Tag: اسلم پرویز کی آپ بیتی

  • مرزا جی کی وفات پر حافظ صاحب نے بچّوں کو گجک کیوں کھلائی؟

    مرزا جی کی وفات پر حافظ صاحب نے بچّوں کو گجک کیوں کھلائی؟

    بلبلی خانے کی اسی انار والی مسجد کے ساتھ ہی ایک مرزا صاحب کی حویلی تھی۔ مرزا صاحب حافظ جی ہی کی عمر کے تھے، بڑے سرخ و سفید۔ تنہا رہتے تھے، اس لیے دن کا زیادہ تر وقت حویلی کے جھروکے میں گزارتے تھے جس سے ان کا وقت بھی گزر جاتا اور دل بھی بہلتا تھا۔

    حافظ جی اور مرزا صاحب کی بڑی گاڑھی چھنتی تھی۔ مرزا صاحب کی اس حویلی کے آدھے حصّے میں لڑکیوں کا سرکاری مڈل اسکول چلتا تھا جو آج بھی قائم ہے اور بلبلی خانہ اسکول کہلاتا ہے۔

    پھر ایسا ہوا کہ مرزا صاحب بیمار پڑگئے۔ عمر کی جس منزل میں مرزا صاحب تھے، ان کی یہ بیماری اللہ میاں کے ہاں سے ان کے بلاوے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی یہاں تک کہ مرزا صاحب عالمِ نزع میں پہنچ گئے۔

    اب یہ وہ زمانہ تھا جب زیادہ تر لوگ خصوصاً عمر دراز اور ضعیف لوگ سفرِ آخرت پر روانہ ہونے سے پہلے مقامِ نزع پر کچھ عرصہ ٹھیکی ضرور لیتے تھے۔ نزع کا یہ عرصہ دو چار گھنٹے سے لے کر کبھی کبھی دو چار دن تک ہوجاتا تھا، یہاں تک کہ عزیز و اقربا انھیں جاں کنی کے عالم میں دیکھ، ان کی مشکل آسان ہونے کی دعا مانگنے لگتے تھے۔

    تو جب مرزا صاحب پر بھی عالمِ نزع طاری ہوا تو حافظ جی نے فوراً شاہ ولی اللہ کے مہندیان کے قبرستان میں ان کی قبر کا بندوبست کردیا۔ مرزا صاحب پر جب نزع طاری ہوئے تیسرا دن لگا تو حافظ جی نے قرآن پڑھنے والے اپنے معصوم بچوں سے یہ کہہ کر ان کے مرنے کی دعا کروائی کہ دیکھو میں نے مرزا جی کے لیے پیسے خرچ کرکے قبر کا بندوبست کردیا اور مرزا صاحب ہیں کہ اب مر کر ہی نہیں دے رہے۔ اب اللہ میاں سے اپنی معصومیت کی دہائی دے کے دعا کرو، وہ انھیں اٹھا لیں تاکہ میرے پیسے بھی ٹھکانے لگیں اور تمھاری دعا بھی کارگر ہو۔ اگر ایسا ہوگیا تو میں تم سب کو کانڑی کے ہاں سے گجک (گزک) منگوا کے کھلواﺅں گا۔

    بچّوں نے اللہ میاں سے مرزا صاحب کے جاں بحق ہونے کی خوب دعائیں کیں، خاص طور پر اس لیے بھی کہ ان کے حافظ جی کی قبر پر لگائی ہوئی رقم نہ ڈوبے۔ لیجے خدا کا کرنا کیا ہوتا ہے، شام ہوتے ہوتے مرزا صاحب جاں بحق تسلیم۔

    تدفین سے فارغ ہونے کے اگلے روز حافظ جی نے وعدے کے مطابق کانڑی کے ہاں سے گجک منگوا کے لڑکوں میں تقسیم کی اور جو لڑکا گجک لینے گیا تھا اسے خاص طور پر یہ تاکید کردی کہ آج چنوں کی خریدوفروخت والی کوئی شرارت کانڑی کے ساتھ نہ کرنا۔ تو مرزا جی کی وفات پر حافظ جی کا یہ ‘شیکسپیئرین’ حزنیہ طربیہ کبھی کبھی آج بھی یاد آجاتا ہے۔

    (بھارت سے تعلق رکھنے والے معلّم اور ادیب اسلم پرویز کی آپ بیتی ‘میری دلّی’ سے اقتباس)

  • دلّی والوں کا دستر خوان

    دلّی والوں کا دستر خوان

    1947ء سے پہلے تک دلّی والوں کا دستر خوان بڑا سادہ ہوتا تھا۔ جیسا بھی کچھ زور تھا وہ بس دو وقت کے کھانے پر تھا، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا۔

    ناشتے کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا تھا، سوائے اس کے کہ شدید گرمی کے موسم میں تانبے کی درمیانی سائز کی قلعی دار بالٹی میں کبھی برف ڈال کر تخمِ ریحاں کا شربت بن گیا، جسے بول چال کی زبان میں تخمراں کا شربت کہتے تھے اور بہت سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ تخمراں اصل میں کس لفظ کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔

    کسی دن ستّو بن گئے، ستّوﺅں میں مٹھاس کے لیے گڑ کی شکر پڑتی تھی، کسی دن اور زیادہ عیش کا موڈ آیا تو بازار سے دہی منگوا کے دہی کی لسّی بنالی۔ سب نے ایک ایک گلاس اس مشروب کا پیا اور بس ناشتہ ہوگیا۔

    شدید گرمی کے علاوہ باقی موسم میں ناشتے کے نام پر صرف چائے بنتی تھی جس کے لیے تانبے کی قلعی دار پتیلی چولھے پر چڑھتی تھی، جو پانی چائے بنانے کو ابالنے کے چڑھایا جاتا تھا اس میں تھوڑی سی کنکریاں نمک کی ضرور ڈالی جاتی تھیں، پانی میں اُبال آنے کے بعد اس میں چائے کی پتّی ڈالی جاتی تھی اور اسے اس وقت تک اونٹایا جاتا تھا جب تک کہ چائے کی پتّی خوب پانی پی کر پتیلی کی تہ میں نہ بیٹھ جائے۔

    اب اس میں چینی اور بھینس کا جوش کیا ہوا بالکل خالص دودھ ملایا جاتا تھا، اس کے بعد چند منٹ تک چائے چلانے کے لیے ایک خاص قسم کے چمچے سے جسے گھَنٹی کہتے تھے، چائے بھر بھر کے کئی بار نکالی اور انڈیلی جاتی تھی جیسے دودھ کی دکان پر دودھ والے کڑھاﺅ میں سے لُٹیا میں دودھ نکال کر اونچائی پر لے جاکر واپس کڑھاﺅ میں ڈالتے ہیں، یہ اس لیے تاکہ چائے کا درجہ حرارت اس مقام پر قائم رہے جہاں اس کے ابلنے کا احتمال نہ ہو، اب گویا چائے تیار۔

    ایک دوسری قلعی دار پتیلی میں یہ چائے چھان کر پلٹ لی جاتی اور پھر اس گھنٹی سے نکال نکال کر سب کو دی جاتی تھی۔ چائے یا چینی کے تیز یا ہلکا ہونے کا کوئی مذاق اس وقت تک نہیں پیدا ہوا تھا، سب کو ایک ہی برانڈ کی چائے ملتی تھی۔

    بعض بچّے یہ چائے، چائے کے کپ میں پینے کے بجائے چینی کے پیالے میں لیتے تھے اور اس میں رات کی بچی ہوئی روٹی کے ٹکڑے بھگو کر چمچے سے سڑپ سڑپ کر کے کھاتے تھے۔ بچّوں کو چائے دن بھر میں صرف ایک بار صبح ناشتے پر ملتی تھی، باقی ناشتے کی بچی ہوئی چائے قدرے چھوٹی پتیلی میں منتقل کر کے گنجینے (توشہ خانے) میں رکھ دی جاتی تھی، شام تک ایک دو دور اس چائے کے بڑوں کے چلتے تھے۔

    جب موسم ذرا گلابی ہوجاتا تو پھر بچّوں کو ناشتے میں چھوٹی سی روغنی ٹکیہ اور انڈے کا چھوٹا آملیٹ ملتا تھا، اس طرح کہ ایک انڈے کو پھینٹ کر اس میں سے کم از کم چار چھوٹی چھوٹی ٹکیاں انڈے کی تل کر بچوں کو روغنی ٹکیہ کے اوپر رکھ کر دی جاتی تھی، کبھی کبھی زیادہ عیش کا موڈ ہوا تو بازار سے حلوہ پوری یا نہاری آگئی۔

    (پروفیسر اسلم پرویز (مرحوم) کی آپ بیتی ‘‘میری دلّی‘‘ سے انتخاب)