Tag: اسمبلیاں تحلیل

  • اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں یا باہر آتے ہیں فیصلہ عمران خان کا ہوگا، شیخ رشید

    اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں یا باہر آتے ہیں فیصلہ عمران خان کا ہوگا، شیخ رشید

    راولپنڈی: عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ اسمبلیاں تحلیل ہوتی ہیں یا باہر آتے ہیں فیصلہ عمران خان کا ہوگا لیکن الیکشن ہرقیمت پر ہوں گے ۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے ٹوئٹ میں کہا کہ حکومت غلامی کا کردار ادا کرنےکے لیے تیار ہو گئی ہے،  فنِ گداگری میں حکومت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔

    شیخ رشیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیاست میں 100 دن اہم ہیں، غریب ایڑیاں رگڑ رہا ہے،77 وزرا موج میلہ کررہے ہیں

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے ٹوئٹ میں مزید لکھا کہ حکومت اپنے ڈالر لانےکی بجائے یہ ڈار کو لے آئے۔

  • وزیر اعظم کا پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے معاملے پر نواز شریف کو اہم فون

    وزیر اعظم کا پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے معاملے پر نواز شریف کو اہم فون

    لاہور: وزیر اعظم شہباز شریف نے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے معاملے پر نواز شریف کو اہم فون کر کے ان کے ساتھ مشاورت کی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلی کی تحلیل کے معاملے وزیر اعظم شہباز شریف نے نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا، اور ان سے اس سلسلے میں مشاورت کی۔

    میاں نواز شریف نے ہدایت کی کہ اس معاملے کو بارٹر شیئر کے طور پر لیا جائے، اور پی ڈی ایم کو تمام فیصلوں میں شامل رکھا جائے۔

    سابق وزیر اعظم پاکستان نے یہ ہدایت بھی کی کہ فیصلہ سازی اور مشاورت کے سلسلے کو وسیع کریں، جس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے وفاقی وزرا کو ہدایت کر دی ہے کہ پی ڈی ایم کی قیادت سے رابطے کریں۔

    شہباز شریف چاہتے ہیں کہ 23 دسمبر سے پہلے پہلے متفقہ لائحہ عمل سامنے آئے کہ کیا کرنا ہے، کیوں کہ پی ڈی ایم کے پاس نہ تو تحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹ پورے ہیں، نہ ہی کوئی اور ایسا قانونی آپشن موجود ہے کہ اس معاملے کو روکا جا سکے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے پنجاب کی صورت حال پر پی ڈی ایم جماعتوں سے رابطوں کا ٹاسک دے دیا، وفاقی وزرا پی ڈی ایم کی قیادت سے رابطہ کریں گے۔

    بڑے بھائی کی ہدایت پر شہباز شریف نے مشاورت مزید وسیع کر دی ہے کہ پہلے عدم اعتماد آئے گی یا اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا جائے گا۔

  • پی ٹی آئی نے 23 دسمبر کو اسمبلیاں توڑنے کے بعد کی تیاری شروع کر دی

    پی ٹی آئی نے 23 دسمبر کو اسمبلیاں توڑنے کے بعد کی تیاری شروع کر دی

    لاہور: پاکستان تحریک انصاف نے 23 دسمبر کو اسمبلیاں توڑنے کے بعد کی تیاری شروع کر دی۔

    ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی نے اسمبلیاں توڑے جانے کے بعد کی حکمت عملی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا ہے، اس سلسلے میں عمران خان پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

    ذرائع نے بتایا کہ تئیس دسمبر کے بعد مہنگائی، بے روزگاری اور حکومت کے خلاف جلسوں اور ریلیوں کا انعقاد کیا جائے گا، اور پی ڈی ایم کے بند ہونے والے کرپشن کیسز کو عوام میں اجاگر کیا جائے گا۔

    ذرائع کے مطابق ملک بھر میں انتخابی مہم کا بھی آغاز کیا جائے گا، این آر او ٹو کو انتخابی اور احتجاجی مہم میں تنقید کا نشانہ بنایا جائے گا۔

    اسمبلیاں توڑنے کا اعلان، اے آر وائی نیوز کی سب سے پہلے خبر دینے کی روایت برقرار

    واضح رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے گزشتہ روز پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے، انھوں نے کہا اگلے جمعہ کو پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ دیں گے، یہ اعلان کرتے ہوئے دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی موجود تھے۔

    انھوں نے وزرائے اعلیٰ کا اس فیصلے میں ساتھ دینے پر اظہار تشکر کیا اور کہا ملک کی خاطر دو اسمبلیاں قربان کرنے کا فیصلہ کیا ہے، قومی اسمبلی میں بھی جا کر استعفے منظور کرائیں گے۔

  • اسمبلیاں توڑنے کا اعلان، اے آر وائی نیوز کی سب سے پہلے خبر دینے کی روایت برقرار

    اسمبلیاں توڑنے کا اعلان، اے آر وائی نیوز کی سب سے پہلے خبر دینے کی روایت برقرار

    کراچی: پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے اسمبلیاں توڑنے کے اعلان پر اے آر وائی نیوز کی سب سے پہلے خبر دینے کی روایت ایک بار پھر ثابت ہو گئی۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کی سب سے پہلے اور مستند خبر دینے کی روایت برقرار ہے، اے آر وائی نیوز نے 4 روز پہلے ہی ناظرین کو آگاہ کیا تھا کہ عمران خان 23 دسمبر کو اسمبلیاں توڑنے کا اعلان کریں گے۔

    اے آر وائی پر 14 دسمبر کو خبر بریک کی گئی، شیخ رشید کہتے ہیں اے آر وائی کو کریڈٹ دیتا ہوں 4 دن پہلے بتا دیا تھا، انھوں نے کہا عمران خان نے ایک ایسا کارڈ کھیلا ہے کہ پی ڈی ایم کا سیاسی قبرستان بنے گا۔

    شیخ رشید نے کہا اب بھی حکومت کے پاس 5 دن ہیں، عام انتخابات کا اعلان کریں۔

    ملک کے خراب حالات کا ذمے دار صرف ایک شخص جنرل ریٹائرڈ باجوہ ہے: عمران خان

    واضح رہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے گزشتہ روز پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا ہے، انھوں نے کہا اگلے جمعہ کو پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ دیں گے، یہ اعلان کرتے ہوئے دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی موجود تھے۔

    انھوں نے وزرائے اعلیٰ کا اس فیصلے میں ساتھ دینے پر اظہار تشکر کیا اور کہا ملک کی خاطر دو اسمبلیاں قربان کرنے کا فیصلہ کیا ہے، قومی اسمبلی میں بھی جا کر استعفے منظور کرائیں گے۔

    دوسری طرف اسمبلیوں کی تحلیل کے کے اعلان پر وزیر اعظم شہباز شریف نے ن لیگ کا اہم اجلاس آج طلب کر لیا ہے، جس میں اسمبلیاں تحلیل ہونے سے بچانے کے قانونی، آئینی معاملات کے تحت مختلف پہلوؤں پر غور ہوگا۔

  • عمران خان نے سرپرائز دے دیا، کیا نئے الیکشن کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟

    عمران خان نے سرپرائز دے دیا، کیا نئے الیکشن کی راہ ہموار ہو رہی ہے؟

    پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے پنڈی میں بڑے پاور شو میں تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا بڑا اعلان کیا جو سب کے لیے سرپرائز ثابت ہوا اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت سمیت تمام سیاسی جماعتیں‌ حیران و

    پریشان ہیں۔

    عمران خان نے ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کرتے ہوئے اکتوبر کے آخر میں لاہور سے حقیقی آزادی مارچ کے نام سے اسلام آباد تک لانگ مارچ شروع کیا تھا تاہم لانگ مارچ کے آغاز کے چند روز بعد ہی وزیر آباد کے ایک مقام پر قاتلانہ حملے میں ان کے زخمی ہونے کے بعد یہ لانگ مارچ مؤخر کردیا گیا۔ پھر پروگرام کو تبدیل کرتے ہوئے لانگ مارچ کے دوسرے مرحلے میں اسے دو مختلف مقامات سے اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کی زیر قیادت آگے بڑھایا گیا جس کے شرکا سے عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرکے ان کے جذبے کو ممہیز کرتے رہے۔

    نومبر شروع ہوا تو شہر اقتدار سمیت ملک بھر میں نظریں پاکستان میں دو اہم تعیناتیوں اور عمران خان کے لانگ مارچ پر لگی ہوئی تھیں۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا تھا چہ می گوئیاں بھی بڑھتی جا رہی تھیں اور غیر یقینی کی فضا اور صورت حال گھمبیر ہوتی جا رہی تھی۔ ان معاملات بالخصوص فوج میں کمان کی تبدیلی اور افسران کی ترقی کا معاملہ جس طرح میڈیا پر اٹھایا جا رہا تھا اس سے ایسا لگنے لگا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور باقی عوامی مسائل حل ہوچکے ہیں۔

    اسی بے یقینی کی فضا میں عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کا اعلان اور وہاں آکر سب کو سرپرائز دینے کا اعلان کیا۔ ایسے وقت میں جب آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کی تقرری کا معاملہ ملک کے سیاسی افق پر چھایا ہوا تھا تو لوگوں کی اکثریت نے اس سرپرائز دینے کے اعلان کو بھی اسی تناظر میں‌ دیکھا جب کہ 24 نومبر کو فوج میں‌ تقرری کے معاملات خوش اسلوبی سے طے پا گئے۔

    وزیراعظم شہباز شریف نے اتحادیوں سے طویل مشاورت کے بعد لیفٹیننٹ جنرل سید عاصم منیر کو آرمی چیف اور لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کو چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف مقرر کرنے کا فیصلہ کیا اور سمری منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھیجی۔ اس موقع پر صدر مملکت کے اچانک لاہور جانے اور عمران خان سے ملاقات نے افواہوں اور بے یقینی کو تقویت بخشی تاہم ملاقات کے بعد صدر کی جانب سے سمریوں پر دستخط سے تمام افواہوں نے دم توڑ دیا اور پھر سب کی نظریں عمران خان کے لانگ مارچ کی جانب مبذول ہوگئیں۔

    اگر مگر، دہشتگردی کے خدشات و خطرات، پی ٹی آئی کی سیاسی چالوں اور حکومتی دعوؤں اور لانگ مارچ کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات کے باوجود عمران خان 26 نومبر کی شام پنڈی پہنچ گئے جہاں عوام ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔

    پنڈی میں جتنا بڑا جلسہ تھا اتنا ہی طویل خطاب بھی تھا۔ عمران خان نے ایک گھنٹے سے زائد خطاب کیا جس میں حسب سابق اپنی حکومت کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ساتھ ہی اپنی حکومت کے حاصل کردہ اہداف اور موجودہ حکومت کی معاشی ناکامیوں کے اعداد وشمار عوام کے سامنے پیش کیے۔ یہ سب اعداد و شمار لوگوں کے لیے نئے نہیں تھے لیکن ان کے خطاب کے آخری چند منٹ ہی انتہائی اہم تھے جس میں انہوں نے اسلام آباد جانے کا فیصلہ بدلتے ہوئے تمام اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کر کے سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔

    عمران خان کے اس سرپرائز اعلان نے صرف مخالف پی ڈی ایم حکومت ہی نہیں بلکہ دیگر حلقوں کے ساتھ اپنے سخت ناقد صحافیوں کو بھی حیران کردیا اور تجزیہ کار یہ کہتے نظر آئے کہ عمران خان نے سیاسی چال سے حکومت کو بیک فٹ پر کر دیا ہے اور حکومت جو کئی ماہ سے نئے الیکشن کے مطالبے پر ان سے پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں توڑنے کا مطالبہ کرتی تھی اب عمران خان کے اعلان نے اسے امتحان میں ڈال دیا ہے۔

    عمران خان کے اس اعلان کے بعد حکومتی نمائندوں کے بیانات اور باڈی لینگویج سے ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت کو پنڈی اجتماع میں ایسے کسی اعلان کی توقع نہیں تھی بلکہ سابق وزیراعظم کے پنڈی پہنچنے سے ایک دن قبل تک سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش میں تھیں کہ عمران خان پنڈی میں جلسہ کرکے واپس چلے جائیں گے اور آئندہ چند روز میں قومی اسمبلی میں بھی واپس آجائیں گے جہاں تین فریق آئندہ الیکشن پر مذاکرات کریں گے لیکن بجائے اسمبلی واپس جانے کے پنجاب، کے پی اور گلگت بلتستان اسمبلیوں سے نکلنا یا دوسرے معنوں میں اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان سب کے لیے سرپرائز ثابت ہوا ہے۔ عمران خان نے کہا کہ وہ اپنی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کے بعد اس بارے میں جلد تاریخ کا اعلان کریں گے۔

    حکومت کی پریشانی اور بوکھلاہٹ کا اندازہ حکومتی نمائندوں کے بیانات سے لگایا جاسکتا ہے۔ بلاول بھٹو، رانا ثنا اللہ و دیگر حکومتی وزرا کی جانب ایک بڑے عوامی جلسے کو فلاپ شو قرار دینا اسی پریشانی کی ایک جھلک لگتی ہے۔ ایک جانب رانا ثنا اللہ نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی والے اسمبلیوں سے باہر جائیں گے تو ضمنی الیکشن کرا دیے جائیں گے جس کی توثیق بعد ازاں الیکشن کمیشن نے بھی کر دی اور ادارے کے باخبر ذرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اگر اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل استعفے ہوئے تو ضمنی الیکشن ہوں گے کیونکہ آئین کے مطابق نصف اسمبلی بھی خالی ہو تو ضمنی انتخاب ہوگا اور 2 نشستیں بھی اسمبلی میں ہوں تو اسمبلی بحال رہتی ہے۔

    آئین کی شق اپنی جگہ لیکن اگر پنجاب، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کی اسمبلیاں ہی تحلیل ہو جاتی ہیں یعنی نصف سے زائد پاکستان میں کوئی منتخب ادارے نہیں رہتے تو کیا پھر بھی حکومت کا یہی مؤقف رہے گا کیونکہ ملک بھر کے منتخب نمائندوں کے مجموعی فورم کا 50 فیصد سے زائد حصہ پی ٹی آئی ہے۔ اگر تحریک انصاف کے استعفوں سے ملک کا 50 فیصد حصہ منتخب نمائندوں سے محروم ہوگا تو کیا اتنی زیادہ نشستوں پر ضمنی الیکشن کرانا ممکن رہے گا؟ اگر کرانے کی کوشش کی تو کروڑوں روپے خرچ ہوں گے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب آئین کے مطابق اسمبلیوں کی مدت میں صرف چند ماہ ہی باقی رہ جائیں گے۔

    پی ٹی آئی کے پی اور گلگت بلتستان میں بلا شرکت غیرے اقتدار میں ہے تاہم پنجاب کا معاملہ مختلف ہے جہاں اکثریتی پارٹی بے شک پی ٹی آئی ہے لیکن حکومت ق لیگ کے چوہدری پرویز الہٰی کی ہے۔ عمران خان کے اعلان کے فوری بعد اس حوالے سے چہ می گوئیاں بھی ہوئیں تاہم مونس الہٰی نے اس پر مثبت ردعمل دے کر ان کا فوری گلا گھونٹ دیا اور اپنے ٹوئٹ میں واضح کر دیا کہ ہم اپنے وعدے پر قائم ہیں عمران خان کا اشارہ ملتے ہی پنجاب اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی۔

    ماہر قانون کی اکثریت بھی اس بات پر متفق ہے کہ اگر عمران خان اپنے فیصلے پر عمل کرتے ہیں اور پنجاب، کے پی، گلگت بلتستان اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں اس کے ساتھ ہی سندھ اور بلوچستان اسمبلی سے بھی پی ٹی آئی ایم پی ایز مستعفی ہوجاتے ہیں تو یہ بہت بڑا سیاسی بحران ہوگا۔ اس صورت میں یہ بحران صرف ضمنی الیکشن سے ختم نہیں ہوگا بلکہ لامحالہ نئے عام انتخابات کی طرف جانا پڑے گا۔

    پاکستان میں قومی اور گلگت بلتستان سمیت چاروں صوبائی اسمبلیوں کی مجموعی طور پر 859 نشستیں ہیں۔ قومی اسمبلی کی 123 نشستیں پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کے استعفوں کے باعث خالی ہیں۔ اگر صوبائی اسمبلیاں تحلیل بھی نہ ہوں تو پی ٹی آئی ایم پی ایز کے استعفوں سے پنجاب کی 297 نشستیں، کے پی کی 115، سندھ کی 26 اور بلوچستان کی 7 نشستیں خالی ہوں گی جو مجموعی طور پر 567 ہوں گی۔

    صرف مریم نواز اور ن لیگ کے دیگر رہنما ہی نہیں بلکہ پی پی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے رہنما بھی اس سے قبل کئی بار عمران خان کے نئے الیکشن کے مطالبے پر کہتے تھے کہ وہ پہلے اپنی صوبائی حکومتیں توڑیں تو قومی اسمبلی توڑ کر نئے الیکشن کرا دیں گے۔ عمران خان کا یہ ماسٹر اسٹروک بھی حکومت کے لیے امتحان بن گیا ہے۔

    ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم نے اپنے پتوں کو بروقت کھیل کر سیاست کے میدان کا شاطر کھلاڑی ہونے کا ثبوت دیا ہے تاہم اسمبلیوں سے نکنے کے اعلان پر فوری عمل کرنے کے بجائے پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی سے مشاورت کے بعد تاریخ دینے کے اعلان نے اس پر سوالات بھی اٹھا دیے ہیں۔ ایک رائے یہ بھی سامنے آئی ہے کہ عمران خان کا یہ اعلان اپنے سامنے موجود قوتوں اور مخالفین کو نئے الیکشن کے لیے سنجیدہ اور فیصلہ کن مذاکرات کے لیے سوچنے کا وقت دینے کی ایک اور کوشش ہے۔

    اگر پی ڈی ایم حکومتی آپشنز کی جانب نظر دوڑائیں تو اس کے پاس اس بحران سے بچنے کے لیے صرف تین آپشنز بچتے ہیں۔ ایک یہ کہ فوری طور پر پنجاب اور کے پی کے وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے جو کہ کے پی میں تو یقینی ناکام ہوگی جب کہ پنجاب کے بارے میں ابھی کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی اور یہی سب سے بڑا بونس پوائنٹ ہوسکتا ہے۔ اگر دونوں جگہوں پر تحریک عدم اعتماد ناکام رہتی ہیں تو وفاقی حکومت گورنر راج جیسا آپشن بھی استعمال کرسکتی ہے اس کے علاوہ اس کے پاس خالی نشستوں پر ضمنی الیکشن کی چوائس بھی ہے۔

    عمران خان نے ایک پر ایک سیاسی چال چلتے ہوئے تُرپ کا پتہ بھی پھینک دیا ہے۔ اگر اس پر سنجیدہ مذاکرات کے بجائے وفاقی حکومت بحران سے نمٹنے کے لیے مذکورہ بندوبست کرتی ہے تو یہ عارضی ہی ثابت ہوں گے۔ ملک پہلے ہی معاشی بدحالی کا شکار اور ماہرین معیشت کے مطابق ڈیفالٹ کی دہلیز پر کھڑا ہے ایسے میں سیاسی بحران سے نمٹنے اور اپنے چند ماہ کے باقی اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی بھی عارضی اقدام سیاسی تناؤ کو مزید ہوا دے کر بحران کے شعلوں کو مزید بھڑکا سکتا ہے۔

    عمران خان نے یہ اعلان کرکے وفاقی حکومت کو نئے انتخابات پر مذاکرات کے لیے راستہ دے دیا ہے۔ صائب مشورہ یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈر ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر کر وہ فیصلے کریں کہ جس سے ملک میں جاری ہیجانی کیفیت کا خاتمہ ہو۔ معاشی استحکام آئے اور غریب عوام کی زندگی بہتر ہوسکے۔ اس کے لیے چند ماہ قبل سہی نئے الیکشن کا اعلان کر دینے میں‌ کوئی مضائقہ نہیں اور تاکہ نئی منتخب حکومت پورے اعتماد سے ملک و قوم کی بہتری کے لیے فیصلے کرسکے۔

  • چیف جسٹس نے موجودہ صورت حال کا نوٹس لے لیا

    چیف جسٹس نے موجودہ صورت حال کا نوٹس لے لیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے موجودہ صورت حال کا نوٹس لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کیے جانے کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال کے بعد چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ازخود نوٹس لے لیا۔

    چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا، اٹارنی جنرل بھی سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

    واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی تجویز پر صدر مملکت عارف علوی قومی اسمبلی تحلیل کر چکے ہیں، اس سے قبل ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد غیر آئینی قرار دے کر مسترد کر دی تھی۔

    ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں کہا قرارداد آئین کے آرٹیکل 5 اے کے منافی ہے، یہ عالمی سازش کے تحت لائی جا رہی ہے، کسی غیر ملکی طاقت کو حق نہیں کہ منتخب حکومت سازش کے تحت گرائے۔

    بعد ازاں، وزیر اعظم عمران خان کی سفارش پر صدر مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری دے دی، صدر نے اسمبلی تحلیل کرنے کی منظوری آئین کے آرٹیکل اٹھاون ون اور اڑتالیس ون کے تحت دی۔

    وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں کہا کہ تحریک عدم اعتماد کے پیچھے غیر ملکی ایجنڈا تھا، ملک کا فیصلہ عوام نے کرنا ہے، بیرونی قوت یا کرپٹ لوگوں نے نہیں، قوم انتخابات کی تیاری کرے۔

    دوسری طرف اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    چیف جسٹس عمر عطا بندیال سپریم کورٹ پہنچ گئے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمنٹ کی کارروائی پر چیف جسٹس کو خط لکھ دیا تھا، جس میں انھوں نے اسمبلی کارروائی سے آگاہ کیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے نوٹ پر چیف جسٹس نے ساتھی جج سے مشاورت کی۔

  • قوم انتخابات کی تیاری کرے: وزیر اعظم

    قوم انتخابات کی تیاری کرے: وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے صدر مملکت کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے خلاف رولنگ دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے، جس کے فوری بعد وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا انھوں نے صدر مملکت کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز بھیج دی ہے۔

    عمران خان نے کہا میں تحریک عدم اعتماد مسترد ہونے پر قوم کو مبارک باد دیتا ہوں، میرے خلاف تحریک عدم اعتماد غیر ملکی ایجنڈا تھا، لوگوں کو پیغام دیناچاہتا ہوں گھبرانا نہیں۔

    انھوں نے کہا کل سے اتنے لوگ پیغام دے رہے تھے پریشان تھے کہ کیا ہو رہا ہے، قوم اس طرح کی سازش کامیاب نہیں ہونے دے گی، اسپیکر نے اپنی پاور استعمال کر کے فیصلہ کیا ہے۔

    وزیر اعظم نے کہا میں نے صدر عارف علوی کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی تجویز دے دی، قوم کو کہتا ہوں الیکشن کی تیاری کریں، اب آپ کا مستقبل کیا ہوگا یہ عوام نے فیصلہ کرنا ہے۔

    انھوں نے کہا اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں الیکٹڈ حکومت گرانے کی سازش آج ناکام ہوگئی ہے، صدر کو تجویز ملنے کے بعد اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی، اپوزیشن کو کہتا ہوں ارکان خریدنے کی بجائے غریبوں کا بھلا کریں۔