Tag: اسٹیفن ہاکنگ

  • شہرہ آفاق سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ انتقال کر گئے

    شہرہ آفاق سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ انتقال کر گئے

    مشہور برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ 76 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ وہ گزشتہ طویل عرصے سے معذوری کا شکار تھے۔

    شہرہ آفاق برطانوی سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ نے طبیعات کی بے شمار تھیوریز پیش کی تھیں۔ وہ اپنی نوجوانی میں ہی ایک نہایت نایاب مرض کا شکار ہوگئے تھے جس کے بعد ان کے جسم نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔

    مزید پڑھیں: خلاؤں میں خوش قسمتی ڈھونڈتا بدقسمت انسان

    اکیس برس کی عمر میں ان پر پہلی دفعہ’ایمیو ٹراپک لیٹیرل سکیلیروسز ‘ نامی مرض کا حملہ ہوا جس میں مریض کے تمام اعضا آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

    یہ صرف مریض ہی کے لیے نہیں اس کے عزیز و اقارب کے لیے بھی ایک انتہائی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے جس میں انسان سسکتے ہوئے بہت بے بسی سے موت کی طرف بڑھتا ہے۔ ڈاکٹرز کے اندازوں کے مطابق وہ صرف 2 برس اور جی سکتا تھا۔

    اس کے والدین نے گہری تشویش میں کیمبرج یونیورسٹی رابطہ کیا کہ آیا وہ اپنا پی ایچ ڈی مکمل کر سکے گا؟ تو یونیورسٹی کا جواب زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا مگر اس بالشت بھر کے انسان نے جس کی کل کائنات ایک ویل چیئر اور اس پر نصب چند کمپیوٹر سسٹمز اور ایک سکرین تھی نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

    مزید پڑھیں: کیا اسٹیفن ہاکنگ مر چکے ہیں؟

    ہاکنگ کو آئن اسٹائن کے بعد پچھلی صدی کا سب سے بڑا سائنس دان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کا مخصوص شعبہ بلیک ہولز اور تھیوریٹیکل کاسمولوجی (کونیات) ہے۔

    اسٹیفن کی کتاب ’وقت کی مختصر تاریخ‘ بریف ہسٹری آف ٹائم سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کیا اسٹیفن ہاکنگ مر چکے ہیں؟

    کیا اسٹیفن ہاکنگ مر چکے ہیں؟

    عصر حاضر کے مشہور سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ نے گزشتہ ہفتے اپنی 76 ویں سالگرہ منائی، تاہم کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ 30 سال قبل مر چکے ہیں۔۔ اور ان کی وہیل چیئر پر بیٹھا دنیا کو نئی نئی تحقیقات سے روشناس کرواتا شخص اسٹیفن ہاکنگ نہیں بلکہ ان کا کوئی ہم شکل ہے۔

    اس حیران کن اور متنازعہ خیال پر یقین رکھنے والے افراد کا ماننا ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ سنہ 1985 میں مر چکے ہیں تاہم ان کی موت عالمی خلائی ادارے ناسا کے لیے بہت بڑا نقصان تھی چنانچہ انہوں نے ہاکنگ کی موت کا اعلان کرنے کے بجائے ان کی جگہ ان کے ہم شکل کو پیش کردیا۔

    لوگوں کا ماننا ہے کہ وہیل چیئر پر بیٹھا شخص ہاکنگ کی طرح حیران کن ذہنی صلاحیتوں کا حامل نہیں بلکہ ایک عام شخص ہے جسے ’ناسا‘ کی طرف سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔

    اس نظریے کو ماننے والے افراد دلیل کے طور پر اسٹیفن ہاکنگ کے زیر استعمال ٹیکنالوجی اشیا کی مثال دیتے ہیں جن کی مدد سے ہاکنگ بولتے اور اپنے نظریات کو پیش کرتے ہیں۔

    ان کے مطابق اسٹیفن ہاکنگ کی وہیل چیئر اور چشمے سے منسلک مختلف اقسام کی مشینیں اور سینسر، جو ان کی آنکھ کے اشارے اور تھوڑی کی حرکت سے وہ سب کمپیوٹر کی اسکرین پر پیش کردیتے ہیں جو اسٹیفن ہاکنگ سوچ رہے ہوتے ہیں اور بولنا چاہتے ہیں، دراصل پس پردہ ناسا کے چند ماہرین کی جانب سے پیش کیا جارہا ہوتا ہے جو کسی وجہ سے سامنے نہیں آنا چاہتے اور اپنے نظریات کو ہاکنگ سے منسوب کردیتے ہیں۔

    اس خیال کو ماننے والے افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہاکنگ کی لکھی گئی شہرہ آفاق کتاب ’آ بریف ہسٹری آف ٹائم‘ جو بگ بینک اور بلیک ہول جیسے کائنات کے عظیم رازوں سے پردہ اٹھاتی ہے، یہ بھی ناسا کی ٹیم کی جانب سے تحریر کردہ ہے جسے ہاکنگ کے نام کیا گیا ہے۔

    لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ناسا یہ سب کیوں کرے گا؟

    اس کا جواب بھی انہی لوگوں کی زبانی سنیں۔ اس نظریے کو ماننے والوں کا کہنا ہے کہ ناسا یہ کام اس لیے کرتا ہے تاکہ وہ اپنی تحقیقات اور دریافتوں کو دنیا کے سامنے قابل قبول بنا سکے کہ یہ عصر حاضر کے ذہین ترین سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کے پیش کردہ ہیں۔

    تاہم وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر اس نظریے کو درست مانا جا سکتا ہے؟

    ماہرین کے مطابق اسٹیفن ہاکنگ کو لاحق مرض اے ایل ایس میں مبتلا ہونے والے افراد اس مرض کی تشخیص کے بعد زیادہ سے زیادہ صرف 5 برس تک جی پاتے ہیں، تاہم ہاکنگ نے میڈیکل سائنس کے دعووں کی نفی کرتے ہوئے اس مرض کے ساتھ 55 برس گزار دیے۔

    تاہم یونیورسٹی آف پنسلوینیا کے اے ایل ایس سینٹر کے میڈیکل ڈائریکٹر لیو مک کلسکی کا کہنا ہے کہ مرض کی یہ علامت مستقل نہیں۔

    ان کے مطابق کئی افراد اس مرض میں مبتلا ہونے کے بعد فوراً موت کا شکار ہوجاتے ہیں، جبکہ کچھ اس مرض کے ساتھ طویل زندگی بھی جی لیتے ہیں۔ گویا یہ بات حتمی نہیں کہ اس مرض کا شکار ہونے والے افراد کو بہت جلد مرنا ہی ہوگا۔

    انہوں نے یہ بھی وضاحت کی کہ اگر اس مرض میں مبتلا افراد کا خصوصی خیال رکھا جائے اور ان میں وقتاً فوقتاً ظاہر ہونے والے مسائل کا فوری طور پر علاج کرلیا جائے تو مریض ایک لمبی زندگی جی سکتا ہے۔

    یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ کی نوجوانی کی تصویر اور موجودہ تصاویر کو دیکھا جائے تو ان میں نہایت معمولی سا فرق نظر آتا ہے، گویا شدید بیماری اور گزرے ماہ و سال نے ہاکنگ کا کچھ نہیں بگاڑا اور وہ ویسے ہی جوان رہے۔

    کچھ افراد ان کی پرانی اور موجودہ تصاویر میں بالوں کی رنگت میں بھی فرق قرار دیتے ہیں۔

    اس نظریے کے ماننے والے افراد کا کہنا ہے کہ وہیل چیئر پر گزشتہ 30 سالوں بیٹھا شخص ایک بالکل صحت مند اور عام انسان ہے جو ایک طویل عرصے سے اسٹیفن ہاکنگ بن کر مفلوج ہونے کا ڈرامہ کر رہا ہے۔


    کیا آپ کے خیال میں ’نقلی‘ اسٹیفن ہاکنگ کے نظریات درست ہیں؟ کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔

  • قیامت کے آنے میں صرف 100 سال باقی؟

    قیامت کے آنے میں صرف 100 سال باقی؟

    یوں تو انسان نے بے تحاشہ ترقی کر کے زمین و آسمان کو مسخر کرلیا ہے۔ بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیاں، گہرے سمندر، فضائیں، حتیٰ کہ آسمانوں کی وسعت کو چیر کر خلا تک بھی جا پہنچا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی سائنسی ترقی ہی کی سبب ہم خود بھی بے شمار خطرات کا شکار ہوگئے ہیں۔

    عصر حاضر کے مشہور اور ذہین ترین سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ نے دعویٰ کیا ہے کہ انسان اب اس زمین پر صرف اگلے 100 برس تک رہ سکیں گے۔

    اس کے بعد قوی امکان ہے کہ وہ وقت آجائے جسے مختلف مذاہب میں روز قیامت کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    hawking-2

    انہوں نے کہا ہے کہ اگر انسان زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ وہ 100 سال مکمل ہونے سے قبل زمین کو چھوڑ کر کوئی اور سیارہ ڈھونڈ لیں جہاں وہ رہائش اختیارکرسکتے ہوں۔

    یہ پہلی بار نہیں ہے کہ ہاکنگ نے زمین کے اختتام کے بارے میں پیشن گوئی ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں بھی وہ کہہ چکے تھے کہ زمین کے خاتمے میں صرف 1 ہزار سال رہ گئے ہیں۔

    تاہم اب 6 مہینے بعد زمین کے خاتمے کی مدت میں 900 سال کا فرق اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسانوں کی سائنسی ترقی نے زمین پر اس قدر تباہ کن اثرات مرتب کیے کہ یکلخت اس کی عمر 900 سال کم ہوگئی۔

    earth

    اسٹیفن ہاکنگ اس کی وجہ کلائمٹ چینج، مختلف وبائی امراض کا پھیلاؤ، آبادی میں بے تحاشہ اضافہ، دنیا کے مختلف حصوں میں کیمیائی حملے، مستقبل قریب میں ہونے والی ایٹمی جنگوں، اور خلا سے آنے والے سیارچوں یا بڑی جسامت کے شہاب ثاقب کا زمین سے ممکنہ ٹکراؤ قرار دیتے ہیں۔

    ان کے خیال میں اس روز حشر کو برپا کرنے میں مصنوعی ذہانت بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

    یعنی وہ تمام روبوٹس اور خود کار مشینیں جنہیں انسانوں نے ہی تخلیق کیا، ہاکنگ کے مطابق کسی دن انسانوں کے قابو سے باہر نکل سکتی ہیں اور اس کے بعد ہماری زمین کا وہی حال ہوگا جو کسی ہالی ووڈ سائنس فکشن فلم میں دیوہیکل روبوٹس کے ہاتھوں ہوتا ہے۔

    hawking-3

    ہاکنگ کے خیال میں اس روز محشر سے بچنے کا (جسے انسان خود دعوت دے کر بلا رہا ہے) ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ہم زمین کو چھوڑ کر کسی اور سیارے پر رہائش اختیار کرلیں۔

    اسٹیفن ہاکنگ اس سے قبل سائنسدانوں کو خلائی مخلوق سے رابطہ نہ کرنے کی ہدایت بھی کرچکے ہیں۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب

    اس بارے میں ان کا کہنا ہے کہ خلا میں اپنی موجودگی کے ثبوت بھیجنے سے گریز نہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ ہم زمین کے لیے ایک عظیم تباہی کو دعوت دے ڈالیں۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب

    خلائی مخلوق کو بلانا خطرناک اور زمین کی تباہی کا سبب

    چین کی جانب سے بنائی جانے والی دنیا کی سب سے بڑی دوربین نے حال ہی میں ستاروں، کہکشاؤں اور خلا کے پوشیدہ رازوں کے سگنل کی تلاش کا کام شروع کر دیا ہے۔

    اٹھارہ کروڑ ڈالر کی خطیر رقم اور 5 سال کی مدت میں تیار ہونے والے اس منصوبے سے خلا میں پوشیدہ رازوں کو بہتر طریقے سے جاننے میں مدد ملے گی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس دوربین کی مدد سے خلائی مخلوق کے بارے میں بھی تحقیق کی جاسکے گی۔

    لیکن کیا خلائی مخلوق کو اپنی موجودگی سے آگاہ کرنا یا انہیں زمین پر آنے کی دعوت دینا درست ہے؟

    دور جدید کے مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ اسے ایک خطرناک عمل قرار دیتے ہوئے اس سے گریز کرنے کی ہدایت دیتے ہیں۔

    seti-2
    اسٹیفن ہاکنگ

    وہ بہت پہلے تنبیہہ کر چکے ہیں کہ خلا میں اپنی موجودگی کے ثبوت بھیجنے سے گریز کیا جائے ورنہ ہم زمین کے لیے ایک عظیم تباہی کو دعوت دے سکتے ہیں، ’اس معاملے میں بہت احتیاط کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ خلا کی نامعلوم دنیا میں کس قسم کی مخلوق بستی ہے۔ آپ خلا میں اپنے سگنلز بھیج کر اس انجان مخلوق کو یہ بتا رہے ہیں کہ ہم یہاں ہیں‘۔

    وہ کہتے ہیں، ’ہوسکتا ہے، عین ممکن ہے کہ ان مخلوقات کی 99 فیصد آبادی امن پسند ہو، وہ شاعری، ادب اور آرٹ جیسی چیزوں کو پسند کرتی ہو۔ لیکن قوی امکان ہے کہ ان میں کم از کم 1 فیصد ایسے نہ ہوں۔ وہ 1 فیصد آبادی تخریب کارانہ جذبات رکھتی ہو۔ ہوسکتا ہے وہ ہماری موجودگی سے آگاہ ہو کر ہمیں تباہ کرنے کی کوشش کریں۔ ہر صورت میں یہ ایک خطرناک عمل ہے‘۔

    مزید پڑھیں: خلائی مخلوق 2025 میں منظرعام پر آجائے گی، ناسا کی پیش گوئی

    واضح رہے کہ اسٹیفن ہاکنگ کو صدی کا، آئن اسٹائن کے بعد دوسرا بڑا سائنسدان قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی زیادہ تر تحقیق کائنات اور بلیک ہولز کے شعبہ پر مشتمل ہے۔ ان کی ایک کتاب ’وقت کی مختصر تاریخ‘ ایک شہرہ آفاق کتاب ہے جو ماہرین، سائنسدانوں اور عام افراد کے لیے یکساں دلچسپی رکھتی ہے۔

    ہاکنگ کا ماننا ہے کہ خلائی مخلوق کی تلاش میں کامیاب ہونا نسل انسانی کی تباہی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

    تاہم سیٹ شوسٹک کو اس خیال سے اختلاف ہے۔ شوسٹک ایک امریکی خلا باز ہیں اور فی الحال امریکا کے سیٹی انسٹیٹیوٹ میں پروفیسر کی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

    seti-1
    سیٹ شوسٹک

    امریکا کا سیٹی انسٹیٹیوٹ (سرچ فار ایکسٹرا ٹیرسٹریل انٹیلی جنس) غیر معمولی ذہانت (دماغوں) کی تلاش کا انسٹیٹیوٹ ہے اور اس کا کام ہی خلا سے باہر کسی دوسرے سیارے کی مخلوقات کو کھوجنا ہے۔

    اس کا ایلین ٹیلی اسکوپ خلا کی وسعتوں میں خلائی مخلوق کے سگنلز تلاش کرنے میں سرگرداں ہے۔

    seti-4
    ایلین ٹیلی اسکوپ

    شوسٹک کا کہنا ہے کہ ہم پچھلے 70 برس سے خلا میں اپنے سگنلز بھیج رہے ہیں۔ ’ہم ریڈیو بنا چکے ہیں، ہم ٹی وی تخلیق کرچکے ہیں جن کے اینٹینوں اور سگنلز کی برقی لہریں آسمانوں کی وسعت میں جارہی ہے۔ سب سے بڑی بات ہمارے پاس ریڈار ہے جو ہزاروں میل دور سفر کرنے والے جہاز کی صحیح سمت بتا سکتا ہے‘۔

    وہ کہتے ہیں، ’ہم مانتے ہیں کہ یہ کوئی بہت عظیم تخلیقات نہیں ہیں۔ لیکن اگر کائنات میں ہمارے علاوہ بھی کوئی مخلوق ہے، اور ہماری طرح وہ بھی دوسری دنیاؤں کی مخلوق سے رابطہ قائم کرنا چاہتی ہے تو اس کے لیے ان سنگلز کو پکڑنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔ وہ بآسانی ان سنگلز کو کیچ کر کے ہم سے رابطہ کر سکتے ہیں لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا‘۔

    مزید پڑھیں: امریکی سائنسدانوں کا خلائی مخلوق سے ازخود رابطہ کرنے کا فیصلہ

    شوسٹک کے مطابق ’اس کے دو ہی مطلب ہیں۔ یا تو کائنات میں ہمارے علاوہ اور کوئی موجود ہے ہی نہیں اور ہم اس عظیم اور وسیع کائنات میں اکیلے ہیں، یا اگر کوئی ہے بھی، تو وہ یقیناً اتنا ترقی یافتہ نہیں کہ ہمارے بھیجے گئے سگنلز کو پکڑ سکے‘۔

    زمین سے باہر کی دنیا انسانوں کے لیے ہمیشہ سے پراسرار اور دلچسپی کا باعث رہی ہے اور سائنسدان ہمیشہ سے دوسرے سیاروں پر زندگی تلاش کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔

    حال ہی میں ناسا نے امکان ظاہر کیا ہے کہ نظام شمسی کے پانچویں سیارے مشتری کے 67 چاندوں میں سے ایک برفیلے چاند یوروپا کے نیچے ایک سمندر ہوسکتا ہے جس کے بعد اس سیارے پر خلائی مخلوق کی موجودگی کا بھی امکان ہے۔


     

  • ہالی ووڈ کے 8 لازوال تاریخی کردار

    ہالی ووڈ کے 8 لازوال تاریخی کردار

    ہالی ووڈ، بالی ووڈ اور دنیا کی تمام فلم انڈسٹریز میں تاریخی شخصیات اور موضوعات پر فلم بنانے کا رجحان بہت پرانا ہے۔ اب تک متنازعہ موضوعات سمیت کئی تاریخی واقعات کو فلم کی شکل میں ڈھالا جا چکا ہے۔

    ان فلموں میں بعض دفعہ حقائق کو بالکل صحیح انداز میں پیش کیا جاتا ہے جس کے باعث وہ فلم ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کرجاتی ہے۔ بعض دفعہ فلم میں تاریخی غلطیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ بعض اوقات کسی تاریخی واقعہ کو صرف بنیاد بناتے ہوئے فکشن فلم بنادی جاتی ہے۔ بہرحال فلم کا موضوع اور فلم بندی ہی اس کی کامیابی یا ناکامی کا تعین کرتی ہے۔

    تاریخی فلموں میں کرداروں کی بھی اہم حیثیت ہوتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ جن تاریخی شخصیات کو پیش کیا جارہا ہو ان کی صحیح مشابہت رکھنے والے اداکاروں کو ہی فلم کا حصہ بنایا جائے۔ بعض دفعہ مجموعی طور پر فلم ناکام ہوجاتی ہے مگر اس کے کرداروں کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔

    یہاں ہم ہالی ووڈ کے کچھ ایسے ہی کرداروں کا ذکر کر رہے ہیں جو بہترین طریقہ سے ادا کیے گئے اور ناقدین نے بھی انہیں پسند کیا۔ کردار ادا کرنے والوں نے اس میں حقیقت کا رنگ بھر دیا۔

    :قلوپطرہ

    ch-8

    سنہ 1963 میں بننے والی فلم ’قلوپطرہ‘ مصر کی حسین اور ذہین شہزادی پر بنائی گئی۔ فلم میں مرکزی کردار الزبتھ ٹیلر نے ادا کیا۔ قلوپطرہ کے بارے میں کوئی مصدقہ تصاویر موجود نہیں ہیں۔ بعض محققین کے مطابق قلوپطرہ سیاہ فام تھی، لیکن یہ الزبتھ ٹیلر کی جادوئی اور سحر انگیز اداکاری کا کمال تھا کہ اس کے بعد جب بھی قلوپطرہ کا ذکر ہوا، ذہن میں الزبتھ ٹیلر کی تصویر ابھر آئی۔

    :کرسٹین کولنز

    ch-7

    امریکا میں 1920 کی دہائی میں کرسٹین کولنز نامی ایک خاتون اس وقت سب کی توجہ کا مرکز بن گئی جب اس نے اپنے 9 سالہ گمشدہ بیٹے کو ڈھونڈنا شروع کیا، اور بیٹے کی بازیابی پر اسے اپنانے سے انکار کردیا۔ بعد ازاں انکشاف ہوا کہ اس کے بیٹے کو قتل کردیا گیا تھا اور خود کو اس کا بیٹا ظاہر کرنے والا شخص کوئی اور تھا۔

    اس خاتون پر 2008 میں ’چیلنجنگ‘ نامی فلم بنائی گئی جس میں کرسٹین کا کردار انجلینا جولی نے نہایت شاندار طریقہ سے ادا کیا۔ انجلینا جولی کو اس کردار پر اکیڈمی ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا

    :آڈرے ہپ برن

    ch-6

    مشہور ہالی ووڈ فلم ’رومن ہالی ڈے‘ سے لازوال شہرت پانے والی اداکارہ آڈرے ہپ برن کی زندگی پر 2000 میں ایک ٹیلی فلم بنائی گئی جس میں جینیفر لو ہیوٹ نے مرکزی کردار ادا کیا۔

    :اسٹیفن ہاکنگ

    ch-5

    عصر حاضر کے مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ پر 2014 بننے والی فلم ’دا تھیوری آف ایوری تھنگ‘ میں مرکزی کردار ایڈی ریڈمن نے بخوبی ادا کیا۔

    :جارج ششم

    ch-4

    برطانیہ کے کنگ جارج ششم پر 2000 میں بنائی جانے والی دستاویزی فلم ’دا کنگز اسپیچ‘ میں مرکزی کردار کولن فرتھ نے ادا کیا۔

    :ایڈگر ایلن پو

    ch-3

    مشہور امریکی مصنف ایڈگر ایلن پو پر 2012 میں اس کے تخلیقی مجموعہ ’دا ریوین‘ کے نام پر فلم بنائی گئی۔ فلم میں ایڈگر کا کردار جان کیوسک نے ادا کیا۔

    :ایلوس پریسلے

    ch-2

    مشہور امریکی گلوکار ایلوس پریسلے پر 2005 میں ٹیلی فلم بنائی گئی جس میں مرکزی کردار جوناتھن میئرز نے ادا کیا۔

    :ونسٹن چرچل

    ch-1

    سنہ 2000 میں بنائی جانے والی فلم ’دا کنگز اسپیچ‘ میں مختلف تاریخی کرداروں کو دکھایا گیا ہے جس میں ایک کردار سابق برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کا بھی ہے۔ یہ کردار ٹموتھی اسپل نے ادا کیا۔