضروری تصور کیا جاتا ہے، بچوں پر تشدد اور سزا کی خبریں آئے روز میڈیا میں آرہی ہیں۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے پاکستان 182 ممالک میں سے 154 پوزیشن پر ہے، عدالت یو این کنونشن کے تحت بچوں کے تحفظ کے قوانین پر عمل درآمد کا حکم دے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے شہزاد رائے کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ویلکم کیا، جس پر شہزاد رائے نے کہا آپ کا شکر گزار ہوں، جج صاحب آپ نے مجھے ویلکم کیا۔

    وکیل نے کہا بچوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے فوری حکم امتناع جاری کیا جائے اور اسلام آباد کی حد تک بچوں پرتشدد پر پابندی عائد کردیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا قومی اسمبلی نے بل بھی پاس کیا ہے، یہ درخواست عوامی دلچسپی کی ہے، نوٹس جاری کررہاہوں اس کے بعد معاملے کو دیکھتے ہیں۔

    عدالت نے سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری قانون، سیکرٹری تعلیم، سیکرٹری انسانی حقوق اور آئی جی پولیس کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔

    بعد ازاں عدالت نے بچوں پر تشدد اور جسمانی سزا پر پابندی کے لیے درخواست پر سماعت 5 مارچ تک کے لئے ملتوی کر دی۔