Tag: اشرف صبوحی

  • نیازی خانم

    نیازی خانم

    اردو زبان بالخصوص دلّی کے لوگوں کا لب و لہجہ اور روزمرّہ کا لطف ہی اور ہے۔ عرصے تک دہلی اور لکھنؤ نے اُردو کو بڑا سنوارا نکھارا۔ لہٰذا ان شہروں کی زبان ٹکسالی کہلاتی تھی۔ یہاں کے باشندوں کا لہجہ اور روزمرّہ سند کا درجہ رکھتا تھا۔ اسی شہر کے تھے اشرف صبوحی جن کے قلم سے کوئی تحریر نکلی ہو تو اس کا کیا ہی کہنا۔

    اشرف صبوحی نے ایک ادیب، مترجم اور صحافی کے طور پر خوب نام و مقام بنایا۔ انھوں نے مشہور و معروف شخصیات کے خاکے، اپنے دور کے واقعات، اور گلی محلّے کے بعض‌ عام لوگوں‌ کی زندگی اور اُن کے طور طریقوں کو نہایت پُرلطف انداز میں اردو میں‌ اس قرینے سے لکھا ہے جس کی مثال آج شاذ ہی دی جاسکتی ہے۔

    یہ ایک ایسی ہی عام عورت کا کردار ہے جو دلّی کے ایک گھرانے کی فرد تھیں۔ نام ان کا مصنّف نے نیازی خانم بتایا ہے اور ان کے بچپن کی شوخیوں اور شرارتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ملاحظہ کجیے۔

    "اللہ بخشے نیازی خانم کو عجیب چہچہاتی طبیعت پائی تھی۔ بچپن سے جوانی آئی، جوانی سے ادھیڑ ہوئیں۔ مجال ہے جو مزاج بدلا ہو۔ جب تک کنواری رہیں، گھروالوں میں ہنستی کلی تھیں۔ بیاہی گئیں تو کِھلا ہوا پھول بن کر میاں کے ساتھ وہ چُہلیں کیں کہ جو سنتا پھڑک اٹھتا۔ کیا مقدور ان کے ہوتے کوئی منہ تو بسورے۔”

    "پھر خالی ہنسوڑ ہی نہیں۔ اللہ نے عقل کا جوہر بھی دیا تھا۔ ذہن اتنا برّاق کہ جہاں بیٹھیں ہنسی ہنسی میں سگھڑاپے سکھا دیں۔ گدگداتے گدگداتے بیسویں ٹیڑھے مزاجوں کو سیدھا کر دیا۔ غرض کہ جب تک جییں جینے کی طرح جییں۔ کسی کو اپنے برتاؤ سے شکایت کا موقع نہیں دیا۔ قاعدہ ہے کہ جہاں دو برتن ہوتے ہیں ضرور کھڑکا کرتے ہیں۔ لیکن قہقہوں کے سوا ان کے اندر کبھی کوئی دوسری آواز نہیں سنی۔ مرتے مر گئیں نہ یہ کسی سے بھڑیں، نہ ان سے کسی نے دو بدو کی۔ جیسی بچپن میں تھیں، ویسی ہی آخری دم تک رہیں۔”

    "وہ جو کسی نے کہا ہے کہ پوت کے پانو پالنے میں نظر آجاتے ہیں۔ نیازی خانم ماں کی گود سے اتر کر گھٹنیوں چلنے میں ایسی شوخیاں اور ایسے تماشے کرتیں کہ دیکھنے والے حیران ہوتے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد تو کہنا ہی کیا تھا۔ پوری پکّی پیسی تھیں۔ جو ان کی باتیں سنتا دنگ رہ جاتا۔”

    "اگلے وقت تو نہ تھے لیکن اگلے وقتوں کے لگ بھگ مغلیہ خاندان کا آخری چراغ ٹمٹما رہا تھا کہ دلّی کے ایک شریف پڑھے لکھے، قال اللہ قال رسول کرنے والے خاندان میں نیازی خانم پیدا ہوئیں۔ نیازی خانم کی دو بہنیں اور تھیں۔ کوئی دو دو سال کے فرق سے بڑی، اور ایک چھوٹا بھائی۔”

    "نیازی خانم کو گڑیوں کا بڑا شوق تھا۔ عجب عجب نام رکھے جاتے، ان کا بیاہ ہوتا تو مزے مزے کے رقعے لکھواتیں۔ مبارک بادیں، سہرے، اس کے بعد گڑیوں کے بچّے ہوتے تو زچہ گیریاں بناتیں۔ خود گاتیں اور ڈومنیوں سے گواتیں اور ان میں ایسی ایسی پھلجھڑیاں چھوڑتیں کہ گھروالے ہنسی کے مارے لوٹ لوٹ جاتے۔”

    "ہمیں مرحومہ کی پوری سوانح عمری تو لکھنی نہیں کہ مہد سے لحد تک کے حالات بیان کریں اور نہ ہمارے پاس ان کی زندگی کا روزنامچہ ہے۔ ہاں چند واقعات سنے ہیں۔ آپ بھی سن لیں۔ زندہ دلی کے ایسے نمونے دنیا میں روز روز نظر نہیں آتے۔ ہونے کو ممکن ہے کہ نیازی خانم سے بڑھ چڑھ کر بھی عورتیں گزری ہوں گی، لیکن خدا جس کا نام نکال دے۔”

    "ایک دن کا ذکر ہے، موری دروازے چالیسویں میں جانا تھا۔ بچوں کو ایسی تقریب میں یوں بھی کوئی نہیں لے جاتا، پھر یہ تو بلا کی شریر تھیں۔ اس کے علاوہ ان دنوں جانے آنے کی بھی آسانی نہ تھی۔ امیروں کے ہاں اپنی سواریاں ہوتیں، پالکیاں نالکیاں، بہلیاں، رتھیں۔ حسبِ مقدور غریب مانگے تانگے سے کام چلاتے۔ ڈولیوں میں لدتے یا بار کش کرایے پر کرتے۔ اِکّے تھے مگر وہ اچکی سواری سمجھی جاتی۔ بیل گاڑیوں میں دیر بہت لگتی۔ ڈولیوں میں اکٹھے باتیں کرتے ہوئے جانے کا لُطف کہاں؟ شہر میں دو چار سیج گاڑیاں آگئی تھیں، تو ان کا کرایہ زیادہ تھا۔ دلّی دروازے سے موری دروازے کا فاصلہ خاصا۔ صلاحیں ہوئیں کہ کیوں کر چلنا چاہیے۔ کسی نے کہا بار کش کر لو، کوئی بولی شکرم میں کبھی نہیں بیٹھے۔ دس پانچ آنے زیادہ جائیں گے۔ بلا سے سیر تو ہوجائے گی۔ سنا ہے دو گھوڑے جتتے ہیں۔ گھر کا گھر ہوتی ہے۔ جھلملیوں میں سے راستے کا خوب تماشا دکھائی دیتا ہے۔ اندر بیٹھنے والے سب کو دیکھیں اور باہر کا کوئی نہ دیکھے۔”

    "آخر شکرم ہی کی ٹھہری اور بھائی صاحب جا کر سائی بھی دے آئے۔ اب سوال نیازی کی خانم کے لے جانے کا تھا۔ یہ نہ بچہ نہ بوڑھی اور ان کی بے چین فطرت سے سب واقف۔ ڈر تھا کہ ان کی بولیوں ٹھٹھولیوں کا کیا بندوبست۔ اگر یہ ساتھ چلیں تو روتوں کو ہنسائیں گی۔ اور کہیں بیچ بازار میں سیر کا شوق چرّایا۔ جھلملیاں اتار دیں تو کیا ہوگا۔ ان کی زبان میں تو بواسیر ہے۔ قہقہے لگانے شروع کر دیے، یا زور زور سے باتیں ہی کرنے لگیں تو کیسی بدنامی ہوگی۔ راہ گیر سمجھیں گے کہ نگوڑیاں کوئی بڑی اچھال چھکّا ہیں۔ نیازی خانم نے جو گھر والوں کو کانا پھوسی کرتے دیکھا تو وہ اڑتی چڑیا کے پَر گننے والی، فوراً سمجھ گئیں کہ ہو نہ ہو کہ کوئی بات ضرور مجھ سے چھپانے کی ہے۔ ٹوہ لینے کے لیے اِدھر ادھر ٹہلتے ٹہلاتے در سے لگ کر اس طرح کھڑی ہوگئیں، گویا کچھ خبر ہی نہیں۔”

    "رات کا وقت تھا۔ ٹمٹماتے ہوئے کڑوے تیل کے چراغ کی روشنی پر چھائیں پڑتی ہوئی بڑی بہن کی بھی نظر پڑگئی۔ ایک نے دوسری سے ٹہوک کر کہا ‘‘فتنی کو دیکھا کیسی چھپ کر ہماری باتیں سُن رہی ہے۔ آؤ زرگری میں باتیں کریں۔’’ زرگری فرفری اور اسی طرح کی کئی بولیاں قلعے والوں کی ایجاد شہر کے اکثر گھرانوں میں بھی آپہنچی تھیں۔ ان بولیوں کا شریفوں کی لڑکیوں میں بہت رواج تھا۔ انجانوں سے بات چھپانے کی خاصی ترکیب تھی۔ چنانچہ ایک بہن بولی ‘‘کریوں ازا پزا ازس سزے لزے چزل لزیں یزا نزئیں۔’’ (کیوں آپا اسے لے چلیں یا نہیں؟) دوسری نے جواب دیا ‘‘ازب ازس کزو یہنز رزے نزے دزو۔’’ (اب اس کو یہیں رہنے دو) اس کے بعد دیر تک ہنسی ہوتی رہی اور زرگری میں باتیں کرتیں۔ کبھی فرفری میں۔”

    "نیازی خانم کو یہ بولیاں نہیں آتی تھیں۔ جو کچھ بہنوں نے کہا وہ تو سمجھ میں کیا آتا تاہم ان کے مطلب کو پہنچ جاتیں۔ ان کی آنکھوں میں دھول ہی نہ ڈالی تو نام نیازی خانم نہیں۔ انھوں نے بھی ترکیب سوچ لی اور چپکے سے اپنے بھچونے پر آکر سوگئیں۔ صبح ہی ضروریات سے فارغ ہو کر سب نے کپڑے بدلنے شروع کیے۔ نیازی خانم غائب۔

    والدہ: اے بھئی نیازی کہاں ہے۔ بی امتیازی تم بڑی کٹر ہو۔ وہ بھی چلی چلے گی تو کیا ہوگا؟

    امتیازی: (بڑی بیٹی) اماں بی وہ بڑی شریر ہے۔ راستہ بھر ادھم مچاتی چلے گی۔

    والدہ: سیج گاڑی وہ بھی دیکھ لیتی، بچّے ادھم مچایا ہی کرتے ہیں۔

    بنیادی: (دوسری بیٹی) لے چلیے آپ ہی کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔

    امتیازی: تو اسی کو لے جاؤ چلو میں نہیں جاتی۔

    والدہ: بوا بگڑتی کیوں ہو۔ جیسا تمھارا جی چاہے کرو۔ مگر وہ ہے کدھر؟

    ماما: چھوٹی بیوی کو پوچھتی ہو؟ وہ تو سویرے اٹھتے ہی بی ہمسائی کے ہاں چلی گئیں۔ کل شام کو کوئی کہہ رہا تھاکہ نوری کے ابا بمبئی سے ولایتی گڑیا لائے ہیں۔

    بنیادی: یہ بھی اچھا ہوا۔ کھیل میں لگی ہوئی ہے تو لگی رہنے دو۔ اتنے میں گاڑی آگئی تھی۔ گاڑی والا غُل مچا رہا تھا کہ جلدی چلو۔

    امتیازی: اب دیر نہ کرو۔ گاڑی والے کی آواز اس کے کانوں میں پڑ گئی اور وہ آپہنچی تو پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔ ”

    "سوار ہونے میں دیر کیا تھی۔ پردہ رکوا جھپاک جھپاک سب گاڑی میں جا بیٹھے۔ گاڑی بان دروازہ بند کر کے کوچ بکس پر چڑھ ہی رہا تھا کہ نیازی خانم ڈیوڑھی میں سے نکل گاڑی کے پائے دان پر جھلملیاں اٹھا اندر جھانکتے ہوئے بولی ‘‘چھوٹی آپا، تا، بڑی آپا سلام۔ اب زرگری نہیں بولتیں۔ کہو ‘لزے چزل تزی ہزو یزا نزاہزیں’۔ (لے چلتی ہو یا نہیں)

    والدہ: ہے تو بڑی فِتنی۔

    نیازی: نہیں اماں بی میں تو چھوٹی ہوں۔

    بڑی بہن: خدا ہی سمجھے۔

    دوسری بہن: (ہنس کر) اور تم چھپی ہوئی کہاں تھیں۔

    بڑی بہن: کپڑے بھی بدل رکھے ہیں۔

    نیازی: اور کیا۔ اے بھئی گاڑی بان دروازہ تو کھول۔

    گاڑی بان: کیا بیوی تم رہ گئی تھیں؟

    نیازی: دروازہ کھولتا ہے یا باتیں بناتا ہے۔

    سب ہنسنے لگے، دروازہ کھلا۔ نیازی خانم بڑے ٹھسے سے بیٹھیں اور سارے رستے بہنوں کا ستا مارا۔”

  • جَل پری

    جَل پری

    کسی چھوٹی سی بستی میں کوئی بڑھیا رہتی تھی۔ اس کے آگے پیچھے ایک لڑکی کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا۔ بڑھیا نے لاڈ پیار میں اسے ایسا اٹھایا تھا کہ وہ اپنوں کو خاطر میں لاتی نہ غیروں کو۔ زبان دراز، پھوہڑ، کام چور۔ ماں کے جھونٹے نوچنے کو تیار مگر ماں تھی کہ داری صدقے جاتی۔ اس کے نخرے اٹھاتی۔

    بڑھیا نے اپنی مرنے والی بہن کی لڑکی کو بھی اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ بیچاری بے گھر اور بے بس۔ سارے دن خالہ کی خدمت میں لگی رہتی۔ بہن کے نکتوڑے اٹھاتی، تب کہیں روکھی سوکھی میسر آتی۔ غریب اپنی ننھی سی جان کو مارتی لیکن کیا مجال جو کبھی خالہ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا ہو یا بہن نے میٹھی زبان سے کوئی بات کی ہو۔ جب دیکھا ماں بیٹیوں کو غرّاتے۔ مثل تو یہ مشہور ہے کہ ماں مرے اور موسی جیے۔ ہوتی ہوں گی ماں سے زیادہ چاہنے والی خالائیں بھی۔ اس کے نصیب سے تو بڑھیا جلادنی تھی۔

    عید بقرعید کو بھی بیچاری اچھے کھانے، اپنے کپڑوں کے لیے ترستی کی ترستی ہی رہ جاتی۔ اس برے برتاؤ پر شاباش ہے اس لڑکی کو کہ ایک دن بھی اس نے کسی سے شکایت نہیں کی، نہ کام کاج سے جی چرایا۔ جس حال میں خالہ رکھتی رہتی اور ہنسی خوشی وقت گزارتی۔

    بڑی بی اگر اندھی تھیں یا ان کے دل سے ترس اٹھ گیا تھا تو دوسرے تو اندھے نہ تھے۔ دنوں لڑکیوں کا رنگ ڈھنگ سب کے سامنے تھا۔ پاس پڑوس والیاں دیکھتیں اور جلتیں مگر کیا کرسکتی تھیں۔ ایک تو پرائی آگ میں پڑے کون؟ دوسرے بڑھیا چلتی ہوا سے لڑنے والی۔ بد مزاج۔ حق ناحق الٹی سیدھی بکنے لگے۔ اچھی کہو بری سمجھے۔ جھاڑ کا کانٹا ہو کر لپٹ جائے۔ پڑوسنوں کا اور تو کیا بس چلتا۔ بڑھیا اپنے گھر کی مالک تھی۔ ایک اس کی بیٹی دوسری بھانجی۔ ہاں انہوں نے اپنے دل کے جلے پھپولے پھوڑنے کو دونوں لڑکیوں کے نام رکھ دیے۔ جب آپس میں ذکر آتا تو بڑھیا کی چہیتی کو تتیا کہیں کہ ہر وقت بھن بھن، ذرا چھیڑا اور کاٹا۔ دوسری کو گؤ کہ نگوڑی پٹتی ہے، بُرا بھلا سنتی ہے۔ اور کان تک نہیں ہلاتی۔

    وہ جو مثل ہے کہ نکلی ہونٹوں اور چڑھی کوٹھوں۔ بستی ہی کون سی لمبی چوڑی تھی۔ دونوں لڑکیوں کے یہ نام سب کو یاد ہوگئے۔ جہاں ذکر آتا بڑھیا کو تتیا اور بھانجی کو گؤ کہتے۔ ایک دن کہیں جھلو خانم کے کانوں میں بھی بھنک پڑگئی۔ وہ آئے تو جائے کہاں۔ پڑوسنوں پر تو دل ہی دل میں خوب برسی کہ جاتی کہاں ہیں میرا موقع آنے دو۔ ایسی پھلجھڑی چھوڑوں گی کہ گاؤں بھر میں ناچتی پھریں۔ تتیے ہی نہ لگادوں تو بات ہی کیا۔ ہاں غریب بھانجی کہ کم بختی آگئی۔ کہاوت سنی ہوگی کہ

    کمہار پر بس نہ چلا تو گدھیا کے کان امیٹھے۔

    جب ہوتا اسے گود گود کر کھائے جاتی کہ ہاں یہ گؤ ہے اور میری بچی تتیا؟ خدا کرے کہنے والوں کی زبان میں تتیے ہی کاٹیں۔ کیوں ری تُو گؤ ہے؟ یہ سارے کوتک تیرے ہی ہیں۔ میں سب جانتی ہوں۔ ارے تیرے کہیں اس نے ڈنگ مارا ہوگا؟ نہ جانے میرے گھر میں سوکن بن کر کہاں سے آ مری۔ یہ جیسی مسمسی ہے اسے کوئی نہیں جانتا۔

    اس طرح روز بڑھیا بکا کرتی اور لڑکی شامت کی ماری کو سننا پڑتا۔ سننے کے سوا اسے چارہ ہی کیا تھا۔ خدا کسی کو کسی کے بس میں نہ ڈالے۔ ایک دن بستی کے باہر کوئی میلہ تھا۔ بڑھیا کی لاڈلی اچھے کپڑے پہن مٹکتی اتراتی اپنی سہیلیوں کے ساتھ میلہ دیکھنے چلی۔ گؤ بھی آخر لڑکی ہی تھی۔ ایک ایک کا مونہہ دیکھنے لگی۔ ہمسائی اوپر سے جھانک رہی تھیں۔ انہوں نے کہا، ’’بوا اس بچی کو بھی بھیج دو۔ اس کا دل بھی خوش ہوجائے گا۔ دیکھنا بے چاری کیسی چپ چاپ کھڑی ہے۔‘‘

    بڑی بی جھلاّ کر بولیں، ’’یہ میلہ میں جانے کے قابل ہے۔ سر جھاڑ مونہہ پہاڑ۔ نہ ڈھنگ کے کپڑے، نہ کہیں جانے کا سلیقہ۔ دوسرے گھر کا کام کون کرے گا۔ اس کی لونڈیاں بیٹھی ہیں جو کام کرنے آئیں گی۔‘‘ اور لڑکی سے چلّا کر کہنے لگی، ’’چل گھڑا اٹھا اور کنویں پر سے پانی لا۔‘‘

    اس غریب لڑکی نے گھڑا اٹھایا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبائے کنویں پر گئی، پانی بھرا اور درخت کی چھاؤں میں پہنچی کہ ذرا دل ٹھہر جائے تو گھر چلوں۔ رات دن کی مصیبت پر اسے رونا آگیا۔ اتنے میں پیچھے سے اس کو ایک آواز سنائی دی۔ اس نے جھٹ پلّو سے آنسو پوچھ کر گردن اونچی کی تو دیکھا ایک بڑھیا کھڑی ہے۔ بڑھیا نے گڑگڑا کر لڑکی سے کہا، ’’بیٹی پیاسی ہوں ذرا سا پانی پلا دے۔‘‘ لڑکی نے خوشی خوشی بڑھیا کو پانی پلا دیا۔

    پانی پی کر بڑھیا نے لڑکی کو دعائیں دیں اور بولی، ’’تم بڑی اچھی لڑکی ہو۔ میں تمہارے ساتھ ایسا سلوک کرتی ہوں کہ ساری عمر یاد کرو گی۔ لو آج سے جب تم بات کرو گی تمہارے مونہہ سے موتی جھڑیں گے۔‘‘ یہ کہتے کہتے بڑھیا لڑکی کی آنکھوں کے آگے سے غائب ہوگئی۔ اصل میں وہ بڑھیا جَل پری تھی۔

    جَل پری تو چلی گئی، اور لڑکی بھی اپنا گھڑا سَر پر رکھ اپنے گھر کے طرف روانہ ہوئی۔ لیکن اب اسے یہ فکر ہوا کہ یہ بڑھیا کون تھی اور اس نے کیا کہا؟ میں اس کا مطلب نہیں سمجھی۔

    گھر پہنچی تو خالہ نے بیچاری کی خواب خبر لی، ’’اب تک کہاں رہی تیرا کام کرنے کو دل نہیں چاہتا تو کہیں اور چلی جا۔‘‘

    لڑکی دبی زبان سے بولی، ’’خالہ جی اب ایسا نہیں ہوگا۔ ایک بڑھیا کو پانی پلانے لگی تھی۔‘‘ لڑکی کا مونہہ سے بات کرنا تھا کہ آنگن میں موتی بکھر گئے۔ جل پری کا کہنا سچ ہوا۔ بڑھیا نے جو چمکتے ہوئے موتی دیکھے تو دیوانوں کی طرح جھپٹی اور موتی چننے لگی۔ موتی سمیٹ چکی تو بڑے پیار سے بولی، ’’چندا! یہ کہاں سے لائی؟‘‘

    لڑکی نے کہا، ’’خالہ جی لائی تو کہیں سے بھی نہیں، میرے مونہہ سے جھڑے ہیں۔‘‘

    بڑھیا ہنس کر بولی، ’’چل جھوٹی۔ مونہہ سے بھی موتی جھڑا کرتے ہیں۔ ایک واری سچ بتا ضرور تجھے کوئی خزانہ ملا ہے۔‘‘

    ’’نہیں خالہ اللہ جانے میرے مونہہ سے جھڑے ہیں۔ ایک بڑھیا کنویں پر ملی تھی۔ اسے میں نے پانی پلایا۔ اس نے مجھے دعا دی کہ جب تُو بات کرے گی تیرے مونہہ سے موتی جھڑیں گے۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا۔ وہ ضرور کوئی پری تھی مگر بیٹی اب تو دوچار دن پانی بھرنے نہ جائیو پریوں کا کیا بھروسہ۔ آج مہربان ہیں تو کل قہرمان۔ تجھے کہیں کنویں میں نہ لے جائیں۔‘‘ بڑی بی بڑی تیز تھیں۔ بھانجی سے تو ظاہر میں یہ باتیں بنائیں لیکن دل میں کھول ہی تو گئی کہ پری نے میری بچّی کو موتیا کھان نہ بنایا۔ بیٹی میلے میں سے آئی تو اسے خوب پٹیاں پڑھائیں اور بڑی مشکل سے دوسرے دن اس کو کنویں پر پانی بھرنے کے لیے بھیجا۔

    تتیا مرچ اوّل تو گئی بڑے نخروں سے۔ پھر کنوئیں پر ڈول کو جھٹکتی پٹکتی رہی۔ جھینک پیٹ کر گھڑا بھرا اور درخت کے نیچے جا بیٹھی۔ بیٹھی ہی تھی کہ جَل پری بڑھیا کے روپ میں اس کے بھی پاس آئی۔ بولی، ’’بیٹی! ذرا سا پانی تو پلا دے۔ کب سے پیاسی مر رہی ہوں۔‘‘

    بڑھیا کی لڑکی ویسے ہی جلاتن۔ پھر جل پری نے ایسی گھناؤنی صورت بنا رکھی تھی کہ دیکھے سے نفرت ہو۔ گھرک کر بولی، ’’چل چل، میں نے کوئی پیاؤ لگا رکھی ہے۔‘‘

    جل پری گھگھیا کر بولی، ’’پلا دے بیٹی ثواب ہوگا۔‘‘

    لڑکی نے جواب دیا، ’’جاتی ہے یا پتھر ماروں۔‘‘

    ’’اری میں بہت پیاسی ہوں۔‘‘

    ’’میری جوتی سے۔ پیاسی ہے تو کنویں میں ڈوب جا۔‘‘ لڑکی نے تیزی سے جواب دیا۔

    جل پری کو پانی کی کیا ضرورت تھی۔ اسے تو اس بھیس میں اپنا کرشمہ دکھانا تھا۔ غصّے سے بولی، ’’بدتمیز لڑکی جاتی کہاں ہے۔ اتنی آپے سے باہر ہوگئی۔ میں بھی تجھے وہ مزہ چکھاتی ہوں کہ یاد رکھے۔ جا میں نے کہہ دیا کہ آج سے جب تو بات کرے گی تیرے مونہہ سے مینڈک پھدک پھدک کر باہر آئیں گے۔

    لڑکی کو اس بات پر غصّہ تو بہت آیا۔ جوتی اٹھا مارنے کو کھڑی ہوئی لیکن پری کب ٹھہرنے والی تھی وہ بددعا دیتے ہی غائب ہوگئی۔ لڑکی دیر تک دانت پیستی رہی۔ پری کا بھی اسے انتظار تھا۔ دوپہر ہونے آئی اور پری وری کوئی نہیں دکھائی دی تو یہ دل ہی دل میں بڑبڑاتی اپنے گھر روانہ ہوئی۔

    ماں اپنی چہیتی بیٹی کے انتظار میں دروازے کی طرف ٹکٹکی لگائے بیٹھی تھی۔ دیکھتے ہی پوچھا، ’’کہو بیٹی پری ملی اس نے تجھے کیا دیا۔‘‘

    لڑکی جلی بھنی تو پہلے ہی چلی آرہی تھی تڑخ کر جواب دیا، ’’چولھے میں جائے تمہاری پری۔ نگوڑی میری تو گردن بھی ٹوٹ گئی۔‘‘

    ’’آخر کیا ہوا؟ پری آج نہیں آئی؟‘‘ ماں نے پوچھا۔

    ’’کیسی پری؟ وہاں تو ایک پگلی سی بڑھیا نجانے کہاں سے آن مری تھی۔‘‘ لڑکی نے جل کر جواب دیا۔

    لڑکی جب بات کرتی اس کے مونہہ سے مینڈکیاں نکل کر زمین پر بھدکنے لگتیں۔ پہلے تو بڑھیا نے اپنی دھن میں دیکھا نہیں۔ لیکن جب ایک مینڈکی اس کی گود میں جاکر اچھلنے لگی تو وہ اچھل پڑی۔ ’’اوئی یہ مینڈکی کہاں سے آئی۔‘‘ پھر جو دیکھتی ہے تو سارے صحن میں مینڈکیاں ہی مینڈکیاں کودتی پھر رہی ہیں۔ ’’ہے ہے اری کیا گھڑے میں بھر لائی ہے۔‘‘

    ’’اسی پچھل پائی بڑھیا نے کوسا تھا کہ تیرے مونہہ سے مینڈکیاں برسیں گی۔‘‘ بیٹی نے بسور کر جواب دیا۔

    ’’جھلسا دوں اس کے مونہہ کو۔ وہ پری نہیں کوئی بھتنی ہوگی۔‘‘ بڑھیا بولی۔

    ’’امّاں یہ سب اس کٹنی کے کرتوت ہیں۔ اسے تم نے گھر میں کیوں گھسا رکھا ہے۔‘‘

    ’’اچھا اب تُو تو مونہہ بند کر پڑوسنیں دیکھ لیں گی تو سارا گاؤں تماشا دیکھنے آجائے گا۔ دیکھ میں اس مردار کی خبر لیتی ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر بڑھیا نے پھکنی اٹھا، بیچاری بے قصور بھانجی کو دھننا شروع کردیا۔ ’’کیوں ری مردار، تیرے مونہہ سے تو موتی جھڑیں اور میری بچّی کے مونہہ سے مینڈکیاں۔ جاتی کہاں ہے۔ آج میں بھی تیری دھول جھاڑ کر رہوں گی۔‘‘

    بڑھیا اپنی یتیم بھانجی پر پل پڑی۔ مارنے کے بعد بھی بڑھیا کو صبر نہ آیا۔ ہاتھ پکڑ گھر سے باہر نکال دیا۔ لڑکی اور کہاں جاتی کنواں ہی پاس تھا۔ روتی ہوئی اس درخت کے نیچے جا بیٹھی جہاں جل پری ملی تھی۔ کبھی خیال کرتی کہ ڈوب مروں۔ کبھی سوچتی کہ کسی اور بستی میں چلی جاؤں۔ اتنے میں جل پری بھی آگئی اور اس نے لڑکی سے پوچھا، ’’بیٹی روتی کیوں ہے؟‘‘

    لڑکی نے اپنی بپتا سنائی اور کہا، ’’تمہاری بدولت میں گھر سے نکالی گئی ہوں۔‘‘

    پری قہقہہ لگا کر بولی، ’’اچھی لڑکیاں کہیں اس طرح بے آس ہو کر رویا کرتی ہیں۔ جا خدا تیرے دن پھیر دے۔ آج سے تو پھولوں کی سیج پر شاہی محل میں سوئے گی۔‘‘

    اللہ کو نہ بگاڑتے دیر لگتی ہے نہ بناتے۔ اتفاق سے ادھر تو پری نظروں سے اوجھل ہوئی اور ایک شہزادہ شکار کھیلتا پانی کی تلاش میں کنویں کے پاس آیا۔ ڈول اٹھاتے اٹھاتے لڑکی پر نظر پڑی۔ لڑکی حقیقت میں چاند کا ٹکڑا تھی۔ کیسا پانی اور کیسی پیاس۔ ڈول وول چھوڑ لڑکی کے پاس آیا۔ بات کی کہ مونہہ سے پھول کیسے سچ مچ کے موتی جھڑتے ہیں۔ اتنے میں پھر جل پری سامنے آئی۔ اب وہ اور ہی شان سے آئی تھی۔

    شہزادہ سمجھا کہ یہ لڑکی کی ماں ہے۔ اس نے پری سے لڑکی کی درخواست کی۔ جل پری نے عہد و پیمان کرکے لڑکی کو شہزادے کے ساتھ کر دیا۔

    شہزادہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ وہ لڑکی کو اپنے محل میں لے گیا۔ بہو کو دیکھ کر ساس سسرے بہت خوش ہوئے۔ بڑی دھوم دھام سے شادی ہوئی۔ بن ماں باپ کی لاوارث لڑکی کو خدا نے اس کے صبر کا پھل دیا۔ بڑھیا اور بڑھیا کی تتیا ساری عمر اپنے تتیے میں کھولتی اور مینڈکوں ہی کے چکر میں رہی۔

    (اردو کے ممتاز صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کے قلم سے)

  • اشرف صبوحی: اردو ادب کا ایک نگینہ

    اشرف صبوحی: اردو ادب کا ایک نگینہ

    بیسویں صدی کے نصف اوّل میں دبستانِ دلّی کے نثر نگار اشرف صبوحی ان ادیبوں میں سے ہیں جن کے بغیر تاریخِ دلّی مکمل نہیں ہو سکتی۔ اردو ادب کی نادرِ‌ روزگار اور صاحبِ اسلوب شخصیات میں اشرف صبوحی کا نام سرفہرست اور ان کی تخلیقات معتبر اور مستند ہیں۔

    آج اشرف صبوحی کا یومِ وفات ہے۔ وہ اردو کے مشہور ادیب اور اوّلین ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اشرف صبوحی نے ڈرامے، ریڈیو فیچر، بچوں کی کہانیاں، تنقیدی مضامین، دلّی کی سماجی اور تہذیبی زندگی پر مقالے، افسانے، شخصی خاکے لکھے اور تراجم کیے جو کتابی شکل میں محفوظ ہیں۔

    22 اپریل 1990ء ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ انھیں گلشنِ اقبال کے ایک قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔ اشرف صبوحی کو صاحبِ اسلوب مانا جاتا ہے۔ وقائع نگاری اور تذکرہ نویسی میں انھیں کمال حاصل تھا۔ دلّی سے متعلق مضامین میں انھوں نے گویا ایک تہذیب، معاشرت اور ثقافت کو تصویر کردیا ہے۔ ان مضامین میں مختلف مشہور شخصیات اور عام لوگوں کے تذکرے ہی نہیں، تہواروں، میلوں ٹھیلوں، پکوان، لباس اور استعمال کی مختلف اشیا تک کے بارے میں پڑھنے کو ملتا ہے۔

    اشرف صبوحی کا اصل نام سیّد ولی اشرف تھا۔ وہ 11 مئی 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے تھے۔

    اشرف صبوحی کی نثر میں ایسا جادو ہے کہ وہ پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور وہ کتاب ختم کیے بغیر نہیں‌ رہ سکتا۔ رواں اور نہایت خوب صورت اسلوب نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا اور قارئین میں ان کی تحریریں مقبول ہوئیں۔

    ان کی مشہور تصانیف میں دلّی کی چند عجیب ہستیاں، غبارِ کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ ان کے کیے ہوئے تراجم دھوپ چھاؤں، ننگی دھرتی اور موصل کے سوداگر بہت مشہور ہیں۔ اشرف صبوحی نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔ ان کے ایک مضمون گنجے نہاری والے کی دکان سے یہ پارہ ملاحظہ کیجیے۔

    "جب تک ہماری یہ ٹولی زندہ سلامت رہی اور میاں گنجے صاحب نیچی باڑ کی مسلی مسلائی لیس دار ٹوپی سے اپنا گنج ڈھانکے چھینٹ کی روئی دار کمری کی آستینوں کے چاک الٹے، رفیدہ سے چہرے پر لہسنیا ڈاڑھی لگائے، آلتی پالتی مارے، چمچ لیے دیگ کےسامنے گدّی پر دکھائی دیتے رہے، نہ ہمارا یہ معمول ٹوٹا اور نہ نہاری کی چاٹ چھوٹی۔ دو چار مرتبہ کی تو کہتا نہیں ورنہ عموماً ہم اتنے سویرے پہنچ جاتے تھے کہ گاہک تو گاہک دکان بھی پوری طرح نہیں جمنے پاتی تھی۔ کئی دفعہ تو تنور ہمارے پہنچے پر گرم ہونا شروع ہوا اور دیگ میں پہلا چمچ ہمارے لیے پڑا۔ دکان کے سارے آدمی ہمیں جان گئے تھے اور میاں گنجے کو بھی ہم سے ایک خاص دل چسپی ہوگئی تھی۔

    تین چار مواقع پر اس نے خصوصیت کے ساتھ ہمارے باہر والے احباب کی دعوت بھی کی اور یہ تو اکثر ہوتا تھا کہ جب علی گڑھ یا حیدرآباد کے کوئی صاحب ہمارے ساتھ ہوتے وہ معمول سے زیادہ خاطر کرتا۔ فرمایش کے علاوہ نلی کا گودا، بھیجا اور اچھی اچھی بوٹیاں بھیجتا رہتا اور باوجود اصرار کے کبھی ان چیزوں کی قیمت نہ لیتا۔

    اب یہ اپنے شہر والوں کی پاس داری کہاں؟ ہماری وضع میں کیا سلوٹیں آئیں کہ زندگی کی شرافت ہی میں جھول پڑگئے۔”

  • ایک معمولی سا آدمی!

    ایک معمولی سا آدمی!

    بچپن میں مجھ کو کہانیاں سننے کا بہت شوق تھا۔ جب تک کوئی کہانی نہ کہتا مجھے نیند نہ آتی۔ ایک دن مجھے بخار ہوگیا۔ دوپہر سے جو چڑھا رات ہوگئی۔

    امّاں میرے سرہانے بیٹھی سَر دبا رہی تھیں۔ نانی مغلانی جن کا گھر ہماری دیوار سے لگا ہوا تھا، اتنے میں میری خبر سن کر آگئیں اور میرے تلوےسہلانے لگیں۔ نانی مغلانی کی عمر اس وقت اسّی کے قریب ہوگی۔ بڑی ملنسار اور محبت کرنے والی۔ مجھ پر تو ان کی جان جاتی تھی۔ آج تک مجھے، ان کی صورت، ان کی محبت اور ان کی باتیں یاد ہیں۔ صورت ایسی تھی جیسے جنّت کی حوروں کی سنتے ہیں اور باتوں کی لذّت، اللہ بخشے یہ معلوم ہوتا تھا کہ شہد کے گھونٹ کانوں سے ہوکر دل میں اتر رہے ہیں۔ میں بخار میں کراہ رہا تھا اور وہ دونوں اس کوشش میں تھیں کہ کس طرح مجھے نیند آجائے۔

    سَر دبانے اور تلوے سہلانے سے جب میری آنکھ نہ لگی تو امّاں جان نے کہا، ’’میاں سوتے کیوں نہیں آنکھیں بند کرکے نیند کو بلاؤ تو۔ کہو تو نانی مغلانی تمہیں کوئی کہانی سنائیں؟‘‘ میں جلدی سے بولا ’’ہاں نانی سناؤ۔‘‘

    نانی مغلانی سنبھل کر بیٹھ گئیں اور کہنے لگیں۔ ’’بھئی پرستان کا قصہ نہیں اسی دلّی کا واقعہ ہے جب قلعہ آباد تھا اور بہادر شاہ تخت پر، اگلی باتیں تو کہاں رہی تھیں کہ شہزادوں، سلاطین زادوں کو تیر اندازی، تلواریں چلانی سکھائی جاتیں، ان کے کھیل تو یہ رہ گئے تھے کہ گھر میں اٹکن بٹکن کھیل رہے ہیں، پچیسی ہورہی ہے یا باہر نکلے
    تو مرغ بازی، پتنگ بازی ہونے لگی۔ بعض لاڈلے اور محل کے میت تو ایسے تھے کہ سترہ سترہ اٹھارہ اٹھارہ برس کی عمر ہوجاتی تھی مگر انّا منھ دھلاتی۔ کھلائی نوالے بنا بنا کر منھ میں دیتی۔

    ان ہی سلاطین زادوں میں ایک مرزا شبو بھی تھے۔ نام تو میں نہیں بتاؤں گی، خدا ان کی روح کو نہ شرمائے، بس مرزا شبو ہی سمجھ لو بڑے دیدارو، مگر ایسے بھولے کہ انّیس برس کی عمر میں شرم کا یہ حال تھا کہ محل کی ساری لڑکیاں ان سے مذاق کرتیں اور وہ آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے۔ اس شرم اور بھولے پن پر اللہ رکھے عاشق مزاج ایسے کہ آج کسی کی ہنسی پر فریفتہ ہوگئے تو کل کسی کے رونے پر لوٹ پوٹ۔ خدا کا کرنا ایسا ہوتا ہے کہ شہر میں ایک بڑی دھوم کی شادی ہوئی۔ قلعے کی ساری شہزادیاں اور شہر کے امیروں کی بیویاں، بہو، بیٹیاں اس میں شریک ہونے کو آئیں۔ دولھا، مرزا شبو کا لنگوٹیا یار تھا، لہٰذا وہ دولھا کے ساتھ ہاتھی پر سے اترے تو مرزا شبو بھی نیچے آئے۔ اتنے میں ایک پالکی کے کہاروں کا پاؤں رپٹا، پالکی کندھوں سے اتر گئی اور پالکی کا پردہ کھل کر، سواری کے کار چوبی دوپٹے کا پّلا نیچے لٹک گیا اور ساتھ ہی ایک مہندی لگا گورا گورا پاؤں نظر آیا۔ مرزا شبو نے ایک کہی نہ دو، خنجر کمر سے کھینچ لٹکتا ہوا پّلا کاٹ لیا کہ غیروں کی نظر نہ پڑے۔ انھیں پردے کا بڑا خیال تھا، پّلا تو کاٹنے کو انھوں نے کاٹ لیا مگر پلّے والی کے پاؤں پر عاشق ہوگئے اور یہ کیفیت ہوئی جیسے تیر لگا ہوا کبوتر تڑپنے لگے۔ ساتھ والے بہ مشکل گھر لائے۔ گھر آتے ہی منھ لپیٹ کر پڑ گئے۔

    زنانے سے مردانے تک عورتوں مردوں کا تانتا لگ گیا۔ جھاڑا پھونکیاں ہورہی ہیں، ملاّ سیانے بلائے جارہے ہیں، پوچھا جارہا ہے صاحبِ عالم منھ سے تو بولیں، بتاؤ تو کیا ہوا۔ تم تلوار باندھ کر گئے تھے، پھر بری نظر کا وار کس طرح ہوگیا۔ لیکن صاحبِ عالم جو پڑے ہیں تو منھ سے بولنا، سَر سے کھیلنا کیا، کروٹ تک نہیں لیتے۔

    قلعے کی سرکاروں میں ایسے ویسے چپڑ قناتیوں کا گزر تو تھا نہیں، کیسی ہی چھوٹی ڈیوڑھی سہی، جب کسی کو نوکر رکھتے تو اس کی سات پیڑھیوں کی تحقیقات کر لیتے، پھر شہزادوں اور سلاطین زادوں کے ساتھ رہنے والوں اور مصاحبوں کے لیے تو ایسی چھان بین ہوتی جیسے بیٹا یا بیٹی کا رشتہ طے ہو رہا ہے۔ اصلیوں، نجیبوں کے لڑکے تلاش کیے جاتے جو صورت شکل کے بھی اچھے ہوتے، کوئی خامی بھی ان کے اندر نہ ہوتی اور وقت پڑنے پر اپنے آقا کے پسینے کی جگہ خون بہانا اپنی اصالت اور شرافت سمجھتے۔

    اچھا، تو یہ صاحبِ عالم جن کا قصہ ہے، ان کی صحبت میں بھی کئی نوجوان تھے۔ یوں تو ہر ایک کو اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے تعلق سے آقا کی اس حالت کا افسوس تھا کہ ان کے ہنسی مذاق اور چرندم خورندم پر اوس پڑ گئی تھی لیکن حقیقی صدمہ ایک بانکے مرزا کو تھا، یہ جلے پاؤں کی بلّی کی طرح تڑپتے پھرتے، پہروں صاحب عالم کے سرہانے بیٹھے رویا کرتے۔ چوتھا دن تھا کہ دوپہر کے وقت صاحبِ عالم نے ہائے اللہ کر کے دو شالہ منھ پر سے ہٹایا اور آنکھ کھول کر بانکے مرزا کی طرف دیکھا۔ اس وقت اتفاق سے یہی دونوں تھے۔

    صاحبِ عالم: کون…بانکے مرزا؟

    بانکے مرزا: جی ہاں غلام ہے۔

    صاحبِ عالم: ارے بھئی جاؤ اپنے گھر۔ میرے ساتھ کیوں مر رہے ہو۔

    بانکے مرزا: صاحب عالم یہاں سے تو میری لاش جائے گی اور آپ دیکھ لیں گے۔

    صاحب عالم: کیوں بھئی؟

    بانکے مرزا: صاحب عالم ایسی زندگی پر تف ہے کہ جس کی ہم خدمت کریں، وہ ہمیں اپنا دکھ درد کہنے کے قابل بھی نہ سمجھے۔

    صاحب عالم: اور جو بات بتانے کی نہ ہو۔

    بانکے مرزا: اسی لیے تو عرض کرتا ہوں آپ نے مجھے ذلیل سمجھا، بہت اچھا نہ بتائیں۔ یہ کہہ کر بانکے مرزا نے خنجر کمر سے کھینچ اپنی چھاتی پر رکھا اور چاہتے ہی تھے کہ اپنے دل کو چھید ڈالیں صاحبِ عالم نے چھپٹ کر ہاتھ پکڑ لیا۔ بڑی ضد بحث کے بعد صاحبِ عالم نے مرزا بانکے کے ہاتھ سے خنجر لیا اور اپنے پاس بٹھا کر ساری داستان سنائی کہ اس طرح میں فلاں کی شادی میں گیا تھا وہاں ایک پالکی اتر رہی تھی، یوں پالکی کے کہار رپٹے، یوں پالکی کا پردہ کھل گیا اور اس طرح پالکی میں بیٹھنے والی کے دوپٹے کا پلّا لٹک پڑا، یہ خیال کر کے میں نے وہ پّلا کاٹ لیا کہ پردہ فاش نہ ہو۔ اس میں سواری کے پاؤں کا تلوا نظر آیا جسے دیکھتے ہی میری بری حالت ہوگئی۔ نہ بھوک ہے نہ پیاس، زندگی اجیرن معلوم ہوتی ہے۔ اگر وہ اور دو چار دن میرے پہلو میں نہ آگئی تو ارادہ ہے کہ کچھ کھا کر سو رہوں یا اپنا گلا کاٹ لوں۔

    بانکے مرزا: اچھا تو آپ اب کھڑے ہو جائیے، کھائیے پیجیے، ہسنیے، بولیے ذرا فکر نہ کیجیے۔ اس پالکی والی کا پتہ لگانا اور اسے آپ کے پہلو میں لا بٹھانا بانکے مرزا کا کام ہے۔

    صاحب عالم: (خوش ہو کر) تم اس کا پتہ لگا لو گے۔

    بانکے مرزا: پتہ نہیں لگاؤں گا تو منھ نہیں دکھاؤں گا۔ دوپٹے کا وہ پّلا جو آپ نے کاٹا ہے، مجھے عنایت کر دیجیے۔

    صاحب عالم: پلّو اپنے سرہانے سے نکال کر دیتے ہیں ( کب تک؟)

    بانکے مرزا: کم سے کم پندرہ دن اور زیادہ سے زیادہ ایک مہینہ۔ میری شرافت پر بھروسہ کیجیے۔ لیجیے، اب میں رخصت ہوتا ہوں۔

    بانکے مرزا نے رفاقت کے جوش اور شرافت کے تقاضے سے وعدہ تو کرلیا مگر جب قلعہ سے باہر نکلے تو سوچ میں پڑ گئے کہ یہ کیا حماقت کی شادی تھی، ہزاروں عورتیں آئی ہوں گی، پھر فقط دوپٹے کے ایک پلّو سے کس طرح پتہ لگ سکتا ہے کہ کون تھا۔ لیکن اب تو وعدہ کر آئے تھے، قولِ مرداں جان دارد!

    بڑا فکر ہوا، چاروں طرف خیال دوڑایا۔ شادی والے دن اتفاق کی بات یہ آگرے گئے ہوئے تھے، سواریاں بھی آتے جاتے نہیں دیکھی تھیں۔ سوچتے سوچتے شہر کی کٹنیاں یاد آگئیں جو سب سے زیادہ چالاک تھیں۔ انھیں مگھّم میں قصہ سنایا اور کھوج لگانے کے لیے مقرّر کیا۔ کٹنیوں نے بھی انعام کے لالچ میں ایک ایک کوچہ چھان مارا مگر کوئی کھوج نہ لگا، بھلا شریف زادیوں میں کون اپنا گھٹنا کھولتی اور لاجوں مرتی۔

    آخر وعدے کے دن پورے ہونے کو آئے اور کوئی صورت نہ نکلی۔ بانکے مرزا نے دل میں ٹھان لی کہ اب اس سے پہلے کہ صاحبِ عالم کو منھ دکھاؤں مر جانا بہتر ہے۔ دل میں یہ ٹھان کر سنکھیا لائے اور اس کی پڑیا اپنے سرہانے رکھ لی کہ رات کو کھا کر سو جاؤں گا۔ تھے ایسے مرد کہ اپنی بیوی سے بھی کچھ نہیں کہا۔ مہینہ بھر میں کسی نے نہیں جانا کہ بانکے مرزا کس مصیبت میں گرفتار ہیں۔ اب یہ تماشا سنو جس دن بانکے مرزا نے سنکھیا لا کر رکھی ہے اسی روز اتفاق سے ان کی بیوی نے دھوپ دینے کو اپنے کپڑے نکالے۔ اچانک ایک دوپٹے پر مرزا کی نظر پڑی۔ غور سے دیکھا تو اس کا پّلا کٹا ہوا دکھائی دیا۔ اچھل پڑے، جلدی سے صاحبِ عالم کا دیا ہوا پلّو کا ٹکڑا نکالا۔ دوپٹے سے جا کر ملایا تو ٹھیک تھا۔

    بیوی: آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟

    مرزا: ذرا کوٹھڑی کے اندر چلو تو بتاؤں۔ بیوی میاں کے تیور دیکھ کر ڈر گئی۔ مرزا نے ایک ہاتھ میں ننگی تلوار لی اور دوسرے ہاتھ سے بیوی کا بازو پکڑا اور اندر لے گئے۔بانکے مرزا: یہ کس کا دوپٹہ ہے۔

    بیوی: (سہمی ہوئی آواز سے) میرا۔ آپ ہی نے بنوا کر دیا تھا۔ یاد کر لیجیے۔

    بانکے مرزا: یاد ہے مگر اس کا پّلو کٹا کس طرح سچ مچ بتا دو، ورنہ خیر نہیں۔ پارسا بیوی پہلے تو بہت گھبرائی لیکن چوںکہ خطا کار نہ تھی اس لیے اس نے حرف بہ حرف سارا واقعہ سنا دیا اور مرزا کے قدموں پر سَر جھکا کر بولی۔ ’’لونڈی کا اتنا قصور ضرور ہے کہ آپ سے کہا نہیں۔ اب آپ کو اختیار ہے۔‘‘

    اتنا سن کر بانکے مرزا پر ایک سکتے کا سا عالم طاری ہوگیا۔ تلوار ہاتھ سے چھوٹ گئی اور کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ بڑی دیر تک مرزا کچھ سوچتے رہے، پھر ایک دفعہ ہی جیسے سوتے سے آدمی جاگتا ہے، پیچھے ہٹ کر بولے۔ ’’بیگم میں زبان دے آیا ہوں۔‘‘

    بیوی: (سَر اٹھا کر حیران ہوتے ہوئے) کیا زبان دے آئے اور کسے؟

    مرزا: یہ نہ پوچھو اور جو میں کہوں کرو۔

    بیوی: مجھے آپ کے حکم سے کب انکار ہے۔

    مرزا: تو یہی جوڑا جس کے دوپٹہ کا پّلا کٹا ہوا ہے پہن لو۔ بناؤ سنگھار بھی اس دن جیسا کرلو۔ میں ابھی پینس لاتا ہوں اس میں بیٹھ کر جہاں میں لے جاؤں چلو۔ بیوی میاں کا منھ دیکھنے لگی، کچھ بولنے کی جرأت نہ تھی، آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔

    یہ دیکھ کر مرزا نے بڑی ہمتّ سے کہا، دیکھو! بیگم آج تک تم میری بیوی تھیں اور میں تمہارا میاں لیکن آج میں یہ رشتہ توڑتا ہوں۔ بیوی اتنا سنتے ہی سفید پڑ گئی اور بدن تھرتھرانے لگا، بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھال کر گلوگیر آواز میں کہنے لگی، اچھا اتنا تو بتا دو کہ تم مجھ سے خفا تو نہیں۔

    مرزا بولے، بیگم اس وقت ایسی باتیں نہ کرو، میرے ارادے میں ذرا سا فرق آیا تو سارے خاندان کی ناک کٹ جائے گی۔ میرا لاشہ تمہیں تڑپتا ہوا نظر آئے گا۔ یہ کہتے ہوئے مرزا باہر چلے گئے، پالکی لاکر دروازے پر لگا دی۔ بیوی ہانپتی کانپتی پالکی میں سوار ہوئی آگے آگے مرزا تھے اور پیچھے پیچھے پالکی۔ قلعہ میں داخل ہوئے اور صاحبِ عالم کے دیوان خانے پر جا پہنچے۔ دروازے میں پالکی رکھوائی، آپ اندر گئے۔ صاحبِ عالم مسہری پر لیٹے ہوئے تھے، مرزا کو دیکھتے اٹھ بیٹھے اور بولے،

    ’’کہو مرزا ہمارا کام بنا، تمہارے وعدے میں صرف آج اور کل کا دن باقی ہے۔‘‘

    مرزا: آپ نے مرزا کو سمجھا کیا ہے صاحبِ عالم۔ ابھی ہماے خون میں اصالت کے جوہر موجود ہیں۔ آپ کی مراد لے کر آیا ہوں۔

    صاحبِ عالم: (بیتاب ہوکر) کہاں کہاں؟

    مرزا: ڈیوڑھی میں پینس رکھی ہے۔ صاحبِ عالم تھے تو نرے صاحبِ عالم اور عاشق مزاج بھی، لیکن ابھی تک اپنے بڑوں کی عزّت کا پاس تھا۔ رعایا کی بہو بیٹیوں پر بری نظر ڈالنے کی عادت نہ تھی، کچھ سہم سے گئے اور متوحش آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔

    مرزا: آپ گھبرا کیوں گئے؟

    صاحبِ عالم: بڑے حضرت کا ڈر ہے۔

    مرزا: اس کا میں نے بندوبست کرلیا ہے۔

    صاحبِ عالم: تو پھر اندر لے آؤ۔

    مرزا: لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ میں نے اپنی جان پر کھیل کر یہ کام کیا ہے۔ چار گھنٹے کے وعدے پر لایا ہوں، شوہر والی ہیں، کوئی رانڈ، بیوہ یا بازاری عورت نہیں۔

    صاحبِ عالم: اچھا، انہیں اندر بھیج دو لیکن تم کہیں چلے نہ جانا۔ مرزا بہت خوب کہہ کر ڈیوڑھی میں پالکی کے پاس آئے اور بیوی کو آواز دی۔

    بیوی پریشان میاں کی اس حرکت سے سہمی ہوئی اپنے خیالات میں محو ایک طرف خاموش بیٹھی تھی۔ میاں کی آواز جو سنی تو چونک پڑی اور بھرّائی ہوئی آواز میں بولی فرمائیے۔ مرزا نے کہا یہ میرے ولی نعمت کا مردانہ مکان ہے، اندر صاحبِ عالم تشریف رکھتے ہیں، اتر کر ان کی خدمت میں جاؤ، ان کا دل بہلاؤ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں…یہ کہتے کہتے مرزا کی آواز بھرّا گئی، مگر وہ بات کے دھنی تھے۔ بولے میں منھ پھیرے لیتا ہوں، اترو اور اندر جاؤ، سامنے والے کمرے میں صاحبِ عالم تشریف فرما ہیں۔ بیوی کانپتی ڈرتی پالکی سے اتری اور لڑکھڑاتی ہوئی اندر گئی۔ منھ دوپٹے سے چھپا ہوا تھا اور آنکھوں سے لڑیاں جاری تھیں۔ کمرے میں پہنچ کر صاحبِ عالم کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔

    صاحبِ عالم نے آنکھ اٹھا کر دیکھا اور نظر نیچی کر لی، جوانی تھی، شہزادے تھے، اس پر عشق، لیکن ہمت نہیں پڑتی تھی کہ ہاتھ بڑھائیں، آنے والی کی سسکیوں کے ساتھ رونے کی آواز برابر کانوں میں چلی آرہی تھی۔

    صاحبِ عالم: (نیچے آنکھیں کیے کیے) نیک بخت تم تو رو رہی ہو۔ میں تم سے کچھ کہتا تو نہیں صرف اتنا بتا دو کہ تمہارے میاں کون ہیں۔

    عورت: (بڑی مشکل سے) بانکے…مرزا…

    (صاحبِ عالم حیرت سے) تم بانکے مرزا کی بیوی ہو، تمہارا ہی دو پٹّہ زمین پر لٹک گیا تھا؟

    عورت: (روتے ہوئے) جی ہاں یہ دیکھیے۔

    صاحبِ عالم: (گھبرا کر) غضب، غضب لاحو ل ولا قوۃ۔ اور وہ ننگے پاؤں ننگے سر ڈیوڑھی کی طرف چلے۔ عورت سہم کر اوندھے منہ سجدے میں گر پڑی۔ بانکے مرزا ڈیوڑھی میں آنکھیں بند کیے، مونڈھے پر سر جھکائے بیٹھے تھے۔ صاحبِ عالم نے آتے ہی کہا اماں مرزا تم یہ کس کو لے آئے، ان پر تو کوئی جن عاشق معلوم ہوتا ہے جوں ہی میں نے انھیں ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھانا چاہا تاب دان میں سے ایک نہایت بدہیبت ہاتھ نکلا اور آواز آئی کہ خبر دار یہ ہماری منکوحہ ہے ہاتھ لگایا تو ابھی گلا گھونٹ دوں گا۔ اس لیے انھیں تو یہاں سے لے ہی جاؤ۔

    مرزا نے کہا، صاحبِ عالم، یہ تو آپ نے میری ساری محنت ہی اکارت کر دی۔ حضرت وہم نہ کیجیے، جائیے اب کے اگر ہاتھ دکھائی دے تو مجھے بلا لیجیے گا میرے سامنے اگر ہاتھ نکالا تو جن کو بھی ٹنڈا سمجھ لیجیے۔ مرزا کی رفاقت اور محنت کا نقش صاحبِ عالم کے دل میں اور بھی گہرا بیٹھتا جاتا تھا۔ آخر تیموری خون میں جوش آگیا، غیرت آئی سوچا کہ مرزا نے میرے نمک کا پاس کرکے اپنی بیوی کو مجھ تک پہنچا دیا۔ اب مجھے بھی اپنی شرافت دکھانی چاہیے۔ مرزا کو اپنے آگے لے کر کہا، اچھا مرزا دیکھوں تم کتنے بہادر ہو جاؤ اور انھیں ہاتھ لگاؤ، اس جن سے مقابلے کرو، اتنے میں ذرا محل ہو آؤں، یہ کہتے ہوئے صاحبِ عالم تو زنانی ڈیوڑھی کی طرف چلے اور مرزا ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر کمرے کے اندر پہنچے۔ بیوی کو دیکھا تو سَر بہ سجدہ ہے۔ آواز دی، کچھ جواب نہ ملا۔ آنکھیں تاب دان کی طرف لگی ہوئی تھیں، چھپر کھٹ کے قریب جاکر کھڑے ہوئے تھے کہ یکایک تاب دان کے اندر سے ایک سیاہ بھجنگ کالا ہاتھ نکلا اور آواز آئی خبردار جو اس عورت کو کسی نے ہاتھ لگایا، اسے فوراً اپنے گھر پہنچا دو۔ مرزا پہلے تو جھجکے پھر سنبھل کر ڈرتے ڈرتے آگے بڑھے اور اللہ کا نام لے کر نکلے ہوئے ہاتھ پر تلوار مار دی اور آنکھیں بند کرلیں۔ ادھر تو ہاتھ چھپر کھٹ کے اوپر گرا اور ادھر تاب دان کی پشت پر کسی کے گرنے کا دھماکہ ہوا۔

    نوکر چاکر آواز سن کر دوڑے دیکھا تو صاحبِ عالم خون میں لت پت بے ہوش پڑے ہیں۔ شور مچ گیا۔ مرزا کے کانوں میں جو یہ آوازیں پہنچیں تو وہ کٹے ہوئے ہاتھ کو دیکھتے دیکھتے باہر پہنچے اور ہائے صاحبِ عالم، میرے آقا کہہ کر صاحبِ عالم کے پاس گر پڑے اور پھر سنبھل کر اٹھے۔ بیوی کو تو سوار کرا کے گھر روانہ کیا اور صاحبِ عالم کو اٹھوا کر کمرے میں لائے، جرّاحوں کو چپ چپاتے بلوایا مرہم پٹی کرائی، ہوش میں لانے کی تدبیریں کیں۔ خدا خدا کرکے کوئی مہینہ بھر کے بعد زخم مندمل ہونا شروع ہوا اور صاحب عالم اپنے سہارے اٹھے بیٹھنے اور بات چیت کرنے لگے۔

    اب ایک دن رات کے بارہ بجے موقع پا کر مرزا نے ذرا کڑے تیوروں سے صاحبِ عالم سے کہا، قبلہ یہ آپ کو کیا سوجھی تھی، میرے ہی نامۂ اعمال کو سیاہ کرنا تھا۔ صاحبِ عالم نے جواب دیا، ’’سنو مرزا، جب تم سَر ہوئے تو میں نے اپنا حالِ زار تم کو سنا دیا اور تم اس کا کھوج لگا کر میرے پاس لے بھی آئے لیکن جب اس نے بڑی مشکل سے بتایا کہ میں بانکے مرزا کی بیوی ہوں تو تمہارا نام سنتے ہی مجھے اتنی غیرت آئی کہ اگر خود کشی گناہ نہ ہوتی تو اسی وقت اپنا خاتمہ کر لیتا۔

    مرزا ایک معمولی سا آدمی تو نمک کی اتنی پاس داری کرے اور میں بادشاہوں کی اولاد کہلا کر اپنی رعایا کے حق میں بھیڑیا نکلوں۔ اس وقت مجھے یہی سوجھا کہ جس ہاتھ سے اس پاک دامن کے پّلو کو چھوا تھا وہ ہاتھ اسی شخص کی تلوار کاٹے جس کا میں گنہ گار ہوں۔ چنانچہ یہ ڈھونگ بنایا اور ترکیب کارگر نکلی۔

    مرزا نے جماہی لیتے ہوئے کہا، بہ ہر حال آپ نے اچھا نہیں کیا، میری آنکھیں آپ کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتیں۔ خیر اب آپ آرام فرمائیے، باقی باتیں صبح ہوں گی۔ صبح کو نوکر چاکر اٹھ کر صاحبِ عالم کے کمرے کی طرف آنے لگے تو مرزا کے بچھونے پر خون کے چکتے دیکھتے، چادر جو ہٹائی تو چھاتی میں خنجر گھسا ہوا تھا اور مرزا مردہ۔یہاں تک کہانی کہنے کے بعد مغلانی نانی چپ ہوگئیں۔

    والدہ: اور اس بے چاری بیوی پر کیا گزری؟

    مغلانی: خدا نے جیسی ڈالی صبر شکر کیا۔ اس زمانے کی عورتیں ایسی تو تھیں نہیں کہ ہائے واویلا مچا کر محلّے کو سَر پر اٹھا لیں۔ دوسرے بانکے مرزا اتنا چھوڑ گئے تھے کہ بیوی کی ساری زندگی کو بہت تھا۔ کونے میں بیٹھ کر آبرو کے ساتھ گزار دی۔

    والدہ: کاش میں انھیں دیکھتی۔ مغلانی نانی نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور بولیں، لو بُوا دیکھ لو، وہ جنم جلی بانکے مرزا کی بیوہ یہی ہے۔

    والدہ حیرت سے ان کا منھ تکنے لگیں۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور گھر میں سناٹا چھا گیا۔

    (از: اشرف صبوحیؔ دہلوی)

  • گنجے نہاری والے کی دکان

    گنجے نہاری والے کی دکان

    ایرے غیرے نتھو خیرے نہاری کی دُکانیں لے بیٹھے ہیں۔ پہلے گنتی کے نہاری والے تھے۔ ایک چاندنی چوک میں۔ ایک لال کنویں پر۔ ایک حبش خاں کے پھاٹک میں اور ایک چتلی قبر اور مٹیا محل کے درمیان۔ ان میں سے ہر ایک شہر کا ایک ایک کونا دبائے ہوئے تھا۔

    سب سے زیادہ مشہور گنجے نہاری والے کی دکان تھی جو گھنٹہ گھر کے پاس قابل عطّار کے کوچے اور سیدانیوں کی گلی کے بیچ میں بیٹھتا تھا۔ جب تک یہ زندہ رہا، نہاری اپنے اصلی معنوں میں نہاری رہی۔ یہ کیا مرا کہ نہاری کا مزہ ہی مرگیا۔ نہاری کیا کھاتے ہیں کلیجا جلاتے ہیں۔

    یہ دکان ہم نے دیکھی ہے، بلکہ وہاں جاکر نہاری بھی کھائی ہے۔ شوقین دور دور سے پہنچتے تھے۔ گرم گرم روٹی اور تُرت دیگ سے نکلی ہوئی نہاری۔ جتنی نلیاں چاہیں جھڑوائیں۔ بھیجا ڈلوایا۔ پیاز سے کڑکڑاتا ہوا گھی، بوم کی بے ریشہ بوٹیاں۔ ادرک کا لچھا۔ کتری ہوئی ہری مرچوں کی ہوائی اور کھٹے کی پھٹکار۔ سبحان اللہ نواب رام پور کا پورا دستر خوان صدقے تھا۔ گھروں میں اِس سامان کے لیے پورے اہتمام کی ضرورت ہے۔ اس لیے جو اصل میں نہاری کا لُطف اٹھانا چاہتے تھے، انھیں دکان ہی پر جانا پڑتا تھا۔

    شہر کے نہاری بازوں کی آج بھی نہاری والوں کے ہاں بھیڑ لگی رہتی ہے۔ صبح سے دس بجے تک تانتا نہیں ٹوٹتا، تو اس کا ذکر ہی کیا خصوصاً گنجے کی دکان پر۔ سورج نکلا نہیں کہ لوگوں کی آمد شروع ہوگئی۔ دس اندر بیٹھے کھا رہے ہیں تو بیس پیالے، کٹورے بادیے، پتیلیاں لیے کھڑے ہیں۔ ایک پیسے سے لے کر دو روپے کے گاہک ہوتے تھے۔ لیکن مجال ہے کوئی ناراض ہو یا کسی کو اس کی مرضی کے مطابق نہ ملے۔ زیادہ سے زیادہ نو بجے دیگ صاف ہوجاتی تھی۔ اجلے پوشوں کے لیے بالاخانے پر انتظام تھا جہاں سب طرح کی آسانیاں تھیں۔

    یہ دکان دار گنجے نہاری والے ہی کے نام سے مشہور تھا۔ اس کی آن کا کیا کہنا۔ سنا ہے کہ چھنّا مل والے دہلی کے رئیسِ اعظم اس کی دکان کو خریدنا چاہتے تھے۔ ہزار کوششیں کیں۔ روپے کا لالچ دیا۔ جایداد کی قیمت دُگنی اور چوگنی لگا دی، یہاں تک کہ دکان میں اشرفیاں بچھا دینے کو کہا۔ دوسرا ہوتا تو آنکھیں بند کر لیتا۔ وہیں کہیں قابل عطّار کے کوچے میں، بلی ماروں میں یا رائے مان کے کوچے میں جا بیٹھتا۔ لیکن میاں گنجے مرتے دم تک اپنی اسی آن سے وہیں بیٹھے رہے۔

    ہم پانچ چار دوست پیٹ بھر کر نہاری کے شوقین تھے۔ جاڑا آیا اور نہاری کا پروگرام بنا۔ یوں تو اتوار کے اتوار باری باری سے کسی نہ کسی کے گھر پر نہاری اڑا ہی کرتی تھی لیکن ہر پندرہویں دن اور اگر کوئی باہر کا مہمان آگیا تو اس معمول کے علاوہ بھی خاص دکان پر جاکر ضرور کھا لیا کرتے تھے۔

    ہمارا دستور تھا۔ ہم پر کیا منحصر ہے نہاری بازوں کے یہ بندھے ہوئے قاعدے ہیں کہ صبح کے لیے رات سے تیاری ہوتی تھی۔ تازہ خالص گھی دو چھٹانک فی کس کے حساب سے مہیا کیا جاتا تھا۔ گاجر کا حلوا حبش خاں کے پھاٹک یا جمال الدین عطّار سے لیتے تھے۔ اور تو کیا کہوں اب ویسا حلوا بھی کھانے میں نہیں آتا۔ گندے نالے کی پھکسی ہوئی نیلی سفید، پھیکی سیٹھی، کچی یا اتری ہوئے گاجروں کی گلتھی ہوتی ہے۔ اب اور کیا تعریف کروں۔ خیر! صبح ہوئی، موذّن نے اذان دی اور نہاری نے پیٹ میں گدگدیاں کیں۔

    ہمارے دوستوں میں خدا بخشے ایک سید پونیے تھے۔ بڑے زندہ دل، یاروں کے یار، نہایت خدمتی۔ یہ ان کی ڈیوٹی ہوتی تھی کہ اندھیرے سے اٹھ کر ایک ایک دوست کے دروازے کی کنڈی پیٹیں، گالیاں کھائیں، کوسنے سنیں اور ایک جگہ سب کو جمع کر دیں۔ سامان اسی غریب پر لادا جاتا۔

    جب تک ہماری یہ ٹولی زندہ سلامت رہی اور میاں گنجے صاحب نیچی باڑ کی مسلی مسلائی لیس دار ٹوپی سے اپنا گنج ڈھانکے چھینٹ کی روئی دار کمری کی آستینوں کے چاک الٹے۔ رفیدہ سے چہرے پر لہسنیا ڈاڑھی لگائے، آلتی پالتی مارے، چمچ لیے دیگ کےسامنے گدّی پر دکھائی دیتے رہے، نہ ہمارا یہ معمول ٹوٹا اور نہ نہاری کی چاٹ چھوٹی۔ دو چار مرتبہ کی تو کہتا نہیں ورنہ عموماً ہم اتنے سویرے پہنچ جاتے تھے کہ گاہک تو گاہک دکان بھی پوری طرح نہیں جمنے پاتی تھی۔ کئی دفعہ تو تنور ہمارے پہنچے پر گرم ہونا شروع ہوا اور دیگ میں پہلا چمچ ہمارے لیے پڑا۔ دکان کے سارے آدمی ہمیں جان گئے تھے اور میاں گنجے کو بھی ہم سے ایک خاص دل چسپی ہوگئی تھی۔

    تین چار مواقع پر اس نے خصوصیت کے ساتھ ہمارے باہر والے احباب کی دعوت بھی کی اور یہ تو اکثر ہوتا تھا کہ جب علی گڑھ یا حیدرآباد کے کوئی صاحب ہمارے ساتھ ہوتے وہ معمول سے زیادہ خاطر کرتا۔ فرمایش کے علاوہ نلی کا گودا، بھیجا اور اچھی اچھی بوٹیاں بھیجتا رہتا اور باوجود اصرار کے کبھی ان چیزوں کی قیمت نہ لیتا۔

    اب یہ اپنے شہر والوں کی پاس داری کہاں؟ ہماری وضع میں کیا سلوٹیں آئیں کہ زندگی کی شرافت ہی میں جھول پڑگئے۔

    (یہ پارہ اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کے مضمون سے لیا گیا ہے، جنھوں نے دلّی کی تہذیب و ثقافت کو اپنے دل نشیں‌ انداز میں تحریر کیا ہے)

  • صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کا یومِ‌ وفات

    صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کا یومِ‌ وفات

    اردو زبان و ادب میں‌ نادرِ‌ روزگار اور صاحبِ اسلوب ادیبوں میں اشرف صبوحی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا جن کا بیش قیمت تخلیقی سرمایہ درجنوں کتابوں میں محفوظ ہے اور علم و ادب کی دنیا میں یہ کتب لائقِ مطالعہ ہی نہیں بلکہ یہ برصغیر کی نابغہ روزگار ہستیوں کی زندگی کے بعض‌ واقعات، تذکروں اور ہندوستان کے تہذیبی و ثقافتی ورثے پر سند و حوالہ سمجھی جاتی ہیں۔

    اشرف صبوحی 22 اپریل 1990ء کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ اشرف صبوحی کو صاحبِ اسلوب ادیب مانا جاتا ہے۔ انھیں‌ واقعات اور خاکہ نگاری میں کمال حاصل تھا اور ان کے مضامین میں دلّی کی تہذیب، ثقافت وہاں کے خاص پکوان اور مختلف شخصیات کے تذکرے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

    ان کا اصل نام سیّد ولی اشرف تھا۔ وہ 11 مئی 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے اور یہیں زندگی کا سفر تمام کیا۔

    ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے اشرف صبوحی کی نثر رواں اور نہایت خوب صورت ہے جس نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا اور قارئین نے ان کی تحریروں کو بہت پسند کیا۔

    اشرف صبوحی کی تصانیف میں دہلی کی چند عجیب ہستیاں، غبار کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ ان کے تراجم دھوپ چھائوں، ننگی دھرتی اور موصل کے سوداگر بہت مشہور ہوئے، اشرف صبوحی نے بچوں کے لیے بھی لکھا اور یہ سرمایہ کتابی شکل میں محفوظ ہے۔ وہ گلشنِ اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • دلّی والے ہر قدم پر منھ کی کھانے لگے!

    دلّی والے ہر قدم پر منھ کی کھانے لگے!

    دلّی میں جب تک شاہی رہی، دن عید رات شب برات تھی۔ ایک کماتا کنبہ بھر کھاتا۔ نہ ٹیکس تھے نہ اتنی گرانی۔

    ہر چیز سستی غدر کے بعد تک روپے کا پچیس سیر آٹا۔ پکّا دو سیر ڈھائی سیر گھی۔ بکری کا اچھے سے اچھا گوشت چار یا چھے پیسے سیر، ترکاریاں پڑی سڑتیں۔ کون پوچھتا؟

    مکانوں کا کرایہ برائے نام۔ اوّل تو غریب یا امیر سب کے مرنے جینے کے ٹھکانے اپنے الگ۔ پکّا محل نہ سہی کچّی کھپریل سہی، دوسرے غیر جگہ بسے بھی تو مفت برابر۔

    آٹھ آنے، روپے دو روپے حد تین، اس سے زیادہ نہ کوئی دیتا نہ لیتا۔ ان فارغ البالیوں اور راحتوں کے بعد مہینے کے تیس دن میں اکتیس میلے کیوں نہ ہوتے؟ روز ایک نہ ایک تہوار رکھا تھا۔ پھر جو تھا رنگیلا۔ بات بات میں دل کے حوصلے دکھانے اور چھٹّی منانے کے بہانے ڈھونڈے جاتے۔

    عید کے پیچھے ہفتے بھر تک سیریں منائی جاتیں۔ باغوں میں ناچ ہو رہے ہیں۔ دعوتیں اڑ رہی ہیں۔ شبِ برات آئی، آتش بازی بن رہی ہے۔ وزن سے وزن کا مقابلہ ہے۔ بسنتوں کی بہار دیکھنے کے قابل ہوتی، سورج مکھی کے ارد گرد مرہٹی بازوں کے غول ہیں۔ واہ واہ کا شور ہے۔ آج اس مزار پر پنکھا چھڑا کل اس درس گاہ۔ محرم میں سبیلیں سجتیں۔ تعزیہ داریاں ہوتیں، براق نکلتے، اکھاڑے جمتے۔

    دلّی کی دل والی منھ چکنا پیٹ خالی۔ غدر کے بعد کی کہاوت ہے۔ گھر بار لٹ گیا، شاہی اجڑ گئی، سفید پوشی ہی سفید پوشی باقی تھی۔ اندر خانہ کیا ہوتا ہے؟ کوئی کیا جانے باہر کی آب رو جہاں تک سنبھالی جا سکتی سنبھالتے۔ مدتوں پرانی وضع داری کو نبھایا۔ شہر آبادی کی رسمیں پوری کرتے رہے۔ سات دن فاقے کر کے آٹھویں روز پلائو کی دیگ ضرور چڑھ جاتی۔ اپنے بس تو باپ دادا کی لکیر چھوڑی نہیں۔ اب زمانہ ہی موافق نہ ہو تو مجبور ہیں۔ فاقے مست کا لقب بھی مسلمانوں کو قلعے کی تباہی کے بعد ہی ملا ہے۔ اللہ اللہ! ایک حکومت نے کیا ساتھ چھوڑا سارے لچھن جھڑ گئے۔ ہر قدم پر مُنھ کی کھانے لگے۔

    اگلے روپ اب تو کہاں دیکھنے میں آتے ہیں۔ کچھ بدنصیبی نے بگاڑے تو کچھ نئی تہذیب سے بدلے۔ اور جو کہیں دکھائی بھی دیں گے تو بالکل ایسے جیسے کوئی سانگ بھرتا ہے۔ دل کی امنگ کے ساتھ نہیں صرف رسماً کھیل تماشا سمجھ کر۔

    (اردو ادب کو لازوال اور یادگار تخلیقات، خاکہ و تذکروں سے مالا مال کرنے والے صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کی دلّی سے متعلق یادیں)

  • بارہ بہنیں

    بارہ بہنیں

    ایک تھا بادشاہ، جس کی تھیں بارہ لڑکیاں، سب کی سب بڑی خوب صورت تھیں۔ سب ایک ہی ساتھ رہتیں اور ایک ہی کمرے میں سوتیں۔ جب لڑکیاں سو جاتیں تو بادشاہ آکر باہر سے کمرے کا دروازہ بند کر دیتا۔ بادشاہ ڈرتا تھا کہ لڑکیوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچ جائے۔ اس لیے وہ ہر رات کو دروازہ بند کر دیتا تھا اور صبح سویرے ہی کھول جاتا۔

    ایک دن صبح کو جب بادشاہ دروازہ کھولنے آیا تو یہ دیکھ کر اسے بڑا تعجب ہوا کہ بارھوں لڑکیوں کے جوتے ایک قطار میں رکھے ہوئے ہیں، ہر جوتے کی ایڑی گھسی ہوئی ہے۔ جوتے گرد میں اٹے ہوئے ہیں۔ بادشاہ سمجھ گیا کہ لڑکیاں ضرور رات کو کہیں گئی تھیں مگر لڑکیاں کیوں کر باہر گئیں، یہ اس کی سمجھ میں نہ آیا اور لڑکیوں سے پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔

    آخر اس نے اعلان کیا کہ جو کوئی بھی معلوم کرے گا کہ شہزادیاں رات کو کہاں جاتی ہیں، اس کی شادی اس شہزادی سے کی جائے گی جسے وہ پسند کرے گا۔ راج پاٹ بھی اسی کو دے دیا جائے گا، مگر شرط یہ ہے کہ تین دن کے اندر معلوم کر کے بتلائے، ورنہ پھانسی دے دی جائے گی۔

    بچوں کی مزید کہانیاں

    کچھ دنوں کے بعد ایک شہزادہ آیا اور اپنے آپ کو اس کام کے لیے پیش کیا۔ بادشاہ نے اس کا استقبال بڑی دھوم دھام سے کیا۔ شہزادیوں کا کمرہ دکھلایا۔ کمرے کے پاس ہی شہزادے کے سونے اور رہنے کا انتظام کیا تاکہ نزدیک سے شہزادیوں کی نگرانی اچھی طرح کرسکے۔

    رات کو شہزادیوں کے کمرے کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا گیا تاکہ شہزادہ ان کے سونے جاگنے کو اچھی طرح دیکھ سکے، لیکن ابھی تھوڑی ہی رات گئی تھی کہ شہزادے کی آنکھوں میں نیند بھر آئی اور وہ بے خبر ہوکر سو رہا۔

    شہزادیاں ہر رات کی طرح اس رات بھی گھومنے گئیں۔ جب صبح سویرے بادشاہ آیا تو اس نے دیکھا کہ لڑکیوں کے جوتوں پر گرد پڑی ہوئی ہے اور ایڑیاں گھسی ہوئی ہیں۔

    بادشاہ نے شہزادہ سے پوچھا کہ’’بتلاؤ لڑکیاں کہاں گئی تھیں؟‘‘ وی کوئی جواب نہ دے سکا۔ دوسری اور تیسری رات کو بھی شہزادیاں گھومنے گئیں اور شہزادہ ہر رات سوتا رہا۔ آخر چوتھے دن شہزادے کو پھانسی دے دی گئی۔

    اس کے بعد بہت سے شہزادے آئے، مگر کوئی بھی یہ نہ معلوم کرسکا کہ شہزادیاں کب اور کہاں گھومنے جاتی ہیں۔

    ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ ایک غریب سپاہی سڑک سے گزر رہا تھا۔ اس نے بھی بادشاہ کا اعلان دیکھا۔ جی میں آیا کہ کسی طرح یہ بھید معلوم ہوجاتا تو زندگی بڑے آرام سے گزرتی، لیکن یہ بھید کیسے معلوم ہو یہ اس کی کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ اسی سوچ میں چلا جا رہا تھا کہ ایک بڑھیا ملی، بڑھیا نے پوچھا۔ ’’سپاہی سپاہی کہاں جارہے ہو؟‘‘

    سپاہی نے کہا۔ ’’یہ تو مجھ کو بھی نہیں معلوم، مگر دل یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح شہزادیوں کے گھومنے کا بھید معلوم ہو جاتا تو بڑا اچھا ہوتا۔‘ بڑھیا نے کہا یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ بس تم ہمّت کر لو تو بیڑا پار ہے۔

    دیکھو رات کو کھانے کے بعد لڑکیاں شراب بھجوائیں گی، وہ نہ پینا، اس کے پینے سے بڑی گہری نیند آتی ہے۔ تم ہرگز ہرگز شراب مت پینا۔ بستر پر لیٹتے ہی سوتا ہوا بن جانا اور یہ ظاہر کرناکہ تم گہری نیند میں سو رہے ہو تاکہ شہزادیاں نڈر ہو کر گھومنے جاسکیں۔ یہ لبادہ بھی اپنے ساتھ لے جاؤ، اس میں خاص بات یہ ہے کہ جب تم اس کو اوڑھ لو گے تو تمہیں کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا اور تم سب کودیکھ سکتے ہو۔‘‘

    جب بڑھیا سب کچھ سمجھا چکی تو سپاہی کی ہمّت اور بڑھ گئی۔ وہ بادشاہ کے پاس خوش خوش گیا اور کہنے لگا میں معلوم کروں گا کہ شہزادیاں رات کو کہاں گھومنے جاتی ہیں۔ بادشاہ نے سپاہی کو عمدہ کپڑے پہنائے اور شہزادیوں کے کمرے کے پاس لے جا کراس کے سونے کا کمرہ بتلا دیا۔

    شام ہوتے ہی ایک شہزادی شراب کا پیالہ لیے ہوئے سپاہی کے پاس آئی اور ہنس کر پینے کو کہا۔ سپاہی نے اپنے حلق کے پاس ایک تھیلی باندھ رکھی تھی۔ سپاہی نے بڑی ہوشیاری سے شراب تھیلی میں انڈیل لی۔ چارپائی پر لیٹتے ہی گہری نیند میں سوتا ہوا بن گیا۔ شہزادیاں یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔

    آدھی رات کے قریب شہزادیاں اٹھیں، کپڑے پہنے، بال سنوارے اور گھومنے جانے کے لیے تیار ہوگئیں۔ سپاہی اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ شہزادیاں ہنستی ہوئیں کمرے سے باہر نکلیں اور گھومنے کے لیے جانے لگیں۔ سپاہی چپکے سے اٹھا۔ لبادہ اوڑھ کر شہزادیوں کے پیچھے ہولیا۔

    تھوڑی دور چلنے کے بعد سب سے چھوٹی شہزادی بولی،’’مجھے ڈر لگ رہا ہے، نہ جانے آج کیا بات ہے دل خوش نہیں۔‘‘

    بڑی شہزادی نے کہا۔ ’’تم بس یوں ہی ڈر رہی ہو۔ کوئی بات نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر تمام شہزادیاں ہنستی ہوئی ایک باغ میں پہنچیں۔ باغ کے تمام درحت نہایت خوب صورتی سے برابر لگے ہوئے تھے۔ پتیاں چاندی کی طرح سفید تھیں۔ سپاہی نے ایک درخت سے چھوٹی سی شاخ توڑ لی۔ شاخ توڑنے سے آواز پیدا ہوئی۔ چھوٹی شہزادی سہم گئی اور دوسری بہنوں سے کہنے لگی ’’کیا تم لوگ یہ آواز نہیں سن رہی ہو۔ آج ضرور کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ مجھے تو بڑا ڈر لگ رہا ہے۔‘‘

    بڑی شہزادی نے پھر ہنس کر اس کی بات کو ٹالا اور کہا کہ کچھ نہیں بس تمہیں کچھ وہم ہوگیا ہے۔ چلتے چلتے شہزادیاں دوسرے باغ میں پہنچیں جہاں درختوں کی پتیاں سنہرے رنگ کی تھیں، باغ کے بیچ میں ایک خوب صورت چبوترا بنا ہوا تھا۔ سب شہزادیاں اس پر بیٹھ گئیں۔

    یہاں بارہ پیالے شربت کے بھرے ہوئے رکھے تھے۔ ہر ایک شہزادی نے ایک پیالہ پیا اور پھر آگے کی طرف چلیں۔ سپاہی نے یہاں بھی ایک ٹہنی توڑی اور ایک پیالہ اٹھاکر لبادہ میں رکھ لیا۔ چھوٹی شہزادی شاخ ٹوٹنے کی آواز پر پھر ڈری اور بڑی شہزادی نے پھر دلاسہ دیا۔

    تھوڑی دیر کے بعد شہزادیاں ایک دریا کے کنارے پہنچیں۔ جہاں بارہ کشتیاں کنارے پر لگی ہوئی تھیں اور ہر ایک کشی میں ایک شہزادہ بیٹھا ہوا تھا۔ شہزادیاں ایک ایک کشتی میں بیٹھ گئیں اور دریا کے بیچ میں جاکر موجوں کا تماشا دیکھنے لگیں۔

    صبح ہوتے ہوتے شہزادیاں واپس آکر سو گئیں۔ بادشاہ نے صبح کو شہزادیوں کے گھومنے کا حال سپاہی سے پوچھا۔ سپاہی نے تفصیل سے تمام جگہیں بتلا دیں اور ثبوت کے طور پر درختوں کی شاخیں اور پیالہ پیش کردیا۔ بادشاہ نے لڑکیوں کوبلاکر پوچھا کہ ’’سپاہی جو کچھ کہہ رہا ہے ٹھیک ہے۔‘‘ لڑکیوں نے کہا ۔’’ہاں سچ ہے۔‘‘

    بادشاہ نے اپنا مقرر کیا ہوا انعام دینے کا اعلان کر دیا۔ سپاہی نے بڑی شہزادی کو پسند کیا۔ اس سے شادی کر دی گئی اور سپاہی کو سلطنت کا ولی عہد بنا دیا گیا۔

  • مرزا چپاتی کی حاضر جوابی

    مرزا چپاتی کی حاضر جوابی

    خُدا بخشے مرزا چپاتی کو، نام لیتے ہی صورت آنکھوں کے سامنے آگئی۔ گورا رنگ، بڑی ابلی ہوئی آنکھیں، لمبا قد شانوں پر سے ذرا جھکا ہوا۔ چوڑا شفّاف ماتھا۔ تیموری ڈاڑھی، چنگیزی ناک، مغلئی ہاڑ۔ لڑکپن تو قلعے کی در و دیوار نے دیکھا ہوگا۔

    جوانی دیکھنے والے بھی ٹھنڈا سانس لینے کے سوا کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ڈھلتا وقت اور بڑھاپا ہمارے سامنے گزرا ہے۔ لُٹے ہوئے عیش کی ایک تصویر تھے۔ رنگ روغن اترا ہوا محمد شاہی کھلونا تھا جس کی کوئی قیمت نہ رہی تھی۔

    کہتے ہیں کہ دلّی کے آخری تاج دار ظفر کے بھانجے تھے۔ ضرور ہوں گے۔ پوتڑوں کی شاہ زادگی ٹھیکروں میں دم توڑ رہی تھی، لیکن مزاج میں رنگیلا پن وہی تھا۔ جلی ہوئی رسّی کے سارے بل گن لو۔ جب تک جیے پرانی وضع کو لیے ہوئے جیے۔

    مرتے مرتے نہ کبوتر بازی چھوٹی، نہ پتنگ بازی۔ مرغے لڑائیں یا بلبل، تیراکی کا شغل رہا یا شعبدے بازی کا۔ شطرنج کے بڑے ماہر تھے۔ غائب کھیلتے تھے، خدا جانے غدر میں یہ کیوں کر بچ گئے اور جیل کے سامنے والے خونی دروازے نے ان کے سر کی بھینٹ کیوں نہ قبول کی؟

    انگریزی عمل داری ہوئی۔ بدامنی کا کوئی اندیشہ نہ رہا تو مراحمِ خسروانہ کی لہر اٹھی۔ خاندانِ شاہی کی پرورش کا خیال آیا، پینشنیں مقرر ہوئیں۔ مگر برائے نام۔ ساڑھے تیرہ روپے مرزا چپاتی کے حصّے میں آئے۔ اللہ اللہ کیا زمانے کا انقلاب ہے، ایک ذرا سے چکر میں تقدیر ہزار قدم پیچھے ہٹ گئی۔

    لیکن صاحب عالم مرزا فخرالدین عرف مرزا فخرو الملّقب بہ مرزا چپاتی نے مردانہ وار زندگی گزاری۔ گھر بار جب کبھی ہوگا، ہوگا۔ ہماری جب سے یاد اللہ ہوئی دمِ نقد ہی دیکھا۔ قلعے کی گود میں بازیوں کے سوا اور سیکھا ہی کیا تھا جو بگڑے وقت میں اَبرد بتاتا۔

    اپنے والد رحیم الدین حیا سے ایک فقط شاعری ورثے میں ملی تھی۔ پڑھنا لکھنا آتا نہ تھا۔ پھر زبان توتلی، مگر حافظہ اس بلا کا تھا کہ سو سو بند کے مسدّس ازبر تھے۔ کیا مجال کہ کہیں سے کوئی مصرع بھول جائیں۔ گویا گرامو فون تھے، کوک دیا اور چلے۔

    حاضر دماغ ایسے کہ ایک مرتبہ دہلی کی مشہور ڈیرہ دار طوائف دونّی جان جو ادھیڑ عمر کی عورت ہوچکی تھیں کہیں سامنے سے آتی نظر آئیں۔ انھیں دیکھ کر مرزا کے کسی دوست نے کہا کہ استاد اس وقت دونّی جان پر کوئی پھبتی ہوجائے تو مزہ آجائے۔ بھلا مرزا صاحب کہاں چوکنے والے تھے۔ فوراً بولے

    گھستے گھستے ہوگئی اتنی ملٹ
    چار پیسے کی دونّی رہ گئی

    اس طرح ایک دن کسی شخص نے مرزا صاحب کے سامنے یہ مصرع پڑھا، ‘سَر عدو کا ہو نہیں سکتا میرے سَر کا جواب’۔ اور اس پر مصرع لگانے کی فرمائش کی۔

    مرزا صاحب نے اسی وقت بہترین مصرع لگا کر اس طرح ایک اعلا پایہ کا شعر بنا دیا:

    شہ نے عابد سے کہا بدلہ نہ لینا شمر سے
    سَر عدو کا ہو نہیں سکتا میرے سَر کا جواب

    (نام ور ادیب اور مترجم اشرف صبوحی کی تحریر "مرزا چپاتی” سے اقتباس)

  • مٹھّو بھٹیارا

    مٹھّو بھٹیارا

    ناشتہ بیچنے والے کو بھٹیارا کہا جاتا تھا۔ میاں مٹّھو کا نام تو کچھ بھلا سا ہی تھا، کریم بخش یا رحیم بخش ٹھیک یاد نہیں، ڈھائی ڈھوئی کے مینہ سے پہلے کی بات ہے، ساٹھ برس سے اوپر ہی ہوئے ہوں گے، مگر ایک اپنی گلی والے کیا، جو انھیں پکارتا میاں مٹّھو کہہ کر اور انھیں بھی اسی نام سے بولتے دیکھا۔

    میاں مٹّھو بھٹیارے تھے۔ سرائے کے نہیں، دلّی میں محلے محلے جن کی دکانیں ہوتی ہیں، تنور میں روٹیاں لگتی اور شوربا، پائے اور اوجھڑی بکتی ہے۔ نان بائی اور نہاری والوں سے ان بھٹیاروں کو ذرا نیچے درجے کا سمجھنا چاہیے۔ تنور والے سب ہوتے ہیں۔ نان بائیوں کے ہاں خمیری روٹی پکتی ہے۔ یہ بے خمیر کے پکاتے ہیں۔ ادھر آٹا گندھا اور ادھر روٹیاں پکانی شروع کر دیں۔

    پراٹھے تو ان کا حصہ ہے۔ بعض تو کمال کرتے ہیں۔ ایک ایک پراٹھے میں دس دس پرت اور کھجلے کی طرح خستہ۔ دیکھنے سے مُنھ میں پانی بھر آئے۔ قورمہ اور کبابوں کے ساتھ کھائیے۔ سبحان اللہ۔ بامن کی بیٹی کلمہ نہ پڑھنے لگے تو ہمارا ذمہ۔

    شاہ تارا کی گلی میں شیش محل کے دروازے سے لگی ہوئی میاں مٹّھو کی دکان تھی۔ شیش محل کہاں؟ کبھی ہو گا۔ اس وقت تک آثار میں آثار ایک دروازہ وہ بھی اصلی معنوں میں پھوٹا ہوا باقی تھا۔ نمونتہً بہ طور یادگار۔ اب تو ہمارے دیکھتے دیکھتے وہ بھی صاف ہو گیا۔ اس کی جگہ دوسری عمارتیں بن گئیں۔ دروازہ تو کیا رہتا، دروازے کے دیکھنے والے بھی دو چار ہی ملیں گے۔

    سنا ہے جاڑے، گرمی، برسات محلّے بھر میں سب سے پہلے میاں مٹھو کی دکان کھلتی۔ منھ اندھیرے، بغل میں مسالے کی پوٹلی وغیرہ سر پر پتیلا، پیٹھ کے اوپر کچھ چھپٹیاں کچھ جھانکڑ لگنی میں بندھے ہوئے گنگناتے چلے آتے ہیں۔ آئے دکان کھولی، جھاڑو، بہارو کی، تنور کھولا، ہڈیوں گڈیوں یا اوجھڑی کا ہنڈا نکالا۔ ہڈیاں جھاڑیں۔ اس کوٹھی کے دھان اس کوٹھی میں کیے۔ یعنی گھر سے جو پتیلا لائے تھے۔ ہنڈے کا مال اس میں ڈالا۔ مسالہ چھڑکا اور اپنے دھندے سے لگ گئے۔

    سورج نکلتے نکلتے سالن، نہاری، شروا جو کہو درست کر لیا۔ تندور میں ایندھن جھونکا۔ تندور گرم ہوتے ہوتے غریب غربا کام پر جانے والے روٹی پکوانے یا لگاون کے لیے شروا لینے آنے شروع ہو گئے۔ کسی کے ہاتھ میں آٹے کا طباق ہے تو کوئی مٹّی کا پیالہ لیے چلا آتا ہے اور میاں مٹّھو ہیں کہ جھپا جھپ روٹیاں بھی پکاتے جاتے ہیں اور پتیلے میں کھٹا کھٹ چمچ بھی چل رہا ہے۔

    مٹھو میاں کی اوجھڑی مشہور تھی۔ دور دور سے شوقین منگواتے۔ آنتوں اور معدے کے جس مریض کو حکیم اوجھڑی کھانے کو بتاتے وہ یہیں دوڑا چلا آتا۔ کہتے ہیں کہ پراٹھے بھی جیسے میاں مٹھو پکا گئے پھر دلّی میں کسی کو نصیب نہ ہوئے۔

    ہاتھ کچھ ایسا منجھا ہوا تھا، تندور کا تائو ایسا جانتے تھے کہ مجال ہے جو کچا رہے یا جل جائے۔ سرخ جیسے باقر خانی، سموسے کی طرح ہر پرت الگ نرم کہو تو لچئی سے زیادہ نرم بالکل ملائی۔ کرارا کہو تو پاپڑوں کی تھئی۔ کھجلے کو مات کرے۔ پھر گھی کھپانے میں وہ کمال کہ پائو سیر آٹے میں ڈیڑھ پائو کھپا دیں۔ ہر نوالے میں گھی کا گھونٹ اور لطف یہ کہ دیکھنے میں روکھا۔ غریبوں کے پراٹھے بھی ہم نے دیکھے۔ دو پیسے کے گھی میں تر بہ تر۔

    بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا کہ ڈیڑھ پائو گھی والے سے دو پیسے والے پر زیادہ رونق ہے، اس ہنر کی بڑی داد یہ ملتی کہ غریب سے غریب بھی پراٹھا پکوا کر شرمندہ نہ ہوتا۔ پوسیری اور چھٹنکی پراٹھے دیکھنے والوں کو یکساں ہی دکھائی دیتے۔ مال دار اور مفلس کا بھید نہ کھلتا۔

    (مغلیہ دور اور برطانوی راج کی دلّی کے مختلف مقامات کا احوال اور وہاں کے لوگوں کے شب و روز کو اپنے منفرد اسلوب میں بیان کرنے والے اشرف صبوحی کے مضمون سے اقتباس)