Tag: اشفاق احمد کی برسی

  • نام وَر ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی برسی

    نام وَر ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی برسی

    آج اشفاق احمد کا یومِ وفات ہے جو اردو اور پنجابی کے نام وَر ادیب، افسانہ و ڈرامہ نگار، دانش وَر اور مشہور براڈ کاسٹر تھے۔

    اردو ادب کے قارئین کا اشفاق احمد سے تعارف ان کے افسانوں کے ذریعے ہوا اور پھر انھوں نے مختلف اصنافِ‌ ادب میں طبع آزمائی کی۔ ان کا پہلا افسانہ ’توبہ‘ سنہ 1944ء میں ’ادبی دنیا‘ میں شایع ہوا۔ تقسیمِ ہند کے بعد جو نئے افسانہ نگار سامنے آئے، ان میں اشفاق احمد کو بہت پسند کیا گیا۔

    ’گڈریا‘ ان کا لازوال افسانہ تھا۔ اشفاق احمد نے جہاں ادب کے قارئین کو اپنی تخلیقات سے متاثر کیا، وہیں وہ ایک صوفی اور دانا کی حیثیت سے بھی مشہور ہوئے اور ان کی نصیحتوں اور حکایات نے انھیں ہر خاص و عام میں مقبول بنایا۔

    اشفاق احمد 22 اگست 1925ء کو ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈ کاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔

    وہ ’’داستان گو‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ نامی رسالوں کے مدیر رہے اور 1966ء سے 1992ء تک اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اردو کی نام وَر ادیبہ بانو قدسیہ ان کی شریکِ حیات تھیں۔

    ان کے افسانوی مجموعے ایک محبت سو افسانے، اجلے پھول، سفرِ مینا، پھلکاری کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ سفر نامے بھی لکھے۔ ان کی کہانیوں پر مبنی طویل دورانیے کے کھیل پی ٹی وی پر نشر ہوئے اور بہت پسند کیے گئے۔ اشفاق احمد نے عالمی ادب سے چند ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔

    ریڈیو کا مشہور ڈرامہ ’’تلقین شاہ‘‘ ان کا تحریر کردہ تھا جس میں اشفاق احمد نے صدا کاری بھی کی۔

    اشفاق احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے متعدد کام یاب ڈرامہ سیریلز تحریر کیے۔ 80ء کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی جو بہت مقبول ہوئی۔ اسی عرصے میں وہ تصوّف کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ ایک عرصے تک انھوں نے پی ٹی وی پر زاویہ کے نام سے پروگرام کیا جو دانائی اور حکمت کی باتوں پر مبنی تھا۔ یہ ایک مجلس ہوتی تھی جس میں وہ اپنے ساتھ موجود لوگوں کو نہایت پُرلطف اور اپنے مخصوص دھیمے انداز میں‌ قصّے کہانیاں اور حکایات سناتے اور ان کے سوالات کے جوابات دیتے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اشفاق احمد کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز عطا کیا تھا۔

    اشفاق احمد 2004ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے انھیں لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نام ورادیب، دانش ور اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی برسی

    نام ورادیب، دانش ور اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی برسی

    آج اردو اور پنجابی زبانوں کے نام ور ادیب، دانش ور، افسانہ نگار اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی برسی ہے۔ 22 اگست 1925 کو مکتسر ضلع فیروز پور میں پیدا ہونے والے اشفاق احمد 7 ستمبر 2004 کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ وہ لاہور کے قبرستان میں‌ آسودہ خاک ہیں۔

    دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دینے کے ساتھ اشفاق احمد نے تخلیقی سفر بھی جاری رکھا۔ انھوں نے ’’داستان گو‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ جیسے ادبی رسائل کی ادارت کی اور کئی برس اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے ان کے پروگرام یادگار ثابت ہوئے۔ اشفاق احمد کو ایک صوفی، حکیم و دانا کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے اخلاقی لیکچرز اور علمی و ادبی انداز میں‌ بیان کردہ واقعات اور قصّوں‌ پر مشتمل مضامین کے مجموعہ کو بہت مقبولیت ملی۔ اس کے علاوہ اشفاق احمد کا افسانوں پر مشتمل مجموعہ "ایک محبت سو افسانے” بھی بہت زیادہ پسند کیا گیا۔ اسی طرح توتا کہانی ان کی ایک مشہور تخلیق ہے۔

    ریڈیو پر اشفاق احمد نے صدا کاری کے ساتھ ایک یادگار ڈرامے "تلقین شاہ” کا اسکرپٹ بھی لکھا جب کہ پاکستان ٹیلی وژن سے ان کے متعدد ڈراما سیریل نشر ہوئے جنھیں‌ بہت پزیرائی ملی۔ اشفاق احمد کے مضامین، ریڈیو اور ٹیلی ویژن ڈراموں کو پاکستان بھر میں‌ بڑی تعداد میں قارئین اور ناظرین نے پڑھا، دیکھا اور انھیں سراہا۔

    اشفاق احمد کو حکومت نے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز عطا کیے۔ ان کی فکرانگیز تحریر سے ایک پارہ پیش ہے۔

    اشفاق احمد کہتے تھے میرے پاس ایک بلّی تھی، اس کو جب بھی بھوک لگتی تھی میرے پاﺅں چاٹ لیتی اور میں اسے کھانا دے دیا کرتا تھا۔ ایک دن میں نے سوچا یہ بلّی مجھ سے بہتر ہے۔ اس کو پکا یقین ہے کہ اپنے مالک کے پاس سے اس کی ہر طلب پوری ہو گی، لیکن انسان کو ایسا یقین نہیں۔ انسان ہر فکر اپنے ذمے لے لیتا ہے۔ ان کاموں میں بھی جو اس کے اختیار میں نہیں ہوتے۔