Tag: اسلام آباد ہائی کورٹ

  • ہلال احمر کے چیئرمین کی تعیناتی کے خلاف رٹ قابل سماعت نہیں، وکیل ابرار الحق

    ہلال احمر کے چیئرمین کی تعیناتی کے خلاف رٹ قابل سماعت نہیں، وکیل ابرار الحق

    اسلام آباد: ابرارالحق کے وکیل کا کہنا ہے کہ ہلال احمر ایک فلاحی ادارہ ہے، ہلال احمر کے چیئرمین کی تعیناتی کے خلاف رٹ قابل سماعت نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ابرارالحق کی بطور چیئرمین ہلال احمر تعیناتی کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت کی۔ ابرار الحق اپنے وکیل کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔

    ابرارالحق کے وکیل کا کہنا ہے کہ ہلال احمر ایک فلاحی ادارہ ہے، ہلال احمر کے چیئرمین کی تعیناتی کے خلاف رٹ قابل سماعت نہیں ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ قانون موجود ہے اس کی کوئی خلاف ورزی نہیں کرسکتا، ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ آئندہ سماعت تک ابرار الحق کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطل رہے گا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاق کو جواب دینے کے لیے جمعرات تک مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔

    یاد رہے کہ 18 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماجی کارکن اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ابرارالحق کی بطور چیئرمین ہلال احمر کی تعیناتی کا حکم معطل کر دیا تھا۔

    عدالت نے سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور سے استفسار کیا تھا کہ قانون بتائیں کہ کیا یہ تعیناتی خاص مدت کی تقرری ہوتی ہے۔

  • علیم خان کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ڈی اے سے جواب طلب کرلیا

    علیم خان کیس: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سی ڈی اے سے جواب طلب کرلیا

    اسلام آباد: عدالت نے تحریک انصاف کے رہنما علیم خان کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف مبینہ قبضہ کیس میں آئندہ جمعے تک سی ڈی اے سے جواب طلب کرتے ہوئے متنازع اراضی کے استعمال کو تاحکم ثانی روک دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے علیم خان کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے خلاف مبینہ قبضے کے کیس کی سماعت کی۔ چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیئرمین سی ڈی اے نے عدالت سے استدعا کی کہ زمین ایکوائر کرنے اور این او سی کا معاملہ دیکھنے کے لیے کچھ وقت دیں جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا حاصل اراضی نجی شخص کو کیوں اور کس نے دی؟

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم نے کہا کہ قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے، بابراعوان نے کہا کہ کام موجودہ وزیراعظم کے دورمیں ہوا تو وکالت نامہ واپس لیتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کام جس کے دورمیں بھی ہوا لیکن ٹھیک نہیں ہوا۔

    بابر اعوان نے کہا کہ مجھے سن لیں میں متاثرہ فریق ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس ملک کے لوگ اس معاملے میں سب سے زیادہ متاثرہ ہیں، شفاف ٹرائل ہر کسی کے لیے ضروری ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیس وزیراعظم کو بھیج کرسیکرٹری سے رپورٹ طلب کر لیتے ہیں جس پر بابر اعوان نے کہا کہ آپ کیس وزیراعظم کو نہ بھیجیں خود فیصلہ کریں۔

    بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئندہ جمعے تک سی ڈی اے سے جواب طلب کرتے ہوئے متنازع اراضی کے استعمال کو تاحکم ثانی روک دیا۔

  • مفتاح اسماعیل کی ضمانت کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری

    مفتاح اسماعیل کی ضمانت کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایل این جی اسکینڈل کیس میں گرفتار مفتاح اسماعیل کی ضمانت کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 10 دسمبر تک جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔ مفتاح اسماعیل کی جانب سے ایڈوکیٹ حیدر وحید عدالت میں پیش ہوئے۔

    وکیل مفتاح اسماعیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایل این جی کیس کے حتمی فیصلے تک ضمانت منظور کی جائے۔ مفتاح اسماعیل نے ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔ سابق وزیرخزانہ اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایل این جی اسکینڈل کیس میں گرفتار مفتاح اسماعیل کی ضمانت کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 10 دسمبر تک جواب طلب کرلیا۔

    مفتاح اسماعیل نے ضمانت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا

    یاد رہے کہ ایل این جی کیس میں سابق وزیراعظم اور سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔ قومی احتساب بیورو نے سابق وزیراعظم کو جولائی 2019 اور مفتاح اسماعیل کو 7 اگست کو گرفتار کیا تھا۔

    مسلم لیگ ن کے سابق دور حکومت میں اس وقت کے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے قطر کے ساتھ ایل این جی درآمد کرنے کا معاہدہ کیا تھا سابق وزیر پر الزام ہے کہ انہوں نے ایل این جی کی درآمد اور تقسیم کا 220 ارب روپے کا ٹھیکہ دیا جس میں وہ خود حصہ دار ہیں۔

  • عدالت کا وزارت داخلہ کو ٹرین حادثے کی رپورٹ جمع کرانے کا حکم

    عدالت کا وزارت داخلہ کو ٹرین حادثے کی رپورٹ جمع کرانے کا حکم

    اسلام آباد: تیزگام ریلوے حادثے کی آزادانہ انکوائری کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران عدالت نے وزارت داخلہ کو ٹرین حادثے کی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس محسن اختر کیانی نے تیزگام ریلوے حادثے کی آزادانہ انکوائری کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔

    ریاض حنیف راہی ایڈووکیٹ نے دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تیزگام حادثے میں لوگوں کی جانیں گئی ہیں، حادثے کے شواہد کو ختم کیا جا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شیخ رشید نے کہا تبلیغی جماعت کے سلنڈر سے آگ لگی، ریلوے بوگی میں آگ بزنس کلاس میں لگی، ریلوے تھانے میں ایف آئی آر درج ہوئی، شفاف تحقیقات کیسے ہوگی۔

    ریاض حنیف راہی ایڈووکیٹ نے کہا کہ کوئی ایک دو نہیں بلکہ ہرآئے دن ریلوے حادثات ہو رہے ہیں، تیزگام کے متاثرین کو ابھی تک حادثے کا معاوضہ ادا نہیں کیا گیا

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ کو ٹرین حادثے کی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔

    لیاقت پور: تیزگام کی 3 بوگیوں میں آگ لگ گئی، 74 افراد جاں بحق

    یاد رہے کہ 31 اکتوبر کو کراچی سے راولپنڈی جانے والی تیز گام ایکسپریس میں پنجاب کے علاقے لیاقت پور کے قریب گیس سلینڈر پھٹنے سے آتشزدگی کے باعث 74 افراد جاں بحق اور متعدد مسافر زخمی ہوگئے تھے۔

    تیزگام ایکسپریس کو حادثہ صبح چھ بجکر پندرہ منٹ پر پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور میں چنی گوٹھ کے نزدیک چک نمبر 6 کے تانوری اسٹیشن پر پیش آیا تھا۔

  • عدالت نے عرفان صدیقی کو مقدمے سے بری کردیا

    عدالت نے عرفان صدیقی کو مقدمے سے بری کردیا

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے مشیر عرفان صدیقی کو مقدمے سے بری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد پولیس نے عرفان صدیقی کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ جسٹس عامرفاروق نے پولیس رپورٹ کے بعد مقدمہ اخراج کی درخواست نمٹا دی۔

    عرفان صدیقی کے وکیل نے کہا کہ انتظامیہ کے خلاف کارروائی کی بھی ہدایت کی جائے جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ یہ آپ کا حق ہے، آپ الگ سے درخواست کرسکتے ہیں۔ وکیل صفائی نے کہا کہ عدالت اگر انتظامیہ کے ایکٹ کے حوالے سے اپنے فیصلے میں لکھ دے تو بہتر ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس ڈسچارج رپورٹ کے بعد عرفان صدیقی کی درخواست نمٹا دی۔

    سابق وزیراعظم کے مشیرعرفان صدیقی نے کہا کہ عدالت میں بریت کی درخواست دائر کر رکھی تھی، انتظامیہ نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ بے معنی ایکسرسائز ہے،عدالت نے درخواست نمٹاتے ہوئے مجھے مقدمے سے بری کر دیا۔

    عرفان صدیقی کے مطابق جج صاحب نے کہا آپ کی حق تلفی ہوئی ہے تو آئینی وقانونی حق استعمال کریں، وکلا سے مشاورت کی جا رہی ہے، 2 الگ الگ کیسز تیار کر رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ دوران سماعت بہت سی نئی چیزیں سامنے آئی ہیں، ایک کیس حق تلفی، دوسرا جعل سازی کا دائر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جعلی نوٹیفکیشن اور آرڈر کر کے میرے بنیادی حقوق سلب کیے گئے، مجھے جیل میں ڈال کر ہتھکڑی لگا کر آج کہہ دیا اس کا کوئی قصور نہیں ہے۔ سابق وزیراعظم کے مشیر نے کہا کہ مقدمے کو منطقی انجام تک جانا چاہیے۔

    یاد رہے کہ 30 جولائی کو اسلام آباد پولیس نے سابق وزیراعظم کے مشیر عرفان صدیقی کو کرایہ داری ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر گرفتار کیا تھا۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ میں نوازشریف کی اپیل سماعت کے لیے مقرر

    اسلام آباد ہائی کورٹ میں نوازشریف کی اپیل سماعت کے لیے مقرر

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ کیس میں سزا معطلی کے لیے سابق وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے دائر کی گئی اپیل 25 ستمبر کو سماعت کے لیے مقرر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی اپیل 25 نومبرکو سماعت کے لیے مقرر کردی۔ ڈویژن بینج پر مشتمل جسٹس عامر فاروق، جسٹس محسن اختر کیانی اپیل کی سماعت کریں گے۔

    نیب کی اپیل نمبر دو 2019 بھی 25 نومبرکوسماعت کے لیے مقرر ہے جس میں نیب نے نوازشریف کی سزا 7 سے بڑھا کر 14 سال کرنے کی اپیل کی ہے۔ قومی احتساب بیور کی ایک اور اپیل نمبر تین 2019 بھی 25 نومبرکو سماعت کے لیے مقرر ہے، نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کی بریت کے خلاف درخواست دائر کر رکھی ہے۔

    العزیزیہ ریفرنس : نواز شریف کی ضمانت منظور

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیاد پر ضمانت منظور کی تھی اور العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا 8 ہفتے کے لیے معطل کردی تھی اور 20لاکھ روپے مچلکے جمع کرانے کاحکم دیا تھا۔

    سماعت میں نواز شریف کے میڈیکل بورڈ کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی تھی ، ڈاکٹرزکی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ نواز شریف کو دل اورگردوں کا عارضہ ہے اور ان کو پلیٹ لیٹس کا مسئلہ ہے، ہماری کوشش ہے نوازشریف کی بیماریوں کا علاج کریں۔

    دوسری جانب 25 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں نوازشریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے کہ احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018 کو سابق وزیراعظم نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔

  • ڈیل سے متعلق بیان ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر غلام سرور کو طلب کرلیا

    ڈیل سے متعلق بیان ، اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر غلام سرور کو طلب کرلیا

    اسلام آباد : ڈیل سے متعلق بیان دینے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر غلام سرور خان کو طلب کرتے ہوئے 4صفحات پرمشتمل حکم نامہ جاری کردیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈیل سے متعلق بیان دینے پر وفاقی وزیر غلام سرور خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، سماعت میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاقی وزیر غلام سرور خان کو طلب کرلیا اور کہا غلام سرور خان 14 نومبر کو ہائیکورٹ میں پیش ہوں ، بتائیں کیوں نہ ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے چار صفحات پر مشتمل حکم نامہ بھی جاری کیا ، جس میں کہا گیا غلام سرور نے میڈیکل رپورٹ کی جوڑ توڑ کے حوالے سے گفتگوکی، غلام سرورنے بیان دیا نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ جعلی ہے، وزیر نے تاثر دیا جعلی رپورٹ پیش کرکے عدالت کو گمراہ کیا گیا۔

    تحریری حکم نامہ میں کہا گیا کہ میڈیکل بورڈ حکومت نے تشکیل دیا تھا، وزرا کے بیانات عدالتوں پر اثر انداز اور اعتماد ختم کرنے کی کوشش ہے، رکن کابینہ نے عدالت پر الزام لگایا ہے۔

    مزید پڑھیں : توہین عدالت کیس : وفاقی وزیر غلام سرورخان اور پیمرا کو نوٹس جاری

    ہائی کورٹ کے حکم نامے کے مطابق معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان کابھی معاملہ زیرسماعت ہے، وزرا کا مبینہ ڈیل کا تاثر دینا خود حکومت کے لیے فرد جرم ہے۔

    اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں حکومت اور مسلم لیگ ن کے درمیان ڈیل سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی تھی ، جس میں عدالت نے وفاقی وزیر غلام سرور خان اور پیمرا کو بھی نوٹس جاری کیا تھا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس میں کہا تھا اگر ڈیل ہوئی ہےتو حکومت کو فیصلہ کرنے دیں، یہ حساس معاملہ ہے، کابینہ کے رکن اس طرح بیان دے؟سمجھ نہیں آتا، فردوس عاشق کا توہین عدالت کیس غلام سرور کیس کے ساتھ سنا جائے گا۔

  • اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست مسترد

    اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست مسترد

    اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی کابینہ نے اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست مسترد کر دی۔ وزارت داخلہ کے ڈپٹی سیکرٹری نے کاپی اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کر دی۔

    نمائندہ وزارت دفاع نے بتایا کہ اسد درانی کے خلاف 2 اور انکوائریز شروع کی ہیں، 2 ہفتےمیں اسد درانی سےجواب طلب کیا ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ 2 ہفتےمیں انکوائری شروع کر کے ان کو نوٹس بھی کرلیں، اسد درانی کو بار بارعدالت کے چکر نہ لگانے پڑیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے درخواست نمٹا دی۔

    یاد رہے کہ رواں سال مئی میں وزارت داخلہ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔ ملٹری انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ کی سفارش پر یہ اہم ترین اقدام عمل میں‌ آیا۔

    لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی اگست 1990 سے مارچ 1992 تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے ہیں۔ انہوں نے سابق را چیف اے ایس دلت کے ساتھ مل کر کتاب ’دی اسپائے کرونیکلز: را، آئی ایس آئی اینڈ دی الوژن آف پیس‘ لکھی ہے۔ اس کتاب پر پاکستان کے سیاسی وعسکری حلقوں‌ کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی ضمانت منظور کر لی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی ضمانت منظور کر لی

    اسلام آباد: ہائی کورٹ نے العزیزیہ کیس میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کر لی، عدالت کا کہنا ہے کہ انسانی بنیادوں پر منگل تک سزا معطلی اور درخواست ضمانت منظور کی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی طبیعت کےپیش نظر ان کی العزیزیہ ریفرنس میں درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، ہائی کورٹ نے دو رکنی بینچ چیف جسٹس اطہرمن اللہ اورجسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔

    کیس میں نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ کی کاپی بھی منسلک کردی گئی ، میڈیکل رپورٹ کےمطابق نوازشریف زندگی اورموت کی کشمکش میں ہیں اور حالیہ میڈیکل رپورٹ میں نوازشریف کودل کےدودےکی علامت ظاہرہوئی ہے۔

    اسلام آبادہائی کورٹ میں نوازشریف کی ضمانت کے لیے درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو خواجہ حارث کے معاون وکیل خواجہ عدنان نے درخواست ضمانت پر دلائل دینے پیش ہوئے ، جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کل بھی آپ آئےتھے،آج کونسی جلدی ہے۔

    وکیل خواجہ عدنان نے بتایا نوازشریف کی میڈیکل رپورٹ لاہورہائی کورٹ میں بھی جمع کرائی تھی، انھیں معمولی ہارٹ اٹیک ہواہے، چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا قیدیوں سےمتعلق حکومت نےفیصلہ کرنا ہے۔

    عدالت نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار ،چیئرمین نیب اور رجسٹراراسلام آباد ہائی کورٹ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چیئرمین نیب سے نواز شریف کے مقدمات اور صحت کی صورتحال پر تفصیل طلب کرلی اور کہا بتایا جائے نواز شریف کو جیل اور اسپتال میں کونسی سہولیات میسر کی گئیں۔

    عدالت نے نواز شریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت پر سماعت4 بجے تک ملتوی کردی۔

    5 ٹی وی اینکرز کو توہین عدالت کا نوٹس جاری


    دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے 5 ٹی وی اینکرز کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے 4بجے تک جواب طلب کرلیا اور ٹاک شو میں تضحیک آمیز گفتگو اور ڈیل کی خبریں چلانے پر چیئرمین پیمرا کو بھی نوٹس جاری کردیا۔

    عدالت نے کہا اینکر پرسن عدالت کو مطمئن کریں کہ ڈیل کہاں ہوئی ہے، عدالت کےسامنےاپنی پوزیشن واضح کریں، میڈیا کو بھی اپنی ذمے داری کا احساس ہونا چاہیے، عدالت کانام لےکرڈیل کی خبریں چلانااچھی بات نہیں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عدالت میں زیر سماعت معاملے کو زیر بحث کیوں لایا گیا، حکم ہے زیرالتوا معاملے کو زیر بحث نہ لایا جائے تو پھر کیوں لایا گیا؟

    اسلام آباد ہائی کورٹ رجسٹرار نے عدالتی ہدایت سے متعلق فریقین کوآگاہ کردیا


    اسلام آباد ہائی کورٹ رجسٹرار نے عدالتی ہدایت سے متعلق فریقین کوآگاہ کردیا، چیف سیکرٹری پنجاب، اے جی آفس، نیب پراسیکیوٹر جنرل کوبذریعہ فون آگاہی دی جبکہ 5اینکرپرسنز کو بھی عدالتی حکم سے بذریعہ فون آگاہ کیا گیا۔

    عدالت نےوزیراعظم،وزیراعلیٰ پنجاب اور چیئرمین نیب کو نمائندہ مقررکرکےپیش ہونےکاحکم دیا اور کہا تمام نمائندگان عدالت کوبتائیں وہ سزامعطلی کی مخالفت کریں گے یا نہیں؟ مخالفت کی صورت میں حلفیہ بیان دیں وہ نوازشریف کی صحت کے ذمہ دار ہوں گے۔

    ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل قاسم چوہان اسلام آبادہائی کورٹ پہنچ گئے، وزیراعلیٰ پنجاب کی نمائندگی ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل کریں گے جبکہ اینکرپرسنزاور تجزیہ کار بھی ہائی کورٹ پہنچنا شروع ہوگئے ہیں ، اینکرپرسنز سے عدالتی نوٹس پردستخط لے لیے گئے۔

    سیکریٹری داخلہ اور نیب کی ٹیم بھی اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئی ہے ، نیب ٹیم کا کہنا ہے کہ نوازشریف اس وقت نیب کی تحویل میں نہیں، عدالت جو پوچھے گی اس کا جواب دیں گے۔

    نوازشریف کی درخواست ضمانت کی سماعت دوبارہ شروع


    نوازشریف کی طبی بنیادوں پردرخواست ضمانت کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا وکیل آگےآئیں باقی لوگ پیچھے جائیں، اینکر  پرسنز روسٹرم پر آجائیں، آج تک ہم نےبرداشت کیالیکن اب برداشت نہیں ہوسکا، عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچا ہے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے اینکرپرسنز سے مخاطب ہوکر کہا طویل عرصےسےاس طرح کی باتیں سن رہےہیں، آپ کےتجزیےججزاورعدلیہ پربوجھ بنتے ہیں، ڈیل کی خبردی، کیا عدلیہ اس ڈیل کا حصہ ہے، آپ سب کو معذرت سے بلایا ہے۔

    عدالت نے اینکر پرسنز سے تحریری جواب طلب کرتے ہوئے کہا ایسی باتوں سےاداروں،عدلیہ سے عوام کا اعتماد اٹھ جاتاہے، آپ کے پروگراموں کی ٹرانسکرپٹ  دیکھی ہے، بتائیں ڈیل کس کی ہے؟میڈیا ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ ایک ہائی کورٹ نے ضمانت دی کیا یہ ڈیل ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے کسی جج پر کوئی اثر انداز نہیں ہوسکتا، ہائی کورٹ کے ججز اپنے حلف کی مکمل پاسداری کریں گے۔

    چیئرمین پیمرا کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا چیئرمین پیمرا کہاں ہیں ؟ تو ڈی جی پیمرا نے بتایا چیئرمین  پیمرا شہر سے باہر ہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے ڈی جی پیمراکی سرزنش کرتے ہوئے کہا پیمرا نے ایکشن کیوں نہیں لیا، پیمرا سویا ہوا ہے، ہم جو فیصلہ دیں پنڈوراباکس کھل جاتا ہے ،  آپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں، اللہ کا حکم ہے سنی سنائی بات آگے مت کرو، جسٹس محسن اختر نے کہا
    آپ  تو خوش ہوتے ہوں گے کہ روز ججز کی تضحیک ہورہی ہے۔

    اینکر پرسن کی بات کرنے کی کوشش پر عدالت نے چپ کرادیا اور جسٹس محسن اختر نے تنبیہ کی آپ اپنے ٹون ٹھیک کریں۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہرادارےمیں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں، ایمانداری سے بتائیں کیا پیمرا کام کررہاہے اور سوال کیا انصاف کے تقاضوں میں رکاوٹ ڈالنے پر کتنے مقدمات بنائے۔

    جسٹس محسن اختر کا کہنا تھا کہ ملک اس لئے حاصل نہیں ہوا تھا کہ اس کا یہ حشر کیا جائے، جوبات ریڑھی والا کرتا ہے وہی بات ٹی وی پر ہو رہی ہوتی ہے ،  جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا پیمرا بتائے ڈیل کون کررہا ہے، آپ سب لوگ وکلا تحریک میں میرے قریب رہے، یہ کہنا کہ ہوسکتا ہے ڈیل ہورہی ہو یہ درست  نہیں، ہمارے بغیر ڈیل ممکن نہیں۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کیا سیکرٹری داخلہ ضمانت درخواست کی مخالفت کرتے ہیں؟ آپ لوگوں کو میڈیکل بورڈ کی رپورٹس موصول ہورہی ہیں، تو سیکرٹری داخلہ عدالت کو بریف کیا ، جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ حکومت کا ہے، ہرشخص یہ کہہ رہا ہے عدالت ذمہ  دار ہے، حکومت نے میڈیکل بورڈ بنایا۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا جیل مینوئل کے مطابق سزا معطل کرنے کا اختیار حکومت کو ہوتا ہے، طبی بنیاد پر سزا معطل ہونے کا کیس عدالت آنا ہی نہیں چاہیے ، بات صرف نواز شریف کی نہیں کیونکہ وہ عدالت میں آ سکتے ہیں، ہزاروں لوگ علاج کیلئے نہ وکیل کرسکتےہیں نہ عدالت آسکتے ہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پنجاب حکومت کا ہر ترجمان کہتا ہے ، عدالتیں جو کہیں گی وہ کریں گے، حکومتی میڈیکل بورڈ کہتا ہے نواز شریف کی حالت ٹھیک  نہیں، اگر وزیراعلیٰ پنجاب صورتحال سے مطمئن ہیں تو بیان حلفی دیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا نواز شریف کے معاملے پر حکومت نے اپنا کام نہیں کیا، آدھے گھنٹے میں بتائیں، حکومت ذمہ داری لے، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سے  استفسار کیا وزیراعلیٰ پنجاب سے رابطہ کریں، کیا چیئرمین نیب ضمانت کی مخالفت کررہے ہیں۔

    ایڈیشنل پروسیکیوٹر نیب نے کہا ہمیں فی الحال کوئی ہدایت نہیں، ابھی باہر جائیں اور چیئرمین نیب سے ہدایات لیکر بتائیں، کیا چیئرمین بیان حلفی دیتے ہیں منگل  تک نوازشریف کو کچھ ہوا تو وہ ذمہ دارہوں گے ؟ ضمانت کی مخالفت کریں یا پھر بیان حلفی دیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ ہر ذمہ داری اپنے کندھوں پر نہیں لیں گے ، ہمارے سامنے اس وقت معاملہ صرف منگل تک کا ہے، تمام ادارے عدالت کو  آدھے گھنٹے میں ہاں یاناں میں جواب دیں۔

    چیف جسٹس نے کہا نواز شریف کی صحت کی ذمہ داری پنجاب حکومت کی ہے، کیا وزیراعلیٰ منگل تک نواز شریف کی صحت کی ذمہ داری لیتے ہیں، عدالت کوہاں یاناں میں صاف جواب چاہیے۔

      نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت تیسری بار شروع


    اسلام آباد ہائی کورٹ میں  نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت تیسری بار شروع ہوئی تو چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا حکومت اورادارے کہیں تو ہم ضمانت کی درخواست خارج کر دیں گے، تاہم ذمہ داری حکومت پرہی ہوگی۔

    نوازشریف کے ذاتی معالج ڈاکٹرعدنان روسٹرم پر آگئے ، چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدالتوں پرچیزیں نہیں ڈالیں، ہم یہ ذمہ داری کسی صورت نہیں لیں گے، میڈیکل بورڈعدالت نےنہیں بنوایا، میڈیکل بورڈ آپ نے بنایا، ذمہ داری لیں اورضمانت کی مخالفت کر لیں، عدالت کوہاں یانہ میں ہی جواب دیں ، فیڈریشن ذمہ داری لے۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھو کھر نے کہا مختصر بات کرنا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا نہیں ہاں یا نہ میں عدالت کو بتائیں تو جنرل طارق کھوکھر نے مزید کہا مہربانی کرکے مجھے بات تو کرنے کی اجازت دیں، میں پھر روسٹرم چھوڑ دوں؟

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ کس جماعت کی حکومت پنجاب میں ہے،وفاق ذمہ داری لے، جس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کیاآپ منگل تک کی ذمہ داری لیں گے۔

    سیکریٹری داخلہ نے کہا جی ہم ذمہ داری نہیں لےسکتے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا مزیدآدھاگھنٹہ لیں، آپ صرف ہاں یانہ میں بتائیں ، سیکٹری  داخلہ آپ عدالت میں ہیں،ہاں یانہ میں جواب دیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس میں کہا سیکٹری داخلہ صاحب عدالت کےساتھ سیاست نہ کھلیں ، کیاحکومت نوازشریف کی ضمانت کی مخالفت کر رہی  ہے؟ حکومت ذمہ داری لےبھی توای سی ایل سےنام وفاق نے نکالنا ہے۔

    سیکریٹری داخلہ نے کہا عدالت میرٹ پرفیصلہ دے، نوازشریف پنجاب حکومت کی تحویل میں ہیں ،جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ ذمہ داری لیں یا پھر نواز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہیں، سیکریٹری داخلہ صاحب ہاں یانہ بتادیں۔

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس میں کہا وفاقی حکومت کےترجمان توکہتےہیں عدالت جوفیصلہ کرے، ہربات کوعدالت کےگلےمیں نہ ڈالاجائے، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے چیف جسٹس نے استفسار کیا پنجاب حکومت کیا کہتی ہے، ہم ذمہ داری نہیں لیں گےآپ بتادیں، آپ ذمہ داری لیں تو ہم ضمانت کی درخواست خارج کردیتے ہیں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو اگر کچھ ہوا تو نیب اور وفاق ذمہ دار ہوگا، تینوں حلف نامے نہیں دے رہے تو ہم ضمانت منظور کرلیں گے، کوئی ذمہ داری لے اور عدالت کو آگاہ کرے۔

    نواز شریف کی طبی بنیاد پر درخواست ضمانت کی سماعت میں پھر آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا۔

    وقفے کے بعد عدالت نے فیصلہ لکھوانا شروع کیا، عدالت نے کہا کہ وفاقی وزیر داخلہ جامع رپورٹ دے، حکومت نے آئینی اختیارات استعمال نہیں کیے، حکومتیں ذمہ داری ادا کر رہی ہیں نہ ذمہ داری لے رہی ہیں، ماضی کے فیصلوں میں سزا یافتہ قیدیوں پر اصول وضع کر چکے ہیں، آج حکومتوں سے پوچھا گیا کہ عدالتی فیصلے پر کس حد تک عمل کیا گیا، تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتیں واضح جواب نہیں دے سکیں۔

    عدالت نے حکم نامے میں کہا کہ العزیزیہ کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کی جاتی ہے، انسانی بنیادوں پر منگل تک سزا معطلی منظور کی جا رہی ہے۔ عدالت نے 20 لاکھ روپے کے 2 مچلکے بھی جمع کرانے کا حکم دیا۔

    نواز شریف کی درخواست ضمانت پرآج ہی سماعت کے لیے نئی درخواست


    یاد رہے مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی جانب سے نواز شریف کی درخواست ضمانت پرآج ہی سماعت کے لیے نئی درخواست دائر کی تھی ، العزیزیہ کیس میں ضمانت کیلئے درخواست دائرکی گئی، جس میں کہا گیا تھا نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے اور استدعا کی نوازشریف کی طبیعت کے  پیش نظر سماعت آج ہی کرے۔

    گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی ضمانت پررہائی کی درخواست پر سروسزاسپتال کی ٹیم نے میڈیکل رپورٹ پیش کی تھی جبکہ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر نے ضمانت کی مخالفت کی ، جس پر عدالت نے نو رکنی بورڈ کو تحریری رپورٹ دینے کی ہدایت کی تھی اور سماعت منگل تک ملتوی کردی تھی۔

    مزید پڑھیں : نوازشریف کی ضمانت پررہائی کا فیصلہ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر دیں گے، جسٹس محسن اختر کیانی

    جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا تھا نواز شریف کو ضمانت قانونی طور پر نہیں مل سکتی، درخواست کو میڈیکل صورتحال کے مطابق دیکھ رہے ہیں، ہم فیصلہ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر دیں گے۔

    بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی اور ایک کروڑ روپے کے 2ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا، نوازشریف کی ضمانت چوہدری شوگرملزکیس میں منظور کی گئی تھی۔

  • نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کے لیے نئی درخواست دائر

    نوازشریف کی درخواست ضمانت پر سماعت کے لیے نئی درخواست دائر

    اسلام آباد: نوازشریف کے وکلا نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی ضمانت پر رہائی کے لیے درخواست پر آج ہی سماعت کے لیے نئی درخواست دائر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں خواجہ حارث نے العزیزیہ ریفرنس میں مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کی ضمانت پر رہائی کے لیے درخواست پر آج ہی سماعت کے لیے نئی درخواست دائر کردی۔

    نوازشریف کے وکیل نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کو دل کا دورہ پڑنے کے خطرات ہیں، نواشریف کو گزشتہ روز انجائنا کا مسلسل شدید درد ہوا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ نوازشریف کی حالت تشویش ناک ہے۔ نوازشریف کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ درخواست پر آج ہی سماعت کی جائے۔

    نوازشریف کی ضمانت پررہائی کا فیصلہ ڈاکٹروں کی رپورٹ پر دیں گے، جسٹس محسن اختر کیانی

    خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی العزیزیہ ریفرنس میں طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت پر سماعت منگل تک ملتوی کر دی تھی۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نوازشریف اس وقت جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ان کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کے ڈاکٹرز سے ملک میں یا ملک سے باہر علاج کرائیں۔

    جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے تھے کہ اس معاملے میں ڈاکٹرز بہترین ججز ہیں انہوں نے کہا تھا کہ میڈیکل رپورٹ میں واضح طور پر بتانا ہوگا کہ کیا پاکستان میں بین الاقوامی معیار کے مطابق علاج معالجے کی سہولیات موجود ہیں اور کیا نوازشریف کی جان کو یہاں کوئی خطرہ ہےِ؟۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور

    یاد رہے کہ گزشتہ روز لاہورہائی کورٹ نے چوہدری شوگرملز کیس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی درخواست ضمانت منظور کی تھی ۔

    تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عدالت میں پیش رپورٹ کے مطابق نواز شریف کی حالت تشویش ناک ہے، جیل میں رہتے ہوئے علاج ممکن نہ ہو تو ملزم ضمانت کا حق دار ہوتا ہے۔