Tag: اشفاق احمد

  • معروف ناول نگار بانو قدسیہ کی اردو…. (دل چسپ قصّہ)

    معروف ناول نگار بانو قدسیہ کی اردو…. (دل چسپ قصّہ)

    اشفاق احمد بانو قدسیہ کے متعلق کہا کرتے تھے جب ہم گورنمنٹ کالج میں کلاس فیلو تھے تو بانو قدسیہ کو اردو بالکل نہیں آتی تھی۔

    اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ریاضی میں بی ایس سی کی تھی۔ وہ ”ہمدردی‘‘ کو ”ہمددری‘‘ لکھتی تھیں۔ خواہشمند کی میم ”ہ‘‘ سے پہلے آ جاتی تھی۔ خیر پڑھنا شروع کیا، جب ہمارے پہلے ضمنی امتحان ہوئے تو بانو فرسٹ آ ئیں، ہم پیچھے رہ گئے۔ پھر میں نے محسوس کیا کہ جو چیزیں مجھ میں بہت کم ہیں وہ ان میں بہت زیادہ ہیں۔ میں نے سوچا کہ ان خوبیوں کو گھر لے جائیں۔

    دوسری جانب بانو قدسیہ خود کو اشفاق احمد کی چیلی قرار دیا کرتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اشفاق صاحب نے ہمیشہ تلقین کی جب ایک بھی لکھنے کا کام کرو تو مکمل کرو۔ کوئی ملنے آ جائے تو انکار کر دو، جہاں بیٹھ کر لکھو یکسوئی سے لکھو۔

    اردو کی یہ نامور مصنفہ بانو قدسیہ مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئی تھیں اور تقسیم ہند کے بعد لاہور آ گئی تھیں۔ ان کے والد بدرالزماں ایک گورنمنٹ فارم کے ڈائریکٹر تھے اور ان کا انتقال 31 سال کی عمر میں ہو گیا تھا۔ اس وقت ان کی والدہ ذاکرہ بیگم کی عمر صرف 27 برس تھی۔ بانو قدسیہ کی عمر اس وقت ساڑھے تین سال رہی ہوگی۔

    بانو قدسیہ کو بچپن سے کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا تھا۔ پانچویں جماعت میں ہی تھیں تو ان کے اسکول میں ڈرامہ فیسٹیول کا انعقاد ہوا جس میں ہر کلاس کو اپنا اپنا ڈرامہ پیش کرنا تھا۔ بہت تلاش کے باوجود کلاس کو تیس منٹ کا کوئی اسکرپٹ دستیاب نہ ہوا۔ چنانچہ ہم جولیوں اور ٹیچرز نے اس مقصد کے لیے بانو قدسیہ کی طرف دیکھا جن کی پڑھنے لکھنے کی عادت کلاس میں سب سے زیادہ تھی۔ ان سے درخواست کی گئی کہ تم ڈرامائی باتیں کرتی ہو لہٰذا یہ ڈراما تم ہی لکھ دو۔ بانو قدسیہ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بقول ان کے جتنی بھی اردو آتی تھی اس میں ڈرامہ لکھ دیا۔ یہ ان کی پہلی کاوش تھی۔ اس ڈرامے کو اسکول بھر میں فرسٹ پرائز دیا گیا۔ اس حوصلہ افزائی کے بعد وہ دسویں جماعت تک افسانے اور ڈرامے ہی لکھتی رہیں۔

    طویل عرصے تک وہ اپنی کہانیوں کی اشاعت پر توجہ نہ دے پائیں اور ایم اے اردو کرنے کے دوران اشفاق احمد کی حوصلہ افزائی پر ان کا پہلا افسانہ ”واماندگی شوق‘‘ 1950ء میں اس وقت کے ایک سرکردہ ادبی جریدے ”ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔ بانو قدسیہ کہتی تھیں، ”میں نے کسی سے اصلاح نہیں لی اور نہ کبھی کچھ پوچھا تاوقتیکہ میری شادی نہیں ہو گئی۔ اس کے بعد اشفاق احمد صاحب میرے بڑے معاون و مددگار بلکہ استاد ہوئے۔ انہوں نے مجھ سے کہا اگر تمہیں لکھنا ہے تو ایسا لکھو کہ کبھی مجھ سے دو قدم آگے رہو اور کبھی دو قدم پیچھے تاکہ مقابلہ پورا ہو۔ اس کا مجھے بڑا فائدہ ہوا۔ اشفاق صاحب نے ہمت بھی دلائی اور حوصلہ شکنی بھی کی۔ میری کئی باتوں پر خوش بھی ہوئے۔ آخر تک ان کا رویہ استاد کا ہی رہا، میں انہیں شوہر کے ساتھ ساتھ اپنا استاد بھی سمجھتی رہی ہوں۔‘‘

    (ماخوذ از سوانح و تذکرہ بانو قدسیہ)

  • کم سے کم کرایہ!

    کم سے کم کرایہ!

    اس دنیا میں ہم اپنے بعض مشاہدات اور اچھے یا برے تجربات سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھتے ہیں اور سبق حاصل کرتے ہیں۔ ہم اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں ہونے والے تجربات کا نچوڑ یا کوئی سبق آموز واقعہ بالخصوص نئی نسل کو سنانا چاہتے ہیں جس کا مقصد ان کی راہ نمائی کرنا اور انھیں جینے کا ہنر سکھانا ہو۔

    ہمارے ساتھ اکثر چھوٹے بڑے واقعات پیش آتے ہیں، لیکن ان میں‌ سے کچھ ہمارے ذہن پر نقش ہوکر رہ جاتے ہیں۔ یہ واقعہ دوسروں‌ کے لیے بظاہر غیر اہم اور معمولی بات ہوسکتی ہے، لیکن جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہو شاید وہ اسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اس سے بے حد متاثر ہوا ہو اور کسی وجہ سے وہ اس بات یا واقعہ کو فراموش نہ کرسکے۔ یہ ایک ٹیکسی ڈرائیور کی یادوں میں محفوظ ایسا ہی ایک چھوٹا سا واقعہ ہے جسے معروف ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد نے ہم تک پہنچایا ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

    میں (اشفاق احمد) نے تھوڑے دن ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا (جیسا کہ میری عادت ہے ہر ایک سے پوچھتا رہتا ہوں، کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا علم ہوتا ہے) کہ آپ کو سب سے زیادہ کرایہ کہاں سے ملتا ہے؟

    اس نے کہا جناب، مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کسی نے خوش ہو کر زیادہ کرایہ دیا ہو، البتہ یہ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں کم سے کم کرایہ مجھے کب ملا اور کتنا ملا۔ میں نے کہا کتنا؟

    کہنے لگا، آٹھ آنے۔ میں نے کہا وہ کیسے؟

    کہنے لگا، جی بارش ہو رہی تھی یا ہو چکی تھی، میں لاہور میں نسبت روڈ پر کھڑا تھا، بارش سے جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ سے بنے ہوئے تھے تو ایک بڑی پیاری سی خاتون وہ اس پٹڑی سے دوسری پٹڑی پر جانا چاہتی تھی لیکن پانی کے باعث جا نہیں سکتی تھی۔ میری گاڑی درمیان میں کھڑی تھی، اس خاتون نے گاڑی کا ایک دروازہ کھولا اور دوسرے سے نکل کر اپنی مطلوبہ پٹری پر چلی گئی اور مجھے اٹھنی دے دی۔

  • بکریاں اور ڈسپلن

    بکریاں اور ڈسپلن

    یہ ضرور یاد رکھیے کہ انبیا کی غلامی یا ان کے نوکروں میں شامل ہونے کے لیے چھوٹے کام کو ضرور اختیار کریں۔ اگر آپ ان کی نوکری چاہتے ہیں تو! کیونکہ انہوں نے یہ کام کیے ہیں۔

    میرا منجھلا بیٹا جب ایف اے میں تھا تو کہنے لگا، مجھے دو بکریاں لے دیں، پیغمبروں نے بکریاں چَرائی ہیں، میں بھی چراؤں گا۔ ہم نے اس کو بکریاں لے دیں، لیکن وہ پانچویں چھٹے دن روتا ہوا آ گیا اور کہنے لگا یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ میں ایک کو کھیت سے نکالتا ہوں تو دوسری بھاگ کر ادھر چلی جاتی ہے۔ پھر اس نے دونوں کے گلے میں رسی ڈال دی۔

    میں نے بابا جی سے پوچھا کہ انبیا کو بکریاں چرانے کا حکم کیوں دیا جاتا تھا، تو بابا جی نے فرمایا کہ چونکہ آگے چل کر زندگی میں ان کو نہ ماننے والے لوگوں کا سامنا کرنا تھا۔ ان کا کفار سے واسطہ پڑنا تھا۔ اس لیے ان کو بکریوں کے ذریعے سے سکھایا جاتا تھا، کیونکہ دنیا میں جانوروں میں نہ ماننے والا جانور بکری ہی ہے۔ اپنی مرضی کرتی ہے۔

    آپ نے دیکھا ہو گا کہ اب ہمارا کرکٹ کا موسم ہے، جو کہ ہمیشہ ہی رہتا ہے، اس پر غور کریں۔ میں تو اتنا اچھا watcher نہیں ہوں، لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ ہر بیٹسمین اپنے مضبوط ہاتھوں اور مضبوط کندھوں اور پر استقلال جمائے ہوئے قدموں، اپنے سارے وجود اور اپنے سارے Self کی طاقت کے ساتھ ہٹ نہیں لگاتا، بلکہ اس کے سر کی ایک چھوٹی سی جنبش ہوتی ہے، جو نظر بھی نہیں آتی۔ اس جنبش کے نہ آنے تک نہ چوکا لگتا ہے نہ چھکا۔ لگتا ہے جب وہ بیلنس میں آتی ہے، تب شارٹ لگتی ہے۔

    سرکس کی خاتون جب تار پر چلتی ہے وہ بیلنس سے یہ سب کچھ کرتی ہے۔ میں ابھی جس راستے سے آیا ہوں، مجھے آدھ گھنٹہ کھڑا رہنا پڑا، کیونکہ ہماری بتّی تو سبز تھی، لیکن دوسری طرف سے آنے والے ہمیں گزرنے نہیں دیتے تھے اور راستہ نہ دے کر کہہ رہے تھے کہ کر لو جو کرنا ہے، ہم تو اس ڈسپلن کو نہیں مانتے۔

    یہ سوچ خطرناک ہے، بظاہر کچھ باتیں چھوٹی ہوتی ہیں، لیکن وہ نہایت اہم اور بڑی ہوتی ہیں۔

    (ممتاز ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی سبق آموز باتیں)

  • عقلمند اور زیرک بابا

    عقلمند اور زیرک بابا

    میں نے محسوس کیا کہ مرشد ایک بہت ہے سمجھدار، عقلمند اور زیرک بابا ہوتا ہے- وہ تم کو دانش سے قائل نہیں کرتا کیونکہ دانش کی ایک حد ہوتی ہے-

    اور دانش تم کو دور نہیں لے جا سکتی- تمہارا سارا سامان اٹھا کر پہاڑ کے دامن تک جا سکتی ہے اس سے آگے کام نہیں دیتی- چوٹی تک پہنچنے کے لئے پہلے ٹٹو سے کام لینا پڑتا ہے، پھر پیدل چلنا پڑتا ہے- ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ پیدل چلنے کا راستہ بھی مسدود ہو جاتا ہے پھر کمند پھینک کر اور کیلیں ٹھونک ٹھونک کر اوپر اٹھنا پڑتا ہے-

    پھر ان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دانش اور عقل کی باتوں سے تو تم سمجھ ہی جاؤ گے کیونکہ اس میدان کے تم پرانے شہسوار ہو اور اس معاملے میں تمہاری کافی پریکٹس ہے-
    علم سے تو تم قائل ہو ہی جاؤ گے لیکن یہ قائل ہونا تمہارے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکے گا- تم عقلی طور پر معقول ہو جاؤ گے لیکن اصلی طور پر نہیں-

    ایک روز جب بابا جی جب وضو کرنے کی غرض سے مسجد کی تپنی پر بیٹھے تھے میں نے ڈرتے ڈرتے ان سے پوچھا، "حضور! باطن کا سفر مرشد کی معیت کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے؟”

    وہ تھوڑی دیر خاموش رہے اور میرے رسیونگ سینٹر کے ٹیون ہونے کا انتظار کرتے رہے، اپنے مخصوص انداز میں مسکرا کر بولے:

    "کیا جا سکتا ہے لیکن وہ صرف ایک راستہ ہے، وہ راستہ ہے عاجزی کا اور انکساری کا- حضرت آدم کی اس سنت کا جب وہ شرمندگی سے سر جھکائے اور عجز کے ہاتھ سینے پر باندھے الله کے حضور میں حاضر ہو کر بولے مجھ سے بڑی بھول ہو گئی”

    بابا جی نے کہا! "بس یہی ایک طریقہ ہے اور رویہ ہے جسے اپنا کر مرشد کے بغیر باطن کا سفر کیا جا سکتا ہے-” پھر آپ درختوں سے، پرندوں سے، پہاڑوں سے، دریاؤں سے درس لے سکتے ہیں- پتھروں سے بادلوں سے ٹھوکروں سے گیان حاصل کر سکتے ہیں- پھر تو ساری دنیا آپ کو سبق دے سکتی ہے- ساری کائنات آپ کو رمز آشنا بنا سکتی ہے- ”

    (اقتباس، اشفاق احمد از بابا صاحبا)

  • شہ رگ کی بیٹھک!

    شہ رگ کی بیٹھک!

    میرے ایک استاد اونگارتی تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ سَر "ایمان کیا ہوتا ہے؟” انہوں نے جواب دیا کہ ایمان خدا کے کہے پر عمل کرتے جانے اور کوئی سوال نہ کرنے کا نام ہے۔ یہ ایمان کی ایک ایسی تعریف تھی جو دل کو لگتی تھی​۔

    اٹلی میں ایک بار ہمارے ہوٹل میں آگ لگ گئی اور ایک بچہ تیسری منزل پر رہ گیا۔​
    شعلے بڑے خوفناک قسم کے تھے۔ اس بچے کا باپ نیچے زمین پر کھڑا بڑا بے قرار اور پریشان تھا۔ اس لڑکے کو کھڑکی میں دیکھ کر اس کے باپ نے کہا چھلانگ مار بیٹا۔ "اس لڑکے نے کہا کہ "بابا کیسے چھلانگ ماروں، مجھے تو تم نظر ہی نہیں آ رہے (اب وہاں روشنی اس کی آنکھوں کو چندھیا رہی تھی)۔

    اس کے باپ نے کہا کہ تو چاہے جہاں بھی چھلانگ مار، تیرا باپ نیچے ہے، تو مجھے نہیں دیکھ رہا میں تو تجھے دیکھ رہا ہوں نا۔

    اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "تم مجھے نہیں دیکھ رہے، میں تو تمہیں دیکھ رہا ہوں۔”​
    اعتماد کی دنیا میں اترنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی بیٹھک اور شہ رگ کے ڈرائنگ روم کا کسی نہ کسی طرح آہستگی سے دروازہ کھولیں۔ اس کی چٹخنی اتاریں اور اس شہ رگ کی بیٹھک میں داخل ہو جائیں جہاں اللہ پہلے سے موجود ہے۔​

    (از قلم اشفاق احمد، کتاب زاویہ 3)

  • دنیا کا نقشہ اور اشتہار

    دنیا کا نقشہ اور اشتہار

    مجھے وہ بات یاد آرہی ہے جو شاید میں نے ٹی وہ پر ہی سنی ہے کہ ایک اخبار کے مالک نے اپنے اخبار کی اس کاپی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جس میں دنیا کا نقشہ تھا اور اس نقشے کو ۳۲ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور اپنے پانچ سال کے کمسن بیٹے کو آواز دے کر بلایا اور اس سے کہا کہ لو بھئی یہ دنیا کا نقشہ ہے جو ٹکڑوں میں ہے، اس کو جوڑ کر دکھاؤ۔

    اب وہ بیچارہ تمام ٹکڑے لے کر پریشان ہوکے بیٹھ گیا کیونکہ اب سارے ملکوں کے بارے میں کہ کون کہاں پر ہے، میرے جیسا بڑی عمر کا آدمی بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ کافی دیر تک پریشان بیٹھا رہا لیکن کچھ دیر بعد اس نے تمام کا تمام نقشہ درست انداز میں جوڑ کر اپنے باپ کو دے دیا۔ اس کا باپ بڑا حیران ہوا اور کہا کہ بیٹا مجھے اس کا راز بتا کیونکہ اگر مجھے اس نقشے کو جوڑنا پڑتا تو میں نہیں جوڑ سکتا تھا۔

    اس پر اس لڑکے نے کہا کہ بابا جان میں نے دنیا کا نقشہ نہیں جوڑا بلکہ نقشے کے دوسری طرف سیفٹی بلیڈ کا ایک اشتہار تھا اور اس میں ایک شخص کا بڑا سا چہرہ تھا جو شیو کرتا دکھایا گیا تھا۔ میں نے سارے ٹکڑوں کو الٹا کیا اور اس آدمی کو جوڑنا شروع کیا اور چار منٹ کی مدت میں میں نے پورا آدمی جوڑ دیا۔ اس لڑکے نے کہا کہ بابا اگر آدمی جڑ جائے تو ساری دنیا جڑ جائے گی۔

    (’’زاویہ‘‘ اشفاق احمد سے اقتباس)

  • ’’اوتار‘‘اور ’’رتن ناتھ‘‘

    ’’اوتار‘‘اور ’’رتن ناتھ‘‘

    ہمارے یہاں قریب ہی بھارت میں ایک جگہ ہے جسے بٹھندہ کہتے ہیں۔ صدیوں پہلے اس شہر میں ریت کے میدان میں شام کو نوجوان اکٹھے ہوتے تھے اور اپنے اس زمانے کی (بہت عرصہ، بہت صدیاں پہلے کی بات کر رہا ہوں) کھیلیں کھیلتے تھے۔

    ایک دفعہ کہانیاں کہتے کہتے کسی ایک نوجوان لڑکے نے اپنے ساتھیوں سے یہ ذکر کیا کہ اس دھرتی پر ایک ’’اوتار‘‘ آیا ہے، لیکن ہمیں پتا نہیں کہ وہ کہاں ہے؟ اس کے ایک ساتھی ’’رتن ناتھ‘‘ نے کہا تجھے جگہ کا پتا نہیں ہے۔ اس نے کہا مجھے معلوم نہیں لیکن یہ بات دنیا والے جان گئے ہیں کہ ایک ’’اوتار‘‘ اس دھرتی پر تشریف لایا ہے۔ اب رتن ناتھ کے دل میں ’’کھد بد‘‘ شروع ہو گئی کہ وہ کون سا علاقہ ہے اور کدھر یہ ’’اوتار‘‘ آیا ہے اور میری زندگی میں یہ کتنی خوش قسمتی کی بات ہوگی اور میں کتنا خوش قسمت ہوں گا اگر ’’اوتار‘‘ دنیا میں موجود ہے اور میں اس سے ملوں اور اگر ملا نہ جائے تو یہ بہت کمزوری اور نامرادی کی بات ہوگی۔ چنانچہ اس نے ارد گرد سے پتا کیا، کچھ بڑے بزرگوں نے بتایا کہ وہ عرب میں آیا ہے اور عرب یہاں سے بہت دور ہے۔

    وہ رات کو لیٹ کر سوچنے لگا بندہ کیا عرب نہیں جا سکتا۔ اب وہاں جانے کے ذرائع تواس کے پاس تھے نہیں لیکن اس کا تہیہ پکا اور پختہ ہو گیا۔ اس نے بات نہ کی اور نہ کوئی اعلان ہی کیا۔ کوئی کتاب رسالہ نہیں پڑھا بلکہ اپنے دل کے اندر اس دیوتا کا روپ اتار لیا کہ میں نے اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہونا ہے اور میں نے یہ خوش قسمت آدمی بننا ہے۔ وہ چلتا گیا چلتا گیا، راستہ پوچھتا گیا اور لوگ اسے بتاتے گئے۔

    کچھ لوگوں نے اسے مہمان بھی رکھا ہوگا لیکن ہمارے پاس اس کی ہسٹری موجود نہیں ہے۔ وہ چلتا چلتا مہینوں کی منزلیں ہفتوں میں طے کرتا مکہ شریف پہنچ گیا۔ غالباً ایران کے راستے سے اور اب وہ وہاں تڑپتا پھرتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ ایک ’’اوتار‘‘ آیا ہے۔ اب کچھ لوگ اس کی بات کو لفظی طور پر تو نہیں سمجھتے ہوں گے۔ لیکن اس کی تڑپ سے اندازہ ضرور لگایا ہوگا کسی نے اسے بتایا ہوگا کہ وہ اب یہاں نہیں ہے بلکہ یہاں سے آگے تشریف لے جا چکے ہیں اور اس شہر کا نام مدینہ ہے۔ اس نے کہا میں نے اتنے ہزاروں میل کا سفر کیا ہے یہ مدینہ کون سا دور ہے، میں یہ ٦٠٠ کلو میٹر بھی کر لوں گا۔ وہ پھر چل پڑا اور آخرکار ’’مدینہ منورہ‘‘ پہنچ گیا۔ بہت کم لوگ اس بات کو جانتے ہیں اور کہیں بھی اس کا ذکر اس تفصیل کے ساتھ نہیں آتا جس طرح میں عرض کر رہا ہوں۔

    شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب میں ایک جملہ لکھا ہے کہ ’’بابا رتن ہندی‘‘ حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، پھر معلوم نہیں کہ اس کا کیا ہوا ’’لیکن غالب گمان ہے اور عقل کہتی ہے اور ہم اندازے سے یقین کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں کہ وہ مدینہ شریف میں حضور نبی کریم کی خدمت میں رہا اور حضور کے پسندیدہ لوگوں میں سے تھا۔ اب وہ کس زبان میں ان سے بات کرتے ہوں گے، کیسے رابطے کرتے ہوں گے اور رتن کس طرح سے مدینہ شریف میں زندگی بسر کرتا ہوگا؟ کہاں رہتا ہوگا اس کا ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے لیکن وہ رہتا وہیں تھا اور وہ کب تک وہاں رہا اس کے بارے میں بھی لوگ نہیں جانتے۔ اس کی طلب تھی اور اس کی خوش قسمتی تھی اور خوش قسمتی ہمیشہ طلب کے واسطے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ کی طلب نہ ہو تو خوش قسمتی خود گھر نہیں آتی۔ وہ اتنے معزز میزبان کا مہمان ٹھہرا اور وہاں رہا۔‘‘

    آپ کو یاد ہوگا جب رسول پاک نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم مدینہ شریف تشریف لے گئے تو وہاں کی لڑکیوں نے اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر دف پر گانا شروع کر دیا کہ ’’چاند کدھر سے چڑھا‘‘ وہ خوش قسمت لوگ تھے۔ ایک فکشن رائٹر کے حوالے سے میں یہ سوچتا ہوں کہ اس وقت کوئی ایسا محکمہ پبلک سروس کمیشن کا تو نہیں ہوگا، اس وقت کوئی پبلک ریلیشن یا فوک لور کا ادارہ بھی نہیں ہوگا کہ لڑکیوں سے کہا جائے کہ تم ٹیلے پر چڑھ کے گانا گاؤ۔ وہ کون سی خوش نصیب لڑکی ہوگی جس نے اپنے گھر والوں سے یہ ذکر سنا ہوگا، رات کو برتن مانجھتے یا لکڑیاں بجھاتے ہوئے کہ رسول الله تشریف لا رہے ہیں اور اندازہ ہے کہ عنقریب پہنچ جائیں گے اور پھر اس نے اپنی سہیلیوں سے بات کی ہوگی اور انھوں نے فیصلہ کیا ہوگا کہ جب وہ آئیں گے تو ہم ساری کھڑی ہو کر دف بجائیں گی اور گیت گائیں گی۔

    اب جب حضور کے آنے کا وقت قریب آیا ہوگا تو کسی نے ایک دوسری کو بتایا ہوگا کہ بھاگو، چلو، محکمہ تو کوئی ہے نہیں کہ اطلاع مل گئی ہوگی، یہ طلب کون سی ہوتی ہے، وہ خوش نصیب لڑکیاں جہاں بھی ہوں گی، وہ کیسے کیسے درجات لے کر بیٹھی ہوں گی۔ انھوں نے خوشی سے دف بجا کر جو گیت گایا اس کے الفاظ ایسے ہیں کہ دل میں اترتے جاتے ہیں۔ انھیں آنحضور صلّی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر روشنی محسوس ہو رہی ہے، پھر وہ کون سی جگہ تھی جسے بابا رتن ہندی نے قبول کیا اور سارے دوستوں کو چھوڑ کر اس عرب کے ریتیلے میدان میں وہ اپنی لاٹھی لے کر چل پڑا کہ میں تو ’’اوتار‘‘ سے ملوں گا۔

    بہت سے اور لوگوں نے بھی رتن ہندی پر ریسرچ کی ہے۔ ایک جرمن اسکالر بھی ان میں شامل ہیں۔ جب یہ سب کچھ میں دیکھ چکا اور پڑھ چکا تو پھر میرے دل میں خیال آیا بعض اوقات ایسی حکایتیں بھی بن جاتی ہیں لیکن دل نہیں مانتا تھا۔ یہ پتا چلتا تھا جرمن ریسرچ سے کہ وہ حضور کے ارشاد پر اور ان کی اجازت لے کر واپس ہندوستان آ گئے۔ ہندوستان آئے تو ظاہر ہے وہ اپنے گاؤں ہی گئے ہوں گے اور بٹھندا میں ہی انھوں نے قیام کیا ہوگا، میری سوچ بھی چھوٹی ہے، درجہ بھی چھوٹا ہے، لیول بھی چھوٹا ہے۔ پھر بھی میں نے کہا الله تو میری مدد کر کہ مجھے اس بارے میں کچھ پتا چل جائے اب تو پاکستان بن چکا ہے، میں بٹھندا جا بھی نہیں سکتا اور پوچھوں بھی کس سے ١٤٠٠ برس پہلے کا واقعہ ہے۔

    کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر مسعود سے میری دوستی ہو گئی۔ ان سے ملنا ملانا ہو گیا، وہ گھر آتے رہے، ملتے رہے، ان کے والد سے بھی ملاقات ہوئی وہ کسی زمانے میں اسکول ٹیچر رہے تھے۔ ایک دن باتوں باتوں میں ڈاکٹر مسعود کے والد صاحب نے بتایا کہ میں کافی سال بٹھندا کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہا ہوں۔ میں نے کہا یا الله یہ کیسا بندہ آپ نے ملوا دیا، میں نے کہا آپ یہ فرمائیں ماسٹر صاحب کہ وہاں کوئی ایسے آثار تھے کہ جن کا تعلق بابا رتن ہندی کے ساتھ ہو۔ کہنے لگے ان کا بہت بڑا مزار ہے وہاں پر اور وہاں بڑے چڑھاوے چڑھتے ہیں۔ ہندو، مسلمان عورتیں، مرد آتے ہیں اور تمہارا یہ دوست جو ہے ڈاکٹر مسعود، میرے گھر ١٣ برس تک اولاد نہیں ہوئی، میں پڑھا لکھا شخص تھا، ایسی باتوں پر اعتبار نہیں کرتا تھا جو ان پڑھ کرتے ہیں۔ لیکن ایک دن جا کر میں بابا رتن ہندی کے مزار پر بڑا رویا۔ کچھ میں نے کہا نہیں، نہ کچھ بولا۔ پڑھے لکھے سیانے بندوں کو شرک کا بھی ڈر رہتا ہے، اس لئے کچھ نہ بولا اور مجھے ایسے ہی وہاں جا کر بڑا رونا آ گیا۔

    بابا رتن ہندی کی کہانی کا مجھے پتا تھا کہ یہ مدینہ تشریف لے گئے تھے۔ مزار پر جانے کے بعد میں گھر آ گیا۔ رات کو مجھے خواب آیا کہ جس میں ہندوستانی انداز کے سفید داڑھی والے بابا جی آئے اور کہنے لگے، ’’لے اپنا کاکا پھڑ لے‘‘ (لو، اپنا بچہ لو) یہ الله تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا ہے۔ میں نے کہا جی، یہ کہاں سے آگیا، ماسٹر صاحب نے بتایا کہ جب میں نے خواب میں وہ بچہ اٹھایا تو وہ وزنی تھا۔

    میں نے پوچھا ’’بابا جی آپ کون ہیں؟‘‘

    ’’تو وہ کہنے لگے، میں رتن ہندی ہوں۔ کیا ایسے بے وقوفوں کی طرح رویا کرتے ہیں، صبر سے چلتے ہیں، لمبا سفر کرتے ہیں، ہاتھ میں لاٹھی رکھتے ہیں اور ادب سے جاتے ہیں۔‘‘

    ماسٹر صاحب کہنے لگے مجھے سفر اور لاٹھی کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا باتیں ہیں، میں نے ان سے کہا جی اس کا مصالحہ میرے پاس ہے اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ لڑکیاں جو حضور کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھیں وہ خوش قسمت تھیں۔

    ہم کچھ مصروف ہیں۔ کچھ ہمارے دل اور طرف مصروف ہیں۔ ہم اس سفر کو اختیار نہیں کر سکتے لیکن سفر کو اختیار کرنے کی ’’تانگ‘‘ (آرزو) ضرور دل میں رہنی چاہیے اور جب دل میں یہ ہو جائے پکا ارادہ اور تہیہ تو پھر راستہ ضرور مل جاتا ہے۔

    (ممتاز ادیب، ناول اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد کی باتیں)

  • فوت ہونا کوئی آسان کام نہیں​!

    فوت ہونا کوئی آسان کام نہیں​!

    حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے ادیب اور ذہین فن کار اور شو بزنس کے ایک کام یاب آرٹسٹ کی موت کے باوجود لاہور کا سارا کاروبار نارمل طریق پر چلتا رہے گا۔

    شاہ عالمی چوک سے لے کر میو اسپتال کے چوک تک ٹریفک اسی طرح پھنسا رہے گا، کوچوان گھوڑوں کو اونچے اور قریبی کوچوان کو نیچے لہجے میں گالیاں دیتے رہیں گے۔ اسپتال کے اندر مریضوں کو کھانا جاتا رہے گا۔ ٹیلی فون بجتا رہے گا، بجلی کا بل آتا رہے گا، فقیر سوتا رہے گا، چوڑھے ٹاکی مارتے رہیں گے، استاد پڑھاتے رہیں گے، ریکارڈنگ ہوتی رہے گی، قوال گاتے رہیں گے، فاحشہ ناچتی رہے گی، ڈاکیا چلتا رہے گا، سوئی گیس نکلتی رہے گی، تقریریں ہوتی رہیں گی، غزلیں لکھی جاتی رہیں گی، سوئی میں دھاگہ پڑتا رہے گا، قتل ہوتا رہے گا، زچہ مسکراتی رہے گی، بچہ پیدا ہوتا رہے گا۔

    شادمان کی لڑکی ٹیلی فون پر اپنے محبوب سے گفتگو کر رہی ہو گی اور آپریٹر درمیان میں سن رہا ہو گا، موچی کے باہر بڈھے گھوڑوں کے نعل لگ رہے ہوں گے اور گھوڑا اسپتال میں نو عمر بچھڑے آختہ کیے جا رہے ہوں گے۔

    چلّہ کاٹنے والے دعائے حزب البحر پر داہنے ہاتھ کی انگلیاں کھول کر اوپر کی طرف اٹھا رہے ہوں گے۔ لڈو بناتا ہوا حلوائی اٹھ کر سامنے والی نالی پر پیشاب کر رہا ہو گا۔ لبرٹی مارکیٹ میں دو نوجوان ایک لڑکی کے پیچھے گھوم رہے ہوں گے، دلہنوں کے جسموں سے آج ایک اجنبی مہک ابھی اٹھ رہی ہو گی۔ بچے گلی میں کیڑی کاڑا کھیل رہے ہوں گے اور قریبی مکان میں ایک ماں اپنے بیٹے کو پیٹ رہی ہو گی جس کا خاوند ایک اور عورت کے ساتھ جہانگیر کے مقبرے کی سیر کر رہا ہو گا۔ یونیورسٹی میں لڑکیاں کھلے پائنچوں کی شلواریں پہن کر لڑکوں سے یونین کی باتوں میں مصروف ہوں گی اور ہیلتھ سیکریٹری لاٹ صاحب کے دفتر میں اپنی ریٹائرمنٹ کے خوف سے یرقانی ہو رہا ہو گا۔

    کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ایک ادیب اور فن کار نے ساری عمر پھوئی پھوئی کر کے اپنی شہرت اور نیک نامی کا تالاب بھرا ہو گا اور دن رات ایک کر کے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا ہو گا اور اس ایک چھوٹے سے حادثے سے وہ سارے دلوں سے نکل گیا ہو گا۔ ہر یاد سے محو ہو گیا ہو گا۔ اس دل سے بھی جس نے اسے جنم دیا ہو گا۔ اس دل سے بھی جس نے اسے سچ مچ یاد کیا تھا اور اس دل سے بھی جس نے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے دلی محبّت کی تھی۔

    تیسرے چوتھے روز اتوار کے دن حلقۂ اربابِ ذوق ادبی میں میرے لیے ایک قرار دادِ تعزیت پاس کی جائے گی۔ عین اسی وقت حلقۂ اربابِ ذوق سیاسی میں بھی ایک قرار داد تعزیت پیش کی جائے گی۔ سب متفقہ طور پر اسے منظور کریں گے، لیکن اس کے آخری فقرے پر بحث کا آغاز ہو گا کہ حلقۂ اربابِ ذوق کا یہ اجلاس حکومت سے پرزور اپیل کرتا ہے کہ مرحوم کے لواحقین کے لیے کسی وظیفے کا بندوبست کیا جائے۔ اس پر حاضرین دو گروہوں میں بٹ جائیں گے۔

    ایک اس کے حق میں ہو گا کہ یہ فقرہ رہنے دیا جائے کیونکہ مرحوم ایک صاحبِ حیثیت ادیب تھا اور اس کی اپنی ذاتی کوٹھی ماڈل ٹاؤن میں موجود ہے۔ پھر کوٹھی کی تفصیلات بیان کی جائیں گی، کچھ اسے دو کنال کی بتائیں گے، کچھ تین کنال کی، کچھ دبی زبان میں کہیں گے کہ اس کی بیوی پڑھی لکھی خاتون ہے وہ نوکری بھی کر سکتی ہے اور لکھنے لکھانے کے فن سے بھی آشنا ہے۔
    ریڈیو آنے جانے والے ایک ادیب سامعین کو بتائیں گے کہ بانو کی ذاتی آمدنی ریڈیو ٹی وی سے دو ہزار سے کم نہیں۔ میرے ایک دور کے رشتہ دار ادیب اعلان کریں گے کہ وہ ایک مال دار گھرانے کا فرد تھا اور اس کا اپنے باپ کی جائیداد میں بڑا حصّہ ہے جو اسے باقاعدگی سے مل رہا ہے۔ پھر کوئی صاحب بتائیں گے کہ ورثا کو بورڈ سے گریجویٹی بھی ملے گی۔ اسٹیٹ لائف انشورنس کے ایک ادب نواز کلرک، جو حلقے کی میٹنگوں میں باقاعدگی سے آتے ہیں بتلائیں گے، اس نے اپنے تینوں بچّوں کی انشورنس بھی کرا رکھی تھی۔ گو ان کی رقم بیس بیس ہزار سے زائد نہیں۔ طویل بحث کے بعد اتفاقِ رائے سے یہ فیصلہ ہو گا کہ آخری فقرہ کاٹ دیا جائے، چنانچہ آخری فقرہ کٹ جائے گا۔

    پھر مجھ پر آٹھ آٹھ منٹ کے تین مقالے پڑھے جائیں گے اور آخری مضمون میں یہ ثابت کیا جائے گا کہ میں دراصل پنجابی زبان کا ایک ادیب اورشاعر تھا اور مجھے پنجاب سے اور اس کی ثقافت سے بے انتہا پیار تھا۔

    یہ سب کچھ ہو جانے کے بعد دن ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں تبدیل ہونے لگیں گے اور میری پہلی برسی آ جائے گی۔ یہ کشور ناہید کے آزمائش کی گھڑی ہو گی، کیونکہ ہال کی ڈیٹس پہلے سے بک ہو چکی ہوں گی اور میری برسی کے روز آل پاکستان ٹیکنیکل اسکولز کے ہنر مند طلبا کا تقریری مقابلہ ہو گا، کشور کو پاکستان سینٹر میں میری برسی نہ منا سکنے کا دلی افسوس ہو گا اور وہ رات گئے تک یوسف کامران کی موجودگی میں کفِ افسوس ملتی رہے گی۔

    لوگ اس کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس کو ایک ایشو بنا لیں گے اور لوگ جو عمر بھر مجھے جائز طور پر ناپسند کرتے رہے تھے وہ بھی کشور ناہید کے ’برخلاف‘ دھڑے میں شامل ہو جائیں گے۔ مجھ سے محبّت کی بنا پر نہیں کشور کو ذلیل کرنے کی غرض سے، پھر ذوالفقار تابش کی کوششوں سے گلڈ کے بڑے کمرے میں یہ تقریب منائی جائے گی اور عتیق اللہ، شکور بیدل، ریاض محمود، غلام قادر، سلیم افراط مجھ پر مضمون پڑھیں گے۔

    کس قدر دکھ کی بات ہے کہ زمانہ ہم جیسے عظیم لوگوں سے مشورہ کیے بغیر ہم کو بھلا دے گا۔ میں ہُوا… نپولین ہوا، شہنشاہ جہانگیر ہوا، الفرج رونی ہوا، ماورا النّہر کے علما ہوئے، مصر کا ناصر ہوا، عبدالرحمٰن چغتائی ہوا، کسی کو بھی ہماری ضرورت نہ رہے گی اور اتنے بڑے خلا پانی میں پھینکے ہوئے پتھر کی طرح بھر جائیں گے۔ ہماری اتنی بڑی قربانیوں کا کہ ہم فوت ہوئے اور فوت ہونا کوئی آسان کام نہیں، لوگ یہ صلہ دیں گے۔

    افسوس زمانہ کس قدر بے وفا ہے اور کس درجہ فراموش کار ہے۔

    ( اردو کے نام ور ادیب اور افسانہ نگار نے اپنی موت کے پس منظر میں‌ یہ تحریر سپردِ قلم کی تھی)

  • دیے سے دِیا!

    دیے سے دِیا!

    کوئی دو مہینے بعد میں کراچی گیا تو انشا جی کے دفتر ملنے پہنچا۔ انشا بیٹھا کام کر رہا ہے، ہم گپ لگا رہے ہیں، اُدھر کی باتیں، اِدھر کی باتیں، بہت خوش۔

    ایک لڑکی آئی۔ اس کی صحت بہت خراب تھی، اس کی آنکھوں میں یرقان اتنا نمایاں تھا کہ جیسے رنگ بھرا ہو پیلا۔ اس نے چھپانے کے لیے اپنی آنکھوں میں سرمے کی بہت موٹی تہہ لگا رکھی تھی، کالا برقع اس نے پہنا ہوا، آ کھڑی ہوئی انشا جی کے سامنے۔ اس نے ایک خط ان کو دیا۔ وہ خط لے کر رونے لگا۔ پڑھ کر اس لڑکی کی طرف دیکھا ، پھر میز پر رکھا ، پھر دراز کھولا، کہنے لگا بی بی! میرے پاس یہ تین سو روپے ہی ہیں۔ یہ تم لے لو، پھر بعد میں بات کریں گے۔

    (لڑکی) کہنے لگی ! بڑی مہربانی۔ وہ بچکی سی ہو گئی بیچاری، اور ڈر سے گئی، گھبرا سی گئی۔ اس نے کہا، بڑی مہربانی دے دیں، وہ لے کر چلی گئی۔

    جب چلی گئی تو میں نے انشا سے کہا، انشا یہ کون تھی؟ کہنے لگا پتا نہیں۔

    میں نے کہا، اور تجھ سے پیسے لینے آئی تھی، تُو نے تین سو روپے دے دیے تو اسے جانتا تک نہیں۔

    کہنے لگا، نہیں میں اتنا ہی جانتا ہوں، یہ خط ہے، اس میں لکھا تھا!

    محترم انشا صاحب! میں آپ کے کالم بڑے شوق سے پڑھتی ہوں، اور ان سے بہت خوش ہوتی ہوں، اور میں یہاں پر لیاری میں ایک پرائمری اسکول ٹیچر ہوں۔ اور میری 130 روپے تنخواہ ہے۔ میں اور میرے بابا ایک کھولی میں رہتے ہیں جس کا کرایا 160 روپے ہوگیا ہے، اور ہم وہ ادا نہیں کر سکتے، اور آج وہ بندہ سامان اٹھا کر باہر پهینک رہا ہے۔ اگر آپ مجھے 160 روپے دے دیں تو میں آہستہ آہستہ کر کے دس دس کرکے اتار دوں گی۔

    میں کراچی میں کسی اور کو نہیں جانتی سوائے آپ کے، وہ بھی کالم کی وجہ سے۔

    میں نے کہا، اوئے بے وقوف آدمی، اس نے تجھ سے 160 روپے مانگے تھے، تُو نے 300 سو دے دیے۔

    کہنے لگا، میں نے بھی تو "دتوں میں سے دیا ہے، میں نے کون سا پلے سے دیا ہے۔” اس کو بات سمجھ آ گئی تھی۔

    یہ نصیبوں کی بات ہے، یعنی میری سمجھ میں نہیں آئی۔ میں جو بڑے دھیان سے جاتا تھا، ڈکٹیشن لیتا تھا، کوششیں کرتا تھا جاننے کی۔

    کہنے لگا، میں نے کچھ کالم لکھے تھے، یہ ان کا معاوضہ تھا۔ یہ تین سو روپے میرے پاس ایسے ہی پڑے تھے، میں نے دے دیے۔

    (اشفاق احمد، زاویہ سے انتخاب)

  • اشفاق احمد: باکمال افسانہ نگار اور ایک مقبول قصّہ گو

    اشفاق احمد: باکمال افسانہ نگار اور ایک مقبول قصّہ گو

    اردو اور پنجابی زبان کے نام وَر ادیب اشفاق احمد ایک افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس ہی نہیں عام لوگوں کے لیے ایک صوفی دانش وَر بھی تھے۔

    اردو ادب کے قارئین کی بات کی جائے تو اشفاق احمد سے ان کا تعارف افسانوں کے ذریعے ہوا اور بعد میں وہ ایک ڈرامہ نگار کے طور پر مشہور ہوئے اور پھر ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام نے ان کی شہرت اور مقبولیت میں اضافہ کیا۔ اشفاق احمد کا پہلا افسانہ ’توبہ‘ سنہ 1944ء میں ’ادبی دنیا‘ میں شایع ہوا تھا۔ تقسیمِ ہند کے بعد جو نئے افسانہ نگار سامنے آئے، ان میں اشفاق احمد کو بہت پسند کیا گیا۔ ان میں ’گڈریا‘ کو بہت مقبولیت ملی۔ اشفاق احمد نے جہاں ادب کے قارئین کو اپنی تخلیقات سے متاثر کیا، وہیں ایک صوفی دانش ور کی حیثیت سے ہر خاص و عام کو متأثر کیا۔

    اشفاق احمد 22 اگست 1925ء کو ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈ کاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔

    وہ ’’داستان گو‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ نامی رسالوں کے مدیر رہے اور 1966ء سے 1992ء تک اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اردو کی نام وَر ادیبہ بانو قدسیہ ان کی شریکِ حیات تھیں۔

    ان کے افسانوی مجموعے ایک محبت سو افسانے، اجلے پھول، سفرِ مینا، پھلکاری کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ سفر نامے بھی لکھے۔ ان کی کہانیوں پر مبنی طویل دورانیے کے کھیل پی ٹی وی پر نشر ہوئے اور بہت پسند کیے گئے۔ اشفاق احمد نے عالمی ادب سے چند ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ ریڈیو کا مشہور ڈرامہ ’’تلقین شاہ‘‘ ان کا تحریر کردہ تھا جس میں اشفاق احمد نے صدا کاری بھی کی۔

    اشفاق احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے متعدد کام یاب ڈرامہ سیریلز تحریر کیے۔ 80ء کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی جو بہت مقبول ہوئی۔ اسی عرصے میں وہ تصوّف کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ ایک عرصے تک انھوں نے پی ٹی وی پر زاویہ کے نام سے پروگرام کیا جو دانائی اور حکمت کی باتوں پر مبنی تھا۔ یہ ایک مجلس ہوتی تھی جس میں وہ اپنے ساتھ موجود لوگوں کو نہایت پُرلطف اور اپنے مخصوص دھیمے انداز میں‌ قصّے کہانیاں اور حکایات سناتے اور ان کے سوالات کے جوابات دیتے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اشفاق احمد کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز عطا کیا تھا۔ اشفاق احمد 2004ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔ انھیں لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔