Tag: اصغر گونڈوی

  • اردو کے ممتاز شاعر اصغر گونڈوی کا یومِ وفات

    اردو کے ممتاز شاعر اصغر گونڈوی کا یومِ وفات

    آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
    جو غم ہوا اُسے غمِ جاناں بنا دیا

    اصغر گونڈوی نے کلاسیکی دور سے جدید عہد تک اپنی شاعری کو رنگِ تغزّل اور تصوّف سے یوں‌ بہم کیا کہ یہی ان کی انفرادیت اور وجہِ شہرت ٹھہرا۔ 30 نومبر 1936ء کو اصغر گونڈوی وفات پاگئے تھے۔ ان کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
    ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے

    چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
    اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

    اصغر گونڈوی اردو کے اُن شعرا میں سے ایک ہیں جنھوں نے حُسن و عشق، لالہ و گُل، نسرین و نسترن، ہجر و وصال، آہ و زاری، داد و فریاد، جفا اور وفا جیسے خالص عشقیہ موضوعات کو بھی اس ڈھب سے برتا اور اپنے اشعار سے ایک مسرت افزا، نشاط انگیز فضا پیدا کی جس نے یاسیت اور آزردہ دلی کا زور گھٹایا۔

    ان کا کلام عصری شعور اور وارداتِ قلبی کا وہ امتزاج ہے جس میں صوفیانہ رنگ جھلکتا ہے اور ان کا دل کش پیرایۂ اظہار اور مسرت افزا بیان سبھی کو بھایا۔

    اصغر گونڈوی نے 1884ء میں گورکھ پور میں آنکھ کھولی۔ یہ ان کا آبائی وطن تھا، لیکن روزگار کے سلسلے میں‌ والد کے ساتھ گونڈہ منتقل ہوگئے تھے جہاں مستقل قیام رہا اور وہ اصغر گونڈوی مشہور ہوئے۔ ان کا اصل نام اصغر حسین تھا۔

    ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی اور باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ انھیں شروع ہی سے علم و ادب کے مطالعے کا شوق تھا اور اپنی اسی دل چسپی کے سبب شعر گوئی کی طرف متوجہ ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ابتدا میں انھوں نے منشی جلیل اللہ وجد بلگرامی اور منشی امیرُ اللہ تسلیم سے اصلاح لی تھی۔ اصغر گونڈوی ایک رسالے “ہندوستانی” کی ادارت بھی کرتے رہے۔

    اصغر گونڈوی کا کلام شستہ اور پاکیزہ خیالات کا مجموعہ ہے، جس مین فنی نزاکتوں کے ساتھ رومان پرور جذبات اور اخلاقی مضامین پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہے۔

    یہاں کوتاہیٔ ذوقِ عمل ہے خود گرفتاری
    جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیّاد ہوتا ہے

  • غزل گو شاعر اصغر گونڈوی کا یومِ وفات

    غزل گو شاعر اصغر گونڈوی کا یومِ وفات

    اردو غزل گو شعرا میں اصغر گونڈوی کو ان کے رنگِ تغزل اور تصوف کی انفرادیت کی وجہ سے خاص طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ آج اردو زبان کے اس شاعر کا یومِ وفات ہے۔ اصغر گونڈوی 30 نومبر 1936ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    انھوں نے 1884ء میں گورکھ پور میں آنکھ کھولی اور یہی ان کا آبائی وطن تھا، تاہم روزگار کے سلسلے میں‌ جب والد کے ساتھ ان کا خاندان گونڈہ منتقل ہوا تو وہاں مستقل قیام کے سبب علاقے کی نسبت سے گونڈوی کہلائے۔ ان کا اصل نام اصغر حسین تھا۔

    اصغر گونڈوی کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی اور انھو‌ں نے باقاعدہ اور رسمی تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ وہ شروع ہی سے علم و ادب اور مطالعے کے رسیا تھے اور اسی دل چسپی کے سبب علمی استعداد اور شعر و سخن میں بھی کمال حاصل کیا۔ مشہور ہے کہ وہ منشی جلیل اللہ وجد بلگرامی اور منشی امیراللہ تسلیم سے اصلاح لیتے رہے اور بعد میں اس کی ضرورت نہ رہی۔ وہ ایک ایک رسالے "ہندوستانی” کے مدیر بھی رہے۔

    اصغر گونڈوی کا کلام شستہ اور پاکیزہ خیالات کا مجموعہ ہے جس میں‌ فنی نزاکتوں کے ساتھ رومان پرور جذبات اور اخلاقی مضامین بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔

    چند اشعار دیکھیے:

    آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
    جو غم ملا اسے غمِ جاناں بنا دیا

    زاہد نے مرا حاصل ایماں نہیں دیکھا
    رخ پر تری زلفوں کو پریشاں نہیں دیکھا

    اصغر گونڈوی کے یہ دو اشعار بہت مشہور ہیں:

    یہاں کوتاہیِ ذوقِ عمل ہے خود گرفتاری
    جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے

    چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
    اگر آسانیاں ہوں، زندگی دشوار ہوجائے

  • یہ اصل زندگی ہے….

    یہ اصل زندگی ہے….

    اصغر گونڈوی کا اصل نام اصغر حسین ہے۔ ان کا شمار کلاسیکی دور کے شعرا میں کیا جاتا ہے۔ 1884 میں متحدہ ہندوستان کے ضلع گورکھ پور میں‌ پیدا ہوئے، لیکن ان کا خاندان گونڈہ منتقل ہو گیا تھا جہاں ان کے والد بسلسلہ ملازمت قیام پذیر تھے۔

    اصغر گونڈوی کی ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہی ہوئی۔ علم و ادب اور مطالعے کے شوق نے شعر کہنے کی طرف مائل کیا۔ منشی جلیل اللہ وجد اور منشی امیر اللہ تسلیم سے اصلاح لیتے رہے۔

    اصغر گونڈوی کو سادہ طبیعت اور پاکیزہ خیالات کا مالک کہا جاتا ہے۔ ان کے کلام میں حسن و عشق کے مضامین کے علاوہ فلسفہ اور تصوف کے موضوعات پر اشعار ملتے ہیں۔ وہ 1936 میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    اصغر گونڈوی کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    جانِ نشاط حسن کی دنیا کہیں جسے
    جنت ہے ایک خونِ تمنا کہیں جسے

    اس جلوہِ گاہِ حسن میں چھایا ہے ہر طرف
    ایسا حجاب، چشمِ تماشا کہیں جسے

    یہ اصل زندگی ہے، یہ جانِ حیات ہے
    حسنِ مذاق شورشِ سودا کہیں جسے

    اکثر رہا ہے حسنِ حقیقت بھی سامنے
    اک مستقل سراب، تمنا کہیں جسے

    اب تک تمام فکر و نظر پر محیط ہے
    شکلِ صفات معنیِ اشیا کہیں جسے

    زندانیوں کو آ کے نہ چھیڑا کرے بہت
    جانِ بہارِ نکہتِ رسوا کہیں جسے

    سرمستیوں میں شیشۂ مے لے کے ہاتھ میں
    اتنا اچھال دیں کہ ثریا کہیں جسے

    شاید مرے سوا کوئی اس کو سمجھ سکے
    وہ ربطِ خاص، رنجشِ بے جا کہیں جسے

    میری نگاہِ شوق پہ اب تک ہے منعکس
    حسنِ خیال، شاہدِ زیبا کہیں جسے

    دل جلوہ گاہِ حسن بنا فیض عشق سے
    وہ داغ ہے کہ شاہدِ رعنا کہیں جسے

    اصغرؔ نہ کھولنا کسی حکمت مآب پر
    رازِ حیات، ساغر و مینا کہیں جسے