Tag: اسپیکر کی رولنگ

  • اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس پر فیصلہ محفوظ، آج شام  ساڑھے 7 بجے سنایا جائے گا

    اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس پر فیصلہ محفوظ، آج شام ساڑھے 7 بجے سنایا جائے گا

    اسلام آباد : اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس پر فیصلہ آج شام ساڑھے 7 بجے سنایا جائے گا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے اسپیکر کی رولنگ غلط ہے، اب یہ بتائیں اگلا قدم کیاہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اسپیکرکی رولنگ سے متعلق ازخودنوٹس کیس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔

    ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عدالت میں پیش ہوئے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ چیف جسٹس کےریمارکس پرنجی ہوٹل میں اجلاس کیاگیا، نجی ہوٹل میں حمزہ شہبازکووزیراعلیٰ منتخب کیاگیا، آج باغ جناح میں ایک اورتقریب کی جارہی ہے، اس تقریب میں حلف برداری ہوگی۔

    چیف جسٹس کا پنجاب کا معاملہ دیکھنے سے انکار

    جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم پنجاب کےمعاملےکونہیں دیکھ رہے، بہترہےآپ یہ معاملہ لاہورہائیکورٹ لیکرجائیں  ایڈووکیٹ جنرل نے کہا اس کے بعد حمزہ شہبازسرکاری افسران کی میٹنگ طلب کر رہے ہیں تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نےجوکہناہےوہ تحریری طور کہیں۔

    احمد اویس نے عدالت کو بتایا کہ آج باغ جناح میں حلف برداری تقریب رکھی گئی ہے، حمزہ شہباز سابق گورنر چوہدری سرور سے حلف لینے جا رہے ہیں، انہوں نے سرکاری مشینری کا اجلاس بھی بلا لیا ہے۔

    چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا ہم نےاس معاملے پر فیصلہ کرنے سے انکارکر دیا ، ہم نے قومی اسمبلی کے معاملے کو دیکھنا ہے۔

    جسٹس مظہرعالم کا کہنا تھا کہ ٹی وی پریہ بھی دکھایا گیا پنجاب اسمبلی کو تالا لگا دیا گیا، پنجاب میں آپ کیا کر رہے ہیں؟ چیف جسٹس نے بھی کہا لاہور ہائی کورٹ موجود ہے وہاں جائیں، قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے۔

    وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا ایم پی ایزعوام کے نمائندے ہیں، عوامی نمائندوں کو اسمبلی جانے سے روکیں گے تو وہ کیا کریں؟ جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کیا وزیراعظم پوری قوم کےنمائندےنہیں ہیں؟

    صدر مملکت کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر کے دلائل

    صدر مملکت کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے جواب دیا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندےہیں، جسٹس مظہر نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ میں آئینی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ حاصل ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟

    جسٹس جمال مندوخیل نے بھی استفسار کیا پارلیمنٹ کارروائی سے کوئی متاثرہو تو داد رسی کیسے ہوگی؟ کیا داد رسی نہ ہو توعدالت خاموش بیٹھی رہے؟ جس پر بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہوسکتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونے دی جاتی تو معلوم ہوتاوزیراعظم کون ہے، اگرزیادتی کسی ایک ممبرکے بجائے پورےایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟ جس پر علی ظفر نے سوال کیا اگرججزکاآپس میں اختلاف ہو توکیاپارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ پارلیمنٹ عدلیہ میں مداخلت نہیں کرسکتی،عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔

    جسٹس عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیاوفاقی حکومت کی تشکیل کاعمل پارلیمان کااندرونی معاملہ ہے؟ صدر مملکت کے وکیل نے بتایا کہ
    وفاقی حکومت کی تشکیل،اسمبلی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے تاہم وزیراعظم کےالیکشن،عدم اعتماد دونوں کاجائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔

    چیف جسٹس نے بیرسٹرعلی ظفر سے مکالمے میں کہا کہ علی ظفر صاحب آپ نے جس فیصلے کا حوالہ دیا وہ حلف سے متعلق ہے، یہاں معاملہ حلف لینے کا نہیں رولنگ کا ہے، کہیں تو لائن کھینچنا پڑے گی۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمان کا استحقاق ہے کہ قانون سازی کرے، اگرپارلیمان قانون سازی نہ کرے تو کیا ہوگا؟  جس پر وکیل صدر مملکت نے بتایا کہ قانون سازی نہ ہوتو پرانے قوانین ہی برقرار رہیں گے، جمہوریت اور الیکشن کو الگ نہیں کیا جا سکتا، ووٹرز سب سے زیادہ با اختیار ہیں۔

    بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ عدالت ماضی میں قراردے چکی سیاسی مسائل میں داد رسی کا فورم عوام ہے، جونیجو حکومت کا خاتمہ عدالت نےخلاف آئین قراردیاتھا، کیس میں عدالت نے کہا معاملہ الیکشن میں جارہا ہے عوام فیصلہ کریں گے۔

    جسٹس مظہرعالم نے ریمارکس میں کہا ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے، عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں، جس پر وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کا اعلان کردیا گیا۔

    اسپیکرکی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ ایشو یہ ہے آرٹیکل 58 صدر وزیر اعظم کے مشورے پر اسمبلی تحلیل کرتا ہے، جس وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد آئی وہ اسمبلی تحلیل کی سفارش نہیں کرسکتا، ہم نے اسمبلی کی تحلیل میں اس معاملے کو دیکھنا ہے۔

    چیف جسٹس عمرعطابندیال نے استفسار کیا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟ ملک میں کہیں اور بحران ہو سکتا ہے، میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں۔

    جسٹس عمرعطابندیال نے مزید کہا کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی، کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن اناؤنس کرے ، الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کانقصان ہوگا، یہ قومی مفاد ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے پی ٹی آئی قومی اسمبلی ایوان میں سب سےبڑی جماعت ہے، کیا یہ بہتر ہے دیگر چھوٹی جماعتیں غیر فطری اتحاد سے حکومت قائم کریں؟ تحریک انصاف کے مقابل کیا یہ ملک کے لئے بہتر ہوگا؟ جس پر وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ میری رائے میں اس معاملے پر عدالت کو توجہ دینے کی ضرورت نہیں۔

    وزیراعظم کے وکیل امتیاز صدیقی کے دلائل

    صدر مملکت کے وکیل علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد وزیراعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ عدالت ماضی میں اسمبلی کارروائی میں مداخلت سےاجتناب کرتی رہی ہے، چوہدری فضل الہٰی کیس میں اراکین کو ووٹ دینے سے روکا،تشدد کیا گیا، عدالت نےاس صورتحال میں بھی پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کی۔

    امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ ایوان کی کاروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے، عدالت پارلیمان اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کہا گیا عدم اعتماد پر لیو گرانٹ ہونے کے بعد رولنگ نہیں آ سکتی، درخواست گزار کہتے ہیں 28 مارچ کو تحریک پیش ہونے سے پہلے رولنگ آ سکتی تھی۔

    جسٹس عطال بندیال نے امتیاز صدیقی سے مکالمے میں استفسار کیا اس معاملے پر آپ کیا کہیں گے؟ جس پر وکیل وزیراعظم نے کہا اپوزیشن نے ڈپٹی اسپیکر کی صدارت پراعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی اسپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمان میں ڈپٹی اسپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پروہ عدالت کوجوابدہ نہیں، تحریک عدم اعتماد خالصتاً پارلیمان کی کارروائی ہے، مداخلت نہیں ہوسکتی۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرےگی، عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے۔

    وکیل امتیاز صدیقی کا کہنا تھا کہ اسپیکر کو اگر معلوم ہو بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے، تو اسپیکر قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا، اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا، اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے مزید دلائل میں کہا کہ آرٹیکل 69 کو127 سے ملا کر پڑھیں تو پارلیمانی کارروئی کو تحفظ حاصل ہے، سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

    جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پرعمل کرنے کی پابند نہیں، عدالت فیصلوں میں دی گئی آبزرویشنز کی پابند نہیں تو امتیاز صدیقی نے کہا ڈپٹی اسپیکر نے نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر انحصار کیا، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسپیکر کے سامنے کیا مواد موجود تھا جس پر انہوں نے تحریک کو ختم کیا؟ وکیل وزیراعظم نے بتایا کہ اس سوال کا جواب اٹارنی جنرل دیں گے۔

    جسٹس عطا بندیال نے مزید استفسار کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کو کب بریفنگ ملی تھی؟ تو وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کی ڈپٹی اسپیکر کو بریفنگ کا علم نہیں، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو معلوم نہیں تو اس پر بات نہ کریں۔

    امتیاز صدیقی نے بتایا کہ وزیراعظم کو تحریک خارج ہونے کا علم ہوا تو اسمبلی تحلیل کر دی ، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد 28 مارچ کو کیوں مسترد نہیں کی؟

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی توایوان ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ختم کرسکتا تھا، وزیراعظم نے صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسمبلی تحلیل کی، اسمبلی نہ توڑی جاتی تو ارکان ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ ریورس کرسکتے تھے، اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر عدالتی جائزے سے بلاتر ہیں کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں۔

    اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل

    وزیراعظم کے وکیل امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہونے پر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل کا آغاز کیا۔

    نعیم بخاری نے کہا کہ صدر مملکت کےوکیل علی ظفر کے دلائل اختیار کرتا ہوں، عدالت کے سامنے مختصر گزارشات پیش کروں گا، سوال ہوا تھا پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتمادمیں نہیں لیاجاسکتا، پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پرلیا جاسکتا ہے، کیا پوائنٹ آف آرڈر موو کرنیوالے کے پاس کوئی ریمیڈی نہیں ہے؟

    جسٹس مظہر عالم نے پوچھا ڈپٹی اسپیکر کے پاس رولنگ کا مواد کیا تھا، جس پر وکیل نعیم بخاری نے کہا مجھے گزارشات کو فریز کرنے دیں، عدالت کے سوالات کا جواب دوں گا تو جسٹس مظہر عالم کا کہنا تھا کہ ہم بھی آپ کو سننے کے لئے بے تاب ہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا آپ کافی فریش لگ رہے ہیں۔

    جسٹس جمال نے استفسار کیا کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کراناآئینی خلاف ورزی ہے؟ تو نعیم بخاری نے بتایا کہ اسپیکر پوائنٹ  آف آرڈر مسترد کرتا کیاعدالت تب بھی مداخلت کرتی؟ ماضی میں اسمبلی توڑی گئی تو غلط قرار دینے کے باوجود الیکشن  عمل نہیں رکا۔

    جسٹس اعجاز نے پوچھا کیا پوائنٹ آف ارڈر پر تحریک عدم اعتماد ختم کرنےکی کوئی مثال ہے ؟ زیر التوا تحریک عدم اعتماد پوائنٹ آف آرڈر پر مسترد ہوسکتی ہے؟

    جس پر وکیل ںعیم بخاری کا کہنا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر اسپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کرسکتا ہے، پہلے کبھی ایسا ہوا نہیں لیکن اسپیکر کا اختیار ضرور ہے، مثال نہیں مگر پوائنٹ آف آرڈر پر اسپیکر پہلے سے موجود قرارداد ختم کر سکتا ہے، نئے انتخابات کا اعلان ہو چکا، اب معاملہ عوام کےپاس ہے، سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیے۔

    اسپیکرکی رولنگ سےمتعلق ازخود نوٹس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا رولنگ پر اسپیکر اسد قیصر کے دستخط ہیں تو اسپیکر اورڈپٹی اسپیکر کے وکیل نے بتایا کہ جی وہ آج بھی اسپیکر قومی اسمبلی ہیں ، تحریک پیش کرنےکی منظوری کامطلب یہ نہیں کہ مسترد نہیں ہو سکتی،عدالت بھی درخواستیں سماعت کیلئے منظورکر کے بعد میں خارج کرتی ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر کا تعلق اس روز کے اجلاس سے ہوتا ہے، رولز کے مطابق جب تحریک پیش ہو تواس کے بعد پوائنٹ آف آرڈر نہیں آسکتا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا پوائنٹ آف آرڈر قرار داد ہے یا تحریک ، موشن اور تحریک کے لفظ میں کیا فرق ہے؟ جس پر وکیل نعیم بخاری نے بتایا کہ موشن ،تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں، موش اور تحریک دونوں آپس میں رشتے دار ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کیا عدم اعتماد قرارداد ہوتی ہے یا تحریک ؟ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی سوال کیا کیا ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد کا مطلب ووٹنگ کیلئے پیش ہونا نہیں؟ عدم اعتماد کےعلاوہ پارلیمان کی کسی کارروائی کا طریقہ آئین میں نہیں، کیا اسمبلی رولز کا سہارا لیکر آئینی عمل کوروکا جا سکتا ہے؟ کیا اسپیکر آئینی عمل سے انحراف کر سکتا ہے؟ ۔

    قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس عدالت میں پیش

    دوران سماعت وکیل نعیم بخاری نے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس عدالت میں پیش کردیئے ، چیف جسٹس نے استفسار کیا یہ منٹس تو ہیں اس میں حاضری کی تفصیل کہاں ہے، کمیٹی کے اجلاس میں کون کون شریک رہا اور شرکا کو کس نے بریفنگ دی ؟

    وکیل نعیم بخاری نے بتایا کہ شرکت کے لئے 29افراد کو نوٹس دیئے گئے ، ،جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کیا وزیر خارجہ کمیٹی کے اجلاس بھی شامل تھے تو نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ وزیرخارجہ شامل تھے یا نہیں میں معلوم کر کے بتاؤں گا۔

    چیف جسٹس نے کہا کمیٹی اجلاس میں کل 11 کمیٹی ممبران شریک ہوئے ، نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ کمیٹی کو نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر نے بریفنگ دی تو جسٹس عطا بندیال نے مزید کہا یہ ظاہر ہو رہا ہے وزیر خارجہ اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

    وکیل اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر نے بتایا کہ وزیر خارجہ اس میٹنگ کے وقت چین کے دورے پر تھے، جس پر جسٹس مندوخیل نے کہا مشیر برائے قومی سلامتی کانام بھی نہیں ہے ، فارن منسٹر کو پیغام آیا انہیں وہاں ہونا نہیں ہونا چاہیے تھا۔

    جس پر نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ جی بالکل وزیرخارجہ کو اس میٹنگ میں ہونا چاہیے تھا، پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو خط پر بریفنگ دی گئی، کمیٹی کو بتایا گیا عدم اعتماد ناکام ہوئی تو نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔

    چیف جسٹس نے کہا ریکارڈ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی میں 11 لوگ شریک ہوئے ، بریفنگ دینے والوں کے نام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ مجھے ہدایت ہے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس سربمہر لفافے میں فراہم کروں ، وزیر اعظم نے لیٹر جلسے میں دکھایا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا وہ بند خط لہرایا گیا، جس پر وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ جی میں نے کب کہا کہ پڑھ کر سنایا گیا۔

    نعیم بخاری نے فواد چوہدری کا 3اپریل کا پوائنٹ آف آرڈر بھی عدالت میں پیش کردیا، چیف جسٹس نے سوال کیا کیا اپوزیشن کو پوائنٹ  آف آرڈر پر جواب کا موقع نہیں دیا جانا چاہیےتھا؟ سپیکر صاحب نے عجلت میں رولنگ دے دی۔

    جسٹس عطابندیال کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی اجلاس میں 57 ارکان موجود تھے، اراکین اسمبلی کے نوٹس میں خط کے مندرجات آ گئے تھے، رولنگ کےبجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لیناچاہیے تھا؟ جس پر وکیل نعیم بخاری نے کہا پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔

    جسٹس جمال مندو خیل کا کہنا تھا کہ اس قرار داد پر اسپیکر کانام ہے دستخط نہیں ، ڈپٹی اسپیکر نے دی، دستخط اسپیکر کے ہیں، رولنگ پر ڈپٹی اسپیکر کے دستخط کہاں ہیں تو نعیم بخاری نے بتایا کہ اصل تحریر اردو میں ہے وہ حاصل کرنے کی کوشش کروں گا ، پوچھ کر بتاؤں گا کہ اس پر اسپیکر نے دستخط کئے تھے یا نہیں۔

    جسٹس منیب اختر نے مزید ریمارکس میں کہا فواد چوہدری نے عدم اعتماد آرٹیکل 5 سے متصادم پر رولنگ مانگی، ممکن ہے اراکین کہتے یہ آئین کیخلاف ہے حق میں ووٹ نہیں دیں گے، ہوسکتا ہے کچھ لوگ خط کے تناظر میں تحریک کیخلاف ووٹ دیتے، لیکن ووٹنگ کرانے کے بجائے تحریک ہی مسترد کر دی گئی۔

    جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کو اس انداز میں تحریک مسترد کرنے کا اختیار نہیں تھا، اسپیکر نے رولنگ کے بعد ووٹنگ کیوں نہیں کرائی؟ رولنگ میں عدم اعتماد مسترد کرنا شاید اسپیکر کا اختیار نہیں تھا، ڈپٹی اسپیکر کو آرٹیکل 5 کی قرار داد پر ووٹنگ کرانی چاہیے تھی۔

    وکیل نعیم بخاری نے کہا پارلیمنٹ میں جو ہوا اس کاجائزہ عدالت نہیں کرسکتی، جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ممکن ہے کچھ ارکان رولنگ سے مطمئن ہوتے کچھ نہ ہوتے، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ آئین کا تقاضا ہے، ایسا لگتا ہے رولنگ لکھ کر ڈپٹی اسپیکر کو دی گئی انھوں نے پڑھ دی۔

    نعیم بخاری نے کا کہنا تھا کہ یہ میرے علم میں نہیں ،میں پارلیمنٹ میں نہیں تھا ، جسٹس جمال نے استفسار کیا کیا عوامی نمائندوں کی مرضی کیخلاف رولنگ پارلیمانی کارروائی سےباہرنہیں؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ پارلیمان کے اندر جوبھی ہواسے آئینی تحفظ حاصل ہوگا۔

    جسٹس اعجاز نے سوال کیا کہ کیاڈپٹی اسپیکر رولنگ میں نکات پارلیمانی کارروائی سےباہرنہیں تھے؟ نعیم بخاری نے بتایا کہحتمی فیصلہ عدالت کاہوگا،ہمارا مؤقف ہے رولنگ کاجائزہ نہیں لیاجاسکتا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو رولنگ ڈپٹی اسپیکرنے دی وہ پوائٹ آف آرڈر پرتھی ، کیا اس کے خلاف اسپیکر کےسامنے اپیل ہوسکتی تھی؟ اسمبلی ٹوٹنے سے آسمان گر پڑا ہے ، آپ کیسے کہہ رہے ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کو اسپیکر کے سامنے چیلنج کیا جا سکتا ہے، آپ کے مطابق اراکین کو ڈپٹی اسپیکر کیخلاف اسپیکر کے پاس جانا چاہیے تھا۔

    چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ آسمان اس وقت گرا جب اسمبلی تحلیل کردی گئی، ووٹنگ کرا دیتے تو شاید تحریک مسترد  ہو جاتی ، جسٹس اعجاز نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو متاثرہ ارکان کے پاس دادرسی کوطریقہ کا کیا تھا۔

    جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا ارکان نئی عدم اعتماد لا سکتے تھے، وکیل نعیم بخاری نے بتایا کہ اسپیکر نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی توثیق کی۔

    جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا رولزکے مطابق پوائنٹ آف آرڈرپردوسری سائیڈکوبات کاموقع دیاجاسکتاہے، آپشن کے باوجود سننے کا موقع نہیں دیا گیا، جس پر وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت اسمبلی تحلیل کا جائزہ لے سکتی ہے۔

    جسٹس اعجاز نے استفسار کیا رولنگ پر اسمبلی تحلیل ہوئی اسے چھوڑ کر کیسے جائزہ لیا جاسکتا ؟ جسٹس جمال نے نعیم ؓبخاری سے مکالمے  میں کہا بطور سینئر وکیل بتائیں کیا آرٹیکل 95 کیلئے کسی رول کی ضرورت ہے؟ آرٹیکل 95 مکمل ضابطہ ہے کیا خلاف ورزی کا عدالتی  جائزہ نہیں لیاجا سکتا ؟ تو وکیل نے بتایا کہ کس حد تک پارلیمانی کارروائی میں مداخلت ہوسکتی ہے فیصلہ عدالت کرے گی۔

    اٹارنی جنرل خالد جاوید کے دلائل

    نعیم بخاری کے دلائل مکمل ہونے پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا 28 مارچ کو تحریک عدم اعتماد لیو گرانٹ  ہوئی، چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے سوال کیا لیوکون گرانٹ کرتا ہے ؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ہاؤس لیو گرانٹ کرتا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے خالد جاوید سے مکالمے میں کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا یہ آپ کا آخری کیس ہے، تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر آپ کی خواہش ہے تو مجھے منظور ہے تو جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا پوری بات توسن لیں،ہم چاہتے ہیں آپ اگلے کیس میں بھی دلائل دیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا پارلیمانی کارروائی کو عدالتی جائزے سے استثنیٰ حاصل ہے ، کیس کا فیصلہ تفصیل میں جائے بغیر دیا جا سکتا ہے کہ کون وفا دار ہے کون نہیں، قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکتا، عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔

    خالد جاوید کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں انتہائی حساس نوعیت کے معاملات پر بریفنگ دی گئی، قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے پر تیار ہوں ، صدر مملکت کوئی وجہ یا حالات جانے بغیر اسمبلی تحلیل کا اختیار رکھتےہیں۔

    اٹارنی جنرل نے دلائل میں مزید کہا کہ وزیراعظم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں ، اس لئے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے وزیراعظم کو وجوہات بتاناضروری نہیں، صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی  ازخود تحلیل ہو جائیں گی۔

    خالد جاوید نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹ ڈالنا کسی رکن کا بنیادی حق نہیں تھا، ووٹ ڈالنے کا حق آئین اوراسمبلی رولز سے مشروط ہے، اسپیکر کسی رکن کو معطل کرے تو وہ بحالی کیلئےعدالت نہیں آسکتا، حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے، آئین ارکان کی نہیں ایوان کی 5 سالہ معیاد کی بات کرتا ہے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ برطانیہ میں اسمبلی تحلیل کرنے کا وزیر اعظم کا آپشن ختم کردیا گیا ،ہمارےآئین میں وزیر اعظم کا اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن موجود ہے۔

    چیف جسٹس نے پوچھا آپ کہنا چاہتے ہیں تحریک عدم اعتماد پرووٹنگ رولزسےمشروط ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحریک عدم اعتمادسمیت تمام کارروائی رولز کے مطابق ہی ہوتی ہے۔

    خالد جاوید کا کہنا تھا کہ پارلیمان کارروائی کو مکمل استثنیٰ حاصل ہونے کی دلیل کا حامی نہیں ایسا نہیں کہ ایوان کے اندر کبھی کچھ بھی دیکھا نہیں جا سکتا اور ایسا بھی نہیں کہ پارلیمان کے اندر مداخلت مسلسل کی جائے، اسپیکر کم ووٹ والے کے وزیراعظم بننے کا اعلان کرے تو عدالت مداخلت کرسکتی ہے۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے اسپیکر ایوان کا نگران ہے، صرف اپنی ذاتی تسکین کیلئے نہیں بیٹھتا، اسپیکر ایسا تونہیں کر سکتا کہ اپنی رائے دے باقی ممبران کوگڈ بائے کہے۔

    جس پر اٹارنی جنرل نے کہا تحریک پیش کرنےکی منظوری کیلئے  20 فیصد یعنی  68ارکان کاہونا ضروری نہیں، اگر68  ارکان تحریک منظور اور اس سے زیادہ مسترد کریں توکیا ہوگا؟ جس پر جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ 172ارکان تحریک پیش کرنے کی منظوری دیں تو وزیراعظم فارغ ہوجائے گا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اسمبلی میں کورم پورا کرنے کیلئے 86 ارکان کی ضرورت ہوتی ہے، تحریک پیش کرنے کی منظوری کے وقت اکثریت ثابت کرنا ضروری ہے، تحریک پیش کرتے وقت تمام 172 لوگ سامنے آ جائیں گے، تحریک پیش کرنے، ووٹنگ میں 3سے 7دن کا فرق بغیر وجہ نہیں، 7دن میں وزیراعظم اپنے ناراض ارکان کو منا سکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فواد چوہدری 28 مارچ کواعتراض کرتے تو کیا تحریک پہلے مسترد ہوسکتی تھی؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہوسکتی تھی ، تحریک عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی۔

    جسٹس مظہر عالم نے سوال کیا کہ اسپیکر نے قرار دیا تحریک منظور ہوگئی آپ کیسے چیلنج کرسکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہوسکتی تو کیس ہی ختم ہوگیا۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تحریک پیش کرنے کے حق میں 161 لوگوں نے ووٹ کیا تھا، 68 لوگ تحریک پیش کرنےکی منظوری، 100 مخالفت کریں تو کیا ہوگا؟ مجموعی رکنیت کی اکثریت ہو تو ہی تحریک پیش کرنے کی منظوری ہوسکتی ہے، آئین میں کہیں نہیں لکھا اکثریت مخالفت کرے تو تحریک مسترد ہوگی، تحریک پیش کرنے کی منظوری کا ذکر اسمبلی رولز میں ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 55 کے مطابق فیصلے ہاؤس میں موجود اراکین کی اکثریت سے ہوں گے ، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کورم 86 کا ہے 68 کی قرارداد آئی ،اسے 44 لوگ مسترد کر سکتے تھے۔

    جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اگر 68 سپورٹ کر رہے ہیں تو لیو گرانٹ ہونی چاہیے، 172 اراکین کی ضرورت تو ووٹنگ کے دن ہو گی، لیو گرانٹ اسٹیج پر 172 ارکان کی ضرورت نہیں، آرٹیکل55 کے تحت ایوان کے فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا لیوگرانٹ کے وقت 172ارکان چاہیے تو پھر بات اسوقت ہی ختم ہوگئی۔

    چیف جسٹس پاکستان کا مزید کہنا تھا کہ یہ انٹرل پروسیجرہے اس میں ہمیں نہیں جاناچاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ بعد میں اسمبلی توڑ دی  گئی، اگر سمبلی نہ توڑی جاتی تو اراکین مسئلے کا حل نکال لیتے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اسمبلی قرارداد کی موجودگی میں تحلیل نہیں ہو سکتی۔

    جسٹس عطا بندیال نے کہا میں بھی اسی سے متعلق آپ سے پوچھ رہا ہوں، اگر اسمبلی تحلیل نہ کی جاتی تو اس کا حل نکالا جا سکتا تھا، تحریک منظور کرنےکی اسپیکرنےرولنگ دیدی توبات ختم ہوگئی، اسپیکر کے وکیل نے کہا رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا تو کیس ختم ہوگیا، 3اپریل کو بھی وہی اسپیکر تھا اور  اسی کی رولنگ تھی، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اسمبلی کی تحلیل اصل مسئلہ ہےاس پرآپ کو سنناچاہتےہیں تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد نمٹانےکےبعدہی اسمبلی تحلیل ہوئی۔

    چیف جسٹس سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہے اسمبلی تحلیل اوراسپیکر رولنگ میں کتنےٹائم کافرق ہے، ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کامیاب ہو اور کام کرے، اٹارنی جنرل نے کہا سب سے بہتر بات یہ ہے کہ عوام کے پاس جایا جائے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اس معاملےمیں عدالت نتائج کونہیں دیکھ رہی، ہم نے قانون کو دیکھنا ہے، ہم نے آئینی معاملات کو دیکھنے ہیں۔

    اٹارنی جنرل نے کہا میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع نہیں کررہا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کہتے ہیں انتخابات ہی  واحد حل ہے، کوئی اورحل کیوں نہیں تھا؟ تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دنیا میں کہیں بھی اپوزیشن لیڈر وزیراعظم نہیں بنتا۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کئی ممالک میں بنتےہیں مگراپوزیشن لیڈر وزیراعظم بنےتوکام نہیں چلتا تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کسی رکن اسمبلی کو عدالتی فیصلےکے بغیر غدار نہیں کہا جا سکتا۔

    جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس میں کہا عدالت کو یہ نہیں دیکھنا کہ اس کے اثرات کیاہونگے ، پھر تو نظام چل نہیں سکے گا تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بالکل درست ہے میں رولنگ کی حمایت نہیں کر رہا ، ماضی میں آپ نے ایک اسمبلی توڑی اور وہ48 گھنٹے میں دوبارہ ٹوٹ گئی۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا اس لئے سب کو الیکشن میں جانا چاہیے، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا، عدالت نے آئین کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا میرا کنسرن نئے انتخابات کا ہے تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ قومی مفاد کو بھی ہم  نے دیکھنا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے مزید کہا اگر یہ اسمبلی بحال ہوتی ہے تو ہو سکتا ہے نہ چلے۔

    چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا ایک بات تو واضع نظر آ رہی ہے محترم کی رولنگ غلط ہے، ایک بات تو نظر آگئی رولنگ غلط ہے اب یہ بتائیں اگلا قدم کیاہوگا، اب آگے کیا ہونا ہے یہ دیکھنے والی بات ہے، آج اس کیس کو ختم کرینگے انشاءاللہ۔

    وقفے کے بعد سماعت شروع

    اسپیکر کی رولنگ کے خلاف ازخودنوٹس پر وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں دلائل کا دوبارہ آغاز کرتے ہوئے کہا عدالت نےبرطرف ملازمین کی نظرثانی مستردکرکےبحالی کاراستہ نکالا عدالت برطرف ملازمین کیس کی طرزپرراستہ بنائے۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ موقف ہے جوڈیشل اسٹیٹس مین شپ کاایک حالیہ فیصلے میں تذکرہ ہوا ، آج کی اسمبلی کا مینڈیٹ اپوزیشن کا نہیں بنتا، ایسا فیصلہ دیں کہ جوڈیشل ایکٹیو ازم کےبجائےاسٹیٹس مین شپ نظرآئے، جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا آج ڈالر 190 کو ٹچ کر رہا ہے۔

    اٹارنی جنرل نے مزید کہا عوام نے اپوزیشن کو مینڈیٹ نہیں دیا ، ایسا فیصلہ دین کہ جمہوریت کو استحکام حاصل ہو، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بطور شہری کہہ رہاہوں ہمیں مضبوط حکومت چاہیے ناکہ کمزور۔

    اٹارنی جنرل نے عدالت میں حاجی سیف اللہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا عوام کے پاس جانا ہی بہتر حل ہے ، تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سری لنکا میں بجلی اور دیگر سہولیات کیلئے بھی پیسہ نہیں بچا۔

    شہبازشریف روسٹرم پر آگئے

    سپریم کورٹ نے شہبازشریف کو روسٹرم پر بلالیا ، شہباز شریف نے عدالت میں کہا عام آدمی ہوں قانون کی بات نہیں کروں گا، میں کچھ گزارش کروں زیادہ بات مخدوم علی کرینگے، عدالت کا شکریہ کہ مجھے بات کا موقع دے رہی ہے۔

    شہباز شریف کا کہنا تھا کہ استدعا ہےرولنگ غلط تھی تو اللہ اور پارلیمنٹ کواگلےفیصلےکرنےدیں، ہماری تاریخ میں آئین کئی مرتبہ پامال ہوا، جو بلنڈر ہوئےان کی توثیق اور سزا نہ دیئےجانے کی وجہ سے یہ حال ہوا، عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے اور پارلیمنٹ کا عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے۔

    ن لیگی صدر نے کہا کہ دانستہ غلطیوں کو نظر انداز کیا گیا تومستقبل میں بھی یہ عمل دہرایا جائے گا، عدم اعتماد فیلڈ میں ہے تو ممبران کو ووٹ کا حق استعمال دیا جائے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ثریتی پارٹی کو جمہوریت میں فوقیت ہوتی ہے، ہم 184 کے تحت مقدمہ سن رہے ہیں۔

    جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ ہم نے قانون اور آئین کو دیکھنا ہے، بنیادی حقوق کےتحفظ کیلئےآرٹیکل184تھری کااختیاراستعمال کررہے ہیں ، 2013کے الیکشن میں آپ کی کتنی نشستیں تھیں؟اس آرٹیکل کےتحت عوام کامفاد مدنظر رکھا جاتا ہے ،ہم انسان ہیں اور حقائق بھی دیکھتے ہیں۔

    چیف جسٹس نے شہباز شریف سے مکالمے میں کہا کہ عدالت آپ کے وکیل مخدوم علی خان کوسن لیتی ہے، رولنگ کوختم کرکے دیکھیں گے آگے کیسے چلنا ہے ، سیاست پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے۔

    جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ اگر عدم اعتمادکامیاب ہو جاتی ہے تو الیکشن میں کتناوقت لگے گا ،عدم اعتماد اگر کامیاب ہوتی ہے تو اسمبلی کا کتنادورانیہ رہے گا؟ جس پر شہباز شریف نے کہا کہ ہم عوام کے مفاد میں اصلاحات کر کے شفاف الیکشن کرائیں گے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا مخدوم علی خان سے پہلے دو باتیں کرنا چاہتا ہوں، جن لوگوں نے موجودہ حکومت کو پلٹا ہے کیا وہ ان کو بخشے گی۔

    ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل

    ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب الجواب کا آغاز کرتے ہوئے کہا اٹارنی جنرل کا آخری بیان دھمکی آمیز ہے کہ کون کس کے ساتھ کیا کرےگا، کس کو سر پرائز دیا ،کون کس کونہیں بخشے گا یہ فضول باتیں ہیں، میں آئینی بات کروں گا اسوقت تک بھی کولیشن گورنمنٹ تھی۔

    جسٹس عطا بندیال نے کہا کہ آپ کا نئے الیکشن کا مطالبہ تھا مگراب برعکس بات کر رہے ہیں، پہلے آپ قبل از وقت انتخاب چاہتے تھے اب اس پرقائم نہیں رہے، جس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اب بھی ریفارمز کے بعد الیکشن چاہتی ہے، وزیراعظم نے سرپرائز دینے کا اعلان کیا تھا۔

    چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ سرپرائز پر اپنا فیصلہ واضح کر چکےہیں، وکیل مخدوم علی خان نے کہا عدالت سیاسی تقاریر پر نہ جائے۔

    جسٹس عطا بندیال نے سوال کیا آپ کےارکان کی تفصیل کیا ہے ، مخدوم علی نے بتایا کہ ٹوٹل177ہے اور2002سےابتک کولیشن حکومت ہی چل رہی ہے، معاشی حالات خراب ہیں اسٹاک مارکیٹ کریش ،ڈالر اوپر جارہا ہے ، سوال یہ ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا ہم سوالات کے جواب دینے بیٹھے ہیں، ن لیگی وکیل نے کہا حاجی سیف اللہ کیس عدالت کے سامنے ہے، کیس میں کسی ایک رکن نےبھی اسمبلی تحلیلی کوچیلنج نہیں کیاتھا، حاجی سیف اللہ کیس میں اسمبلی 1988 میں توڑی گئی۔

    مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ 3ماہ بعد کوئی رکن اسمبلی عدالات میں نہیں گیا ، فیصلہ اکتوبر میں آیا تب تک الیکشن شیڈول ہوچکا تھا ، اسمبلی کا ٹوٹنا ضیاالحق کے جہاز کے کریش کے بعد چیلنج ہوا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا بے نظیر بھٹو کیس کا فیصلہ کب ہوا؟ مخدوم صاحب اس نکتے کی بھی اتنی تیاری کر کے آگئے، جس پر مخدوم علی خان نے کہا مجھے اندازہ تھا حکومت بلآخر انتخابات کی طرف جائےگی،جانتا تھا کہ اسپیکر کی رولنگ کا دفاع کرنا ممکن نہیں، جی سر مجھے اندازہ تھا کہ یہ نکتہ آئے گا۔

    چیف جسٹس نے ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان کی تعریف کی ، وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہا حاجی سیف اللہ کیس امتیازی کیس ہے، یہ نہیں ہو سکتا رولنگ ختم ہو اسمبلی بحال نہ ہو، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ اس نقطہ پر لگتا ہے تیاری کرکے آئے ہیں۔

    ن لیگ کے وکیل کا کہنا تھا کہ سب نتیجے پر پہنچنے کے بعد رولنگ غلط ہے ، عدالت کو اس کے اثرات پر فیصلہ نہیں دینا چاہئے ، عدالتی فیصلے کے بعد کیا ہوتا ہے وہ سیاست ہے ، عدالت قومی اسمبلی کو بحال کرے۔

    مخدوم علی خان نے مزید کہا کہ وزیراعظم،صدر،اسپیکرکوآرٹیکل58کوغلط استعمال نہ کرنےدیاجائے، کیس میں اسپیکر نےآرٹیکل 95کی سنگین خلاف ورزی کی ہے، ان کو جانے دیاتو مستقبل میں بھی ایسے حالات دوبارہ سامنے آئیں گے، آئین اور اسکے ایکشن کومعزز عدالت کےججز نے دیکھنا ہے۔

    وکیل ن لیگ کا کہنا تھا کہ اگر انہیں اجازت دی گئی تو 3اسمبلیاں موجود ہیں ،ایک اسمبلی کایہ انتخاب کرا دیں گے جو فیئرہونا مشکل ہیں، صدر نے اسپیکر کی ملی بھگت سے سمری منظور کی۔

    جس پر چیف جسٹس نے وکیل ن لیگ سے مکالمے میں کہا کہ مخدوم صاحب ہم اس کیس کے میرٹ میں نہیں جا رہے، اپوزیشن کیخلاف سنگین الزامات ہیں،جانچ کرناعدالت کا کام نہیں ، آپ بہت سخت باتیں کر رہے ہیں ، سخت الفاظ استعمال کرنے سے گریز کریں، عدالت میرٹ پر جائےگی نہ ہی الزامات پرفیصلہ دے گی۔

    ہم غداری کے الزام کیساتھ الیکشن کیسے لڑیں گے؟ شہباز شریف

    شہباز شریف سوال کیا کیا ہم غداری کے الزام کیساتھ الیکشن کیسے لڑیں گے؟ ہم اس الزام کیساتھ گھر والوں کا سامنا نہیں کر سکتے،جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ غداری کا الزام جنہوں نے لگایا ہے وہ ثابت کریں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ رولنگ ختم ہوگئی تو الزام کیسے برقرار رہے گا؟ رولنگ ختم ہونے سے الزام ختم ہوجائے گا۔

    چیف جسٹس نے شہباز شریف سے مکالمے میں کہا ممکن ہےآپکا دل بڑا ہے مگروہ ہاتھ بھی ملانے کوبھی تیار نہیں، جس پر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ عمران نیازی سازش ثابت کر دے تومیں سیاست چھوڑ دوں گا۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مجھے کہا گیا عدالتی احاطےمیں سیاستدانوں کو بات کرنے پرپابندی لگادیں ، عدالت سےمتعلق بھی ناجائز باتیں کی جاتی ہیں جو افسوسناک ہے، وفاداری اور لادینیت سے ہمیں اب ہٹ جانا چاہیے، اگر ہم سچ بولیں تو یہ قوم کہاں سے کہا پہنچ جائے۔

    جسٹس عطا بندیال نے مزید کہا کہ سیاسی جماعتوں کا آپس میں تعلق اتنا خراب ہے ، پتا نہیں ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں، میاں صاحب وہ آپ سے ناراض رہتے ہیں ہاتھ نہیں ملاتے۔

    سپریم کورٹ نے اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس پر فیصلہ محفوظ کرلیا ، جو شام ساڑھے7بجے سنایا جائے گا۔

  • آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی بھی مثال نہیں ملتی: چیف جسٹس

    آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی بھی مثال نہیں ملتی: چیف جسٹس

    اسلام آباد : اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں پی ٹی آئی اور صدر مملکت کے وکلا نے نئے الیکشن کی تجویز دے دی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے۔۔ ن لیگ کے وکیل سے پوچھیں گے عوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں اسپیکر کی رولنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔

    دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل نے پنجاب اسمبلی کی صورتحال سےعدالت کوآگاہ کیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قومی اسمبلی میں 3 اپریل والے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں ، ہم نے دوسری سائیڈ کو سننا ہے ، یک طرفہ فیصلہ نہیں دینا چاہتے۔

    وکیل ن لیگ اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ لاہور میں حالات کشیدہ ہیں، ڈپٹی اسپیکر نے شام کو آج اجلاس بلایا تھا تاہم اسمبلی کا عملہ ڈپٹی اسپیکر کا حکم نہیں مان رہا، لگتا ہے آج بھی وزیراعلیٰ کا الیکشن نہیں ہو سکے گا۔

    چیف جسٹس نے کہا آج بہت اہم کیس سن رہے ہیں، کوشش ہے کہ مقدمہ کو نمٹایا جائے، سیاسی طور پر مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

    جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ عدالت پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ فیصلہ نہیں کر رہی، یکطرفہ فیصلہ کیسے دے سکتے ہیں؟ پنجاب کے حوالے سے فی الحال مداخلت نہیں کر رہے، کوئی مسئلہ ہے تو درخواست دیں، سماعت کے آخرمیں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے اپ ڈیٹ لیں گے۔

    پی ٹی آئی کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا ایم کیو ایم، ٹی ایل پی ،جماعت اسلامی کیس میں فریق نہیں، راہ حق اور باپ پارٹی بھی پارلیمان کا حصہ ہیں مگرفریق نہیں، ازخودنوٹس کی ہمیشہ عدالت کے اندر اور باہر حمایت کی ہے، عدالت کا مشکور ہوں کہ قوم پر مہربانی کرتے ہوئے نوٹس لیا۔

    بابر اعوان کا کہنا تھا کہ عدالت کو کہا گیا ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ بدنیتی پر مبنی ،غیرآئینی ہے، بدوسری طرف آرٹیکل 5 کے تحت انہیں غدار کہا گیا ہے ، درخواست گزاروں نے عدالت سے آرٹیکل 69،95 کی تشریح کی استدعا کی، جس پرچیف جسٹس نے کہا کہ کسی آرٹیکل کو علیحدہ نہیں دیکھ سکتے مگر آرٹیکل95 کا خاص مقصد ہے۔

    وکیل بابر اعوان نے مزید کہا کہ شہباز شریف نے پریس کانفرنس میں کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا ہے، درخواست گزارچاہتےہیں سلامتی کمیٹی کا حوالہ نظراندازکیاجائے، اپوزیشن چاہتی ہےعدالت انکےحق میں فوری مختصرحکم نامہ جاری کرے۔

    بابر اعوان نے سوال کیا کیاآئین پاکستان کا موازنہ بھارت، آسٹریلیا، انگلینڈ کے آئین سے کیا جاسکتا ہے؟ وہ ایک سجدہ جسے توگراں سمجھتا ہے ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کونجات، سیاسی جماعت جس کی مرکز،صوبے،کشمیر،جی بی میں حکومت ہے، یہ کہتے ہیں اس سیاسی جماعت کو نظر انداز کردیں۔

    پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل میں مزید کہا کہ درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے وہ جمہوریت بچانے آئے ہیں ، میرا یقین ہے اس مقدمےمیں کوئی نقطہ انداز نہیں ہوگا، کیا پارلیمنٹ کی تمام کارروائی آرٹیکل 69 کی زد میں نہیں ، حالیہ صورتحال سندھ ہاؤس اورلاہور کےہوٹل کی وجہ سے پیدا ہوئی۔

    بابر اعوان نے سوال کیا کہ کیا سندھ ہاؤس ،لاہورکےہوٹل میں جو ہوا اسےنظراندازکیاجاسکتاہے؟ ب کیس میں جس برطانوی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا وہ لاگو نہیں ہوتا، اراکین کے کردار پر قرآن و سنت ،مفتی تقی عثمانی کا نوٹ بھی دوں گا، اسپیکر کی رولنگ پر نعیم بخاری دلائل دیں گے۔

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہرشخص پر لازم ہے کہ آئین وقانون کی تابعداری کرے، ہر شخص آئین اور قانون کے تابع ہے، شہریوں پر لازم ہے کہ وہ ریاست کیساتھ وفادارہوں،جو باہر سے پاکستان آتے ہیں انہیں بھی حقوق حاصل ہیں ، دیگر ممالک کے آئین میں ایسے حقوق نہیں دیے گئے۔

    چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمے میں کہا آپ کیا یہ اسپیکرکی رولنگ کاپس منظر بیان کررہےہیں، جس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ جی جناب یہ ہی پس منظر ہے تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تو پھر آپ پر لازم ہے کہ اس کاحتمی نتیجہ بھی بتائیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں بظاہر الزامات ہیں کوئی فائنڈنگ نہیں، کیا اسپیکر حقائق سامنے لائے بغیر ایسی رولنگ دے سکتا ہے؟ یہی آئینی نقطہ ہے جس پر عدالت نے فیصلہ دینا ہے۔

    جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ کیا اسپیکر آرٹیکل95 سے باہر جاکر رولنگ دے سکتا ہے جو ایجنڈے پر نہیں، اسپیکر کی رولنگ کا دفاع لازمی کریں لیکن ٹھوس مواد پر۔

    بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ آپ کو 3راستے بتائے گئے ، جس پر چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمے میں کہا کہ راستے ہمیں نہ بتائیں راستے ہم خود نکل لیں گے، آپ حقایق بیان کریں۔

    اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بابر اعوان پرہی اعتراض کرتے ہوئے کہا آفیشل معاملات زیربحث لانا ہےتویہ سیاسی جماعت نہیں کہہ سکتی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا وفاقی کابینہ کی میٹنگ کب ہوئی تھی؟ جس پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ کابینہ اجلاس کی تاریخ معلوم کرکے بتاؤں گا، کیا کچھ باتیں ان کیمرا ہو سکتی ہیں؟ فارن آفس نے جو بریفنگ دی وہ عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فی الحال خط نہیں مانگ رہے۔

    چیف جسٹس نے بابر اعوان کی ان کیمرا بریفنگ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا فی الحال ایسا کچھ نہیں ہے کہ ان کیمرا سماعت کریں۔

    اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ رولنگ سے پڑھ دیں اس میں جو کچھ ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا اٹارنی جنرل کا نکتہ بھی صحیح ہے، ہم بھی فارن پالیسی کے معاملات میں نہیں پڑنا چاہتے، ہم بھی اسے یہاں ڈسکس نہیں کرناچاہتے ،آپ واقعات بتائیں۔

    وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ پی ڈی ایم جماعتوں نے معاملہ پارلیمان میں لانےکامطالبہ کیا، تمام سیاسی جماعتوں کو تحریری نوٹس دیے گئے، تفصیل میں گیا توآپ کہیں گے یہ اسپیکر کے وکیل کو کہنے دیں۔

    بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میں بات اشاروں میں بتا رہا ہوں، فلاں فلاں مسئلے پر وہ ملک اس ملک کے پرائم منسٹر سے ناراض ہے، اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو پھر سب ٹھیک ہے، تحریک عدم اعتماد اگر کامیاب نہ ہوئی تو پھرڈیش ڈیش ڈیش ، 8 مارچ کوتحریک عدم اعتماد آ جاتی ہے جس کا ذکر کہیں اور سے آیا۔

    پی ٹی آئی کے وکیل نے مزید کہا کہ اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی کا بائیکاٹ کیا، کمیٹی اجلاس کی تفصیل نعیم بخاری پیش کریں گے، مشیر قومی سلامتی نے پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ دی تھی، نیشنل سکیورٹی کونسل کی میٹنگ نےسفارتی احتجاج کا فیصلہ کیا، کونسل نے قرار دیا پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی گئی۔

    بابراعوان نےترجمان پاک فوج کی نجی ٹی وی سے گفتگو بھی پیش کر دی، جس میں ترجمان پاک فوج نےکہا جوقومی سلامتی کمیٹی میں کہاگیا وہی ہمارامؤقف ہے اور قومی سلامتی کمیٹی میٹنگ کےاعلامیہ سےمتفق ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کابینہ نے وزارت خارجہ کی بریفنگ پرکیا فیصلہ کیا؟ جس پر بابراعوان نے بتایا کہ مراسلے میں کہا گیا دوسرا ملک ہمارے وزیراعظم سے خوش نہیں، تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو کیا نتائج ہوں گے۔

    اٹارنی جنرل نے کہا مناسب ہوگا خارجہ پالیسی پربات کسی سیاسی جماعت کاوکیل نہ کرے، جتنا رولنگ میں لکھا ہواہےاتنا ہی پڑھا جائے تو مناسب ہوگا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ باتیں اسپیکر کے وکیل کو کرنے دیں جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کابینہ نے کیا فیصلہ کیایہ بتائیں۔

    جسٹس جمال کا کہنا تھا کہ سیکشن5کہتاہےہرآدمی کوریاست سے وفادار ہونا چاہیے جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ
    اگر کوئی وفادار نہیں ہے توایکشن لیاگیا ،اس الزام کے تحت تحریک کیسے مسترد کی جاسکتی ہے۔

    جس پر بابراعون نے بتایا کہ ہماری اسمبلی بھی پارلیمانی کمیٹیزکےذریعےچلائی جاتی ہے ، جسٹس جمال مندوخیل نے مزید کہا کہ کوئی شبہ نہیں ہر شہری کو ریاست کا وفادار ہوناچاہیے، جن پر الزام لگایا گیا ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا۔

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ حکومت نے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا، تحریک انصاف نے ارکان کیخلاف کارروائی کا فیصلہ کیا، پاکستان سب سے پہلے ہے،وزیر اعظم نےکابینہ میں احتیاط سے کام لیا، میں بھی احتیاط برت رہا ہو۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ بظاہریہ کیس الزامات کا ہے غلط ہیں یا درست تفصیل میں نہیں جاتے، آپ آرٹیکل 69 پر آتے ہیں تو ٹھیک ہے ، نہیں آتے تو آپ کی مرضی تو بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اتوار کو بھی عدالت کھلی ہم اس پر نہیں جاتے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہمارے شارٹ آرڈر میں پیراگراف 4اہم تھا، آپ ہمیں کسی اور طرف لیکر جا رہے ہیں، کیا معاملہ آرٹیکل 69 کا ہے کہ نہیں ؟ ہم نےفارن آئین پرانحصار کرنا ہے کہ نہیں کرنا یہ ہم نے دیکھنا ہے، ہم نے یہ کیس ختم کرنا ہے، اس کیس میں تاخیر ہمارے لئے مسئلہ بن رہا ہے۔

    جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم میں اہم چیزڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی آئینی حیثیت تھی، ہم اسپیکر کی رولنگ اور آرٹیکل 69 پر بات کرنا چاہتے ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ واقعاتی شواہد دے رہے ہیں کہ یہ ہوا تو یہ ہوگا، ان واقعات کو انفرادی شخصیات سےکیسے لنک کریں گے۔

    جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے وزیر اعظم کچھ نہیں جانتے ، ابھی تحقیق ہورہی ہے، جس پر بابر اعوان نے کہا کہ وزیر اعظم جو جانتے ہیں ملک کے مفاد میں نہیں بول رہے ، وزیر اعظم تفتیشی نہیں ہیں تفتیش تو کوئی تفتیش کار ہی کرے گا،بابر اعوان

    جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ڈپٹی اسپیکرنے رولنگ میں بھی کہ تفتیش کی ضرورت ہے، بابر اعوان کا کہنا تھا کہ میمو کیس ابھی بھی زیر التواہے، جس پر چیف جسٹس نے مکالمے میں کہا کہ وہ ہمیں معلوم ہے۔

    وکیل پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ اسپیکر کا معاملہ ہے تو پھر پہلے انکے وکیل کو بات کرنے دیں، وزیراعظم کو جو علم ہے وہ ملکی مفاد میں بولنا نہیں چاہتے، وزیراعظم تفتیش کار نہیں اس لئے یہ کام متعلقہ لوگوں کو کرنے دیا جائے، حقائق متنازع ہوں تو اسکی تحقیقات ضروری ہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ بابر اعوان صاحب آگے چلیں ،یہ چیزیں ایک لائن میں بتا دیں، آپ اپنا پوائنٹ پڑھ لیں پھر ہم اوکے کہہ دیں گے، جس پر بابراعوان کا کہنا تھا کہ ملکہ نے کہا اجلاس ختم کریں ، برطانوی سپریم کورٹ نے کہا کوئی پارلیمانی اجلاس ملتوی نہیں کراسکتا ، پارلیمان اپنے ہاؤس کی خود ماسٹر ہوتی ہے، آرٹیکل 95کے مطابق کہاں لکھا ہےاسپیکر رولنگ نہیں دے سکتا۔

    بابر اعوان نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا جو نہیں لکھا وہ پڑھ نہیں سکتے، آرٹیکل 94 کےتحت صدروزیراعظم کو نئی تعیناتی تک کام کا کہہ سکتے ہیں، کہاں لکھا ہے کہ تحریک عدم اعتماد واپس نہیں لی جا سکتی؟ یہ کہاں لکھا ہے کہ اسپیکر تحریک عدم اعتماد پر رولنگ نہیں دے سکتا؟ اگر کہیں لکھا نہیں ہوا تو اسے عدالت پڑھ بھی نہیں سکتی ، رولز بذات خود کہتے ہیں موشن کوووٹنگ کےعلاوہ بھی نمٹایا جاسکتا ہے۔

    جس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے لیو گرانٹ کرنے سے پہلے کر سکتے ہیں تو بابر اعوان کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد نمٹانے تک اجلاس مؤخر نہیں ہو سکتا، چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا عدم اعتماد کو ووٹنگ کےعلاوہ بھی نمٹایاجا سکتا ہے؟

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدم اعتماد کو پیش کرنے کی منظوری سے پہلے نمٹایا جا سکتا ہے ، جس پر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی رولز کو آرٹیکل 95 کیساتھ ملا کر ہی پڑھا جا سکتا ہے ، اجلاس میں اسپیکر کو اختیار ہے کہ وہ کوئی اور بزنس بھی لے سکتا ہے، آپ اجلاس ریگولیٹ کرنے کی بات کررہے ہیں۔

    جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ آپ یہ بتائیں اسپیکرنےجوکیااسےاختیار حاصل تھایانہیں، جس پر بابراعوان نے بتایا کہ پارلیمان کے اپنے رولز ہیں وہ کوئی قانونی چارہ جوئی کاادارہ نہیں، اسپیکرکی عدم موجودگی میں ڈپٹی اسپیکرفرائض سرانجام دیتے ہیں، اسد قیصر کیخلاف 3اپریل کو مرتضیٰ عباسی نےتحریک عدم اعتمادجمع کرائی۔

    وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ پشتون کلچر میں غیرت مندی سب سے اوپر ہوتی ہے، اسپیکر نےتحریک عدم اعتماد آنے پر ہی اجلاس کی صدارت نہ کرنے کا فیصلہ کیا، قانونی طور پر اسپیکر اجلاس کی صدارت کرنے کے اہل تھے۔

    جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ اسپیکر مرضی سے اجلاس میں نہ آئے تو غیرحاضر نہیں کہا جا سکتا، تو بابر اعوان نے کہا کہ رولز میں لکھا ہے اسپیکر کسی وجہ سے نہ ہو تو ڈپٹی اسپیکر صدارت کریں گے۔

    جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر اپنی مرضی سے نہیں بیٹھے ، مگر رولز کے مطابق صرف نوٹس پراسپیکر پر پابندی عائدنہیں ہوتی ، ڈپٹی اسپیکر رولز کے تحت اجلاس کرسکتے ہیں اپنی مرضی سے نہیں تو بابر اعوان نے کہا اس کا جواب ڈپٹی اسپیکر کے وکیل دیں گے۔

    بابر اعوان کا دلائل میں کہنا تھا کہ ایم این اے نےٹی وی پر کہا کہ ہارس ٹریڈنگ ہوئی ،ممبرز خریدے گئے، ایک وکیل نے کہا چھانگا مانگا نہیں رہا، اب سندھ ہاؤس ، آواری چلے گئے ، جس ادارے کے اندر یہ ایکسرسائز ہو رہی وہ اصول اور ضابطے بتاتا ہے، ذوالفقاربھٹوآئین دینےکے بعد سولی پر لٹکا تھا، وہ بھی ریفرنس زیر التوا ہے۔

    عدالت نے استفسار سیاست میں مداوا کیا ہوتی ہے؟ وکیل پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ سیاست میں مداواعوام کے پاس جانا ہوتا ہے۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس میں کہا کہ سیاسی جماعتوں کوبھی سوچنا چاہئے لوگ کیوں چھوڑ کر جارہے ہیں، آرٹیکل 63 اے یہی مداوا دے رہا ہے، جبکہ چیف جسٹس نے بابر اعوان سے مکالمے میں کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ مستقل نااہل کریں، سیاستدان کیا کر رہے ہیں یہ توسیاسی مسئلہ ہے سیاسی جماعت دیکھے۔

    بابر اعوان کا کہنا تھا کہ پی پی چیئرمین نے بھی کہا ہے کہ وہ الیکشن کیلئے تیار ہیں، الیکشن کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا، انڈیا ، بنگلادیش نے ای وی ایم کاراستہ نکالامگر ہم نہیں مانتے، یہاں سے راستہ بنناہے تو میں سعادت سمجھتا ہوں کہ تاریخ کا حصہ بنوں، ڈیڈلاک روکنے کیلئےآپ نےازخود نوٹس لیا اورکہا ماورائےآئین کام نہیں ہوگا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وہی چہرے ہر بار ایک سے دوسری جگہ نظر آتے ہیں،آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہے، وہ فیصلہ کریں گے جوعوام کے مفاد اور سب کوماننا لازم ہوگا۔

    پی ٹی آئی کے وکیل نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا فیصلہ ادھر آئے یاادھر ملک متاثر ہو گا ، نگران وزیر اعظم کےانتخاب میں دو دن رہ گئے ہیں اللہ اس ملک پر راضی رہے آپ پر راضی رہے ، راستہ نتخابات ہے میری بس یہی گزارش ہے۔

    بابر اعوان کے بعد صدر مملکت کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر کے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا صدر مملکت کے اقدام کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا ، اس معاملے کاحل نئے الیکشن ہی ہیں۔

    صدر کی جانب سے آرٹیکل 184 تھری کے تحت درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھایا گیا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا
    ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے دلائل کا آغاز کروں گا، آرٹیکل 69 عدالت اور پارلیمان کے درمیان حد مقرر کرتا ہے، آرٹیکل 69 آگ کی دیوار ہے ، عدالت اس دیوار کو پھلانگ کر پارلیمانی کارروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی۔

    علی ظفر کا کہنا تھا کہ ہمارا آئین پارلیمنٹ اورعدلیہ کے درمیان ایک حد قائم کرتا ہے ،اگر اس حد کو پارکیا جائے تو تباہی ہو گی اور عوام متاثر ہو گی ، پارلیمنٹ عدالت کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرتی ،عدالت پارلیمنٹ کی کارروائی میں مداخلت نہیں کرسکتی۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جہاں آئین کہ خلاف ورزی ہو وہاں بھی مداخلت نہیں کی جاسکتی؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ پروسیجر اور آئینی خلاف ورزی میں فرق کرنا پڑے گا ، ڈپٹی اسپیکرکی رولنگ کیخلاف عدالت سے رجوع پارلیمنٹ میں مداخلت ہے، اسپیکر کو ہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دینا ہوگا جوغیرآئینی ہے۔

    جسٹس عطا بندیال نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرےکیاتب بھی مداخلت نہیں ہوسکتی؟ علی ظفر کا کہنا تھا کہ کیا غیر آئینی ہے اور کیا نہیں اس پر بعد میں دلائل دوں گا ، جسٹس مقبول باقر نے ریٹائرمنٹ پر اداروں میں توازن کی بات کی تھی، باہمی احترام سے ہی اداروں میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے ، پارلیمنٹ کو اپنے مسائل خود حل کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔

    جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا وزیراعظم کا انتخاب پارلیمانی کارروائی کا حصہ ہوتا ہے؟ جس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 91 کے تحت وزیراعظم کا انتخاب پارلیمانی کارروائی کا حصہ ہے، عدالت کو اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ لینے کا اختیار نہیں ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا وزیراعظم کی اسمبلی تحلیل ایڈوائس کا جائزہ لے سکتے ہیں؟ صدر کے وکیل نے بتایا کہ اسمبلی تحلیل ایڈوائس رولنگ کے نتیجے میں ہے تو جائزہ نہیں لیا جاسکتا، اسمبلی سے باہر کا جائزہ لے سکتے ہیں مگر پارلیمنٹ کارروائی بنیاد پر نہیں۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا مطلب ہے کہ رولنگ ریورس نہیں کر سکتے، جس پر علی ظفر نے کہا جی رولنگ ریورس نہیں ہو سکتی، آرٹیکل 5نہ ہو توبھی ہرشہری آئین پر عملدرآمد کا پابند ہے۔

    جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ درخواست گزاروں کے مطابق آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی ہے، یہ کہتے ہیں آئینی خلاف ورزی پر پارلیمانی کارروائی کا جائزہ لیا جاسکتا ہے، عدالت اختیارات کی آئینی تقسیم کا مکمل احترام کرتی ہے۔

    وکیل علی ظفر نے دلائل میں کہا کہ عدالت نےمداخلت کی تو پارلیمنٹ کا ہر معاملہ عدالت آجائے گا، اسپیکر کوہدایات دراصل پارلیمنٹ کو ہدایات دیناہوگاجوغیرآئینی ہے۔

    چیف جسٹس نے صدر کے وکیل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کا نکتہ دلچسپ ہے کہ اسپیکر رولنگ غلط ہو توبھی اسے استحقاق ہے، رولنگ کے بعد اسمبلی تحلیل کرکے انتخابات کا اعلان کیا گیا، عوام کے پاس جانے کا اعلان کیا گیا ہے، ن لیگ وکیل سے پوچھیں گے عوام کے پاس جانے میں کیا مسئلہ ہے؟

    جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ الیکشن میں جانے سےکسی کے حقوق کیسے متاثر ہو رہے ہیں؟ جسٹس مندوخیل نے بھی استفسار کیا
    کیا صدر نے وزیر اعظم سے اسمبلی توڑوانے کی وجہ پوچھی۔

    بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ وزیراعظم ایڈوائس کرے تو صدر اسمبلیاں تحلیل کر دیتا ہے، اسمبلی اس کے لیے کوئی خاص وجہ بتانا ضروری نہیں ہوتی، وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر کیلئےعمل کرنا ضروری ہے وجہ پوچھنا نہیں۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 69 اپنی جگہ لیکن جو ہوا اس کی بھی کوئی مثال نہیں ملتی، اگر اسے ہونے دیا گیا تو اس کے بہت منفی اثرات ہوسکتےہیں ، ہم اس کیس کو جلد از جلد نمٹانا چاہتے ہیں، جس پر وکیل علی ظفر نے کہا میں جلد ہی اپنے دلائل مکمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

    جسٹس عطا بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ بیرسٹر صلاح الدین نے کل ہٹلر والی غلط مثال دی تھی، ہٹلر دور میں جرمن پارلیمنٹ ، حکومت رولنگ کے ذریعےبرقرار رہی تھی، موجودہ کیس میں عوام سے اپیل کی گئی جس میں کوئی برائی نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا آمر کبھی الیکشن کا اعلان نہیں کرتا۔

    وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ روزے کی وجہ سے انرجی ڈاؤن ہے آج دلائل نہیں دےسکوں گا، جس کے بعد اٹارنی جنرل اور نعیم بخاری کی کل دلائل دینے کی استدعا کی، چیف جسٹس نے کہا وقت کم ہے اس لئے کوشش ہے مقدمہ جلدی نمٹایا جا سکے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بظاہر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے جارہی تھی، جس دن ووٹنگ ہونا تھی اس دن رولنگ آگئی، ہماری کوشش ہےمعاملےکو جلد مکمل کیا جائے۔

    جسٹس عطا بندیال کا کہنا تھا کہ عدالت کل اعظم نذیر تارڑ کی درخواست کو دیکھے گی، کل فیصلہ کریں گے ہم نے آپ کو یہاں سنیں یا ہائی کورٹ کے پاس بھیجیں، آپ کو اپنے مسائل کا خود حل نکالنا چاہیے۔

    چیف جسٹس پاکستان نے مزید کہا کہ کل لارجر بینچ صبح ساڑھے 9 بجے بیٹھے گا، ہم نے کوشش کی روٹین کے مقدمات متاثر نہ ہوں، اب وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔

    سپریم کورٹ میں اسپیکر رولنگ ازخود نوٹس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

  • اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس: آج ہی فیصلہ دینا ممکن نہیں، دوسرے فریق کوسننا ضروری ہے، عدالتی ریمارکس.

    اسلام آباد : سپریم کورٹ نے اسپیکر کی رولنگ پر ازخود نوٹس کیس میں  پیپلزپارٹی کی فل کورٹ بنانےکی استدعا مسترد کردی ، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے آج ہی فیصلہ دینا ممکن نہیں، دوسرے فریق کوسننا ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں تحریک عدم اعتماد پر اسپیکر کی رولنگ سےمتعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس عطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے سماعت کی۔

    ڈاکٹر بابر اعوان روسٹرم پر آئے اور کہا میں تحریک انصاف کی وکالت کر رہا ہوں اور 21 مارچ 2022 کا حکم نامہ عدالت میں پڑھنا چاہتا ہوں۔

    جس پر چیف جسٹس نے کہا آج ہم کوئی مناسب حکم جاری کریں گے، ہم قومی اسمبلی کی کارروائی کو ہی صرف دیکھیں گے، آج ہم کوئی دوسرا معاملہ نہیں سن رہے آپ ریلیکس کریں۔

    بابر اعوان نے کہا عمران خان نے ہدایت دی عدالت کو کہوں پی ٹی آئی الیکشن میں جانےکوتیارہے، جس پر چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ آپ یہ سیاسی بیان دے رہے ہیں، ہم یہاں صرف آئینی معاملہ دیکھ رہے ہیں۔

    جسٹس عطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے صرف 2درخواستیں اورازخود نوٹس ہے،چیف جسٹسدیگر کسی کیس کو آج نہیں سن رہے۔

    دوران سماعت وکیل نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔

    پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے وکیل فارق ایچ نائیک نےدلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کردی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ عدالت کے سامنے آئینی سوالات لائیں ، عدالت بہتر سمجھے گی توفل کورٹ بنانے دیں گے ، فل کورٹ تشکیل دینے سے دیگر کام متاثر ہوں گے۔

    چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ آپ کو اس بینچ پر مکمل اعتماد نہیں توبتائیں، جس پر پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ بینچ پر مکمل اعتماد ہے۔

    جسٹس عطا بندیال نے کہ تو پھر آپ دلائل شروع کریں یہ بینچ مقدمے کی سماعت کر رہا ہے، قومی اسمبلی میں جو ہوا اس کی آئینی، قانونی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔

    فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پرکوئی اعتراض اٹھایا نہیں جا سکتا، جس پر چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے سوال کیا کہ آپ کو اس بینچ پر مکمل اعتماد نہیں توبتائیں ہم اٹھ جاتے ہیں تو فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ بینچ پر مکمل اعتماد ہے۔

    فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ 8 مارچ کوعدم اعتماد کیساتھ اجلاس کی ریکوزیشن بھی جمع کرائی گئی، اسپیکراجلاس بلانے کے 14 دن کے اندر اجلاس بلانے کا پابندتھا۔

    جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے وجہ ہمیں معلوم ہے ، غلط یا درست لیکن وجہ تو معلوم ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ کا کیس یہ نہیں ہے جو آپ بیان کر رہے ہیں ، آپ اپنے کیس پر بات کریں۔

    وکیل پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرین کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے 22 مارچ کو اجلاس بلانا تھا جس پر عملدرآمد نہیں ہوا، 21 مارچ کو بلایا جانیوالا قومی اسمبلی کا اجلاس25 کو بلایا گیا اور 25مارچ کو اجلاس بلا کر اسے 28 تاریخ تک ملتوی کیا گیا۔

    جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ جب قرارداد ایوان میں پیش ہو جائےتب ہی وقت شروع ہوتا ہے ، تین دن کے بعد اور سات روز سے قبل ووٹنگ ہونی ہے۔

    جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اکثریت عدم اعتمادقراردادکی مخالفت کردے تو آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ ختم ہوجائے گی؟ کیا آرڈر آف دی ڈےتب جاری ہوتےہیں جب اسمبلی اجلاس چل رہاہو، کیا اسپیکر کو اسمبلی اجلاس بلانا ہوتا ہے ؟

    جسٹس منیب اختر نے مزید استفسار کیا کیا 10 مارچ آرڈرز آف دی ڈے جاری کرنے کا نہیں، کیا 10 مارچ آرڈرز سرکولیٹ کرنے کا دن تھا ؟

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اس کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ
    آپ کا کیس اجلاس بروقت بلانےکا نہیں ہے۔

    جسٹس منیب اختر نے مزید کہا کہ اسپیکر نے اجلاس تاخیر سے بلانےکی وجوہات بھی دی تھیں، وجوہات درست تھیں یانہیں اس پر آپ مؤقف دے سکتے ہیں۔

    فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے 25 مارچ کو اجلاس بلایا، تین اپریل کو ووٹنگ ہونی تھی ، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا 3اپریل ووٹنگ کیلئے رکھ لیا گیا بغیر قرارداد پر بحث کرائے ؟

    جسٹس منیب نےکہا کہ عدم اعتماد تحریک پیش ہونےکی اجازت پر 7 دن کی معیاد ہوتی ہے ، ممبران کی اکثریت کہتی ہے تحریک پیش نہ ہو تو کیا ، تحریک کی وقعت نہیں،؟ اکثریت 100ممبران کی ہے اور 50 کہتے ہیں تحریک پیش ہو، 50ممبران کہتے ہیں تحریک پیش نہ ہو تو کیا تحریک پیش ہوگئی، اگر اسپیکر عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت نہ دیں پھر کیا ہوگا۔

    فاروق نائیک نے بتایا کہ اسپیکر نے قرار داد کی اجازت دیکر معاملےپر 3 اپریل تک اجلاس ملتوی کیا، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ معذرت چاہتا ہوں، چھوڑیں یہ سب، مقدمے کے حقائق پر آئیں۔

    فاروق ایچ نائیک نے مزید کہا کہ اسپیکر ہاؤس میں قرار داد پیش کرنے کی اجازت دیتا ہے، ہاؤس میں قرار داد پیش ہونے کے بعد ہاؤس اجازت دیتا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی نے نہ بحث کرائی اور نہ ہی ووٹنگ کرائی۔

    چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ووٹنگ نہیں ہوئی یہ توہمیں معلوم ہے، ووٹنگ سے پہلے عدم اعتماد پر بحث ہوتی ہے، جس پر فاروق نائیک نے کہا کہ عدم اعتماد پر بحث کی اجازت ہی نہیں دی گئی۔.

    سٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیابحث کی تاریخ مختص نہ کرنے پر اعتراض کیا تو فاروق نائیک نے کہا ہم تو صرف بٹن دبا سکتے ہیں، اجلاس شروع ہوا تو فواد چوہدری نے آرٹیکل 5 کے تحت خط پرسوال کیا، فوادچوہدری نےپوائنٹ آف آرڈرپرڈپٹی اسپیکرنےرولنگ جاری کردی۔

    عدالت نے استفسار کیا کیا تحریک عدم اعتمادپیش کرنےکی اجازت اسپیکر دیتا ہے کہ ایوان، اسپیکر کا اختیار ہے کہ وہ تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے ؟اگر اسپیکر تحریک پیش کرنے کی اجازت نہ دے تو پھر کیا ہوتا ہے۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا 3 اپریل کا دن اجلاس تحریک پر بحث کا موقع دینے کے بجائے مقرر کیا گیا ،؟ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لئے کونسا دن دیا ، تحریک عدم اعتماد پر براہ راست ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے۔

    جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کرنے کی اجازت نہیں دی ، 31مارچ کو تحریک عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی ، 30مارچ کو اجلاس 3اپریل تک ملتوی کردیا گیا، 27 مارچ کو عمران خان نے جلسےمیں غیر ملکی خط لہرایا ، عمران خان نے الزام لگایا اپوزیشن غیرملکی سازش کاحصہ ہے، 31مارچ کو نیشنل سیکورٹی کونسل اور کابینہ کا اجلاس ہوا۔

    جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیا آپ نے اسپیکر سے تحریک پر بحث کرانے کی درخواست کی تو فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ
    اسپیکر نے اختیارات سے تجاوز کر کے آئینی بحران میں دھکیل دیا۔

    چیف جسٹس نے ایک بار پھر کہا کہ عدالت کو حقائق سے آگاہ کریں تو فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ گزشتہ روز فواد چوہدری نے بیرون ملک سے موصول خط پر تقریر کی ، 31مارچ کو رولنگ میں بھی تحریک پر بحث کا نہیں کہاگیا ، عمران خان نے 27 مارچ کو عوامی جلسے میں ایک کی سازش سے آگاہ کیا۔

    چیف جسٹس نے استفسار کیا 7دن کی میعاد کب ختم ہوئی؟ فاروق ایچ نائیک نے بتایا کہ یہ ہی وجہ تھی 3اپریل کا انتخاب کیا گیا، 3اپریل کا بھی پورا دن موجود تھا لیکن اسے استعمال نہیں کیا گیا۔

    جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ کس رول کے تحت دی ہے ؟ چیف جسٹس نے کہا اجلاس میں 31 مارچ کو بحث ہونا تھی، فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ 7دن میں ووٹنگ ہونا تھا، 4 اپریل آخری دن بنتا تھا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 3مارچ کو بحث ہوتی تو 4 اپریل کو بھی ووٹنگ ہو سکتی تھی، جس پرفاروق نائیک نے بتایا کہ 3 اپریل کو ووٹنگ کیلئے اجلاس بلایا گیا تھا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل95میں بحث نہیں صرف ووٹنگ کا ذکرہے تو فاروق نائیک نے کہا فواد چوہدری کے پوائنٹ آف آرڈر پر بحث بھی ہوسکتی تھی، اسپیکر کو معلوم تھا غیر قانونی قدم ہے اس لئے وہ موجودنہیں تھے۔

    جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ رول 28 کے تحت اسپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے، اسپیکر رولنگ ایوان میں یا اپنے آفس میں فائل پر دے سکتا ہے، کیا اسپیکر اپنی رولنگ واپس لے سکتا ہے؟

    فاروق نائیک نے کہا کہ رولنگ واپس لینے کے حوالے سے اسمبلی رولزخاموش ہیں، ایوان میں اگر کوئی سوال اٹھتا ہے تو اس پر ایوان میں بحث لازمی ہے۔

    جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کےسوال پر بحث نہ کرانا پروسیجرل غلطی ہوسکتی ہے، وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نہیں یہ پروسیجرل ایشونہیں ہے۔

    جس پر جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیا ڈپٹی اسپیکر کو رولز کےمطابق ایسی رولنگ دینے کا اختیار ہے، میرا ذاتی خیال ہے رولنگ کا اختیار صرف اسپیکر کا ہے کسی اور کا نہیں، ڈپٹی اسپیکررولز کے مطابق اسپیکر کی عدم موجودگی میں اجلاس کو چلاتا ہے، میرے خیال میں ڈپٹی اسپیکر کو ایسی رولنگ دینے کا اختیار نہیں تھا۔

    فاروق نائیک نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر صرف اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، قائمقام اسپیکر کیلئے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوتا ہے، جس خط کا ذکر ہوا وہ اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا ، ڈپٹی اسپیکرنے رولنگ کے ذریعے اپوزیشن اراکین کوغدار ڈکلیئر کردیا۔

    فاروق نائیک نے مزید بتایا کہ اپوزیشن کے198 ارکان پر غیر ملکی سازش کا الزام لگایا گیا، 175اپوزیشن جبکہ باقی پی ٹی آئی کے منحرف اراکین تھے، جس پرجسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ کون کس پارٹی سےتھا اس پر کیوں وقت ضائع کر رہے ہیں؟ تو فاروق نائیک نے کہا تمام اراکین کو ملک دشمن قرار دیا گیا۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کیا ووٹنگ کیلئے اجلاس بلا کر عدم اعتماد پررولنگ دی جا سکتی ہے؟ تحریک عدم اعتماد پر فیصلہ ووٹنگ سےہی ہونا ہوتا ہے، جس پر فاروق نائیک نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد 3منٹ سے بھی کم وقت میں مسترد کر دی گئی۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا قانونی نقطے پر بات کریں یہ جذباتی گفتگو ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کس طرح غیرآئینی ہے یہ بتائیں۔

    وکیل فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ اسپیکراورڈپٹی سپیکر کو عدم اعتماد مسترد کرنے کا اختیار نہیں، تحریک عدم اعتماد پرووٹنگ کےدن اسکی حیثیت پرفیصلہ نہیں ہو سکتا، تحریک کے قانونی ہونے کا فیصلہ ووٹنگ کیلئے مقرر ہونے سے پہلے ہوسکتا ہے، ڈپٹی اسپیکرتحریک عدم اعتمادپررولنگ دینےکیلئےبااختیارنہیں تھے۔

    جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ رولنگ قواعد کیخلاف تھی توبھی کیا اسے آئینی استثنیٰ حاصل نہیں ہوگا؟ چیف جسٹس عمرعطابندیال نے ریمارکس دیے کہ آپکا نقطہ ہےعدم اعتماد پرووٹنگ فکس تھی، آپ کا کہنا ہے ووٹنگ پرفکس ہونے کے بعد عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی، میں یہ پوائنٹ نوٹ کرنے دیں۔

    جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کیا پروسیجرل غلطی آرٹیکل 69 میں کور نہیں ہو گی، پارلیمان کی کارروائی کو آئینی تحفظ حاصل ہوتا ہے، چیف جسٹس نے بھی استفسار کیا کہ وہ کون سے اسٹیج ہیں جہاں اسپیکر قرارداد کی ویلیڈیٹی دیکھ سکتا ہے؟

    جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کیا رولنگ آئینی بے ضابطگی ہے یا قواعد کی؟ فاروق نائیک نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد پر رولنگ آئین کیخلاف ہے، قرارداد کو آرٹیکل 95 اے کی خلاف ورزی پر ہی چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یعنی آپکےمطابق اسپیکر کے پاس گراؤنڈ نہیں تھا کہ وہ قرارداد ختم کر سکے، یعنی آپ کے مطابق اسپیکر کا یہ عمل بدنیتی پر مبنی ہے، اسپیکر نے رولنگ میں آرٹیکل 5 کا سہارا لیا، وکیل پی پی نے کہا آرٹیکل 5 کے سہارے بھی عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی، تحریک عدم اعتماد منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ایوان کا ہے،

    چیف جسٹس نے استفسار کیا آرٹیکل 69 کا دائرہ اختیار کیا ہوگا ؟ غیر قانونی،غیر آئینی اقدام ، بد نیتی سےمتعلق عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیں۔

    فاروق نائیک نے آرٹیکل 69 کے دائرہ اختیار سے متعلق 4 عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا، اعظم نذیر نے کہا 177اراکین ایوان میں تھے،پی ٹی آئی کے منحرف اراکین شامل نہیں۔

    چیف جسٹس نے کہا اب میرا خیال ہے مخدوم علی خان کو سن لیتے ہیں، دو گھنٹے تو شاید نائیک صاحب کو سن چکے ہیں، آرٹیکل 69 سے متعلق عدالتی سوال واضح ہے۔

    چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ میں اپوزیشن کو دعوت تھی لیکن شرکت نہ کی، پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں سارا معاملہ رکھا گیا تھا،اس سوال کا جواب تمام اپوزیشن جماعتوں کی وکلا نے دینا ہے۔

    فاروق نائیک کا کہنا تھا کہ رولنگ دینے سے پہلے اپوزیشن کا موقف نہیں سنا گیا، تمام اپوزیشن ارکان کو غداری کا ملزم بنا دیا گیا، محب وطن ہونے اور مذہب کے کارڈز سے جمہوریت باہر نہیں نکل سکی، جس پر جسٹس منیب اختر نے سوال کیا پارٹی سے انحراف کرنے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عدالت عجلت میں فیصلہ نہیں کر سکتی ، معاملہ انتہائی اہم اور آئینی معاملے کا ہے، جس پر
    فاروق نائیک نے کہا کہ کیس میں 2 اہم ایشوہیں ایک عدم اعتماد، دوسرا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا، عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل قومی اسمبلی تحلیل نہیں ہوسکتی تھی، نگران وزیراعظم آنے تک صدر نے وزیراعظم کو کام جاری رکھنے کا کہہ دیا۔

    چیف جسٹس نے سوال کیا کہ رضاربانی اور مخدوم علی خان کتنا وقت لیں گے؟ جس پر مخدوم علی خان نے بتایا کہ دونوں کوملا کر ایک گھنٹہ لگ جائے گا تو فاروق نائیک نے کہا تمام نظریں عدالت پرہیں آج ہی سماعت مکمل کریں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اہم آئینی نقطہ ہےجس پرفیصلے کے دوررس نتائج ہونگے، دوسرے فریق کوسننا ضروری ہے تاکہ فیصلہ ہوجائے، آج ہی سن کر فیصلہ دینا ممکن نہیں۔

    سپریم کورٹ میں اسپیکرکی رولنگ سےمتعلق ازخودنوٹس پر سماعت کل 12 بجے تک ملتوی کردی گئی۔