Tag: اسلام آباد ہائی کورٹ

  • ٹک ٹاک پر پابندی ، اسلام آباد ہائی کورٹ کا  فیصلے پر نظرثانی کا حکم

    ٹک ٹاک پر پابندی ، اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلے پر نظرثانی کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم نامے میں کہا ہے کہ ٹک ٹاک ایپ کو بلاک کرنا یا مکمل پابندی لگانا کوئی قابل عمل حل نہیں ، اتھارٹی وفاقی حکومت کے ساتھ مشاورت سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کے خلاف درخواست پر 6 صفحات پر مشتمل حکمنامہ جاری ہے، تحریری حکمنامہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے جاری کیا۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست پی ٹی اے کی جانب سے دائر کی گئی ، حکم نامے میں کہا گیا کہ پی ٹی اے ٹک ٹاک ایپ پر مکمل پابندی کے لیے وضاحت نہیں دے سکی، پی ٹی اے کے وکیل نے پشاور اور سندھ ہائیکورٹ کے منظور احکامات کا حوالہ دیا لیکن پشاور اور سندھ ہائی کورٹ کا کوئی حکم نہیں دکھا سکے۔

    عدالتی حکم نامے میں کہا ہے کہ 16.5ملین میں سے ایک فیصد صارفین نے ایپ کامبینہ غلط استعمال کیا ، ٹیکنالوجی ایک غیر جانبدار پلیٹ فارم ہے، ٹک ٹاک ایپ بہت سے صارفین کی کمائی کا ذریعہ بھی بن گئی ہے۔

    تحریری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی کے مؤقف سے ظاہرہےایپ کے فوائد نقصانات سے کہیں زیادہ ہیں، ایپ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے بند کرنے کا جواز نہیں، ایپ بلاک کرنایامکمل پابندی لگاناکوئی قابل عمل حل نہیں۔

    عدالت کا کہنا ہے کہ ہر ٹیکنالوجی کا منفی پہلو ہوتا ہے ،ایک فیصدغلط استعمال پرتوجہ نامعقول ہے، کیا مواد کی فحاشی یا اخلاقیات کے جائزے کے لیے معیارات کا اطلاق کیا گیا، ایکٹ 2016 کے سیکشن 37 کے تحت ٹک ٹاک ایپ پرپابندی لگا دی گئی۔

    حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی وفاقی حکومت کےساتھ مشاورت سے اپنے فیصلے پرنظرثانی کرے، سیکرٹری اطلاعات و ٹیکنالوجی حکومت کی پالیسی کے حوالے سے اتھارٹی کو مشورہ دیں۔

    عدالت کا مزید کہنا تھا کہ پی ٹی اےآئندہ سماعت سےپہلے رپورٹ ہائیکورٹ میں جمع کرائے اور رجسٹرار آفس حکم کی کاپی پی ٹی اے چیئرمین اور سیکرٹری کو خصوصی میسج سے بھیجیں، کیس پر مزید سماعت 23 اگست کو کی جائے گی۔

  • پاکستانی حکومت کو ایک بار پھر کلبھوشن یادیو کے معاملے پر  بھارت سے رابطہ کا حکم

    پاکستانی حکومت کو ایک بار پھر کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارت سے رابطہ کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس میں حکومت پاکستان کو عالمی عدالت انصاف کےاحکامات کی روشنی میں بھارت سے رابطہ کرنے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے لیے وکیل مقرر کرنے سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی ، ہائیکورٹ کےلارجر بینچ پر مشتمل چیف جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سماعت کی۔

    بھارتی جاسوس کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کے حکم نامے پر بھارتی سفارت خانے نے کوئی وکالت نامہ جمع نہیں کرایا تاہم وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر، ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ اور اسسٹنٹ اٹارنی جنرل ثقلین اختر عدالت میں پیش ہوئے۔

    دوران سماعت اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بھارت نے پاکستانی عدالتوں کاحکم ماننے سے انکار کر دیا، 23 ستمبر کو پاکستان نے بھارت کو جواب دیا، کلبھوشن والے معاملے میں بھارت درخواست گزار ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کلبھوشن کے معاملے پربھارت کا مؤقف کیا ہے،عدالتی حکم پر بھارتی خود مختاری کا ذکر نہیں ہے، جس پر ، اٹارنی جنرل نے استدعا کی عدالت ایک بار پھر بھارتی ہائی کمیشن کونوٹس کر دے۔

    چیف جسٹس نےعدالتی معاون حامد خان کو روسٹرم پر بلا لیا اور کہا ایک بھارتی شہری کے حقوق کا معاملہ ہے، عالمی عدالت انصاف کےاحکامات کی روشنی میں بھارت سے رابطہ کریں اور سماعت 15 جون تک ملتوی کر دی۔

    گزشتہ سماعت پر عدالت نے حکومت پاکستان کو ایک بار پھر کمانڈر جادیو کے حقوق کیلئے بھارت سے رابطہ کرنے کا حکم دیا تھا۔

  • اے اور او لیول کے امتحانات منسوخ کرنے سے متعلق   درخواست پر فیصلہ سنادیا گیا

    اے اور او لیول کے امتحانات منسوخ کرنے سے متعلق درخواست پر فیصلہ سنادیا گیا

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے اے اور اولیول فزیکل امتحانات لینے کے خلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی اور کہا بہتر یہی ہوگا کہ معاملے کو این سی او سی کے پاس لے جایا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں اے اوراو لیول کے امتحانات کےخلاف طلباکی درخواستوں پر سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کوئی ہدایت جاری نہیں کر سکتے ، درخواست این سی او سی کوبھیج دیتے ہیں ، عدالتوں کا کام نہیں کہ ملک کے پالیسی معاملات میں مداخلت کریں ، کورونا پراین سی او سی کےپالیسی فیصلوں میں مداخلت نہیں کی۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کیمبرج کو کوئی ہدایت جاری نہیں کر سکتی ، حکومت امتحانات سےمتعلق یہاں سہولت فراہم کرتی ہے۔

    عدالت نے استفسار کیا کیاآپ چاہتے ہیں حکومت ان کوامتحان لینے سےروک دے؟ جس پر وکیل درخواست گزار نے کہا درخواست میں کوئی ایسی چیز نہیں جو کیمبرج کی پالیسی نہ ہو، میری درخواست کیمبرج کےخلاف نہیں کیمرج نے 2آپشن دیے، سعودی عرب، تھائی لینڈ، بھارت نےفزیکل کی بجائے آن لائن امتحان کواپنایا ۔

    عدالت نے کہا پٹیشن میں 9درخواست گزارہیں ہوسکتاہےباقی ہزاروں فزیکل امتحان دیناچاہتے ہوں، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ 9پٹشنر ہزاروں طلبہ کے نمائندے تو نہیں ہو سکتے،بچے امتحانات نہیں دینا چاہتے؟ کیسےطلباہیں جو امتحان نہیں دینا چاہتے۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے دلائل سننے کےبعد اے اور او لیول کے فزیکل امتحانات کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے اےاوراولیول فزیکل امتحانات لینےکےخلاف درخواست ناقابل سماعت قرار دے دی، چیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ نے 4 صفحات پر مشتمل محفوظ فیصلہ جاری کیا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ اسکولوں اوردیگر معاملات سےمتعلق معاملات این سی او سی کے پاس ہیں، بہتر یہی ہوگا کہ معاملے کو این سی او سی کے پاس لے جایا جائے ، امتحانات سےمتعلق درخواستوں پرفیصلےکےلیےعدالتی فورم متعلقہ نہیں۔

    اسلام آبادہائی کورٹ نےابتدائی سماعت کے بعد درخواست خارج کرتے ہوئے کہا عدالت ایکسپرٹ نہیں ہے ، ملک میں اس وقت کووڈ 19 کے معاملات این سی او سی نے دیکھنے ہیں۔

    دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ میں اے اوراو لیول کےامتحانات کے خلاف طلباکی درخواستوں پرسماعت جاری ہے ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ نے تاحال فیصلہ نہیں دیا، ہائی کورٹ کے فیصلے کا انتظار کرلیاجائے، الیسی کامعاملہ ہے، وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے۔

    جس کے بعد عدالت نے کیمبرج کےوکیل کو دلائل دینے کا حکم دیا ، وکیل کیمبرج نے کہا درخواستیں قابل سماعت نہیں، وفاقی وزرات تعلیم نےامتحانات کے ایس اوپیزترتیب دیےہیں، برٹش کونسل کوبھی ایس او پیز سے آگاہ کردیا گیا ہے، کیمبرج کورونا ایس او پیز سے مطمئن ہے۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ کوروناسےمتعلق کراچی کے حالات لاہور سے بہتر ہیں، کراچی میں امتحان ہوالاہور میں نہیں تو لاہورکے بچے پیچھے رہ جائیں گے، جس پر عدالت نے استفسار کیا کیا امتحانات ایک صوبے میں ہو سکتے ہیں؟ تو وکیل کیمبرج نے بتایا کہ امتحانات ملک بھر میں ایک ساتھ ہی کریں گے، جو بچے بیمار  ہوں گے ان کےلیےدیگرآپشنز کےذریعےسہولت دیں گے اور جوبچے اس بار رہ جائیں گے ان سے اکتوبراور نومبر میں امتحان لیاجائے گا۔

    کیمبرج کے وکیل نے مزید کہا کہ ہم کسی بچے سے کورونا سرٹیفیکٹ تک نہیں مانگیں گے، بچوں کو مکمل سہولت دینے کو تیار ہیں، ایک ہائیکورٹ نے امتحانات  کی اجازت دی اوردوسری نے نہیں تو مشکل ہوجائے گی ،پاکستان کے حالات بھارت سے بہت بہتر ہیں، امتحانات ملتوی کرنے سے متعلق بھارت کو فالو  کرنے کی ضرورت نہیں۔

    وکیل کا کہنا تھا کہ جوطلبااکتوبرنومبرمیں آئیں گےان سے اضافی فیس نہیں لی جائے گی، پاکستان کو اپنے حالات کے مطابق فیصلہ کرناہے، ہم یو اے ای یا بھارت کودیکھ کو فیصلہ نہیں کریں گے۔

    کیمرج وکیل نے مزید بتایا کہ پشاور ہائی کورٹ میں برٹش کونسل نے جواب جمع کرایا ہے، برٹش کونسل نے یقین دلایا ہے کہ ایس او پیز پر عمل کریں گے، ہم ہر طریقے سے طالب علموں کو سہولت دے رہے ہیں، سندھ میں 18ہزار طلبا اور ملک بھر میں ان کی تعداد85 ہزار ہے۔

    وکیل کیمبرج کا کہنا تھا کہ جو بچہ امتحان کے باوجودذہنی طورپرتیار نہیں اس کےلیےالگ آپشن ہے، ذہنی طور پر دباؤ والا بچہ چاہے تودوبارہ امتحان دے سکے گا، ایسے بچے اکتوبر، نومبر میں بھی دوبارہ امتحان دے سکیں گے، وکیل کیمبرج

    عدالت نے این سی اوسی کی پالیسی پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو دلائل دینے کی ہدایت کی ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نےبہت سوچ سمجھ کرپالیسی بنائی، سندھ میں 30ہزار اسٹوڈنٹس کے امتحانات ہیں، ایک سینٹرمیں زیادہ سے زیادہ50 بچے ہوں گے ، این سی اوسی نے بہت غورکے بعد فیصلہ کیا۔

    نمائندہ وفاقی حکومت نے استدعا کی کہ ان درخواستوں کومستردکیاجائے، لاہور،پشاورہائیکورٹ کےبعد یہ عدالت بھی درخواستیں مسترد کرے۔

  • یوسف رضا گیلانی کی چیئرمین سینیٹ الیکشن کیخلاف اپیل باقاعدہ سماعت کیلئے منظور

    یوسف رضا گیلانی کی چیئرمین سینیٹ الیکشن کیخلاف اپیل باقاعدہ سماعت کیلئے منظور

    اسلام آباد: ہائی کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کی چیئرمین سینیٹ الیکشن کیخلاف اپیل باقاعدہ سماعت کیلئےمنظور کرتے ہوئے وفاقی حکومت،صادق سنجرانی، سینیٹ سیکرٹریٹ سمیت دیگر کو نوٹس جاری کردیا۔

    تفصلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنیٹر یوسف رضا گیلانی کی چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کے خلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ پر مشتمل جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کی۔

    یوسف رضا گیلانی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے، فاروق ایچ نائیک نے کہا سنگل بنچ نے سینیٹ الیکشن سے متعلق درخواست خارج کی تھی، سنگل بنچ نے متعلقہ فورم سے رجوع کا حکم سنایا تھا، ڈویژن بنچ 12 مارچ کے چیئرمین سینیٹ کے انتخابات کالعدم قرار دے، عدالت چیئرمین سینیٹ کے 12 مارچ کا نوٹیفکیشن معطل کرے۔

    فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ درخواست میں وفاقی حکومت، صادق سنجرانی، سینیٹ سیکرٹریٹ سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے، 12 مارچ دو ہزار اکیس کو سینیٹ چیئرمین کے انتخابات منعقد ہوئے اور 2 مارچ کو یوسف رضا گیلانی نے بطور ممبر سینیٹ منتخب ہوا، چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔

    فاروق ایچ نائیک نے کہا پریزائڈنگ آفیسرکوصدرپاکستان نےالیکشن کیلئےنوٹیفائڈکردیاتھا، جس پر جسٹس عامر فاروق کا کہنا تھا کہ آرٹیکل69 سے آپ کیسےنکلیں گے۔

    یوسف رضا گیلانی کے وکیل کا کہنا تھا کہ آرٹیکل69سےپہلےآرٹیکل10عدالت کوبتاناچاہتا ہوں، معاملہ اسمبلی کارروائی سےمتعلق نہیں چیرمین سینیٹ کےالیکشن سے ہے، چیرمین اورڈپٹی چیئرمین سینیٹ کیلئےکوئی مخصوص قانون نہیں ہے۔

    فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کی کسی کارروائی کوعدالت میں چیلنج نہیں کیا، ہم نےصرف چیرمین سینیٹ الیکشن چیلنج کیاہے، پریزائڈنگ آفیسر ووٹ نہیں دےسکتا مگریہاں پرووٹ دیاگیا، 7 مستردووٹ پرسوال کیاگیا،پریزائڈنگ آفیسرنےجواب دیاعدالت جائیں، میں یوسف رضاگیلانی کاپولنگ ایجنٹ تھا۔

    عدالت نے یوسف گیلانی کی چیئرمین سینیٹ الیکشن کیخلاف اپیل باقاعدہ سماعت کیلئےمنظور کرتے ہوئے وفاقی حکومت،صادق سنجرانی، سینیٹ سیکرٹریٹ ، سیکریٹری قانون،سیکریٹری پارلیمانی افیئرز،پریزائیڈنگ آفیسرسمیت دیگر کو نوٹس جاری کرکے27 اپریل تک جواب طلب کرلیا۔

  • عورت مارچ پر مستقل پابندی کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر

    عورت مارچ پر مستقل پابندی کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر

    اسلام آباد : عورت مارچ پر مستقل پابندی کیلئے شہدافاؤنڈیشن نے اسلام آبادہائیکورٹ سے رجوع کرلیا، اور کہا عورت مارچ کے نام پر پاکستان کی عورت کو گھٹیا نعروں سے اکسایا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق شہدا فاؤنڈیشن نےعورت مارچ پرمستقل پابندی کیلئے اسلام آبادہائیکورٹ میں درخواست جمع کرا دی، درخواست میں کہا گیا کہ کچھ اسپانسراین جی اوزمغربی ایجنڈےکو پاکستان میں پھیلارہی ہیں، عورت مارچ کےنام پرپاکستان کی عورت کوگھٹیانعروں سےاکسایا جارہاہے۔

    شہدا فاؤنڈیشن کا درخواست میں کہنا تھا کہ 8مارچ کوعورت مارچ کرایاگیاجس پر فنڈنگ سےاربوں روپے خرچ کیے گئے، عورت مارچ میں زیادہ ترخواتین بظاہراجرت پرلائی گئی تھیں۔

    درخواست گزار نے کہا کہ مارچ میں پلےکارڈزپرمقدس شخصیات کےخلاف نعرےدرج تھے اور گینگسٹرز نے عورت مارچ کے لیے اجازت نامہ بھی حاصل نہیں کیا تھا۔

    شہدا فاؤنڈیشن نے اپنے مؤقف میں کہا کہ متعدداین جی اوزفارن فنڈنگ پرمعاشرےمیں بدامنی پھیلارہی ہیں جبکہ اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن جس کا بانی جارج سوروس ان سب کی فنڈنگ کررہاہے اور ڈیجیٹل رائٹ فاؤنڈیشن پاکستان کوبھی اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشن اسپانسرکررہا ہے ، ڈیجیٹل رائٹ کی سربراہ عورت مارچ کی ورکرنگہت داد ہیں۔

    درخواست میں کہا گیا کہ پاکستان اسلامی نظریےپربنایاگیااس میں ایسی سازش کیوں کی جارہی ہے، استدعا ہے کہ عورت مارچ کو مستقل طور پر فوری بند کیا جائے۔

    دائر  درخواست میں کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل تعین کرے پاکستان میں عورتوں کوقانونی حقوق حاصل ہیں یانہیں؟ وزارت دفاع کو ہدایت دی جائے، فارن این جی اوزکی فنڈنگ کی تحقیقا ت کرے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملے میں ملوث 21  وکلاء کے لائسنس معطل

    اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملے میں ملوث 21 وکلاء کے لائسنس معطل

    اسلام آباد : ہائی کورٹ پر حملے میں ملوث 21 وکلاء کے لائسنس معطل کر دیئے گئے ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا چند وکلاء کی وجہ سے سارے وکلاء بدنام ہوئے، ملوث وکلاء کوسزا ضرور ملے گی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ پر حملے میں ملوث 21 وکلاء کے خلاف مس کنڈکٹ کی کارروائی سے متعلق کیس پر سماعت ہوئی ، سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے لاجر بنچ پر مشتمل چیف جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس لبنا سلیم پرویز نے کی۔

    رجسٹرار ہائیکورٹ نے بتایا کہ 8 فروری کو کچھ وکلاء کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بلاک پر حملہ گیا تھا، اسکروٹنی کمیٹی نے ہائیکورٹ حملے میں ملوث 150 وکلاء کی نشاہدہی کی ، کمیٹی کی نشاندھی پر ابتدائی طور پر 21 وکلاء کے خلاف مس کنڈکٹ پر کارروائی کا آغاز کیا گیا،

    عدالتنے کہا وکلاء نے ہائیکورٹ پر حملے کے دوران چیف جسٹس بلاک میں توڑ پھوڑ کی تھی اور مشتعل وکلاء کی جانب سے چیف جسٹس سمیت تمام ججز کو 5 گھنٹے تک محصور رکھا گیا جبکہ حملے کے دوران سائلین کو حصول انصاف سے دور رکھا گیا۔

    چیف جسٹس ہائی کورٹ نے ریمارکس میں کہا میری ذات کا کوئی مسلہ نہیں ہے، یہ معاملہ مختلف ہے، ایک مکمل دن تک مجھے ہراساں کیا گیا، بہت ساری بار اور وکیلوں کے مسائل کو نظر انداز کیا، چند وکلاء کی وجہ سے سارے وکلاء بدنام ہوئے۔

    جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سانحہ اسلام آباد میں کچھ وکلاء باقی مشتمل وکلاء کو کنٹرول کرنے میں ناکام تھے، ایک خاتون وکیل نے دروازے پراینٹ مارا، جو وکلاء عناصر سانحہ میں ملوث تھے، ان کو سزا ضرور ملے گی۔

    چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ حملہ کیس میں ملوث اکیس وکلاء کے لائسنس معطل کردیے۔

  • اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہنگامہ آرائی ، ملوث وکلا کو شناخت کرکے دہشت گردی کے مقدمات بنانے کا فیصلہ

    اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہنگامہ آرائی ، ملوث وکلا کو شناخت کرکے دہشت گردی کے مقدمات بنانے کا فیصلہ

    اسلام آباد : ہائی کورٹ میں ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ میں ملوث وکلا کو شناخت کرکے دہشت گردی کے مقدمات بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ قانون توڑنے والے وکلا سے قانون تحت نمٹا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وکلا کے پرتشدد مظاہرے کے بعد اسلام آبادہائیکورٹ میں اعلیٰ سطح اجلاس ہوا ، جس میں آئی جی جمیل الرحمان، ڈی آئی جی آپریشن ، ڈی آئی جی سیکیورٹی ، ایس ایس پی آپریشن ، سیکورٹی ،سیشن جج طاہرمحمود،سیکریٹری قانون ، سیکریٹری داخلہ اور رجسٹرار اسلام آباد ہائیکورٹ شریک ہوئے۔

    اجلاس میں سی سی ٹی وی فوٹیج کی مددسے شناخت وکلا کو ایف آئی آرمیں شامل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا 250 سے 300 وکیلوں کے خلاف آج دہشت گردی کے مزید مقدمات درج ہوں گے۔

    اجلاس میں کہا گیا کہ کل کے ایف آئی آرمیں صرف 32 وکلا نامزد ہیں ، مزید 250 سے 300 وکلا کو آج نامزد کیا جائے گا، قانون توڑنے والے وکلا سے قانون تحت نمٹا جائے گا۔

    اعلیٰ سطح اجلاس میں کہا کہ میڈیا کو زدو کوب ، سیکیورٹی پرماموراہلکاروں کے ہتھیار چھیننا دہشت گردی ہے، چیف جسٹس اورعدالتی اہلکاروں کے ساتھ بدتمیزی کرنا قانونی جرم ہے،جو وکلا جرم میں ملوث ہیں ان کےخلاف آپریشن جاری ہے۔

    گذشتہ روز اسلام آباد کچہری میں چیمبرز گرانے کے خلاف وکلا نے چیف جسٹس کے چیمبر سمیت رجسٹرار برانچ کو کھنڈرات میں تبدیل کردیا تھا، مشتعل وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں توڑ پھوڑ کی، کشیدہ صورت حال کے باعث چیف جسٹس اسلام آباد کئی گھنٹوں تک اپنے چیمبرز میں محصور ہوگئے تھے۔

  • قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بحالی کا  معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم

    قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بحالی کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بحالی کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دیتے ہوئے 22 فروری تک رپورٹ طلب کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں قبائلی علاقوں میں انٹرنیٹ سروس بحال کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی ، عدالت نے استفسار کیا نوجوان بچوں کوکیوں روک رہے ہیں سہولت ان کو فراہم کریں، جس پر وکیل پی ٹی اے نے کہا وزارت داخلہ کو لکھا ہے سہولت دینے کے لیے تیار ہیں۔

    ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے جواب لکھاسیکیورٹی کی وجہ سے سہولت نہیں دے رہے،چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا بنیادی حقوق کامسئلہ ہے اس لیے وفاقی کابینہ کوبھیج دیتے ہیں، پہلے بھی آپ کو سمجھایا تھا کہ اس معاملے میں صوبے بھی شامل ہیں، عدالت کے پاس کوئی پیمانہ نہیں کہ سیکیورٹی صورتحال کاجائزہ لے۔

    وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ طویل عرصے سے درخواست زیر التوا ہے ،کوئی فیصلہ نہیں ہوا، وفاقی کابینہ کو معاملہ بھیجنا ہے تو ٹائم فریم دے دیا جائے، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ریاست کی ذمےداری ہے کہ بنیادی حقوق کاخیال رکھے، چیف جسٹس اطہر من اللہ

    عدالت نے قراردیا ہے کہ انٹرنیٹ کی سہولت شہریوں کابنیادی حق ہے اور صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ سیکیورٹی کامعاملہ ہے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی اور سماعت 22 فروری تک ملتوی کردی۔

  • پاکستانی حکومت  کو ایک بار پھر کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارتی حکومت سے رابطہ  کا حکم

    پاکستانی حکومت کو ایک بار پھر کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارتی حکومت سے رابطہ کا حکم

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے کلبھوشن یادیو کیلئے وکیل تقریری کیس میں ایک بار پھر پاکستانی حکومت کو بھارتی حکومت سے رابطہ کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے کہا بھارتی حکومت کلبھوشن کے معاملے پر سنجیدہ نہیں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں لارجر بنچ نے کلبھوشن کے لیے قونصل تقرری سے متعلق کیس پر سماعت کی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب بھی بینچ میں شامل تھے۔

    ڈپٹی اٹارنی نے عدالت کو بتایا کہ اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں مصروف ہیں، چیف جسٹس نے کہا محمد اسماعیل کا کیس کا کیا بنا، جس کی سزا پوری ہے، اس کو آزادی ہونا چاہیے، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ 22 جنوری تک محمد اسماعیل کو قید سے آزاد کیا جائے گا۔

    چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کیلئے وکیل مقرر کرنے کیلئے ہائیکورٹ نے 4 مرتبہ نوٹس کے باوجود بھارتی ہائی کمیشن نے کوئی وکیل مقرر نہیں کیا ، بھارتی حکومت کلبھوشن کے معاملے پر سنجیدہ نہیں ہے، ایک بار پھر پاکستانی حکومت بھارتی حکومت سے کلبھوشن کیلئے رابطہ قائم کرے۔

    بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے کلبھوشن کےلیےقونصل تقرری سےمتعلق کیس کی سماعت 3 فروری تک ملتوی کردی۔

    گزشتہ سماعت میں عدالت نے حامد خان سے عالمی عدالت انصاف کی روشنی میں معاونت طلب کرنے اور حکومت پاکستان کو کلبھوشن کیلئے ایک بار پھر بھارت سے رابطہ کرنےکا حکم دیا تھا، وزارت قانون کی جانب سے دارئر درخواست بھارتی جاسوس کیلئے وکیل مقرر کرنے کیلئے ہے، درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ عدالت اس حوالے سے حکم صادر کرے تاکہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق پاکستان کی ذمہ داری پوری ہو سکے۔

  • نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ2  ہفتے کے لیے مؤخر

    نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ2 ہفتے کے لیے مؤخر

    اسلام آباد : اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دینے کا فیصلہ دو ہفتےکے لیے مؤخر کردیا اور آئندہ سماعت پر ایف آئی اے اور دفتر خارجہ کے اہلکاروں کے بیانات قلمبند کرنے کی ہدایت کردی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی بذریعہ اشتہار طلبی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ پر مشتمل جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کر دیا گیا ہے، نواز شریف کی طلبی کے لیےعدالتی حکم پر اشتہار شائع کیا گیا، اشتہارات 19 اکتوبر 2019 کو شائع ہوئے۔

    طارق کھوکھر نے کہا کہ اشتہار لاہور لندن اور اسلام آباد ہائیکورٹ ، جاتی امرا،ماڈل ٹاؤن اور اسلام آباد ہائیکورٹ کےباہر اشتہار چسپاں کیے گئے اور عدالتی احکامات سے نواز شریف کو آگاہ کردیا گیا ہے۔

    دفتر خارجہ کے ڈائریکٹر مبشر خان نےبیان ریکارڈ کرایا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے کہا کہ لندن میں ہائی کمیشن کے اہلکار آئندہ سماعت پر بیان ریکارڈ کرائیں گے، طلبی کا اشتہار رائل میل کے ذریعے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس بھی بھیجا۔

    جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ دونوں افسران کا بیان آج ریکارڈ کریں ؟ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے بتایا کہ جیسے ہی عدالت بہتر سمجھے افسران کا بیان ریکارڈ کرے۔

    عدالت نے نوازشریف کواشتہاری قراردینے کا فیصلہ موخر کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر ایف آئی اے افسران کا بیان ریکارڈ کرنے اور وزارت خارجہ اورایف آئی اے کو تمام دستاویزات عدالت کوجمع کرانے کی ہدایت کردی۔

    عدالت نے اشتہارات کی تعمیل کرنے والے افسران کے بیانات قلمبند کرنےکا فیصلہ کرتے ہوئے کہا اشتہاری قرار دینے سے پہلے اطمینان کےلیے ایف آئی اے لاہور کے افسراعجاز احمد اور طارق مسعود کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے۔

    ایڈیشنل پراسیکیوٹرجنرل نے استدعا کی کہ دستاویزات جمع کرانے اور بیان کے لیے2ہفتےکاوقت دیاجائے، جس پر جسٹس عامر فاروق نے کہا بیان ریکارڈ کرنے کے لئے اتنےطویل وقت کی ضرورت نہیں، کیا نواز شریف کووکیل رکھنے کا حق ہوگا یا نہیں؟ ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل عدالت کو مطمئن کریں اور آئندہ سماعت پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب عدالتی معاونت کریں۔

    بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 2 دسمبر تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے عدالت نےنوازشریف کےناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیےہوئے ہیں جبکہ نواز شریف کو دو مرتبہ ذاتی طور پر گرفتاری پیش کرنے اور ایک بار ورنٹ گرفتاری اور اخبار اشتہار کے ذریعے پیش ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔

    خیال رہے ایون فیلڈریفرنس میں عدالت نےنواز شریف کی 10 سالہ سزامعطل کررکھی ہے جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کی اپیل زیرسماعت ہے، العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت نےنوازشریف کو7سال قیدسزاسنائی تھی۔

    نیب کی نواز شریف کی سزا 7 سےبڑھا کر14 سال کرنےکی اپیل پرسماعت بھی آج ہوگی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کی بریت کیخلاف نیب اپیل پرسماعت بھی ہوگی۔

    یاد رہے اسلام آبادہائی کورٹ نے نواز شریف کے اشتہارجاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا  تھا کہ 30 دن کے اندر اگر ملزم پیش نہیں ہوتے تو اشتہاری قرار دیا جائے۔

    عدالت کا کہنا تھا کہ  اخبارمیں چھپنے کے بعد اشتہار کو مختلف مقامات پر چسپاں کیا جائے گا اور اشتہار اسلام آبادہائی کورٹ، نوازشریف کی لاہور اور لندن رہائشگاہ کے باہر چسپاں کیا جائے گا۔