Tag: اسلام آباد ہائی کورٹ

  • سیاسی نوعیت کی پٹیشن عدالت لانے پر اسلام آباد ہائی کورٹ شیخ رشید پر شدید برہم

    سیاسی نوعیت کی پٹیشن عدالت لانے پر اسلام آباد ہائی کورٹ شیخ رشید پر شدید برہم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیاسی نوعیت کی پٹیشن عدالت لانے پر سابق وزیرداخلہ پرشدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تنبیہ کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں باہتررکنی وفاقی کابینہ کیخلاف سابق وزیرداخلہ شیخ رشید کی درخواست پر سماعت ہوئی۔

    شیخ رشید وکیل کے ساتھ پیش ہوئے، سیاسی نوعیت کی پٹیشن عدالت لانے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے تنبیہ کی کہ آئندہ ایسی پٹیشن لائی تومثالی جرمانہ عائد کریں گے۔

    عدالت نے استفسار کیا کہ پٹشنر جب حکومت میں تھے تو کیا آپ نے وہ معاونین خصوصی، مشیروں کی لسٹ لگائی ہے؟

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا شیخ صاحب آپ کا احترام ہے، آپ پارلیمنٹ کی بے توقیری نہ کریں، یہی مائنڈ سیٹ ہے جس نے پارلیمنٹ کو نقصان پہنچایا۔

    شیخ رشید کے وکیل نے کہا اس حوالے سے عدالت کےسوا ہمارے پاس اورکوئی فورم نہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اِس پارلیمنٹ کی بے توقیری بہت ہوچکی، ایسی پٹیشن عدالت نہیں آنی چاہیے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ میں منتخب نمائندے ہیں، وہ فورم ہے،عدالت مداخلت نہیں کرے گی، عدالت بھی پارلیمنٹ کا احترام کرتی ہے،غیر ضروری ایگزیکٹوکےاختیارات میں بھی مداخلت نہیں کرتی۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ آپ کا انفرادی بنیادی حقوق متاثر ہو رہا ہے توعدالت آئیں لیکن اس طرح نہیں، جرمانہ بھی کر سکتے تھے لیکن تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ جوبھی مقابلہ کرنا ہے ، جائیں پارلیمنٹ میں، اُس سے بڑا فورم کوئی نہیں، حکومت کا احتساب پارلیمنٹ خود کرتی ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا آپ عدالت کوپارلیمنٹ کےاحتساب میں کیوں لارہےہیں؟ شیخ صاحب عدالتوں کوان سیاسی معاملات سےدور رکھیں۔

    اس پر شیخ رشید نے استدعا کی کہ پٹیشن واپس لے لیتے ہیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے پارلیمنٹ سپریم ہے، اس طرح کے معاملات پارلیمنٹ میں حل کریں، آئندہ ایسی درخواست آئی تو بھاری جرمانہ کریں گے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا اس حوالےسےمناسب حکم جاری کریں گے،ماضی میں عدالتوں کاغلط استعمال کیاگیا،اب اس کوختم ہونا چاہیے۔

  • پیمرا کی اے آر وائی نیوز کیخلاف کارروائی انصاف کی اصولوں کے خلاف ہے، تحریری حکم نامہ

    پیمرا کی اے آر وائی نیوز کیخلاف کارروائی انصاف کی اصولوں کے خلاف ہے، تحریری حکم نامہ

    اسلام آباد: اسلام آباد ہائی کورٹ نے اے آر وائی نیوز کی نشریات بحالی کے تحریری حکم نامے میں کہا ہے کہ پیمرا کی کارروائی انصاف کی اصولوں کے خلاف ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اے آر وائی نیوز کی نشریات بحالی کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا تحریری حکم نامہ 3 صفحات پر مشتمل ہے ، جس میں پیمراکےمجازافسرکواےآروائی نیوزکا دورہ کرکےٹائم ڈیلے میکنزم دیکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    تحریری حکم نامے میں کہنا تھا کہ ہائی کورٹ نے پیمرا کو پیر کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے۔

    عدالت نے حکم نامے میں کہا ہے کہ شوکاز نوٹس اور پیمرا کا آرڈر نشریات معطل کرنے کا جواز نہیں دے رہے، عدالت کے سامنے یہ بات عیاں ہوئی کہ پیمرا کی کارروائی جلدی میں کی گئی۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ پیمرا کی کارروائی انصاف کی اصولوں کے خلاف ہے، اگر ٹائم ڈیلے مکینزم انسٹال نہیں تھا اسکے باوجود نشریات کی معطلی اختیارات سے تجاوز ہے تو پیمرا کا مجاز آفیسر چینل کا وزٹ کرکے ٹائم ڈیلے میکنزم دیکھے۔

    چینل میں ٹائم ڈیلےمیکنزم موجود ہے تو پیمرا لائیو ٹرانسمیشن بحال کرے، لائیو ٹرانسمیشن ٹائم ڈیلے میکنزم پر سختی سے عمل در آمد سے مشروط ہوگا۔

  • پی ٹی آئی کی 9 حلقوں میں الیکشن روکنے کی درخواست مسترد

    پی ٹی آئی کی 9 حلقوں میں الیکشن روکنے کی درخواست مسترد

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی 9 حلقوں میں الیکشن روکنے کی درخواست مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی کے مخصوص استعفوں کو منظور کرنے کے اسپیکر کے فیصلے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

    دوران سماعت عدالت نے پی ٹی آئی کی 9 حلقوں میں الیکشن روکنے کی درخواست خارج کردی۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے عدالت اسپیکر کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کا طریقہ کار موجود ہے، عدالت اسپیکر کو استعفے منظور کرنے یا نہ کرنےکا حکم نہیں دے سکتی۔

    گذشتہ ماہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی کی جانب سے قومی اسمبلی کے9 حلقوں میں ضمنی انتخابات کا شیڈول فوری معطل کرنے کی استدعا مسترد کی تھی۔

    واضح رہے کہ پی ٹی آئی کے 9 اراکین کے استعفے منظور ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے ان حلقوں میں 25 ستمبر کو ضمنی الیکشن کرانے کا شیڈول جاری کیاتھا۔

    پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے تمام حلقوں سے خود الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے جس میں تمام حلقوں نے ان کے کاغذات منظور کرلیے گئے ہیں۔

  • عمران خان کی دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت آج ہوگی

    عمران خان کی دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم عمران خان کی دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت آج ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی چیئرمیں عمران خان کی ایڈیشنل سیشن جج کو دھمکی دینے پر دہشت گردی کے مقدمے کو خارج کرنے کی درخواست پر آج سماعت ہوگی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کیس کی سماعت کرے گا، جسٹس ثمن رفعت بینچ میں شامل ہیں۔

    یاد رہے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دہشت گردی کا مقدمہ خارج کرنے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست دائر کی تھی۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ میں پاکستان سابق وزیر اعظم رہا ہوں اور ملک کو کرکٹ کا ورلڈ کپ جتوایا ہے، یں نے ملک میں امن قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی، امریکا کا

    عمران خان کا کہنا تھا کہ آئی جی، ڈی آئی جی، خاتون مجسٹریٹ سے متعلق بیان پر مقدمہ کیا گیا، میں نے تینوں افسران کے حوالے قانونی کارروائی کا کہا تھا۔

    عمران خان نے درخواست میں استدعا کی تھی کہ میرے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ غیر قانونی قرار دیا جائے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کی پیمرا کو اے آر وائی نیوز کی نشریات بحال کرنے کیلئے ایک گھنٹے کی مہلت

    اسلام آباد ہائی کورٹ کی پیمرا کو اے آر وائی نیوز کی نشریات بحال کرنے کیلئے ایک گھنٹے کی مہلت

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیمرا کو اے آر وائی نیوز کی نشریات بحال کرنے کیلئے ایک گھنٹے کی مہلت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں اے آر وائی نیوز کی نشریات کی بندش کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

    سینئر وکیل اعتزاز احسن اوراے آر وائی انتظامیہ و دیگرعدالت میں پیش ہوئے جبکہ پیمرا کی جانب سے سے مجاز افسر عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا چینل کیوں بند ہے؟َ پیمرا آفیسر نے بتایا کہ اےآروائی نیوز کو ہم نے بند نہیں کیا۔

    عدالت نے پیمرا افسر سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے کہہ دیا آپ نے چینلز بند نہیں کیا تو آپ کا بیان آگیا،عدالت کیساتھ گیم کھیلنا بندکرے، عدالت آرڈر جاری کرے گی۔

    عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا 4ہزار افراد یہاں ملازمین ہیں ان کی بنیادی زندگی خطرے میں ہے، 8 اگست سے چینل بند ہے ،آپ نے بند نہیں کیا تو بحال کیوں نہیں کیا؟

    وکیل پیمرا نے بتایا کہ کیبل آپریٹرز کو آج شوکاز نوٹس جاری کرچکے ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ملک کیبل آپریٹرز چلا رہا ہے، ابھی جاکر چینل کو پرانی پوزیشن پر بحال کریں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے اے آر وائی نیوز کی نشریات بحال کرنے کیلئے ایک گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے کہا ابھی جاکر چینل کو پرانی پوزیشن پر بحال کریں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایک گھنٹے کے اندر نشریات نہ بحال ہونے پر چیئرمین پیمرا اور سیکریٹری وزارت اطلاعات و نشریات کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔

    عدالت نے سیکریٹری اطلاعات کو نشریات بحالی کیلئے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کردی۔

    اعتزاز احسن کا کہنا تھاکہ عدالت چینل نشریات کو پرانے نمبر پربحالی کا حکم دے، جس پر عدالت نے کہا کہ ان کابیان حلفی موجود ہےاور اس عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے، یہ جب چاہیں چینل نشریات بند کریں ایسا نہیں ہوگا۔

    عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ جاکر سیکریٹری اطلاعات کو آگاہ کریں، حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کرے گی۔

    عدالت نے کہا چینل 1بجے تک بحال نہ ہوا تو چیئرمین پیمرا ،سیکریٹری اطلاعات کیخلاف کارروائی کریں گے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیمرا افسر سے مکالمے میں کہا ابھی جائیں اور چینل کو ابھی آن ائیر کریں، آپ نے نہیں بند کیا تو بھی جائیں اور کھولیں۔

    پیمرا وکیل نے پوچھا مجھے اجازت ہے بولنے کی؟ جس پر چیف جسٹس نے پیمرا حکام کو بولنے سے روک دیا اور کہا آپ نے جو بولنا تھا بول دیا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پیمرا کی ڈیوٹی ہے ریگولیٹر کے طور پر لازم ہے کہ چینل ایک گھنٹے تک کھولیں، پیمرا نے بیان دے دیا کافی ہے،اے آر وائی کے چار ہزار ملازمین ہیں۔

    پیمرا حکام نے استدعا کی ایک فقرہ مجھے بولنے دیں ، جس پر عدالت نے کہا آپ فقرہ اس لیے نہ کہیں ایک ریاست ہے وہ ریاست کسی قانون کے تحت چلتی ہے، آئین کی عملداری ہو گی۔

    پیمرا حکام کا کہنا تھا کہ ہم قانون کے پیرا میٹر کے تحت چلتے ہیں ، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ 8 اگست سے چینل بند ہے یہ کافی ہے چیئرمین پیمرا کے خلاف ایکشن لینے کیلئے، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ کیبل آپریٹر اس ملک کو چلا رہے ہیں؟ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ ایک منٹ میں پیمرا یہ کھول سکتا ہے۔

    بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ نے اے آر وائی نیوز کی بندش پر سوالات اٹھا دیے

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے اے آر وائی نیوز کی بندش پر سوالات اٹھا دیے

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے اے آر وائی نیوز کی بندش پر سوالات اٹھا دیے اور کہا اے آر وائی نیوز کی نشریات ابھی تک بحال کیوں نہیں ہوئیں۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز نشریات بحالی پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریری حکم نامہ جاری کردیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے اے آر وائی نیوز کی بندش پر سوالات اٹھا دیے اور کہا اے آر وائی نیوز کی نشریات ابھی تک بحال کیوں نہیں ہوئیں؟

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے پیمرا کے مجاز آفیسر کو طلب کر لیا۔

    مزید پڑھیں : اسلام آباد ہائی کورٹ کا بھی اے آر وائی نیوز کی فوری بحال کرنے کا حکم

    عدالتی حکم میں کہنا ہے کہ اے آر وائی نیوز کے ملازمین نے چینل بحالی کے لیے عدالت سے رجوع کیا، چینل کی بندش سے ملازمین کا بنیادی آئینی حق متاثر ہو رہا ہے۔

    عدالت نے کہا کہ ملازمین کے وکیل نے عدالت کی توجہ نشریات بحالی کے سندھ ہائی کورٹ کی جانب کروائی، سندھ ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود چینل نشریات بحال نہیں کی گئی۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ پیمرا حکام پیش ہو کر بتائیں کہ اے آر وائی کی نشریات کیوں بحال نہیں کی گئی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیمرا حکام کو کل صبح ساڑے دس بجے طلب کر لیا اور تحریری حکم نامہ کی کاپی چئیرمین پیمرا کو ارسال کر دی ہے۔

  • توہین عدالت کیس : عمران خان کو 7دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم

    توہین عدالت کیس : عمران خان کو 7دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 7دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی ، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان عدالتی حکم پرذاتی حیثیت میں پیش ہوئے۔

    اٹارنی جنرل اشترو اوصاف ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال عدالت ، عمران خان کی لیگل ٹیم ،بابر اعوان ، اعظم سواتی اوردیگر سمیت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

    ا توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کا تحریری جواب پڑھ لیا ہے جو کہا گیا توقع نہیں تھی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا حامد خان صاحب آپ عمران خان کے وکیل ہونگے ؟ ہمیں بہت خوشی ہے اس اہم معاملے میں آپ یہاں وکیل ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ مجھے ایسے بیانات کی بالکل بھی توقع نہیں تھی، آپ کےموکل کا ماتحت عدلیہ کے بارے میں بیان کی توقع نہ تھی،ماتحت عدلیہ ایلیٹس کی عدلیہ نہیں اسے اہمیت دینےکی ضرورت ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ 70 سال میں عام آدمی کی ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں رسائی نہیں ہے ، کم از کم جو جن حالات میں رہ رہے ہیں وہ بھی دیکھنا چاہیے، میں توقع کر رہا تھا احساس ہو گا کہ غلطی ہو گئی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جن مشکل حالات میں ضلع کچہری میں ججز کام کررہے ہیں وہ سب کےسامنے ہیں، میں یہ توقع کررہا تھا کہ اس پر شرمندگی اورافسوس کیا جائے گا لیکن جس طرح گزرا وقت واپس نہیں آتا زبان سے کہے الفاظ واپس نہیں ہوتے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کے فالوورز ہوتے ہیں کچھ کہتے ہوئےسوچنا چاہیے ، گزشتہ 3سال میں بغیر کسی خوف کے ہم نے ٹارچر کا ایشو اٹھایا ہے، ماتحت عدلیہ کو اہمیت دینی ہے، عمران خان کےتحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر تسلی نہیں ہوئی۔

    انھوں نے کہا کہ عمران خان کوکریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ہمارے کہنے پرجوڈیشل کمپلیکس بنایا،عمران خان اس عدلیہ کے پاس جاکر اظہار کرتے کہ انہیں عدلیہ پر اعتماد ہے، چیف جسٹس

    چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ عمران خان کے اس الفاظ میں ایک خاتون جج کو دھمکی دی گئی، تحریری جواب میں ہمیں جو امید نظر آرہی تھی، وہ نہیں ملی۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 3سال میں یہ عدالت وفاقی کابینہ کو معاملات بھیجتی رہی کاش اسوقت بھی آواز اٹھاتے ، آپ کے جواب سے اندازہ ہوا کہ عمران خان کو احساس نہیں ، جواب سے لگتا ہے عمران خان کو احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ؟

    دوران سماعت اسلام آبادہائی کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون کو بات کرنے سے روک دیا اور کہا آپ خاموش رہیں یہ عدالت اور مبینہ توہین عدالت کے ملزم کامعاملہ ہے۔

    چیف جسٹس نے حامد خان سے مکالمے میں کہا کہ آپ اپنے آپ کو صرف عمران خان کا وکیل نہ سمجھیں، آپ اس کورٹ کے معاون بھی ہیں۔

    شہباز گل ٹارچر کیس پر اسلام آبادہائیکورٹ نے حکم جاری کیا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا عمران خان کے سارے بیانات ریکارڈ پر لے آتاہوں۔

    عدالت کی شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر کو شہباز گل کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی ، شہباز گل کے وکیل سلمان صفدر نے کیس کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا اڈیالہ جیل کس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے؟ ٹارچر کی شکایت ہو تو کیا جیل حکام ملزم کوبغیرمیڈیکل داخل کرتےہیں؟

    جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا یہ پٹیشن اسلام آباد ہائیکورٹ سےکب نمٹائی گئی اورتقریر کب کی گئی؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ پٹیشن 22 اگست کو نمٹائی گئی اور تقریر 20 اگست کو کی گئی تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التوا تھا تو تقریر کی گئی۔

    چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا آپ نے توہین عدالت معاملے پر فردوس عاشق اعوان کی ججمنٹ پڑھی ہو گی، پیکا آرڈیننس کے تحت اداروں پر تنقید کرنیوالوں کو 6 ماہ ضمانت بھی نہیں ملناتھی،اس عدالت نے اس کو کالعدم قرار دیا تو عدالت کے خلاف مہم چلائی گئی۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ عدالت نے اس کی کبھی پرواہ نہیں کی،عمران خان نے کہا کہ عدالتیں کیوں بارہ بجے کھلیں، عدالت کسی کوجوابدہ نہیں، یہ ہر کسی کے لیے کھلی رہتی ہے ، یہ عدالت رات کو کھلی کہ 12 اکتوبر 1999 کا واقعہ نہیں ہوگا۔

    چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ تمام چیزوں کی جان کاری کے باوجود پبلک اسٹیٹمنٹ دیا گیا، بڑے احترام کیساتھ اس عدالت نے توہین عدالت جیسے معاملات کوکم کردیا، اس عدالت کے تمام ججز نے خود کو آگے کیا، جتنا تنقید کرنا ہےکریں۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ بڑے اچھے الفاظ میں انہوں نے گلہ کیا،انہی الفاظ میں جوکہ بنتا نہیں تھا ، خاتون جج سے گلہ کرتے، ججز اور کورٹ ، جوڈیشری پرجتنی تنقید کرنی ہے کریں۔

    جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ سیاسی لیڈرز کےاس وقت کے بیانات آپ دیکھ لیں ،سیاسی لیڈر کی بہت حیثیت ہوتی ہے ہر وقت بہت اہم ہوتا ہے، کسی عدالت کے کسی جج پر کوئی اثرانداز نہیں ہوسکتا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت نے صرف قانون پر جانا ہے اور آئین پر عملدرآمد کرنا ہے، ملک میں کوئی بھی سیاسی رہنما آئین کی سپرمیسی پر کام نہیں کرتا، اس عدالت کے لیے سب سے اہم ماتحت عدلیہ ہے۔

    چیف جسٹس نے طلال چوہدری، نہال ہاشمی اور دانیال عزیز کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا سیاسی جماعت کیخلاف کوئی فیصلہ دیں توسوشل میڈیا پر ٹرینڈ شروع ہوجاتے ہیں،میری اور ایک قابل احترام جج کی تصویر تھی، اس کو سیاسی جماعت کارہنما بنادیاگیا، اس ادارے کو اگر سیاسی جماعتوں نے اہمیت نہ دی تونتائج سنگین ہوں گے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیاپرججزکی تصویریں لگا کر الزامات لگائے جاتے ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے فالوورز کو منع نہیں کرتی۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے جواب میں کہا ہے مگر حقیقت میں احساس ہی نہیں، یہ عمران خان جیسے رہنما کاجواب نہیں ہے، جس پروکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ مجھے جواب کو واضح کرنے کا موقع دیا جائے۔

    ہائی کورٹ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اس عدالت نے کبھی بھی پروا نہیں کی کون کیا کہتا ہے ،سیاسی لیڈرشپ نے سوشل میڈیا کو خراب کیا ہے کوئی سیاسی لیڈر کہہ دے کہ سوشل میڈیا پر ایسا نہیں کرنا تو یہ رک جائے ، مجھے کبھی فلیٹ دلا دیا گیا کبھی تصویر معزز جج کیساتھ وائرل کردی گئی ، مگرایسی باتیں ہم پر اثرانداز نہیں ہوتیں۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے وکیل حامد خان سے مکالمے میں کہا کہ آپ نے جو جواب جمع کرایا وہ عمران خان جیسے لیڈر کے نہیں ہوسکتے۔

    جس پر حامد خان نے بتایا کہ میں نے درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے کا نکتہ بھی اٹھایا ہے، اس کے علاوہ بھی باتیں کی ہیں، جواب کاصفحہ نمبر 10 ملاحظہ کریں۔

    عدالت نے واضح کیا کہ توہین عدالت کو ہم غلط استعمال نہیں ہونےدیں گے، جس پر وکیل ،حامد خان کا کہنا تھا کہ نوٹس کے دائرہ اختیار، قابل سماعت ہونے پردلائل دوں گا، م نے جواب میں صرف اپنی ایک پوزیشن کوواضح کیا، عمران خان کا ایسا ارادہ نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل افسرکےبارےمیں یہ کہیں۔

    چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ تمام عدالتی کارروائی کو شفاف رکھیں گے، توہین عدالت کیسز پرسپریم کورٹ فیصلوں پرعمل لازم ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ آپ نے جو بھی لکھ کر دینا ہے سوچ سمجھ کر لکھیں، آپ اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ لگائیں۔

    جسٹس گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے توہین عدالت کارروائی آج ختم ہو سکتی تھی مگرجواب سے ایسا نہیں ہوا، آپ کو جواب داخل کرانے کا ایک اور موقع دیا گیا ہے،آپ سوچیں۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ بتائیں کہ کیا کیس میں کسی کو عدالتی معاون بھی مقرر کریں، ملک میں تبدیلی تب آئےگی جب تمام ادارے اپنا کام آئین کے مطابق کریں۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے پہلے جواب پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا عمران خان کو جواب جمع کرانے کا ایک اور موقع دیتے ہیں۔

    عدالت نے عمران خان کو 7دن میں دوبارہ تحریری جواب جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس نے وفاق کے نمائندے کو ہدایت کی کہ آپ بھی بغاوت اور غداری کے کیسز پر نظرثانی کریں، آپ ہمیں الزام دیتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 130 ویں نمبر پر ہے،ہم نے ایک کیس میں فواد چوہدری کو بتایا کہ وہ نمبر عدلیہ کانہیں ایگزیکٹو کاتھا، پولیس آرڈر کونافذ کرنے کا حکم دیا اور وفاقی حکومت نے اس میں مزاحمت کی۔

    عدالت نے منیر اے ملک ، مخدوم علی خان اور پاکستان بار کونسل کو عدالتی معاون مقرر کردیا ، اٹارنی جنرل نے کہا عمران خان کے جواب کی پیشگی نقول عدالتی معاونین کوفراہم کرنےکا کہا جائے۔

    عمران خان کے وکیل نے فواد چوہدری کے بیانات سے لاتعلقی کردی بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سماعت 8ستمبر تک ملتوی کردی۔

    گذشتہ روز عمران خان توہین عدالت کےشوکازنوٹس کاجواب عدالت میں جمع کرا چکےہیں۔

    ایڈووکیٹ حامدخان کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں عمران خان نے خاتون جج زیبا چوہدری سےمتعلق الفاظ واپس لینے کی پیشکش کی تھی۔

    جواب میں کہا گیا تھا کہ عمران خان ججوں کے احساسات مجروح کرنے پر یقین نہیں رکھتے ، انھوں نے پوری زندگی قانون اور آئین کی پابندی کی ہے اور آزاد عدلیہ پر یقین رکھتے ہیں، عدالت تقریر کا سیاق وسباق کے ساتھ جائزہ لے۔

    عمران خان نے جواب میں توہین عدالت کا شو کاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کی تھی۔

  • عمران خان کی براہ راست تقریر نشر کرنے پر پابندی کا نوٹی فکیشن معطل

    عمران خان کی براہ راست تقریر نشر کرنے پر پابندی کا نوٹی فکیشن معطل

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی براہ راست تقریر نشر کرنے پر پابندی کا نوٹی فکیشن معطل کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے براہ راست تقریر نشر کرنے پر پابندی کے خلاف درخواست پرسماعت ہوئی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کی ، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ملک میں سیلاب متاثرین کےلیےعمران خان ٹیلی تھون کرنا چاہتے ہیں،ٹیلی تھون سے سیلاب متاثرین کیلئے بڑی رقم اکٹھی ہوگی۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ عمران خان خاص طور پر بیرون ملک پاکستانیوں سے فنڈ ریزنگ کریں گے، پیمرا کے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی تقریر قومی مفادکے خلاف ہے۔

    عدالت نے پیمرا کا نوٹیفکیشن اورعمران خان کی تقریرپڑھنے کی ہدایت کی ، چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ کہا گیا جج کو چھوڑیں گے نہیں۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کیا پارٹی لیڈر نے اپنے فالورز کو کہا کہ خاتون جج کونہیں چھوڑنا؟ میرے بارے میں کہا جاتا توکوئی بات نہیں ،لیکن خاتون جج کو دھمکیاں دی گئیں۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ٹارچر ناقابل معافی ہے اور خاتون جج کو دھمکیاں دینا اس سے بھی زیادہ ناقابل معافی ہے، پورے تنازع سے شہباز گل کے فئیر ٹرائل کو متنازع بنا دیا گیا، ٹارچر ایک الگ مسئلہ ہے آپ نے اس کو بھی متنازعہ بنایا۔

    بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ پیمرا کہتا ہے کہ چینل نے ٹائم ڈیلے کی پالیسی نہیں اپنائی، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا سارے چینلز نے بغیر ٹائل ڈیلے کے دکھایا ہے؟ پھر تو یہ ذمہ داری نیوز چینلز پر آتی ہے، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ پھر یہ لائیو تو چلتا ہی نہیں۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ 12سیکنڈز کا ٹائم ڈیلے ہوتا ہے تاکہ غلط بات سینسر کی جا سکے، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پھر تو ایکشن نیوز چینلز کے خلاف ہونا چاہئے،کوئی سزا یافتہ نہیں تو اس پر ایسی پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ پیمرا نوٹیفکیشن آرٹیکل 19 اے کی بھی خلاف ورزی ہے ،پیمرا کا کام تھا کہ ٹائم ڈے لے یقینی بناتا ، جتنی سیاسی بحث ہو گی اس ملک کے اتنا ہی بہتر ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہمارے تھانوں کا کلچر ہے کہ ٹارچر ہوتا ہے، جس جذبے سے اپوزیشن میں بولتے ہیں اگر حکومت میں آ کر بولیں توصورتحال مختلف ہو، یہ قوم آج بھی تقسیم ہے اور اسے متحد کرنے کی ضرورت ہے۔

    بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ چینلز نے ٹائم ڈیلے نہیں کیا تو پیمرا نے عمران خان کی لائیو تقاریر پر پابندی لگا دی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایگزیکٹو جب حکومت میں ہوتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ تھانے میں ٹارچر ہوتا ہے، آج تک کسی بھی ایگزیکٹو نے ٹارچر کو ایشو کے طور پر نہیں دیکھا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے حوالے سے پیمرا کا حکم نامہ معطل کردیا۔

    جسٹس اطہرمن اللہ نے فیصلہ سناتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی براہ راست تقریر نشر کرنے پر پابندی کا نوٹی فکیشن معطل کرتے ہوئے پیمراکا نوٹیفکیشن آئندہ سماعت تک معطل کرنے کا حکم دے دیا۔

    ہائیکورٹ نے کہا بادی النظرمیں پیمرا نے تقریر پر پابندی لگا کر اختیار سےتجاوزکیا، موجودہ حالات میں عمران خان کی تقریر پر پابندی کی مناسب وجہ نظر نہیں آتی۔

    وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اپنے بیان پر شوکاز نوٹس مل چکا ہے،عمران خان کے خلاف مقدمہ بھی درج ہو چکا ہے۔

    فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے عدالت میں کہا میں نے شہباز گل پر تشدد کے نشانات دیکھے ہیں، جس پر چیف جسٹس
    نے ریمارکس دیے کہ ٹارچر کا الزام ہے تو اس کو ہینڈل کرنے کا بھی ایک طریقہ ہے، جو کچھ کیا گیا وہ طریقہ کم از کم ہرگز نہیں ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ آج تک کسی سیاسی جماعت کے لیڈر نے فالورز کو کہا ہے کہ آپ ایسا نہ کریں، ہر سیاسی جماعت نے سوشل میڈیا سیل بنا رکھے ہیں، کوئی قابل اعتراض بات ہوتواس کیلئےتوہین عدالت کی کارروائی چل رہی ہے، اس بنیاد پر کسی کی تقریر پر مستقل پابندی تو نہیں لگائی جا سکتی۔

    عدالت نے ہدایت کی پیمرا ایک افسر نامزد کرے جو پیش ہوکرنوٹی فکیشن کی وضاحت کرے، پیمرا کا نوٹی فکیشن آئندہ سماعت 5 ستمبر تک معطل رہے گا۔

    بعد ازاں اسلام آبادہائیکورٹ نے درخواست پر سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

  • دہشت گردی کا مقدمہ: پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا گیا

    دہشت گردی کا مقدمہ: پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا گیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے دہشت گردی کے مقدمے میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی تین روز کے لیے راہداری ضمانت منظور کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کیخلاف دہشتگردی کے مقدمے میں درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ عمران خان کی درخواست ضمانت پراعتراض ہے، جس پر عمران خان کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا پولیس نے عمران خان کے گھر کا گھیراؤ کررکھا ہے۔

    بابر اعوان نے بتایا کہ عمران خان ٹرائل کورٹ میں پیش ہونا چاہتے ہیں لیکن عمران خان اگر عدالت آتے ہیں تو پولیس گرفتارکرلے گی، استدعا ہے حفاظتی ضمانت منظور کی جائے۔

    جس پر جسٹس محسن اخترکیانی نے ریمارکس دیے ابھی تو پٹیشن انٹرٹین نہیں ہوئی عدالت کو اس پراعتراض ہے۔

    جس پر عمران خان کے وکیل نے کہا انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج چھٹی پر ہیں، اسی وجہ سے ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔

    جسٹس محسن اخترکیانی نے کہا اعتراض ہے بائیومیٹرک نہیں کرایا گیا، جس پر بابراعوان نے کہا پولیس نے عمران خان کے گھرکا گھیراؤ کر رکھا ہے، وہ یہاں کیسے آسکتے ہیں۔

    بعدازاں عدالت نے درخواست پر اعتراض ختم کرتے ہوئے اسلام آباد پولیس کو عمران خان کی گرفتاری سے روک دیا۔

    عدالت نے عمران خان کی 25 اگست تک راہداری ضمانت منظور کرلی اور عمران خان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دیا۔

  • عمران خان کا گرفتاری سے بچنے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع

    عمران خان کا گرفتاری سے بچنے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع

    اسلام آباد : تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے گرفتاری سے بچنے کے لئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے دہشت گردی کے مقدمے میں ضمانت قبل ازگرفتاری کی درخواست دائر کر دی۔

    عمران خان کی جانب سے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی، جس میں کہا ہے کہ عدالت جب کہے مقدمے میں شامل تفتیش ہونے کو تیار ہوں۔

    درخواست میں کہا گیا ہے کہ ماضی میں کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں اور نہ ہی کبھی سزا ہوئی، فرار ہونے یا پراسیکیوشن کے شواہد خراب کرنے کا امکان تک نہیں۔

    عمران خان نے درخواست میں کہا ہے کہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کو تیار ہوں ، ضمانت منظورکی جائے۔

    یاد رہے عمران خان نے رات گئے بنی گالہ میں قانونی ٹیم سے مشاورت کی اور انسداد دہشت گردی کے مقدمے پر عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے قانونی دستاویزات پر دستخط کر دیے تھے۔

    گذشتہ روز عمران خان کے خلاف دہشت گردی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا، مقدمہ تھانہ مارگلہ میں درج کیا گیا۔

    مزید پڑھیں :عمران خان کیخلاف انسداددہشت گردی ایکٹ کےتحت مقدمہ درج

    ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے ایڈیشنل سیشن جج کو ڈرایا دھمکایا آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی کو دھمکی دی عمران خان نےتقریرمیں کہاتمہارےاوپرکیس کرناہے مجسٹریٹ صاحبہ آپ تیار ہوجائیں آپ کے اوپر بھی ایکشن لیں گے آپ سب کو شرم آنی چاہیے۔

    متن کے مطابق عمران خان کے ان الفاظ اورتقریر مقصد پولیس کے اعلی حکام اورعدلیہ کو دہشت زدہ کرنا تھا، عمران خان کے اس انداز اورڈیزائن میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام،عدلیہ اورعوام میں خوف و ہراس پھیلا۔

    عمران خان کی تقریرکے متعلقہ حصے کامتن ایف آئی آر کے ساتھ لگایا گیا ہے۔