Tag: اسلام آباد ہائی کورٹ

  • سابق ڈپٹی میئرارشد وہرا کی نا اہلی سے متعلق درخواست پر سماعت کل تک ملتوی

    سابق ڈپٹی میئرارشد وہرا کی نا اہلی سے متعلق درخواست پر سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد : سابق ڈپٹی میئر ارشد وہرا کی نا اہلی سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ کیا پارٹی کی تبدیلی سے پہلی پارٹی متاثر نہیں ہوتی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق ڈپٹی میئر ارشد وہرا کی نا اہلی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ آپ نے ٹکٹ کس سے لیا اور پھر کس پارٹی میں چلے گئے۔

    وکیل درخواست گزار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم کی تقریر کے بعد پارٹی ہی بدل گئی تھی، ایم کیو ایم کے ندیم نصرت سے ٹکٹ لیا۔

    جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پارٹی چھوڑکرپاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیارکی، کیا پارٹی کی تبدیلی سے پہلی پارٹی متاثر نہیں ہوتی۔

    وکیل درخواست گزار نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مقامی حکومت کی حد تک کوئی پارٹی جوائن نہیں کی، جس پارٹی نے ٹکٹ ہی نہیں دیا وہ کیسے نا اہل کرا سکتی ہے۔

    درخواست گزار کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ تیاری کی لیے کچھ وقت دے دیں جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تین رکنی بینچ نے سابق ڈپٹی میئر ارشد وہرا کو نا اہل قرار دیا تھا۔

  • چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی  کی بطورقائم مقام صدراہلیت کا فیصلہ پیرکوسنایاجائےگا

    چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی بطورقائم مقام صدراہلیت کا فیصلہ پیرکوسنایاجائےگا

    اسلام آباد : چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی بطور قائم مقام صدر اہلیت کا فیصلہ پیرکوسنایاجائےگا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے 18 دسمبر2018 کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے آئندہ ہفتے کی کاز لسٹ جاری کردی، جس کے مطابق  چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی بطورقائم مقام صدراہلیت کا فیصلہ پیرکوسنایاجائےگا، اسلام آباد ہائی کورٹ کےجسٹس عامرفاروق محفوظ فیصلہ سنائیں گے۔

    اسلام آبادہائی کورٹ نے18 دسمبر2018 کوفیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    درخواست گزار کا کہنا تھا صادق سنجرانی کی اس وقت عمر تقریبا 40 سال ہے، آئین میں صدر بننے کے لیے عمر 45 سال ہے، صادق سنجرانی نے قائمقام صدر کا عہدہ سنبھالا تو آئینی بحران پیدا ہوگا، صدرمملکت کی عدم موجودگی میں صدر مملکت کی ذمہ داریاں کون نبھائے گا۔

    مزید پڑھیں : چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر بننے کی اہلیت نہیں‌ رکھتے: سپریم کورٹ میں درخواست دائر

    درخواست میں عدالت سے استدعا کی گئی کہ صادق سنجرانی کو قائمقام صدر کی ذمہ داریاں نبھانے سے روکا جائے، آرٹیکل 41 کے تحت چئیرمین سینٹ کا انتخاب دوبارہ کیا جائے۔

    واضح رہے کہ 12 مارچ کو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپوزیشن جماعتوں کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار صادق سنجرانی کامیاب ہوئے تھے اور انہیں 57 ووٹ ملے تھے جبکہ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار راجا ظفر الحق کو 46 ووٹ ملے تھے۔

    خیال رہے میرصادق سنجرانی 14اپریل 1978 کوبلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں پیدا ہوئے، انھوں نے ابتدائی تعلیم نوکنڈی میں حاصل کی، بعد ازاں انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے کیا.

    ان کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے فوری بعد ان کی عمر سے متعلق یہ آئینی بحث چھڑ گئی تھی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے گھوٹکی کی 2نومسلم بہنوں کی تبدیلی مذہب درست قرار دے دی

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے گھوٹکی کی 2نومسلم بہنوں کی تبدیلی مذہب درست قرار دے دی

    اسلام آباد : اسلام آبادہائی کورٹ نے گھوٹکی کی 2نومسلم بہنوں تبدیلی مذہب درست قراردیتے ہوئے دونوں لڑکیوں کی فراہمی تحفظ کی درخواست منظور کرلی اور عدالت نے کمیشن کو 4 ہفتے کا وقت دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے گھوٹکی کی ہندو مذہب تبدیل کرکے پسند کی شادی کرنے والی دو بہنوں آسیہ عرف روینہ اور نادیہ عرف رینہ کی فراہمی تحفظ کی درخواست پر سماعت کی۔

    کمیشن کے ممبر اے آر رحمان اور وفاقی سیکرٹری داخلہ عدالتی حکم پر عدالت میں پیش ہوئے۔

    عدالت نے دونوں بہنوں کی تبدیلی مذہب درست قراردیتے ہوئے کہا عدالت نے کمیشن رپورٹ کو مدنظر رکھ کر فیصلہ دیا جبکہ کمیشن نے تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کے لیے4 ہفتے مانگے، جس پر عدالت نے کمیشن کو 4 ہفتے کا وقت دے دیا۔

    عمیر بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا گزشتہ سماعت اور آج بھی سماعت کے دوران عدالت میں دونوں لڑکیوں کو پیش نہیں کیا گیا، جس پر وزارت داخلہ نے بتایا کمیشن کے 5 میں سے 3 ممبر نے اجلاس کیا اور دونوں لڑکیوں کے بیانات ریکارڈ کئے، دونوں لڑکون کے بھی آج بیان ریکارڈ کر دیئے ہیں۔

    کمیشن رپورٹ میں کہا گیا دونوں لڑکیوں کو زبردستی مذہب تبدیل نہیں کرایا گیا، مگر سہولت فراہم کیا گیا، دونوں بالغ لڑکیوں نے اسلام سے آشنا ہو کر اسلام قبول کیا۔

    مزید پڑھیں : گھوٹکی: 2 لڑکیوں کا مبینہ اغوا، سندھ حکومت نے تحقیقات کے لیےکمیٹی بنا دی

    میڈیکل بورڈ نے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرایا، جس کے مطابق دونوں بہنیں 18 اور 19 سال کی ہیں۔

    وزارت داخلہ نے کہا گھوٹکی میں ایسے معاملات عام ہیں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا سپریم کورٹ کے حکم پر کیا عمل درآمد کرایا گیا تو وزارت داخلہ نے بتایا فائنل رپورٹ بھی عدالت کو دینا چاہتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا اس کورٹ کی حساسیت کو عدالت نے دیکھا ہے، کمیشن کے ممبران انتہائی قابل احترام شخصیت ہیں، آئی اے رحمان کا کہنا تھا گھوٹکی میں مذہب تبدیل کرنے والے سنٹر کو چیک اینڈ بیلنس کرنے اور اس معاملے پر قانون سازی کی ضرورت ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا اسلام آباد ہائی کورٹ کے داہرہ اختیار کا معاملہ ہے، اقلیتوں کے حقوق صرف زبانی حد تک محفوظ رکھنے کی نہیں بلکہ دیکھائی دے کے اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہیں، یہ عدالت پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم نہیں دے سکتا۔

    رمیش کمار نے کہا میں اس عدالت کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا آپ کو شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔

    بعد ازان عدالت نے سماعت 14 مئی تک ملتوی کر دی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے نو مسلم بہنوں نادیہ اورآسیہ کی عمر کے تعین اور حقائق جاننے کے لیے 5 رکنی کمیشن قائم کرنے کا حکم دیا تھا، کمیشن میں مفتی تقی عثمانی کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

    مزید  پڑھیں:  نومسلم بہنوں کی عمر کے تعین اور حقائق کیلیے 5 رکنی کمیشن قائم کرنے کا حکم

    واضح رہے کہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے گھوٹکی کی دو لڑکیوں کے بھائی اور والد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی تھیں جن میں انہوں نے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کی دو بیٹیوں کو اغوا کر کے ان پر اسلام قبول کرنے کےلئے دباﺅڈالا جارہا ہے تاہم ساتھ دونوں لڑکیوں کی ویڈیوز بھی سامنے آئی تھیں جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔

    وزیر اعظم عمران خان نے 24 مارچ کو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور ان کی رحیم یار خان منتقلی کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

    بعدازاں لڑکیوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ انہوں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا لیکن منفی پروپیگنڈے سے جان کو خطرات لاحق ہیں لہٰذا عدالت حکومت کو ہمیں تحفظ فراہم کرنے کے احکامات صادر کرے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے نومسلم لڑکیوں کو سرکاری تحویل میں دینے کا حکم دیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ڈائریکٹر جنرل ہیومن رائٹس کے حوالے کردیا تھا۔

  • العزیزیہ ریفرنس کی سزا کیخلاف اپیل، نوازشریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور

    العزیزیہ ریفرنس کی سزا کیخلاف اپیل، نوازشریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل کی سماعت کے دور ان نوازشریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کےخلاف اپیل پر سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی ۔

    سماعت کے دور ان کمرہ عدالت میں راجہ ظفر الحق ، اقبال ظفر جھگڑا، سینیٹر پرویز رشید سمیت دیگر مسلم لیگی راہنماءموجود تھے ۔

    درخواست گزار کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کو سپریم کورٹ سے طبی بنیادوں پر چھ ہفتوں کی ضمانت ملی اور ان کے میڈیکل ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں جس کے باعث حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی ہے ، لہذا سماعت ملتوی کی جائیے۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آپ آج بحث ہی نہیں کرنا چاہتے ؟نواز شریف کے وکیل نے بتایا کہ ہمیں ابھی تک کیس کی پیپربکس نہیں ملیں۔ جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دئیے آپ ڈویژن بنچ کے سامنے کھڑے ہیں کوئی لاجک والی بات کریں۔

    عدالت نے نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظورکرتے ہوئے سماعت 23 اپریل تک ملتوی کر دی۔ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی بریت کے خلاف نیب کی اپیل پر سماعت 29 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔

    خیال رہے  سپریم کورٹ آف پاکستان نے نوازشریف کو 6 ہفتوں کے لیے طبی بنیادوں پرضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا تاہم وہ ان کے بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔

    واضح رہے گزشتہ برس 24 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلے میں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید کی جرمانے کا حکم سنایا تھا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔

  • نومسلم بہنوں کی عمر کے تعین اور حقائق کیلیے 5 رکنی کمیشن قائم کرنے کا حکم

    نومسلم بہنوں کی عمر کے تعین اور حقائق کیلیے 5 رکنی کمیشن قائم کرنے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے گھوٹکی سے تعلق رکھنے والے دو مسلم بہنوں نادیہ اورآسیہ کی عمر کے تعین اور حقائق کے لیے 5 رکنی کمیشن قائم کرنے کا حکم دے دیا، کمیشن میں پانچویں رکن کے طور پر مفتی تقی عثمانی شامل کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اسلام قبول کر کے شادی کرنے والی لڑکیوں کے مقدمے کی سماعت کی۔

    سماعت کے دور ان پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کی جانب سے لڑکیوں کی عمر کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائی گئی، آسیہ عرف روینہ اور نادیہ عرف رینہ کی ہڈیوں کے ٹیسٹ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ دونوں لڑکیوں عمریں بالترتیب 19 اور 18سال ہیں اور یہ کم عمر نہیں تاہم اس رپورٹ کو رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر درشن کمار اور لڑکیوں کے اہلخانہ نے مسترد کردیا۔

    روینہ اور رینہ کے والد ہری لال نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست بھی دائر کی، جس میں استدعا کی گئی کہ لڑکیوں کی اصل عمر جانچ کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے اور عدالت سے یہ درخواست بھی کی گئی کہ حکومت ان لڑکیوں کا ایک نفسیاتی ٹیسٹ بھی کرے تاکہ لڑکیوں کی ذہنی حالت اور اسٹاک ہوم سینڈروم کی تشخیص کی جاسکے، اسٹاک ہوم سینڈروم وہ احساس ہے جس میں مغوی کو اکثر مواقعوں پر اس کو اغوا کرنے یا تکلیف دینے والے سے پیار ہو جاتا ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے استدعا منظور کرتے ہوئے لڑکیوں کی اصل عمر کی تشخیص کےلئے 5 رکنی کمیشن تشکیل دے دیا اور کمیشن میں پانچویں رکن کے طور پر مفتی تقی عثمانی کو شامل کر دیا جبکہ کمیشن کے دیگر 4 اراکین وہی ہوں گے، جنہیں عدالت نے اس سے قبل اپنی معاونت کے لیے شامل تفتیش کیا تھا۔

    مذکورہ 4 اراکین میں وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر مہدی حسن، خاور ممتاز اور آئی اے رحمان شامل ہیں، یہ کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ مسلمان لڑکوں سے شادی کے وقت وہ کم عمر تو نہیں تھیں اور کہیں ان پر مذہب کی تبدیلی کے لیے دباؤ تو نہیں ڈالا گیا۔

    مزید پڑھیں : نومسلم بہنوں کا تحفظ، عدالتی حکم پر لڑکیاں دارالامان منتقل، وزیر انسانی حقوق سے رپورٹ طلب

    عدالت نے پیشگی نوٹس کے باوجود سیکریٹری داخلہ یا حکومت سندھ کے چیف سیکریٹری کے عدالت میں پیش نہ ہونے پر وفاق اور سندھ حکومت کے رویے پر برہمی کا اظہار کیا۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے دوران سماعت اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ آیا ان لڑکیوں کی زبردستی شادی کی گئی یا نہیں اور کہیں لڑکیاں کم عمر تو نہیں۔

    اس موقع پر انہوں نے دہشت گردی کی حالیہ واردات کے بعد نیوزی لینڈ کی حکومت کی مثال پیش کی، جس نے اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی کہ معاشرہ مسلمانوں کے خلاف ہے۔

    بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 11 اپریل تک ملتوی کردی۔

    واضح رہے کہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے گھوٹکی کی دو لڑکیوں کے بھائی اور والد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی تھیں جن میں انہوں نے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کی دو بیٹیوں کو اغوا کر کے ان پر اسلام قبول کرنے کےلئے دباﺅڈالا جارہا ہے تاہم ساتھ دونوں لڑکیوں کی ویڈیوز بھی سامنے آئی تھیں جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔

    وزیر اعظم عمران خان نے 24 مارچ کو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور ان کی رحیم یار خان منتقلی کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

    بعدازاں لڑکیوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ انہوں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا لیکن منفی پروپیگنڈے سے جان کو خطرات لاحق ہیں لہٰذا عدالت حکومت کو ہمیں تحفظ فراہم کرنے کے احکامات صادر کرے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ ہفتے ہونے والی سماعت پر نومسلم لڑکیوں کو سرکاری تحویل میں دینے کا حکم دیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ڈائریکٹر جنرل ہیومن رائٹس کے حوالے کردیا تھا۔

  • میگا منی لانڈرنگ کیس : قائم علی شاہ کو گرفتاری کا خوف

    میگا منی لانڈرنگ کیس : قائم علی شاہ کو گرفتاری کا خوف

    اسلام آباد : سابق وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ نے گرفتاری سے بچنے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا، جس میں کہا گیا منی لانڈرنگ سے کوئی لینا دینا نہیں سیاسی بنیادوں پر نام شامل کیا گیا، گرفتار نہ کیاجائے۔

    تفصیلات کے مطابق میگا منی لانڈرنگ میں گرفتاری کا خوف سے سابق وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ نے عدالت سے رجوع کرلیا۔

    سابق وزیر اعلی قائم علی شاہ نے ضمانت قبل از گرفتاری کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کردی، قائم علی شاہ نے ملک جاوید اقبال ایڈوکیٹ کے ذریعے اسلام آبادہائیکورٹ میں درخواست دائرکی، درخواست رجسٹرار آفس نے وصول کرلی ہے۔

    درخواست میں چیئرمین نیب ڈی جی نیب اور تفتیشی افسر نے سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا۔

    درخواست مؤقف اختیار کیا گیا درخواست گزار کا منی لانڈرنگ سے کوئی لینا دینا نہیں سیاسی بنیادوں پر نام شامل کیا گیا اور استدعا کی جب تک کیس کی سماعت مکمل نہیں ہوجاتی قائم علی شاہ کو گرفتار نہ کیا جائے۔

    یاد رہے نیب نے سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو 27 مارچ کو طلب کر لیا، قائم علی شاہ کو ٹھٹھہ اور دادو شوگر ملز کیس میں طلب کیا گیا اور ولڈ نیب ہیڈکوارٹرز میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    مزید پڑھیں : سنا ہےنیب کواوپر سےحکم ہےبڑی مچھلی پکڑو، میں تو چھوٹاآدمی ہوں، قائم علی شاہ

    نیب کی جانب سے ٹھٹھہ شوگر مل سے متعلق تمام ریکارڈ بھی ہمراہ لانے کی ہدایت جاری کی گئی ہے۔

    خیال رہے جعلی اکاؤنٹس کیس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بیان ریکارڈ کرانے نیب ہیڈکوارٹرز پہنچے، نیب کی 6رکنی ٹیم وزیراعلیٰ سندھ سے ٹھٹھہ، دادو شوگرملز کیس میں پوچھ گچھ کر رہی ہے۔

    تحقیقاتی ٹیم کےسربراہ ڈی جی نیب عرفان منگی خود بیان ریکارڈ کررہے ہیں جبکہ مراد علی شاہ کو تحریری سوال نامہ بھی دیا جائے گا۔

  • کوشش ہے لوگوں کوان کے گھرکی دہلیزپرانصاف مہیا ہو ‘ جسٹس اطہرمن اللہ

    کوشش ہے لوگوں کوان کے گھرکی دہلیزپرانصاف مہیا ہو ‘ جسٹس اطہرمن اللہ

    اسلام آباد: ڈسٹرکٹ کورٹ کی عدالتوں کوالگ الگ کرنے سے متعلق کیس پرسماعت کے دوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ جب لوگوں کا ہم پراعتماد نہیں ہوگا توعدالتوں کا فائدہ نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں ڈسٹرکٹ کورٹ کی عدالتوں کوالگ الگ کرنے سے متعلق کیس پرسماعت ہوئی۔

    ڈپٹی کمشنراسلام آباد حمزہ شفقات اور وکلاعدالت کے روبرو پیش ہوئے، عدالت نے ڈی سی کومناسب جگہ سے متعلق رپورٹ دینے کا حکم دے دیا۔

    عدالت نے ریمارکس دیے کہ ڈسٹرکٹ کورٹ کا ماحول اگربچوں کے لیے ٹھیک ہے توبچوں کو وہاں بھیجنا چاہیے، ہمیں پتہ ہے وہ ماحول بچوں کے لیے ٹھیک نہیں ہے، ڈسٹرکٹ کورٹ کے بخشی خانے کا برا حال ہے۔

    وکیل نے کہا کہ سی ڈی اے ماسٹرپلان میں ڈسٹرکٹ اورہائی کورٹ کے پلاٹ ہی نہیں ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں لوگوں کا اعتماد حاصل کرنا ہے۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ جب لوگوں کا ہم پراعتماد نہیں ہوگا توعدالتوں کا فائدہ نہیں ہے، کوشش ہے لوگوں کوان کے گھرکی دہلیزپرانصاف مہیا ہو۔

    انہوں نے ریمارکس دیے کہ سلام آباد کے لوگوں کے لیےعدالتی ماڈل نظام ہونا چاہیے، عدالت نے ڈپٹی کمشنرکورپورٹ جمع کرانے کے احکامات دیے۔

    بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ کورٹ کی عدالتوں کوالگ الگ کرنے سے متعلق کیس کی سماعت 4 اپریل تک ملتوی کردی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ میں  حج پالیسی2019 کو چیلنج کردیا گیا

    اسلام آباد ہائی کورٹ میں حج پالیسی2019 کو چیلنج کردیا گیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ میں نجی ٹور آپریٹرز نے حج کوٹہ اور حج پالیسی 2019ءکو چیلنج کر دیا، جس پر عدالت نے سیکرٹری وزارت مذہبی امور اور سیکشن افسر کو نوٹس جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے سنگل رکنی بنچ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نجی ٹور آپریٹرز کی حج کوٹہ اور حج پالیسی 2019ء کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

    سماعت میں عبدالخالق تند ایڈووکیٹ نے کہا حج پالیسی 2019 سپریم کورٹ کے فیصلے کے منافی ہے، پرائیویٹ حج کوٹہ کی تقسیم میں شفافیت کو مد نظر نہیں رکھا گیا اور حج کوٹہ کی تقسیم میں امتیاز برتا گیا۔

    عبدالخالق تند ایڈووکیٹ نے استدعا کی سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں حج کوٹہ کی تقسیم کا حکم دیا جائے، عدالت حج پالیسی 2019 کو کالعدم قرار دے اور نئی حج پالیسی تشکیل دینے کی ہدایات جاری کی جائیں۔

    عدالت نے سیکرٹری وزارت مذہبی امور اور سیکشن افسر کو نوٹس جاری کر دیا اور سماعت 10 دنوں تک کے لئے ملتوی کر دی۔

    مزید پڑھیں : لاہورہائی کورٹ نے حج پالیسی 2019 کے خلاف دائر درخواست خارج کردی

    اس سے قبل 14 فروری کو لاہور ہائی کورٹ میں حج پالیسی 2019 کے خلاف درخواست دائر کی گئی تھی ، جسے عدالت نے ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کردیا تھا۔

    یاد رہے کہ قبل وزارت مذہبی امور نے حج پالیسی 2019 جاری کی تھی، جس کے مطابق رواں سال ایک لاکھ 84 ہزار 210 پاکستانی حج ادا کرسکیں گے۔

    حج پالیسی 2019 کے مطابق سرکاری حج اسکیم کو 60 فیصد اور نجی حج اسکیم کے لیے 40 فیصد کوٹہ مختص کیا گیا، جس کے تحت درخواستیں 25 فروری سے 6 مارچ تک وصول کی جاسکیں گی۔

    وزارت مذہبی امور کا کہنا تھا کہ سرکاری اسکیم کے تحت ایک لاکھ 7 ہزار 526 اور نجی اسکیم کے تحت 71 ہزار 684 عازمین حج کے لیے جائیں گے۔

  • نوازشریف کا سزامعطلی اور ضمانت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع

    نوازشریف کا سزامعطلی اور ضمانت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع

    اسلام آباد: سابق وزیراعظم نوازشریف نے ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائرکردی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف نے ہائی کورٹ کا درخواست ضمانت مسترد کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان میں نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی۔

    نوازشریف کی جانب سے دائر درخواست میں وفاق، نیب، جج احتساب عدالت، سپرنٹنڈنٹ جیل کوفریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ہائی کورٹ کا 25 فروری کا فیصلہ کالعدم قراردیا جائے، نوازشریف کوالعزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کرکے ضمانت دی جائے۔

    درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ نوازشریف جیل میں قید ہیں، سنجیدہ نوعیت کی بیماریاں ہیں، میڈیکل بورڈ کے ذریعے نوازشریف کے کئی ٹیسٹ کرائے گئے۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ قانون میں دیے گئے اختیار استعمال کرنے میں ناکام ہوئی، ہائی کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے اپنے اختیارکے استعمال میں غلطی کی۔

    درخواست گزار کے مطابق ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے طے کردہ پیرامیٹرکا غلط اطلاق کیا، ہائی کورٹ نے ضمانت کے اصولوں کومدنظر نہیں رکھا۔

    درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ عدالت نے فرض کرلیا نوازشریف کواسپتال میں علاج کی سہولتیں میسرہیں، درحقیقت نوازشریف کودرکارٹریٹمنٹ شروع بھی نہیں ہوئی۔

    سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف کوفوری علاج کی ضرورت ہے، علاج نہ کیا گیا تو صحت کوناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

    مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کی درخواستِ ضمانت مسترد کردی

    یاد رہے 25 فروری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے طبی بنیادوں پرضمانت پررہائی سے متعلق فیصلہ سنایا تھا، فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا نوازشریف کوایسی کوئی بیماری لاحق نہیں جس کاعلاج ملک میں نہ ہوسکے۔

  • سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کےنتیجےمیں نواز شریف کو  ضمانت نہیں دی جاسکتی، تحریری فیصلہ

    سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کےنتیجےمیں نواز شریف کو ضمانت نہیں دی جاسکتی، تحریری فیصلہ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی سزا معطلی کے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ نوازشریف کو ایسی کوئی بیماری نہیں جس کاعلاج ملک میں نہ ہوسکے ، یہ کیس غیرمعمولی نوعیت کانہیں،سپریم کورٹ کےحالیہ فیصلوں کےنتیجےمیں ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے نوازشریف کی سزا معطلی کا 9صفحات پرمشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ، فیصلے پر جسٹس عامرفاروق اورجسٹس محسن اخترکیانی کے دستخط ہیں، فیصلہ جسٹس عامر فاروق نے تحریر کیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے تحریری فیصلے میں کہا گیا یہ کیس غیرمعمولی حالات کا نہیں بنتا، نواز شریف کے معاملے میں مخصوص حالات ثابت نہیں ہوئے، سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے نتیجے میں ضمانت نہیں دی جا سکتی، انھیں علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہیں۔

    عدالتی فیصلے میں کہا گیا نواز شریف کی صحت سےمتعلق کوئی مسئلہ سامنےنہیں آیا، ان کاروٹین کاچیک اپ اور ٹریٹمنٹ جاری ہے جبکہ نواز شریف، نیب اور پنجاب حکومت کا مؤقف بھی فیصلے کا حصہ بنا دیاگیا ہے۔

    تحریری فیصلہ کے مطابق نیب نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر رہائی کی مخالفت کی ، نوازشریف کےوکلا میڈیکل گراؤنڈپرنوازشریف کی رہائی چاہتےہیں، نواز شریف کی فریش میڈیکل رپورٹ عدالت کےسامنےلائی گئی، عدالت یہ نہیں سمجھتی کہ نوازشریف کوطبی بنیادوں پررہائی دینی چاہیے۔

    عدالت یہ نہیں سمجھتی کہ نوازشریف کوطبی بنیادوں پررہائی دینی چاہیے، عدالتی فیصلہ

    اسلام آبادہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا نوازشریف کی اپیل9اپریل کےلئےمقررہے، نواز شریف کی رٹ پٹیشن نمبر352کوناقابل سماعت قراردےکرخارج کیاجاتاہے، طبی بنیادوں پرضمانت نہیں دی جاسکتی، طبی بنیادوں پرضمانت کی درخواست ناقابل سماعت ہے، نوازشریف کوایسی کوئی بیماری لاحق نہیں جس کاعلاج ملک میں نہ ہوسکے۔

    فیصلہ میں کہا گیا جیل سپرنٹنڈنٹ کااخیارہےقیدی کواسپتال منتقل کرےیانہیں، نوازشریف کوقانون کےمطابق جب ضرورت پڑی اسپتال منتقل کیاگیا، عدالتی نظیریں ہیں قیدی کا علاج ہو رہا ہو تو وہ ضمانت کاحقدارنہیں۔

    جیل سپرنٹنڈنٹ کااخیارہےقیدی کواسپتال منتقل کرےیانہیں،عدالتی نظیریں ہیں قیدی کا علاج ہو رہا ہو تو وہ ضمانت کاحقدارنہیں،عدالتی فیصلہ

    تحریری فیصلے کے مطابق نوازشریف نےجب بھی خرابی صحت کی شکایت کی اسپتال منتقل کیاگیا، میڈیکل رپورٹس کے مطابق نواز شریف کو پاکستان میں دستیاب بہترین طبی سہولیات مہیا کی جا رہی ہیں ، عدالت میں پیش کئے گئے حقائق کے مطابق نواز شریف کا کیس غیر معمولی نوعیت کا نہیں۔

    عدالت نے پیپلزپارٹی کے رہنما شرجیل انعام میمن کے مقدمے کو بنیاد بنا کر قرار دیا ہے کہ طبی سہولتیں ملنے پررہائی نہیں دی جاتی۔

    طبی سہولتیں ملنے پررہائی نہیں دی جاتی

    یاد رہے اسلام آبادہائی کورٹ نے نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست مسترد کردی تھی ، جس کے بعد وکلاصفائی نے اعلان کیاکہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

    خیال رہے نواز شریف العزیزیہ کیس میں سزا کاٹ رہے ہیں اور اپنی بیماری کے سبب لاہور کے جناح اسپتال میں زیر علاج ہیں ، میڈیکل بورڈ نے سفارشات محمکہ داخلہ کو بجھوادیں ہیں ، جس میں انجیو گرافی تجویز کی گئی ہے۔

    واضح رہے گزشتہ برس 24 دسمبر کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ سنایا گیا تھا، فیصلے میں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے 7 سال قید کی جرمانے کا حکم سنایا تھا جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا گیا تھا۔