Tag: اسپیکر رولنگ کیس

  • 8 ویں دن ووٹنگ غیر آئینی نہیں ہوگی، مخدوم علی خان کے دلائل

    8 ویں دن ووٹنگ غیر آئینی نہیں ہوگی، مخدوم علی خان کے دلائل

    اسلام آباد: سپریم کورٹ میں اسپیکر رولنگ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران آج منگل کو مسلم لیگ ن کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔

    مخدوم علی خان نے کہا 8 ویں دن ووٹنگ غیر آئینی نہیں ہوگی، مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ پر ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا۔ اس کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ کر رہا ہے، سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔

    مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا عدم اعتماد کو 161 ارکان نے پیش کرنے کی اجازت دی تھی، 161 ارکان کی حمایت پر اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد کی اجازت دی، اور مزید کارروائی 31 مارچ تک ملتوی کر دی گئی، رولز 37 کے تحت 31 مارچ کو عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی، لیکن اکتیس مارچ کو قرار داد پر بحث نہیں کرائی گئی۔

    مخدوم نے کہا 3 اپریل کو عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونا تھی، لیکن 3 اپریل کو جو ہوا پوری قوم نے دیکھا، یہ مقدمہ ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا ہے، معاملہ اسمبلی قواعد پر عمل درآمد کا نہیں بلکہ آئین کی خلاف ورزی کا ہے، اکثریت نہ ہونے پر وزیر اعظم کا رہنا جمہوریت کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے، سوال یہ ہے کیا اسپیکر کو اسمبلی اجلاس ملتوی کرنے کا اختیار تھا؟ وزیر اعظم اکثریت کھو دے تو یہ پارلیمانی جمہوریت کے خلاف ہے۔

    جسٹس منیب اختر نے کہا تحریک عدم اعتماد پر کب کیا ہونا ہے یہ رولز میں ہے آئین میں نہیں، وکیل ن لیگ نے کہا رولز بھی آئین کے تحت ہی بنائے گئے ہیں، آرٹیکل 69 بے ضابطگیوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتا، جسٹس منیب نے کہا ووٹنگ پروسیجر سیکنڈ شیڈول میں آتا ہے کیا آرٹیکل 69 کا تحفظ حاصل نہیں؟ وکیل نے کہا پارلیمانی کارروائی میں بے ضابطگی کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے، لیکن اسپیکر کی غیر آئینی رولنگ کو آرٹیکل 69 کا تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔

    سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا

    انھوں نے کہا کوئی قواعد و ضوابط آئین سے ماورا نہیں ہو سکتے، جسٹس منیب اختر نے کہا ووٹنگ نہ ہونا آئین کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی؟ آئین کے مطابق 7 دن میں عدم اعتماد پر ووٹنگ ضروری ہے، کسی وجہ سے ووٹنگ 8 ویں دن ہو تو کیا غیر آئینی ہوگی؟ مخدوم علی خان نے کہا 8 ویں دن ووٹنگ غیر آئینی نہیں ہوگی، مقررہ مدت کے بعد ووٹنگ پر ٹھوس وجہ ہو تو آرٹیکل 254 کا تحفظ حاصل ہوگا۔

    وکیل نے آئینی تحفظ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں ہو سکتی، ججز کنڈکٹ پر بات نہ کرنا آئین اور اسمبلی قواعد کا حصہ ہے، اسمبلی کے رولز آئین پر عمل درآمد کے لیے بنائے گئے ہیں، ججز کنڈکٹ پر بات کرنے والا رکن آرٹیکل 68 کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوگا، آئین کی خلاف ورزی کرنے والے رکن کو تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔

    انھوں نے کہا اسپیکر کو تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں، اسمبلی رولز آئین کے آرٹیکل 95 سے بالاتر نہیں ہو سکتے، ڈپٹی اسپیکر آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جسٹس منیب نے کہا آرٹیکل 95 میں صرف عدم اعتماد اور اس پر ووٹنگ کا ذکر ہے، جب کہ عدم اعتماد کے حوالے سے تمام طریقہ کار اسمبلی رولز میں ہے۔

    وکیل نے کہا کیا ایسا ممکن ہے کہ اسپیکر کے علاوہ پورا ایوان وزیر اعظم کے خلاف ہو، اور اسپیکر پھر بھی عدم اعتماد مسترد کر سکے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری سے پہلے وجوہ دیکھی جا سکتی ہیں؟ وکیل نے بتایا تحریک عدم اعتماد کے لیے وجوہ بتانا ضروری نہیں ہے۔

    جسٹس اعجاز نے نکتہ اٹھایا کہ 20 فی صد لوگ قرارداد جمع کرائیں کیا اتنے ہی اسے پیش کرنے کے لیے بھی کافی ہیں، وکیل نے کہا جی نہیں قرارداد پیش کرنے کے لیے اکثریت درکار ہوتی ہے، جسٹس منیب نے استفسار کیا عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری کے لیے 20 ارکان کا ہونا ضروری ہے، اگر 20 فی صد منظوری دیں مگر موجود اکثریت مخالفت کرے تو کیا ہوگا؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہو جائے تو اس پرووٹنگ ضروری ہے، چیف جسٹس نے کہا آئین کو رولز کے ذریعے غیر مؤثر نہیں بنایا جا سکتا، تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت رولز میں ہے۔

    وکیل نے کہا رولنگ آرٹیکل 95 کے منافی ہے، یہ عدالت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے، وزیر اعظم برقرار رہیں گے یا نہیں فیصلہ ایوان ہی کر سکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اصل سوال صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا ہے، وکیل نے کہا اسپیکر کی رولنگ آئین کی خلاف ورزی ہے، جسٹس جمال نے استفسار کیا کیا عدالت ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لے سکتی ہے؟ وکیل نے کہا غیر آئینی رولنگ کا جائزہ عدالت لے سکتی ہے، ایک شخص ایوان کی اکثریت کو سائیڈ لائن نہیں کر سکتا، اس پر جسٹس جمال نے کہا ہمیں مطمئن کریں کہ رولنگ صرف قواعد کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ آئین کی بھی ہے۔

    مخدوم علی نے کہا آئین فرد واحد کو اختیار نہیں دیتا کہ وہ کسی قرارداد پر ووٹنگ روک دے، عدالت غیر قانونی، غیر آئینی اقدام پر جوڈیشل نظر ثانی کر سکتی ہے، جسٹس منیب نے کہا قومی و صوبائی اسمبلی کے اسپیکرز اپنے ایوان کے ماسٹرز ہیں، چیف جسٹس نے کہا ہم نے اسپیکر کی رولنگ کو دیکھنا ہے کیا انھیں استثنیٰ ہے کہ نہیں، یہ ہماری روایت نہیں کہ ہم ریاست اور فارن پالیسی ترتیب دیں، ہم نے معاملے کو آئینی اور قانونی طور پر دیکھنا ہے، عدالت پالیسی معاملات کی تحقیقات میں نہیں پڑنا چاہتی۔

  • سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا

    سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا

    اسلام آباد: سپریم کورٹ نے 31 مارچ کی اسمبلی کارروائی کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے، اور اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری کو ریکارڈ فراہم کرنے کی ہدایت کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اسپیکر رولنگ سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کا آج دوسرا دن تھا، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے، پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی نے دلائل دیے، دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے کہا آپ نے اچھے اور ٹو دی پوائنٹ دلائل دیے ہیں، ہمیں یہی توقع تھی۔

    رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا آئین میں وزیر اعظم کو ہٹانے کا طریقہ کار درج ہے، وزیر اعظم استعفیٰ دے سکتے ہیں، اکثریت کھو دیں تو عدم اعتماد پر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے، جب قرارداد پارلیمنٹ میں آ جائے تو وزیر اعظم اسمبلیاں تحلیل نہیں کر سکتا۔

    رضا ربانی نے کہا درپیش صورت حال میں وزیر اعظم اسمبلی نہیں توڑ سکتے تھے، عدالت ڈپلومیٹک کیبل کو طلب کرے، عدالت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے منٹس بھی طلب کر کے حقائق جانچے، اس طرح اسمبلی توڑنے کی کارروائی ابتدا سے ہی کالعدم ہے۔

    رضا ربانی نے استدعا کی کہ عدالت اسپیکر کی رولنگ غیر آئینی قرار دے، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے منٹس اور خط منگوایا جائے، عدالت اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دے کر اسمبلی بحال کرے۔

    رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ عدالت نے رولنگ درست قرار دی تو آئندہ تحریک عدم اعتماد نہیں آ سکے گی، آئین کی خلاف ورزی ہو تو عدالت جائزہ لے سکتی ہے، آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمانی کارروائی کو استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، اسپیکر کارروائی چلانے کے لیے جو فیصلہ کرے اسے تحفظ حاصل ہوگا، لیکن آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی اور رولنگ کا آپس میں تعلق نہیں بنتا، ڈپٹی اسپیکر نے آرٹیکل 5 کی تشریح کر کے ارکان پر اطلاق کر دیا، اس لیے اسپیکر کی رولنگ کا آرٹیکل 95 (2) کے تحت جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

    انھوں نے کہا عدم اعتماد پر ووٹنگ روکی نہیں جا سکتی تھی، عدم اعتماد مسترد کر کے ووٹنگ نہ کرا کر رولز 37 کی خلاف ورزی کی گئی، طریقہ کار کی خلاف ورزی پر اسمبلی کارروائی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی، حالات دیکھتے ہوئے صدر کو سمری واپس بھیج کر اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنا تھا، پارلیمانی نظام حکومت میں اسپیکر اکثریتی جماعت کا ہوتا ہے، رولز اسپیکر کو عدم اعتماد کی قرارداد ختم کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتے، تحریک کے بعد اس پر ووٹنگ مکمل ہونے تک اجلاس ملتوی نہیں ہو سکتا۔

    چیف جسٹس نے کہا آپ نے اچھے اور ٹو دی پوائنٹ دلائل دیئے ہمیں یہی توقع تھی، رضا ربانی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کر دیا، جو متحدہ اپوزیشن کی بھی نمائندگی کر رہے ہیں۔

    آرٹیکل 6

    رضا ربانی نے پیپلز پارٹی کی جانب سے دلائل کا آغاز کیا تو آرٹیکل 6 کی بات کر دی، انھوں نے کہا چیف الیکشن کمشنر نے کہا 90 دن میں الیکشن کے لیے تیار نہیں، ان حالات میں ضروری ہے کہ آج ہی شارٹ آرڈر دے دیں۔

    رضا ربانی نے کہا یہ جو ہوا ہے یہ سویلین کُو (بغاوت) ہے، پہلی بد نیتی یہ کہ 7 مارچ کو یہ خبر سامنے آئی، خبر سامنےآنے کے باوجود سینئر آفیشلز کو پروٹوکول دیتے رہے، دوسری بد نیتی یہ ہے کہ اجلاس بلانے میں ٹال مٹول کی گئی، 3 مارچ کو اجلاس ووٹنگ کے لیے بلایا گیا، لیکن وزیر قانون نے قرار داد پیش کی اور اجلاس ملتوی کر دیا گیا، یہ ایک اور بد نیتی تھی۔

    رضا ربانی نے کہا 28 مارچ کو عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر سماعت ملتوی کر دی گئی، ڈپٹی اسپیکر نے ارکان کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا، ڈپٹی اسپیکر نے یہ بھی اعلان نہیں کیا تھا کہ تفصیلی رولنگ جاری کریں گے، ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر رولنگ دی کچھ نہیں بتایا گیا، ڈپٹی اسپیکر کے سامنے عدالتی حکم تھا نہ ہی سازش کی انکوائری رپورٹ، عدالت نے دیکھنا ہے کہ پارلیمانی کارروائی کو کس حد تک استثنیٰ ہے، جو کچھ ہوا اس کو سویلین مارشل لا ہی قرار دیا جا سکتا ہے، رضا ربانی نے کہا سسٹم نے از خود ہی اپنا متبادل تیار کر لیا جو غیر آئینی ہے، 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد کی منظوری ہوئی مگر سماعت ملتوی کر دی گئی۔

    رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے تحریک عدم اعتماد مسترد کیے جانے میں بدنیتی پر مبنی 10 اقدامات کی نشان دہی کی، انھوں نے کہا اسپیکر قومی اسمبلی نے چیمبر میں رولنگ لکھ کر رکھ لی تھی، وفاقی وزیر نے بغیر کسی شہادت یا دستاویزی سپورٹ قرارداد پیش کی، اس طرح تحریک مسترد کرنے کا سارا عمل ابتدا سے ہی کالعدم قرار دیا جانا چاہیے، وزیر اعظم نے اسمبلی توڑنے کی سمری بھیجی جسے صدر نے سوچے سمجھے بغیر منظور کر لیا، عدم اعتماد پر ووٹنگ صرف وزیر اعظم کے استعفے پر ہی روکی جا سکتی ہے، صدر مملکت از خود بھی وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہ سکتے ہیں، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ تک وزیر اعظم اسمبلی بھی تحلیل نہیں کر سکتے۔

    افشاں غضنفر کی انٹری

    دوران سماعت افشاں غضنفر ایڈووکیٹ نے استدعا کی کہ اس کیس میں انھیں بھی فریق بنایا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم یہاں فریق بننے کی درخواستیں نہیں سن رہے، افشاں غضنفر نے کہا سارا مسئلہ جس کی وجہ سے بنا اس کو بلایا جائے۔

    افشاں نے کہا اسد مجید جس نے لیٹر لکھا اس کو بلائیں، چیف جسٹس نے کہا بیٹھ جائیں ہم نے سیاسی جماعتوں کے وکلا کو سننا ہے، دوران سماعت ذوالفقار بھٹہ نے کیس کی سماعت سے پہلے لیٹر گیٹ کی تحقیقات کی استدعا کی، جس پر عدالت نے ذوالفقار بھٹہ کو بھی روسٹرم چھوڑنے کی ہدایت کر دی۔