Tag: اسلام آباد ہائی کورٹ

  • وزیراعظم کے وکیل کی الیکشن کمیشن کا نوٹس معطل کرنے کی استدعا مسترد

    وزیراعظم کے وکیل کی الیکشن کمیشن کا نوٹس معطل کرنے کی استدعا مسترد

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم کے وکیل کی الیکشن کمیشن کا نوٹس معطل کرنے کی استدعا مسترد کردی، جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم اور دیگر الیکشن کمیشن میں پیش کیوں نہیں ہوئے، اداروں کا احترام کرنا چاہئے۔

    تفصیلات کے مطابق الیکشن کمیشن کے نوٹسز کے خلاف وزیراعظم عمران خان اور اسد عمر کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی، درخواستوں کی سماعت جسٹس عامر فاروق نے کی۔

    درخواست گزاروں کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے ، بیرسٹر علی ظفر نے سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن نے پولیٹیکل پارٹیز اور امیدواروں کے لیے کوڈ آف کنڈکٹ بنایا، سیاسی جماعت کے امیدوار کو اس کوڈ آف کنڈکٹ کی پاسداری کرنی ہوتی ہے، ایکٹ کی خلاف ورزی ہو تو 50 ہزار روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے، یہ جرمانہ صرف ایکٹ اور رولز کی خلاف ورزی پر کیا جا سکتا ہے۔

    عمران خان کے وکیل کا کہنا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کی انتخابی مہم میں شرکت کے لیے 19 فروری کو ایکٹ میں ترمیم کی گئی، اس کے بعد الیکشن کمیشن نے ایک میٹنگ کر کے 10 مارچ کو آرڈر جاری کیا۔

    وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کو انتخابی مہم میں شرکت کی اجازت ہو گی لیکن پبلک آفس ہولڈر کو نہیں، الیکشن کمیشن نے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی پر نوٹس جاری کیا۔

    جس پر جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 218 الیکشن کمیشن کو شفاف الیکشن کرانے کا اختیار دیتا ہے، کیا آرڈیننس سے ترمیم کرکے آئین کے دیئے گئے اختیار کو ختم کیا جا سکتا ہے؟ آئین نے ایک مینڈیٹ دیا ہے جسے ایکٹ آف پارلیمنٹ سے ختم نہیں کر سکتے، کیا کوئی بھی آئینی اختیار قانون بنا کر ختم کیا جا سکتا؟

    جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ نے نوٹس چیلنج کر دیا ہے، الیکشن کمیشن سے کیوں رجوع نہیں کرتے؟ جو کام پارلیمنٹ کے کرنے والے ہیں وہ کام آرڈینینسز سے ہو رہے ہیں۔

    بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ یہ نوٹس امیدوار یا سیاسی جماعت کو جاری ہو سکتا ہے، افراد کو نہیں، اسد عمر کو جو نوٹس ملا وہ پٹیشن کے ساتھ لگا ہوا ہے، عمران خان کو بھی نوٹس جاری ہوا، وہ شاید فائل میں لگنے سے رہ گیا، ان کے پاس یہ نوٹس جاری کرنے کا دائرہ اختیار ہی نہیں تھا۔

    جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ نے اپنے طور پر تو اس بات کا تعین نہیں کرنا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، آپ کو 14 مارچ کو الیکشن کمیشن میں پیش تو ہونا چاہیے تھا، ہو سکتا ہےکہ آپ کی بات درست ہو مگر آپ کو بھی تو اپنی نیک نیتی پیش کرنی ہے۔

    جسٹس عامرفاروق نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن آئینی باڈی ہے، آپ کا اپنا کنڈکٹ بھی درست نہیں تھا، آپ الیکشن کمیشن میں کم از کم بذریعہ وکیل پیش ہو جاتے۔

    جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ فیصلے تک الیکشن کمیشن کو کسی مزید کارروائی سے روکا جائے، اس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ حکم امتناع جاری نہیں کریں گے، پہلےالیکشن کمیشن کو نوٹس کرکے سنیں گے۔

    اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے وزیراعظم اور اسد عمر کی درخواست پر جواب طلب کر لیا جبکہ معاونت کے لیے اٹارنی جنرل کو بھی نوٹس جاری کیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیراعظم کے وکیل کی الیکشن کمیشن کا نوٹس معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے متفرق درخواست پر بھی نوٹس جاری کیا اور کیس کی سماعت 28 مارچ تک ملتوی کر دی۔
    .
    اس سے قبل وزیراعظم عمران خان اور اسد عمرکی پٹیشن پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے اعتراض دور کیا، محمد زبیر سرفراز نے بائیو میٹرک کرا کے رجسٹرار آفس کا اعتراض دور کیا، جس کے بعد پٹیشن کو نمبر لگا دیا گیا۔

    عمران خان نے بائیومیٹرک کرانے کے لیے محمد زبیر سرفراز کو اتھارٹی لیٹر دیا تھا، محمد زبیر سرفراز نے بائیو میٹرک کرا کے رجسٹرار آفس کا اعتراض دور کیا جس کے بعد پٹیشن کو نمبر لگا دیا گیا۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا زیرِ التوا کیسز کی سماعت مقرر کرنے کے حوالے سے بڑا فیصلہ

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا زیرِ التوا کیسز کی سماعت مقرر کرنے کے حوالے سے بڑا فیصلہ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے زیر التوا کیسز کی سماعت مقرر کرنے کے حوالے سے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے مقدمات کے تعین کے لیے پالیسی کی منظوری دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیسز فکسیشن پالیسی جاری کردی اور اس حوالے سے نوٹیفکیشن میں کہا ہے کہ نئے پالیسی کےتحت کوئی کیس بغیر کسی کارروائی کے التوا کا شکار نہیں ہوگا۔

    نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ اسلام آبادہائیکورٹ نے مقدمات کے تعین کے لیے پالیسی کی منظوری دی ہے، جس کے تحت 1996 سے 2010 تک کے کیسز کو قدیم ترین کیس کے زمرہ کے طور پر سمجھا جائے گا۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق ہفتہ واربنیادوں پرکیس پرسماعت ہوگی، سب سے پرانے زمرے کے کیسز پر سرخ جھنڈا لگایا جائے گا اور بار کے تعاون سے مقدمات2 ماہ کی مدت میں نمٹائےجائیں گے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب کہا گیا کہ فریقین اوران کے وکیل کو ایس ایم ایس کے ذریعے آگاہ کیا جائے گا، 2011 سے 2014سال سے متعلق کیسز کو پرانے زمرے میں سمجھا جائے گا۔

    نوٹیفکیشن میں کہا ہے کہ 15دن کی بنیاد پر کیسز کی سماعت کی جائے گی ،مارچ سے ستمبر تک 6 ماہ کا ہوگا جبکہ عدالتی بنچ کی منظوری سے تاریخ سماعت بھی مشروط ہوگا۔

  • محسن بیگ کی گرفتاری،آئی جی اسلام آباد کو پیر تک واقعے کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم

    محسن بیگ کی گرفتاری،آئی جی اسلام آباد کو پیر تک واقعے کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے محسن بیگ پر تھانے میں تشدد کی شکایت پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی اسلام آباد پولیس پیر تک محسن بیگ کے ساتھ ہونے والے واقعے پر رپورٹ پیش کریں۔

    آئی جی اسلام آباد کو پیر تک محسن بیگ کے ساتھ ہونے والے واقعے کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم.

    محسن بیگ کی گرفتاری ، آئی جی اسلام آباد کو پیر تک واقعے کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں محسن بیگ کے خلاف مقدمات خارج کرنےکی درخواستوں پرسماعت ہوئی ، سماعت اسلام آبادہائیکورٹ کےچیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کی۔

    محسن بیگ کی بیگم کی جانب سے لطیف کھوسہ اور ریاست کی جانب سےایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی عدالت میں پیش ہوئے۔

    لطیف کھوسہ نے کہا کہ مجرمانہ مقدمے اور تمام نتیجہ خیز کارروائیوں کو منسوخ کیا جائے، ایف آئی آر نمبر 34/2022 کا شکایت کنندہ ایک موجودہ وفاقی وزیر ہے، سیاسی عزائم، رنجش کی بنیادپرفوجداری مقدمات بنائے گئے۔

    محسن بیگ کی اہلیہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ محسن بیگ ایف آئی اے،پولیس کےطرزعمل سےزخمی ہوا ، اس حقیقت کا تذکرہ ایف آئی آرمیں نہیں کیاگیاہے، محسن بیگ کوپولیس اورایف آئی اے ٹیم نےتشددکا نشانہ بنایا، پولیس اور ایف آئی اے جرم کوچھپانے کےلیےغیر قانونی ایف آئی آر درج کی گئی۔

    وکیل نے مزید بتایا کہ محسن بیگ کوپولیس ،ایف آئی اے نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیاتھا، ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد ویسٹ کی کارروائی ان حقائق کی عکاسی کرتی ہے، کچھ نامعلوم افرادمحسن بیگ کےگھرمیں سول ڈریس میں گھس گئے تھے۔

    لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ پولیس کوایمرجنسی کال 15بھی کیاگیا، سول افرادسےکہاگیاکہ وہ سرچ وارنٹ دکھائیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا متاثرہ شخص ایف آئی آر کااخراج مانگ سکتا ہے، بیگم کی جانب سےایف آئی آرکا اخراج قانون کے تحت نہیں ہو سکتا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیامحسن بیگ خودنہیں چاہتےکےایف آئی آرکی اخراج ہو، جس پر لطیف کھوسہ نے بتایا کہ پولیس تھانے کے اندر محسن بیگ کوبری طرح مارمارکرزخمی کر دیا، بہت افسوسناک ہےوزیراعظم تک اس معاملےمیں شامل ہوگئے ، اس عدالت کےماتحت جج کیخلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا آپ نے ایف آئی آر خارج کرنے کی درخواست دائر کر رکھی ہے، ملزم کے علاوہ کوئی مقدمہ خارج کرنے کی درخواست دائر نہیں کر سکتا، آپ اپنی درخواست میں ترمیم کر کے لا سکتے ہیں۔

    جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ کل تک تو محسن بیگ سے ملنے تک نہیں دیا جا رہا تھا، عدالت نے بیلف بھیجا تو اسکو تھانے میں داخل نہیں ہونے دیا گیا، ایس ایچ او کے کمرے میں10سے15 لوگوں نے انہیں مارا۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ کسی تیسرے شخص کی درخواست پر مقدمہ خارج نہیں کیا جا سکتا، ہمیں معلوم بھی نہیں کہ ملزم خودمقدمہ خارج کرنابھی چاہتا ہےیا نہیں، چیف جسٹ

    ہائی کورٹ نے محسن بیگ پر تھانے میں تشدد کی شکایت پررپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا آئی جی اسلام آبادپولیس پیر تک محسن بیگ کے واقعے پر رپورٹ پیش کریں۔

    چیف جسٹس نے کہا متاثرہ فریق محسن بیگ خوددرخواست دیں توفیصلہ کریں گے، مقدمات خارج کرنےکیلئے صرف متاثرہ شخص ہی درخواست دے سکتا ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہدایت کی محسن بیگ تک وکیل کی رسائی کونہ روکا جائے، عدالت نےمحسن بیگ کی بیگم کیجانب سے دوسری درخواست پر بھی سیم آرڈرکر دیا ، دونوں درخواستوں پرسماعت چیف جسٹس اطہرمن اللہ پیر کو دوبارہ کریں گے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا نور مقدم قتل کیس کا  فیصلہ 4 ہفتے میں کرنے کا حکم

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ 4 ہفتے میں کرنے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو نور مقدم قتل کیس کا فیصلہ کرنے 4 ہفتے میں کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ٹرائل کورٹ کے جج نے نور مقدم قتل کیس کا ٹرائل مکمل کرنے کیلئے مزید وقت کے لئے اسلام آبادہائیکورٹ کو خط لکھا۔

    ٹرائل کورٹ کے جج عطاربانی کے خط پر اسلام آبادہائیکورٹ نے مزید 4 ہفتے کی توسیع کرتے ہوئے سیشن کورٹ کو4 ہفتےمیں فیصلہ کرنے کی ہدایت کردی۔

    یاد رہے اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2 ماہ میں نورمقدم قتل کیس کا ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔

    گذشتہ روز نورمقدم قتل کیس مرکزی ملزم بیان حلفی سے بھی مکر گیا تھا ، ظاہر جعفر نے نیا تحریری بیان عدالت میں جمع کرایا ، جس میں کہا تھا کہ بے گناہ ہوں ، نورمقدم کا قتل میرے گھر ہوا، اس لیے مجھے ،والدین اور ساتھیوں کو کیس میں گھسیٹا جارہا ہے۔

    وکیل کی جانب سے پیش کیے گئے تحریری بیان میں ملزم کا کہنا تھا کہ نورمقدم کے ساتھ لونگ ریلیشن شپ میں تھا، اس نے مجھے زبردستی امریکہ کی پرواز لینے سے منع کیا،امریکہ ساتھ چلنےکا کہا۔ دوستوں سےٹکٹ کےلیےپیسے منگوائے، ائیرپورٹ کیلئے نکلے تو نور نے ٹیکسی واپس گھر کی طرف مڑوادی میں اسے روک نہ پایا۔

    نور نے میرے گھر دوستوں کو بلایا ڈرگ پارٹی رکھی،پارٹی شروع ہوئی تونشے میں اپنے حواس کھو بیٹھا۔ ہوش آیا توبندھاہوا تھا،پتہ چلا نورکاقتل ہوگیاہے ، مجھے پولیس نے آکر بچایا۔

  • رانا شمیم کو آخری موقع دیتے ہیں عدالت کےسامنے اصل حلف نامہ لائیں، تحریری حکم نامہ جاری

    رانا شمیم کو آخری موقع دیتے ہیں عدالت کےسامنے اصل حلف نامہ لائیں، تحریری حکم نامہ جاری

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے راناشمیم، میرشکیل الرحمان، انصارعباسی اور عامرغوری کو تیرہ دسمبر کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے حلف نامے کے مندرجات کو لاپرواہی سے رپورٹ کیا گیا ، رانا شمیم کو آخری موقع دیتے ہیں عدالت کےسامنے اصل حلف نامہ لائیں۔

    تفصیلات کے مطابق سابق جج رانا شمیم کے بیان حلفی پر توہین عدالت کیس کی گزشتہ سماعت کا تحریری حکم جاری کردیا گیا ، سلام آبادہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 4 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ رانا شمیم، میر شکیل الرحمان ، انصارعباسی اور عامرغوری کو 13دسمبر کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا، توہین عدالت کی کارروائی میں فریقین کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونا پڑتا ہے۔

    تحریری حکم نامے میں کہنا ہے کہ رانا شمیم کے تحریری جواب کا جائزہ لینے سے مؤقف کا پتا چلےگا، رانا شمیم نے بتایا انھوں نے کسی کیساتھ بیان حلفی  شیئر نہیں کیا، اصل بیان حلفی لندن کے لاکرمیں ہے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ رانا شمیم کو بیان حلفی ہائی کورٹ میں جمع کرانے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے، اٹارنی جنرل نے لندن میں مدد کیلئے خط و خطابت کی کاپیاں ریکارڈ پر رکھی ہیں۔

    حکم نامے کے مطابق رانا شمیم نے الزام لگایا حلف نامے کی کاپی شیئر نہیں کی اور نہ انصار عباسی، عامر غوری ، میرشکیل الرحمان سے حلف نامہ شیئر کیا۔

    تحریری حکم نامے میں بتایا گیا کہ رانا شمیم نے الزام لگایا کہ حلف نامہ ان کی رضا مندی سے نہیں شائع ہوا، اس پورے معاملے کے ذمہ دار کے خلاف سنگین  نتائج ہوسکتے ہیں، حلف نامے کے مندرجات پھیلانے کے ارادے سے جلد بازی میں شائع کیا۔

    عدالت کے مطابق رانا شمیم نے کہا 15 جولائی2018 کو ثاقب نثار کی ہائی کورٹ جج سے گفتگوسنی تھی، رانا شمیم نےاس وقت کے ڈویژن بینچ کا بھی حوالہ دیاہے، 3 سال سے زائد خاموشی سے رانا شمیم کی ساکھ پرسنگین سوالات جنم لیتے ہیں۔

    حکم نامے میں کہا ہے کہ خبر کی اشاعت کا وقت بہت اہم ہے، کیونکہ یہ وقت ان اپیلوں سے متعلق ہے جوسماعت کیلئےمقرر تھیں، ایک اخبار کے رپورٹر  اور  پبلشر پربھی سوال اٹھتا ہے۔

    تحریری حکم نامے کے مطابق اصل حلف نامہ اورشائع ہونیوالےکے مندرجات میں صداقت پرسوالیہ نشان ہے، راناشمیم کیلئے اہم ہے وہ عدالت کے سامنے اصل حلف نامہ لائیں ، زیرسماعت اپیلوں پر فریقین کےمنصفانہ ٹرائل کے حق کو متاثر کرتےہیں۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتاہے حلف نامے کے مندرجات کولاپرواہی سےرپورٹ کیاگیا، بڑے پیمانے پر عوام میں یہ حلف نامہ پھیلایا گیا، ایک اخباری  رپورٹر  اور  پبلشر نے عدالت پر اعتماد ختم کرنے کی کوشش کی اور مبینہ مخالفوں کی جانب سے جمع کرائے جواب ٹال مٹول نظر آرہےہیں۔

    تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ رانا شمیم کو آخری موقع دیتےہیں عدالت کےسامنےاصل حلف نامہ لائیں، اسلام آبادہائیکورٹ میں توہین عدالت کیس  پر  مزید سماعت 13 دسمبر کو ہوگی، فریقین مطمئن کریں کیوں نہ ان پر فرد جرم عائدکرکےقانونی کارروائی کی جائے۔

    خیال رہے گزشتہ سماعت پر میرشکیل الرحمان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائرکی تھی ، سابق چیف جج راناشمیم کی جانب سے لطیف آفریدی  پیش ہوئے تھے اور رانا شمیم کی جانب سے جواب ہائی کورٹ میں جمع کرایا گیا تھا۔

    تاہم عدالتی حکم کے باوجود رانا شمیم نے حلف نامہ ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا ، اٹارنی جنرل کی جانب سےلندن میں مدد کیلئےخط وخطابت کی کاپیاں ریکارڈ پر رکھ دی ہیں۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کی سابق جج رانا شمیم  کو بیان حلفی جمع کرانے کیلئے آخری مہلت

    اسلام آباد ہائی کورٹ کی سابق جج رانا شمیم کو بیان حلفی جمع کرانے کیلئے آخری مہلت

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق جج رانا شمیم کو بیان حلفی جمع کرانے کیلئے آخری مہلت دے دی اور کہا بیان حلفی جمع نہ کرایا گیاتوچارج فریم کروں گا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق چیف جج رانا شمیم،صحافی انصارعباسی و دیگر کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے سماعت کی۔

    اٹارنی جنرل خالد جاوید اورایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادنیازاللہ نیازی ، میر شکیل الرحمان ،انصار عباسی،عامرغوری اور سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم عدالت میں پیش ہوئے۔

    چیف جسٹس نے سابق چیف جج رانا شمیم سے استفسار کیا آپ نے جواب جمع کرایا ؟ رانا شمیم نے جواب میں بتایا وکیل صاحب آرہے ہیں تو جمع کریں گے۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لطیف آفریدی عدالت کی جانب بھی معاون ہے، اٹارنی جنرل صاحب یہ جواب نہیں دےرہےتوکیا کرے؟ جس پر سابق چیف جج رانا شمیم نے کہا جواب ہم نےتیارکرلیاہےاورمیراوکیل خودجمع کریں گے۔

    دوران سماعت عدالتی معاون فیصل صدیقی بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گزشتہ سماعت پر انہوں نے کہا ہم نے بیان حلفی نہیں دی، اس بیان حلفی سےاس عدالت کی ساکھ پرسوالیہ نشان اٹھ گیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا یہ صحافتی اقدارہے کہ اس طرح کی خبریں شائع ہو۔

    سماعت میں سابق چیف جج راناشمیم کے وکیل لطیف آفریدی بھی کمرہ عدالت پہنچے تو چیف جسٹس ہائیکورٹ نے وکیل لطیف آفریدی کو کمرہ عدالت میں خوش آمدید کہا۔

    عدالتی معاون فیصل صدیقی نے گزشتہ سماعت کاتحریری فیصلہ پڑھ کر سنایا اور کہا خبر میں نہ رجسٹرار ہائیکورٹ اور نہ ہی عدالت کا مؤقف لیاگیا، حقائق چیک کئےبغیرکیاایمرجنسی تھی بیان حلفی یاخبرشائع کرنےکی،ع رانا شمیم نےکہابیان حلفی نجی دستاویزتھی، شائع کرنےکا نہیں کہا، سوال ہے یہ بیان حلفی ذاتی تھا تو صحافی سےسوال کیوں نہیں پوچھا گیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا عدالتی معاون ریما عمر کیوں نہیں آئیں؟ اس کیس میں سب سے تگڑے کمنٹس ریما عمر کے تھے، شفافیت کیلئےریما عمرکو عدالتی معاون مقررکیاتھا۔

    اسلام آباد:رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی عدالت کے روبرو پیش ہوئے تو چیف جسٹس ہائیکورٹ نے سوال کیا بیان حلفی کس مقصد کے لئے جاری ہوا،بیان حلفی اگر کسی لاکر میں رکھنا تھا توجاری کیوں کیا گیا۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ہائی کورٹ رپورٹر سے کوئی جج چھپ نہیں سکتا، 3سال بعدغیرت جاگ گئی، اگر غیرت جاگ گئی تو برطانیہ میں جاری کیوں کیا گیا۔

    عدالت نے ریمارکس میں کہا لطیف آفریدی کی قانون کی بالادستی کیلئےبہت خدمات ہیں، لطیف آفریدی صاحب ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ یہاں ہیں، آپ صرف رانا شمیم کے وکیل نہیں بلکہ عدالت کے معاون ہوں گے۔

    چیف جسٹس نے لطیف آفریدی سے مکالمے میں کہا میں آپ کوکیس کے حوالے بتانا چاہتاہوں، ججز کے خلاف بیان بازی اور الزامات بیان دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا، ہم ججز کوئی پریس کانفرنس نہیں کرسکتے کہ مؤقف پیش کریں، ان ججز کو اسی طرح پریشرائز کیا جارہا ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا حاضر سروس چیف جسٹس نےجی بی کےچیف جج کے سامنے فون پربات کی، 2حاضر سروس ججز کی ملاقات ہوئی اور بات 3سال بعد باہر آئی م معزز جج کا نام لیا گیا جوان دنوں ملک میں موجودہی نہیں تھے، کہا گیا کہ ملزم کو الیکشن سے پہلے باہر نہیں آنا چاہیے، میں،جسٹس محسن اختر، جسٹس گل حسن عدالت میں ہوتے تھے۔

    لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا کہ ججز پر ایسے الزامات لگائے گئے، جس پرچیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا آپ کیس کو وکیل نہیں عدالتی معاون کی حیثیت سے دیکھیں، لوگوں کااعتماد اس عدالت پر ہے اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ مرحوم جسٹس وقارسیٹھ نے کبھی نہیں کہا انکو کسی نے دباؤ میں ڈالا، مرحوم جسٹس وقار سیٹھ کے فیصلے آج بھی زندہ ہیں۔

    چیف جسٹس نے لطیف آفریدی سے مکالمہ میں کہا کہ کیس کو توہین عدالت کاکیس نہ سمجھیں، آپ کے موکل نےتین سال بعد اس عدالت پرانگلی اٹھائی ہے، جس پر لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کیلئےمیں نے ہمیشہ کوشش کی اورکرتارہوں گا۔

    رانا شمیم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا سیاسی جماعتیں معاملات طےنہیں کر پاتیں تو عدالتوں کارخ کرتی ہیں، رانا شمیم نےبیان حلفی سے انکار نہیں کیا، رانا شمیم نے بیان حلفی شائع ہونے کےلیے نہیں دیا۔

    جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ بتا دیں کیا اس ہائیکورٹ میں کوئی مسلہ ہے، وکیل لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں، تو چیف جسٹس نے مزید کہا یہ بیانیہ ہائی کورٹ کو نقصان پہنچارہا ہے، ڈاکومنٹ اس وقت کدھرہے؟

    لطیف آفریدی نے عدالت کو بتایا بیان حلفی برطانیہ میں ان کےگرینڈ سن کےپاس ہے،75سالوں سے عدلیہ اپنی بحالی کی کوششوں میں ہے، وکلا،سیاسی جماعتوں نےبھی عدلیہ کی آزادی کیلئےکوششیں کیں، سیاسی معاملات کو عدالتوں میں نہیں آنا چاہیےمگرایسا ہوتاہے، میرے موکل نے کہا میں توہین عدالت سے انکار نہیں کررہا۔

    چیف جسٹس نے لطیف آفریدی سے استفسار کیا یہ بتائیں کہ کاغذات کہاں پرہیں ؟ جس کے جواب میں لطیف آفریدی نے بتایا کاغذات پوتے کیساتھ جو اسٹوڈنٹ ہے اورآجکل انڈر گراؤنڈ ہے۔

    عدالت نے ریمارکس میں کہا برطانیہ میں ایسا نہیں ہوتاکہ آپ کو خطرہ ہو اور آپ انڈر گراؤنڈہو ، آپ بتائیں کہ اس عدالت میں مسئلہ ہے، میں اس عدالت کاذمہ دار ہوں اور مجھ پر ذمہ داری آتی ہے، اس ہائی کورٹ کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، کیس آگے بڑھانے کیلئےاصل دستاویزجمع کراناضروری ہے۔

    چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا بیان حلفی جمع کرانے کیلئےآخری موقع دے رہا ہوں، بیاں حلفی جمع نہ کرایا گیاتوچارج فریم کروں گا۔

    بعد ازاں اسلام آبادہائیکورٹ نے ہفتے تک جواب جمع کرانے کی مہلت دیتے ہوئے سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کا سابق چیف جسٹس جی بی رانا شمیم کو توہین عدالت کا نوٹس

    اسلام آباد ہائی کورٹ کا سابق چیف جسٹس جی بی رانا شمیم کو توہین عدالت کا نوٹس

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق چیف جسٹس جی بی راناشمیم کوتوہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام فریقین کو کل 10بجے ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف اور مریم نواز کی اپیلوں سے متعلق گلگت بلتستان کورٹ کے سابق جج کے انکشافات کے معاملے کی سماعت ہوئی۔

    دوران سماعت عدالت نے سابق چیف جسٹس جی بی راناشمیم کوتوہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے تمام فریقین کو کل 10بجے ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے چیف ایڈیٹر میرشکیل الرحمان اور دی نیوز کےایڈیٹرعامرغوری اورانصارعباسی کو بھی نوٹسز جاری کردیئے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے ہائیکورٹ جرنلسٹ ایسوسی ایشن کوکمرہ عدالت طلب کیا ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہاں پر آپ کے سامنے بہت سارے کیسز زیر سماعت ہیں، کوئی انگلی اٹھاکر بتائے،مجھے اس عدالت کے ہرجج پر فخر ہے، اس قسم کی رپورٹنگ سے مسائل پیدا ہوں گے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے ہمیشہ اظہار رائے کی قدر کی اوراظہار رائے پر یقین رکھتی ہے ، عدالت کےغیر جانبدارانہ فیصلوں پر اسی طرح انگلی اٹھائی گئی یہ اچھانہیں ہوگا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ عدالت آپ سب سےتوقع رکھتی ہے لوگوں کا اعتماد اداروں پربحال ہو، زیر سماعت کیسسز پر اس قسم کی کوئی خبر نہیں ہونی چاہیے، سابق جج رانا شمیم نے بیان لندن میں نوٹری کراویا، بیان حلفی کسی کیس کا حصہ نہیں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس :  نیب کی روزانہ سماعت کرکے 30 دن میں فیصلےکی درخواست خارج

    ایون فیلڈ ریفرنس : نیب کی روزانہ سماعت کرکے 30 دن میں فیصلےکی درخواست خارج

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کی روزانہ سماعت کرکے30 دن میں فیصلےکی درخواست خارج کرتے ہوئے مریم نواز کی اضافی دستاویز سے متعلق جواب دینے کی استدعا منظور کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں تحریری حکم نامہ جاری کردیا ، حکم نامہ جسٹس عامرفاروق،جسٹس محسن اخترکیانی نےجاری کیا ، حکم نامہ4صفحات پر مشتمل ہے۔

    حکم نامہ میں نیب اور مریم نوازکی الگ الگ متفرق درخواستوں کافیصلہ کیا گیا ہے اور مریم نوازکی جانب سےاضافی دستاویزکی متفرق درخواست پرنیب کونوٹس جاری کردیا ہے۔

    عدالتی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ مریم نوازکی درخواست پرنوٹس نیب نےدوران سماعت وصول کئے، نیب نےمریم نواز کی اضافی دستاویزسےمتعلق جواب دینے کی استدعاکی، مریم نواز کی اضافی دستاویز سے متعلق جواب دینے کی استدعا منظور کرلی ہے۔

    عدالت نے نیب کی روزانہ سماعت کرکے30 دن میں فیصلےکی درخواست خارج کرتے ہوئے کہا نیب آرڈیننس کاسیکشن16اےٹرائل30دن میں مکمل کرنے سے متعلق ہے ، پیلوں کےفیصلے سے متعلق ایسا کوئی قانون موجود نہیں۔

    حکم نامے میں کہا گیا کہ کیس پر مزیدسماعت17نومبرکو کی جائے گی۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہراحتجاجی مظاہرہ ، نور مقدم کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ

    اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہراحتجاجی مظاہرہ ، نور مقدم کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر نور مقدم کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرے میں مظاہرین نے نور مقدم کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے والد ذاکر جعفر کی درخواست ضمانت کے موقع پر مظاہراسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر نور مقدم کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، مقتولہ کے والد شوکت مقدم بھی احتجاجی مظاہرے میں شریک ہوئے۔

    مقتولہ نور مقدم کے دوستوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے کا اہتمام کیا گیا ، شرکا نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر نور مقدم کیلئے انصاف کے مطالبات درج تھے۔

    احتجاجی مظاہرے میں مظاہرین نے نور مقدم کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچانے اور قاتلوں کی معاونت کرنے والوں کو بھی ضمانت نہ دینے کا مطالبہ کردیا۔

    اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ میں نور مقدم قتل کیس مرکزی ملزم کے والد ذاکر جعفر کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی تھی ، جس میں عدالت نے مدعی مقدمہ شوکت مقدم کے وکیل شاہ خاور ایڈووکیٹ آج ہی وکالت نامہ ہائیکورٹ میں داخل کرانے کی ہدایت کردی ہے۔

    یاد رہے دو روز قبل نورمقدم قتل کیس میں پولیس کی جانب سے پہلےچالان میں مرکزی ملزم ظاہرجعفرنےنورمقدم کوقتل کرنےکااعتراف کرلیا تھا جبکہ ڈی این اے رپورٹ سے نور مقدم کا ریپ بھی ثابت ہوگئی تھی۔

    ظاہر جعفر کا پولیس کو ریکارڈ کرایا گیا اعترافی بیان بھی چالان کاحصہ بنایا گیا ہے، چالان میں کہا گیا تھا کہ ظاہرجعفر نےانکشاف کیانورمقدم نےشادی سےانکارکیاتواسےگھرمیں قید کرلیا اور چوکیدارکوکہاگھرکےاندرناکسی کوآنےدیں نا نور مقدم کو جانے دیں۔

    چالان کے مطابق ملزم ظاہرجعفرنےنورمقدم کوقتل کرکےاس کاسردھڑسےالگ کیا اور نور کاموبائل دوسرےکمرےمیں چھپادیا، جس کے بعد ملزم کی نشاندہی پر ہی نورمقدم کاموبائل اسی کے گھرکی الماری سے برآمد کیا۔

  • بانی متحدہ نے عمران فاروق کی قتل کی سازش کی، ملزم محسن علی کا اعترافی بیان

    بانی متحدہ نے عمران فاروق کی قتل کی سازش کی، ملزم محسن علی کا اعترافی بیان

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران فاروق قتل کیس میں سزا یافتہ ملزمان کی اپیل پر سماعت میں محسن علی کی جانب اعترافی بیان میں کہا گیا کہ کہ بانی متحدہ نے عمران فاروق کی قتل کی سازش کی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران فاروق قتل کیس میں سزا یافتہ ملزمان خالدشمیم،معظم علی،محسن علی کی اپیل پر سماعت ہوئی ، مجرم معظم علی، خالد شمیم اور محسن علی کے وکیل ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔

    وکیل معظم علی نے عدالت کو بتایا کہ معظم علی نے کبھی بھی اقبال جرم نہیں کیا، بانی متحدہ نے25 ہزار پاؤنڈعمران فاروق قتل کیلئے خالد شمیم کو دیئے،بانی ایم کیوایم کسی شادی پر خالد شمیم کو ملے تھے۔

    وکیل نے خالد شمیم کے 4 اپریل 2010 کی چیک کی کاپی پیش کی اور بتایا کہ محمد انور کے ذریعے بانی ایم کیوایم نے قتل کے لئے کیش پیسہ دیا، جس پر چیف جسٹس ہائیکورٹ نے استفسار کیا اس معاملے میں معظم علی کا کیاکردار ہے؟ وکیل معظم علی نے بتایا کہ معظم علی پرالزام قاتلوں کو سہولت فراہم کرنے کاہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ خالد شمیم کے وکیل کو پہلے سنتے ہیں، معظم علی کے وکیل کوبعد میں دلائل دیں، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کیا محسن علی کا قتل میں مرکزی کردارہے۔

    وکیل محسن علی نے کہا جی بالکل مگر ثابت نہیں ہوا ہے بس الزام ہے،جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا محسن علی لندن میں کیوں موجودتھے، جس پر وکیل نے بتایا محسن علی لندن میں زیر تعلیم تھے۔

    جسٹس عامر فاروق کا ریمارکس میں مزید کہنا تھا کہ محسن علی پر چھری سے وار کرنے کاالزام ہے، چھری سے وار کر کے قتل کرنے کی فوٹیجزہے یا نہیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ لندن،سری لنکاسےہوتےہوئےکراچی آنےپرمحسن علی گرفتارہوئے۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے استفسار کیا محسن علی کانام عمران فاروق قتل کیس میں کیسےآیا اور عمران فاروق کےلندن میں پڑوسیوں نےکیارول اداکیا؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ ڈاکٹرعمران فاروق کےپڑوسیوں نے قاتلوں کاخاکہ بنوایا ہے۔

    محسن علی نے اعترافی بیان میں کہا کہ نائن زیرو پر کاشف، خالدشمیم،معظم علی سے ملاقات ہوتی تھی، بانی متحدہ نے عمران فاروق کی قتل کی سازش کی، لندن میں چھریوں کا سیٹ اور2 رین کوٹ خریدے اور چھری خریدنےکےبعدعمران فاروق کےگھرکےلان میں چھپادی۔

    جسٹس عامرفاروق نے کہا 164کے بیان سے جہاں مکر گئے ہیں وہ عدالت کو بتایا جائے،سماعت کے دوران محسن علی کے وکیل نے خالدشمیم کے وکیل پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا دلائل دینےکےدوران مجھےڈسٹرب نہیں کریں۔

    جس کے جواب میں وکیل خالدشمیم کا کہنا تھا کہ میں آپ کی معاونت کر رہاہوں تو وکیل محسن علی نے کہا مجھےمعاونت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

    بعد ازاں عدالت نے عمران فاروق قتل کیس میں سزا یافتہ ملزمان کی اپیل پر سماعت 23اگست تک کے لئے ملتوی کر دی۔