Tag: اسماعیل ہنیہ

  • ایران کی اسرائیل کی جانب سے اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت

    ایران کی اسرائیل کی جانب سے اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت

    ایران کی اسرائیل کی جانب سے حماس کے سینئر سابق رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کی مذمت کی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق اقوامِ متحدہ میں ایرانی سفیر امین سعید نے یو این سیکریٹری جنرل کو خط لکھ دیا، جس میں کہا کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل سنگین جرم ہے۔

    اقوامِ متحدہ میں ایرانی سفیر امین سعید نے یو این سیکریٹری جنرل کو خط میں لکھا کہ ایران جوابی کارروائی کا حق محفوط رکھتا ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز اسرائیل کے وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے اعتراف کیا ہے کہ حماس کے سابق سربراہ اسماعیل ہنیہ کو تہران میں اسرائیل نے قتل کیا تھا۔

    اسرائیل کی وزارت دفاع میں ایک تقریب میں کاٹز کا یہ بیان اس بات کا پہلا عوامی اعتراف ہے کہ جولائی 2024 کے آخر میں ایرانی دارالحکومت میں اسماعیل ہنیہ کے قتل کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا۔

    اسرائیل کے وزیر دفاع نے کہا تھا کہ ہم حوثیوں پر سخت حملہ کریں گے اور ان کی قیادت کا سر قلم کریں گے جیسا کہ ہم نے تہران، غزہ اور لبنان میں ہنیہ، یحییٰ سنوار اور حسن نصراللہ کے ساتھ کیا تھا، ہم الحدیدہ اور صنعا میں بھی ایسا کریں گے۔

  • اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا

    اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا

    تل ابیب: اسرائیل نے اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسرائیل نے پہلی بار حماس کے سیاسی بیورو کے چیف اسماعیل ہنیہ کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے، اسرائیلی وزیر دفاع کاٹز نے کہا حماس رہنما کو آئی ڈی ایف نے اس سال کے شروع میں تہران میں نشانہ بنایا۔

    اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ یمن کے حوثیوں کا بھی ایسا ہی انجام ہوگا جیسا ہنیہ سمیت خطے میں ایرانی قیادت والے اتحاد کے دیگر ارکان کا ہوا ہے، اسرائیلی فوج یمن کے حوثی باغیوں کی قیادت کا بھی ’سر قلم‘ کر دے گی۔

    اسرائیل کاٹز نے پیر کو کہا جو حال غزہ اور لبنان کا کیا ہے صنعا اور حدیدہ کا بھی ویسا ہی حشر کریں گے، اور حوثیوں کو اسی طرح شکست دیں گے جس طرح حماس اور حزب اللہ کو دی۔ انھوں نے کہا ہم نے تہران، غزہ اور لبنان میں ہنیہ، یحییٰ سنوار، اور حسن نصر اللہ کے ساتھ جو کیا وہی حوثی قیادت کے ساتھ بھی کریں گے۔

    حماس کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہوئی ہے، اسرائیلی وزیراعظم

    اسرائیلی وزیر دفاع نے دعویٰ کیا کہ تل ابیب نے ایران کے دفاعی نظام کو اندھا کر دیا ہے، ہم نے ان کی پیداوار کو نقصان پہنچایا اور شام کی اسد حکومت کو گرا دیا، اسرائیل ہر اس شخص کو سخت سزا دے گا جو انھیں نقصان پہنچائے گا۔

    واضح رہے کہ اسرائیلی وزارت دفاع میں منعقدہ ایک تقریب میں کاٹز کے یہ ریمارکس پہلی بار اس عوامی اعتراف کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ایرانی دارالحکومت میں جولائی کے آخر میں ہنیہ کے قتل کے پیچھے اسرائیل کا ہاتھ تھا۔ ایران اور حماس نے پہلے ہی اسرائیل کو ہنیہ کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔

  • اسماعیل ہنیہ کے محافظ اور ملازمین اسرائیلی حملے میں شہید

    اسماعیل ہنیہ کے محافظ اور ملازمین اسرائیلی حملے میں شہید

    حماس کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے حملے میں شہید ہونے والوں میں سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے دفتر میں کام کرنے والے افراد کچھ محافظ اور دیگر ملازمین شہید ہوگئے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق حماس کے تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسماعیل ہنیہ کے بعض محافظ اور ان کے دفتر ملازمین شاطی پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملے میں جام شہادت نوش کرگئے۔

    حماس کے بیان میں کہا گیا کہ یہ حملہ اسرائیل کی ہر اس شخص سے نفرت کی عکاسی کرتا ہے جس کا حماس رہنماء سے قریبی یا دور کا تعلق ہے۔

    بیان کے مطابق اسرائیل کے یہ جرائم، حماس رہنماء کے بچوں اور نواسوں کے قتل یا ان کے رشتہ داروں کے گھروں پر بمباری سے نہ تو شروع ہوئے اور نہ ہی یہ تہران میں قتل پر ختم ہوں گے۔

    حماس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی حملے فلسطینیوں کی مزاحمت کے عزم کو نہیں توڑ سکتے۔

    دوسری جانب امریکا، قطر اور مصر کی کوششیں ناکام ہو گئیں، غزہ جنگ بندی معاہدہ نہ ہو سکا۔

    اعلیٰ امریکی سفارت کار انٹونی بلنکن نے مشرق وسطیٰ کا دورہ ختم کر دیا، انھوں نے فریقین سے اپیل کی کہ اب ’اختتامی لائن‘ قریب ہے انھیں غزہ جنگ بندی معاہدے تک پہنچ جانا چاہیے۔

    الجزیرہ ٹی وی نے بھی رپورٹ کیا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے مشرق وسطیٰ کا دورہ ختم کر دیا ہے، امریکی وزیرخارجہ نے کہا غزہ میں اسرائیلی اسیران اور فلسطینیوں کے لیے وقت اہم ہے، مصر میں ہونے والی یہ بات چیت غزہ میں جنگ بندی کا آخری موقع ہو سکتا ہے۔

    روس نے یوکرین کے 3 ڈرون مار گرائے

    تاہم، حماس نے امریکا اور اسرائیل پر تاخیر اور نئی شرائط شامل کرنے کا الزام لگایا، اور کہا ہے کہ امریکا اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کے لیے وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

  • ایران کی جانب سے اسرائیل کو مناسب وقت اور مقام پر جواب دینے کے عزم کا اعادہ

    ایران کی جانب سے اسرائیل کو مناسب وقت اور مقام پر جواب دینے کے عزم کا اعادہ

    تہران: ایران کی جانب سے اسرائیل کو مناسب وقت اور مقام پر جواب دینے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی پاسداران انقلاب کے ڈپٹی کمانڈر علی فدوی نے پیر کے روز کہا کہ بچوں کے قتل میں ملوث اسرائیلی حکومت نے ایرانی سرزمین پر اسماعیل ہنیہ کو شہید کیا، اس کا اسرائیل کو مناسب وقت اور جگہ پر مناسب جواب دیں گے۔

    ڈپٹی کمانڈر کا کہنا تھا کہ مناسب وقت پر اسرائیل کو حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کی سزا دی جائے گی۔ علی فدوی نے کہا کہ ’’ایرانی جواب کے انتظار کی وجہ سے اسرائیل میں جو افراتفری مچی ہوئی ہے وہ ان کے لیے موت سے زیادہ مشکل ہے، وہ دن رات ہمارے حملے کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘

    اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی کی تجویز سے اتفاق کر لیا

    ادھر ترجمان ایرانی وزارت خارجہ ناصر کنعانی نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی کا ایران کے اسرائیل کو جواب دینے سے کوئی تعلق نہیں ہے، ایران غزہ میں جنگ روکنے کا سب سے اہم اور مضبوط ترین بین الاقوامی حامی ہے، انھوں نے کہا غزہ جنگ بندی کے لیے دیگر ممالک کی کوششوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔

  • اسماعیل ہنیہ کا قتل، اسرائیل کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی، ایران

    اسماعیل ہنیہ کا قتل، اسرائیل کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی، ایران

    ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی بغیری نے کہا ہے کہ تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو قتل کرکے اسرائیل نے ایک مہنگی ’اسٹریٹیجک غلطی‘ کی ہے۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کے وزیر خارجہ کا فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک خصوصی انٹرویو میں کہنا تھا کہ تہران میں صہیونیوں کا عمل ایک سٹریٹیجک غلطی ہے جس کی انہیں قیمت چکانی پڑے گی۔

    ایران کے وزیر خارجہ کا او آئی سی وزرائے خارجہ کے غیر معمولی اجلاس میں شرکت کے ایک دن بعد اے ایف پی کو دیے گئے انٹرویو میں کہنا تھا کہ اسرائیل ٹینشن، جنگ اور تنازع کو دوسرے ممالک تک وسیع کرنا چاہتا ہے۔

    واضح رہے کہ اسرئیل نے باضابطہ طور پر اسماعیل ہنیہ کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم ایران نے اس حملے کے جواب دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ ایران کے جوابی حملے کے عزم کے ساتھ خطے میں جنگ کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔

    دوسری جانب اسرائیل نے فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے نئے سربراہ یحییٰ سنوار کو بھی نشانہ بنانے کا اعلان کر دیا۔

    غزہ میں سرکردہ رہنما یحیی ٰسنوار کو حماس کا نیا سربراہ بنایا گیا ہے جو اسرائیل کو انتہائی مطلوب فلسطینی رہنماوں میں سرفہرست ہین۔ ماضی میں ان پر کئی اسرائیلی قاتلانہ حملے ناکام ہو چکے ہیں۔

    یحیی سنوار کا مکمل نام یحیی ابراہیم حسن سنوار ہے جنہیں 1989 میں 2 فوجیوں کے قتل پر اسرائیل نے 4 مرتبہ عمرقید کی سزا سنائی تھی۔ 1989 سے یحیی سنوار 2011 تک اسرائیلی جیل میں قید رہے اور اذیتیں برداشت کیں۔ 2011 میں اسرائیلی سپاہی کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں آئی اور یحیی سنوار کی رہائی ایک ہزار 26 قیدیوں کے تبادلے کے دوران ہوئی تھی۔

    اسرائیل کا فسلطین کو تسلیم کرنے والے ملک کیخلاف سخت اقدام

    یحیی سنوار کو اسرائیل کیخلاف 7 اکتوبر 2023 کو ہونے والے طوفان الاقصیٰ کے حملوں کا ماسٹر مائنڈ سمجھا جاتا ہے۔ یحیی سنوار کو اسماعیل ہنیہ، خالدمشعل، محمد دیف اور مروان عیسیٰ کیساتھ نمایاں رہنما سمجھا جاتا ہے۔

  • اسماعیل ہنیہ: شہادت کا ایک پھول اور کِھلا!

    اسماعیل ہنیہ: شہادت کا ایک پھول اور کِھلا!

    31 جولائی کو شہادت کا ایک اور پھول کھلا اور اسماعیل ہنیہ بھی مادرِ‌ گیتی پر نثار ہو گئے۔ یہ ارضِ فلسطین کا آخری بیٹا نہیں تھا جس نے اب آنکھیں موند لی ہیں بلکہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد کفایہ پر مزاحمت کا رنگ مزید گہرا ہوگیا ہے۔ اب یحیٰی السنوار سامنے آئے ہیں جنھیں اکثر خان یونس کے قصاب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    اسماعیل ہنیہ نے آزادی کے راستے میں اپنی جان ہی نہیں‌ گنوائی ہے بلکہ وہ اپنا گھر بار، اپنے لختِ جگر اور اعزّہ کی قربانیاں بھی دے چکے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کا اجلاس ہوا اور نئے سربراہ کے طور پر یحیٰی السنوار کا نام سامنے آیا۔ ایک طرف اسرائیل کی غزہ اور دیگر علاقوں میں فلسطینیوں پر بمباری جاری ہے اور دوسری جانب حماس کے حالیہ فیصلے نے گویا شاخِ زیتون کی چمک اور اس کے روغن کی آب و تاب مزید بڑھا دی ہے۔ یحیٰی السنوار کا انتخاب اس عزم کا اعادہ بھی ہے کہ اسرائیل کے خلاف مزاحمت تیز ہوگی اور حماس کی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ پچھلے سال 7 اکتوبر کو اسرائیل میں حماس کی کارروائی کے بعد صیہونی فوج نے فلسطینیوں پر گولہ بارود برسانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ تاحال جاری ہے۔ امریکا کی ناجائز اولاد اسرائیل اپنے دفاع کے نام پر فلسطینیوں کی نسل کشی میں بہت آگے نکل گیا ہے۔ اسرائیل کے حملوں میں اسماعیل ہنیہ سے قبل بھی حماس کے متعدد راہ نما اور کارکن مارے جا چکے ہیں اور اب اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ یحییٰ سنوار کو بھی نشانہ بنائے گا۔ حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ اسماعیل ہنیہ تو ایک عرصہ سے متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے۔ انھیں مسعود پزشکیان کی بطور صدر تقریبِ حلف برداری میں مدعو کیا گیا تھا اور وہیں تہران میں ایک فضائی حملہ میں انھیں شہید کردیا گیا۔ اس کا الزام اسرائیل پر عائد کیا جارہا ہے، لیکن اسرائیل نے اس پر چپ سادھ رکھی ہے جب کہ ایران نے اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے اور اب مشرقِ وسطیٰ‌ پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

    ارضِ فلسطین پر صیہونی ریاست کا قیام اور اس کے لیے صدیوں سے وہاں بسے ہوئے عرب مسلمانوں‌ کی جبراً بے دخلی اس دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا ننگ اور غضب ہے۔ دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل کس طرح‌ نہتے فلسطینیوں اور محدود وسائل اور صلاحیت کے حامل حماس اور دوسرے مزاحمتی گروہوں سے اپنی تربیت یافتہ اور باقاعدہ فوج کے ذریعے جنگ لڑتے ہوئے بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کو روند رہا ہے، لیکن‌ اس پر خاموشی اختیار کررکھی ہے۔ غزہ میں انسانی آبادیوں، گھروں اور اسپتالوں پر بمباری، فلسطینیوں کو ڈھال بنا کر حماس کے خلاف کارروائی، طبّی امداد اور خوراک پہچانے والی تنظیموں کے رضا کاروں کو نشانہ بنانا اور گولہ بارود کی زد پر رکھنا اسرائیل کے نزدیک اگر جنگ ہے، تو حماس اور دوسر ے مزاحمتی گروہ یہ جنگ اُس وقت تک جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں جب تک ایک بھی رکن زندہ ہے۔

    دنیا کی تاریخ بتاتی ہے کہ کئی جنگوں‌ اور خوں ریز واقعات کی بنیاد جبر اور وہ ناانصافی تھی جس سے نفرت اور انتقام کا جذبہ ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوا۔ اقوام یا مختلف خطّوں میں لسانی، مذہبی اور ثقافتی گروہوں کو جب بھی موقع ملا انھوں نے اپنے دشمن کو انتقام کی آگ میں پھونک دیا۔ کیا اسرائیل یہ سمجھتا ہے کہ جن بچّوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین، بہن بھائی مارے جارہے ہیں، وہ بڑے ہو کر اسرائیل کا وجود تسلیم کرلیں‌ گے یا موقع ملنے پر اپنی زمین چھوڑ کر کسی دوسرے ملک چلے جائیں گے تاکہ باقی ماندہ زندگی وہاں عافیت سے بسر کرسکیں؟ فلسطین یا کسی بھی سرزمین سے اس قوم کا وجود مٹانا آسان نہیں‌ جو صدیوں سے وہاں بسی ہوئی ہے۔ اقوامِ عالم میں بدنام اور دہشت گرد اسرائیل یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ صیہونی ریاست کے قیام اور استحکام کے لیے اس کا یہ قتلِ عام اور تشدد ہر فلسطینی بچّے میں جذبۂ حریّت اور انتقام کو مہمیز دے رہا ہے۔ اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ اسرائیل کا مقصد صرف غزہ اور دیگر علاقوں سے فلسطینیوں کی بے دخلی ہی نہیں ہوگا بلکہ وہ فلسطینی مسلمانوں‌ کی نسل کُشی کا عزم کیے ہوئے ہے۔ اس بات کو تقویت ملتی ہے، وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے اُس بیان سے جس میں وہ دنیا سے شیطانی قوت (حماس) کو جڑ سے اکھاڑ دینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے عہدنامۂ عتیق (تورات) سے ایک پیرا کا حوالہ دیتا ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک میں دانش ور اور انسان دوست شخصیات نے نیتن یاہو کے اس بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور اسے سفاک اور جنونی کہا ہے۔

    آج اسرائیل کی آبادی لگ بھگ 98 لاکھ بتائی جاتی ہے جس میں یہودی اور وہ فلسطینی شامل ہیں جو اسرائیل میں بسے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب مقبوضہ فلسطین کا وہ علاقہ ہے جس میں‌ غربِ اردن اور غزہ شامل ہیں اور وہاں کی آبادی پچپن لاکھ ہے۔ لیکن 1948ء سے قبل صورتِ حال مختلف تھی۔ اسرائیلی ریاست کے قیام سے پہلے لگ بھگ پانچ سو دیہات اور قصبات میں آباد ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے یک دم نکال کر ہمسائیہ ممالک میں دھکیل دیا گیا تھا۔ اسی سال اقوامِ متحدہ نے ایک قرار میں ان فلسطینیوں کی واپسی کا وعدہ کیا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور فلسطینیوں کی زمین حیلے بہانوں اور طاقت کے بل پر ہتھیانے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ عرب مسلمانوں کو اسرائیل کی حدود میں جانے کے لیے توہین آمیز سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر چوکیاں ہیں جہاں تلاشی اور کاغذات دیکھنے کے بہانے ان کی تذلیل کی جاتی ہے۔ ان کی نگرانی کی جاتی ہے اور فلسطینی اپنی ہی زمین پر قیدی کی طرح رہنے پر مجبور ہیں۔ 2018ء میں اسرائیلی عرب شہریوں پر عرصۂ حیات اس وقت مزید تنگ ہو گیا جب پارلیمنٹ نے قومی ریاست کا ایکٹ منظور کیا۔ اس ایکٹ کے تحت اسرائیل کو یہودیوں کا وطن قرار دیا گیا۔ جب کہ غیر یہودیوں کو اس ایکٹ کے ذریعے باضابطہ طور پر درجہ دوم کا شہری بنا دیا گیا۔

    فلسطین میں‌ اترنے والے صیہونیوں نے اپنے گھناؤنے منصوبے کے تحت مقامی لوگوں کی بے دخلی کے ساتھ ان کے تاریخی محلّے اور عمارتیں مسمار کرکے وہاں جدید تعمیرات کی ہیں۔ قدیم آبادیوں کے صدیوں پرانے نام تبدیل کیے اور اپنے تعلیمی نصاب کو اس طرح ترتیب دیا کہ جو تاریخی حقائق کو مسخ اور لسانی و ثقافتی اقدار کو یکسر مٹا کر نئی ریاست کی سیاسی، مذہبی، تاریخی و ثقافتی شناخت کو اجاگر کرے اور نئی نسل اسے قبول کرلے۔ اسرائیلی حکومت نے کتب خانوں اور بلدیہ کی عمارتوں کو اس لیے اڑا دیا کہ کہیں کئی سو سال پرانا ریکارڈ، شہر کی تاریخ اور فلسطین کی اصل شناخت سے متعلق نادر دستاویز موجود ہوں تو باقی نہ رہیں تاکہ ازسرِ‌ نو مرضی کا ریکارڈ بنا کر خطّے میں اپنی شناخت کو قائم کیا جاسکے۔

    فلسطینی شہری فوجی قوانین کے تحت محدود نقل و حرکت کے ساتھ کئی مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔ جب کہ 1966ء میں اسرائیل کے فلسطینی شہریوں کو فوجی قوانین سے آزاد کرتے ہوئے ریاست نے قانونی شہری تو تسلیم کیا مگر عملاً وہ اب تک دوسرے درجے کے ہی شہری ہیں۔ ان سے صحت، تعلیم و روزگار اور رہائش سمیت ہر شعبے میں امتیازی سلوک برتا جاتا ہے اور وہ گویا ایک قید خانے میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسرائیلی عربوں کو ثقافتی اظہار سے روکا گیا ہے۔ حتیٰ کہ فلسطین کا جھنڈا لہرانے پر بھی سزا دی جاسکتی ہے۔

    اسرائیلی فوج دنیا کی ایک تربیت یافتہ اور جدید اسلحے اور جنگی ساز و سامان سے لیس طاقت وَر فوج ہے۔ اسرائیلی فوج اور عرب ممالک سے اس کی جنگیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسرائیل نے متحد عرب افواج کا مقابلہ کرتے ہوئے عرب ممالک کے کئی علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا تھا، اور آج اسرائیل سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسری اقوام سے آگے ہے۔ اب صرف حماس کی بات کریں تو وہ اپنی مالی اور دفاعی ضروریات کے لیے بالخصوص ایران کی طرف دیکھتا ہے جب کہ لبنان، شام اردن، عراق اور دوسرے عرب ممالک سے امداد کا خواہاں رہتا ہے۔ ادھر اسرائیل کا جاسوس نیٹ ورک بڑا مضبوط ہے اور اسی کی بدولت اسماعیل ہنیہ یا دوسرے حماس اور حزب اللہ کے بڑے راہ نماؤں کو اسرائیل اپنا نشانہ بنا چکا ہے۔ زمینی فوج کے علاوہ اسرائیل کی فضائیہ نے بھی قتلِ عام میں اپنا حصّہ ڈالا ہے۔

    یہ درست ہے کہ حماس، حزب اللہ اور ایران یا دیگر عرب ممالک کے حمایت یافتہ گروہ اسرائیل کو معمولی نقصان پہنچا پاتے ہیں، لیکن اسرائیلی کارروائی کے نتیجے میں فلسطینیوں کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حالیہ جنگ بھی حماس کی ایک ایسی ہی کارروائی کے جواب میں شروع کی گئی تھی۔ لیکن کیا ایک نادارِ زمانہ، ستم رسیدہ اور درماندہ قوم کو اسرائیل کے آگے سَر جھکا دینا چاہیے تاکہ ان کا گھر بار اور ان سب کی زندگی محفوظ رہے؟ محکوم اقوام کی تاریخ دیکھی جائے تو وہ اس خیال کی نفی کرتی ہے۔ فلسطین بالخصوص غزہ اور دوسرے علاقے وہاں کے باشندوں کے لیے قید خانے سے کم نہیں اور وہ روزانہ جس اذّیت، کرب اور مقبوضہ علاقے میں داخلے پر جس ذلّت اور توہین کا سامنا کئی دہائیوں سے کرتے آرہے ہیں، اور وہاں زندگی اپنا مفہوم کھو چکی ہے۔ لیکن ان حالات میں‌ فلسطین کا مسلمان عالمی ادارۂ انصاف، خاص طور پر اسلامی دنیا کی طرف دیکھتا ہے تو اسے کس قدر رنج اور مایوسی ہوتی ہے۔ وہ یہ سوچتا ہے کہ اپنی آزادی کی جنگ اسے خود ہی لڑنی ہے اور امّتِ مسلمہ کی طرف دیکھنا بے سود ہے۔

    اسماعیل ہنیہ کی شہادت نے جہاں حماس کو دھچکا پہنچایا وہیں ایران کو عالمی سطح پر خفّت کا سامنا بھی کرنا پڑا کیوں کہ اس کے ملک میں ایک مہمان شخصیت کو نہایت آسانی سے قتل کردیا گیا اور اب تک ایران کچھ نہیں کرسکا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے خلاف ایران کوئی بڑی کارروائی نہیں کرسکے گا اور صرف دھمکیوں تک محدود رہے گا۔ یہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر جنگ مسلّط کرنے کے بعد سے اب تک کوئی بھی اسلامی ملک زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ مگر شاید فلسطینی اب اس کے عادی ہوچکے ہیں‌ اور وہ جان چکے ہیں کہ ان کو اپنی جنگ لڑتے رہنا ہے۔ اسماعیل ہنیہ نے بھی کہا تھا، ’اس خون سے ہم مستقبل کی امید پیدا کریں گے اور اپنے لوگوں، اپنے مقصد اور اپنی قوم کے لیے آزادی حاصل کریں گے۔‘

  • امریکا نے اسرائیل کو حماس کے سربراہ کے قتل کی منظوری دی، وزیر انٹیلیجنس ایران

    امریکا نے اسرائیل کو حماس کے سربراہ کے قتل کی منظوری دی، وزیر انٹیلیجنس ایران

    تہران: ایران کے انٹیلیجنس کے وزیر نے کہا ہے کہ امریکا نے اسرائیل کو حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی منظوری دی۔

    ایرانی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی وزیر انٹیلیجنس اسماعیل خطیب نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ کا قتل صہیونی حکومت نے امریکا سے گرین لائٹ ملنے پر کیا ہے، اس اقدام نے ایک بار پھر تل ابیب حکومت کی بربریت کو ثابت کر دیا۔

    ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی IRNA کے مطابق یہ بات اسماعیل خطیب نے جمعہ کو اس خط میں کہی ہے جو ان کی جانب سے ہنیہ کے خاندان، حماس اور فلسطینی عوام کو لکھا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ اسرائیل کو حماس کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو قتل کرنے کے لیے امریکا سے گرین لائٹ ملی ہے۔

    خیال رہے کہ اس قتل کے بعد ایران کے رہبر اعلیٰ نے کہا ہے کہ ہمارے گھر میں ہمارے مہمان کو شہید کیا گیا، تہران پر شہید کا بدلہ لینا فرض ہے۔

    اسماعیل ہنیہ کا قتل موساد نے ایرانی ایجنٹوں کے ذریعے کیا، برطانوی اخبار کا دعویٰ

    حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کو بدھ کے روز ایرانی دارالحکومت تہران میں اس وقت قتل کیا گیا جب وہ نو منتخب وزیر اعظم مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران گئے تھے، تل ابیب نے قتل کی ذمہ داری کی نہ تو تصدیق کی ہے اور نہ ہی تردید کی ہے، ہنیہ کی موت کے بارے میں اگرچہ اسرائیل نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے لیکن وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے ان کے قتل میں تل ابیب کے ملوث ہونے کا اشارہ دیا ہے۔

    دوسری طرف سرفہرست برطانوی اور امریکی میڈیا کی رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ قتل اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے کرایا، اور اس کے لیے انھوں نے اپنے ایرانی ایجنٹوں کا استعمال کیا، ان ایجنٹوں کے ذریعے موساد نے گیسٹ ہاؤس کے اس کمرے میں جس میں اسماعیل ہنیہ ٹھہرا کرتے تھے، بارودی مواد نصب کروایا تھا۔

  • ایران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد کریک ڈاؤن، اہم گرفتاریاں

    ایران میں اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد کریک ڈاؤن، اہم گرفتاریاں

    ایران کے دارالحکومت تہران میں حماس کے رہنماء اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد کریک ڈاؤن کا آغاز کردیا گیا ہے۔

    امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران میں 20سے زیادہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے، جن میں ملٹری اورانٹیلی جنس اہلکار بھی شامل ہیں، تاہم اس حواے سے مزید تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔

    دوسری جانب برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو ایرانی ایجنٹوں کے ذریعے قتل کرایا۔

    برطانوی اخبار نے اپنی رپورٹ میں ایک اور انکشاف بھی کیا ہے کہ ایرانی ایجنٹوں نے گیسٹ ہاؤس کے 3 کمروں میں پہلے ہی دھماکا خیز مواد نصب کیا تھا، اور دھماکا خیز مواد نصب کرنے والے ایجنٹ ایران چھوڑ چکے تھے۔

    رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے جنازے میں شرکت کے موقع پر اسماعیل ہنیہ کو قتل کیا جانا تھا، تاہم نئے صدر کی حلف برداری کے موقع پر یہ اقدام کیا گیا، اور دھماکا خیز مواد ایران کے باہر سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے تباہ کیا گیا۔

    اسماعیل ہنیہ شہید کی بہو نے دادا و پوتی کی یادگار تصویر جاری کردی

    اخبار کے مطابق ایرانی حکام کے پاس گیسٹ ہاؤس کے کمروں میں ایجنٹوں کے انتہائی تیزی سے آنے جانے کی ویڈیو بھی موجود ہے۔

  • اسماعیل ہنیہ شہید کی بہو  نے دادا و پوتی کی یادگار تصویر جاری کردی

    اسماعیل ہنیہ شہید کی بہو نے دادا و پوتی کی یادگار تصویر جاری کردی

    ایران کے دارالحکومت تہران میں اسرائیلی حملے میں شہید ہونے والے فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کی بہو ایناس ہنیہ نے شہید دادا اور پوتی کی یادگار تصویر شیئر کردی۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق انسٹاگرام پر شیئر کی گئی تصاویر میں ایناس ہنیہ نے ایک پیغام بھی شیئر کیا ہے۔

    شیئر کی گئی تصویر میں د یکھا جاسکتا ہے کہ حماس رہنماء اسماعیل ہنیہ اپنی پوتی کے ہمراہ موجود ہیں۔ شہید نے سفید شرٹ اور سیاہ پینٹ پہنی ہوئی ہے، جبکہ دادا اور پوتی دونوں تصویر میں مسکرارہے ہیں۔

    تصویر کے کیپشن میں اسماعیل ہنیہ کی بہو نے تحریر کیا کہ شہید امل اپنے دادا اسماعیل ہنیہ سے گفتگو کرنے میں مصروف ہے، یہ دن ان دونوں کے درمیان ایک معاہدے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔

    اسماعیل ہنیہ کی بہو نے کہا کہ امل شہادت کے بعد اپنے دادا کے ساتھ جنت میں خوش ہو گی، اللّٰہ ہمارے دلوں کو صبر اور اطمینان دے۔

    واضح رہے کہ عید کے دن 11 اپریل 2024 کو حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کے 3 بیٹے اور 4 پوتے پوتیاں اسرائیلی حملے میں جام شہادت نوش کرگئے تھے۔

  • اسماعیل ہنیہ کا قتل موساد نے ایرانی ایجنٹوں کے ذریعے کیا، برطانوی اخبار کا دعویٰ

    اسماعیل ہنیہ کا قتل موساد نے ایرانی ایجنٹوں کے ذریعے کیا، برطانوی اخبار کا دعویٰ

    برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو ایرانی ایجنٹوں کے ذریعے قتل کرایا۔

    برطانوی اخبار نے اپنی رپورٹ میں ایک اور انکشاف بھی کیا ہے کہ ایرانی ایجنٹوں نے گیسٹ ہاؤس کے 3 کمروں میں پہلے ہی دھماکا خیز مواد نصب کیا تھا، اور دھماکا خیز مواد نصب کرنے والے ایجنٹ ایران چھوڑ چکے تھے۔

    رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے جنازے میں شرکت کے موقع پر اسماعیل ہنیہ کو قتل کیا جانا تھا، تاہم نئے صدر کی حلف برداری کے موقع پر یہ اقدام کیا گیا، اور دھماکا خیز مواد ایران کے باہر سے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے تباہ کیا گیا۔

    اخبار کے مطابق ایرانی حکام کے پاس گیسٹ ہاؤس کے کمروں میں ایجنٹوں کے انتہائی تیزی سے آنے جانے کی ویڈیو بھی موجود ہے۔

    دوسری طرف برطانوی میڈیا کا کہنا ہے کہ گزشتہ 2 روز میں ایران کے رہبر اعلیٰ متعدد بار تمام کمانڈروں کو طلب کر چکے ہیں، وہ ان سے جواب کے خواہاں ہیں، اور ان کے نزدیک سیکیورٹی کی خلاف ورزی کو حل کرنا اب بدلہ لینے سے زیادہ اہم ہے۔

    اس سے قبل امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ حماس لیڈر اسماعیل ہنیہ کی شہادت ان کے کمرے میں نصب دھماکا خیز مواد پھٹنے سے ہوئی، جو ریسٹ روم میں 2 مہینے قبل چھپایا گیا تھا اور بم کو ریموٹ کنٹرول سے اُس وقت پھاڑا گیا جب اسماعیل ہنیہ کی اپنے کمرے میں موجودگی کی تصدیق ہوئی۔ اس دھماکے میں اُن کا ذاتی محافظ بھی شہید ہوا۔

    واضح رہے اسماعیل ہنیہ شمالی تہران کے جس گیسٹ ہاؤس میں قیام پذیر تھے وہ جس کمپاؤنڈ میں واقع ہے، اس کا کنٹرول ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب کے پاس تھا اور یہ کمپاؤنڈ کئی سرکاری عمارات کے ایک سلسلے کا حصہ ہے جسے ’نشاط‘ کہا جاتا ہے۔

    حماس سربراہ نے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری کے لیے تہران آئے تھے اور ایک روز قبل انھوں نے اس تقریب میں شرکت کی تھی۔