Tag: اشرف صبوحی

  • "جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے!”

    "جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے!”

    اجی وہ زمانے لد گئے جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے۔ آج کی کہو۔ جس کو دیکھو بے لوّا کا سونٹا بنا پھرتا ہے۔ نہ بڑوں کا ادب نہ چھوٹوں کی لاج۔ وہی مثل ہوگئی کہ باؤلے گان٘و اونٹ آیا لوگوں نے جانا پرمیشور آئے۔

    حضت ہم نے بھی دنیا دیکھی ہے۔ جھجّو جھونٹوں میں عمر نہیں گزاری۔ رانڈ کے سانڈ بن کے نہ رہے۔ یہ بال دھوپ میں سفید نہیں ہوئے۔ کیا کہا، بارہ برس دلّی میں رہے اور بھاڑ جھونکا؟

    ہاں صاحب اب تو جو کہو بجا ہے۔ آنکھ پھوٹی پیڑ گئی۔ دلّی کا کوئی ہو تو اس کے پیٹ میں درد اٹھے۔ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ پھر جیسا راجا ویسی پرجا، جیسی گندی سیتلا ویسے پوجن ہار۔

    میری کیا پوچھتے ہو، آٹے کا چراغ گھر رکھوں تو چوہا کھائے، باہر دھروں کوا لے جائے۔ انھیں کیوں نہیں دیکھتے جو آدھے قاضی قدوا اور آدھے بابا آدم بنے ہوئے ہیں۔

    آخر کس برتے پر تتا پانی ۔ کرگا چھوڑ تماشے جائے، ناحق چوٹ جولاہا کھائے۔ خیر بھئی ہم تو اپنی کہتے ہیں۔ زن، زر، زمین، زبان قضیہ چاروں کے گھر۔ یہاں کیا دھرا ہے؟ جس کا کام اسی کو ساجے اور کرے تو ٹھینگا باجے۔

    پہلے بادشاہی تھی اب انگریزی ہے۔ سُنا نہیں کہ راجا کہے سو نیاؤ، پانسہ پڑے تو داؤ، کالوں کا چراغ بجھ گیا۔ گوروں کی رتّی چڑھی ہوئی ہے۔ خدا سے لڑو، حکومت اس کی جس کے ہاتھ میں تلوار۔ کہتے نہیں کہ رانی کو رانا اور کانی کو کانا۔ دلی اسی قابل رہ گئی تھی۔

    اچھا جناب ‘تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو’ بقول ذوق، یار تو کباب بیچتے ہیں، جس کی زبان سو دفعہ کھجائے، وہ ہمارے نخرے اٹھائے۔

    (اشرف صبوحی دہلوی کے خاکے "گھمّی کبابی” سے اقتباس)

  • دلّی والے اشرف صبوحی کا تذکرہ

    دلّی والے اشرف صبوحی کا تذکرہ

    اردو زبان و ادب کو بیش قیمت تخلیقی سرمائے سے مالا مال کرنے اور نثر یا نظم کے میدان میں اپنے اسلوب اور منفرد موضوعات کی وجہ سے پہچان بنانے والوں میں اشرف صبوحی بھی شامل ہیں۔

    انھیں ایک صاحب اسلوب ادیب کی حیثیت سے اردو ادب میں خاص مقام اور مرتبہ حاصل ہے۔ آج ان کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔ اشرف صبوحی کا اصل نام سید ولی اشرف تھا۔ 11 مئی 1905 کو دہلی میں پیدا ہونے والے اشرف صبوحی 22 اپریل 1990 کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔

    اشرف صبوحی کا تعلق ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے سے تھا۔ ان کی نثر رواں اور نہایت خوب صورت ہے اور یہی وجہ ہے کہ انھیں صاحب اسلوب ادیب کہا جاتا ہے۔ اشرف صبوحی کی تصانیف میں دہلی کی چند عجیب ہستیاں، غبار کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی لکھا۔ دلّی سے متعلق اشرف صبوحی کی تحریر سے ایک پارہ باذوق قارئین کے لیے نقل کیا جارہا ہے۔

    دلّی میں جب تک شاہی رہی، دن عید، رات شبِ برات تھی۔ ایک کماتا کنبہ بھر کھاتا۔ نہ ٹیکس تھے نہ اتنی گرانی۔

    ہر چیز سستی، غدر کے بعد تک روپے کا پچیس سیر آٹا۔ پکا دو سیر ڈھائی سیر گھی۔ بکری کا اچھے سے اچھا گوشت چار یا چھے پیسے سیر، ترکاریاں پڑی سڑتیں۔ کون پوچھتا؟

    مکانوں کا کرایہ برائے نام۔ اوّل تو غریب یا امیر سب کے مرنے جینے کے ٹھکانے اپنے الگ۔ پکا محل نہ سہی کچی کھپریل سہی، دوسرے غیر جگہ بسے بھی تو مفت برابر۔ آٹھ آنے، روپے دو روپے حد تین، اس سے زیادہ نہ کوئی دیتا نہ لیتا۔

    ان فارغ البالیوں اور راحتوں کے بعد مہینے کے تیس دن میں اکتیس میلے کیوں نہ ہوتے؟ روز ایک نہ ایک تہوار رکھا تھا۔