Tag: اسلام

  • گھوٹکی: پسند کی شادی کرنے والی نو مسلم لڑکیوں کی گھر واپسی، والہانہ استقبال

    گھوٹکی: پسند کی شادی کرنے والی نو مسلم لڑکیوں کی گھر واپسی، والہانہ استقبال

    گھوٹکی: پسند کی شادی کرنے والی نو مسلم بہنیں شازیہ اور آسیہ واپس اپنے گاﺅں پہنچ گئی ہیں، دونوں بہنوں کا والہانہ استقبال کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے علاقے گھوٹکی سے تعلق رکھنے والی نو مسلم بہنیں واپس اپنے گاؤں پہنچ گئیں جہاں دونوں کا شان دار استقبال کیا گیا۔

    سندھ پنجاب بارڈ پر جمع شدہ سینکڑوں افراد نے دونوں کے والہانہ استقبال کے دوران نو مسلم بہنوں پر پھولوں کی پتیاں بھی نچھاور کیں، روینا عرف آسیہ اور رینا عرف شازیہ کے شوہر صفدر اور برکت بھی ہم راہ تھے۔

    اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے اسلام قبول کرنے والے جوڑوں کو اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی اجازت دی تھی۔

    یہ بھی پڑھیں:  اسلام آباد ہائی کورٹ نے گھوٹکی کی 2نومسلم بہنوں کی تبدیلی مذہب درست قرار دے دی

    یاد رہے کہ سندھ کے ضلع گھوٹکی کی تحصیل ڈہرکی سے تعلق رکھنے والی دو ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد پسند کی شادی کی تھی، لڑکیوں نے تحفظ کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

    11 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے نو مسلم بہنوں کو تحفظ کی فراہمی کی درخواست پر فیصلہ کرتے ہوئے ان کی تبدیلی مذہب کو درست قرار دیا تھا۔

    عدالت میں پیش کردہ کمیشن رپورٹ میں کہا گیا کہ دونوں لڑکیوں کو زبردستی مذہب تبدیل نہیں کرایا گیا، تاہم انھیں مذہب تبدیلی کے لیے سہولت فراہم کی گئی تھی، دونوں بالغ لڑکیوں نے اسلام سے آشنا ہو کر اسلام قبول کیا۔

    میڈیکل بورڈ نے بھی اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی، جس کے مطابق دونوں بہنیں 18 اور 19 سال کی ہیں۔

  • شوہر کے ظلم سے تنگ بھارتی خاتون پاکستان آگئی، اسلام قبول کرلیا

    شوہر کے ظلم سے تنگ بھارتی خاتون پاکستان آگئی، اسلام قبول کرلیا

    اسلام آباد / گوجرانوالہ: شوہر کے ظلم سے تنگ بھارتی خاتون پاکستان بھاگ آئی، چندی گڑھ کی ٹینا نے پاکستان آ کر اسلام قبول کر لیا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی شہر چندی گڑھ سے تعلق رکھنے والی ایک ہندو خاتون نے اپنے شوہر کے تشدد سے تنگ آ کر ملک چھوڑ دیا اور پاکستان آ کر اسلام قبول کر کے گوجرانوالہ کے ایک شہری سلیمان سے شادی کر لی۔

    دوسری طرف بھارتی دفتر خارجہ نے ٹینا کو بھارت واپس بھیجنے کی درخواست کر دی اور کہا کہ ٹینا اپنے شوہر امیش سے ناراض ہو کر پاکستان آئی ہے۔

    بھارتی دفتر خارجہ نے الزام عائد کیا ہے کہ سلیمان نے اسے زبردستی اسلام قبول کروانے کے بعد یرغمال بنا رکھا ہے۔

    پاکستانی دفتر خارجہ کے ذرایع کے مطابق ٹینا کو بھارتی حکام کے حوالے کرنے کی بھارتی درخواست کو مسترد کر دیا جائے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:  کوئی دباؤ نہیں، بھارت پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کررہا ہے

    خیال رہے کہ ہندو خواتین کے قبول اسلام پر بھارت کی جانب سے ہمیشہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ مذہب کی تبدیلی زبردستی کرائی گئی ہے، سندھ کے علاقے گھوٹکی کی دو بہنوں کے حوالے سے بھی بھارت نے الزام لگایا کہ انھیں زبردستی اسلام قبول کرایا گیا۔

    گزشتہ روز گھوٹکی کی نو مسلم بہنوں نے کہا کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں، بھارت پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کررہا ہے، اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے نو مسلم بہنوں‌ آسیہ اور نادیہ نے کہا کہ انھیں بچپن سے مسلمان ہونے کا شوق تھا، جو اب پورا ہوا۔

  • ہم جبری مذہبی تبدیلی کے خلاف ہیں: گورنر پنجاب کا ٹویٹ

    ہم جبری مذہبی تبدیلی کے خلاف ہیں: گورنر پنجاب کا ٹویٹ

    لاہور: گورنر پنجاب چوہدری سرور نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جبری مذہبی تبدیلی کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔

    تفصیلات کے مطابق چوہدری سرور نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ہم جبری مذہبی تبدیلی کے خلاف ہیں، ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت کوشش کر رہی ہے۔

    گورنر پنجاب نے دو ہندو لڑکیوں کی جبری مذہبی تبدیلی کے واقعے پر پڑوسی ملک کے پروپیگنڈے پر متنبہ کیا کہ بھارت ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت سے باز رہے۔

    خیال رہے کہ ہندو برادری کے ہولی کے مذہبی تہوار پر گھوٹکی سے دو ہندو لڑکیوں رینہ اور روینہ کو اغوا کر کے زبردستی مسلمان کرایا گیا، وزیرِ اطلاعات کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو سندھ سے رحیم یار خان منتقل کیا گیا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  وزیراعظم عمران خان نے سندھ سے 2 ہندو لڑکیوں کے اغوا کا نوٹس لے لیا

    دوسری جانب بچیوں کے اہل خانہ نے واقعے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے پولیس پر عدم تعاون کا الزام بھی لگایا ہے، تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمہ درج کیا جا چکا ہے اور اس سلسلے میں ایک خاتون سمیت 7 افراد گرفتار ہیں۔

    ادھر پاکستان ہندو کونسل کے پیٹرن انچیف اور رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی نے واقعے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ لڑکیوں کو جلد از جلد بازیاب کرایا جائے اور ملو ث افراد کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

    واضح رہے کہ کم عمر ہندو لڑکیوں کے قبول اسلام کے حوالے سے ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آ چکی ہے، جس میں انھیں کلمہ پڑھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

  • مسلمانوں کے خلاف تعصب سے بدامنی وانتشارمیں اضافہ ہوگا‘ ملیحہ لودھی

    مسلمانوں کے خلاف تعصب سے بدامنی وانتشارمیں اضافہ ہوگا‘ ملیحہ لودھی

    نیویارک: اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ملیحہ لودھی نے بڑھتے اسلام دشمن رویے کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر ڈاکٹرملیحہ لودھی نے تقریب سے خطاب کے دوران بڑھتے اسلام دشمن رویوں کے اہم مسئلے کی جانب توجہ دلائی۔

    ملیحہ لودھی نے بڑھتے اسلام دشمن رویے کو عالمی امن کے خطرہ قراردے دیا، انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف تعصب سے بدامنی وانتشار میں اضافہ ہوگا۔

    نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا ایرڈن نے گزشتہ روز حملے میں زخمی ہونے والے افراد کی عیادت کے لیے اسپتال کا دورہ کیا جہاں انہوں نے مسلم کمیونیٹی سے ملاقات کی اور مسلم خواتین کو گلے لگا کرتسلی دی۔

    جیسنڈا ایرڈن کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کرائسٹ چرچ کا واقعہ نیوزی لینڈ کی عکاسی نہیں کرتا تاہم مذہبی اور ثقافتی آزادی ہرصورت ممکن بنائی جائے گی۔

    نیوزی لینڈ کی 2 مساجد میں فائرنگ‘ 49 افراد جاں بحق

    یاد رہے کہ دو روز قبل نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں دہشت گرد حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں خواتین وبچوں سمیت 49 افراد جاں بحق اور 20 زخمی ہوئے تھے۔

    مرکزی حملہ آور کی شناخت 28 سالہ برینٹن ٹیرنٹ کے نام سے ہوئی ہے اور وہ آسٹریلوی شہری ہے جس کی تصدیق آسٹریلوی حکومت نے کردی۔

  • ماہ رجب کی فضیلت اورتاریخی واقعات

    ماہ رجب کی فضیلت اورتاریخی واقعات

    ماہ رجب کو اسلام کے ظہور سے بھی پہلے سے حرمت والے مہینے کا درجہ حاصل ہے اور اس مہینے میں جنگیں رک جایا کرتی تھیں، اس مہینے کئی اہم اسلامی واقعات بھی پیش آئے ہیں۔

    اسلامی سال کے ساتویں مہینہ کا نام رجب المرجب ہے اور اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ رجب ترجیب سے ماخوذ ہے اور ترجیب کے معنی تعظیم کرنا ہے۔ یہ حرمت والا مہینہ ہے اس مہینہ میں جدال و قتال نہیں ہوتے تھے اس لیے اسے ’الاصم رجب‘ کہتے تھے کہ اس میں ہتھیاروں کی آوازیں نہیں سنی جاتیں۔

    اس مہینہ کو ’اصب‘ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت و بخشش کے خصوصی انعام فرماتا ہے۔ اس ماہ میں عبادات اور دعائیں مستجاب ہوتی

    رجب ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن کو قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے

    بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں اللہ کی کتاب میں جب سے اس نے آسمان اور زمین بنائے ان میں چار حرمت والے ہیں یہ سیدھا دین ہے تو ان مہینوں میں اپنی جان پر ظلم نہ کرو۔

    سورہ توبہ ، القرآن

    حدیث نبوی ﷺ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ رجب اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے ۔

    یہی مہینہ معراج النبی ﷺ کا بھی مہینہ ہے یعنی اسی ماہ کی 27 تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی کو آسمانوں کی سیر کرائی اور ملاقات کا شرف بخشا۔

    یہ واقعہ ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آیا۔ سرور کائنات، رحمت اللہ العالمین کے اعلان نبوت کا بارہواں سال مصائب و مشکلات سے گھرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب سے ملاقات کا اہتمام فرمایا، پیغمبر خدا کی آسمانوں کی سیر اوراس میں اللہ تعالیٰ کے نشانیوں کا مشاہدہ بھی کمال ہے، اس واقع کو عمبر شاہ وارثی اپنے کلام میں یوں بیان فرماتے ہیں۔

    سرِلامکاں سے طلب ہوئی
    سوئے منتہیٰ وہ چلے نبیﷺ

    قرآن پاک میں بنی اسرائیل کی پہلی آیت میں اس واقعہ کا ذکر موجود ہے ، جو معراج یا اسراء کے نام سے مشہور ہے ، احادیث میں بھی اس واقعہ کی تفصیل ملتی ہے، شب معراج انتہائی افضل اور مبارک رات ہے کیونکہ اس رات کی نسبت معراج سے ہے ۔

    پاک ہے وہ ذات جس نے راتوں رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک سیر کرائی جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، بے شک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔

    سورہ بنی اسرائیل، القرآن

    پہلے مرحلے میں سفرِ معراج کا پہلا مرحلہ مسجدُ الحرام سے مسجدِ اقصیٰ تک کا ہے، یہ زمینی سفر ہے۔

    دوسرے مرحلے سفرِ معراج کا دوسرا مرحلہ مسجدِ اقصیٰ سے لے کر سدرۃ المنتہیٰ تک ہے، یہ کرۂ ارضی سے کہکشاؤں کے اس پارواقع نورانی دنیا تک سفر ہے۔

    تیسرے مرحلے سفرِ معراج کا تیسرا مرحلہ سدرۃ ُالمنتہیٰ سے آگے قاب قوسین اور اس سے بھی آگے تک کا ہے،چونکہ یہ سفر محبت اور عظمت کا سفر تھا اور یہ ملاقات محب اور محبوب کی خاص ملاقات تھی لہٰذا اس رودادِ محبت کو راز میں رکھا گیا، سورۃ النجم میں فقط اتنا فرمایا کہ وہاں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو راز اور پیار کی باتیں کرنا چاہیں وہ کرلیں۔

    علمائے اسلام کے مطابق معراج میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات روحانی نہیں، جسمانی تھی، جسے آج کے جدید دور میں سمجھنا مشکل نہیں، شبِ معراج میں نفلی عبادات انجام دینا احسن اقدام ہے لیکن اس رات کو ملنے والے تحفے نماز کی سارا سال پابندی بھی اللہ تعالیٰ کی پیروی کا ثبوت ہے۔

    ماہ رجب میں پیش آنے والے چند اہم تاریخی واقعات

    تاریخ اسلام میں ماہ رجب میں متعدد تاریخی واقعات پیش آنے کا ذکر ہے ان میں سے ایک ہجرت حبشہ اولیٰ ہے‘ جب مسلمان اہل مکہ کی سختیاں برداشت کرنے سے عاجز آکر باذن رسول اﷲﷺ عازم حبشہ ہوئے۔ اس قافلہ میں باختلاف روایات 12 مرد اور 4 عورتیں تھیں‘ سیدنا عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ قافلہ سالار مہاجرین تھے۔ یہ سن پانچ نبوی کا واقعہ ہے۔

    سریہ عبداﷲ بن حجش الاسدی اسی ماہ رجب میں ہجرت مدینہ سے کوئی 17 ماہ بعد پیش آیا جس کا ذکر ہم پہلے ہی کرچکے ہیں۔ یہ وہ سریہ ہے جس نے اسلامی تاریخ میں نئے ریکارڈ قائم کئے ہیں‘ مثلا اسلامی تاریخ کا پہلا مال غنیمت‘ پہلا خمس‘ پہلا شہید اور پہلا قیدی اس سریہ نے پیش کیا۔

    9 ہجری میں پیش آنے والا عظیم غزوہ‘ غزوہ تبوک بھی ماہ رجب ہی میں پیش آیا تھا جسے غزوہ ذات العسرہ کا نام دیا گیا۔ یہی وہ غزوہ ہے جس میں سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اپناگھر بار خالی کرکے تن من دھن حضورﷺ کی خدمت میں پیش کرنے کا شرف ایک بار پھر حاصل کیا اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ نے تہائی لشکر کا سازوسامان اپنی گرہ سے پیش کرکے جنت کا پروانہ اور یہ سند حاصل کی۔

    اسلام کے چوتھے خلیفہ اور دامادِ رسول ﷺ بھی 13 رجب کو اس دنیا میں تشریف لائے ، ان کی ولادت کا سال تاریخی کی کتابوں میں سنہ 30 عام الفیل رقم ہے۔

    حبشہ کے مسلمان بادشاہ نجاشی کا انتقال 9 ہجری ماہ رجب میں ہوا اور جناب رسول اﷲﷺ نے ازخود اطلاع پاکر اپنے صحابہ کی معیت میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی۔

    دمشق کی تاریخی فتح 14 ہجری سن 635ء عیسوی میں ماہ رجب ہی میں ہوئی۔ حضرت خالد بن الولید رضی اﷲ عنہ اور حضرت ابو عبیدہ رضی اﷲ عنہ جو ربیع الثانی 14 ہجرت سے دمشق کا محاصرہ کئے ہوئے تھے‘ فتح یاب ہوئے اور اہل دمشق نے صلح کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی۔

    سلطان صلاح الدین ایوبی نے 583ھ‘ 1187ء میں رجب ہی کے مہینے میں فتح بیت المقدس کے بعد مسلمانوں کے ہمراہ مسجد اقصیٰ میں فاتحانہ داخل ہوکر عاجزانہ سجدہ شکر ادا کرنے کا شرف حاصل کیا۔

  • سات سو سال تک زندہ رہنے والے ہندوستانی صحابی رسولؓ

    سات سو سال تک زندہ رہنے والے ہندوستانی صحابی رسولؓ

    کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی بھارت کے ایک شہر بھٹنڈہ میں آسودۂ خاک ہیں، ان کی وہاں موجودگی سےآج بھی لوگ فیض حاصل کررہے ہیں۔

    بھارتی شہربھٹنڈہ سے تعلق رکھنے والے بابا رتن ہندی کا نام رتن ناتھ ابن نصر ہے اورروایت کے مطابق وہ ایک تاجر تھے ، جو کہ عرب ممالک میں اپنے مال کی فروخت کے لیے جایا کرتے تھے ۔

    بابا رتن ہندی کا تذکرہ علامہ ابن حجر عسقلانی نے اپنی تصنیف ’الصحابہ جلد اول‘ میں کیا ہے۔علاؤ الدین سمنانی نے اپنی کتاب فصل الخطاب میں ان کا ذکر کیا ہے جبکہ شاہ ولی علی اللہ نے بھی ان کا تذکرہ کیا ہے، معروف مصنف اشفاق احمد نے بھی اپنی مشہورزمانہ تصنیف زاویہ میں ان سے منسوب ایک کرامت کا تذکرہ کیا ہے ۔

    روایت ہے کہ رتن ہندی اپنی جوانی میں عرب کا سفر کررہے تھے کہ ایک خوبصورت کمسن چرواہے کو ، جس کی عمر سات سال کے لگ بھگ تھی ، انہوں نے مشکل میں دیکھا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر اس کی مدد کی تو اس حسین نقوش کے حامل بچے نے حیرت انگیز طور پر انہیں سات بار دعا دی کہ ’اللہ تمہیں طویل عمر عطا کرے‘۔

    رتن اس کے بعد واپس ہند لوٹ آئے اور اپنے کاروبارِ حیات میں مشغول ہوگئے ،لگ بھگ 50 سال بعد ہند والوں نے شق القمر کا واقعہ دیکھا تو اس کا خوب تذکرہ ہوا، عرب سے آنے والے قافلے والوں نے بتایا کہ یہ کام وہاں قیام پذیر ایک ’اوتار‘ ( الہیٰ نمائندے ) نے کیا ہے ۔ یہ سن کر بابا رتن ہندی کے دل میں خواہش ہوئی کہ وہ اس اوتار کی زیارت کریں ، سو ایک بار پھر سامانِ تجارت لیا اور عرب کےسفر پر روانہ ہوئے ۔ مکے پہنچے توپتا چلا کہ چاند کے دو ٹکرے کرنے والی شخصیت یہاں سے جاچکی ہے اور اب مدینے میں قیام پذیر ہے۔

    اپنے دل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے رتن ہندی مدینے چلے آئے اور سیدھے مسجدِ نبوی ﷺ پہنچے تو دیکھا کہ آنحضرت ﷺ اصحاب کے جھرمٹ میں بیٹھے انہیں تعلیم فرما رہے ہیں۔ رتن کی آمد پر وہ ا ن کی جانب متوجہ ہوئے اور آمد کا مقصددریا فت کیا تو انہوں نے کہا کہ معجزہ دیکھنا چاہتا ہوں۔

    ہند سے مدینے آنے والے اس تاجر کی بات پراللہ کے رسول ﷺ شفقت سے مسکرائے اور فرمایا کہ اے رتن ہندی! کیا بچپن میں جو میں نے تجھے طویل عمر کی دعا دی تھی ، وہ مجھ پر ایمان لانے کے لیے کافی نہیں ہے۔ یہ سننا تھا کہ رتن ناتھ نے کلمہ حق بلند کیا اور حضرت رتن رضی اللہ تعالی ٰ عنہہ قرار پائے۔

    اس سےآگے روایات میں اختلاف پایا جاتا ہے، کچھ کا خیال ہے کہ وہ پھر وہیں زندگی بھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہے ، کچھ کے نزدیک وہ چند دن وہاں گزار کر واپس اپنے وطن بھٹنڈہ لوٹ آئے اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت شروع کی۔

    مشہور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی بچپن میں دی دعا کی برکت سے وہ سات سو سال تک زندہ رہے اور برصغیر میں دین کی تبلیغ کرتے رہے۔شیخ رضی الدین علی ابن سعید لکھتے ہیں کہ جب انہوں نے 624 ہجری میں ہند کا دورہ کیا تو حضرت رت ہندی حیات تھے ، اور انہوں نے شیخ کو خود رسول اللہ ﷺ کی مجلس کا آنکھوں دیکھا حال سنایا تھا۔

  • جمعہ کا دن دیگر مذاہب میں بھی اہمیت کا حامل

    جمعہ کا دن دیگر مذاہب میں بھی اہمیت کا حامل

    جمعہ کا دن مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل دن ہے۔ بے شمار اسلامی تاریخی واقعات سے مناسبت رکھنے والے اس دن کو بڑے اہتمام سے نمازِ جمعہ ادا کی جاتی ہے اور خطبۂ جمعہ ہوتا ہے۔

    آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جمعے کا دن صرف مسلمانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر تہذیب کے لیے کسی نہ کسی اہمیت کا حامل ہے۔

    قدیم انگریزی ادوار میں جمعہ یعنی فرائیڈے کا دن فرج یا فریڈج نامی رومن دیوی سے منسوب تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی دیوی کے نام پر فرائیڈے کا نام رکھا گیا اور دنیا بھر کی مختلف زبانوں میں تقریباً یہی لفظ مختلف لہجوں اور حروف تہجی کے ساتھ رائج ہے۔


    عیسائیت

    قدیم دور کی کچھ حکایتوں کے مطابق عیسائیت کے کچھ فرقوں میں جمعے کے دن کو برا خیال کیا جاتا تھا۔ اس دن خاص طور پر کوئی سمندری سفر کرنے سے گریز کیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ جمعہ کے دن کیے جانے والے سمندری سفر کا اختتام تباہی پر ہوگا۔

    رومن کیتھولکس کے فرقے میں جمعے کے دن کاشت کاری کی جاتی تھی۔ یہ دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیے جانے سے بھی منسوب ہے لہٰذا اس دن کاشت کاری کرنا دراصل اس عقیدے کا مظہر تھا کہ جس طرح بیج کو زمین میں دفن کرنے کے بعد نئی زندگی باہر آتی ہے اسی طرح موت کے بعد انسانوں کے لیے بھی ایک نئی زندگی ہوگی۔

    رومن کیتھولکس جمعے کے دن گوشت کھانے سے بھی پرہیز کرتے ہیں اور اس دن سبزیاں کھاتے ہیں۔ مشرقی آرتھوڈوکس چرچ کے ماننے والے جمعہ کے دن روزہ بھی رکھا کرتے تھے۔


    ہندومت

    ہندو مذہب میں بھی جمعے کا دن اہمیت کا حامل ہے۔ یہ دن دیوی درگا اور لکشمی سے منسوب ہے اور اس دن ان دونوں دیویوں کی پوجا کی جاتی ہے۔


    یہودیت

    یہودیوں کے اکثر فرقے بھی جمعہ کے دن کو متبرک خیال کرتے ہیں اور اس دن روزہ رکھا کرتے ہیں۔


    اسلام

    جمعہ عربی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے جمع ہونا۔ اس دن تمام مسلمان دنیاوی مصروفیات چھوڑ کر اللہ کی بارگاہ میں ملی جذبے اور نظم و ضبط کے ساتھ سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف حیثیت کے لوگوں کو آپس میں گھلنے ملنے کا موقع بھی ملتا ہے جس سے بھائی چارے اور مسلم یگانگت میں اضافہ ہوتا ہے۔

  • مشہور و معروف آئرش  گلوکارہ شنیڈ اوکانر نے اسلام قبول کرلیا

    مشہور و معروف آئرش گلوکارہ شنیڈ اوکانر نے اسلام قبول کرلیا

    آئر لینڈ : مشہور و معروف آئرش راک اسٹار شنیڈ اوکانر نے اسلام قبول کرکے اپنا نام شہدا رکھ لیا اور کہا میرا اسلام قبول کرنا بغیر کسی دباو کہ ایک فطری عمل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق 51 سالہ مشہور و معروف آئرش راک اسٹار شنیڈ اوکانر نے اسلام قبول کرنے کے بعد سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا مسلمان ہونے پر بے حد فخر محسوس کررہی ہیں، یہ کسی بھی ذہین نظریاتی سفر کا فطری نتیجہ ہے اور تمام تحریری مطالعے اسلام کی طرف جاتے ہیں، میں نے اپنا نام بھی تبدیل کر لیا ہے، اب مجھے نئے نام شہداء سے ہی پکارا جائے۔

    اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی گلوکارہ کی جانب سے ٹوئٹر پیج پر نام اور تصویر بھی تبدیل کردی گئی۔

    شنیڈ اوکانر نے حجاب کے ساتھ تصویر اور ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر شئیر کی۔

    ایک اور ٹوئٹ میں آئرش گلوکارہ نے اذان کی ادائیگی کی ویڈیو شیئر کی اور ادائیگی میں ہونے والی غلطیوں پر معافی مانگی۔

    مغربی میڈیا کے مطابق آئرش گلوکارہ شنیڈ اوکانر جنہیں مگدا داویت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ،ان کو 80 کی دہائی میں اس وقت شہرت ملی، جب انہوں نے اپنی پہلی میوزک البم لانچ کی اور میوزل البم "دی لائن اینڈ دی کوبرا” نے ریلیز کے ساتھ ہی کئی ریکارڈز قائم کیے۔

    بعد ازاں 90 کی دہائی میں معروف گلوکار کو گلوکار پرنس کے گانے "ناتھنگ کپمیریس ٹو یو” کے ری مکس نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

  • وہ خط جو ایک ہزارسال بعد اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا

    وہ خط جو ایک ہزارسال بعد اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا

    حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک ہزارسال پیشتر یمن کا بادشاہ تُبّع خمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی ، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا ،اور اپنے وزیر سے اس کی وجہ پوچھی ۔

    وزیر نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔

    یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہ ہی علماء میں سے ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا ، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں، بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی ، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔

    پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہ موجود علماء نے جو کتب ِسماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے پڑھی تھیں ، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔

    یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہوسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔

    وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہوسلم کی خدمت اقدس مین ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا ؟سنئیے اور عظمت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان دیکھئے:

    ”کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے

    شفیع المزنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام

    اما بعد، اے اللہ کے حبیب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پرنازل ہوگی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اورمیں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کرسکا تو میری شفاعت فرمانا اورقیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔“

    شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق درجوق آرہے تھے اورکوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اورسڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تشریف لائیں۔

    حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع خمیری نے حضور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا ، اسی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضور کو شاہ یمن تبع خمیری کا خط دے آو جب ابو لیلٰی حاضر ہوا تو حضور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔ حضور نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا، حضور نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تُبّع کو آفرین و شاباش ہے۔


    بحوالہ کُتب: (میزان الادیان)، (کتاب المُستظرف)، (حجتہ اللہ علے العالمین)،(تاریخ ابن عساکر)۔

  • اسلام کے علاوہ کن کن مذاہب میں روزے رکھے جاتے ہیں

    اسلام کے علاوہ کن کن مذاہب میں روزے رکھے جاتے ہیں

    دنیا میں اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں بھی روزے کا تصور پایا جاتا ہے اور غیرمسلموں کا بھی ایک طبقہ روزہ رکھتا ہے، حالانکہ ان کے ہاں روزے کے معاملات کچھ الگ ہیں اور وہ اپنے طریقے سے روزے رکھتے ہیں، ان کے روزے کے ایام بھی مختلف ہیں۔

    اسلام میں روزہ ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہے، اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں۔ جن میں روزہ ایک اہم عبادت ہے ،اور اپنے اللہ کی رضامندی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    دنیا میں مسلمانوں کی بڑی تعداد رمضان کے روزے رکھتی ہے، اللہ نے قرآن کریم میں جہاں روزے کی فرضیت بیان کی ہے وہاں یہ بھی بتایا ہے کہ پرانی امتوں پر بھی روزے فرض کئے گئے تھے۔

    ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فر ض کئے گئے ہیں جیسا کہ ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے جو تم سے قبل ہوئے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘(سورہ بقرہ)

    اہل اسلام کے لئے روزے کی فرضیت کا حکم اگرچہ ہجرت نبوی کے بعد ہوا مگراس سے قبل بھی دنیا کے دوسرے مذاہب میں روزے کا تصور پایا جاتا تھا۔

    یہودی مذہب


    مسلمانوں کے علاوہ یہودی بھی بہت زیادہ روزے رکھتے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام پرنازل ہونے والی مُقدس کتاب تورات میں کئی مقامات پرروزہ کی فرضِیّت کاحکم دیاگیاہے۔

    حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں صرف ایک روز ہ فرض تھا اور یہ عاشورہ کا روزہ تھا ۔یوم عاشورہ کے روزے کو کفارہ کا روزہ کہا جاتا ہے، روزے میں یہودی اپنا بیش تر وقت سینیگاگ میں گزارتے ہیں اور توبہ و استغفار کرتے ہیں نیز توریت کی تلاوت میں مصروف رہتے ہیں۔

    تورات کی بعض روایات سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل پر ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو کفارہ کا روزہ رکھنا ضروری تھا ۔ یہ روزہ نہ رکھنے والوں کے لئے سخت بات کہی گئی تھی کہ جو کوئی اس روزہ نہ رکھے گا اپنی قوم سے الگ ہو جائے گا ۔

    توریت کی روایات بتاتی ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب طور پہاڑ پر توریت لینے کے لئے گئے اور چالیس دن مقیم رہے تو روزے کی حالت میں رہے۔

    یہودیوں کے ہاں مصیبت اور آفات آسمانی کے وقت میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے اور وہ رکھتے بھی ہیں۔ جب بارشیں نہیں ہوتی ہیں اور قحط سالی پڑتی ہے تو بھی یہودیوں کے ہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔یہودیوں میں اپنے بزرگوں کے یوم وفات پر روزہ رکھنے کا رواج بھی پایا جاتا ہے۔ مثلاً موسیٰ علیہ السلام کے یوم انتقال پر یہودی روزہ رکھتے ہیں، علاوہ ازیں کچھ دوسرے بزرگوں کے یوم وفات پر بھی روزے رکھے جاتے ہیں۔

    پارسی مذہب


    پارسی مذہب کی اِبتدا حضرت عیسٰی علیہ السلام سے چھ سو سال پہلے فارس (ایران)میں ہوئی تھی، یہودیوں کی طرح عیسائیوں میں بھی روزہ کا تصور پایاجاتا ہے۔ انجیل کی روایات کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام نے چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھا تھا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے روزے کے بارے میں اپنے حواریوں کو ہدایت بھی فرمائی ہے۔

    رومن کیتھولک


    عیسائیوں میں سب سے بڑا فرقہ رومن کیتھولک ہے، رومن کیتھولک عیسائیوں میں بُدھ اورجمعہ کو روزہ رکھاجاتا ہے۔ اِن روزوں کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں پانی پینے کی اجازت ہوتی ہے کیونکہ اُن کے بقول پانی خوراک میں شامل نہیں ہے۔

    بائبل میں اس بات کی تاکید ملتی ہے کہ روزہ خوشدلی کے ساتھ رکھا جائے اور چہرہ اداس نہ بنایا جائے اور نہ ہی بھوک وپیاس سے پریشان ہوکر چہرہ بگاڑا جائے۔

    ہندو مذہب


    بھارت میں پرانے زمانے سے ہی روزے کا تصور پایا جاتا ہے جسے عرف عام میں ’’ورت‘‘ کہا جاتا ہے۔’’ورت‘‘کیوں رکھا جاتا ہے اور اس کے احکام کہاں سے آئے اس بارے میں ٹھیک ٹھیک کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر مذہبی اور سماجی روایات چلی آرہی ہیں جن کی پابندی میں یہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔

    ہندووں میں ہر بکرمی مہینہ کی گیارہ بارہ تاریخوں کو ’’اکادشی‘‘ کا روزہ ہے، اس حساب سے سال میں چوبیس روزے ہوئے ، ہندو جوگی اور سادھو میں بھوکے رہنے کی روایت پرانے زمانے سے چلی آرہی ہے اور وہ تپسیا وگیان ،دھیان کے دوران عموماً کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔

    ہندووں کے ہاں روزے کی حالت میں پھل،سبزی اور دودھ وپانی وغیرہ کی ممانعت نہیں ہے ،مگر بعض روزے ایسے بھی ہیں، جن میں وہ ان چیزوں کا استعمال بھی نہیں کرسکتے ہیں۔

    ہندوسنیاسی بھی جب اپنے مُقدس مقامات کی زیارت کیلئے جاتے ہیں تو وہ روزہ میں ہوتے ہیں، ہندوؤں میں نئے اور پورے چاند کے دنوں میں بھی روزہ رکھنے کا رواج ہے۔ اِس کے علاوہ قریبی عزیز یا بزرگ کی وفات پربھی روزہ رکھنے کی رِیت پائی جاتی ہے۔

    خاص بات یہ کہ ہندو عورتیں اپنے شوہروں کی درازی عُمر کیلئے بھی کڑواچوتھ کاروزہ رکھتی ہیں۔

    بُدھ مذہب


    بدھ مذہب کی ابتدا چھٹی صدی قبل مسیح کے لگ بھگ ہندوستان کے شمال مشرقی حصہ میں ہوئی، بدھ مت کے بانی مہاتما بدھ تھے، بدھ مت میں روزے کو ان تیرہ اعمال میں شمار کیا گیا ہے، جو ان کے نزدیک خوش گوار زندگی اپنانے میں مدد دیتے ہیں۔ وہ روزے کو باطن کی پاکیزگی کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔

    بُدھ مت کے بھکشو (مذہبی پیشوا) کئی دنوں تک روزہ رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔

    گوتم بُدھ کی برسی سے مُتصِل پہلے پانچ دن کے روزے رکھے جاتے ہیں یہ روزے بھکشو مکمل رکھتے ہیں لیکن عوام جزوی روزہ رکھتے ہیں جس میں صرف گوشت کھانامنع ہوتاہے۔

    بُدھ مت میں عام پیروکاروں کو ہر ماہ چار روزے رکھ کر گناہوں کا اعتراف اور توبہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔

    جین مذہب


    جین مت کی ابتدا آج سے تقریباً 2550 سال پہلے ہندوستان کے علاقے اترپردیش میں ہوئی، مہاویر اس مذہب کے بانی ہیں۔

    ہندومت کی طرح جین مت میں بھی سنیاسی مقدس مقامات کی زیارت کے دوران میں روزے رکھتے ہیں اور اسی طرح بعض خاص تہواروں سے پہلے روزے رکھنے کا دستور بھی ان میں پایا جاتا ہے، ان کے مذہب میں مشہور تہوار وہ ہیں، جو ان کے مذہب کے بانی مہاویر کی زندگی کے مختلف ایام کی یاد میں منائے جاتے ہیں۔

    ان کا پہلا تہوار سال کے اس دن منایا جاتا ہے، جس دن مہاویر عالم بالا سے بطن مادر میں منتقل ہوئے تھے۔ دوسرا تہوار ان کے یوم پیدایش پر منایا جاتا ہے۔ تیسرا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے دنیا سے تیاگ اختیار کیا تھا، یعنی ترک دنیا کی راہ اختیار کی تھی۔ چوتھا تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن انھوں نے الہام پا لیا تھا اور پانچواں تہوار اس دن منایا جاتا ہے جس دن ان کی وفات ہوئی تھی اور ان کی روح نے جسم سے مکمل آزادی حاصل کر لی تھی۔

    ان تہواروں میں سب سے نمایاں تہوار پرسنا کے نام سے موسوم ہے۔ یہ تہوار بھادرا پادا (اگست۔ ستمبر) کے مہینے میں منایا جاتا ہے۔ جین مت کے بعض فرقوں میں یہ تہوار آٹھ دن تک اور بعض میں دس دن تک جاری رہتا ہے۔ اس تہوار کا چوتھا دن مہاویر کا یوم پیدایش ہے۔ اس تہوار کے موقع پر عام لوگ روزے رکھتے اور اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگتے اور توبہ کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔