Tag: اسلام آباد ہائی کورٹ

  • عمران خان نا اہلی کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ایک بارپھرٹوٹ گیا

    عمران خان نا اہلی کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ایک بارپھرٹوٹ گیا

    اسلام آباد : جسٹس اطہرمن اللہ نے عمران خان نا اہلی کیس سننے سے معذرت کرلی جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کا بینچ ایک با پھر ٹوٹ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان نا اہلی کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو بینچ کے رکن جسٹس اطہرمن اللہ نے کیس سننے سے معذرت کرلی۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس (ر) افتخارچوہدری سے قریبی تعلق تھا، ماضی کے تعلق کی وجہ سے سماعت نہیں کرسکتا۔

    معززجج اطہرمن اللہ کی معذرت کے بعد بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا اور نیا بینچ بنانے کے لیے معاملہ پھر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ انورخان کاسی کو بھجوا دیا گیا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل عمران خان نا اہلی کیس کی سماعت کے لیے جسٹس شوکت عزیزصدیقی اور جسٹس عامرفاروق پرمشتمل بینچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم 29 جولائی کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بینچ سے علیحدہ کرکے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کو شامل کیا تھا۔

    عمران خان نا اہلی کیس کا بینچ ٹوٹ گیا

    بعدازاں یکم اگست کو جسٹس عامرفاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پرمشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کرنے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد بینچ ٹوٹ گیا تھا۔

  • سزا معطلی کیس: نیب پراسیکیوٹرآج دلائل دیں گے

    سزا معطلی کیس: نیب پراسیکیوٹرآج دلائل دیں گے

    اسلام آباد : نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نوازاور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کی درخواست پراسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت آج ہوگی، نیب پراسیکیوٹر اپنے دلائل مکمل کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس اطہرمن اللہ اورجسٹس میاں گل حسن پرمشتمل 2 رکنی بینچ شریف خاندان کی درخواست ضمانت پر آج سماعت کرے گا۔

    شریف خاندان کی جانب سے دائر کردہ درخواستوں پرنیب پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی آج اپنے دلائل مکمل کریں گے۔

    عدالت میں گزشتہ روز سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزا کے خلاف اپیل پرسماعت کے دوران امجد پرویز نے دلائل مکمل کیے تھے۔

    مریم نوازاورکیپٹن صفدرکے وکیل کے دلائل مکمل

    جسٹس میاں گل حسین نے سماعت کے دوران سوال کیا تھا کہ لندن فلیٹس کا سیٹلر کون ہے؟، جس پر امجد پرویز نےجواب دیا تھا کہ ’ حسن نواز بینفشری اور سیٹلر ہیں۔ اس موقع پر عدالت نے پوچھا کہ حسن نواز بینفشری بھی ہیں اور سیٹلر بھی ؟۔ جس پر امجد پرویز نے جواب دیا کہ یہ میرا کیس نہیں ، میں نے سیٹلمنٹ کو نہیں دیکھا۔

    عدالت نے مزید استفار کیا تھا کہ 2006 سے پہلے یہ فلیٹ کس کی ملکیت تھے ؟، قطری نے کب کہا کہ یہ فلیٹ اب آپ کی ملکیت ہیں؟۔ عدالت نے امجد پرویز سے کہا تھا کہ سیٹلمنٹ کی درست تاریخ بتائیں ، کل آپ 2005 کہہ رہے تھے اور آج آپ 2006 کہہ رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواشریف کو 11، مریم نواز کو 8 اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

    نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز 13 جولائی کو جب لندن سے وطن واپس لوٹے تو دونوں کو لاہور ایئرپورٹ پر طیارے سے ہی گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

  • نوازشریف، مریم نواز اورکیپٹن صفدرکی درخواست ضمانت پرسماعت

    نوازشریف، مریم نواز اورکیپٹن صفدرکی درخواست ضمانت پرسماعت

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی درخواست ضمانت پرسماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس اطہرمن اللہ اور جسٹس میاں گل حسن پرمشتمل 2 رکنی بینچ شریف خاندان کی درخواست ضمانت پر سماعت کررہا ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی اور نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث عدالت میں موجود ہیں۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر جسٹس اطہرمن اللہ نے فریقین کے وکلا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ کو بینچ پراعتماد ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر اور خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ہمیں بینچ پرمکمل اعتماد ہے جس پرجسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ شفاف ٹرائل بنیادی تقاضہ ہے بینچ پراعتماد ہونا چاہیے۔

    نیب کی جانب سے سزا معطل کرنے کی اپیلوں کی مخالفت

    نیب پراسیکیوٹرسردار مظفرنے کہا کہ ملزمان نے سزا کے خلاف اپیل کررکھی ہے جوموسم گرما کی تعطیلات کے بعد سماعت کے لیے مقررہیں۔

    سزا معطل کرنے کی اپیلوں پراسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب پراسیکیوٹر سردارمظفرعباسی کی جانب سے کیے جانے والےاعتراض کومسترد کردیا۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ سزا معطلی کی درخواستیں ابھی سن لیتے ہیں جبکہ نواز شریف کی اپیلیں معمول کے مطابق فیکس ہوں گی۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ معلوم ذرائع آمدن کا پتہ نہیں لگایا گیا۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ 1993میں فلیٹس کتنے میں خریدے گئے کیا یہ معلوم ہے؟ جس پرنیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ یہ معلوم نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سزا کس شق کے تحت ہوئی وہ پڑھ لیتے ہیں، نیب پراسیکیوٹرسردار مظفرعباسی نے جواب دیا کہ مجرموں کوسزا نائن اے فائیوکے تحت ہوئی۔

    جسٹس میاں گل حسن نے اسفسار کیا کہ مریم نواز کوعوامی عہدیدار کے طور پر سزا دی جا سکتی ہے؟ جس پرسردار مظفرعباسی نے جواب دیا کہ دستاویزسے ثابت کیا مریم نوازنیلسن نیسکول کی بینیفشل آنرہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ثابت کر دیا مریم نواز، نوازشریف کی جانب سے جائیداد ہولڈ کرتی ہیں جسٹس اطہرمن اللہ نے اسفسار کیا کہ 3سال کے بچے کے نام جائیداد کی جائے تو وہ معاون ہوجائے گا۔؟

    سرادر مظفرعباسی نے جواب دیا کہ اس کیس میں بچہ 18 سال کا ہے جبکہ الزام پرچارج شیٹ میں شیڈول تھری اے شامل کیا گیا۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ کیلبری فونٹ پرانحصارکررہے ہیں یا کوئی اورثبوت بھی ہے جس پرنیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے بوگس ہونے سے متعلق اوربھی شواہد ہیں۔

    معزز جج نے استفسار کیا کہ مریم نوازکوصرف ایکسپرٹ رپورٹ کے تحت سزا ہوئی؟ جس پرسردار مظفرعباسی نے جواب دیا کہ نہیں سزا کا یہ اکیلا گراؤنڈ نہیں تھا، 9 اے 5-12 میں سزا ہوئی ہے۔

    عدالت نے ریمارکس دیے کہ ٹرائل کورٹ نے نوازشریف کے مالک ہونے کا کہا مریم نوازکا نہیں اور کورٹ کی جانب سے واضح لکھا گیا ہے کہ نواز شریف جائیداد کے اصل مالک ہیں۔

    سردار مظفرعباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز نے بینفشل آنرہوتے ہوئے جعلی دستاویز جمع کرائیں۔

    شریف خاندان کی ضمانت کی درخواستوں پرسماعت کرنے والا بینچ  تبدیل

    خیال رہے کہ 10 اگست کو شریف خاندان کی ضمانت کی درخواستوں پرسماعت کرنے والے بینچ کے جج جسٹس عامرفاروق موسم گرما کی تعطیل کے باعث رخصت پرجانے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کا بینچ تبدیل ہوگیا تھا۔

    واضح رہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواشریف کو 11، مریم نواز کو 8 اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

    نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز 13 جولائی کو جب لندن سے وطن واپس لوٹے تو دونوں کو لاہور ایئرپورٹ پر طیارے سے ہی گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

  • ایوان فیلڈ ریفرنس ،شریف خاندان کی ضمانت کی درخواستوں پرسماعت کرنے والا  بینچ  پھر تبدیل

    ایوان فیلڈ ریفرنس ،شریف خاندان کی ضمانت کی درخواستوں پرسماعت کرنے والا بینچ پھر تبدیل

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کی صمانت کی درخواستوں پر سماعت کرنے والا اسلام آباد ہائی کورٹ کا بینچ ایک بار پھر تبدیل ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدرکی ضمانت کی درخواستوں پر سماعت جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل بینچ کررہا ہے۔

    تاہم جسٹس عامرفاروق موسم گرما کی تعطیل کےباعث رخصت پرچلے گئے، جس کے بعد اسلام آبادہائی کورٹ کا بینچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا۔

    رجسٹرارآفس نے نئے بینچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوادیا ہے، نیا بینچ نوازشریف و دیگر کی ضمانتوں کی درخواستوں پرسماعت کرے گا۔

    اس سے قبل جسٹس محسن اختر کی بھی رخصت پر جانے کے باعث بھی بنچ ٹوٹ گیا تھا۔


    مزید پڑھیں : شریف خاندان کی سزا کیخلاف درخواست، بینچ کے سربراہ کا کیس کی سماعت سے انکار


    یاد رہے 8 اگست کو نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا کے خلاف درخواست پر لاہور ہائی کورٹ کے بنچ کے سربراہ جسٹس شمس محمود مرزا نے سماعت سے معذرت کرلی تھی، جس کے باعث بینچ ٹوٹ گیا تھا۔

    بینچ کے دیگرارکان میں جسٹس ساجد محمود سیٹھی اور جسٹس مجاہد مستقیم شامل تھے۔

    نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا کے خلاف درخواست ایڈووکیٹ اے کے ڈوگر کی جانب سے دائر کی گئی تھی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ تین بار وزیراعظم رہنے والے شخص کو اس قانون کے تحت سزا دی گئی جو ختم ہو چکا ہے ، نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو دی جانے والی سزائیں آئین کے آرٹیکل دس اے کے تحت شفاف ٹرائل کے بنیادی حق سے متصادم ہے۔

    واضح رہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواشریف کو 11، مریم نواز کو 8 اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

    نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز 13 جولائی کو جب لندن سے وطن واپس لوٹے تو دونوں کو لاہور ایئرپورٹ پر طیارے سے ہی گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

  • العزیزیہ فلیگ شپ ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواستیں منظور

    العزیزیہ فلیگ شپ ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواستیں منظور

    اسلام آباد: العزیزیہ فلیگ شپ ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواستیں منظور کرلی گئی ہیں، ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی درخواستیں منظور کی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق درخواستیں منظور ہونے پر احتساب عدالت کے جج ریفرنسز کی سماعت نہیں کریں گے، ریفرنسز کی سماعت اب احتساب عدالت کے کورٹ روم 2 کے جج کریں گے۔

    واضح رہے کہ نواز شریف نے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کے بعد ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، ہائیکورٹ ڈویژن بنچ نے ریفرنسز منتقلی کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا، ڈویژنل بنچ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پر مشتمل تھا۔

    قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پرمشتمل دو رکنی بنیچ نوازشریف کی العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست پرسماعت کررہا ہے۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پرنیب پراسیکیوٹر سردار مظفرعباسی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ صاحب بتائیں کیا فیئرٹرائل کا حق نہیں مل رہا۔

    جسٹس گل حسن نے ریمارکس دیے کہ درخواست گزارکی استدعا ہے ریفرنسزدوسرے جج کومنتقل کیے جائیں، درخواست گزارریفرنسزکا ٹرائل یا ایک فیصلہ دینے کی بات نہیں کررہا۔

    سردار مظفرعباسی نے کہا کہ درخواست گزار کے مؤقف پرٹرائل کورٹ، ہائی کورٹ فیصلہ دے چکی، ریفرنسزیکجا کرنے کی درخواست میں بھی یہی نکات اٹھائے تھے۔

    جسٹس گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ جے آئی ٹی نےبھی تینوں معاملات کو الگ الگ بیان کیا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ایون فیلڈ، العزیزیہ اورفلیگ شپ کے الگ الگ والیم ہیں۔

    سردار مطفرعباسی نے کہا کہ حقائق کو دیکھ لیا جائے توتینوں معاملات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، بچوں نے بالغ ہونے کے بعد جائیداد خود بنائی توآکروضاحت کردیں۔

    نیب پراسیکیوٹرسردار مظفرعباسی نے کہا کہ اتنا سادہ سا کیس ہے کسی کوتو جواب دینا ہوگا۔

    خواجہ حارث کے دلائل

    نوازشریف کے وکیل نے دلائل کا آغاز کیا توجسٹس گل حسن اورنگزیب نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایک چارٹ بنا کردیں۔

    انہوں نے کہا کہ چارٹ سے ظاہر ہوکہ کون سے الزامات مشترکہ ہیں، یہ بھی ظاہر ہو ان سے متعلق ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلہ آچکا ہے۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ قطری خط تینوں ریفرنسزکے مشترکہ شواہد میں سے ایک ہے۔

    عدالت نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ جج صاحب خود ریفرنسزکی سماعت سے معذرت کرلیں تو کیا ہوگا؟ کیا سپریم کورٹ ہائی کورٹ کےایک سے دوسرے جج کیس منتقل کرسکتی ہے۔؟

    جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ کیا انتظامی بنیاد پرکیس دوسری عدالت منتقل ہوسکتا ہے؟ جس پرنوازشریف کے وکیل نے جواب دیا کہ جب تک جج سماعت سے معذرت نہ کرے دوسری عدالت منتقل نہیں ہوسکتا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ ایک جج سے دوسرے جج کوکیس منتقلی کا حکم دے سکتی ہے عدالت نے سوال کیا کہ کیا چیئرمین نیب کے پاس اختیارہے وہ کسی اورعدالت سے کیس منتقل کرسکیں۔؟

    نوازشریف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب کے پاس اختیارنہیں کہ دوسری عدالت کیس منتقل کرسکیں، کیس منتقلی کا اختیارسپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کا ہے، چیف جسٹس ہائی کورٹ کے پاس بھی کیس منتقلی کا قانونی اختیارنہیں ہے۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد  نوازشریف کی العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنس منتقلی کی درخواست پرفیصلہ محفوظ کر لیا، جو کچھ دیر میں سنایا جائے گا۔

    ایون فیلڈ ریفرنس میں کیپٹن صفدر کی سزا کیخلاف درخواست کی سماعت کل ہو گی جبکہ نواز شریف اور مریم نواز کی اپیل پر سماعت پیر کو ہو گی۔

    خیال رہے اس سے قبل احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت بغیر کارروائی کے9 اگست تک ملتوی کردی گئی۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور میاں گل حسن اورنگزیب نے نوازشریف کے خلاف دیگر دو ریفرنسز کی منتقلی سے متعلق درخواست پرسماعت کی تھی۔

    عدالت میں سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ فرد جرم عائد ہوجائے تو ریفرنس منتقل نہیں ہوسکتا اور نہ ہی صرف اسی بناء پر کسی جج کو علیحدہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نے کسی ایک کیس میں فیصلہ دیا ہے۔

    سردار مظفرعباسی کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر 10 ماہ سے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز سن رہے ہیں اوران کا تجربہ بھی دیگر دستیاب ججزسے زیادہ ہے۔

  • العزیزیہ، فلیگ شپ ریفرنسزدوسری عدالت منتقل کرنےکی درخواست پرسماعت

    العزیزیہ، فلیگ شپ ریفرنسزدوسری عدالت منتقل کرنےکی درخواست پرسماعت

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ میں شریف خاندان کے ریفرنس منتقلی کیس اورسزا معطلی کیس سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامرفاروق اورجسٹس گل حسن اورنگزیب پرمشتمل بینچ العزیزیہ، فلیگ شپ ریفرنسزدوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست پرسماعت کررہا ہے۔

    عدالت میں نیب پراسیکیوٹرسردارمظفر اورنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث موجود ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹرسردار مظفر نے سماعت کےآغاز پرعدالت میں 27 گواہوں کی فہرست جمع کرائی اور عدالت کو آگاہ کیا کہ نیب کی جانب سے 7 گواہوں کو ترک کردیا گیا۔

    سردارمظفرعباسی نے کہا کہ العزیز یہ ریفرنس میں 18گواہ کے بیانات مکمل ہوچکے جبکہ 19 ویں گواہ پرجرح جاری ہے۔

    انہوں نےعدالت کوبتایا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں 18گواہوں کی فہرست جمع کرائی گئی جن میں 16 گواہوں کا بیان قلمبند ہوچکا جبکہ 2 کوترک کردیا گیا۔

    سردار مظفرعباسی نے کہا کہ درخواست دوسری عدالت منتقل کی تورواج بن جائے گا اور پھرکوئی جج ایک ہی طرح کا کیس دوبارہ نہیں سن سکے گا، ایسا ہوا توہربارنیا جج تعینات کرنا پڑے گا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ریفرنسزیکجا کرنےکی درخواست ہائی کورٹ نے مسترد کردی اور اس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ تینوں ریفرنسزایک ہی نوعیت کے نہیں ہیں،جج کس طرح اسی نوعیت کا دوسرا کیس نہیں سن سکتا۔؟

    سردار مظفرعباسی نے کہا کہ اس طرح ایک جج پوری زندگی میں ایک نوعیت کا ایک ہی کیس سنے گا، یہ روایت پروان چڑھ گئی تو ہر کیس کے لیے نیا جج تعینات کرنا پڑے گا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جج محمد بشیر 10ماہ سےالعزیزیہ اور فلیگ شپ کیس سن رہے ہیں اور معززجج کا دیگر دستیاب ججز سے تجربہ بھی زیادہ ہے۔

    انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اچھا وکیل اپنے دلائل اور بہتر دفاع سے جج کا ذہن بدل سکتا ہے جس پر جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ یہ ایسا کیس ہے جس میں حقائق جڑے ہوئے ہیں۔

    جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ بتائیں کل ان حقائق کو دوسرے کیس میں کیسے الگ کیا جا سکتا ہے جس پرپراسیکیوٹر نیب نے جواب دیا کہ ہمارے سب ریفرنسزبطورایڈمنسٹریٹوجج محمد بشیرکے پاس جاتے ہیں۔

    سردار مظفرعباسی نے کہا کہ اسی جج نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اسے دوسرے جج کوبھجوانا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ملزمان ایون فیلڈ ریفرنس میں بری ہوتےتوکیادرخواست لائی جاتی۔؟

    جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ بریت پراستغاثہ کیس ٹرانسفرکرنے کی درخواست لے کر آجاتی جس پرسراد مظفرعباسی نے کہا کہ ایسی درخواست نہ دیتے، ہمیں فرق نہیں پڑتا جوبھی جج چاہے کیس سنے۔

    جسٹس عامر نے کہا کہ کس بنیاد پرکہا چارج فریم کے بعد کیس دوسری عدالت منتقل نہیں کیا جاسکتا؟ جس پرنیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ چارج فریم کرنےسے پہلے ملزمان کی درخواست پرکیس منتقل کیا جاسکتا تھا۔

    سردار مظفرعباسی نے کہا کہ قانون وآئین کی بنیادی ضروت ہے کہ فریقین کوجج پراعتماد ہونا چاہیے، ٹرائل میں جرح ودفاع پیش کرنے سمیت ملزمان کوہرحق دیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ ملزم نے احتساب عدالت میں دفاع میں کچھ بھی پیش نہیں کیا، عدالت میں ملزم نے صرف یہی موقف اپنایا کہ وہ معصوم ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ عدالت میں ملزمان کی طرف سے لندن جائیداد کی ملکیت تسلیم کی گئی جبکہ ملزمان نے لندن فلیٹس کی ملکیت سے متعلق خاص مؤقف اپنایا۔

    سردار مظفرعباسی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ملزمان کی پیش دستاویزکی جانچ کے لیے جےآئی ٹی بنائی۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 90کی دہائی سے اب تک لندن فلیٹس نوازشریف، ان کے بچوں کے پاس ہیں۔

  • عمران خان کو وزارت عظمیٰ کاحلف اٹھانے سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

    عمران خان کو وزارت عظمیٰ کاحلف اٹھانے سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے روکنے سے متعلق درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ، جوکچھ دیر میں سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو وزارت اعظمی کا حلف لینے سے رکوانے کی درخواست پر سماعت کی۔

    درخواست گزار حافظ احتشام ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔

    درخواست گزار نے کہا کہ عمران خان آرٹیکل باسٹھ کے تحت رکن قومی اسمبلی بننے کے اہل نہیں، ریحام خان نے اپنی کتاب میں عمران خان پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے ہیں، ایسے شخص کا وزیراعظم بننا ملکی سالمیت اور وقار کیخلاف ہے۔

    دائر درخواست میں کہا گیا کہ عدالت ریحام خان کو بھی لگائے جانے الزامات کے شواہد فراہم کرنے کا حکم دے۔

    درخواست میں وفاق، الیکشن کمیشن، اسپیکر قومی اسمبلی اور ریحام خان کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔

    عدالت نے دلائل سننے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو وزارت اعظمی کا حلف لینے سے رکوانے کی درخواست قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    فیصلہ کچھ ہی دیر میں سنایا جائے گا۔

    یاد رہے کہ عمران کان کی تقریب حلف برداری کی تقریب 13 اگست کو ہونے کا امکان ہے، جس میں غیر ملکی شخصیات کو مدعو نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ عمران خان نے تقریب سادگی سے منعقد کرنے کی ہدایت کی، عمران خان سادگی سے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھائیں گے، تقریب سے کسی قسم کے تعیش یا تکلف کا اظہار نہیں کیا جائے گا۔

  • نوازشریف، مریم نواز، کیپٹن صفدرکی سزا کے خلاف اپیلوں پرسماعت

    نوازشریف، مریم نواز، کیپٹن صفدرکی سزا کے خلاف اپیلوں پرسماعت

    اسلام آباد : ایون فیلڈ ریفرنس میں قید کی سزا پانے والے نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی ضمانت کی درخواستوں پراسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس عامرفاروق اورجسٹس گل حسن اورنگزیب پرمشتمل بینچ شریف خاندان کی ضمانت کی درخواستوں پرسماعت کررہا ہے۔

    عدالت میں سماعت کا آغاز ہوا تاو جسٹس عامرفاروق نے ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب کو کہا کہ وہ پہلے دو ریفرنسز کی دوسری عدالت منتقلی کی درخواست پردلائل دیں۔

    نیب پراسیکیوٹرسردار مظفرعباسی نے کہا کہ سب سے پہلے درخواست کے قابل سماعت ہونے پرفیصلہ کیا جائے۔

    سابق وزیراعظم ‌نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دو ریفرنسز کی دوسری عدالت منتقل کرنے سے متعلق درخواست پردلائل دیتے ہوئے کہا کہ احتساب عدالت فیصلہ سناچکی ہے جبکہ العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس زیرالتواء ہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ تینوں ریفرنسز آمدن سے زائد اثاثوں کے ہیں جس پر جسٹس میاں گل حسن استفسار کیا کہ آپ سمجھتے ہیں تینوں ریفرنسز میں الزام ایک ہی ہے؟، آپ سمجھتے ہیں ایک کا فیصلہ ہو گیا تودوسرے کا نہیں ہوسکتا۔؟

    خیال رہے کہ مسلم لیگ کے قائد نوازشریف طبیعت کی خرابی کے باعث پمز اسپتال میں زیرعلاج ہیں جبکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹم صفدر اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔

    نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو قید کی سزا اور جرمانہ

    واضح رہے کہ احتساب عدالت کی جانب سے 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواشریف کو 11، مریم نواز کو 8 اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

    نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز 13 جولائی کو جب لندن سے وطن واپس لوٹے تو دونوں کولاہور ایئرپورٹ پرطیارے سے ہی گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • گورنراسٹیٹ بینک کی تقرری کا معاملہ: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرلیا

    گورنراسٹیٹ بینک کی تقرری کا معاملہ: سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت سے جواب طلب کرلیا

    لاہور: سپریم کورٹ نے گورنراسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی تقرری کا مکمل ریکارڈ آئندہ سماعت پرطلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں گورنراسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی تقرری کے خلاف درخواست پرچیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    سپریم کورٹ میں گورنراسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی تقرری پیپلزپارٹی کے سینیٹرتاج حیدرنے چیلنج کی۔

    سینیٹرتاج حیدر کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ تقرری بغیر اشتہار اورقواعد کے برعکس کی گئی۔

    انہوں نے درخواست میں موقف اختیار کیا کہ تقرری کے لیے طارق باجوہ میرٹ پرپورانہیں اترتے، عدالت طارق باجوہ کی تقرری کالعدم قرار دے۔

    اسٹیٹ بینک کےگورنر کی تقرری قانون کےمطابق قرار

    خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے 22 سینیٹرز کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے گورنراسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی تقرری کو قانون کے مطابق قراردیا تھا۔

    واضح رہے کہ ایف بی آر کے سابق چیئرمین طارق باجوہ کو 7 جولائی 2017 کو 3 برس کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا گورنرتعینات کیا گیا تھا۔

    بعدازاں 16 اگست 2017 کو سینیٹرتاج حیدر، فرحت اللہ بابر، سسی پلیج، فاروق ایچ نائیک اور دیگر سینیٹرز نے اس تقرری کو چیلنج کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اسٹیٹ بینک کےگورنر کی تقرری قانون کےمطابق قرار

    اسٹیٹ بینک کےگورنر کی تقرری قانون کےمطابق قرار

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے گورنراسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی تقرری کے خلاف 22 سینیٹرز کی درخواست مسترد کرتے ہوئے تقرری قانون کے مطابق قرار دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے 22 سینیٹرز کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے گورنراسٹیٹ بینک طارق باجوہ کی تقرری کو قانون کے مطابق قرار دے دیا۔

    پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے 22 سینیٹرز نے گورنراسٹیٹ بینک کی تقرری اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کی تھی۔

    درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا تھا کہ گورنراسٹیٹ بینک کی تعیناتی میں مسابقتی عمل اختیار نہیں کیا گیا اس لیے انہیں عہدے سے فارغ کیا جائے۔

    گورنراسٹیٹ بینک کی تقرری کے خلاف 16 اگست کو سینیٹ میں قرارداد بھی پاس کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ تقرری کے طریقہ کار کو نظرانداز کیا گیا ہے جوکہ آئین کے آرٹیکل -4 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔

    خیال رہے کہ ایف بی آر کے سابق چیئرمین طارق باجوہ کو 7 جولائی 2017 کو 3 برس کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا گورنرتعینات کیا گیا تھا

    بعدازاں 16 اگست 2017 کو سینیٹرتاج حیدر، فرحت اللہ بابر، سسی پلیج، فاروق ایچ نائیک اور دیگر سینیٹرز نے اس تقرری کو چیلنج کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔