Tag: اشفاق احمد کی تحریریں

  • “رنگیل پیڑھی“

    “رنگیل پیڑھی“

    اگر کسی نے اللہ کو پانا ہو تو وہ صبر کرنے لگ جائے تو اس کا کام بن جاتا ہے جب کہ لوگ اس کے لئے ورد، وظیفے کرتے ہیں۔ ناک رگڑتے ہیں، لیکن اللہ کو صبر کرنے والے پا لیتے ہیں۔

    میں نے شاید اسی محفل میں پہلے بھی یہ بات بتائی ہے کہ میری ایک تائی تھیں۔ وہ تیلن تھی۔ اس کا شوہر فوت ہو گیا۔ وہ تائی بے چاری کولہو پیلتی تھی۔ نہایت پاکیزہ عورت تھی۔ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہوئی لیکن اس نے شادی نہیں کی۔ جب میں اس سے ملا تو تائی کی عمر کوئی ساٹھ برس کے قریب تھی۔ اس کے پاس ایک بڑی خوبصورت “رنگیل پیڑھی“ تھی، وہ اسے ہر وقت اپنی بغل میں رکھتی تھی، جب بیل کے پیچھے چل رہی ہوتی تو تب بھی وہ اس کے ساتھ ہی ہوتی تھی۔ وہ ساگ بہت اچھا پکاتی تھی اور میں سرسوں کا ساگ بڑے شوق سے کھاتا تھا۔ وہ مجھے گھر سے بلا کے لاتی تھی کہ آ کے ساگ کھا لے، میں نے تیرے لئے پکایا ہے۔

    ایک دن میں ساگ کھانے اس کے گھر گیا۔ جب بیٹھ کر کھانے لگا تو میرے پاس وہی “پیڑھی“ پڑی تھی۔ میں نے اس پر بیٹھنا چاہا تو وہ کہنے لگی “ ناں ناں پتر ایس تے نئیں بیٹھنا“ (نہ نہ بیٹا، اس پر مت بیٹھنا)، میں نے کہا کیوں اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ زیادہ خوبصورت ہے۔ میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ کیا میں تیرا پیارا بیٹا نہیں۔ کہنے لگی تو میرا بہت پیارا بیٹا ہے۔ تو مجھے سارے گاؤں سے پیارا ہے لیکن تو اس پر نہیں بیٹھ سکتا۔

    کہنے لگی بیٹا جب تیرا تایا فوت ہوا تو مسجد کے مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ “بی بی تیرے اوپر بہت بڑا حادثہ گزرا ہے لیکن تو اپنی زندگی کو سونا بھی بنا سکتی ہے۔ یہ تجھے اللہ نے عجیب طرح کا چانس دیا ہے۔ تو اگر صبر اختیار کرے گی تو اللہ تیرے ہر وقت ساتھ ہو گا کیونکہ یہ قرآن میں ہے کہ “اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ تائی کہنے لگی کہ میں نے پھر صبر کر لیا۔ جب کئی سال گزر گئے تو ایک دن مجھے خیال آیا کہ اللہ تو ہر وقت میرے پاس ہوتا ہے اور اس کے بیٹھنے کے لئے ایک اچھی سی کرسی چاہیے کہ نہیں؟ تو میں نے “رنگیل پیڑھی“ بنوائی اور اس کو قرینے اور خوبصورتی سے بنوایا۔ اب میں اس کو ہر وقت اپنے پاس رکھتی ہوں اور جب بھی اللہ کو بیٹھنا ہوتا ہے میں اسے اس پر بٹھا لیتی ہوں۔ میں کپڑے دھوتی ہوں، اپنا کام کرتی ہوں، روٹیاں ساگ پکاتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میرا اور اللہ کا تعلق ہے اور وہ صبر کی وجہ سے میرے ساتھ ہے۔

    خواتین و حضرات ایسے لوگوں کا تعلق بھی بڑا گہرا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جنہوں نے اس بات کو یہاں تک محسوس کیا۔ وہ قرآن میں کہی بات کو دل سے مان گئے وہ خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں۔ ہم جیسے لوگ “ٹامک ٹوئیاں“ مارتے ہیں اور ہمارا رخ اللہ کے فضل سے سیدھے راستے ہی کی طرف ہے۔ ہم سے کچھ کوتاہیاں ایسی ضرور ہو جاتی ہیں جو ہمارے کئے کرائے پر “ کُوچی“ پھیر دیتی ہیں۔ جس سے ہمارا بدن، روح، دل خراب ہو جاتا ہے۔

    (ممتاز ادیب اور دانشور اشفاق احمد کی کتاب زاویہ دوّم سے اقتباس)

  • بغداد کا نعل ساز

    بغداد کا نعل ساز

    بغداد میں ایک نوجوان تھا- وہ بہت خوبصورت تھا اور اس کا کام نعل سازی تھا- وہ نعل بناتا بھی تھا اور گھوڑے کے سموں پر چڑھاتا بھی تھا-

    نعل بناتے وقت تپتی بھٹی میں سرخ شعلوں کے اندر وہ نعل رکھتا اور پھر آگ میں اسے کسی "جمور” یا کسی اوزار کے ساتھ نہیں پکڑتا تھا بلکہ آگ میں ہاتھ ڈال کے اس تپتے ہوئے شعلے جیسے نعل کو نکال لیتا اور اپنی مرضی کے مطابق اسے (shape) شکل دیتا تھا- لوگ اسے دیکھ کر دیوانہ کہتے اور حیران بھی ہوتے تھے کہ اس پر آگ کا کوئی اثر نہیں ہوتا-

    وہاں موصل شہر کا ایک شخص آیا جب اس نے ماجرا دیکھا تو اس نے تجسس سے اس نوجوان سے پوچھا کہ اسے گرم گرم لوہا پکڑنے سے کیوں کچھ نہیں ہوتا؟

    اس نوجوان نے جواب دیا کہ وہ جلدی میں لوہے کو اٹھا لیتا ہے اور اب اس پر ایسی کیفیت طاری ہو گئی ہے کہ میرا ہاتھ اسے برداشت کرنے کا عادی ہوگیا ہے- اور اسے کسی جمور یا پلاس کی ضرورت نہیں پڑتی-

    اس شخص نے کہا کہ میں اس بات کو نہیں مانتا ” یہ تو کوئی اور ہی بات ہے-” اس نے نوجوان سے کہا کہ مجھے اس کی حقیقت بتاؤ؟

    اس نوجوان نے بتایا کہ بغداد میں ایک نہایت حسین و جمیل لڑکی تھی اور اس کے والدین عمرے کے لیے گئے، اور کسی حادثے کا شکار ہو کر وہ دونوں فوت ہو گئے- اور یہ لڑکی بے یار و مددگار اس شہر میں رہنے لگی-

    وہ لڑکی پردے کی پلی ہوئی، گھر کے اندر رہنے والی لڑکی تھی اب اس کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ زندگی کیسے گزارے- آخر کار نہایت غم زدہ اور پریشانی کی حالت میں وہ باہر سڑک پر نکل آئی-

    اس نے میرے دروازے پر دستک دی اور کہا ” کیا ٹھنڈا پانی مل سکتا ہے-” میں نے کہا ہاں اور اندر سے اس لڑکی کو ٹھنڈا پانی لا کر پلایا اور اس لڑکی نے کہا خدا تمہارا بھلا کرے-

    میں نے اس سے پوچھا کیا تم نے کچھ کھایا بھی ہے کہ نہیں؟ اس لڑکی نے کہا نہیں میں نے کچھ نہیں کھایا- میں نے اس سے اکیلے اس طرح پھرنے کی وجہ پوچھی تو اس لڑکی نے اپنے اوپر گزرا سارا واقعہ سنایا اور کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی میں زندگی کیسے بسر کروں- میں نے اس سے کہا کہ تم شام کو یہیں میرے گھر آجانا اور میرے ساتھ کھانا کھانا- میں تمھیں تمہاری پسند کا ڈنر کھلاؤں گا وہ لڑکی چلی گئی-

    اس نوجوان نے بتایا کہ میں نے اس کے لیے کباب اور بہت اچھی اچھی چیزیں تیار کیں وہ شام کے وقت میرے گھر آگئی اور میں نے کھانا اس کے آگے چن دیا-

    جب اس لڑکی نے کھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو میں نے دروازے کی چٹخنی چڑھا دی اور میری نیت بدل گئی کیوں کہ وہ انتہا درجے کا ایک آسان موقع تھا – جو میری دسترس میں تھا-

    جب میں نے دروازے کی چٹخنی چڑھائی تو اس لڑکی نے پلٹ کر دیکھا اور اس نے کہا کہ میں بہت مایوس اور قریبُ المرگ اور اس دنیا سے گزر جانے والی ہوں- اس نے مزید کہا ” اے میرے پیارے بھائی تو مجھے خدا کے نام پر چھوڑ دے-”

    وہ نوجوان کہنے لگا، میرے سر پر برائی کا بھوت سوار تھا- میں نے اس سے کہا کہ ایسا موقع مجھے کبھی نہیں ملے گا میں تمھیں نہیں چھوڑ سکتا- اس لڑکی نے مجھے کہا کہ "میں تمھیں خدا اور اس کے رسول کے نام پردرخواست کرتی ہوں کہ میرے پاس سوائے میری عزت کے کچھ نہیں ہے اور ایسا نہ ہو کہ میری عزت بھی پامال ہو جائے اور میرے پاس کچھ بھی نہ بچے اور پھر اس حالت میں اگر میں زندہ بھی رہوں تو مردوں ہی کی طرح جیئوں گی-”

    اس نوجوان نے بتایا کہ لڑکی کی یہ بات سن کرمجھ پر خدا جانے کیا اثر ہوا، میں نے دروازے کی چٹخنی کھولی اور دست بستہ اس کے سامنے کھڑا ہوگیا اور کہا کہ "مجھے معاف کر دینا میرے اوپر ایک ایسی کیفیت گزری تھی جس میں میں نبرد آزما نہیں ہو سکا تھا لیکن اب وہ کیفیت دور ہو گئی ہے تم شوق سے کھانا کھاؤ اور اب سے تم میری بہن ہو-”

    یہ سن کر اس لڑکی نے کہا کہ ” اے الله میرے اس بھائی پر دوزخ کی آگ حرام کر دے – ”

    یہ کہ کر وہ رونے لگی اور اونچی آواز میں روتے ہوئی کہنے لگی کہ ” اے الله نہ صرف دوزخ کی آگ حرام کر دے بلکہ اس پر ہر طرح کی آگ حرام کر دے- ”

    نوجوان نے بتایا کہ لڑکی یہ دعا دے کر چلی گئی – ایک دن میرے پاس زنبور (جمور) نہیں تھا اور میں دھونکنی چلا کر نعل گرم کر رہا تھا میں نے زنبور پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو وہ دہکتے ہوئے کوئلوں میں چلا گیا لیکن میرے ہاتھ پر آگ کا کوئی اثر نہ ہوا- میں حیران ہوا اور پھر مجھے اس لڑکی کی وہ دعا یاد آئی اور تب سے لے کر اب تک میں اس دہکتی ہوئی آگ کو آگ نہیں سمجھتا ہوں بلکہ اس میں سے جو چاہے بغیر کسی ڈر کے نکال لیتا ہوں-

    (حکایت از اشفاق احمد، زاویہ)

  • دنیا کا نقشہ اور اشتہار

    دنیا کا نقشہ اور اشتہار

    مجھے وہ بات یاد آرہی ہے جو شاید میں نے ٹی وہ پر ہی سنی ہے کہ ایک اخبار کے مالک نے اپنے اخبار کی اس کاپی کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جس میں دنیا کا نقشہ تھا اور اس نقشے کو ۳۲ ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور اپنے پانچ سال کے کمسن بیٹے کو آواز دے کر بلایا اور اس سے کہا کہ لو بھئی یہ دنیا کا نقشہ ہے جو ٹکڑوں میں ہے، اس کو جوڑ کر دکھاؤ۔

    اب وہ بیچارہ تمام ٹکڑے لے کر پریشان ہوکے بیٹھ گیا کیونکہ اب سارے ملکوں کے بارے میں کہ کون کہاں پر ہے، میرے جیسا بڑی عمر کا آدمی بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ کافی دیر تک پریشان بیٹھا رہا لیکن کچھ دیر بعد اس نے تمام کا تمام نقشہ درست انداز میں جوڑ کر اپنے باپ کو دے دیا۔ اس کا باپ بڑا حیران ہوا اور کہا کہ بیٹا مجھے اس کا راز بتا کیونکہ اگر مجھے اس نقشے کو جوڑنا پڑتا تو میں نہیں جوڑ سکتا تھا۔

    اس پر اس لڑکے نے کہا کہ بابا جان میں نے دنیا کا نقشہ نہیں جوڑا بلکہ نقشے کے دوسری طرف سیفٹی بلیڈ کا ایک اشتہار تھا اور اس میں ایک شخص کا بڑا سا چہرہ تھا جو شیو کرتا دکھایا گیا تھا۔ میں نے سارے ٹکڑوں کو الٹا کیا اور اس آدمی کو جوڑنا شروع کیا اور چار منٹ کی مدت میں میں نے پورا آدمی جوڑ دیا۔ اس لڑکے نے کہا کہ بابا اگر آدمی جڑ جائے تو ساری دنیا جڑ جائے گی۔

    (’’زاویہ‘‘ اشفاق احمد سے اقتباس)

  • ’’اوتار‘‘اور ’’رتن ناتھ‘‘

    ’’اوتار‘‘اور ’’رتن ناتھ‘‘

    ہمارے یہاں قریب ہی بھارت میں ایک جگہ ہے جسے بٹھندہ کہتے ہیں۔ صدیوں پہلے اس شہر میں ریت کے میدان میں شام کو نوجوان اکٹھے ہوتے تھے اور اپنے اس زمانے کی (بہت عرصہ، بہت صدیاں پہلے کی بات کر رہا ہوں) کھیلیں کھیلتے تھے۔

    ایک دفعہ کہانیاں کہتے کہتے کسی ایک نوجوان لڑکے نے اپنے ساتھیوں سے یہ ذکر کیا کہ اس دھرتی پر ایک ’’اوتار‘‘ آیا ہے، لیکن ہمیں پتا نہیں کہ وہ کہاں ہے؟ اس کے ایک ساتھی ’’رتن ناتھ‘‘ نے کہا تجھے جگہ کا پتا نہیں ہے۔ اس نے کہا مجھے معلوم نہیں لیکن یہ بات دنیا والے جان گئے ہیں کہ ایک ’’اوتار‘‘ اس دھرتی پر تشریف لایا ہے۔ اب رتن ناتھ کے دل میں ’’کھد بد‘‘ شروع ہو گئی کہ وہ کون سا علاقہ ہے اور کدھر یہ ’’اوتار‘‘ آیا ہے اور میری زندگی میں یہ کتنی خوش قسمتی کی بات ہوگی اور میں کتنا خوش قسمت ہوں گا اگر ’’اوتار‘‘ دنیا میں موجود ہے اور میں اس سے ملوں اور اگر ملا نہ جائے تو یہ بہت کمزوری اور نامرادی کی بات ہوگی۔ چنانچہ اس نے ارد گرد سے پتا کیا، کچھ بڑے بزرگوں نے بتایا کہ وہ عرب میں آیا ہے اور عرب یہاں سے بہت دور ہے۔

    وہ رات کو لیٹ کر سوچنے لگا بندہ کیا عرب نہیں جا سکتا۔ اب وہاں جانے کے ذرائع تواس کے پاس تھے نہیں لیکن اس کا تہیہ پکا اور پختہ ہو گیا۔ اس نے بات نہ کی اور نہ کوئی اعلان ہی کیا۔ کوئی کتاب رسالہ نہیں پڑھا بلکہ اپنے دل کے اندر اس دیوتا کا روپ اتار لیا کہ میں نے اس کی خدمت میں ضرور حاضر ہونا ہے اور میں نے یہ خوش قسمت آدمی بننا ہے۔ وہ چلتا گیا چلتا گیا، راستہ پوچھتا گیا اور لوگ اسے بتاتے گئے۔

    کچھ لوگوں نے اسے مہمان بھی رکھا ہوگا لیکن ہمارے پاس اس کی ہسٹری موجود نہیں ہے۔ وہ چلتا چلتا مہینوں کی منزلیں ہفتوں میں طے کرتا مکہ شریف پہنچ گیا۔ غالباً ایران کے راستے سے اور اب وہ وہاں تڑپتا پھرتا ہے کہ میں نے سنا ہے کہ ایک ’’اوتار‘‘ آیا ہے۔ اب کچھ لوگ اس کی بات کو لفظی طور پر تو نہیں سمجھتے ہوں گے۔ لیکن اس کی تڑپ سے اندازہ ضرور لگایا ہوگا کسی نے اسے بتایا ہوگا کہ وہ اب یہاں نہیں ہے بلکہ یہاں سے آگے تشریف لے جا چکے ہیں اور اس شہر کا نام مدینہ ہے۔ اس نے کہا میں نے اتنے ہزاروں میل کا سفر کیا ہے یہ مدینہ کون سا دور ہے، میں یہ ٦٠٠ کلو میٹر بھی کر لوں گا۔ وہ پھر چل پڑا اور آخرکار ’’مدینہ منورہ‘‘ پہنچ گیا۔ بہت کم لوگ اس بات کو جانتے ہیں اور کہیں بھی اس کا ذکر اس تفصیل کے ساتھ نہیں آتا جس طرح میں عرض کر رہا ہوں۔

    شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے اپنی کتاب میں ایک جملہ لکھا ہے کہ ’’بابا رتن ہندی‘‘ حضور نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، پھر معلوم نہیں کہ اس کا کیا ہوا ’’لیکن غالب گمان ہے اور عقل کہتی ہے اور ہم اندازے سے یقین کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں کہ وہ مدینہ شریف میں حضور نبی کریم کی خدمت میں رہا اور حضور کے پسندیدہ لوگوں میں سے تھا۔ اب وہ کس زبان میں ان سے بات کرتے ہوں گے، کیسے رابطے کرتے ہوں گے اور رتن کس طرح سے مدینہ شریف میں زندگی بسر کرتا ہوگا؟ کہاں رہتا ہوگا اس کا ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے لیکن وہ رہتا وہیں تھا اور وہ کب تک وہاں رہا اس کے بارے میں بھی لوگ نہیں جانتے۔ اس کی طلب تھی اور اس کی خوش قسمتی تھی اور خوش قسمتی ہمیشہ طلب کے واسطے سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ کی طلب نہ ہو تو خوش قسمتی خود گھر نہیں آتی۔ وہ اتنے معزز میزبان کا مہمان ٹھہرا اور وہاں رہا۔‘‘

    آپ کو یاد ہوگا جب رسول پاک نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وسلّم مدینہ شریف تشریف لے گئے تو وہاں کی لڑکیوں نے اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر دف پر گانا شروع کر دیا کہ ’’چاند کدھر سے چڑھا‘‘ وہ خوش قسمت لوگ تھے۔ ایک فکشن رائٹر کے حوالے سے میں یہ سوچتا ہوں کہ اس وقت کوئی ایسا محکمہ پبلک سروس کمیشن کا تو نہیں ہوگا، اس وقت کوئی پبلک ریلیشن یا فوک لور کا ادارہ بھی نہیں ہوگا کہ لڑکیوں سے کہا جائے کہ تم ٹیلے پر چڑھ کے گانا گاؤ۔ وہ کون سی خوش نصیب لڑکی ہوگی جس نے اپنے گھر والوں سے یہ ذکر سنا ہوگا، رات کو برتن مانجھتے یا لکڑیاں بجھاتے ہوئے کہ رسول الله تشریف لا رہے ہیں اور اندازہ ہے کہ عنقریب پہنچ جائیں گے اور پھر اس نے اپنی سہیلیوں سے بات کی ہوگی اور انھوں نے فیصلہ کیا ہوگا کہ جب وہ آئیں گے تو ہم ساری کھڑی ہو کر دف بجائیں گی اور گیت گائیں گی۔

    اب جب حضور کے آنے کا وقت قریب آیا ہوگا تو کسی نے ایک دوسری کو بتایا ہوگا کہ بھاگو، چلو، محکمہ تو کوئی ہے نہیں کہ اطلاع مل گئی ہوگی، یہ طلب کون سی ہوتی ہے، وہ خوش نصیب لڑکیاں جہاں بھی ہوں گی، وہ کیسے کیسے درجات لے کر بیٹھی ہوں گی۔ انھوں نے خوشی سے دف بجا کر جو گیت گایا اس کے الفاظ ایسے ہیں کہ دل میں اترتے جاتے ہیں۔ انھیں آنحضور صلّی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر روشنی محسوس ہو رہی ہے، پھر وہ کون سی جگہ تھی جسے بابا رتن ہندی نے قبول کیا اور سارے دوستوں کو چھوڑ کر اس عرب کے ریتیلے میدان میں وہ اپنی لاٹھی لے کر چل پڑا کہ میں تو ’’اوتار‘‘ سے ملوں گا۔

    بہت سے اور لوگوں نے بھی رتن ہندی پر ریسرچ کی ہے۔ ایک جرمن اسکالر بھی ان میں شامل ہیں۔ جب یہ سب کچھ میں دیکھ چکا اور پڑھ چکا تو پھر میرے دل میں خیال آیا بعض اوقات ایسی حکایتیں بھی بن جاتی ہیں لیکن دل نہیں مانتا تھا۔ یہ پتا چلتا تھا جرمن ریسرچ سے کہ وہ حضور کے ارشاد پر اور ان کی اجازت لے کر واپس ہندوستان آ گئے۔ ہندوستان آئے تو ظاہر ہے وہ اپنے گاؤں ہی گئے ہوں گے اور بٹھندا میں ہی انھوں نے قیام کیا ہوگا، میری سوچ بھی چھوٹی ہے، درجہ بھی چھوٹا ہے، لیول بھی چھوٹا ہے۔ پھر بھی میں نے کہا الله تو میری مدد کر کہ مجھے اس بارے میں کچھ پتا چل جائے اب تو پاکستان بن چکا ہے، میں بٹھندا جا بھی نہیں سکتا اور پوچھوں بھی کس سے ١٤٠٠ برس پہلے کا واقعہ ہے۔

    کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر مسعود سے میری دوستی ہو گئی۔ ان سے ملنا ملانا ہو گیا، وہ گھر آتے رہے، ملتے رہے، ان کے والد سے بھی ملاقات ہوئی وہ کسی زمانے میں اسکول ٹیچر رہے تھے۔ ایک دن باتوں باتوں میں ڈاکٹر مسعود کے والد صاحب نے بتایا کہ میں کافی سال بٹھندا کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں ہیڈ ماسٹر رہا ہوں۔ میں نے کہا یا الله یہ کیسا بندہ آپ نے ملوا دیا، میں نے کہا آپ یہ فرمائیں ماسٹر صاحب کہ وہاں کوئی ایسے آثار تھے کہ جن کا تعلق بابا رتن ہندی کے ساتھ ہو۔ کہنے لگے ان کا بہت بڑا مزار ہے وہاں پر اور وہاں بڑے چڑھاوے چڑھتے ہیں۔ ہندو، مسلمان عورتیں، مرد آتے ہیں اور تمہارا یہ دوست جو ہے ڈاکٹر مسعود، میرے گھر ١٣ برس تک اولاد نہیں ہوئی، میں پڑھا لکھا شخص تھا، ایسی باتوں پر اعتبار نہیں کرتا تھا جو ان پڑھ کرتے ہیں۔ لیکن ایک دن جا کر میں بابا رتن ہندی کے مزار پر بڑا رویا۔ کچھ میں نے کہا نہیں، نہ کچھ بولا۔ پڑھے لکھے سیانے بندوں کو شرک کا بھی ڈر رہتا ہے، اس لئے کچھ نہ بولا اور مجھے ایسے ہی وہاں جا کر بڑا رونا آ گیا۔

    بابا رتن ہندی کی کہانی کا مجھے پتا تھا کہ یہ مدینہ تشریف لے گئے تھے۔ مزار پر جانے کے بعد میں گھر آ گیا۔ رات کو مجھے خواب آیا کہ جس میں ہندوستانی انداز کے سفید داڑھی والے بابا جی آئے اور کہنے لگے، ’’لے اپنا کاکا پھڑ لے‘‘ (لو، اپنا بچہ لو) یہ الله تعالیٰ نے تمہارے لیے بھیجا ہے۔ میں نے کہا جی، یہ کہاں سے آگیا، ماسٹر صاحب نے بتایا کہ جب میں نے خواب میں وہ بچہ اٹھایا تو وہ وزنی تھا۔

    میں نے پوچھا ’’بابا جی آپ کون ہیں؟‘‘

    ’’تو وہ کہنے لگے، میں رتن ہندی ہوں۔ کیا ایسے بے وقوفوں کی طرح رویا کرتے ہیں، صبر سے چلتے ہیں، لمبا سفر کرتے ہیں، ہاتھ میں لاٹھی رکھتے ہیں اور ادب سے جاتے ہیں۔‘‘

    ماسٹر صاحب کہنے لگے مجھے سفر اور لاٹھی کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ یہ کیا باتیں ہیں، میں نے ان سے کہا جی اس کا مصالحہ میرے پاس ہے اور مجھے یقین ہو گیا کہ وہ لڑکیاں جو حضور کا استقبال کرنے کے لئے موجود تھیں وہ خوش قسمت تھیں۔

    ہم کچھ مصروف ہیں۔ کچھ ہمارے دل اور طرف مصروف ہیں۔ ہم اس سفر کو اختیار نہیں کر سکتے لیکن سفر کو اختیار کرنے کی ’’تانگ‘‘ (آرزو) ضرور دل میں رہنی چاہیے اور جب دل میں یہ ہو جائے پکا ارادہ اور تہیہ تو پھر راستہ ضرور مل جاتا ہے۔

    (ممتاز ادیب، ناول اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد کی باتیں)

  • ریڈیو اناؤنسر اور سورۂ روم

    ریڈیو اناؤنسر اور سورۂ روم

    ہمارے دین میں سب سے اہم چیز ڈسپلن ہے۔ میں تین چار برس پہلے کینیڈا گیا تھا، وہاں ایک یوری انڈریو نامی ریڈیو اناؤنسر ہے۔ اب وہ مسلمان ہو گیا ہے۔ اس کی آواز بڑی خوب صورت آواز ہے۔

    میں اس وجہ سے کہ وہ اچھا اناؤنسر ہے اور اب مسلمان ہوگیا ہے، اس سے ملنے گیا۔ وہ اپنے مسلمان ہونے کی وجوہات کے بارے میں بتاتا رہا۔ اس نے مسلمان ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ سورۂ روم پڑھ کر مسلمان ہوا ہے۔ میں پھر کبھی آپ کو بتاؤں گا کہ اُس کو سورۂ روم میں کیا نظر آیا۔ میں نے کہا کہ اب ہمارے حالات تو بڑے کمزور ہیں۔ اس نے کہا نہیں۔ اسلام کا نام تو جلی حروف میں سامنے دیوار پر بڑا بڑا کر کے لکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا، نہیں! ہم تو ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر جس طرح سے ہم کو گھیرا جا رہا ہے، اس نے کہا ٹھیک ہے گھیرا جا رہا ہے، لیکن اس صورتِ حال میں نکلنے کا بھی ایک انداز ہے۔ ہم نکلیں گے۔ میں نے کہا ہم کیسے نکلیں گے؟ اُس نے کہا کہ جب کوئی پانچ چھ سات سو امریکی مسلمان ہو جائیں گے اور اسی طرح سے چھ سات سو کینیڈین مسلمان ہو جائیں اور ساڑھے آٹھ نو سو سکینڈے نیوین مسلمان ہو جائیں گے تو پھر ہمارا قافلہ چل پڑے گا، کیونکہ We are Disciplined۔ اسلام ڈسپلن سکھاتا ہے، نعرہ بازی کو نہیں مانتا۔

    میں بڑا مایوس، شرمندہ اور تھک سا گیا۔ اُس کی یہ بات سن کر اور سوچا کہ دیکھو! ہر حال میں ان کی چڑھ مچ جاتی ہے۔ یہ جو گورے ہیں یہ یہاں بھی کام یاب ہو جائیں گے۔

    اسلام، جو ہم کو بہت پیارا ہے، ہم نعرے مار مار کر، گانے گا گا کر یہاں تک پہنچے ہیں اور یہ ہمیں مل نہیں رہا۔ میں نے اس سے کہا کہ اس میں ہمارا کوئی حصّہ نہیں ہوگا؟ تو اس نے کہا کہ نہیں! آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ آپ کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ یار! ہمارا بھی جی چاہے گا کہ ہمارا بھی اس میں کوئی حصّہ ضرور ہو۔ کہنے لگا، ایسا کریں گے کہ جب ہمارا قافلہ چلے گا تو تم بھی بسترے اٹھا کر پیچھے پیچھے چلتے آنا اور کہنا Sir we are also Muslim۔ لیکن آپ میں وہ ڈسپلن والی بات ہے نہیں اور دنیا جب آگے بڑھی ہے تو وہ نظم سے اور ڈسپلن سے ہی آگے بڑھی ہے۔

    جب اس نے یہ بتایا کہ دیکھئے ہمارے دین میں اوقات مقرر ہیں۔ وقت سے پہلے اور بعد میں نماز نہیں ہو سکتی۔ اس کی رکعات مقّرر ہیں۔ آپ مغرب کی تین ہی پڑھیں گے۔ آپ چاہیں کہ میں مغرب کی چار رکعتیں پڑھ لوں کہ اس میں اللہ کا بھی فائدہ اور میرا بھی فائدہ، لیکن اس سے بات نہیں بنے گی۔ آپ کو فریم ورک کے اندر ہی رہنا پڑے گا۔ پھر آپ حج کرتے ہیں۔ اس میں کچھ عبادت نہیں کرنی، طے شدہ بات ہے کہ آج آپ عرفات میں ہیں، کل مزدلفہ میں ہیں۔ پرسوں منٰی میں ہیں اور بس حج ختم اور کچھ نہیں کرنا، جگہ بدلنی ہے کہ فلاں وقت سے پہلے وہاں پہنچ جانا ہے اور جو یہ کر گیا، اس کا حج ہو گیا، کچھ لمبا چوڑا کام نہیں۔

    دین میں ہر معاملے میں ڈسپلن سکھایا گیا ہے۔ ہمارے بابے کہتے ہیں کہ ڈسپلن چھوٹے کاموں سے شروع ہوتا ہے۔ جب آپ معمولی کاموں کو اہمیت نہیں دیتے اور ایک لمبا منصوبہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں، اپنا ذاتی اور انفرادی تو پھر آپ سے اگلا کام چلتا نہیں۔

    (اردو کے ممتاز ادیب اور معروف افسانہ نگار اشفاق احمد کی ایک تحریر)

  • ‘چھوٹا کام’ کرنے والا ایک بڑا آدمی

    ‘چھوٹا کام’ کرنے والا ایک بڑا آدمی

    اٹلی میں ایک مسٹر کلاؤ بڑا سخت قسم کا یہودی تھا۔ اس کی کوئی تیرہ چودہ منزلہ عمارت تھی۔

    صبح جب میں یونیورسٹی جاتا تو وہ وائپر لے کر رات کی بارش کا پانی نکال رہا ہوتا اور فرش پر ٹاکی لگا رہا ہوتا تھا یا سڑک کے کنارے جو پٹری ہوتی ہے اسے صاف کر رہا ہوتا۔ میں اس سے پوچھتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، اتنے بڑے آدمی ہو کر۔ اس نے کہا یہ میرا کام ہے، کام بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا، جب میں نے یہ ڈیوٹی لے لی ہے اور میں اس ڈسپلن میں داخل ہو گیا ہوں تو میں یہ کام کروں گا۔

    میں نے کہا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ انبیاء کی صفت ہے، جو انبیاء کے دائرے میں داخل ہونا چاہتا ہے۔ وہ چھوٹے کام ضرور کرے۔ ہم کو یہ نوکری ملی ہے۔ حضرت موسٰی علیہ السلام نے بکریاں چَرائی تھیں اور ہم یہودیوں میں یہ بکریاں چَرانا اور اس سے متعلقہ نچلے لیول کا کام موجود ہے تو ہم خود کو حضرت موسٰی علیہ السلام کا پیروکار سمجھیں گے۔

    اس نے کہا کہ آپ کے نبی اپنا جوتا خود گانٹھتے تھے۔ قمیص کو پیوند یا ٹانکا خود لگاتے تھے۔ کپڑے دھو لیتے تھے۔ راستے سے جھاڑ جھنکار صاف کر دیتے تھے، تم کرتے ہو؟

    میں کہنے لگا مجھے تو ٹانکا لگانا نہیں آتا، مجھے سکھایا نہیں گیا۔ وہ آدمی بڑی تول کے بات کرتا تھا۔ مجھے کہتا تھا دیکھو اشفاق تم استاد تو بن گئے ہو، لیکن بہت سی چیزیں تمہیں نہیں آتیں۔ جب کام کرو چھوٹا کام شروع کرو۔ اب تم لیکچرار ہو کل پروفیسر بن جاؤ گے۔ تم جب بھی کلاس میں جانا یا جب بھی لوگوں کو خطاب کرنے لگنا اور کبھی بہت بڑا مجمع تمہارے سامنے ہو تو کبھی اپنے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو مخاطب نہ کرنا۔ ہمیشہ اپنی آواز کو دور پیچھے کی طرف پھینکنا۔ وہ لوگ جو بڑے شرمیلے ہوتے تھے، شرمندہ سے جھکے جھکے سے ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ پچھلی قطاروں میں بیٹھتے ہیں۔ آپ کا وصف یہ ہونا چاہیے کہ آپ اپنی بات ان کے لیے کہیں۔ جب بات چھوٹوں تک پہنچے گی تو بڑوں تک خود بخود پہنچ جائےگی۔ میں اس کی باتوں کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی تحریر چھوٹا کام سے اقتباس)

  • خدمت کی کوئی قضا نہیں!

    خدمت کی کوئی قضا نہیں!

    لاہور میں جب میں نے ایک بابا سے کہا کہ میں صوفی بننا چاہتا ہوں تو انہوں نے پوچھا کس لئے؟

    میں نے کہا اس لئے کہ یہ مجھے پسند ہے۔ آپ نے کہا مشکل کام ہے سوچ لو۔ میں نے عرض کیا۔ اب مشکل نہیں رہا کیوں کہ اس کی پرائمری اور مڈل پاس کر چکا ہوں، پاسِ انفاسِ نفی اثبات کا ورد کر لیتا ہوں، اسمِ ذات کے محل کی بھی پریکٹس ہے، آگے کے راستے معلوم نہیں، وہ آپ سے پوچھنے آیا ہوں اور آپ کی گائیڈینس چاہتا ہوں۔

    بابا نے ہنس کر کہا تو پھر تم روحانی طاقت حاصل کرنا چاہتے ہو، صوفی بننا نہیں چاہتے۔

    میں نے کہا کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ کہنے لگے، روحانی طاقت حاصل کرنے کا مقصد صرف خرق عادات یعنی کرامات کا حصول ہے اور یہ طاقت چند مشقوں اور ریاضتوں سے پیدا ہو سکتی ہے، لیکن تصوف کا مقصد کچھ اور ہے!

    وہ کیا؟ میں نے پوچھا۔ تو بابا نے کہا تصوف کا مقصد خدمتِ خلق اور مخلوقِ خدا کی بہتری میں لگے رہنا ہے۔ مخلوق سے دور رہنا رہبانیت ہے، اور الله کی مخلوق میں الله کے لئے رہنا یہ پاکی ہے اور دین ہے۔ مجھے اس بابا کی یہ بات اچھی نہ لگی، بیچارہ پینڈو بابا تھا اور اس کا علم محدود تھا۔

    میں اٹھ کر آنے لگا تو کہنے لگا روٹی کھا کر جانا۔ میں نے کہا، جی کوئی بات نہیں، میں ساہیوال پہنچ کر کھا لوں گا۔

    کہنے لگا، خدمت سعادت ہے، ہمیں اس سے محروم نہ کرو۔ میں طوعاً و کرہاً بیٹھ گیا۔ بابا اندر سے رکابی اور پیالی لے آیا۔ پھر اس نے دیگچے سے شوربہ نکل کر پیالی میں ڈالا اور دال رکابی میں، چنگیر سے مجھے ایک روٹی نکال کر دی جسے میں ہاتھ میں پکڑ کر کھانے لگا۔ وہاں مکھیاں کافی تھیں۔ بار بار حملے کرتی تھیں۔

    بابا میرے سامنے بیٹھ کر مکھیاں اڑانے کے لئے کندوری ہلانے لگا اور میں روٹی کھاتا رہا۔

    اتنے میں مغرب کی اذان ہوئی۔ کونے میں اس کے مریدوں اور چیلوں نے تھوڑی سی جگہ لیپ پوت کر کے ایک مسجد سی بنا رکھی تھی۔ وہاں دس بارہ آدمیوں کی جماعت کھڑی ہو گئی۔

    مجھے یہ دیکھ کر بڑی ندامت ہوئی کہ میں روٹی کھا رہا ہوں اور پیر مکھیاں جھل رہا ہے۔ میں نے کہا بابا جی آپ نماز پڑھیں۔

    کہنے لگے، آپ کھائیں۔

    میں نے کہا، جی مجھے بڑی شرمندگی ہو رہی ہے آپ جا کر نماز پڑھیں۔

    مسکرا کر بولے، کوئی بات نہیں آپ کھانا کھائیں۔ تھوڑی دیر بعد میں نے پھر کہا جنابِ عالی، انہوں نے نیت بھی باندھ لی ہے، آپ نماز ادا کر لیں قضا ہو جائے گی۔

    بابا ہنس کر بولا، نماز کی قضا ہے بیٹا، خدمت کی کوئی قضا نہیں۔ آپ آرام سے روٹی کھائیں۔

    (اردو کے ممتاز افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد کے قلم سے)

  • عشق انسان کی ضرورت ہے!

    عشق انسان کی ضرورت ہے!

    محبّت کا جذبہ کسی ایک مخلوق یا شے سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس پوری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ انسانوں کی اس دنیا کی بات ہو تو بالخصوص ادیب اور شعرا نے عشق اور محبّت کو اپنی تخلیقات اور تحریروں کا خاص موضوع بنایا ہے۔

    قابل اجمیری کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا
    تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
    عشق انسان کی ضرورت ہے

    ممتاز ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد عشقِ مجازی اور عشقِ‌ حقیقی کو کچھ اس طرح سمجھاتے ہیں:

    اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ حقیقی ہے۔ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ عشقِ حقیقی ایک درخت ہے اور عشقِ مجازی اس کی شاخ ہے۔

    جب انسان کا عشق لاحاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے، چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے۔ تب، اس کی طلب، اس کی ترجیحات بدل جاتیں ہیں۔

    (کتاب زاویہ، باب: محبت کی حقیقت سے اقتباس)

  • امّاں سردار بیگم…

    امّاں سردار بیگم…

    امّاں جی کو باسی کھانے، پرانے ساگ، اترے ہوئے چاول اور ادھ کھائی روٹیاں بہت پسند تھیں۔ دراصل وہ رزق کی قدر دان تھیں۔ شاہی دستر خوان کی بھوکی نہیں‌ تھیں۔

    میری چھوٹی آپا کئی مرتبہ خوف زدہ ہو کر اونچی آواز میں‌ چیخا کرتیں:
    "اماں حلیم نہ کھاؤ، پھول گیا ہے۔ بلبلے اٹھ رہے ہیں‌۔”
    "یہ ٹکڑا پھینک دیں امّاں، سارا جلا ہوا ہے۔”
    "اس سالن کو مت کھائیں، کھٹی بُو آرہی ہے۔”
    "یہ امرود ہم نے پھینک دیے تھے، ان میں سے کیڑا نکلا تھا۔”
    "لقمہ زمین سے نہ اٹھائیں، اس سے جراثیم چمٹ گئے ہیں۔”
    "اس کٹورے میں نہ پییں، باہر بھجوایا تھا۔”

    لیکن امّاں چھوٹی آپا کی خوف ناک للکاروں کی پروا کیے بغیرمزے سے کھاتی جاتیں۔ چوں کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں‌ تھیں‌، اس لیے جراثیموں سے نہیں ڈرتی تھیں، صرف خدا سے ڈرتی تھیں۔

    از قلم : اشفاق احمد

  • ترقّی کا ابلیسی ناچ

    ترقّی کا ابلیسی ناچ

    جہاں تک تبدیلی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے اگر آپ غور کریں تو ایسی کوئی تبدیلی آئی ہی نہیں ہے یا آتی نہیں جیسی کہ آنی چاہیے۔

    اگر آپ تاریخ کے طالبِ علم ہیں بھی تو یقیناً آپ تاریخ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ آپ نے ضرور پڑھا ہو گا یا کسی داستان گو سے یہ کہانی سنی ہو گی کہ پرانے زمانے میں جب شکاری جنگل میں جاتے تھے اور شکار کرتے تھے، کسی ہرن، نیل گائے کا یا کسی خونخوار جانور کا تو وہ ڈھول تاشے بجاتے تھے اور اونچی اونچی گھنی فصلوں میں نیچے نیچے ہو کر چھپ کر اپنے ڈھول اور تاشے کا دائرہ تنگ کرتے جاتے تھے اور اس دائرے کے اندر شکار گھبرا کر، بے چین ہو کر، تنگ آ کر بھاگنے کی کوشش میں پکڑا جاتا تھا اور دبوچ لیا جاتا تھا۔

    ان کا یہ شکار کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ ہاتھی سے لے کر خرگوش تک اسی طرح سے شکار کیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ چلتا رہا اور وقت گزرتا رہا۔

    خواتین و حضرات، بڑی عجیب و غریب باتیں میرے سامنے آ جاتی ہیں اور میں پریشان بھی ہوتا ہوں لیکن شکر ہے کہ میں انہیں آپ کے ساتھ شیئر بھی کر سکتا ہوں۔ میرے ساتھ ایک واقعہ یہ ہوا کہ میں نے سنیما میں، ٹی وی پر اور باہر دیواروں پر کچھ اشتہار دیکھے، کچھ اشتہار متحرک تھے اور کچھ ساکن، کچھ بڑے بڑے اور کچھ چھوٹے چھوٹے تھے اور میں کھڑا ہو کر ان کو غور سے دیکھنے لگا کہ یہ پرانی شکار پکڑنے کی جو رسم ہے، وہ ابھی تک معدوم نہیں ہوئی ویسی کی ویسی ہی چل رہی ہے۔

    پہلے ڈھول تاشے بجا کر، شور مچا کر ’’رولا‘‘ ڈال کے شکاری اپنے شکار کو گھیرتے تھے اور پھر اس کو دبوچ لیتے تھے۔ اب جو اشتہار دینے والا ہے، وہ ڈھول تاشے بجا کے اپنے سلوگن، نعرے، دعوے بیان کر کے شکار کو گھیرتا ہے، شکار بِچارہ تو معصوم ہوتا ہے۔ اسے ضرورت نہیں ہے کہ میں یہ مخصوص صابن خریدوں یا پاؤڈر خریدوں۔ اسے تو اپنی ضرورت کی چیزیں چاہییں ہوتی ہیں لیکن چونکہ وہ شکار ہے اور پرانے زمانے سے یہ رسم چلی آ رہی ہے کہ اس کا گھیراؤ کس طرح سے کرنا ہے تو وہ بظاہر تو تبدیل ہو گئی ہے لیکن بہ باطن اس کا رخ اور اس کی سوچ ویسی کی ویسی ہے۔

    آپ نے دیکھا ہو گا، آپ خود روز شکار بنتے ہیں۔ میں بنتا ہوں اور ہم اس نرغے اور دائرے سے نکل نہیں ‌سکتے۔ پھر جب ہم شکار کی طرح پکڑے جاتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں تو پھر اپنے ہی گھر والوں سے پنجرے کے اندر آ جانے کے بعد لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے ہی عزیز و اقارب سے جھگڑا کرتے ہیں کہ تمہاری وجہ سے خرچہ زیادہ ہو رہا ہے۔ دوسرا کہتا ہے نہیں تمہاری وجہ سے یہ مسئلہ ہو رہا ہے۔ حالانکہ ہم تو شکاری کے شکار میں پھنسے ہوئے لوگ ہیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ترقیّ ہو گی اور وہ شکار کا پرانا طریقہ گزر چکا ہے تو میں سمجھتا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ کام ترقیّ کی طرف مائل نہیں ہوا ہے بلکہ ہم اسی نہج پر اور اسی ڈھب پر چلتے جا رہے ہیں۔

    (از اشفاق احمد)