Tag: اسکندریہ

  • قدیم شہر اسکندریہ، یوسف کمبل پوش اور حبشہ کا مصطفیٰ!

    قدیم شہر اسکندریہ، یوسف کمبل پوش اور حبشہ کا مصطفیٰ!

    تیرھویں تاریخ فروری سنہ 1838ء کے جہاز ہمارا شہر اسکندریہ میں پہنچا۔

    جہاز سے اتر کر مع دوست و احباب روانہ شہر ہوا۔ کنارے دریا کے لڑکے عرب کے گدھے کرائے کے لیے ہوئے کھڑے تھے۔ ہر وضع و شریف کو ان پر سوار کر کے لے جاتے۔ ہر چند ابتدا میں اس سواری سے نفرت ہوئی، لیکن بموجب ہر ملکے و ہر رسمے آخر ہم نے بھی گدھوں کی سواری کی اور سرا کی راہ لی۔

    گلی کوچے تنگ اور راہی بہت تھے۔ اس لیے لڑکے گدھے والے آگے بجائے بچو بچو کے یمشی یمشی پکارتے، لوگوں کو آگے سے ہٹاتے، نہیں تو گزرنا اس راہ سے دشوار تھا۔ بندہ راہ بھر اس شہر کا تماشا دیکھتا چلا۔ کنارے شہر کے محمد علی شاہ مصر کے دو تین مکان بنائے ہوئے نظر آئے۔ ایک قلعہ قدیمی تھا، وہیں اس میں توپیں ناقص از کارِ رفتہ پڑیں۔ محمد علی شاہ بادشاہ مصر کا ہے۔ بہتّر برس کی عمر رکھتا ہے۔ بہت صاحبِ تدبیر و انتظام ہے، جہاز جنگی اس کے پُراستحکام۔ صفائی اور سب باتوں میں مثلِ جہازِ انگریزی۔ مگر افسر و جہاز کی پوشاک نفاست میں بہ نسبت جہازیوں انگریزی کے کم تھی۔ عقلِ شاہ مصر پر صد ہزار آفریں کہ ایسی باتیں رواج دیں۔ غرض کہ دیکھتا بھالتا گدھے پر سوار سرا میں پہنچا۔ اسباب اُتارا۔ پھر سیر کرنے کنارے دریا کے آیا۔

    کپتان ملریز جہاز کے سے ملاقات ہوئی۔ اس نے نہایت اشتیاق سے یہ بات فرمائی کہ آؤ میں نے ذکر تمھارا یہاں کے بڑے صاحب سے کیا ہے اور تمھاری تلاش میں تھا۔ بندہ بپاسِ خاطر اُن کی ہمراہ ہو کر بڑے صاحب کی ملاقات کو گیا۔ بڑے صاحب اور میم اُن کی نے نہایت عنایت فرمائی اور وقت شام کے دعوت کی۔ بندے نے قبول کر کے مان لی۔ بعد اس کے صاحب موصوف سے یہ غرض کی کہ میں ارادہ رکھتا ہوں یہاں کے مکانوں اور عجائبات کو دیکھوں۔ کوئی آدمی ہوشیار اپنا میرے ساتھ کیجیے کہ ایسے مکانات اور اشیائے عجیب مجھ کو دکھلاوے۔ انھوں نے ایک آدمی رفیق اپنا میرے ساتھ کیا۔ نام اس کا مصطفیٰ تھا کہ یہ شخص اچھی طرح سے سب مکان تم کو دکھلائے گا۔

    میں نے مصطفیٰ کے ساتھ باہر آ کر پوچھا۔ وطن تیرا کہاں ہے اور نام تیرا کیا۔ اس نے کہا وطن میرا حبش ہے اور نام مصطفیٰ۔ ہندی زبان میں بات کی۔ مجھے حیرت تھی کہ رہنے والا حبش کا ہے اردو زبان کیونکر جانتا ہے۔ پھر اس نے چٹھی نیک نامی اپنی کی دکھلائی۔ اُس میں تعریف چستی اور چالاکی اُس کی لکھی تھی کہ یہ شخص بہت کار دان اور دانا ہے۔ ساتھ ہمارے ہندوستان، ایران، توران، انگلستان، فرانسیس میں پھرا ہے۔ میں نے چٹھی دیکھ کر اُس سے حال لندن کا پوچھا کہ آیا وہ شہر تجھ کو کچھ بھایا۔ کہا وصف اُس کا ہرگز نہیں قابلِ بیان ہے۔ فی الواقعی وہ ملکِ پرستان ہے۔ جن کا میں نوکر تھا انھوں نے لندن میں تین ہزار روپے مجھ کو دیے تھے۔ میں نے سب پریزادوں کی صحبت میں صرف کیے۔ یہ سن کر ہم سب ہنسے اور اُس کے ساتھ باہر آئے۔

    وہ باہر نکل کر دوڑا۔ عرب بچّوں کو جو گدھے کرائے کے اپنے ساتھ رکھتے، دو چار لات مکّے مار کر اپنے ساتھ مع تین گدھوں تیز قدم کے لایا۔ مجھ کو اور ہیڈ صاحب اور پرنکل صاحب کو ان پر سوار کر کے چلا اور گدھوں کو ہانک کر دوڑایا۔ اتنے میں ہیڈ صاحب کا گدھا ٹھوکر کھا کر گرا اور ہیڈ صاحب کو گرایا۔ وہ بچارے گر کر بہت نادم اور شرمندہ ہوئے۔ مصطفیٰ نے دو تین کوڑے اس گدھے والے کو مارے، وہ بلبلا کر زمین پر گرا۔ زمیں کا چھلا اچھل کر ہیڈ صاحب کے کپڑوں پر پڑا۔ وہ بہت ناخوش ہوئے اور جس سرا میں اترے تھے، پھر گئے۔ میں نے مصطفیٰ سے کہا اس قدر ظلم و بدعت بے جا ہے۔ کہا قومِ عرب بد ذات اور شریر ہوتے ہیں، بغیر تنبیہ کے راستی پر نہیں آتے۔ میں نے کہا تم بھی اسی قوم سے ہو، انھیں کی سی خلقت رکھتے ہو۔ جواب دیا اگرچہ وطن میرا بھی یہی ہے مگر میں نے اور شہروں میں رہ کر خُو یہاں کی سَر سے دور کی ہے۔ پھر میں نے مصطفیٰ سے کہا میرا قصد ہے حمام میں نہانے کا۔ وہ ایک حمام میں لے گیا، اندر اس کے حوض بھرا پانی کا تھا۔ راہِ فواروں سے پانی بہتا۔ کئی تُرک کنارہ اُس کے بیٹھے لطف کر رہے تھے۔ کوئی قہوہ، کوئی چپک پیتا۔ بندہ نے موافق قاعدہ مقرر کے وہاں جا کر کپڑے نکالے۔ پانچ چھے حمامی مالشِ بدن میں مشغول ہوئے۔ اپنی زبان میں کچھ گاتے جاتے مگر مضامین اس کے میری سمجھ میں نہ آتے۔ جب وہ ہنستے، میں بھی ہنستا، جب وہ چپ رہتے، میں بھی چپ رہتا۔ میں نے کہا مصطفیٰ سے کہ ان سے کہہ دے موافق رسم اس ملک کے بدن ملیں۔ کسی طرح سے کمی نہ کریں، ان رسموں سے مجھ کو پرہیز نہیں۔ مذہب سلیمانی میں ہر امر موقوف ہے ایک وقت کا۔ ایک وقت وہ ہوا کہ میں جہاز میں میلا کچیلا تھا۔ ایک وقت یہ ہے کہ نہا رہا ہوں۔ میں ان کو راضی کروں گا خوب سا انعام دوں گا۔ انھوں نے بموجب کہنے کے بدن خوب سا ملا اور اچھی طرح نہلایا۔

    بعد فراغت کے ایک اور مکان میں لے گئے۔ اس میں فرش صاف تھا۔ گرد اُس کے تکیے لگے، اس پر بٹھلا کر پوشاک پہنائی۔ مجھ کو اُس سے راحت آئی۔ بعد ایک دم کے تین لڑکے خوب صورت کشتیاں ہاتھ میں لے کر آئے۔ ایک میں قہوہ، دوسرے میں شربت، تیسرے میں قلیاں چپک رکھ لائے۔ فقیر نے شربت اور قہوہ پیا۔ حقہ چپک کا دَم کھینچا۔ پھر ایک خوشبو مانند عطر کے مانگ کر لگائی۔ بتیاں اگر وغیرہ کی جلائی۔ حمام کیا بجائے خود ایک بہشت تھا۔ دل میں خیال آیا اگر شاہدِ شیریں ادا غم زدہ ہو، یہ مقام غیرت دہِ روضۂ رضواں کا ہو۔

    دو گھڑی وہاں ٹھہرا، پھر باہر نکل کر کئی روپے حمامیوں کو دے کر بڑے صاحب کے مکان پر آیا۔ نام ان کا ٹن بن صاحب تھا۔ کپتان صاحب جنھوں نے میری تقریب کی تھی وہ بھی موجود تھے۔ جا بجا کی باتیں اور ذکر رہے۔ بعد اس کے میں نے ٹن بن صاحب سے پوچھا کہ یہاں افسران فوج سے تمھاری ملاقات ہے یا نہیں۔ انھوں نے کہا، آگے مجھ سے ان سے بہت دوستی تھی مگر ان کی حرکتوں سے طبیعت کو نفرت ہوئی۔ اس واسطے ان سے ملاقات ترک کی۔ اکثر وہ لوگ میرے مکان پر آ کر شراب برانڈی پیتے اور چپک کے اتنے دم کھینچتے کہ مکان دھویں سے سیاہ ہوتا۔ لا چار میں نے ان سے کنارہ کیا۔ اے عزیزانِ ذی شعور! اگر جناب رسول مقبول اجازت شراب نوشی کی دیتے، یہ لوگ شراب پی کر مست ہو کر کیا کیا فساد برپا کرتے۔ باوجود ممانعت کے یہ حرکتیں کرتے ہیں۔ اگر منع نہ ہوتا خدا جانے کیا فتنہ و غضب نازل کرتے، لڑ لڑ مرتے۔ چنانچہ راہ میں اکثر تُرک دیکھنے میں آئے۔ قہوہ خانوں میں شراب بھی ہوتی ہے اُس کو لے کر پیتے تھے۔

    دوسرے دن گدھے پر سوار ہو کر شہر کا تماشا دیکھنے گیا۔ آدمیوں کو میلے اور کثیف کپڑے پہنے پایا۔ اکثروں کو نابینا دیکھا۔ سبب اُس کا یہ قیاس میں آیا کہ اس شہر میں ہوا تند چلتی ہے، مٹی کنکریلی اُڑ کر آنکھوں میں پڑتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ وہاں کے اپنی اولاد کی ایک آنکھ یا اگلے دانت بخوفِ گرفتاریٔ نوکری فوج محمد علی شاہ کے پھوڑ توڑ ڈالتے ہیں۔ اس عیب سے نوکری بادشاہی سے کہ بدتر غلامی سے ہے، بچاتے ہیں۔ لباس وہاں کے لوگوں کا میرے پسند نہ آیا۔ کثیف اور کالا مانند لباس مشعلچیوں کے تھا۔ قواعد پلٹنوں کی دیکھی، مثل قواعد فوج انگریزی کے تھی۔ ہر ایک سپاہی کے کندھے پر بندوق فرانسیسی۔ سب جوان، جسیم اور موٹے مگر قد و قامت کے چھوٹے۔ کپڑے پرانے، سڑیل پہنے۔ افسر اُن کے بھی ویسے ہی کثیف پوش تھے۔ اگر ایسے لوگ توانا اور قوی فوجِ انگریزی میں ہوں، بادشاہِ روئے زمین کے مقابلہ میں عاجز ہوں اور زبوں۔ مگر یہاں خرابی میں مبتلا تھے، کوئی کسی کو نہ پوچھتا۔

    کوئی شخص نوکری فوجِ شاہی میں بخوشی نہیں قبول کرتا ہے۔ شاہِ مصر زبردستی نوکر رکھتا ہے اس لیے کہ خوفِ مضرت و ہلاکت و قلتِ منفعت ہے۔ لوگ اپنی اولاد کو عیبی کرتے ہیں یعنی آنکھ یا دانت توڑتے ہیں تا کہ نوکریِ سپاہ سے بچیں۔ نوکر ہونے کے ساتھی دائیں ہاتھ پر سپاہی کے بموجب حکمِ شاہی کے داغ دیا جاتا ہے۔ پھر عمر بھر اُسی نوکری میں رہتا ہے، ماں باپ عزیز و اقربا کے پاس نہیں جا سکتا ہے۔ چھاؤنی فوج کی مانند گھر سوروں کے مٹّی اینٹ سے بنی۔ ہر ایک کوٹھری میں سوا ایک آدمی کے دوسرے کی جگہ نہ تھی۔ اونچاؤ اُس کا ایسا کہ کوئی آدمی سیدھا کھڑا نہ ہو سکتا۔ کھانے کا یہ حال تھا کہ شام کو گوشت چاول کا ہریسہ سا پکتا، طباقوں میں نکال کر رکھ دیتے۔ ایک طباق میں کئی آدمیوں کو شریک کرکے کھلاتے۔

    خیر بندہ تماشا دیکھتے ہوئے باہر شہر کے گیا۔ ایک گورستان دیکھا۔ اُس میں ہزاروں قبریں نظر آئیں۔ دیکھنے والے کو باعثِ حیرت تھیں۔ میں نے لوگوں سے پوچھا اس قدر زیادتیِ قبروں کا سبب کیا۔ دریافت ہوا کہ یہاں اکثر وبا آتی ہے، ہزاروں آدمیوں کو ہلاک کرتی ہے۔ مکینوں کی اُسی سے آبادی ہے۔ اسکندریہ آباد کیا ہوا اسکندر کا ہے۔ وقت آباد کرنے کے ایک بڑا سا پتھر کھڑا کیا تھا۔ اب تلک قائم اور کھڑا ہے۔ راہوں اور کوچوں میں تنگی ہے۔ اس سبب سے بیشتر وبا آتی ہے۔ آدمی وہاں کے مفلس و پریشان اکثر تھے۔ بعضے راہ میں فاقہ مست اور خراب پڑے ہوئے مثلِ سگانِ بازاری ہندوستان کے، دیکھنے اُن کے سے سخت تنفّر ہوا۔ آگے بڑھا، ایک اور پرانا تکیہ دیکھا، وہاں فرانسیسوں نے محمد علی شاہ کی اجازت سے قبروں کو کھودا ہے۔ مُردوں کو شیشہ کے صندوق میں رکھا پایا ہے۔ ظاہراً ہزار دو ہزار برس پہلے مُردوں کو شیشے کے صندوقوں میں رکھ کے دفن کرتے تھے۔ نہیں مردے صندوقوں میں کیوں کر نکلتے۔ اگرچہ عمارت اُس شہر کی شکستہ ویران تھی۔ مگر آبادی زمانۂ سابق سے خبر دیتی۔ کئی وجہوں سے ثابت ہوتا کہ یہ شہر اگلے دنوں میں پُر عمارت اور خوب آباد ہوگا۔ اس واسطے کہ جا بجا اینٹ کا اور پتھر کا نشان تھا۔ زمین کے نیچے سے اکثر سنگِ مرمر نکلتا۔ ان دنوں کئی مکان، کوٹھی فرانسیسوں اور انگریزوں کے خوب تیّار ہوئے ہیں۔ سو اُن کے اور سب مکان ٹوٹے پھوٹے ہیں۔

    (تاریخِ یوسفی معروف بہ عجائباتِ فرنگ از یوسف خان کمبل پوش سے انتخاب، یہ سفر نامہ 1847 میں شایع ہوا تھا)

  • وہ عظیم خاتون ریاضی دان، جو سیاسی و مذہبی اختلاف کی بھینٹ چڑھ گئی

    وہ عظیم خاتون ریاضی دان، جو سیاسی و مذہبی اختلاف کی بھینٹ چڑھ گئی

    یہ سنہ 415 عیسوی کا زمانہ ہے، عظیم رومی سلطنت رفتہ رفتہ اپنے زوال کی جانب بڑھ رہی ہے، سلطنت کے رومی صوبے کے شہر اسکندریہ کی گلیوں میں خوف اور بے یقینی کے سائے ہیں۔

    صوبے کے گورنر اور مقامی بشپ (پادری) کے درمیان سیاسی اختلافات عروج پر ہیں، ایک دوسرے پر حساس نوعیت کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں، اور اس کا نتیجہ مذہبی فسادات کی صورت میں نکل رہا ہے۔

    اختیارات کے حصول کے لیے نظریاتی اختلاف سے شروع ہونے والا یہ جھگڑا، شہر کی ایک معروف شخصیت پر جادو ٹونے کے الزام پر ختم ہوا اور اس کا بھیانک نتیجہ اس شخصیت کی مشتعل مسلح پادریوں کے ہاتھوں بہیمانہ موت کی صورت میں نکلا۔

    یہ شخصیت اس وقت کی ایک معروف فلسفی، مدبر اور استاد ہائپشیا تھی جو یہ مقام اور حیثیت حاصل کرنے والی اس دور کی واحد عورت تھی۔

    ہائپشیا نے جو کچھ تحریر کیا وہ محفوظ نہ رہ سکا، چنانچہ اس کے شاگردوں اور ہم عصروں نے اس کے بارے میں جو لکھا، اس سے علم ہوتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ پائے کی ریاضی دان، ماہر نجوم، اسکالر اور فلسفی تھی۔

    اس وقت یہ مقام کسی اور عورت کو حاصل نہ تھا، ہائپشیا نے اس وقت کے معاشرے کے مروجہ روایتی صنفی اصولوں سے بغاوت کر کے یہ مقام حاصل کیا تھا۔ اس کے نظریات اور سوچ اس وقت سے کہیں آگے کے تھے، اور ستم ظریفی دیکھیئے کہ اپنے نظریات اور علم ہی کی وجہ سے اسے ایسی دردناک موت نصیب ہوئی، کہ اس کے بعد علم و فنون کا مرکز شہر اسکندریہ بنجر ہوگیا۔


    سنہ 355 (سے 360 کے درمیان) اسکندریہ میں، جو اس وقت رومی سلطنت کا اہم شہر اور علم و ادب اور تخلیقی سرگرمیوں کا مرکز تھا، یونانی ریاضی دان تھیان کے گھر ایک بچی نے آنکھ کھولی۔

    تھیان ایک ریاضی دان اور ماہر نجوم تھا جبکہ اس کی بیوی ایک عام روایتی گھریلو عورت تھی، تاریخ اس کے نام سے بھی واقف نہیں۔

    ہائپشیا تھیان کی اکلوتی اولاد تھی چنانچہ تھیان نے اسے نہایت ناز و نعم سے پالا اور خود اس کی تعلیم و تربیت کی۔ بلوغت کی عمر تک پہنچتے پہنچتے ہائپشیا ریاضی اور علم نجوم کی مہارت میں اپنے والد کو بھی پیچھے چھوڑ چکی تھی۔

    اس کی ذہانت اور مختلف علوم پر مہارت نے جلد ہی اسے شہر میں مقبول کردیا، اور بالآخر وہ شہر کی سب سے بڑی درسگاہ کی سربراہ بنا دی گئی۔ وہ اس عہدے تک پہنچنے والی واحد عورت تھی۔

    بعد ازاں وہ شہر کی شوریٰ کی رکن بھی رہی۔

    وہ درسگاہ جس نے دنیا کی دانشورانہ تاریخ کا تعین کیا

    اس عظیم درسگاہ میں دوران تدریس ہائپشیا نے نئے انداز سے تعلیم دینا شروع کی۔ اس نے اس وقت استعمال ہونے والے سائنسی آلات و اصولوں میں جدت پیدا کی، ریاضی کی تقسیم مرکب (لانگ ڈویژن) کے لیے مؤثر طریقہ تیار کیا اور جدید اصولوں پر وضع کردہ ریاضی کی کئی کتابیں لکھیں۔

    تاہم مؤرخین کا ماننا ہے کہ علمی و ادبی طور پر ہائپشیا کی سب سے بڑی خدمت اس کا انداز تدریس تھا۔

    وہ فلسفہ جس کی تعلیم ہائپشیا نے دی، ارسطو، افلاطون، پلوٹینس اور فیثاغورث کے فلسفیانہ ورثے سے اخذ شدہ تھا۔ ان نظریات نے باہم ایک مکتبہ فکر تشکیل دیا جس کو نو افلاطونیت یا نیو پلیٹنزم کہا جاتا ہے۔

    اس کے ماننے والے مفکرین کے لیے ریاضی ایک روحانی پہلو کی حامل تھی، جو چار شاخوں میں منقسم تھی، یعنی علم اعداد یا ریاضی، جیومیٹری، فلکیات اور موسیقی۔

    ان مضامین کا مطالعہ صرف اس لیے نہیں کیا جاتا تھا کہ انہیں پڑھا جائے اور ان کا عملی استعمال کیا جائے، بلکہ ان مضامین نے اس عقیدے کی تصدیق کی تھی کہ اعداد دراصل کائنات کی مقدس زبان ہیں۔

    الجبری فارمولوں اور ہندسی اشکال کے نمونوں، سیاروں کے مداروں، اور موسیقی کی آوازوں کے ہم آہنگ وقفوں میں ان مفکرین نے ایک عقلی کائناتی قوت کو روبہ عمل دیکھا۔

    طلبا اس منظم دنیا پہ غور و فکر کرتے اور ایک اعلیٰ وحدانی قوت کے ساتھ جڑنے اور اسے جاننے کی کوشش کرتے۔

    دنیا کے دور دراز حصوں سے یہودی اور عیسائی مذہب کے ماننے والے طلبا، اور وہ بھی جو کسی مذہب کے پیروکار نہیں تھے، اس درسگاہ میں آتے اور یہاں علم کے موتیوں اور ہائپشیا کی دانشورانہ صحبت سے فیض یاب ہوتے۔

    ہائپشیا اس وقت کسی مذہب کی ماننے والی نہیں تھی، اور نہ وہ کسی دیوتا کی عبادت کرتی تھی۔ اس کے خیالات مختلف مذہبی نکتہ نظر کا مجموعہ تھے، چنانچہ کٹر مذہبی افراد اسے ملحد قرار دیتے تھے۔

    اس نے وہاں ایک غیر جانبدار اور مذہبی ہم آہنگی رکھنے والا ماحول پروان چڑھایا تھا جہاں سب ایک دوسرے کے مذہب، نظریات اور خیالات کا احترام کرتے، اور نہایت سکون سے رہتے۔

    دوسری طرف درسگاہ سے باہر شہر میں مذہبی و سیاسی رسہ کشی عروج پر تھی، سلطنت میں حال ہی میں عیسائیت کو سرکاری مذہب کا درجہ دیا گیا تھا۔

    شہر کے سیاسی حالات

    سنہ 415 عیسوی میں شہر کا مقامی بشپ سرل اپنے عہدے پر براجمان ہوتے ہی اپنے اختیارات کے ذریعے سیاسی طاقت حاصل کرتا جارہا تھا۔ وہ ایک کٹر مذہبی بشپ تھا چنانچہ اس نے عیسائی پادریوں کی باقاعدہ ملیشیا تیار کرلی اور انہیں یہودی آبادیوں اور ایسے مقامات پر حملے کرنے کا حکم دے دیا جہاں کسی مذہب کے نہ ماننے والے یا معتدل خیالات کے حامل افراد اپنی رسومات انجام دیتے تھے۔

    بشپ سرل کے اپنے اختیارات سے تجاوز کی کوششیں صوبے کے گورنر اوریسٹس کے عہدے کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ اوریسٹس معتدل خیالات رکھنے والا شخص تھا تاہم سرل مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دے رہا تھا اور اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

    عام لوگ بھی دو حصوں میں تقسیم دکھائی دیتے تھے۔

    ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے دونوں جانب سے اب تک کئی انتہا پسندانہ اقدام اٹھائے جا چکے تھے، ایک بار بشپ نے گورنر کے قتل کے ارادے سے ایک راہب کو اس کے پیچھے روانہ کیا، گورنر اس وقت ایک عوامی تقریب میں شرکت کے لیے جارہا تھا۔

    گورنر کے محافظوں اور حامیوں نے اس راہب کا ارادہ جان کر اسے پکڑ لیا جس کے بعد گورنر کی ہدایت پر اسے مجمعے نے تشدد کا نشانہ بنایا، بعد ازاں اس راہب کی موت واقع ہوگئی۔

    سرل نے اس راہب پر لگائے گئے تمام الزامات سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ گورنر نے اپنے بغض میں اس پر تشدد کروایا۔ کہا جاتا ہے کہ سرل نے اس راہب کو ایک عظیم مقصد اور اپنے نظریات کے لیے جان دینے والا شہید قرار دیا جس کے بعد اس کی آخری آرام گاہ مقدس مقام میں بدل گئی۔

    اس اقدام نے گورنر اور اس کے حامیوں میں مزید بے چینی پیدا کردی۔

    ہائپشیا اس جھگڑے میں کیونکر شامل ہوئی؟

    اس وقت ہائپشیا شہر میں ایک غیر جانبدار، مدبر اور ساتھ ہی با اثر شخصیت کے طور پر جانی جاتی تھی، اس کے کئی شاگرد اعلیٰ گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور اب ان میں سے اکثر مختلف حکومتی عہدوں پر براجمان تھے۔

    گورنر ہائپشیا سے ملا اور اس سے مشورہ طلب کیا، ہائپشیا نے اسے صبر اور تحمل سے کام لینے کی ہدایت کی۔

    بعض مؤرخین کے مطابق ہائپشیا نے گورنر کو اپنے مؤقف پر سختی سے ڈٹے رہنے کی ہدایت کی جس سے گورنر کو شہ ملی، ورنہ وہ سرل سے مذکرات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ شہر کی ایک نمایاں شخصیت اور اس کے ذریعے اعلیٰ طبقے کی حمایت کے بعد گورنر نے مصالحت کا ہر ارادہ مؤخر کردیا۔

    اس دوران کئی بار دونوں کے آدمی آپس میں گتھم گتھا بھی ہوئے جن میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

    ایک دن ایسے ہی ایک مسلح ٹکراؤ میں جب پادریوں کی ملیشیا نے گورنر کے قافلے پر حملہ کیا، تو گورنر شدید زخمی ہوگیا، گورنر کے آدمیوں کے تشدد سے ایک اور راہب ہلاک ہوا۔

    چونکہ شہر میں کچھ روز قبل گورنر اور ہائپشیا کی ملاقات کی بازگشت تھی تو اس بار سرل نے ہائپشیا کو بھی اس جھگڑے میں شامل کرلیا۔ سرل نے اسے حالیہ واقعے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ہائپشیا جادو گرنی ہے اور اس نے جادو ٹونے کے ذریعے گورنر کو عیسائیت سے متنفر کردیا ہے۔

    اب شہر میں ہائپشیا کے خلاف بھی نفرت کی آگ بھڑکائی جانے لگی، اور پھر وہ دن آ پہنچا جس دن وحشت و بربریت کی خونی تاریخ رقم ہوئی۔

    سنہ 415 عیسوی میں ایک روز جب ہائپشیا اپنے رتھ پر شہر کے اندر سفر کر رہی تھی، جنونی مسلح پادریوں نے اس کا گھیراؤ کرلیا۔ اسے رتھ سے گھسیٹ کر قریبی چرچ میں لے جایا گیا اور مذہبی جنونیوں نے بہیمانہ تشدد کر کے اسے ہلاک کردیا۔

    مؤرخین کا کہنا ہے کہ اس کی بے حرمتی بھی کی گئی جبکہ لاش کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر کے جلا دیا گیا۔

    ہائپشیا کی دردناک اور بہیمانہ موت اسکندریہ کی سیاست کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئی، گورنر اوریسٹس نے دلبرداشتہ ہو کر اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور شہر چھوڑ کر چلا گیا۔

    شہر کی تخلیقی و کشادگی کی فضا پر بے یقینی کے سائے چھانے لگے تو ہائپشیا کی درسگاہ بھی آہستہ آہستہ خالی ہونے لگی، مختلف شہروں سے وہاں آئے ہوئے یونانی و رومی اسکالرز شہر چھوڑ کر جانے لگے اور جلد ہی شہر اسکندریہ جو علم و ادب کا گہوارہ تھا، اپنی حیثیت کھو بیٹھا۔

    مؤرخین کا کہنا ہے کہ اقتدار اور سیاست پر مبنی اس جھگڑے میں ہائپشیا جیسی دانشور، فلسفی اور استاد کی موت، اور وہ بھی ایسی بہیمانہ موت عظیم رومی سلطنت کی تاریخ کا وہ سیاہ باب ہے، جس نے اس عظیم الشان سلطنت کی تخلیقی اور دانشورانہ تاریخ کو گہنا دیا ہے۔


    اس مضمون کی تیاری کے لیے مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئی:

    Britannica.com

    Greekreporter.com

    National Geographic / History and Culture

    تصاویر بشکریہ:

    TED-Ed

  • اسکندریہ: کیا دو ہزار سال پرانے تابوت سے سکندرِ اعظم کی باقیات نکل آئیں؟

    اسکندریہ: کیا دو ہزار سال پرانے تابوت سے سکندرِ اعظم کی باقیات نکل آئیں؟

    اسکندریہ: مصر کے شہر اسکندریہ سے دو ہزار سال پرانا تابوت بر آمد ہو گیا، ماہرین آثارِ قدیمہ میں اس حوالے سے سنسنی پھیل گئی کہ کیا اس میں سکندرِ اعظم کی باقیات دفن ہوں گی؟

    تفصیلات کے مطابق رواں ماہ کی پہلی تاریخ کو مصری ماہرین نے اسکندریہ میں ایک سیاہ رنگ کی گرینائٹ کا تابوت دریافت کیا، آثارِ قدیمہ کی وزارت کے مطابق مذکورہ مقبرہ سکندرِ اعظم کے دوست اور جنرل بطلیموس کے دور سے تعلق رکھتا ہے۔

    تابوت کی دریافت کے بعد مقامی آبادی میں اس بات کے حوالے سے سنسنی پھیل گئی تھی کہ کیا اس میں سے سکندرِ اعظم کی ’ممی‘ نکلے گی؟ ماہرین کے مطابق اسے دو ہزار سال بعد انھوں نے پہلی بار کھولا۔

    تابوت کھولنے سے قبل لوگوں میں یہ خوف بھی پھیل گیا تھا کہ کہیں اس میں سے کوئی ایسی قدیم مصری قوت نہ بر آمد ہو جو دنیا کو پھر سے تاریک دور کی طرف لے جائے۔

    وزارتِ آثار قدیمہ نے تابوت کھولنے کے لیے فوج کی خدمات حاصل کیں اور آس پاس علاقے کو احتیاطاً خالی کروایا، تابوت کھلنے پر اس میں سے تین ڈھانچے بر آمد ہوئے جو تیز سرخ رنگ کے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔

    مصر: ساحل پرعجیب الخلقت مخلوق اچانک نمودار، شہری خوفزدہ

    سرخ رنگ کے پانی کو دیکھ کر علاقے میں افواہیں پھیل گئیں کہ ’ممی جوس‘ میں طبی یا مافوق الفطرت خصوصیات موجود ہیں، تاہم ماہرین نے خبر دار کیا یہ پارہ ہے جو لمحوں میں موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے۔

    محکمۂ آثارِ قدیمہ کے سیکریٹری جنرل مصطفیٰ وزیری نے کہا ‘تابوت کے اندر سے تین لوگوں کی ہڈیاں نکلیں، یہ بہ ظاہر ایک خاندان کی مشترکہ قبر لگتی ہے۔ ممیاں اچھی حالت میں نہیں ہیں اور صرف ان کی ہڈیاں بچی ہیں۔’


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بغداد: اسکندریہ میں دھماکہ،29افرادہلاک،70سےزائد زخمی

    بغداد: اسکندریہ میں دھماکہ،29افرادہلاک،70سےزائد زخمی

    بغداد: عراقی شہراسکندریہ میں دھماکے کےنتیجے میں انتیس افرادہلاک درجنوں زخمی ہوگئے، یمنی شہر عدن میں تین خود کش دھماکوں میں چھبیس افراد ہلاک ہوگئے۔

    عراقی حکام کا کہنا ہے کہ دارالحکومت بغداد کے قریبی شہراسکندریہ میں فٹبال میچ کے بعد دھماکہ ہوا، پولیس کےمطابق خودکش حملہ آور نے اُس وقت اپنے آپ کو دھماکہ خیز مواد سے اڑایا جب میچ ختم ہونے کے بعد انعامات تقسیم کیے جارہے تھے۔

    غیرملکی میڈیانےدعویٰ کیا ہے کہ دھماکے میں شہرکے میئرسمیت کم از کم انتیس افرادہلاک ہوگئے،خود کش دھماکے میں ستر سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے جنہیں فوری طبی امداد کیلئے قریبی اسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

    شدت پسندتنظیم داعش نےدھماکےکی ذمہ داری قبول کرلی ہے، دوسری جانب یمنی شہرعدن میں تین خودکش دھماکوں میں چھبیس افرادہلاک ہوگئے، عدن دھماکوں کی ذمہ داری داعش نےقبول کرلی۔