Tag: اسموگ

  • دنیا کا پہلا جدید ترین اینٹی اسموگ سسٹم پاکستان کے کس شہر میں تعینات کیا گیا ہے؟

    دنیا کا پہلا جدید ترین اینٹی اسموگ سسٹم پاکستان کے کس شہر میں تعینات کیا گیا ہے؟

    (2 اگست 2025): لاہور میں اسموگ کے تدارک کیلئے جدید ترین ڈسٹ سسپنشن سسٹم اسمبلنگ شروع کردی گئی، یہ سسٹم بروقتِ ضرورت مختلف مقامات پر تعینات کیا جائے گا۔

    وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس حوالے سے ایکس پر کی گئی پوسٹ میں بتایا کہ دنیا کا پہلا آزمودہ ڈسٹ سسپنشن سسٹم 15 جدید اینٹی اسموگ گنز کے ساتھ لاہور پہنچ چکا ہے اور اسے اسمبل کیا جارہا ہے۔

    مریم نواز نے بتایا کہ جدید فوگ کینن باریک پانی کی دھند سے خطرناک فضائی ذرات PM2.5 اور PM10 کو زمین پر گرا کر ہوا صاف کرتے ہیں، اینٹی اسموگ گنز لاہور میں نصب ایئر کوالٹی نیٹ ورک اور ماحولیات تحفظ فورس سے منسلک ہوں گی۔

    کیا پنجاب کا نیا اسموگ پلان کارآمد ہوگا؟ ایک تجزیہ

    وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ آلودگی کی شدت بڑھنے پر اینٹی اسموگ گنز  خودکار طور پر فعال ہو جائیں گی، یہ اینٹی اسموگ گنز سسٹم سیٹلائٹ ڈیٹا، ڈرونز، کیو آر کوڈڈ  بھٹہ خشت اور اے ائی ٹریکنگ سسٹم سے منسلک ہوگا۔

    مریم نواز کا کہنا تھا کہ اینٹی اسموگ گنز ماحولیات کے تحفظ کے لئے انقلابی قدم ہے، ٹیکنالوجی، جدت اور شہریوں کی شمولیت کے ساتھ اسموگ کے خلاف جنگ جیتیں گے۔

  • کیا پنجاب کا نیا اسموگ پلان کارآمد ہوگا؟ ایک تجزیہ

    کیا پنجاب کا نیا اسموگ پلان کارآمد ہوگا؟ ایک تجزیہ

    محمد مشتاق نے حال ہی میں پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اپنے رکشا سے دھوئیں کے اخراج پر روکے جانے کے بعد 2,000 روپے ( 7.20 امریکی ڈالر) کا جرمانہ ادا کیا۔ پیٹرول پہ چلنے والے اس رکشے کی مرمت پر 12,000 روپے ( 43 امریکی ڈالر) لاگت آئے گی، اس لئے مشتاق نے جرمانے سے بچنے کا ایک اور طریقہ تلاش کیا، وہ کہتے ہیں، ” دھواں صرف اس وقت خارج ہوتا ہے جب میں رفتار تیز کرتا ہوں اور اس طرح پولیس کے ہاتھوں پکڑا جا سکتا ہوں، لہذا، میں کم رفتار پر رکشہ چلاتا ہوں۔”

    "پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اسموگ کے خاتمے کے لئے ایک پرعزم روڈ میپ کا آغاز کیا گیا ہے، لیکن ماہرین اس پہ قائل نہیں ہیں”

    سچ کہا جائے تو پاکستان کے سب سے امیر اور گنجان آباد صوبے پنجاب میں آٹو رکشے اسموگ کے مسئلے کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔ پنجاب کی صوبائی حکومت کی ملکیت میں ایک نجی شعبے کی کمپنی، دی اربن یونٹ کی 2023 کی سیکٹرل ایمیشن انوینٹری آف لاہور کے مطابق، آٹورکشہ کا حصّہ شہر میں 153 گیگا گرام (جی جی) اخراج میں سے صرف 4.24 جی جی ہے، جو کہ 3 فیصد سے بھی کم ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں ریگولیشن کے نفاذ میں سستی ہے، جو لاہور کے اخراج میں 127.22 جی جی یعنی 83 فیصد کی ذمہ دار ہے۔

    ٹرانسپورٹ کا شعبہ لاہور میں فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذمہ دار ہے
    ٹیک کمپنی آئی کیو ایئر نے 2017 اور 2023 کے درمیان دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں لاہور کو پانچویں نمبر پر رکھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب، مریم نواز نے ان بڑے مسائل سے نمٹنے کے لیے اکتوبر کے اوائل میں اسموگ کے خاتمے کے لیے ایک روڈ میپ کا آغاز کیا۔ یہ اعلان اسموگ سیزن کے آغاز پر ہوا، جو فروری تک جاری رہتا ہے۔

    اس سال آلودگی مزید بدتر رہی ہے۔ نومبر کے اوائل میں، جب اسکولوں کو مجبوراً بند کرنا پڑا اور ہنگامی اقدامات نافذ کیے گئے، آئی کیو ایئر نے لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا۔

    اسموگ پلان کاغذ کی حد تک اچھا ہے
    نئے روڈ میپ میں فصلوں کی باقیات کو جلانے سمیت صوبے کے ٹرانسپورٹ، صنعت، توانائی اور زراعت جیسے آلودگی کے بڑے ذمہ داروں سے نمٹنے کا دعویٰ کیا گیا ہے، اور ساتھ ہی ماہانہ اہداف متعین کئے گۓ ہیں جو اسموگ کے پورے موسم کے دوران مکمّل کئے جائیں گے۔ ماحولیاتی تحفظ، ٹرانسپورٹ، زراعت، صنعت اور صحت کے محکموں کے ساتھ ساتھ پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی، مقامی حکومتیں اور ضلعی کمشنر ان اہداف پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔

    منصوبے میں، فیکٹری مالکان کو صنعتی اخراج سے نمٹنے کے لئے آلودگی پر قابو پانے والے آلات نصب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ افراد، کمپنیوں، کارپوریٹ اداروں اور صنعتوں کے خلاف اسموگ سے متعلق شکایات کے لئے ایک وقف ہیلپ لائن بھی متعارف کرائی گئی ہے۔ اسموگ سے متعلقہ صحت کے مسائل جیسے کہ فالج، پھیپھڑوں کے کینسر اور دائمی پھیپھڑوں کی بیماریوں کے لیے مخصوص وارڈز، اسموگ کاؤنٹرز اور موبائل ہیلتھ یونٹس قائم کئے جائیں گے۔

    اس منصوبے میں کسانوں کے لئے 5,000 ماحول دوست سپر سیڈرز کو سبسڈی دینے کا بھی وعدہ کیا گیا ہے، جس کی لاگت کا 60 فیصد حکومت برداشت کرے گی۔ سپر سیڈر ایک مشین ہے جو گندم اور کھاد کو چاول کی فصل کی باقیات سے ڈھکے ہوئے کھیتوں میں ڈرل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ ایسا کرنے سے اس باقیات کو صاف کرنے کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے، جس کو جلانے سے موسم سرما میں فضائی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔

    ٹرانسپورٹ سے متعلق آلودگی سے نمٹنے کے لئے، روڈ میپ میں گاڑیوں کی فٹنس سے متعلق سخت چیکس شامل ہیں۔ فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر کسی بھی گاڑی کو اب پنجاب کی سڑکوں پر چلنے کی اجازت نہیں ہے۔

    ملے جلے تاثرات
    ڈائیلاگ ارتھ نے ملک امین اسلم سے رابطہ کیا، جو 2002-2007 تک وزیر برائے ماحولیات رہے، اور 2018-2022 تک وزیر اعظم کے ماحولیاتی تبدیلی کے مشیر رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت کا زیادہ تر منصوبہ صرف “پچھلے منصوبوں کا اعادہ” ہے جو ان سمیت مختلف حکومتوں نے تجویز کیا تھا۔

    اس حوالے سے پنجاب میں منصوبہ بندی و ترقی، ماحولیات کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلی کی وزیر مریم اورنگزیب ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتی ہیں، “پچھلی حکومتوں نے اسموگ پر صرف اس وقت توجہ دی جب اس میں شدت آتی تھی۔ ہم سردیاں شروع ہونے سے پہلے اسموگ کو کم کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔”

    “ہم انوائرنمنٹ پروٹیکشن اتھارٹی (ای پی اے ) کی اصلاح کر رہے ہیں، 500 اہلکاروں پر مشتمل ایک مضبوط ماحولیاتی تحفظ کا دستہ قائم کر رہے ہیں اور لاہور میں 8 مانیٹرنگ یونٹ شامل کر رہے ہیں، اور اس منصوبے کی حمایت ایک مضبوط قانونی ڈھانچہ کرے گا۔”

    اسلم کہتے ہیں کہ ماضی میں سب سے بڑا چیلنج “فنڈنگ ​​کی کمی” تھا۔ تاہم اس بار، مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں 10.23 بلین روپے (36.76 ملین امریکی ڈالر) کا نمایاں طور پر بڑا اور مہدف بجٹ ہے۔

    “یہ ایک بہت بڑی رقم ہے، ”اسلم نے اعتراف کیا۔ “میں امید کرتا ہوں کہ یہ ٹھوس اقدامات پر خرچ کیا جائے گا جن کی ضرورت ہے، جیسے ہوا کی نگرانی کے نظام کو مضبوط بنانا، جو ہاٹ سپاٹ کی نشاندہی کرنے اور اس کے مطابق ٹریفک کو منظم کرنے کے لئے ضروری ڈیٹا فراہم کرتے ہیں۔”

    ہوا کے معیار کی نگرانی
    آب و ہوا کے ماہر اور پاکستان کے معروف ماحولیاتی وکیلوں میں سے ایک احمد رافع عالم کا کہنا ہے کہ ایکشن پلان کو مؤثر طریقے سے کام کرنے کے لئے پنجاب کو ہوا کے معیار کا مناسب مطالعہ کرنے اور ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے لئے زیادہ تعداد میں فضائی مانیٹر کی ضرورت ہے۔

    وہ ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتے ہیں، ’’اس وقت پنجاب میں پانچ یا چھ ریفرنس مانیٹر ہیں، جو لاہور کے حجم کے شہر کے لیے کافی نہیں ہیں، صوبے کو تو چھوڑ دیں۔”

    پنجاب حکومت نے اس بات پر غور کیا ہے اور اس نے صوبے بھر میں مزید 30 “ایڈوانس” ایئر کوالٹی مانیٹر لگانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

    پاکستان میں سینٹر فار اکنامک ریسرچ کے عثمان حق اور عبداللہ محمود بتاتے ہیں کہ ایئر مانیٹر کا معیار اہم ہے۔ وہ ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتے ہیں کہ کنزیومر گریڈ مانیٹر کی حد عام طور پر صرف 20-30 میٹر ہوتی ہے، جبکہ انڈسٹریل گریڈ کے سینسر وسیع اور زیادہ درست ریڈنگ فراہم کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوریج کے درست اعداد و شمار صوبے کو چھوٹے جغرافیائی اکائیوں میں تقسیم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں، جس سے مزید ہدفی کارروائی کی جا سکتی ہے۔

    ناقص عمل درآمد
    لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں عمرانیات پڑھانے والے عمیر جاوید کو خدشہ ہے کہ ڈیٹا کو بہتر کرنے کے باوجود اس منصوبے کو ” ناقص عمل درآمد ” سے نقصان گا۔

    جاوید نے مشورہ دیا کہ آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کو اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور کرنے کے بجائے، حکومتی اداروں نے صارفین کو نشانہ بنانے کے لئے “تعزیتی” اقدامات کئے ہیں، جن کا سیاسی اثر بہت کم ہے اور جو اسموگ کا اصل شکار ہوتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں، ” اس سے پتا چلتا ہے کہ کیوں اسکولوں اور ریستوراں کو بند کرنا آسان ہے، لیکن آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں کو نہیں” ۔

    جاوید کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کے اخراج کو کنٹرول کرنے میں صوبے کی ناکامی اس کی پالیسیوں کے نفاذ میں کمزوریوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ کم معیار کے ایندھن پر پابندی جیسے اسٹریٹجک اقدامات بھی ایکشن پلان سے غائب ہیں۔ جب فضائی آلودگی کی سطح ایک “تباہ کن” ہو گئی تب نومبر کے آغاز میں کم معیار کے ایندھن کے استعمال پر پابندی کے لئے اقدامات کئے گئے۔

    کم معیار کا ایندھن، زیادہ تر یورو 2 اور اسمگل شدہ، ہائی سلفر ہائی سپیڈ ڈیزل، ایک دیرینہ مسئلہ رہا ہے۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی نے مزید کہا، “ہم کم معیار کا ایندھن استعمال کررہے ہیں جس پر بہت سے ممالک میں پابندی ہے۔”

    حکمت عملی اور عمل درآمد سے مطلق چیلنجوں پر بات کرتے ہوئے، ایک توانائی ماہر جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی، ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ آلودگی پھیلانے والی گاڑیاں اچھے معیار کے ایندھن کو خاطر میں نہیں لاتیں، “پاکستان ایندھن کا تیل درآمد کرتا ہے جو [ای یو کے] یورو 5 معیار پر پورا اترتا ہے، لیکن یہ تجارتی گاڑیوں کے لئے فٹنس سرٹیفکیٹ کے سخت نفاذ کی عدم موجودگی کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہیں دیتا۔”

    ناقص عمل درآمد اور پیچیدہ انفراسٹرکچر کی ایک اور مثال، پنجاب میں گاڑیوں کے معائنہ کے صرف 32 اسٹیشن ہیں، جس کی آبادی 127.7 ملین افراد پر مشتمل ہے اور 24 ملین سے زیادہ گاڑیاں ہیں۔ ٹرانسپورٹ اور ماس ٹرانزٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک نمائندے (جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے ) کے مطابق، “پچھلے سال، تقریباً 1.2 ملین پبلک سروس گاڑیوں میں سے تقریباً 160,000 گاڑیوں جیسے کہ بسیں، وین، آٹورکشہ اور ٹرک جو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ کے پاس رجسٹرڈ ہیں کا معائنہ کیا گیا۔”

    ملک امین اسلم کے مطابق، گاڑیوں کے معائنے کے بارے میں یہ سخت موقف اس وقت تک ” محض مؤقف ہی رہے گا ” جب تک کہ بڑے پیمانے پر، “قابل اعتماد اور شفاف” چیکس میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔

    مریم اورنگزیب، تاہم، اس بات پر ثابت قدم ہیں، “اگر بیجنگ اپنی سمت تبدیل کر سکتا ہے، تو ہم بھی کرسکتے ہیں۔” تاہم، وہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ یہ ایک دن یا ایک سال میں نہیں ہوگا، اور یہ کہ یہ ایک طویل لڑائی ہے۔ “ اس میں 8-10 سال لگ سکتے ہیں۔”

    (الیفیہ حسین کی یہ تحریر ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کا لنک یہاں دیا جارہا ہے)

  • خراب انجن اور زیادہ دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے روٹ پرمٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ

    خراب انجن اور زیادہ دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے روٹ پرمٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ

    لاہور: پنجاب حکومت نے اسموگ کی صورت حال پر قابو پانے کے لیے خراب انجن اور زیادہ دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے روٹ پرمٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے ہدایات جاری کی ہیں کہ خراب انجن اور زیادہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو سڑکوں پر نہ چلنے دیا جائے۔

    جمعہ اور اتوار کو ٹرکوں، بسوں اور بھاری گاڑیوں کے لاہور میں داخلے پر پابندی بھی عائد کر دی گئی۔ خراب انجن اور زیادہ دھواں دینے والی ایک ہزار سے زائد گاڑیوں کی چیکنگ کی گئی، اور 144 گاڑیاں بند کر دی گئیں۔

    اینٹی اسموگ مہم کے تحت لودھراں، اوکاڑہ، وہاڑی اور سرگودھا میں 6 بھٹے بھی مسمار کر دیے گئے ہیں، 3 صنعتی یونٹس، 1 اسٹیل رولنگ مل، 1 ٹیکسٹائل یونٹ، اور 1 چاول مل بھی سیل کر دی گئی۔

    پنجاب کی سینیر وزیر مریم اورنگزیب نے کہا کہ ٹھوس پالیسی سے صوبے کا ماحولیاتی مستقبل بہتر ہوگا، آج کے اقدامات اسموگ کے خاتمے کی بنیاد بنیں گے، ان کا کہنا تھا کہ فضائی آلودگی کے خلاف جنگ شہریوں کی زندگی کے تحفظ کی جنگ ہے۔

  • پنجاب میں اسموگ کے حوالے سے نجی ادارے کی سروے رپورٹ کے حیران کن نتائج

    پنجاب میں اسموگ کے حوالے سے نجی ادارے کی سروے رپورٹ کے حیران کن نتائج

    لاہور: پنجاب میں اسموگ کے حوالے سے ایک نجی ادارے کی سروے رپورٹ شائع ہوئی ہے، جس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے ہوا کے رُخ کو فضائی آلودگی کا بڑا سبب قرار دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق انوائرنمنٹل ریسرچ کے نجی ادارے ارتھ پیپل گلوبل کی جانب سے ایک سروے کیا گیا ہے، اسموگ پر عوامی رائے جاننے کے لیے اس سروے میں لاہور میں 1500 نوجوانوں کی رائے ریکارڈ کی گئی۔

    سروے کے مطابق نوجوانوں کی رائے تھی کہ اسموگ کا پھیلاؤ 3 چیزوں پر منحصرہے، حکومتی اقدامات، عوامی اقدامات اور ہوا کا رخ۔ ہوا کا رخ فضائی آلودگی کے پھیلاؤ کا اہم سبب قرار دیا گیا۔

    نوجوانوں کی رائے تھی کہ بھارتی پنجاب میں دھان کی پیداوار پاکستانی پنجاب سے کہیں زیادہ ہے، وہاں دھان کی باقیات جلانے سے ہونے والی آلودگی ہوائی رخ سے پاکستان میں داخل ہوتی ہے، اس لیے اسموگ کی روک تھام میں علاقائی تعاون وقت کی ضرورت ہے۔

    63 فی صد لاہوریوں کی رائے ہے کہ وزیر اعلیٰ نے گزشتہ حکومتوں کے مقابلے میں بہتر اقدام کیے، سروے میں 88 فی صد شہریوں نے صنعتوں کی رہائشی علاقوں سے منتقلی کے اقدام کو سپورٹ کیا۔

    44 فی صد نوجوانوں کا ماننا ہے کہ گاڑیوں کا دھواں اسموگ کی سب سے بڑی وجہ ہے، 82 فی صد شہریوں نے اسموگ میں کمی کے لیے گاڑیوں، صنعتوں کی سخت نگرانی کی حمایت کی۔

    واضح رہے کہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور آج پھر دنیا کا آلودہ ترین شہر ہے، بھارت کا دارالحکومت نئی دہلی فضائی آلودگی میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ گھانا کا دارالحکومت اکرا دنیا کا تیسرا آلودہ ترین شہر بن گیا ہے۔ پاکستان کے آلودہ ترین شہروں میں میں بھی لاہور پہلے نمبر پر ہے، ملتان دوسرا اور راولپنڈی پاکستان کا تیسر آلودہ شہر ہے۔ پاکستان میں فضائی آلودگی میں پھولوں کا شہر پشاور چوتھے اور میٹروپولیٹن سٹی کراچی پانچویں نمبر پر ہے۔

  • اسموگ کی پابندیاں، حکومت نے چند کاموں‌ کی اجازت دے دی

    اسموگ کی پابندیاں، حکومت نے چند کاموں‌ کی اجازت دے دی

    لاہور: پنجاب حکومت نے اسموگ کی پابندیوں میں مزید نرمی کر دی ہے، لاہور سمیت 4 اضلاع میں تعمیراتی کام کی اجازت دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب حکومت نے اسموگ کی پابندیوں میں نرمی کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس کے مطابق زگ زیگ ٹیکنالوجی پر بھٹے کام کر سکیں گے، اور چار اضلاع میں تعمیراتی کام ہو سکے گا۔

    ڈی جی ماحولیات ڈاکٹر عمران حامد شیخ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق سرکاری و نجی دفاتر کو 100 فی صد عملے کے ساتھ کام کرنے کی بھی اجازت مل گئی ہے۔

    اس فیصلے کا اطلاق لاہور، گوجرانوالہ، ملتان، اور فیصل آباد پر ہوگا، ان اضلاع میں ہیوی ٹریفک پیر سے جمعرات تک داخل ہو سکے گی، اور جمعہ سے اتوار تک ہیوی ٹریفک کو داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔

    نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ دکانیں، مارکیٹس، شاپنگ مالز 8 بجے بند کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا گیا ہے، ریسٹورنٹس کا ان ڈور، آؤٹ ڈور ڈائننگ 10 بجے تک ہوگا، اور ہوڈ سسٹم نصب کیے بغیر باربی کیو کی اجازت نہیں ہوگی۔

    Currency Rates in Pakistan Today- پاکستان میں آج ڈالر کی قیمت

  • کیا ’اسموگ‘ زندگی کے 7 سال کم کردیتی ہے؟

    کیا ’اسموگ‘ زندگی کے 7 سال کم کردیتی ہے؟

    صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور فضائی آلودگی کے حوالے سے ملک کے آلودہ ترین شہروں میں سرفہرست ہے، اسموگ کے سبب شہری مختلف امراض کا شکار ہورہے ہیں۔

    پنجاب میں اسموگ کی مجموعی صورتحال کسی حد تک تو بہتر ہوگئی لیکن لاہور اب بھی فضائی آلودگی کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے۔

    ویسے تو ملک بھر میں چار موسم ہوتے ہیں لیکن اب اس میں پانچویں موسم کا بھی اضافہ ہوگیا جسے اسموگ کہا جارہا ہے۔ موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی لاہور ایک بار پھر اسموگ کی لپیٹ میں آگیا ہے۔

    بدلتے موسم نے شہریوں کی بڑی تعداد کو مختلف امراض میں جکڑ لیا ہے جس کے نتیجے میں شہر بھر کے اسپتال مریضوں سے بھر گئے اور ساتھ ہی تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں بھی شدید متاثر ہیں۔

    کیا یہ بات درست ہے کہ لاہور میں رہنے سے اسموگ کے باعث زندگی کے سات سال کم ہوسکتے ہیں؟ اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے گفتگو کرتے ہوئے ماہر ماحولیات نے بتایا کہ اسموگ دراصل ایک فضائی آلودگی ہے جو ہوا میں موجود مضر صحت گیسوں کے اخراج اور ہوا میں موجود مٹی کے ذرات کے ملاپ سے بنتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ اس میں بہت سارے پارٹیکلز ہوتے ہیں پی ایم 2.5 کے یہ ذرات اس قدر چھوٹے اور بال سے زیادہ باریک ہوتے ہیں کہ وہ سانس کے ذریعے جسم میں داخل ہو کر صحت کے مسائل پیدا کرتے ہیں۔

    ماہر موحولیات کا کہنا تھا کہ سردی کے موسم میں جب ہوا کی رفتار بہت کم ہوتی ہے تو اس سے دھواں اور دھند ایک جگہ ٹھہر جاتے ہیں جسے پارٹیکلز کہا جاتا ہے جو سانس کے ذریعے انسانی جسم میں باآسانی جگہ بنا لیتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں اسکولوں کو بند کرنے اور رات 8 بجے مارکیٹیں بند کرنے کی دو وجوہات ہیں پہلی یہ کہ ٹریفک کی کمی کی وجہ سے اسموگ کی شدت میں کمی آئی ہے، پہلے ایئر انڈیکس 2500 تک تھا جو اب کم ہوکر 300پر آگیا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اگر اسموگ کی یہی صورتحال رہی تو لاہور کے شہریوں کی زندگی سات سے آٹھ سال تک کم ہوسکتی ہے، اسموگ کے خاتمے کیلیے اگر 8 سے 10سال کا پلان ترتیب دیا جائے تو اسموگ سے چھٹکارا ممکن ہے لندن اور بیجنگ اس کی مثالیں ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میں ائیر کوالٹی انڈیکس 457 کی خطرناک حد کو جا پہنچا جس کی وجہ سے لاہور اس وقت آلودہ شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر ہے، محکمہ صحت کی جانب سے لاہور کے شہریوں کو ماحول دوست اقدامات پر سختی سے عملدرآمد کی ہدایات دی گئی ہیں۔

    اسموگ سے بچاﺅ کیسے ممکن ہے؟

    اسموگ پھیلنے پر متاثرہ حصوں پر جانے سے گریز کرنا چاہیے تاہم اگر وہ پورے شہر کو گھیرے ہوئے ہے تو گھر کے اندر رہنے کو ترجیح دیں اور کھڑکیاں دروازے بند رکھیں۔

    باہر گھومنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال لازمی کریں اور لینسز لگانے کے بجائے عینک کو ترجیح دیں اور ورزش سے بھی اجتناب کریں۔

    اس کے علاوہ سادہ پانی اور چائے زیادہ پئیں۔ سگریٹ نوشی سے ہر ممکن بلکہ مکمل طور پر گریز کرنا ہی بہتر ہے۔ باہر سے گھر واپسی یا دفتر پہنچنے پر اپنے ہاتھ، چہرے اور جسم کے کھلے حصوں کو دھولیں۔

  • پنجاب میں مارکیٹس اور تفریحی مقامات کب سے کھلیں گے؟ اعلان ہوگیا

    پنجاب میں مارکیٹس اور تفریحی مقامات کب سے کھلیں گے؟ اعلان ہوگیا

    لاہور: پنجاب میں اسموگ میں کمی کے باعث پابندیوں میں نرمی کرتے ہوئے صوبے بھر کے تفریحی مقامات کو کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔

    ڈی جی ماحولیات نے نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے مطابق تفریحی مقامات کو کل سے کھولنے کی اجازت ہوگی۔ ان مقامات میں پارکس، چڑیا گھر، پلے گراؤنڈ، آوٹ ڈور اسپورٹس شامل ہیں۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق تمام تفریحی مقامات رات 8 بجے تک کھلے رہیں گے جبکہ ہر قسم کے فیسٹیول اور نمائش کی بھی اجازت ہوگی۔

    لاہور، ملتان، فیصل آباد اور گوجرانوالہ میں مارکیٹس رات 8 بجے تک کھلے رکھنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق ہفتہ اور اتوار کو بھی مارکیٹیں رات 8 بجے بند ہوں گی، فارمیسز، تندور، ڈیپارٹمنل و گروسری اسٹورز سمیت بنیادی اشیائے ضروریہ کی دکانیں کھلی رہیں گی۔

    مزید بتایا گیا کہ بیکریوں کو بھی 8 بجے کے بعد کام کرنے کی اجازت ہوگی، فیصلے کا اطلاق دکانوں، شاپنگ مالز، مارکیٹس پر ہوگا۔

    تعلیمی اداروں سے متعلق اہم خبر آگئی

  • تعلیمی اداروں سے متعلق اہم خبر آگئی

    تعلیمی اداروں سے متعلق اہم خبر آگئی

    لاہور اور ملتان کے تعلیمی ادارے کل سے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق لاہور اور ملتان میں اسموگ کے باعث بند کیے جانے والے تعلیمی ادارے کل سے کھولے جائیں گے، تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ اسموگ میں کمی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔

    ڈی جی محکمہ ماحولیات نے نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا ہے۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق تعلیمی ادارے صبح پونے 9 بجے کھلیں گے، طلبہ اور اساتذہ کے لیے ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔

    یاد رہے پنجاب حکومت نے 17 نومبر سے 24 نومبر تک تعلیمی ادارے بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

    موسم سرما کے دوران وفاق کے تعلیمی اداروں کے اوقات کار تبدیل کردیئے گئے۔

    فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن نے نوٹیفکیشن جاری کردیا، جس میں کہا ہے کہ مارننگ شفٹ میں تمام اسکولز صبح ساڑھے 8 سے ڈھائی بجے تک کھلے رہیں گے۔

    جمعہ کے روز اسکولز ساڑھے  8بجے سے ساڑھے  12بجےتک کھلے رہیں گے جبکہ ایوننگ شفٹ میں اسکول دوپہر ڈیڑھ سے شام 6 بجے تک کُھلے رہیں گے۔

  • پنجاب حکومت  کا  اسموگ کے خاتمے کے پلان، لاہور ہائی کورٹ نے بھی تعریف کردی

    پنجاب حکومت کا اسموگ کے خاتمے کے پلان، لاہور ہائی کورٹ نے بھی تعریف کردی

    لاہور : لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے پنجاب حکومت کے اسموگ کے خاتمے کے پلان کی تعریف کرتے ہوئے کہا مستقل مزاجی سے یہ کام جاری رہا تو اس کے مثبت نتائج نکلیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے اسموگ کے تدارک کے لیے دائر درخواستوں پر سماعتوں کا حکم نامہ جاری کردیا۔

    جس میں لکھا ماحولیاتی آلودگی اوراسموگ کے خاتمے کیلئے پنجاب حکومت کا وافر بجٹ مختص کرنا قابل تعریف ہے، مستقل مزاجی سے یہ کام جاری رہا تو پنجاب پر دور رس مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

    حکم نامے میں کہنا تھا کہ لاہور سے صنعتوں کی منتقلی شروع کردی، لاہور کے اندر اور گردونواح میں صنعتوں اور ان کی منتقلی کا ڈیٹا حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

    حکم نامے میں انکشاف کیا جی ٹی روڈ، ملتان روڈ اور فیروز پور روڈ سے بھی صنعتوں کو دوسری جگہ منتقل کرنے کا پلان ہے۔ اگلے سال مارچ سے لاہور میں الیکٹرک بسیں چلائی جائیں گی، الیکٹرک بسوں سے ماحولیاتی آلودگی میں خاطرخواہ کمی ہوگی۔

    ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نےماحولیاتی بہتری کیلئے فوری، وسط اورطویل المدتی پالیسی میٹریل اورپالیسی ریکارڈپیش کردیا۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ ایسے عملی اقدامات شامل ہیں جو اس سے پہلے پنجاب میں کبھی نہیں ہوئے ، سیلاب سے بچاؤ کے لئے سالانہ ترقیاتی اسکیموں کی تفصیلات بھی پیش کی گئی ہیں ، آبی مسائل کے حل،زیر زمین پانی کی دستیابی، کاشت کاری کیلئےآبی فراہمی جیسے پہلوؤں پر توجہ دی گئی ہے۔

    عدالتی حکم نامے میں کہنا تھا کہ یوروفیول درجے کے ایندھن کی فراہمی کیلئے بھی اقدامات جاری ہیں ، پلان میں درختوں کی تعداد کی موجودگی اور ان میں اضافے کی تفصیلات بتائی گئی ہیں، شجر کاری کیلئے پنجاب میں نئی جگہوں کی نشاندہی کا عمل جاری ہے، دستیاب جگہوں پر شجر کاری کی جائے گی، درختوں کی تعداد میں اضافے سے ماحولیاتی بہتری میں مدد ملے گی۔

    عدالت نے کہا کہ پنجاب کے اضلاع کے گرد درختوں کا رِنگ بنانے کے منصوبے پر عمل کیاجارہا ہے، دریائے راوی کے ساتھ شاہدرہ تک علاقوں میں شجر کاری کی جائے گی۔

  • پنجاب بھر میں اسموگ میں کمی ،  تعلیمی ادارے کھل گئے

    پنجاب بھر میں اسموگ میں کمی ، تعلیمی ادارے کھل گئے

    لاہور : پنجاب میں اسموگ کی صورتحال میں بہتری کے بعد صوبے بھر میں تعلیمی ادارے کھل گئے۔

    تفصیلات کے مطابق پنجاب میں اسموگ میں کمی کے بعد لاہور اور ملتان کے سوا تمام اضلاع میں تعلیمی ادارے کھل گئے، اضلاع میں راولپنڈی، جہلم، اٹک اور چکوال شامل ہیں۔

    لاہور سمیت پنجاب بھر میں موسمی تبدیلی کے باعث ائیر کوالٹی انڈیکس کم ہو گیا، لاہور میں ائیر کوالٹی انڈس دو سو پینسٹھ کے قریب ریکارڈ کیا گیا۔

    لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں تیسرےنمبرپرچلاگیا جبکہ بھارتی دارالحکومت نئی دلی دنیا کا آلودہ ترین شہروں میں شر فہرست ہیں۔

    مزید پڑھیں : اسکول پونے 9 بجے سے پہلے نہیں کھلیں‌ گے، نوٹیفکیشن جاری

    گذشتہ روز سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ پنجاب میں اسموگ کی صورت حال بہتر ہونے پر تعلیمی ادارے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے، طلبا، اساتذہ اور اسٹاف حاضری یقینی بنائیں۔

    نوٹیفکیشن میں کہنا تھا کہ طالب علم، اساتذہ اور عملہ لازمی ماسک پہنیں گے تاہم آؤٹ ڈور اسپورٹس اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں پر پابندی رہے گی۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق جماعتوں کے لحاظ سے الگ الگ چھٹی کےاوقات ہونگے تاکہ ٹریفک کا اژدہام نہ ہو لیکن اسکول پونے 9 بجے سے پہلے نہیں کھیلیں گے۔

    یاد رہے پنجاب حکومت نے 17 نومبر سے 24 نومبر تک تعلیمی ادارے بند رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔