Tag: اشفاق احمد

  • عشق انسان کی ضرورت ہے!

    عشق انسان کی ضرورت ہے!

    محبّت کا جذبہ کسی ایک مخلوق یا شے سے متعلق نہیں ہے بلکہ اس پوری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ انسانوں کی اس دنیا کی بات ہو تو بالخصوص ادیب اور شعرا نے عشق اور محبّت کو اپنی تخلیقات اور تحریروں کا خاص موضوع بنایا ہے۔

    قابل اجمیری کا یہ شعر آپ نے بھی سنا ہو گا
    تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
    عشق انسان کی ضرورت ہے

    ممتاز ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد عشقِ مجازی اور عشقِ‌ حقیقی کو کچھ اس طرح سمجھاتے ہیں:

    اپنی انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشقِ حقیقی ہے۔ اصل میں دونوں ایک ہیں۔ عشقِ حقیقی ایک درخت ہے اور عشقِ مجازی اس کی شاخ ہے۔

    جب انسان کا عشق لاحاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے، چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے۔ تب، اس کی طلب، اس کی ترجیحات بدل جاتیں ہیں۔

    (کتاب زاویہ، باب: محبت کی حقیقت سے اقتباس)

  • بابا جی نے محبوب کی کیا تعریف بیان کی؟

    بابا جی نے محبوب کی کیا تعریف بیان کی؟

    میری بیوی (بانو قدسیہ) اپنے بیٹے کو، جو سب سے بڑا بیٹا ہے، غالب پڑھا رہی تھی، وہ اسٹوڈنٹ تو سائنس کا تھا، بی ایس سی کا، اردو اس کا آپشنل مضمون تھا۔ وہ کچھ توجہ نہیں دے رہا تھا۔

    میں نیچے بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ ہماری ایک میانی سی ہے اس پر بیٹھ کر پڑھ رہے تھے تو میری بیوی نے آواز دے کر شکایت کی کہ دیکھو جی یہ شرارتیں کر رہا ہے، اور کھیل رہا ہے کاغذ کے ساتھ، اور توجہ نہیں دے رہا۔ میں اس کو پڑھا رہی ہوں۔ تو اس نے کہا، ابو اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ امی کا قصور ہے۔ پوچھ رہا ہوں امی محبوب کیا ہوتا ہے، اور یہ بتا نہیں سکتیں کہ محبوب کیا ہے۔ میں نے کہا، بیٹے میں بتاتا ہوں کہ محبوب وہ ہوتا ہے جس سے محبت کی جائے۔ کہنے لگا، یہ تو آپ نے ٹرانسلیشن کر دی۔ ہم تو سائنس کے اسٹوڈنٹ ہیں ہم اس کی Definition جاننا چاہتے ہیں کہ محبوب کیا ہوتا ہے۔ یہ امی نے بھی نہیں بتایا تھا۔ آپ ایک چھوڑ کر دو ادیب ہیں۔ دونوں ہی ناقص العقل ہیں کہ آپ سمجھا نہیں سکے۔

    میں نے کہا، یہ بات تو ٹھیک کہہ رہا ہے۔ یہ تو ہم نے اس کا ٹرانسلیشن کر دیا، لیکن محبوب کی Definition تو نہیں دے سکے اسے۔ بانو قدسیہ اور میرا بیٹا نیچے اتر آئے۔ میں نے کہا، چلو جی بابا جی کے پاس چلتے ہیں ڈیرے پر، وہاں سے پوچھتے ہیں یہ محبوب کیا ہوتا ہے۔ اس نے کہا، چھوڑیں آپ ہر بات میں بابا کو لے آتے ہیں۔ وہ بے چارے ان پڑھ آدمی ہیں۔ بکریاں وکریاں رکھی ہیں، گڈریا قسم کے، وہ کیا بتائیں گے۔ میں نے کہا نہیں مجھے جانے دیں پلیز۔

    بانوقدسیہ بھی ساتھ بیٹھ گئی۔ گاڑی لے کر ہم نکلے، وہاں پہنچے۔ انفنٹری روڈ پر۔ بابا جی ہانڈی وغیرہ پکانے میں مصروف تھے۔ دال پکا رہے تھے۔ ساتھ تنور تھا۔ روٹیاں لگوانے کے لیے لوگ بیٹھے ہوئے تھے، تو یہ میری بیوی اتری جلدی سے جیسے آپ پنجابی میں کہتی ہیں اگل واہنڈی پہلے ہی پہنچ کے اس نے جلدی سے اونچی آواز میں یہ کہا جو باہر مجھے سنائی دی۔ میں تالا لگا رہا تھا گاڑی کو۔ اس نے اونچی آواز میں کہا، باباجی محبوب کیا ہوتا ہے۔ تو بابا جی کی عادت تھی کہ وہ انگلی اُٹھا کر بات کرتے تھے۔ جب کوئی Definition دینی ہوتی تھی، کوٹ ایبل کوٹ ہوتی تھی تو ہمیشہ انگلی اٹھا کر بات کرتے تھے، اور انہوں نے ایک انگریزی کا لفظ، پتا نہیں کہاں سے سیکھا تھا، نوٹ (Note) تو ہم سمجھ جاتے تھے کہ اب اس کے بعد کوئی ضروری بات آرہی ہے۔

    انہوں نے ڈوئی چھوڑ دی جو پھیر رہے تھے۔ کہنے لگے نوٹ "محبوب وہ ہوتا ہے جس کا نا ٹھیک بھی ٹھیک نظر آئے۔ ” یہ Definition تھی۔ بچوں کی کافی چیزیں نا ٹھیک ہوتی ہیں، لیکن ماں اس سے محبت کرتی ہے۔ اس کی ہر چیز نا ٹھیک ہوتی ہے۔ وہ محبوب ہوتا ہے جس کے نا ٹھیک کا پتا ہوتا ہے، لیکن ٹھیک نظر آتا ہے۔

    (اشفاق احمد کی کتاب زاویہ سے اقتباس)

  • ترقّی کا ابلیسی ناچ

    ترقّی کا ابلیسی ناچ

    جہاں تک تبدیلی کا تعلق ہے تو اس حوالے سے اگر آپ غور کریں تو ایسی کوئی تبدیلی آئی ہی نہیں ہے یا آتی نہیں جیسی کہ آنی چاہیے۔

    اگر آپ تاریخ کے طالبِ علم ہیں بھی تو یقیناً آپ تاریخ کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ آپ نے ضرور پڑھا ہو گا یا کسی داستان گو سے یہ کہانی سنی ہو گی کہ پرانے زمانے میں جب شکاری جنگل میں جاتے تھے اور شکار کرتے تھے، کسی ہرن، نیل گائے کا یا کسی خونخوار جانور کا تو وہ ڈھول تاشے بجاتے تھے اور اونچی اونچی گھنی فصلوں میں نیچے نیچے ہو کر چھپ کر اپنے ڈھول اور تاشے کا دائرہ تنگ کرتے جاتے تھے اور اس دائرے کے اندر شکار گھبرا کر، بے چین ہو کر، تنگ آ کر بھاگنے کی کوشش میں پکڑا جاتا تھا اور دبوچ لیا جاتا تھا۔

    ان کا یہ شکار کرنے کا ایک طریقہ تھا۔ ہاتھی سے لے کر خرگوش تک اسی طرح سے شکار کیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ چلتا رہا اور وقت گزرتا رہا۔

    خواتین و حضرات، بڑی عجیب و غریب باتیں میرے سامنے آ جاتی ہیں اور میں پریشان بھی ہوتا ہوں لیکن شکر ہے کہ میں انہیں آپ کے ساتھ شیئر بھی کر سکتا ہوں۔ میرے ساتھ ایک واقعہ یہ ہوا کہ میں نے سنیما میں، ٹی وی پر اور باہر دیواروں پر کچھ اشتہار دیکھے، کچھ اشتہار متحرک تھے اور کچھ ساکن، کچھ بڑے بڑے اور کچھ چھوٹے چھوٹے تھے اور میں کھڑا ہو کر ان کو غور سے دیکھنے لگا کہ یہ پرانی شکار پکڑنے کی جو رسم ہے، وہ ابھی تک معدوم نہیں ہوئی ویسی کی ویسی ہی چل رہی ہے۔

    پہلے ڈھول تاشے بجا کر، شور مچا کر ’’رولا‘‘ ڈال کے شکاری اپنے شکار کو گھیرتے تھے اور پھر اس کو دبوچ لیتے تھے۔ اب جو اشتہار دینے والا ہے، وہ ڈھول تاشے بجا کے اپنے سلوگن، نعرے، دعوے بیان کر کے شکار کو گھیرتا ہے، شکار بِچارہ تو معصوم ہوتا ہے۔ اسے ضرورت نہیں ہے کہ میں یہ مخصوص صابن خریدوں یا پاؤڈر خریدوں۔ اسے تو اپنی ضرورت کی چیزیں چاہییں ہوتی ہیں لیکن چونکہ وہ شکار ہے اور پرانے زمانے سے یہ رسم چلی آ رہی ہے کہ اس کا گھیراؤ کس طرح سے کرنا ہے تو وہ بظاہر تو تبدیل ہو گئی ہے لیکن بہ باطن اس کا رخ اور اس کی سوچ ویسی کی ویسی ہے۔

    آپ نے دیکھا ہو گا، آپ خود روز شکار بنتے ہیں۔ میں بنتا ہوں اور ہم اس نرغے اور دائرے سے نکل نہیں ‌سکتے۔ پھر جب ہم شکار کی طرح پکڑے جاتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں تو پھر اپنے ہی گھر والوں سے پنجرے کے اندر آ جانے کے بعد لڑنا شروع کر دیتے ہیں اور اپنے ہی عزیز و اقارب سے جھگڑا کرتے ہیں کہ تمہاری وجہ سے خرچہ زیادہ ہو رہا ہے۔ دوسرا کہتا ہے نہیں تمہاری وجہ سے یہ مسئلہ ہو رہا ہے۔ حالانکہ ہم تو شکاری کے شکار میں پھنسے ہوئے لوگ ہیں۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ترقیّ ہو گی اور وہ شکار کا پرانا طریقہ گزر چکا ہے تو میں سمجھتا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ کام ترقیّ کی طرف مائل نہیں ہوا ہے بلکہ ہم اسی نہج پر اور اسی ڈھب پر چلتے جا رہے ہیں۔

    (از اشفاق احمد)

  • اردو کے چند مقبول سفر نامے

    اردو کے چند مقبول سفر نامے

    اردو زبان میں سفر نامہ کل کی طرح آج بھی قارئین میں مقبول ہے۔ سفر نامے میں کسی ملک یا شہر کی سیر کے دوران تاریخ و جغرافیے سے آگاہی کے ساتھ، اس کی معاشرت، لوگوں کا رہن سہن دیکھنے اور ان کی قدروں کو سمجھنے کی کوشش کے بعد سفر نامہ نگار اس میں اپنے احساسات اور مشاہدات کو شامل کرکے دل چسپ اور معلومات افزا انداز میں قارئین کے سامنے رکھتا ہے۔

    اردو میں اکثر سفر نامے مبالغہ آرائی اور رنگ آمیزی کی وجہ سے بھی بہت مقبول ہوئے ہیں۔ تاہم ایک اچھا اور معیاری سفر نامہ وہی ہوتا ہے جو حقائق اور واقعات میں صداقت پر مبنی ہو اور اس میں‌ قلم کار نے اپنے تاثرات کو نہایت خوبی سے داخل کیا ہو۔

    اردو میں آج سے کئی سال پہلے بعض بہت عمدہ سفر نامے لکھے گئے ہیں جنھوں نے اردو ادب کا دامن بھی وسیع کیا ہے۔

    اردو زبان میں ایک سفر نامہ یوسف خاں کمبل پوش کا عجائباتِ فرنگ ہے جو پہلی بار 1847ء میں شائع ہوا تھا۔ بعد کے برسوں میں سرسید احمد خان، محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی اور منشی محبوب عالم کے سفرنامے شایع ہوئے۔ یہاں ہم چند اہم ادیبوں اور اہلِ‌ قلم کے سفر ناموں کا تذکرہ کررہے ہیں۔

    خواجہ احمد عباس کا سفر نامہ مسافر کی ڈائری
    خواجہ احمد عباس اردو زبان و ادب کا ہی نہیں‌ صحافت اور فلم انڈسٹری کا بھی بڑا نام ہے جنھیں ان کے نظریات اور اشتراکیت سے ان کی گہری وابستگی کی بنیاد پر بھی خاص مقام حاصل ہے۔ ان کا یہ سفر نامہ ادبی رنگ ہی نہیں، ان کے نظریات اور صحافتی طرز کا بھی نمونہ ہے۔ اس میں انھوں نے بعض مقامات پر سرمایہ دارانہ نظام کی خرابیوں کا بھی ذکر کیا ہے، لیکن یہ ایک مختلف اور جدید انداز کا سفر نامہ ہے۔

    محمود نظامی کا نظر نامہ
    1958ء میں محمود نظامی کا سفر نامہ ’’نظر نامہ‘‘ کے نام سے شایع ہوا جسے جدید سفر نامہ کہا جاتا ہے وہ اردو ہی نہیں انگریزی ادب کا بھی عمدہ مذاق رکھتے تھے اور ان کے اس سفرنامے میں ان کا ادبی اسلوب بھی نظر آتا ہے۔ انھوں نے تاریخ کو نہایت خوب صورتی سے بیان کیا ہے اور قارئین کو ماضی کی جھلکیاں دکھائی ہیں۔

    بیگم اختر ریاض الدّین کا دھنک پر قدم
    1969ء میں دھنک پر قدم کی اشاعت سے پہلے سفر نامہ نگار نے ’سات سمندر پار‘ کے عنوان سے پہلا سفر نامہ لکھا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ دھنک پر قدم کو ان کے اسلوب کی وجہ سے بہت مقبولیت اور پذیرائی ملی۔

    ابنِ‌ انشا کا سفر نامہ دنیا گول ہے
    ابنِ انشا نے 1972ء میں‌ اپنے منفرد انداز میں قارئین کو جس سفر نامے سے محظوظ ہونے کا موقع دیا وہ ان کے طنز و مزاح کی وجہ سے بہت پسند کیا گیا۔ انھوں نے کئی سفر نامے لکھے۔ وہ شاعر، کالم نویس بھی تھے اور عمدہ نثر نگار بھی۔ انھیں طنز و مزاح نگاری میں‌ بہت شہرت ملی۔ دنیا گول ہے وہ سفر نامہ ہے جس میں انھوں‌ نے شگفتگی، بے ساختگی کے ساتھ روانی سے اپنے قارئین کو گرفت میں‌ لیا ہے۔

    اشفاق احمد کا سفر در سفر
    اشفاق احمد اردو کے معروف افسانہ نگار اور کہانی نویس تھے جنھوں نے حکایات اور سبق آموز واقعات کو نہایت خوب صورتی سے اپنے قلم اور لیکچرز میں بیان کیا ہے۔ انھوں‌ نے اپنے اس سفر نامے میں یہی انداز اپنایا ہے اور حالات و واقعات کے ساتھ بعض پراسرار اور دل چسپ کہانیاں پیش کی ہیں۔ ان کا یہ افسانہ 1981ء میں منظرِ عام پر آیا تھا۔

  • چھوٹے کاموں کی بڑی اہمیت

    چھوٹے کاموں کی بڑی اہمیت

    رزق کا بندوبست کسی نہ کسی طرح اللہ تعالی کرتا ہے، لیکن میری پسند کے رزق کا بندوبست نہیں کرتا۔

    میں چاہتا ہوں کہ میری پسند کے رزق کا انتظام ہونا چاہیے۔ ہم اللہ کے لاڈلے تو ہیں لیکن اتنے بھی نہیں جتنے خود کو سمجھتے ہیں۔

    ہمارے بابا جی کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی آدمی آپ سے سردیوں میں رضائی مانگے تو اس کے لیے رضائی کا بندوبست ضرور کریں، کیونکہ اسے ضرورت ہو گی۔ لیکن اگر وہ یہ شرط عائد کرے کہ مجھے فلاں قسم کی رضائی دو تو پھر اس کو باہر نکال دو، کیونکہ اس طرح اس کی ضرورت مختلف طرح کی ہو جائے گی۔

    وقت کا دباؤ بڑا شدید ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ برداشت کے ساتھ حالات ضرور بدل جائیں گے، بس ذرا سا اندر ہی اندر مسکرانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک راز ہے جو اسکولوں، یونیورسٹیو ں اور دیگر اداروں میں نہیں سکھایا جاتا۔ ایسی باتیں تو بس بابوں کے ڈیروں سے ملتی ہیں۔

    مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ اشفاق صاحب کوئی بابا بتائیں۔ میں نے ایک صاحب سے کہا کہ آپ کیا کریں گے؟ کہنے لگے، ان سے کوئی کام لیں گے۔ نمبر پوچھیں گے انعامی بانڈز کا۔ میں نے کہا انعامی بانڈز کا نمبر میں آپ کو بتا دیتا ہوں۔ بتاؤ کس کا چاہیے؟ کہنے لگے، چالیس ہزار کے بانڈ کا۔ میں نے کہا کہ 931416، کیونکہ تم کبھی کہیں سے اسے خرید نہیں سکو گے۔ کہاں سے اسے تلاش کرو گے؟ آپ کو انعامی بانڈ کا نمبر آپ کی مرضی کا تو نہیں ملے گا ناں!

    آپ بابوں کو بھی بس ایسے ہی سمجھتے ہیں، جیسے میری بہو کو آج کل ایک خانساماں کی ضرورت ہے۔ وہ اپنی ہر ایک سہیلی سے پوچھتی ہے کہ کسی اچھے سے بابے کا تمہیں پتا ہو تو مجھے بتاؤ۔ اسی طرح میرے سارے چاہنے والے مجھ سے کسی اچھے سے بابے کی بابت پوچھتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی خانساماں ہو۔

    ان بابوں کے پاس کچھ اور طرح کی دولت اور سامان ہوتا ہے، جو میں نے متجسّس ہو کر دیکھا، حالانکہ میں تو ولایت میں تھا اور پروفیسری کرتا تھا۔ میں نے یہاں آکر دیکھا کہ یہ بھی تو ایک علم ہے۔ یااللہ! یہ کیسا علم ہے، اسے کس طرح سے آگے چلایا جاتا ہے کہ یہ مشکل بہت ہے۔ مثال کے طور پر ان کا (بابوں) حکم ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے کام کرو، بڑے کام نہ کرو۔ چھوٹے کاموں کو مت بھولیں، ان کو ساتھ لے کر چلیں۔ چھوٹے کاموں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، لیکن ہم ان باتوں کو مانتے ہی نہیں کہ بھئی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چھوٹا کام بھی اہمیت کا حامل ہو۔

    (چھوٹا کام از اشفاق احمد)

  • قاسمی صاحب کی کھڑاویں

    قاسمی صاحب کی کھڑاویں

    شہر لاہور کی خوبیوں اور خوب صورتی میں اردو کے دو بڑے ادیبوں کے دو ڈیرے بھی شامل رہے ہیں۔ ایک داستان سرائے ماڈل ٹاؤن میں جناب اشفاق احمد کا گھر اور دوسرا کلب روڈ پر مجلسِ ترقّیِ ادب میں جناب احمد ندیم قاسمی کا دفتر۔

    اشفاق صاحب کے ہاں ان کی کتابوں، سوچ اور ذات سے محبت کرنے والوں کا اکٹھ ہوتا، ادبی، علمی اور روحانی مسائل پہ محفل جمتی اور آنے والے عقیدت اور محبّت کی سرشاری لے کر لوٹتے۔

    اس عہد کے بڑے ادیب اور شاعر وہاں جمنے والی محفلوں، کھانوں، مکالموں میں موجود ہوتے۔ اکثر ان کو ان کی گفتگو کے ترازو میں تولتے، ان کا ادبی کام اور قد کاٹھ کہیں پیچھے ڈال دیتے، کئی تو موقع دیکھ کر ان کے بعض خیالات کی بے وجہ تردید کرنے لگتے۔

    یہ ڈیرہ اردو سائنس بورڈ میں بھی برسوں رہا، جمعرات کا لنگر بھی اس کا حصہ ہوتا جو بانو آپا کی نگرانی میں تیار ہوتا۔ اس سوچ کے گھنے سایے میں جوان ہونے والے بہر حال اسے کسی ادارے کی شکل نہ دے سکے اور اشفاق احمد کی پہچان ادیب سے زیادہ زاویے والے بابا جی کی بن کے رہ گئی۔

    1974ء میں مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر بننے کے بعد احمد ندیم قاسمی کا ڈیرہ یوں آباد ہوا کہ 2006ء تک جب 10 جولائی کو وہ رخصت ہوئے اس ڈیرے کی رونق کم نہیں ہوئی۔ فنون کی ادارت لکھنے والوں کی مسلسل تربیت کی صورت ایک تنظیم میں ڈھلتی گئی۔

    آج 2013ء میں شاید کسی فرد کی شخصی محبت سے اوپر اٹھ کر جائزہ لینا اور انھیں یاد کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہوگیا ہے کہ ادبی آسمان پر چھائی بدلیوں میں احمد ندیم قاسمی کا عکس ہے، یا ان کے نام پر برسنے والی بدلیاں بہت ہیں۔ یہ خوش نصیبی سب کے ہاتھ میں نہیں آتی۔

    بچپن میں ہی والد کی وفات کے صدمے نے بقول ان کے ’’بوڑھا‘‘ کر دیا تھا۔ اس صدمے نے انھیں آنے والی زندگی میں پختگی اور ذمہ داری عطا کر دی۔ 70 سال کے طویل ادبی کیریئر میں کم سے کم تین نسلوں کے شعرا اور ادیبوں نے ان سے فیض پایا۔

    یہ ان کی کمال خوبی تھی کہ نئے لکھنے والوں کو ظرف اور کمال شفقت سے اپنا لیتے، ان کو خط لکھتے، ملنے کے لیے آتے تو خوش دلی سے وقت دیتے، باتیں کرتے، لطیفے سناتے، اصلاح کرتے۔

    وہ کبھی بھی مصلح نہیں تھے بلکہ ایک عمدہ شاعر اور افسانہ نگار کے طور پر ان کی پہچان مسلَّم ہے۔ اس سے پہلے ان کا تعارف ایک فکاہیہ کالم نگار کا تھا، ہم تک آتے آتے وہ شاعروں کے پیش امام اور بڑے افسانہ نگاروں کے سرخیل بن چکے تھے۔

    البتہ کالم نگاری نے ان کا بہت قیمتی اور تخلیقی وقت لے لیا۔ میں نے دو ادیبوں کا قابلِ رشک بڑھاپا دیکھا۔ ’’اشفاق صاحب کا اور احمد ندیم قاسمی کا۔‘‘ قاسمی صاحب کی بیٹھی بیٹھی گھمبیر آواز کی مٹھاس آخر تک قائم رہی۔

    پاکستان میں شاید ہی کسی بوڑھے آدمی کی اتنی محبت اور شان سے سالگرہ منائی جاتی رہی ہو، بے شک سالگرہ کی یہ سالانہ تقریب ایک طرح کی لاہور کی مستقل ادبی روایت کا روپ دھار گئی تھی۔

    نوجوان، بزرگ، نئے، پرانے، کافی پرانے، ادبی، غیر ادبی ہر طرح اور ہر سطح کے لوگ ان سالگرہوں میں آتے اور قاسمی صاحب بار بار اپنی سیٹ سے اٹھ کر مہمانوں سے گلدستے اور خوبصورت تحفے وصول کرتے، میز پھولوں سے’’لبالب‘‘ بھر جاتے تو منصورہ احمد کچھ گلدستے پرے کر دیتیں۔

    میں نے ان مواقع پر جناب اشفاق احمد، عطاءُ الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید، ڈاکٹر یونس جاوید سمیت آج کے ہر اہم اور مشہور شاعر اور ادیب کو وہاں شریک ہوتے اور اظہارِ خیال کرتے دیکھا۔

    جناب اشفاق احمد اور عطاءُ الحق قاسمی کی بعض گفتگوئیں جنھوں نے سماں باندھا مجھے آج بھی یاد ہیں۔ دل میں ممکن ہے سب کے ہو کہ کبھی ان کی بھی اسی طرح دھوم دھام سے سالگرہ منائی جائے مگر ایسے کام خواہشوں سے نہیں ان لوگوں کی محبت سے ہوتے ہیں جنھوں نے آپ سے فیض پایا ہو۔ آپ سے جُڑے رہے ہوں۔

    میرے ان سے تعارف اور تعلق میں کئی چھوٹی چھوٹی یادیں شامل ہیں۔ مارچ 1981ء ابوظہبی میں جشن قاسمی منایا گیا تو انہی دنوں بہاولپور میں صادق ایجرٹن کالج کے سو سال مکمل ہونے پر ہونے والے جشن کی کاغذی کارروائیاں زوروں پر تھیں۔

    مہمانوں کے بڑے بڑے ناموں میں احمد ندیم قاسمی صاحب کا نام بار بار آتا کہ وہ اس کالج کے گلِ سر سبد تھے۔ کالج کی اسٹوڈنٹس یونین میں ہونے کے باعث ایسی محفلوں میں شرکت کا موقع ملتا تو ان کو دیکھنے اور ملنے کا اشتیاق اور بھی گہرا ہوا۔

    اب اسے اتفاق ہی جانیے کہ لاہور آکر پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے کے دوران کوئی وقت ہی نہ بن پایا۔ فیروز سنز میں ایڈیٹر مطبوعات مقرر ہونے کے بعد لاہور اور بیرونِ لاہور ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ پھول کے علاوہ وہ تہذیبِ نسواں، ادبِ لطیف سویرا، امروز، نقوش اور فنون کے مدیر رہے۔

    یہاں حسنِ اتفاق سے مجھے ان کے نقوشِ پا پہ چلتے ہوئے دورِ نو کے پھول کی ادارت کا 13 سال اعزاز ملا۔ اب کے ان تفصیلی انٹرویو کا موقع ملا جو پھول کی زینت بنا، کئی دفعہ وہ نہ ملتے تو ڈاکٹر یونس جاوید بہت عمدہ میزبانی کرتے۔

    جناب انور سدید نے عربی کتاب ’’بہانے باز‘‘ کا دیباچہ لکھتے ہوئے جو جملے لکھے وہ جناب احمد ندیم قاسمی کے کام اور اس کی گہرائی کا بہت عمدہ اعتراف ہے، انھوں نے ’’لکھا جب جب اختر عباس کا ذکر آئے گا مجھے احمد ندیم قاسمی یاد آتے ہیں۔ قاسمی صاحب جب اختر عباس کی عمر کے تھے توہ وہ دارُالاشاعت لاہور سے مولوی ممتاز علی کی نگرانی میں رسالہ پھول نکالتے تھے جسے میری عمر کے بچّے اسکول کی لائبریری میں پڑھتے تھے۔

    بعد میں قاسمی صاحب بڑے ہوگئے جیسے ہر بچّہ بڑا ہوجاتا ہے مگر جس طرح انھوں نے صحافت سے ابتدا کی اور صحافت کے ساتھ عمر بھر کا سنجوگ قائم رکھا اسی طرح اختر عباس نے بھی ادب کا آغاز صحافت سے کیا ہے اور آہستہ آہستہ اسی سنجوگ کو پختہ اور مائل بہ ارتقا کر رہے ہیں۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ انھوں نے پاؤں اس ’کھڑاواں‘ میں ڈالے ہیں جو کبھی قاسمی صاحب نے پہنی تھی۔

    پھر انھوں نے ایک دل چسپ اور انوکھی بات لکھی’’توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس سفر میں مختلف فلیگ اسٹاپ‘‘ عبور کر کے مرکزِ ادب ہی نہیں، مرکزِ نگاہ بھی بن جائیں گے۔ اس وقت زندہ رہا تو اختر عباس کا ایک طویل خاکہ لکھوں گا اور اگر عقبیٰ کو چلا گیا تو وہاں سے کسی فرشتے کے ہاتھ اختر عباس کے پرچے میں اشاعت کے لیے بھجواؤں گا۔ مجھے خوشی ہے، پھول کے پہلے دور نے اردو ادب کو احمد ندیم قاسمی جیسا افسانہ نگار دیا اور دوسرے دور سے ایک اور بڑا کہانی نگار ابھر رہا ہے جس کی ابتدا میں مستقبل کی کام رانیاں نمایاں ہیں۔‘‘

    سچی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر انور سدید کی تحریر نے ایک بار تو حیران، پریشان بلکہ سوالیہ نشان ہی کردیا۔ جناب قاسمی کا ذکر ایک ایسے لیجنڈ کے طور پر کیا کہ جس کی کھڑاویں پہننا ہی نہیں چھُونا بھی اعزاز سے کم نہیں۔

    (صحافی اور ادیب اختر عبّاس کے قلم سے)

  • نام وَر ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی برسی

    نام وَر ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی برسی

    آج اشفاق احمد کا یومِ وفات ہے جو اردو اور پنجابی کے نام وَر ادیب، افسانہ و ڈرامہ نگار، دانش وَر اور مشہور براڈ کاسٹر تھے۔

    اردو ادب کے قارئین کا اشفاق احمد سے تعارف ان کے افسانوں کے ذریعے ہوا اور پھر انھوں نے مختلف اصنافِ‌ ادب میں طبع آزمائی کی۔ ان کا پہلا افسانہ ’توبہ‘ سنہ 1944ء میں ’ادبی دنیا‘ میں شایع ہوا۔ تقسیمِ ہند کے بعد جو نئے افسانہ نگار سامنے آئے، ان میں اشفاق احمد کو بہت پسند کیا گیا۔

    ’گڈریا‘ ان کا لازوال افسانہ تھا۔ اشفاق احمد نے جہاں ادب کے قارئین کو اپنی تخلیقات سے متاثر کیا، وہیں وہ ایک صوفی اور دانا کی حیثیت سے بھی مشہور ہوئے اور ان کی نصیحتوں اور حکایات نے انھیں ہر خاص و عام میں مقبول بنایا۔

    اشفاق احمد 22 اگست 1925ء کو ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈ کاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔

    وہ ’’داستان گو‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ نامی رسالوں کے مدیر رہے اور 1966ء سے 1992ء تک اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اردو کی نام وَر ادیبہ بانو قدسیہ ان کی شریکِ حیات تھیں۔

    ان کے افسانوی مجموعے ایک محبت سو افسانے، اجلے پھول، سفرِ مینا، پھلکاری کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ سفر نامے بھی لکھے۔ ان کی کہانیوں پر مبنی طویل دورانیے کے کھیل پی ٹی وی پر نشر ہوئے اور بہت پسند کیے گئے۔ اشفاق احمد نے عالمی ادب سے چند ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔

    ریڈیو کا مشہور ڈرامہ ’’تلقین شاہ‘‘ ان کا تحریر کردہ تھا جس میں اشفاق احمد نے صدا کاری بھی کی۔

    اشفاق احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے متعدد کام یاب ڈرامہ سیریلز تحریر کیے۔ 80ء کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی جو بہت مقبول ہوئی۔ اسی عرصے میں وہ تصوّف کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ ایک عرصے تک انھوں نے پی ٹی وی پر زاویہ کے نام سے پروگرام کیا جو دانائی اور حکمت کی باتوں پر مبنی تھا۔ یہ ایک مجلس ہوتی تھی جس میں وہ اپنے ساتھ موجود لوگوں کو نہایت پُرلطف اور اپنے مخصوص دھیمے انداز میں‌ قصّے کہانیاں اور حکایات سناتے اور ان کے سوالات کے جوابات دیتے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اشفاق احمد کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز عطا کیا تھا۔

    اشفاق احمد 2004ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے انھیں لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • انسان کی طلب اور اس کی ترجیحات کب بدلتی ہیں؟

    انسان کی طلب اور اس کی ترجیحات کب بدلتی ہیں؟

    انسانوں کا اپنے ہم جنسوں یا فطرت سے عشق اور محبّت کا اظہار فطری امر ہے۔ یہ ایک آفاقی جذبہ ہے جسے فنونِ‌ لطیفہ اور خاص طور پر ادب کا موضوع بنایا جاتا ہے۔

    اردو نثر اور شاعری میں عشق کو بہت اہمیت حاصل ہے اور ادبا و شعرا نے اسے اپنی تخلیقات میں دو طرح سے موضوع بنایا ہے، یعنی حقیقی اور مجازی عشق۔ یہاں ہم اردو کے نام وَر ادیب، افسانہ نگار اور ڈراما نویس اشفاق احمد کی مشہور کتاب ‘زاویہ’ کے باب محبّت کی حقیقت’ سے ایک اقتباس نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    "انا اور نفس کو ایک انسان کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق مجازی ہے اور اپنی انا اور نفس کو سب کے سامنے پامال کرنے کا نام عشق حقیقی ہے، اصل میں دونوں ایک ہیں۔

    عشقِ حقیقی ایک درخت ہے اور عشقِ مجازی اس کی شاخ ہے۔ جب انسان کا عشق لاحاصل رہتا ہے تو وہ دریا کو چھوڑ کر سمندر کا پیاسا بن جاتا ہے، چھوٹے راستے سے ہٹ کر بڑے مدار کا مسافر بن جاتا ہے۔ تب، اس کی طلب، اس کی ترجیحات بدل جاتیں ہیں۔

  • پگڑی اور بارات کا کھانا

    پگڑی اور بارات کا کھانا

    زندگی میں‌ ہمیں بہت سے لوگ ملتے ہیں، ان میں‌ سے کچھ ہمیں‌ اپنی کسی بات یا اپنے کسی طرزِ عمل سے حیرت میں‌ ڈال دیتے ہیں، ان کا کوئی بھی فعل یا حرکت ہمیں چونکا سکتی ہے، یا پھر ان کی کوئی بات ہمیں اپنی عادات اور رویّوں کا جائزہ لینے اور اپنے معمولات میں غور و فکر پر آمادہ کرلیتی ہے۔ یہاں ہم ایسے ہی دو واقعات آپ کی دل چسپی کے لیے نقل کررہے ہیں۔

    ایک مرتبہ ہم لاری پر جوہر آباد جا رہے تھے، میرے ساتھ لاری میں ایک اور معزّز آدمی پرانی وضع کے ریٹائرڈ تھے، گرمی بہت تھی، انھوں نے گود میں پگڑی رکھی ہوئی تھی۔ ہوا آ رہی تھی۔ ایک خاص علاقہ آیا تو انھوں نے پگڑی اٹھا کے سر پر رکھ لی اور ادب سے بیٹھ گئے۔

    میں متجسس آدمی تھا۔ میں نے کہا، جی! یہاں کسی بزرگ کا مزار ہے۔ کہنے لگے نہیں۔ میں نے کہا، جی کوئی درگاہ ہے یہاں۔ کہنے لگے نہیں۔ میں بولا، معاف کیجیے گا، میں نے دیکھا ہے کہ آپ نے پگڑی گود سے اٹھا کر سَر پر رکھ لی ہے اور باادب ہو کر بیٹھ گئے ہیں، کوئی وجہ ہو گی۔

    کہنے لگے! بات یہ ہے کہ میں اس علاقے کا واقف ہوں، یہاں ڈیزرٹ تھا، ریت تھی اور کچھ بھی نہیں تھا۔ حکومت نے سوچا کہ اس میں کوئی فصل اگائی جائے۔ لوگ آتے نہیں تھے۔ ایک آدمی آیا، اس نے آ کر جھونپڑا بنایا اور یہاں پانی کی تلاش میں ٹیوب ویل وغیرہ کی کوشش کی۔ وہ پہلا آدمی تھا جس نے یہاں سبزہ اگایا اور اس زمین کو ہریالی بخشی۔ پتا نہیں وہ آدمی کہاں ہوگا، میں نے اس کے احترام میں یہ پگڑی اٹھا کے رکھ لی۔

    دیکھیے، یہ ایسی چیزیں ہیں جو ہماری زندگی کے اوپر عجیب طرح سے اثرانداز ہوتی ہیں اور اگر آپ اپنی آنکھیں بالکل کھلی رکھیں اور کان بھی تو آپ کو اردگرد اتنی کہانیاں ملیں گی جن کے اوپر آپ نے اس سے پہلے توجہ نہیں دی ہو گی۔

    ہمارے استاد پروفیسر صوفی غلام مصطفٰی تبسّم صاحب کی ایک عادت تھی کہ جب کسی کی شادی ہوتی تھی تو بارات کو کھانا کھلانے کا بندوبست ان پر ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے، ہم بھاٹی دروازے بتیاں والی سرکار کے پیچھے ایک گھر تھا، وہاں چلے گئے۔ اب جو بارات تھی اس کے بارے میں خیال تھا کہ 80 کے قریب بندے ہوں گے، وہ 160 کے قریب آ گئے۔ اب صوفی صاحب کی آنکھیں، اگر آپ میں سے کسی کو یاد ہے، ماشاء اللہ بہت موٹی تھیں، گھبرا گئے، ان کے ماتھے پر پسینا، ناک پر بھی آ جاتا تھا، کہنے لگے اشفاق ہن کیہہ کریے؟

    میں نے کہا پتا نہیں، دیگوں میں پانی ڈال دیتے ہیں۔ پہلا موقع تھا، میں ففتھ ایئر کا اسٹوڈنٹ تھا، انھوں نے ایک زور دار تھپّڑ میرے منہ پر مارا۔ کہنے لگے، بے وقوف آدمی، اس میں پانی ڈال کے مرنا ہے، وہ تو فوراً ختم ہو جائے گا، اس میں گھی کا ایک اور پیپا ڈالنا ہے۔ گاڑھا ہو جائے گا تو کھایا نہیں جاتا۔

    اب آخر کیفیت یہ آ گئی کہ دیگیں ختم ہو گئیں اور ان کا چہرہ دیکھنے والا تھا۔ وہ کانپ رہے تھے، اگر کسی نے اندر سے کہہ دیا کہ اور بھیجیں، ان کے پاس دینے کے لیے صرف ایک رہ گئی تھی، لیکن وہ ڈرے ہوئے تھے۔ جب خوف زدہ تھے تو اندر سے آواز آئی بس۔ جب دوسرے بندے نے کہا، بس بس جی صوفی صاحب۔

    میں نے کہا، خدا کے واسطے ایسی ٹینشن کا کام آئندہ نہیں کرنا۔ کہنے لگے نہیں، بالکل نہیں، میری بھی توبہ۔ وہاں سے ہم چل پڑے، پیچھے ہم شاگرد، خود آگے آگے۔

    صوفی صاحب کوئی پندرہ بیس گز سے زیادہ گئے ہوں گے ایک مائی باہر نکلی۔ کہنے لگی لو غلام مصطفٰی میں تو تینوں لبھ دی پھرنی آں۔ تاریخ رکھ دتی اے، 13 بھادوں دی، کاکی دی۔ تو صوفی صاحب جو توبہ کر کے نکلے تھے، کہنے لگے کاغذ ہے، پنسل ہے؟ لکھ 13 سیر گوشت، ایک بوری چانول، صوفی صاحب لکھوا رہے ہیں تو میں نے کہا، جی یہ پھر ہو گا، کہنے لگے نہیں! یہ تو ان کی ضرورت ہے۔

    میں نے کہا آپ صرف کتاب کی تشریح وغیرہ پڑھایا کریں۔ تو یہ ان کا کام تھا۔ یہ جو عمل کی دنیا ہے، اس میں داخل ہونا ضروری ہے۔

    (مشہور ادیب اور ڈراما نویس اشفاق احمد کے بیان کردہ واقعات کی لڑی سے انتخاب)

  • اسٹیل تیّار کرنے والی دیہاتی عورتیں‌

    اسٹیل تیّار کرنے والی دیہاتی عورتیں‌

    دین میں ہر معاملے میں ڈسپلن سکھایا گیا ہے۔ ہمارے بابے کہتے ہیں کہ ڈسپلن چھوٹے کاموں سے شروع ہوتا ہے۔

    جب آپ معمولی کاموں کو اہمیت نہیں دیتے اور ایک لمبا منصوبہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں، اپنا ذاتی اور انفرادی، تو پھر آپ سے اگلا کام چلتا نہیں۔

    کافی عرصہ پہلے میں چین گیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب چین نیا نیا آزاد ہوا تھا۔ ہم سے وہ ایک سال بعد آزاد ہوا۔ ان سے ہماری محبتیں بڑھ رہی تھیں اور ہم ان سے ملنے چلے گئے، افریقہ اور پاکستان کے کچھ رائٹر چینی حکام سے ملے۔

    ایک گاؤں میں بہت دور پہاڑوں کی اوٹ میں کچھ عورتیں بھٹی میں دانے بھون رہی تھیں۔ دھواں نکل رہا تھا۔ میرے ساتھ شوکت صدیقی تھے۔ کہنے لگے، یہ عورتیں ہماری طرح سے ہی دانے بھون رہی ہیں۔

    جب ہم ان کے پاس پہنچے تو دو عورتیں دھڑا دھڑ پھوس، لکڑی جو کچھ ملتا تھا، بھٹی میں جھونک رہی تھیں۔ اپنے رومال باندھے کڑاہے میں کوئی لیکوڈ (مائع) سا تیار کر رہی تھیں۔ ہم نے اُن سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ہم اسٹیل بنا رہی ہیں۔ میں نے کہا کہ اسٹیل کی تو بہت بڑی فیکٹری ہوتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں اور چین ابھی آزاد ہوا ہے۔ ہمارے پاس کوئی اسٹیل مِل نہیں ہے۔ ہم نے اپنے طریقے کا اسٹیل بنانے کا ایک طریقہ اختیار کیا ہے کہ کس طرح سے سندور ڈال کر لوہے کو گرم کرنا ہے۔

    یہ عورتیں صبح اپنے کام پر لگ جاتیں اور شام تک محنت اور جان ماری کے ساتھ اسٹیل کا ایک ڈلا یعنی پانچ، چھے، سات آٹھ سیر اسٹیل تیار کر لیتیں۔ ٹرک والا آتا اور ان سے آکر لے جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس اسٹیل کے بدلے لے لیتے ہیں۔

    میں اب بھی کبھی جب اس بات کو سوچتا ہوں کہ سبحان اللہ، ان کی کیا ہمّت تھی۔ ان کو کس نے ایسے بتا دیا کہ یہ کام ہم کریں گی تو ملک کی کمی پوری ہوگی۔ چھوٹا کام بہت بڑا ہوتا ہے۔ اس کو چھوڑا نہیں جا سکتا، جو کوئی اسے انفرادی یا اجتماعی طور پر چھوڑ دیتا ہے، مشکل میں پڑ جاتا ہے۔

    (معروف ادیب اور ڈراما نویس اشفاق احمد کے مضمون "چھوٹا کام” سے اقتباس)