Tag: اشیائے خور و نوش

  • کرونا وائرس بحران میں سعودی عرب کی بہترین حکمت عملی

    کرونا وائرس بحران میں سعودی عرب کی بہترین حکمت عملی

    ریاض: سعودی عرب میں کرونا وائرس کے بحران کے دوران بہترین حکمت عملی سے اشیائے خور و نوش کی کوئی قلت نہیں پیدا ہوئی، حکام کے مطابق مملکت کے پاس 3.3 ملین ٹن سے زائد آٹا اور گندم محفوظ ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی وزیر ماحولیات، پانی و زراعت عبد الرحمٰن الفضلی نے کہا ہے کہ سعودی عرب کرونا کی وبا کے چیلنج پر پورا اترا ہے، جامع حکمت عملی کی بدولت وبا کے دوران اشیائے خور و نوش کا کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا۔

    وزیر ماحولیات کا کہنا ہے کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں گیہوں اور آٹے کے سب سے بڑے ذخیرے کا مالک ہے، مملکت کے پاس 3.3 ملین ٹن سے زائد آٹا اور گندم محفوظ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سعودی عرب خوراک کی حکمت عملی کی بدولت غذائی اشیا کی فراہمی کے سلسلے میں کامیاب رہا، کرونا وائرس بحران کے دوران دنیا بھر میں غذائی اشیا کی ترسیل متاثر ہوئی تھی جس سے بہت سارے ممالک میں کھانے پینے کی اشیا کا بحران پیدا ہوا، ہمارا ملک اس بحران سے محفوظ رہا۔

    وزیر ماحولیات کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے نجی ادارے کے تعاون سے غذائی اشیا کی فراہمی کی کامیاب حکمت عملی نافذ کی، تجارتی مراکز میں کھانے پینے کی اشیا وافر مقدار میں صارفین کو مہیا کی جاتی رہیں، یہ کامیابی 4 سالہ کاوشوں کا ثمر ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری وزارت 4 سال سے زائد عرصے سے کھانے پینے کی اشیا کا ذخیرہ بحرانی حالات سے نمٹنے کے لیے کر رہی تھی۔

    وزیر ماحولیات کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب زراعت کے سلسلے میں جدید ترین ٹیکنالوجی سے استفادہ کر رہا ہے، ہمارے یہاں 61.4 ارب ریال مالیت کی زرعی پیداوار ہو رہی ہے۔ یہ تیل کے علاوہ کل قومی پیداوار کے 4 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

  • سعودی عرب میں مہنگائی کی لہر، اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ

    سعودی عرب میں مہنگائی کی لہر، اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ

    ریاض: سعودی عرب میں مختلف وجوہات کی بنا پر کچھ اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا جارہا ہے، مرغی کے بعد چاول بھی مہنگے کردیے گئے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں چاولوں کے نرخ 10 سے 15 فیصد تک بڑھ گئے۔ ایک ٹن چاول اکتوبر 2019 میں 3 ہزار 372 یا ساڑھے 3 ہزار ریال میں دستیاب تھا، اب اس کی قیمت بڑھ کر 3 ہزار 747 تا 4 ہزار 122 ریال ہوگئی ہے۔

    مارکیٹ ماہرین کے مطابق چاول مہنگے ہونے کی بنیادی وجہ اکتوبر کے مقابلے میں جنوری 2020 کے دوران چاول کی رسد کم ہونا ہے۔ دوسری جانب چاول اضافی مقدار میں خریدنے کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

    چاول برآمد کرنے والی بھارتی کمپنیوں نے بھی فی ٹن 100 تا 150 ڈالر کا اضافہ کر دیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی مارکیٹ میں انڈین چھوٹی الائچی کی قیمت بھی 90 فیصد بڑھ گئی ہے۔ انڈین چھوٹی الائچی 90 ریال فی کلو میں فروخت ہو رہی تھی۔ اب اس کی قیمت 160 ریال ہوگئی ہے اور یہ سعودی مارکیٹ میں بہت کم دستیاب ہے۔

    خیال رہے کہ سعودی عرب میں مرغی کمپنیوں نے بھی پیر 20 جنوری سے مرغی کے گوشت کے نرخ 10 سے 12.5 فیصد تک بڑھا دیے ہیں۔

    مرغی کمپنیوں نے یہ اضافہ قومی چارہ فیکٹریوں کی جانب سے مصنوعات کی قیمتوں میں 20 سے 30 فیصد اضافے پر کیا ہے۔ حکومت نے یکم جنوری 2020 سے چارے پر سبسڈی ختم کردی ہے جس کے بعد چارہ تیار کرنے والی فیکٹریوں نے بھی اپنی قیمتوں میں اضافہ کردیا۔

  • رمضان سے قبل مہنگائی نے عوام کے ہوش اڑا دیے

    رمضان سے قبل مہنگائی نے عوام کے ہوش اڑا دیے

    کراچی: ماہ مقدس رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان پر جا پہنچی۔ کھجور سمیت مختلف اشیا کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ دیکھا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ماہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہر سال کی طرح اس سال بھی کھجور، پھلوں، سبزیوں اور اجناس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا۔ عام بازاروں کے ساتھ بچت بازاروں میں بھی گراں فروشی عروج پر ہے۔

    شہر کے مختلف بازاروں میں چینی 70 روپے کلو، بیسن 150 روپے کلو اور تیل 200 روپے لیٹر سے زائد قیمت پر فروخت ہورہا ہے۔ دکانداروں کے مطابق ڈالر کی قیمت بڑھنے سے خردنی تیل اور مصالحہ جات کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے کیونکہ خردنی تیل اور تمام گرم مصالحہ جات درآمد کیے جاتے ہیں۔

    روپے کی بے قدری کے اثرات کھجور کی قیمتوں پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ ایرانی کھجوریں دگنے داموں فروخت ہورہی ہیں۔ کھجور مرچنٹس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری حنیف بلوچ کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں ایرانی کھجور کی قیمت میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ جو کھجور 6 ہزار روپے من تھی اس سال 12 ہزار سے 14 ہزار روپے من فروخت ہورہی ہے۔ خوردہ سطح پر بھی کھجور کی قیمتوں میں اضافے کا رجحان ہے۔

    حنیف بلوچ نے بتایا کہ گزشتہ سال 200 روپے کلو فروخت ہونے والی مضافتی کھجور 350 سے 400 روپے فی کلو میں فروخت ہورہی ہے، ایرانی زاہدی اور
    بصرہ کی کھجوریں جو گزشتہ سال 150 روپے کلو فروخت ہوئیں اس سال 250 روپے کلو فروخت ہو رہی ہیں۔

    اسی طرح مقامی کھجور اصیل کی قیمت بھی گزشتہ سال 140 سے 160 روپے کلو تھی جو اس سال 200 سے 220 روپے کلو فروخت ہورہی ہے۔

    دوسری جانب پھلوں کی قیمت میں بھی رمضان سے قبل ہی اضافہ ہوگیا ہے، 40 روپے کلو فروخت ہونے والا خربوزہ 60 سے 70 روپے کلو فروخت ہورہا ہے، کیلے 80 سے 100 روپے درجن فروخت ہو رہے ہیں، تربوز 40 روپے کلو، گرما 100 روپے کلو، پاکستانی سیب 150 سے 180 روپے کلو، چیکو 100 روپے کلو اور آڑو 200 روپے کلو فروخت کیا جارہا ہے۔

    سبزیوں کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ بھنڈی 160روپے کلو، ٹنڈے 120 روپے کلو، لوکی 80 روپے کلو، توری 100 روپے کلو، پالک 40 روپے کلو، ٹماٹر 50 سے 60 روپے کلو، ادرک لہسن 200 سے 220 روپے کلو، لیموں 300روپے کلو، پیاز 60 روپے کلو، کھیرا 60 روپے کلو، ککڑی 80 روپے کلو اور سلاد کا پتہ 40 روپے پاؤ فروخت کیا جارہا ہے۔

    کراچی ریٹیل اینڈ گروسرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری فرید قریشی کے مطابق شہری انتظامیہ نے کریانہ آئٹمز کی پرائس لسٹ جاری نہیں کی جس کی وجہ سے گاہکوں کے ساتھ کریانہ دکان داروں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

    کریانہ آئٹمز پر مشتمل نرخ نامہ 2008 سے جاری کیا جارہا تھا اور دکاندار یہ نرخ نامہ دکانوں پر نمایاں آویزاں کرنے کے پابند تھے تاہم اب شہری انتظامیہ نے موبائل ایپلی کیشن کے ذریعے پرائس لسٹ جاری کرنا شروع کردی ہے۔ ہر دکاندار اور گاہک کے پاس اسمارٹ فون نہیں ہے جس کی وجہ سے نرخ پر عمل درآمد میں دشواری کا سامنا ہے۔

    مرغی کا گوشت بھی 300 روپے کلو سے زائد قیمت پر فروخت ہو رہا ہے جس میں رمضان کے دوران مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

    شہریوں کا کہنا ہے کہ تھوک سطح پر قیمتوں پر کنٹرول نہ ہونے اور سرکاری نرخوں پر عمل درآمد نہ ہونے کا سبب انتظامیہ کی کوتاہی ہے۔