کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ 11 ماہ میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 ارب 94 کروڑ ڈالر رہ گیا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق 11 ماہ میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 2 ارب 94کروڑ ڈالر رہ گیا، گزشتہ مالی سال کے 11 ماہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 15 ارب 16 کروڑ ڈالر تھا۔
اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق مئی میں کرنٹ اکاونٹ 25 کروڑ 50 لاکھ ڈالر سرپلس رہا، سرپلس ہونے کی بڑی وجہ درآمدات میں کمی اور برآمدات میں اضافہ ہے۔
11 ماہ میں برآمدات میں 25 ارب 79 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی ہوئیں جبکہ درآمدات 48 ارب 96 کروڑ ڈالر کی ہوئیں، پچھلے مالی سال میں درآمدات 64 ارب تھیں۔
11 ماہ میں تجارتی خسارہ 23 ارب 16 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا ہوا، ترسیلات زر کی مد میں 24 ارب 83 کروڑ 20 لاکھ ڈالر موصول ہوئے، گزشتہ مالی سال ترسیلات زر 28 ارب 48 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھیں۔
کراچی: قومی بینک دولت پاکستان (ایس بی پی) کے مطابق ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں ایک ہفتے کے دوران بیس لاکھ ڈالرز کا اضافہ ہوا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی جانب سے زرمبادلہ کے ذخائر کی ہفتہ وار رپورٹ جاری کی گئی، جس میں گیارہ جون تک کے اعداد و شمار شامل کیے گئے ہیں۔
ایس بی پی ترجمان کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مرکزی بینک کے ذخائر میں 20 لاکھ ڈالرز کا اضافہ ہوا۔ ترجمان کے مطابق حالیہ اضافے کے بعد مرکزی بینک کے ذخائر کی مالیت 16 ارب 41 کروڑ 73 لاکھ ڈالرز تک پہنچ گئی۔
اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ گیارہ جون تک پاکستان کے تمام کمرشل بینکوں کے ذخائر میں 62 لاکھ ڈالرز کا اضافہ ہوا، اضافے کے بعد ذخائر 7 ارب 16 کروڑ 92 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئے۔
ترجمان ایس بی پی کے مطابق مرکزی بینک اور کمرشل بینکوں کے ذخائر کو ملا پر ملک کے مجموعی ذخائر 23 ارب 58 کروڑ 65 لاکھ ڈالرز تک پہنچ گئے۔
کراچی : اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ فوری کوششوں کےبعدمعیشت کورونا آمد کے موقع پر مستحکم ہوچکی ہے، کورونا کے باوجود زرمبادلہ ذخائر میں7ارب ڈالر اضافہ ہوا۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک نے مالی سال 19-2020 پر سالانہ معاشی رپورٹ جاری کردی ، جس میں بتایا کہ پہلے 9 ماہ کےدوران استحکام رہا، فوری کوششوں کے بعد معیشت کورونا آمد کے موقع پر مستحکم ہوچکی ہے، فروری 2020 تک معاشی پالیسیوں کے توازن ادائیگی خساروں میں نمایاں کمی ہوئی اور زرعی شعبہ اور موسمی عوامل کے باعث مہنگائی میں اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ وباکےپھیلنے،لاک ڈاؤن سےمعاشی بحالی،ترقی کے مرحلے میں تعطل آیا، پاکستان میں وبا کے پھیلاؤ کو محدود کرنے میں واضح کامیاب ہوئے، اشیا سازی، ٹرانسپورٹ اور خرید و فروخت سے متعلق سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔
اسٹیٹ بینک نے کہا کہ پاکستان کی ڈی پی تخمینےکےمطابق مالی سال2020میں0.4 فیصدکمی ہوئی ، وبا میں کاروباری اداروں، گھرانوں کو پالیسی تعاون فراہم کیا گیا تاہم نجی شعبے کے لیے نقل وحرکت کی پابندیوں اور رسد کا تعطل آیا۔
جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سماجی بھلائی کے جاری پروگرامز کے حجم، رسائی میں اضافہ کیا، اب تک 14.8 ملین سے زائد گھرانوں کو نقد رقوم دی گئیں، پہلی باراسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے کئی ہنگامی اجلاس کیے، تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال کا جائزہ لیا جاتا رہا۔
مرکزی بینک نے بتایا کہ 3ماہ کےعرصےمیں پالیسی ریٹ625بیسزپوائنٹس تک کم کیاگیا، ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے ری فنانس سہولت دی گئی، اسپتالوں کے لیے رعایتی ری فنانس سہولت دی گئی۔
جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسٹیٹ بینک کےزرمبادلہ کےذخائرمیں اضافہ دیکھاگیا،ج کوروناکےباوجودمالی سال کےدوران تقریباً7 ارب ڈالر بڑھ گئے۔
مالی سال 20 میں سرکاری قرض میں اضافہ اور جی ڈی پی کے1.1 فیصد تک محدود رہا جبکہ اوسط مہنگائی10.7 فیصد تھی جو پچھلے سال سے زیادہ تھی۔
اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2021 کے اختتام کی بھی پیش گوئی کرتے ہوئے کہا مالی سال 2021 میں معاشی ترقی 1.5 فیصد سے 2.5 فیصد رہنے کی توقع ہے جبکہ 2021 کے اختتام پر مہنگائی کی شرح 9 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
کراچی : پاکستان میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم ایک سو اکاون فیصد اضافے سے اکتیس کروڑ چوہتر لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا، سب سے زیادہ 22 کروڑ 77 لاکھ ڈالر کی براہ راست سرمایہ کاری چین سے آئی۔
تفصیلات کے مطابق حکومتی پالیسیز اور بہتر معاشی اشاریے کے باعث پاکستان پر غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونے لگا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ اکتوبر کے مہینے میں ملک میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں گزشتہ سال کے مقابلے ایک سو اکیاون فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔
جس کے بعد اکتوبر 2020 میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم اکتیس کروڑ چوہتر لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا جو گزشتہ سال اکتوبر میں بارہ کروڑ پینسٹھ لاکھ ڈالر تھا، اکتوبر میں چین کی جانب سے بائیس کروڑ ستاسی لاکھ ڈالر کی سب سے زیادہ براہ راست سرمایہ کاری کی گئی۔
مرکزی بینک کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں نو فیصد اضافہ ہوا، جولائی سے اکتوبر تک براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری تہتر کروڑ اکتیس لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی۔
رواں مالی سال کے ابتدائی چار ماہ میں مجموعی غیرملکی سرمایہ کاری کا حجم بیالیس کروڑ پچپن لاکھ ڈالر رہا، اس دوران پورٹ فولیو انویسٹمنٹ سے چودہ کروڑ چھپن لاکھ ڈالر آئوٹ فلوریکارڈ کیا گیا۔
کراچی : اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی پر چار مقامی بینکوں پر 27 کروڑ روپے سے زائد جرمانہ عائد کردیا۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک نے 4 بینکوں پرقوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ عائد کردیا ، چار نجی بینکوں پر27 کروڑ سے زائد کے جرمانے عائد کئے گئے۔
اسٹیٹ بینک نےکہا کہ جرمانے بینکنگ قوانین اور اینٹی منی لانڈرنگ کی خلاف ورزی پر عائد کئے گئے، بینکوں کوجرمانے صارفین کی درست معلومات نہ رکھنے پربھی کئےگئے۔
اسٹیٹ بینک کے اعلامیے کے مطابق جولائی ستمبر کے دوران صارفین کی شناخت اور جنرل بینکنگ آپریشنز سمیت دیگر معاملات میں قوائد کی خلاف ورزی پر جرمانے عائد کئے گئے، سب سے زیادہ گیارہ کروڑ باسٹھ لاکھ روپے جرمانہ نجی اسلامی بینک پر عائد کیا گیا۔
یاد رہے رواں سال جولائی میں اسٹیٹ بینک نے قوانین کی خلاف ورزی پر تاریخ میں پہلی بار 15 کمرشل بینکوں پر بھاری جرمانے عائد کئے تھے۔
مرکزی بینک کا کہنا تھا کہ جرمانے اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ سے متعلق بھی کیے گئے، 15 بینکوں پر قوانین کی خلاف ورزی پر 1 ارب 68 کروڑ روپے کے بھاری جرمانے کیے، بینکوں پر مارچ سے جون 2020 کے دوران جرمانے کئے گئے ہیں۔
کراچی : جولائی2020 براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 11کروڑ 43لاکھ ڈالرزتک پہنچ گیا، غیرملکی سرمایہ کاری مشینری،فنانشل بزنس، کمیونیکیشن سیکٹرمیں آئی۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ جولائی 2020 میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 60.8 فیصد اضافہ ہوا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم 11کروڑ 43لاکھ ڈالرز تک پہنچ گیا۔
اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ چین نے سب سے زیادہ 2کروڑ 71 لاکھ ڈالر سرمایہ کاری کی ، غیرملکی سرمایہ کاری مشینری، فنانشل بزنس اور کمیونیکیشن سیکٹر میں آئی۔
مرکزی بینک کے مطابق جولائی 2020 میں 10.72 کروڑ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی ہے، ملکی نجی شعبے میں 4.11 کروڑ ڈالر اور سرکاری شعبے میں 6.61 کروڑ ڈالر کی بیرونی سرمایہ کاری ہوئی، نجی شعبے میں بیرونی براہ راست سرمایہ کاری کا حجم 11.43 کروڑ ڈالر رہا۔
اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ سے جولائی میں 7.32 لاکھ ڈالر نکالے گئے ہیں جبکہ جولائی 2019 کے مقابلے رواں سال جولائی میں بیرونی سرمایہ کاری 2.2 فیصد بڑھی ہے۔
یاد رہے مالی سال 20-2019 میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 88 فیصد اضافہ ہوا تھا ، اسٹیٹ بینک کے مطابق جولائی تا اپریل غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری کا حجم 2 ارب 28 کروڑ ڈالر رہا، گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں یہ حجم صرف 1 ارب ڈالر تھا۔
فیصل آباد: گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان رضا باقر نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ میں بہتری آ رہی ہے، ملک میں موجودہ شرح سود 13.25 فیصد ہے۔
تفصیلات کے مطابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان رضا باقر نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ میں بہتری آرہی ہے، برآمد کنندگان سے تعاون اسٹیٹ بینک کی اولین ترجیح ہے۔
رضا باقر نے کہا کہ ملک میں شرح سود کم کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہے، لوگوں کو ڈالر ریٹ بڑھنے کے بارے میں خدشات تھے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں موجودہ شرح سود 13.25 فیصد ہے، ماضی میں شرح سود 17 سے 18 فیصد تک رہی ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال اکتوبر میں گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے غیرملکی جریدے کو انٹرویو میں کہا تھا کہ معاشی سست روی اور افراط زر میں کمی کے درمیان استحکام پیدا کرنا ہوگا۔
رضا باقر کا کہنا تھا کہ شرح سود کو فی الوقت موجودہ سطح پر برقرار رکھا جاسکتا ہے، افراط زر میں اتنی تبدیلی نہیں آئی کہ شرح سود میں کمی کی جائے۔
گورنر اسٹیٹ بینک کا کہنا تھا کہ آئندہ چند ماہ میں افراط زر کی شرح میں کمی متوقع ہے، روپے کی قدر میں کمی مارکیٹ فورسز کے مطابق کی گئی ہے، آئی ایم ایف کے سائیکل سے بچنے کے لیے شرح بچت میں اضافہ کرنا ہوگا۔
کراچی : میاں منشا کے بینک کو ریگولیٹری قواعد ضوابط پورے نہ کرنے پر جرمانہ عائد کر دیا گیا، ایم سی بی اسلامک بینک پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے جرمانہ عائد کیا۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان نےمیاں منشا کے بینک ایم سی بی اسلامک بینک پر ایک کروڑانتیس لاکھ روپےکاجرمانہ عائد کردیا ، یہ جرمانہ نان کمپلائینس اور ریگولیٹری ضروریات پوری نہ کرنے پر عائد کیا گیا۔
اسٹیٹ بینک نے مجموعی طور پر تین بینکوں پر تیرہ کروڑ تیس لاکھ روپے کا جرمانہ کیا ہے جبکہ میاں منشا کے بینک پر رواں مالی سال میں دوسری بار جرمانہ عائد ہوا ہے۔
اس سے پہلے جولائی میں بھی اینٹی منی لانڈرنگ، صارفین کی معلومات اور فارن ایکسچینج کےقانون پرعمل درآمد نہ کرنے پر جرمانے کئے گئے تھے، ایم سی بی بینک پرپندرہ کروڑروپےسےزائد کاجرمانہ کیا گیا تھا۔
یاد رہے اسٹیٹ بینک نے رواں سال اب تک مختلف بینکوں پر 21 لاکھ ڈالر سے زائد جرمانے عائد کئے، ان میں دس کمرشل اور مائیکرو فنانس بینک شامل ہیں۔
ذرائع نے بتایا تھا کہ ان بینکوں پر شیڈول فور میں شامل زیر نگرانی افراد اور ان سے منسلک لوگوں کے کھاتے کھولنے پر جرمانے لگائے گئے، ان بینکوں پر یہ الزام بھی تھا کہ انہوں نے مشکوک افراد کے پہلے سے موجود اکاﺅنٹس بھی منجمد نہیں کئے۔
گزشتہ سال 8 بینکوں پر 34لاکھ ڈالر کے جرمانے عائد کئے گئے تھے۔
خیال رہے ذرائع کے مطابق ملک میں دہشت گرد عناصر کی مالی معاونت روکنے کے لئے اقدامات جاری ہیں، حکومت دہشت گردوں کی مالی معاونت کا راستہ روکنے کے لئے سرگرم عمل ہے۔مرکزی بینک کیطرف سے مشکوک افراد کی مالی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے۔
کراچی: اسٹیٹ بینک کی جانب سے رواں مالی سال کی پہلی مانیٹری پالیسی کااعلان کردیا ہے، شرح سود میں ایک فیصد کااضافہ کیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کااجلاس کے بعد گورنراسٹیٹ بینک ڈاکٹررضا باقر نے پریس کانفرنس میں آئندہ دو ماہ کے لیے شرح سود میں ایک فیصد اضافے کا اعلان کیا۔
گورنراسٹیٹ بینک کی جانب سے مانیٹری پالیسی کے اعلان کے بعد بنیادی شرح سود13اعشاریہ25فیصدہوگئی ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر کے مطابق مہنگائی میں اضافےاورروپےکی قدرمیں کمی کےباعث شرح سود میں اضافے کافیصلہ کیاگیا، اس فیصلےمیں گیس اوربجلی کی قیمتوں میں اضافے کوبھی مدنظررکھاگیا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طلب میں کمی کےباعث مہنگائی میں کمی آتی ہے، طلب میں کمی کارحجان دیکھاجارہاہے،ٹیکس کےاطلاق کےباعث قوت خریدمیں بھی کمی دیکھی گئی ہے۔
انہوں نے رواں سال کیلئےافراط زرکی شرح11سے12فیصدتک رہنےکی پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ افراط زرکی پیشن گوئی گزشتہ سال کی نسبت زیادہ ہے، آئندہ مال سال میں توقع ہے کہ مہنگائی میں کمی آئےگی۔
شرح سود آج سے قبل بارہ اعشاریہ دوپانچ فیصد تھی جو آٹھ سال کی بلند ترین سطح ہے۔ مئی دوہزار اٹھارہ سےاب تک شرح سود میں مسلسل اضافےکارجحان دیکھا جارہاہے۔ مئی سےاب تک شرح سود میں پانچ اعشاریہ سات پانچ فیصدکااضافہ کیا جاچکا ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال مئی میں اسٹیٹ بینک نے گزشتہ مالی سال کی آخری مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اگلے دو ماہ کے لیے سود کی شرح میں اضافے کافیصلہ کیا تھا۔ مرکزی بینک کی شرح سود میں 150 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا، اسٹیٹ بینک اعلامیے کے مطابق بنیادی شرح سود 12.25 فی صد ہو گئی تھی ۔
اسٹیٹ بینک نے اس موقع پر کہا تھا کہ گزشتہ مانیٹری پالیسی کے بعد 3 نمایاں تبدیلیاں ہوئی ہیں، حکومت نے آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر فنڈ سہولت پر اتفاق کیا، اس پروگرام کا مقصد معاشی استحکام بحال کرنا ہے۔
آج پاکستان کے مرکزی بینک ’اسٹیٹ بینک آف پاکستان‘ کی سالگرہ ہے، یکم جولائی 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اس کا افتتاح کیا تھا۔
بینک دولت پاکستان یا اسٹیٹ بینک آف پاکستان پاکستان کا مرکزی بینک ہے۔ اس کا قیام 1948ء میں عمل میں آیا اوراس کے صدر دفاتر کراچی اور اسلام آباد میں قائم ہیں۔
اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب میں قائد اعظم اورفاطمہ جناح
پاکستان کی آزادی سے پہلے ریزرو بینک آف انڈیا اس علاقے کا مرکزی بینک تھا۔ پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد یہی بینک ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک کا مرکزی بینک تھا۔ یکم جولائی 1948 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرکے ریزرو بینک آف انڈیا کی اجارہ داری ختم کردی تھی ۔
قائد اعظم اسٹیٹ بنک کا تالا کھولتے ہوئے
30 دسمبر 1948 کو برطانوی حکومت نے برصغیر کے ریزرو بینک آف انڈیا کے اثاثوں کا 70 فیصد ہندوستان کو دیا جبکہ پاکستان کو 30 فیصد ملا۔ اُس وقت ریزرو بینک آف انڈیا کی طرح اسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی ایک پرائیوٹ یا نجی بینک تھا۔
یکم جنوری 1974ء کو اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اسے قومی ملکیت میں لے لیا، ان کے اس اقدام سے پاکستانی معیشت کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔
فروری 1994 میں بینظیر بھٹو کی حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو فائننشیل سیکٹر ری فورم کے نام پر خود مختاری دے دی۔
21جنوری 1997 میں ملک معراج خالد کی نگراں حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مزید آزادی دے کر مکمل خود مختار کر دیا۔ اب یہ حکومت ِ پاکستان کے ماتحت نہیں رہا تھا بلکہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ تھا ، تاہم ابھی بھی اس کے گورنر کی تعیناتی وفاقی حکومت کے حکم سے کی جاتی ہے۔
سنہ 2005 میں اس وقت کی حکومت نے ملک میں کام کرنے والےمنی ایکسچینجز کو قانونی درجہ دے کر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ماتحت کردیا گیا تھا ، جس سے اسٹیٹ بینک کو مزید استحکام ملا۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر ہر سال وزیر خزانہ کے ہمراہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سالانہ میٹنگ میں شرکت کرنے کے لیے جاتے ہیں۔
اپنے قیام کے وقت اس کے پہلے گورنر زاہد حسین تھے جو کہ 19 جولائی1953 تک اسٹیٹ بینک کے گورنر رہے۔ موجودہ گورنر ڈاکٹر رضا باقر ہیں جو کہ 05 مئی 2019 سے آئندہ تین سال کے لیے اس عہدے پر فائز ہیں۔
قائداعظم پاکستانی کرنسی کا معائنہ کرتے ہوئے
اپنے چارٹرکے تحت اسٹیٹ بینک آف پاکستان مارکیٹ میں روپے کی ترسیل، مضبوط معاشی نظام کی یقینی بنانے، قواعد و ضوابط کی پاسداری کرانے اور دیگر بینکوں کے مالیاتی امور کی نگرانی کرنے ، بین الاقوامی مارکیٹ سے ایکسچنج ریٹ طے کرنے اور ادائیگیوں کے توازن کو یقینی بنانے کا پابند ہے۔