Tag: اشرف غنی

  • پاکستان کے دل لاہور آکردلی خوشی ہوئی ، افغان صدر اشرف غنی

    پاکستان کے دل لاہور آکردلی خوشی ہوئی ، افغان صدر اشرف غنی

    لاہور : افغان صدراشرف غنی نے کہا پاکستان کے دل لاہور آکردلی خوشی ہوئی جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا صدراشرف غنی کو لاہور میں دل سے خوش آمدید کہتے ہیں ، امن کے سفر کےلیےہمیں مل کر قدم بہ قدم چلنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق افغانستان کے صدر اشرف غنی لاہور پہنچ گئے، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے ایئر پورٹ پر معزز مہمان کا استقبال کیا، اشرف غنی نے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار سے پرجوش مصافحہ کیا اور بچوں نے افغان صدر کو گلدستے پیش کیے۔

    عثمان بزدار نے کہا افغانستان کے صدر کو لاہور آمد پر دل کی گہرائیوں سے خوش آمدید کہتے ہیں، اشرف غنی کی آمد پاک افغان تعلقات کے نئے باب کا آغاز اور ہمارے لیے اعزازہے، دورے سے پاک افغان تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا دونوں ممالک کے مابین تاریخی برادرانہ تعلقات موجود ہیں، تعلقات مضبوط ہونے سے تجارتی و معاشی سرگرمیاں بڑھیں گی، امن کے سفر کے لیے ہمیں مل کر قدم بہ قدم چلنا ہے۔

    اس موقع پر افغان صدر نے کہا پاکستان کے دل لاہور آکردلی خوشی ہوئی ۔

    دورے کے دوران افغان صدر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور وزیر اعلی پنجاب سردارعثمان بزدار سے ملاقات کریں گے اور مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال کے مزار پر حاضری دیں گے، فاتحہ پڑھیں گے اور پھول چڑھائیں گے۔

    افغان صدر تاریخی بادشاہی مسجد کا دورہ بھی کریں گے۔

    یاد رہے گذشتہ روز افغان صدر اشرف غنی 2 دوزہ دورے پر پاکستان پہنچے تو مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد نے ان کا استقبال کیا تھا، اس موقع پر افغان سفیرعاطف مشال اوردفتر خارجہ کے اعلی افسران بھی موجود تھے۔

    مزید پڑھیں : وزیر اعظم اور افغان صدر ملاقات کا اعلامیہ، دوستی کے نئے باب کے آغاز پر اتفاق

    افغان صدر اشرف غنی نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ، وزیراعظم اور صدرعارف علوی سے ملاقاتیں کیں۔

    وزیراعظم ہاؤس میں وزیرا عظم عمران خان اور افغان صدراشرف غنی کی ون آن ون ملاقات میں خطے کی سیکیورٹی اورقیام امن سےمتعلق تبادلہ خیال کیا گیا۔

    وزیراعظم عمران خان اور افغان صدراشرف غنی کی ملاقات کا اعلامیہ جاری کیاگیا ، جس میں دونوں رہنماؤں کاملاقات میں دوستی کے نئے باب کے آغاز پر اتفاق کیا جبکہ پاکستان اورافغانستان میں عوام کی بہتری کیلئےتعاون بڑھانے پر بھی اتفاق ہوا۔

    وزیراعظم نے افغان امن عمل میں بھرپورحمایت جاری رکھنےکےعزم کااعادہ کرتے ہوئے کہا افغانستان میں دہائیوں کےتنازع کاحل پرامن مذاکرات میں ہے، افغان امن کےلیےپاکستان نےافغان مذاکراتی عمل کاساتھ دیا۔

  • اشرف غنی، سراج الحق ملاقات، امیر جماعت اسلامی کا فاصلے ختم کرنے پر زور

    اشرف غنی، سراج الحق ملاقات، امیر جماعت اسلامی کا فاصلے ختم کرنے پر زور

    اسلام آباد: امیر جماعت اسلامی، سراج الحق نے کہا ہے کہ افغانستان اور  پاکستان کے پاس دوستی کے علاوہ کوئی چوائس نہیں.

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے اسلام آباد میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے موقع پر کیا.

    سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کا روشن مستقبل امن سے وابستہ ہے، امن کے لئے افغان جماعتوں میں باہمی ڈائیلاگ ضروری ہیں.

    امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ افغانستان اور پاکستان میں دوستی کےعلاوہ کوئی چوائس نہیں، دونوں ممالک کے درمیان فاصلے امن دشمنوں کے پیدا کردہ ہیں.

    سینیٹر سراج الحق  کا کہنا تھا کہ ان فاصلوں کو جلد از جلد ختم ہونا چاہییں، دونوں ممالک کا قریب آنا ضروری ہے.

    اس دوران افغانستان میں‌ہونے والے انتخابات بھی زیر بحث آئے. افغان صدر نے کہا کہ افغانستان میں بروقت انتخابات ہوں گے. انھوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان سے تعلقات کو بڑی اہمیت دیتے ہیں.

    مزید پڑھیں: وزیرا عظم عمران خان اور افغان صدراشرف غنی کی ون آن ون ملاقات

    خیال رہے کہ افغان صدر اشرف غنی پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں. آج وزیرا عظم عمران خان اور افغان صدراشرف غنی کی ون آن ون ملاقات ہوئی۔

    اس ملاقات میں خطے کی سیکیورٹی اورقیام امن سےمتعلق تبادلہ خیال کیا گیا.

  • افغان صدر رواں ہفتے پاکستان کا 2 روزہ دورہ کریں گے

    افغان صدر رواں ہفتے پاکستان کا 2 روزہ دورہ کریں گے

    اسلام آباد: پڑوسی ملک افغانستان کے صدر اشرف غنی رواں ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گے، وہ 2 روزہ دورے پر پاکستان آئیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق افغان صدر اشرف غنی رواں ہفتے 2 روزہ دورے پر پاکستان پہنچیں گے، ذرایع کا کہنا ہے کہ افغان صدر 27 جون کو سرکاری دورے پر پاکستان آئیں گے۔

    صدر اشرف غنی دورۂ پاکستان کے دوران وزیر اعظم عمران خان اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقات کریں گے۔

    ذرایع کے مطابق افغان صدر لاہور کی بادشاہی مسجد میں نماز جمعہ بھی ادا کریں گے، یاد رہے کہ اشرف غنی وزیر اعظم عمران خان کی دعوت پر پاکستان آ رہے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  افغان صدر اشرف غنی کا پاکستان کا دورہ کرنے کا اعلان

    وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ماہ ٹیلی فونک گفتگو میں افغان صدر اشرف غنی کو دورۂ پاکستان کی دعوت دی تھی۔

    یاد رہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے دورے کا اعلان رواں ماہ کے آغاز میں کیا تھا، دونوں رہنماؤں کی سعودی عرب میں ہونے والے او آئی سی اجلاس میں ملاقات بھی ہوئی، افغان صدر نے ملاقات کو مثبت قرار دیا تھا۔

    انھوں نے عمران خان سے ہونے والی ملاقات کو تعمیری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ عمران خان سے اگلی ملاقات 27 جون کو اسلام آباد میں کریں گے، توقع ہے دورۂ پاکستان سے تعلقات بہتر ہوں گے۔

  • عمران خان، اشرف غنی ملاقات، پاکستان کا افغانستان کے استحکام کے لئے حمایت جاری رکھنے کا اعلان

    عمران خان، اشرف غنی ملاقات، پاکستان کا افغانستان کے استحکام کے لئے حمایت جاری رکھنے کا اعلان

    مکہ: پاکستانی وزیرا عظم عمران خان اور افغان صدر اشرف غنی کی آج ملاقات ہوئی.

    تفصیلات کے مطابق مکہ میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں ممالک کے سربراہان میں افغان امن مذاکرات پر تبادلہ خیال ہوا.

    اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن کاخواہاں ہے، افغانستان میں استحکام کے لئے بھرپور حمایت جاری رکھیں گے.

    وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان افغان امن عمل کے سیاسی حل کے لئے تعاون کرے گا، افغان صدر کا دورہ پاکستان تعلقات کی مضبوطی میں مددگار ثابت ہوگا.

    انھوں نے کہا کہ سیاسی، سیکیورٹی اوراقتصادی معاملات میں تعاون کوفروغ دیں گے.

    یاد رہے گذشتہ روز وزیراعظم عمران خان مدینہ منورہ پہنچے تو روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرحاضری دی، اس موقع پر روضہ رسول کے دروازے خصوصی طور پرکھولے گئے، انہوں نےمسجد نبوی میں نمازعصرپڑھی اورریاض الجنہ میں نوافل اداکئے۔

    مزید پڑھیں: وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ کا اجلاس پیر کو طلب کرلیا

    بعد ازاں وزیراعظم عمران خان مدینے میں روضہ رسول پر حاضری دینے کے بعد سعودی شہر جدہ پہنچے تو مکہ کے گورنرپرنس خالد بن فیصل نے اہم حکومتی اہلکاروں کے ہمراہ ایئر پورٹ پر ان کا شاندار استقبال کیا۔

    وزیراعظم عمران خان نے اپنی اہلیہ بشری بی بی اور وفاقی وزرا کے ہمراہ عمرہ کی سعادت حاصل کی اور پاکستان کی ترقی وخوشحالی کے لیے خصوصی دعائیں کیں۔

    خیال رہے وزیراعظم عمران خان سعودی فرمانرواشاہ سلمان کی دعوت پردورہ کررہے ہیں۔

  • اشرف غنی کی افغان طالبان کو افغانستان میں مذاکرات کی پیش کش

    اشرف غنی کی افغان طالبان کو افغانستان میں مذاکرات کی پیش کش

    کابل : افغان صدر اشرف غنی نے 175 طالبان دہشت گردوں کی رہائی کا اعلان کرتے ہوئے افغان طالبان کو جنگ بندی کےلیے افغانستان میں مذاکرات کی دعوت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق افغانستان کے صدر اشرف غنی نے برسوں سے خانہ جنگی کا شکار ملک میں امن و امان کی صورتحال قائم کرنے کےلیے کوششیں کرنے پر امریکا کے کردار کو خوب سراہا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ افغان صدر پڑوسی ملک پاکستان سے بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان پاکستان سے دوستی اور باہمی عزت کا تعلق چاہتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر اشرف غنی نے تحریک طالبان افغانستان کو جنگ بندی اور افغانستان میں مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے 175 طالبان دہشت گردوں کو آزاد کرنے کا اعلان کیا۔

    یاد رہے کہ افغان صدر نے نومبر 2018 میں جنیوا میں طالبان سے مذاکرات سے لیے بارہ رکنی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔

    مزید پڑھیں : افغان صدر نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے کمیشن تشکیل دے دی

    برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق کمیشن کی تشکیل کے اعلان کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر غنی نے ان بنیادی اصولوں کی بھی وضاحت کی جن کی بنیاد پر طالبان سے براہ راست مذاکرات کیے جائیں گے۔

    ان میں افغانستان کے آئین کی پاسداری اور ملک کے اندرونی معاملات سے غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں کو دور رکھنے کی بات بھی کی گئی ہے۔

  • افغان سپریم کورٹ نے اشرف غنی کی مدت صدارت میں توسیع کردی

    افغان سپریم کورٹ نے اشرف غنی کی مدت صدارت میں توسیع کردی

    کابل: افغانستان کی سپریم کورٹ نے افغان صدر اشرف غنی کی مدت صدارت میں الیکشن کے انعقاد اور نئے صدر کے انتخاب تک توسیع کردی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق افغان سپریم کورٹ نے افغان صدر اشرف غنی کی مدت صدارت میں توسیع کردی، اشرف غنی کی مدت صدارت 22 مئی کو ختم ہونا تھی۔

    افغانستان میں صدارتی الیکشن 20 اپریل کو کروانے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم ملکی صورت حال اور افغان امن مذاکرات کے سبب الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہوسکا تھا۔

    الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں موقف اختیار کیا کہ صدارتی الیکشن کی تیاری کے لیے وقت نہیں مل سکا، الیکشن کمیشن نے صدارتی الیکشن کے لیے 28 ستمبر کی تاریخ دے دی۔

    مزید پڑھیں: عالمی برادری طالبان سے بات کرے افغانستان میں‌ پائیدار امن چاہتے ہیں، اشرف غنی

    افغان سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملک کو درپیش خارجی و داخلی حالات اور معاشی بحران کا علم ہے اس لیے افغان صدر اشرف غنی کو صدارتی الیکشن ہونے تک صدارت کے عہدے پر فائز رہنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

    واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی 2014 میں کامیابی کے بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ افغان صدر اشرف غنی کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن چاہتے ہیں، سیکیورٹی آپریشن کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتیں ناقابل قبول ہیں، عالمی برادری طالبان سے بات چیت کرے۔

  • عالمی برادری طالبان سے بات کرے افغانستان میں‌ پائیدار امن چاہتے ہیں، اشرف غنی

    عالمی برادری طالبان سے بات کرے افغانستان میں‌ پائیدار امن چاہتے ہیں، اشرف غنی

    کابل : افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن چاہتے ہیں عالمی برادری طالبان سے بات کرے۔

    تفصیلات کے مطابق قطر میں امریکا اور تحریک طالبان افغانستان کے درمیان گزشتہ 16 روز سے امن مذاکرات کا پانچواں دور اختتام پذیر ہوگیا تاہم ابھی تک دونوں فریقین میں امن معاہدہ طے نہیں ہوسکا۔

    افغان صڈر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی آپریشن کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتیں ناقابل قبول ہیں، عالمی برادری طالبان سے بات چیت کرے۔

    اشرف غنی کے ترجمان نے ٹویٹ کیا کہ ’میں طویل مدت کےلیے جنگ بندی کے معاہدے، طالبان اور افغان حکومت کے درمیان برائے راست مذاکرات کی امید کررہا ہوں۔

    امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ قطر میں مذاکرات مکمل ہو گئے ہیں، تمام فریقین افغان جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

    زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن کے لیے 4 مسائل پر متفق ہونا ضروری ہے، فریقین انسدادِ دہشت گردی اور فوجی انخلا پر متفق ہوئے ہیں۔

    زلمے خلیل کا کہنا تھا کہ طالبان معاہدہ طے ہونے کے بعد طالبان افغان حکومت دیگر قبائل سے افغانستان میں دائمی امن کےلیے مذاکرات کا آغاز کریں گے۔

    دوسری جانب ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء اور مستقبل میں افغانستان سے دیگر ممالک پر حملوں سے متعلق پیش رفت ہوئی ہے۔

    ترجمان طالبان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے دوران جنگ بندی اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا۔

    یہ بھی پڑھیں: قطر مذاکرات: امریکا کا تمام شرائط منوانے کے لیے اصرار، طالبان کا انکار

    دوسری طرف افغان میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ مذاکرات میں امریکا نے تمام شرایط منوانے کے لیے اپنا اصرار برقرار رکھا جب کہ طالبان کی جانب سے انکار ہوتا رہا۔

    طالبان نے امریکی فوجی انخلا کی تاریخ کے اعلان تک کسی بھی یقین دہانی سے انکار کیا، تاہم زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ امریکا فوجی انخلا پر متفق ہوا ہے۔

    یاد رہے کہ حالیہ امریکا طالبان مذاکرات دوحہ قطر میں 25 فروری کو شروع ہوئے، جس کے لیے پاکستان نے اپنا کلیدی کردار ادا کیا۔ دو دن قبل افغان میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ فریقین میں کچھ معاملات پر اتفاق ہو گیا ہے اور چند معاملات پر ابھی بھی رکاوٹ موجود ہے۔

  • افغان جنگ: امریکا اورطالبان، پہلے تھکن کا شکارکون ہوا؟

    افغان جنگ: امریکا اورطالبان، پہلے تھکن کا شکارکون ہوا؟

    افغانستان اس وقت اپنی تاریخ کے اہم ترین دور سے گزر رہا ہے ، 17 سال یہاں جنگ لڑنے کے بعد بالاخر امریکی افواج نے اپنا سازو سامان  لپیٹنے کی تیاری شروع کردی ہے یعنی جنگ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہی ہے لیکن اس موقع پر دو سوال سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ایک یہ کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خطے سے نکل جانے کے بعد یہاں کے معاملات کون سنبھالے گا اوردوسرا یہ کہ کیا امریکا کے نکل جانے کے بعد افغانستان میں امن قائم ہوگا یا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجائے گا، یاد رہے کہ افغانستان کے ماضی میں ایسی مثال موجود رہی ہے۔

    افغان امن عمل میں اب تک مذاکرات دو مرکزی فریقین یعنی امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہورہے تھے، دور وز قبل اس معاملے پر ایک انتہائی اہم پیش رفت ہوئی۔ روس میں افغان تارکین وطن نے ایک اہم ڈائیلاگ کا انعقاد کروایا ،جس میں افغان اپوزیشن کے 40 سے زائد افراد پر مبنی ایک گروہ نے سابق افغان صدر حامد کرزئی کی قیادت میں طالبان کے ساتھ ملاقات کی ۔ افغان وفد 10 ارکان پر مشتمل تھاا ور اس کی قیادت شیر محمد ستنک زئی کررہے تھے۔ عالمی میڈیا کا ماننا ہے کہ اس ڈائیلاگ کو روسی حکومت کی بھرپور حمایت حاصل تھی ، تاہم روس کی جانب سے ایسی کسی بھی حمایت کا انکار کیا جاتا رہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ افغان اپوزیشن کے وفد میں کئی اہم سیاستدانوں کے علاوہ قابلِ ذکر وارلارڈز کے ساتھ ساتھ خواتین کے حقوق کے لیے متحرک شخصیات بھی شامل رہیں۔

    کابل میں برسرِ اقتدار افغان صدر اشرف غنی اور ان کی حکومت نے اس ملاقات پرشدید تنقید کی ہے اور اسے قبل از وقت ، لاحاصل اور افغانستان کی آئینی حکومت کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔ ان کہنا تھا کہ جب تک حکومت کے طالبان کے ساتھ معاملات طے نہیں ہوجاتے ، ایسی کوئی بھی مشق سود مند نہیں رہے گی۔ افغان حکومت نے سابق صدر کرزئی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ ماضی میں خود صدر رہے ہیں اور اب موجودہ حکومت کے آئینی حق کو تسلیم کرنے کےبجائے براہ راست طالبان سے مذاکرات کررہے ہیں۔

    موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار

    دیکھا جائے تو یہ سارا کھیل اب انتہائی موڑ پر پہنچ چکا ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کہا گیا کہ ہم دونوں یعنی امریکا اور طالبان اس طویل جنگ سے تھک چکے ہیں لیکن اگر صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو سامنے آتا ہے کہ تھکن صرف امریکا کے حصے میں آئی ہے ، افغان طالبان کے کیمپ میں ایسا کوئی معاملہ نہیں ۔ اور ایسا کیوں نہ ہو، طویل جنگیں امریکی معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہورہی ہیں اور اپنی بے پناہ معیشت اور فوجی طاقت کے علاوہ امریکا ہے کیا، کچھ بھی تو نہیں، سو امریکا کسی بھی صورت اپنی معیشت کو برباد نہیں ہونے دے گا۔ دوسری جانب طالبان کے پاس نقصان کے لیے ایسا کچھ نہیں ہے ، ان کے لیے واحد مسئلہ یہ جنگ لڑنے کے لیے افرادی قوت ہے جو بہر حال انہیں کہیں نہ کہیں سے مل ہی رہی ہے ، ان کے زیر اہتمام علاقوں میں معیشت کی بہتری کوئی مانوس لفظ نہیں، سو وہ شاید مزید کچھ عرصے تک اس جنگ کو لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    سارے عمل میں اب تک افغان حکومت وہ فریق ہے جسے بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے ، طالبان کا موقف ہے کہ وہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد مقامی حکومت سے براہ راست مذاکرات کریں گے۔افغانستان کی آئینی حکومت جو کہ امریکی افواج کی موجودگی کے سبب اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے ، اس کے لیے یہ صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے کہ ابتدائی طور پر امریکا نے طالبان کا یہ مطالبہ مان کر نہ صرف ان سے مذاکرات شروع کیے بلکہ انخلا کا وقت بھی مقرر کردیا ہے۔

    غنی حکومت کا خیال ہے کہ امریکا کے خطے سے نکلتے ہی کابل اور افغان حکومت طالبان کے لیے آسان ہدف بن جائے گے۔ یہی سبب ہے کہ وہ خطے سے امریکی افواج کے فی الفور انخلا کے حق میں نہیں ہیں ، کم از کم جب تک کابل اور طالبان کے درمیان کسی قسم کا کوئی معاملہ طے نہ پا جائے۔ ایسے ماحول میں طالبان نے اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کرکے اپنے پلڑے کو مزید بھاری کرلیا ہے اور اب جب بھی مستقبل میں طالبان ، کابل کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے، نہ صرف یہ کہ انہیں امریکی بلکہ مقامی قیادت کی مدد بھی حاصل ہوگی۔ یہاں قابلِ ذکر بات افغانستا ن میں 20 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات بھی ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت بس اب چند ہی مہینوں کی مہمان ہے اور یقیناً طالبان کسی بھی جاتی ہوئی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پسند نہیں کریں گے ، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے مقامی حکومت سے مذاکرات کو امریکی انخلا سے مشروط کیا ہے اور حیرت انگیز طور پر انہیں اس موقف پر امریکا کے ساتھ اپوزیشن کی حمایت بھی حاصل ہوگئی ہے۔

    اس سارے منظر نامے میں 20 جولائی کا دن افغانستان کے لیے انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے۔ نئی آنے والی حکومت چاہے موجودہ حکومت کا تسلسل ہو یا آج کی حزبِ اختلاف حکومت قائم کرے، اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج افغان طالبان کو ملک کے مرکزی دھارے میں شامل کرنا ہوگا۔ اگر یہ مذاکراتی عمل امریکا کی موجودگی میں شروع ہوجاتا ہے تو کابل کی حکومت نسبتاً بہتر
    پوزیشن میں ہوگی ،لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا اور مذاکرات کا عمل انخلا کے بعد ہی شروع ہوتا ہے، تب چاہے حکومت میں اشرف غنی ہوں یا کوئی۔ اس کے لیے طالبان کے ساتھ اپنی شرائط پر جنگ بندی کرانا ایک ناممکن ٹاسک ہوگا۔

    سب سے دلچسپ پہلو اس معاملے کا امریکی سینیٹ میں آنے والی قرار داد ہے، ڈونلڈ ٹرمپ جلد از جلد افغانستان چھوڑنا چاہتے ہیں ، یقینا ان کی خواہش ہوگی کہ آئندہ الیکشن سے پہلے یہ مرحلہ طے ہوجائے تاکہ وہ امریکا کو افغانستان کی دلدل سےنکالے جانے کا کریڈٹ لے سکیں لیکن امریکی سینٹ میں افغانستان سے مکمل انخلا کے خلاف قرارداد بھاری اکثریت سےمنظور ہوگئی ہے ، یعنی امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ایک اندرونی محاذ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس محاذ سے منظوری کےبغیر انخلا کا عمل شروع نہیں ہوسکے گا۔

    پاکستان اس وقت خاموشی سےساری صورتحال کا جائزہ لے رہا ہے اور پاکستان کی حکومت اور ملٹری قیادت کئی بار یہ بات باور کراچکے ہیں کہ افغانستان میں دیرپا اور پائیدار امن ہی خطے کی ترقی کی ضمانت ہے ۔ا ب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اسلام آباد جو فی الوقت امریکا اور طالبان کے درمیان مصالحت کار کا کردار ادا کررہا ہے ، مستقبل میں اس معاملے کو کس طرح سے لے کر چلے گا۔ پاکستان کے لیے سب سے بڑی آزمائش اس سارے معاملے میں اعتدال برقراررکھنا ہے کہ اس تنازعے کے تمام فریقوں سےپاکستان کے کسی نہ کسی نوعیت پر مضبوط تعلقات موجود ہیں۔

  • طالبان افغان اپوزیشن رہنماؤں سے مذاکرات کے لیے راضی، حکومت کی تنقید

    طالبان افغان اپوزیشن رہنماؤں سے مذاکرات کے لیے راضی، حکومت کی تنقید

    ماسکو: افغان طالبان ملکی اپوزیشن رہنماؤں سے روس میں مذاکرات کے لیے راضی ہوگیا، جبکہ حکومت کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق افغان طالبان نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ روس میں دو روزہ مذاکرات میں افغان اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقات کریں گے، اس موقع پر سابق صدر حامد کرزئی بھی شریک ہوں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ مذاکراتی دور کا مقصد طالبان کے ساتھ مل کر افغٖان مسئلہ حل کرنا سمیت اہم سیاسی رہنماؤں، اپوزیشن رہنماؤں اور قبائلی سرداروں کو ایک دوسرے کے نردیک لانا ہے۔

    روسی دارالحکومت ماسکو میں یہ دو روزہ میٹنگ رواں ہفتے ہوگی۔دوسری جانب افغان صدر اشرف غنی کے مشیر فضل فضلے نے اپوزیشن رہنماؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ طالبان سے مذاکرات کرکے صرف طاقت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ ملک میں ماضی میں حکومت کرنے والے موجودہ حکومتی پالیسی کے برخلاف اقدامات کررہے ہیں، اور طاقت سے دور ہورہے ہیں۔

    یاد رہے کہ دس دن قبل قطر میں افغان طالبان سے مذاکرات کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان نے کہا تھا کہ مذاکرات کا حالیہ دور گزشتہ ادوار سے بہت اچھا رہا، بات چیت کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے جلد مذاکرات کا آغاز کریں گے۔

    افغانستان: طالبان کا دہشت گرد حملہ، 6 فوجی ہلاک

    زلمے خلیل زاد نے یہ بھی کہا تھا کہ ابھی مکمل اتفاق نہیں ہوا، کچھ معاملات باقی ہیں، جب تک سب باتوں پر اتفاق نہیں ہو جاتا کچھ بھی منظور نہیں ہوگا۔

    خیال رہے کہ گذشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں اگر دوبارہ مسائل نے سر اٹھایا تو اس سے نمٹنے کے لیے انٹیلی جنس رکھیں گے، طالبان امن چاہتے ہیں، وہ تھک چکے ہیں، دراصل ہم سب ہی تھک چکے ہیں۔

  • موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار

    موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار

    ماضی کی طرح اس سال بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات کا دورشروع ہوچکا ہے، فی الحال یہ عمل طالبان کی جانب سے معطلی کا شکار ہے لیکن امید کی جارہی ہے کہ مذاکرات جلد بحال ہوں گے۔ افغانستان کے جغرافیائی محل و وقوع کے سبب یہاں موسمِ سرما میں انتہائی محدود سرگرمیاں ہوتی ہیں، اسی لیے جنگ بھی تعطل کا شکار ہے ۔

    علاقائی سیاست اور دہشت گردی کے خلا ف اس جنگ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اچھی طبرح جانتے ہیں کہ طالبان موسمِ سرما میں ہمیشہ سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتے چلے آئے ہیں اور موسمِ بہار کی آمد کے ساتھ ہی وہ جنگ چھیڑدینے کا اعلان کرتے ہیں۔ امریکی حکومت، افغان حکومت اور طالبان قیادت ، تینوں فریقین کی جانب سے مسئلے کی اصل جڑ کو نظرانداز کرنے کے سبب یہ جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا رخ اختیا ر کرچکی ہے اور امریکا، جو ویت نام کی دلدلوں سے بحفاظت باہر نکل آیا تھا ، آج تک یہاں سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔

    ماضی سے حال تک


    اب ذرا نظر ڈالتے ہیں ماضی کے ان حالات پر جن سے گزر کر افغانستان اور امریکا اس نہج پر پہنچے ہیں کہ نہ جائے رفتن ، نہ پائے ماندن والی صورتحال پید ا ہوچکی ہے۔ نہ تو امریکا ، افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرسکا ہے، نہ ہی اس کی مدد سے تشکیل پانے والی افغان حکومت ملک پر اپنا کنٹرول قائم کرسکی ہے ، دوسری جانب طالبان جو آج بھی افغانستان کے ایک بڑے خطے پر قابض ہیں ، تاحال رائے عامہ کو اکثریتی طور پر اپنے حق میں ہموار نہیں کرپائے ہیں جس کے سبب انہیں بھی ملک کا بلا شرکت غیرے مالک تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔

    افغانستان کی حالیہ جنگ کا منظر نامہ نائن الیون کے بعد ترتیب پانا شروع ہوتا ہے لیکن اس کی جڑیں ماضی میں ہیں ، جب سویت یونین شکست کے بعد اپنا جنگی سازو سامان افغانستان کی سنگلاخ پہاڑیوں پر پھینک کر بھاگ کھڑا ہوا، اور اس کی شکست کے پیچھے واضح طور پر امریکا اور پاکستان کا اشتراک تھا، روس کی گرم پانیوں تک رسائی کی دیرینہ خواہش کے سبب پاکستان پرلازم تھا کہ وہ اس سیلِ رواں کے سامنے افغانستان میں ہی بند باندھ دے جو کہ افغانستان کے رستے ہماری جانب بڑھ رہا تھا۔روس کے انخلاء کے فوراً بعد ہی امریکا بھی اس خطے سے ہاتھ جھاڑ کرچل پڑا جس کے نتائج بعد میں پورے خطے نے بھگتے۔

    نائن الیون کے بعد امریکا ایک نئے کردار کے ساتھ اس خطے میں واپس آیا، کل تک جو طالبان امریکا کے اتحادی تھے ، آج وہ ان کا مخالف تھا، ایجنڈا یہ تھا کہ طالبان سے ان کے اس مسکن کو چھین لیا جائے جہاں بیٹھ کر وہ بقول شخصے پوری دنیا کا من سبوتاژ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ انتہائی طویل سرحد اور صدیوں پر مشتمل رشتوں کے سبب امریکا کے پاس پاکستان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا کہ لہذا پاکستان کو بطور فرنٹ لائن اتحادی اس جنگ میں شامل کیا گیا۔

    میدانِ جنگ پاکستان تک پھیل گیا


    جنگ شروع ہوئی تو یہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور پھر اگلے مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے یہاں کے گلیوں اور بازاروں میں در آئی ۔ اس موقع پر بھارت کا تذکرہ بے محل نہیں ہوگا کہ جس نے پاکستان سے اپنی روایتی مخالفت کے سبب اپنے پیسے کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں سفارت خانوں کی شکل میں اپنا پورا نیٹ ورک ترتیب دیا اور بقول پاکستانی فوج کی ہائی کمان کے، پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے وہاں سے بیٹھ کر بھرپور وسائل استعمال کیے۔ بالاخرمنظرنامہ تبدیل ہوا، اور سوات میں صوفی محمد کے ساتھ معاہدے کی ناکامی کے بعد پاک فوج نے ایکشن کے ذریعے ایک ایک کرکے پاکستان میں موجود تحریکِ طالبان کے ٹھکانے ختم کرنا شروع کیے اورسرحد پرباڑھ لگانے کا کام بھی شروع کیا، جس کے اثرات بھی نظرآئے اور پاکستان جو کہ روز بم دھماکوں کا نشانہ بنتا تھا ، اب یہ واقعات پہلے کی نسبت انتہائی کم ہوچکے ہیں۔

    اس ساری صورتحال سے افغانستان میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی اورامریکا جو ابتدا میں وہاں فتح یاب دکھائی دے رہا تھا ،بالاخر اسی دلدل میں پھنس گیا جس میں اس سے قبل سفید ریچھ یعنی روس پھنس چکا تھا۔

    امریکی انخلاء


    سابق امریکی صدر اوبامہ کے دور سے امریکا چاہ رہا ہے کہ کسی طرح اپنا ساز وسامان سمیٹ کر افغانستان سے نکل جائے کہ یہ جنگ اب نہ صرف اس کی معیشت پر اثر انداز ہوکر اپنے اثرات دکھا رہی ہے بلکہ اس کے فوجی بھی اس بے مقصد کی جنگ سے عاجز آچکے ہیں، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان سے جائے تو جائے کیسے کہ امریکا تو کمبل کو چھوڑ رہا ہے لیکن کمبل امریکا کو نہیں چھوڑ رہا۔ امریکا جانتا ہے کہ اگر وہ ایک دم سے اس خطے سے نکل جاتا ہے تو اپنے سابقہ تجربے کی بنا پر پاکستان افغانستان کے امور پر حاوی ہوجائے گا کہ جو کہ امریکا کے لیے کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان جو کہ خود بھی انتہائی اہم محل و وقوع کا حامل ہے ، افغانستان جیسے علاقے میں بھی اپنا اثرورسوخ قائم کرلے۔ امریکا کی اس تشویش کو بڑھاوا دینے میں اس کے دیرینہ دوست بھارت کا بھی ہاتھ ہے جو اسے مسلسل ڈرا رہا ہے کہ امریکا کے انخلا کی صورت میں چین، پاکستان اور افغانستان کے راستے سنٹرل ایشین منڈیوں تک آسان رسائی حاصل کرلے گا اورایک بار امریکا یہاں سے گیا تو پھر دوبارہ اس خطے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال نہیں کرسکے گا۔

    پاکستان کا کردار


    پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والا سی پیک معاہدہ بھی امریکا کی پریشانی کی ایک اہم وجہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے دور کی شروعات میں پاکستان کو نظر انداز کرکے بھارت کے ذریعے افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی جس میں اسے ایک جانب تو بری طرح ناکامی ہوئی، دوسری جانب پاکستان جو کہ اس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا ، اس نے بھی امریکا سے اپنا رویہ یکسر تبدیل کرکے علاقائی سطح پرچین اور روس کے تعاون سے افغانستان میں قیام ِ امن کے عمل کو تیز کرنے کی کوشش شروع کردی۔

    اس ساری صورتحال نے امریکا کو مجبور کردیا کہ وہ ایک بار پھر پاکستان سے رجوع کرے اور یوں امریکی صدر اپنے 33 بلین ڈالرز، جن کا وہ پاکستان سے حساب مانگا کرتے تھے، بھول کر نئی پاکستانی حکومت سے رابطہ کرنے پر مجبور ہوئے کہ افغان امن عمل میں پاکستان ایک بار پھر موثر طور پر اپنا کردار ادا کرے۔

    دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت عالمی بساط پر اپنے مہرے بہت احتیاط سے چل رہا ہے ، سی پیک کی صورت میں پاکستان اور چین ایک دوسرے کے انتہائی قریب آچکے ہیں ، جس کے سبب پاکستان کا امریکا پر انحصار کم ہورہا ہے، دوسری جانب پاکستان روس سے بھی اپنے تعلقات بڑھا رہا ہے، گزشتہ کچھ عرصے میں ہونے والےسفارتی اوردفاعی روابط اس بات کے گواہ ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کی از سرِ نو تشکیل کی ہے اور یمن کے معاملے میں غیر جانب دار رہ کر اپنا نیا کردار دنیا کے سامنے منوایا ہے۔

    طالبان امریکا مذاکرات


    پاکستان کی کوششوں سے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امور زلمے خلیل زا د نے دسمبر میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت اور افغانستان میں افغان طالبا ن کی قیادت سے ملاقاتیں کیں جس کے بعد طالبان اور امریکا کے قطر میں مذکرات کی میز پر بیٹھنے کے آثار پیدا ہوئے، لیکن اس کے بعد صورتحال نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور طالبان نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ وہ مذاکرات کے ا یجنڈے سے پیچھے سے ہٹ رہا ہے ، یہ کہہ کر افغانستان کی جانب سے مذاکرات معطل کردیے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں فریقین نے مذاکرات باہمی رضا مندی سے کچھ وقت کے لیے ملتوی کیے ہیں اور کچھ اختلافی امورکو طے کرنے کے بعد مذاکرات کا نئے سرے سے آغاز کیا جائے گا۔ پاکستانی دفترِ خارجہ نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات کا باقاعدہ آغاز جلد ہوگا۔

    مذاکرات کی معطلی کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد ایک بار پھر افغانستان پہنچے ، جہاں انتہائی مصروف شیڈول گزارنے کے بعد انہوں نے پاکستان کا رخ کیا اوراب وہ سول اورعسکری اعلیٰ سطحی قیادت سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ انہوں نے امریکی حکومت کی جانب سے طالبان اورامریکا کے درمیان مصالحت کاری کے فرائض انجام دینے پرپاکستان کا شکریہ بھی ادا
    کیا۔ امریکی وفدمیں افغان امریکی مشن کےسربراہ جنرل آسٹن،امریکی صدرکی نائب معاون لیزاکرٹس اورامریکی ناظم الاموربھی شامل ہیں۔ جی ایچ کیو میں پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ہونے والی ملاقات میں زلمے خلیل زاد نے افغانستان کے حالیہ دورے میں ہونے والی پیش رفت سے آرمی چیف کو آگاہ کیا اور آئندہ کے لائحہ عمل پر گفتگو کی۔

    اس سارے معاملے میں پاکستان اور امریکا دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھارت پر خصوصی نظر رکھے جس نے محض پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کے لیے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے ، اور اگر افغان طالبان اور امریکا کسی معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو نہ صرف افغانستان میں کی گئی بھارتی سرمایہ کاری ڈوب جائے گی بلکہ پاکستان مستقبل میں اہم پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جس سے بھارت کا خطے کا چودھری بننے کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔

    آثاردیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ اب کی بار طالبان اور امریکا کے مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب رہیں گے لیکن ماضی بتاتا ہے کہ موسمِ سرما میں کی جانے والی ایسی کوششیں ماضی میں کبھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ موسمِ سرما گزار کر افغان طالبان ہمیشہ ہی کابل کی افغان حکومت اور افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی فوجیوں پر حملے شروع کردیتے ہیں اور سرما میں مذاکرات کا مقصد تاحال ان کے لیے گرمیوں میں لڑی جانے والی جنگ کی یکسوئی سے تیاری کرنا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور امریکی عوام پر امید ہیں کہ فریقین کے مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوں اور خطے میں اب کی بار ’قیام امن کی ضرورت‘ اصل گیم چینجر ثابت ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امن کی بہار کی یہ خواہش کب پوری ہوتی ہے؟۔،