Tag: اشرف غنی

  • ‘مجھے صرف 2 منٹ دیے گئے تھے’

    ‘مجھے صرف 2 منٹ دیے گئے تھے’

    کابل: افغانستان کے سابق صدر اشرف غنی نے آخر کار اچانک ملک چھوڑ کر فرار ہونے پر خاموشی توڑ دی ہے، انھوں نے کہا کہ انھیں قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق صدر افغانستان اشرف غنی نے ملک میں اپنے آخری دن کے حوالے سے ایک کہانی سنا دی ہے، ان کا کہنا ہے کہ انھیں ملک سے جانے کا فیصلہ کرنے کے لیے صرف 2 منٹ دیے گئے تھے۔

    جس دن طالبان نے بغیر کسی مزاحمت کے نہایت سہولت کے ساتھ کابل میں داخل ہو کر زمام اقتدار پر قبضہ جمایا، اس دن کے حوالے سے اشرف غنی نے کہا کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ 15 اگست افغانستان میں میرا آخری دن ہوگا۔

    سابق افغان صدر اشرف غنی نے کابل سے فرار ہونے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ملک چھوڑنا سب سے مشکل امر تھا لیکن صدارتی محل کی سیکیورٹی گر گئی تھی جو مجھے بچا نہیں سکتی تھی۔

    اشرف غنی نے کہا کہ عالمی دوستوں پر اعتبار کرنا بھی میری غلطی تھی، میری زندگی بھر کا کام برباد ہو گیا، میری اقدار ملیا میٹ ہو گئیں اور مجھے قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔

  • طالبان نے کابل پر قبضہ نہیں کیا تھا بلکہ … سابق صدر کا انکشاف

    طالبان نے کابل پر قبضہ نہیں کیا تھا بلکہ … سابق صدر کا انکشاف

    افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے انکشاف کیا ہے کہ طالبان نے کابل پر قبضہ نہیں‌ کیا تھا، بلکہ انھیں دعوت دی گئی تھی، اشرف غنی نے اچانک ملک چھوڑ کر سارا منصوبہ درہم برہم کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے سابق افغان صدر اشرف غنی کی خفیہ اور اچانک رخصتی کے بارے میں کچھ ابتدائی معلومات ظاہر کی ہیں۔

    حامد کرزئی نے کہا طالبان کو شہر میں داخل ہونے کی دعوت دی گئی تھی تاکہ آبادی کا تحفظ کیا جا سکے اور ملک کو افراتفری سے بچایا جا سکے۔ انھوں نے کہا حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ عبد اللہ عبد اللہ اور دوحہ میں موجود طالبان قیادت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا ایک حصہ کابل میں طالبان کا داخلہ بھی تھا۔

    انھوں نے کہا اشرف غنی کے اچانک چلے جانے سے دارالحکومت میں طالبان کے داخلے کے حوالے سے منصوبہ بندی درہم برہم ہو گئی، اشرف غنی کے جاتے ہی دیگر حکام بھی ملک چھوڑ گئے، جب میں نے وزیر دفاع بسم اللہ خان کو فون کیا تو انھوں نے بتایا کہ اعلیٰ حکام میں سے شہر میں کوئی بھی موجود نہیں ہے۔

    حامد کرزئی نے کہا اس کے بعد میں نے وزیر داخلہ کو فون کیا، پولیس چیف کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی موجود نہیں تھا، یہاں تک کہ نہ کور کمانڈر تھے اور نہ کوئی یونٹ، سب جا چکے تھے۔

    یاد رہے کہ اس وقت حامد کرزئی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ عبداللہ عبداللہ دوحہ میں طالبان قیادت کے ساتھ ایک معاہدے پر کام کر رہے تھے جس کے تحت طالبان کو کچھ شرائط کے ساتھ دار الحکومت میں داخل ہونے دیا جاتا۔

    حامد کرزئی نے بتایا کہ 15 اگست کی صبح افواہیں پھیلی ہوئی تھیں کہ طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا ہے جس پر انھوں نے دوحہ فون کیا جہاں سے انھیں بتایا گیا کہ طالبان شہر کے اندر داخل نہیں ہوں گے۔

    حامد کرزئی کے مطابق دوپہر تک طالبان کا بیان آیا کہ حکومت کو اپنی جگہ پر برقرار رہنا چاہیے کیوں کہ طالبان شہر میں داخل ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے، اس کے بعد تین بجے تک واضح ہو چکا تھا کہ سب ملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

    حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ اگر اشرف غنی کابل میں ہی رہتے تو پر امن انتقال اقتدار کا معاہد ہ ہو سکتا تھا، حامد کرزئی نے یہ بھی کہا کہ وہ آج کل روزانہ کی بنیاد پر طالبان قیادت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

  • اشرف غنی نے 14 اگست کی رات کیا کیا؟ امریکی وزیر خارجہ نے راز کھول دیا

    اشرف غنی نے 14 اگست کی رات کیا کیا؟ امریکی وزیر خارجہ نے راز کھول دیا

    واشنگٹن: سابق افغان صدر اشرف غنی سے متعلق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے راز افشا کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے پہلے تو طالبان کے خلاف موت تک لڑنے کا وعدہ کیا اور اگلے ہی دن ملک سے فرار ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز ایک امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انٹونی بلنکن نے کہا کہ 14 اگست کی رات کو ان کی اشرف غنی سے فون پر گفتگو ہوئی تھی، انھوں نے طالبان سے مرتے دم تک لڑنے کا وعدہ کیا۔

    امریکی ٹی وی کو حال ہی میں ایک انٹرویو میں افغانستان کے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا تھا کہ کابل حکومت کو گرنے سے بچانے کے لیے امریکی انتظامیہ اور بھی بہت کچھ کر سکتی تھی۔

    اس حوالے سے انٹونی بلنکن سے پوچھا گیا کہ کیا انھوں نے غنی کو کابل میں رہنے کے لیے ذاتی طور پر اصرار کیا تھا، امریکی وزیر خارجہ نے بتایا کہ انھوں نے ہفتے کی رات کو سابق افغان صدر پر زور دیا تھا کہ وہ کابل میں طالبان کی ایسی حکومت کو قبول کریں، جس میں افغان معاشرے کی تمام طاقتوں کی شمولیت ہو۔

    ‘اشرف غنی کا انخلا اور فوج کی شکست’ امریکا نے معلومات پوشیدہ رکھی

    بلنکن نے کہا کہ اس کے جواب میں اشرف غنی نے کہا کہ وہ ایسا کرنے کے لیے تیار ہیں، اور اگر طالبان نے ایسا نہیں کیا، تو وہ مرتے دم تک ان کے ساتھ لڑیں گے، لیکن اگلے ہی دن وہ افغانستان سے فرار ہو گئے۔

    انٹونی بلنکن نے کہا کہ میں اشرف غنی کے ساتھ کئی ہفتوں، کئی مہینوں تک مصروف رہا ہوں، محکمہ خارجہ ہر اس کام کا جائزہ لے رہا ہے جو امریکا نے 2020 کے بعد سے کیا، جب ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے لیے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔

    انھوں نے کہا کہ اس جائزے میں وہ اقدامات شامل ہوں گے جو ہم نے اپنی انتظامیہ کے دوران کیے کیوں کہ ہمیں پچھلے دو برسوں سے ہر ممکن سبق سیکھنا ہے، اور پچھلے 20 سالوں سے بھی۔

  • سابق مفرور افغان صدر کے محافظ کا اشرف غنی سے متعلق سنسنی خیز انکشافات

    سابق مفرور افغان صدر کے محافظ کا اشرف غنی سے متعلق سنسنی خیز انکشافات

    کابل: سابق مفرور افغان صدر کے محافظ نے اشرف غنی سے متعلق سنسنی خیز انکشافات کر دیے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی اخبار کے صحافی نے ایک رپورٹ میں اشرف غنی کے سابق چیف باڈی گارڈ جنرل شریفی کے حوالے سے اہم انکشافات کیے ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سابق مفرور افغان صدر کے محافظ بریگیڈیئر جنرل پیراز عطا شریفی نے اشرف غنی کے بھاگنے کی فوٹیج کا دعویٰ کیا ہے، جنرل شریفی نے کہا کہ اشرف غنی کی بھاگتے ہوئے سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے۔

    جنرل عطا شریفی طالبان کے آنے کے بعد جلال آباد میں ایک گھر کے تہ خانے میں چھپ گئے تھے، پانچ ماہ قبل یہ برطانیہ کے نہایت سینئر سولجر جنرل سر نک کارٹر کے ساتھ ایک کانفرنس میں ایک میز پر بیٹھے ہوئے تھے

    ڈیلی میل کے مطابق جنرل شریفی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اشرف غنی افغانستان سے لاکھوں نہیں شاید کروڑوں ڈالر لے کر بھاگے ہیں، انھوں نے جاتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس اسلحہ ہے۔

    طالبان حکومت کے اعلان پر اشرف غنی بول پڑے

    طالبان کے کنٹرول کے بعد افغانستان سے بھاگتے وقت سابق صدر نے اسلحہ بھی ساتھ لے لیا تھا، جنرل شریفی نے دعویٰ کیا ہے کہ اشرف غنی نے انھیں بتایا کہ اگر طالبان نے انھیں پکڑنے کی کوشش کی تو وہ خود کو مار ڈالیں گے۔

    یاد رہے کہ 8 ستمبر کو اشرف غنی نے فرار کے بعد اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پہلی بار پیغام دیا، انھوں نے لکھا کہ کابل چھوڑنا میری زندگی کاسب سے مشکل فیصلہ تھا، میں نے صدارتی محل کی سیکیورٹی ٹیم ‏کے کہنے پر افغانستان چھوڑا، سیکیورٹی ٹیم نے کہا آپ نہیں نکلے تو سڑکوں پر خون خرابا ہوگا۔

    اشرف غنی نے لکھا کہ اپنےلوگوں کو تنہا چھوڑنے کا کبھی کوئی ارادہ نہیں تھا، مجھ پر لاکھوں ڈالرز لے کر بھاگنے کے ‏الزامات بے بنیاد ہیں، کرپشن نے ہمارے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں، بحیثیت صدر کرپشن کے خلاف جنگ میری ‏ترجیح تھی۔

  • طالبان کے قبضے سے قبل بائیڈن اور اشرف غنی کے درمیان آخری فون کال

    طالبان کے قبضے سے قبل بائیڈن اور اشرف غنی کے درمیان آخری فون کال

    واشنگٹن: افغانستان کا کنٹرول طالبان کے ہاتھ میں‌ جانے سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن اور افغان ہم منصب اشرف غنی کے درمیان ایک آخری فون کال ہوئی تھی۔

    برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس آخری کال میں دونوں رہنماؤں نے فوجی امداد، سیاسی حکمت عملی اور پیغام رسانی کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

    اس گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ نہ تو جو بائیڈن اور نہ ہی اشرف غنی فوری طور پر کسی خطرے سے آگاہ یا اس کے لیے تیار نظر آئے، نہ وہ اس ٹیلی فونک گفتگو کے 23 دن بعد افغان حکومت کے انہدام کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ جو بائیڈن اور اشرف غنی نے 23 جولائی کو تقریباً 14 منٹ بات کی جب کہ 15 اگست کو اشرف غنی صدارتی محل چھوڑ کر نکل گئے جس کے بعد طالبان کابل میں داخل ہو گئے تھے۔

    جو بائیڈن نے کہا اگر آپ عوامی سطح پر یہ کہیں کہ آپ کے پاس افغانستان میں بگڑتی ہوئی صورت حال کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ ہے، اگر ہمیں اس منصوبے کا علم ہو تو ہم فضائی مدد فراہم کرتے رہیں گے۔

    خیال رہے کہ اس فون کال سے کچھ دن قبل امریکا نے افغان سیکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے فضائی حملے کیے تھے جس پر طالبان نے کہا تھا کہ یہ اقدام دوحہ امن معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔

    جو بائیڈن نے اشرف غنی کو مشورہ دیا کہ وہ پیش قدمی کرنے والی فوجی حکمت عملی کے لیے طاقت ور افغانوں کو مجتمع کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس کا انچارج ایک جنگجو کو بنائیں۔ ان کا اشارہ وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی کی جانب تھا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ اب افغان افواج کی برائی کرنے والے جو بائیڈن نے اس دن فون پر افغان مسلح افواج کی تعریف کی تھی، انھوں نے کہا آپ کے پاس بہترین فوج ہے، آپ کے پاس ستر اسی ہزار کے مقابلے کے لیے تین لاکھ افراد پر مشتمل اچھی مسلح فوج ہے اور وہ بہتر انداز میں لڑنے کے قابل ہے۔

    بائیڈن نے کہا دنیا بھر اور افغانستان کے کچھ حصوں میں یہ تاثر موجود ہے کہ طالبان کے خلاف جنگ کے حوالے سے حالات ٹھیک نہیں ہیں، یہ تاثر حقیقت پر مبنی ہو یا نہیں، اس وقت ایک مختلف تصویر پیش کرنے کی ضرورت ہے، اگر افغانستان کی ممتاز سیاسی شخصیات ایک نئی عسکری حکمت عملی کی حمایت کرتے ہوئے ایک ساتھ پریس کانفرنس کریں گے تو اس سے یہ تاثر بدل جائے گا اور میرے خیال میں اس سے بہت زیادہ تبدیلی آئے گی۔

    امریکی صدر نے افغان حکومت محفوظ رکھنے کے لیے سفارتی، سیاسی اور معاشی طور پر سخت لڑائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا، جب کہ اشرف غنی نے طالبان کے حوالے سے ایک بار پاکستان پر الزام لگایا، تاہم واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے ان الزامات کی تردید کی ہے، وائٹ ہاؤس نے منگل کو اس کال پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا تھا۔

    یاد رہے کہ اشرف غنی کے بارے میں خیال یہ ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں، ان کا آخری بیان 18 اگست کو آیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ خونریزی روکنے کے لیے افغانستان سے فرار ہوئے۔

  • افغانستان: موجودہ صورتِ‌ حال، افراتفری اور انتشار کا ذمہ دار کون؟

    افغانستان: موجودہ صورتِ‌ حال، افراتفری اور انتشار کا ذمہ دار کون؟

    کابل شہر خصوصاً اور افغانستان مجموعی طور پر افراتفری، انتشار، عدم تحفّظ، اور مستقبل کے حوالے سے بے یقینی کا شکار نظر آرہا ہے جس کی وجہ طالبان کا برق رفتاری کے ساتھ صوبائی دارالحکومتوں کے بعد دارالخلافہ پر قبضہ ہے جب کہ دوسری طرف افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی جو قوم کو یہ یقین دلاتے رہے کہ طالبان اقتدار پر قابض نہیں ہوں گے، وہ طالبان کے کابل میں داخل ہونے کے بعد راہِ فرار اختیار کرچکے ہیں۔ دوسری طرف کسی بھی ملک کے استحکام کی ضمانت سمجھے جانے والی قوّت اس کی فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوتے ہیں جو مسلح طالبان کے سامنے نہیں‌ ٹھہر سکے اور گویا ڈھیر ہوگئے۔

    افغانستان میں فوج کی پسپائی اور وجوہات
    تقریباً دو ماہ قبل امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے بہت پر اعتماد انداز میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ نے افغانستان کی فوج اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں جن کی تعداد تین لاکھ کے قریب ہے، کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ نہ صرف تعداد میں لگ بھگ ستّر ہزار طالبان کی پیش قدمی کو روک کر ان کو پسپا ہونے پر مجبور کردیں گے بلکہ اپنے ملک کی سلامتی اور حکومت کا دفاع بھی کریں گے۔ ان کا دعویٰ‌ تھا کہ امریکہ کے پندرہ ہزار کے قریب ٹرینروں نے انھیں تربیت دے کر جدید اسلحہ سے لیس کیا ہے جب کہ امریکہ کے ادارے اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان کی رپورٹ کے مطابق افغان ارمی پر گزشتہ بیس سال میں 80 بلین ڈالر سے زائد خرچ کیے گئے ہیں، لیکن صورتِ حال دنیا کے سامنے ہے۔ جونہی امریکہ اور اتحادی افواج کا انخلا مکمل ہوا افغانستان کی فوج اور دیگر اداروں کے اہلکار تتر بتر ہوگئے اور وہ اسلحہ جو ان کو طالبان کے خلاف لڑنے کے لیے ملا تھا، اسی اسلحہ سمیت طالبان کے سامنے ڈھیر ہوگئے۔

    تجزیہ کاروں کے مطابق افغان آرمی کی پسپائی کی بڑی وجہ لسانی، قومیت اور قبائل کی بنیاد پر تقسیم، بڑھتی ہوئی کرپشن، افسروں اور ماتحت میں عدم اعتماد اور بدترین بد انتظامی ہے اور اس کے علاوہ افغان فوج کو اس بات کا یقین نہیں تھا کہ امریکہ ان کو یوں چھوڑ کر ملک سے نکل جائے گا جس کا طالبان نے فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں زیر کرلیا۔

    افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا فرار اور اس کے اثرات
    ڈاکٹر اشرف غنی جو افغانستان کے 2014 کے متنازع انتخابات میں صدر منتخب ہوئے تھے اس سے قبل ورلڈ بنک سے منسلک رہے اور ایک کتاب انگریزی زبان میں بھی تحریر کرچکے ہیں جس کا عنوان تھا، ناکام ریاستوں کی تعمیرِ نو (ری کنسٹرکشن آف فیلڈ اسٹیٹ) لیکن جب ان کو خود ایک تباہ حال افغانستان دیا گیا تو سیاسی، قبائلی، لسانی اور قومیتی تقسیم کو بڑھاوا ملا اور یہی وجہ کہ امریکہ کو بار بار ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبد اللہ عبد اللہ کے مابین تعلقات کو قائم رکھنے کے لیے مداخلت کرنا پڑتی جب کہ ڈاکٹر اشرف غنی کے بارے میں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان کے قریبی حلقوں میں زیادہ تر وہ لوگ شامل تھے جو بیرونِ ملک مقیم تھے اور ان کو ڈاکٹر اشرف غنی کی دعوت پر ان کی معاونت کے لیے آئے تھے جس کے باعث ڈاکٹر اشرف غنی اور ان کے اتحادی افغان قیادت عدم اعتماد کا شکار رہے جس کے اثرات اس وقت سامنے ائے جب امریکہ نے افغان حکومت کی بجائے طالبان سے مذاکرات کر کے دوحا معاہدہ قلمبند کیا اور پھر اپنی واپسی کے اعلان پر عملدرامد شروع کردیا۔

    تجزیہ نگاروں کے مطابق چونکہ اشرف غنی کی اپنی حکومت پر رٹ کمزور تھی اس لیے طالبان نے جب امسال مئی میں پیش قدمی شروع کی تو ان کو سخت مزاحمت کا سامنا پیش نہیں ایا اور طالبان نے مختصر وقت میں کابل پر قبضہ کر لیا اور اشرف غنی کو اپنے کابینہ کے ساتھیوں کو چھوڑ کر فرار ہونا پڑا اور یہی وہ لمحہ تھا جب افغان قوم صدمے میں چلی گئی اور وہ طالبان جن کے بارے میں ان کو یقین تھا کہ افغان ارمی ان کو شکست دے دی گی لیکن اب وہ اس بات پر مجبور ہیں کہ طالبان کو ایک سیاسی طاقت پر قبول کریں بلکہ اگر ان کی حکومت پر بنتی ہے اس کو تسلیم کرنے کو بھی تیار ہیں۔

    طالبان کا کابل پر قبضہ اور زمینی حقائق
    پندرہ اگست سے قبل کابل میں حالات معمول پر تھے۔ افغان پولیس تھانوں میں موجود تھی، بازار دفاتر کھلے ہوئے تھے۔ لڑکیاں اسکول جارہی تھیں اور خواتین اپنے روزمرہ کی سرگرمیوں میں مشغول تھیں لیکن جونہی طالبان کابل گیٹ پر قریب پہنچے تو ایک افراتفری پھیل گئی اور اس افراتفری کو روکنے کے لیے طالبان نے اعلان کیا وہ جنگ کی بجائے پرامن طریقے سے دارالحکومت میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور پھر یہی ہوا کہ جونہی ڈاکٹر اشرف غنی ایوان صدر کو چھوڑ کر روانہ ہوئے تو طالبان نے صدارتی محل پر بغیر کسی مزاحمت کے کنٹرول سنبھالا تو افغان عوام میں جنگ کا خوف تو ختم ہوا لیکن اس دوران افغان پولیس اور افغان ارمی منظر نامے سے اچانک غائب ہوگئی اور شہر میں لوٹ مار کا سلسلہ شروع ہوگیا اور افغان میڈیا کی رپورٹ کے مطابق بے پناہ قیمتی گاڑیاں کو چھینا گیا جب کہ ڈکیتی کی وارداتیں بھی سامنے ائیں اور یہی وجہ تھی کہ کابل کے بازاروں اور دفاتر کو بند کردیا گیا جب کہ مقامی ابادی گھروں میں محصور ہوگئی ہے اور عینی شاہدین کے مطابق طالبان نے سرکاری گاڑیاں قبضہ میں لے کر گشت شروع کردی ہے اور ان کو یقین ہے کہ طالبان حالات پر کنٹرول حاصل کر لیں گے۔

    کابل ایئر پورٹ پر دھاوا
    جب کابل پر طالبان نے قبضہ حاصل کرلیا تو افغانستان سے فرار ہونے والا پہلا شخص افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی تھا اور یہی وجہ تھی کہ ملک میں افراتفری کی فضا پیدا ہوگئی اور اس دوران مقامی افراد کے مطابق جب یہ افواہ پھیلا ئی گئی کہ امریکہ اور کینیڈا سے جہاز کابل پر اترے ہیں اور جو افغان پاسپورٹ رکھتا ہے اس کو بغیر ویزے کے لے جائیں گے تو کابل میں موجود افغان عوام نے ایئر پورٹ پر دھاوا بول دیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ امریکہ کے وہ فوجی جو افغانستان میں افغان عوام کے دفاع کے لیے ائے تھے اور جب وہ ان کو بے سروسامانی کی حالت میں چھوڑ کر جانے لگے تو اپنے فوجی جہاز کو اڑانے پر افغانوں پر فائرنگ کرنی پڑی جس کے نتیجے پانچ افراد جاں بحق ہوگئے۔

    طالبان کا قبضہ اور مسقبل کے حالات
    افغان طالبان نے اپنی بیس سالہ جدو جہد کا ثمر افغانستان پر قبضہ کرکے حاصل تو کر لیا ہے لیکن اب ان کی بڑی ازمائش افغان قوم کا اعتماد حاصل کرنا ہے اور تجزیہ نگاروں کے مطابق افغانستان کا بڑا مسئلہ بدامنی، خراب معیشت، کرپشن اور سیاسی کشیدگی ہے اور اگر طالبان نے ان مسائل پر دیگر افغان قیادت کے ساتھ مل کر ان کو حل کرلیا تو افغانستان استحکام کی طرف بڑھ سکتا ہے کیوں کہ ایسی صورت میں دہشت گرد تنظیموں کو بھی افغانستان کی زمین استعمال کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور خواتین کے حوالے سے تحفظات ختم ہوں گے لیکن اگر طالبان نے اقتدار کو اپنے تک محدود رکھا تو سیاسی و عسکری کشیدگی میں اضافہ ہوگا اور وہ نقل مکانی جو اب کابل تک محدود ہے ہمسایہ ملکوں تک پھیل سکتی ہے۔

  • اشرف غنی کی پاکستان کے کیخلاف سازشیں،  صدارتی محل سے برآمد دستاویز میں اہم انکشافات

    اشرف غنی کی پاکستان کے کیخلاف سازشیں، صدارتی محل سے برآمد دستاویز میں اہم انکشافات

    کابل: سابق افغان صدر اشرف غنی کے فرار کے بعد صدارتی محل سے برآمد ہونے والی دستاویز میں پاکستان مخالف پروپیگنڈا کیلئے سوشل میڈیا ٹیم کا انکشاف سامنے آیا ہے ، یہ ٹیم اشرف غنی،حمداللہ،محب اللہ صالح نے بنا رکھی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق اشرف غنی کے فرار کے بعد صدارتی محل سے برآمد دستاویز میں اہم انکشافات سامنے آئے ، ذرائع کا کہنا ہے کہ اشرف غنی،حمداللہ،محب اللہ صالح نے 170لوگوں کی سوشل میڈیاٹیم بنا رکھی تھی، سوشل میڈیا کی ٹیم کامقصدپاکستان مخالف پروپیگنڈاکرنا تھا۔

    گذشتہ روز طالبان کے کابل میں داخل ہوتے ہی اشرف غنی ملکی صدارت کا عہدہ چھوڑ کر افغانستان سے فرار ہوگئے تھے، ابتدائی میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا تھا کہ وہ تاجکستان میں موجود ہیں لیکن اب وہاں سے تردید آچکی ہے۔

    ذرایع کے مطابق سابق افغان صدر اشرف غنی اس وقت ازبکستان میں موجود ہیں، انہوں نے مغربی ممالک میں پناہ کی درخواست دینے کی کوششیں کیں تاہم اشرف غنی کی امریکا سے پناہ حاصل کرنے کی درخواست ترجیح ہے۔

    خیال رہے افغان طالبان افغان دارالحکومت کابل اور بعد ازاں صدارتی محل کا کنٹرول حاصل کرچکے ہیں، افغانستان میں عبوری حکومت کے قیام کا اعلان ہوچکا ہے، طالبان کا کہنا تھا کہ کابل میں کوئی عبوری حکومت قائم نہیں ہوگی بلکہ فوری اورمکمل طور پر ‏انتقال اقتدارچاہتےہیں۔

  • امریکا نے افغان صدر اشرف غنی سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر دیا

    امریکا نے افغان صدر اشرف غنی سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر دیا

    واشنگٹن: ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا نے افغان صدر اشرف غنی سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا نے افغان صدر اشرف غنی سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کر دیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر دفاع جنرل آسٹن اور امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے افغان صدر اشرف غنی کو فون کیا ہے۔

    ذرائع کا دعویٰ ہے کہ امریکا کی جانب سے اشرف غنی سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، امریکا نے کہا کہ سیز فائر کے لیے ضروری ہے کہ اشرف غنی اقتدار سے الگ ہو جائیں اور عبوری حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔

    دوسری طرف عبداللہ عبداللہ کو عبوری سیٹ میں ذمہ داریاں ملنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، ادھرافغان نائب صدر کے ملک سے فرار کی اطلاعات بھی آ رہی ہیں۔

    افغان میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ امراللہ صالح رات کی تاریکی میں کابل سے تاجکستان چلے گئے ہیں۔

  • کابل: راکٹ دھماکوں کے باوجود نماز عید جاری رہی، صدر اشرف غنی بھی موجود (ویڈیو بچے نہ دیکھیں)

    کابل: راکٹ دھماکوں کے باوجود نماز عید جاری رہی، صدر اشرف غنی بھی موجود (ویڈیو بچے نہ دیکھیں)

    کابل: افغانستان کے دارالحکومت کابل میں واقع صدارتی محل کے قریب نماز عید الاضحیٰ کے دوران راکٹ فائر کیے گئے، تاہم دھماکوں کی زبردست آوازوں کے باوجود عید کی نماز جاری رہی۔

    تفصیلات کے مطابق کابل میں نمازِ عید کے دوران صدارتی محل کے قریب راکٹ حملے کیے گئے، منگل کی صبح ہونے والے ان راکٹ حملوں کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے۔

    افغانستان کی وزارت داخلہ کے ترجمان میرویس ستانکزئی نے کہا کہ راکٹ محل کے باہر گرین زون میں تین مختلف مقامات پر گرے، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، حملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

    افغان ٹی وی چینلز کی فوٹیج کے مطابق یہ راکٹ حملہ اس وقت ہوا جب صدر اشرف غنی دیگر اہم حکومتی شخصیات کے ساتھ محل کے ایک سبزہ زار میں نماز عیدالاضحیٰ ادا کر رہے تھے۔

    راکٹ گرنے کے بعد دھماکوں کی آواز سنائی دی لیکن نماز جاری رہی، اس کے بعد صدر اشرف غنی نے خطاب بھی کیا جو مقامی میڈیا پر نشر کیا گیا۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ افغانستان کے صدارتی محل کو راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، صدارتی محل پر آخری راکٹ حملہ گزشتہ برس دسمبر میں ہوا تھا۔ گزشتہ برسوں کی برعکس اس سال عیدالاضحیٰ پر طالبان کی جانب سے سیز فائز کا اعلان بھی نہیں کیا گیا۔

    افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد مختلف صوبوں میں طالبان اور حکومتی فورسز میں جھڑپوں کی وجہ سے غیر یقینی کی فضا قائم ہے۔

  • امریکی صدر اور اشرف غنی کی ملاقات

    امریکی صدر اور اشرف غنی کی ملاقات

    واشنگٹن: افغانستان کے صدر اشرف غنی کے دورہ امریکا کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن سے ان کی ملاقات ہوئی، جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کا وقت آگیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ملاقات ہوئی، ملاقات میں افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    افغان صدر کے ساتھ چیئرمین قومی مفاہمتی عمل عبداللہ عبداللہ بھی موجود تھے۔ دونوں افغان رہنماؤں کی امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے بھی ملاقات ہوئی۔

    امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی کا وقت آگیا ہے، افغانستان کی مدد جاری رکھیں گے۔ افغانوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے۔

    بعد ازاں افغان صدر امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی سے بھی ملے۔

    دوسری جانب وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت افغانستان کی امداد جاری رکھے گی تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ یہ ملک کبھی بھی دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بن پائے جو امریکا کے لیے خطرہ ہو۔

    وائٹ ہاؤس کا مزید کہنا تھا کہ امریکا امن عمل کی مکمل حمایت کرتا ہے اور تمام افغان فریقین کو تنازعات کے خاتمے کے لیے مذاکرات میں معنی خیز حصہ لینے کی ترغیب دیتا ہے۔