Tag: اطہر شاہ خان

  • "مجھے کوئی پہچانتا ہی نہیں!”

    "مجھے کوئی پہچانتا ہی نہیں!”

    ایک زمانہ تھا جب اطہر شاہ خان المعروف جیدی کو بہت کم لوگ پہچان پاتے تھے۔ اس کی معقول وجہ تھی۔ اُس وقت تک وہ صرف ایک اسکرپٹ رائٹر تھے اور اداکاری شروع نہیں کی تھی۔ اسی دور کا ایک دل چسپ قصّہ پڑھیے جو جیدی کی یاد تازہ کردے گا۔

    قصّہ کچھ یوں‌ ہے: لاہور میں پاکستان ٹیلی ویژن سینٹر پر ڈرامہ ‘مسٹر یس، نو اینڈ واٹ’ کی ریکارڈنگ ہورہی تھی۔ قوی خان کا کردار مرکزی تھا اور یہ اطہر شاہ کا تحریر کردہ کھیل تھا۔ اس زمانے میں قوی خان اپنی ویسپا اسکوٹر پر روزانہ جیدی کو ان کے گھر سے پی ٹی وی لاتے اور واپس بھی چھوڑتے تھے۔

    ایک روز سڑک پر کہیں قوی خان کی ویسپا خراب ہوگئی اور انھیں دیکھ کر لوگ جمع ہوگئے۔ یہ سب ان کے مداح تھے اور قوی خان کی مدد کرنے کے ساتھ ان کی بڑی تعریف کرنے لگے۔ اس دوران اطہر شاہ جو اس وقت تک جیدی نہیں بنے تھے، ایک کونے میں کھڑے رہے اور کسی نے ان کی جانب توجہ نہ دی۔ یہ دیکھ کر قوی خان نے مجمع سے ان کا تعارف کروایا اور بتایا کہ یہ انہی کی تحریر ہے جس میں وہ کردار ادا کررہے ہیں، لیکن مجمع نے اس پر بھی اسکرپٹ رائٹر کو اہمیت نہ دی۔

    اطہر شاہ کے کالج کے دوست اقبال لطیف ان دنوں پی ٹی وی کے لاہور سینٹر میں پروڈیوسر تھے۔ وہ بتاتے ہیں اطہر شاہ ان کے پاس آئے اور مذکورہ واقعہ سنانے کے بعد کہا کہ ‘ڈرامہ میں نے تحریر کیا اور واہ واہ ایکٹر کی ہو رہی ہے، مجھے کوئی پہچانتا ہی نہیں۔ اب میں بھی ایکٹنگ کروں گا۔’

    اسی واقعے کے بعد اطہر شاہ خان کا مقبول ترین ڈرامہ ‘انتظار فرمائیے’ نشر ہوا اور وہ بطور جیدی اس میں اداکاری کرتے ہوئے نظر آئے۔

    جیدی کو بطور شاعر بہت شہرت اور پذیرائی ملی، ان کا یہ مزاحیہ قطعہ پڑھیے

    شاعروں نے رات بھر بستی میں واویلا کیا
    داد کے ہنگامہ سے پورا محلہ ڈر گیا
    اک ضعیفہ اپنے بیٹے سے یہ بولی اگلے روز
    رات کیسا شور تھا کیا کوئی شاعر مر گیا

    اطہر شاہ خان جیدی طنز و مزاح کی دنیا میں نہ صرف ممتاز ہوئے بلکہ ہر دل میں جگہ پائی۔2002 میں 10 مئی کو جیدی نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔

  • بلیک ہول، سائنس اور ہم

    بلیک ہول، سائنس اور ہم

    سائنس سے ہمارا تعلق اتنا ہی افسوس ناک رہا ہے جتنا ہمارے ملک کے اکثر سیاست دانوں کا ملک کی معاشی پیچیدگیوں اور بنیادی مسائل سے۔ ان بے چاروں کو یہ معلوم نہیں کہ وطن کا بنیادی مسئلہ کیا ہے اور ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ” کوانٹم تھیوری “ کس علاقے کی چڑیا کا نام ہے؟

    سائنس سے ہماری یہ دشمنی عمرِ عزیز کے ایک طویل عرصے پر محیط ہے، میٹرک میں ہمیں زبردستی سائنس پڑھنا پڑی تھی اور کیمسٹری مسلسل تین دن پڑھ لینے کے بعد ہمیں سخت بخار آ جایا کرتا تھا۔ طبیعیات سے ہماری طبیعت ویسے ہی نالاں رہتی تھی، پھر وہ وقت بھی آیا جب سالانہ امتحانات ہونے والے تھے اور ہمارے وہ قارئین جو میٹرک کرنے کے جاں گسل لمحات سے گزر چکے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امتحانات کے دنوں میں ”گیس پیپرز“ کا سیلاب سا آجایا کرتا ہے۔ کچھ راز ہائے سربستہ سینہ بہ سینہ بھی چلتے ہیں اور اکثر لڑکے قسم کھا کر بتاتے ہیں کہ پرچے میں آنے والے کچھ سوالات انہیں نہایت باوثوق ذرائع سے معلوم ہوگئے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی ایک طالب علم نے سخت رازدارنہ انداز میں ایک معتبر ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس بار کیمسٹری کے پرچے میں ”نائیٹروجن“ کے بارے میں سوال لازمی طور پر ہوگا۔ چونکہ یہ راز ہمیں پرچہ ہونے سے صرف ایک دن پہلے بتایا گیا تھا اس لئے ہم نے آکسیجن، ہائیڈروجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ وغیرہ کو ایک طرف رکھا اور نائیٹروجن کا ” رَٹّا “ لگانا شروع کردیا!

    اس مسلسل محنت سے ہم چند ہی گھنٹوں میں خود کو نائیٹروجن کا شمسُ العلماء کہلانے کے مستحق ہو گئے تھے… صبح کو ہم نہایت ہشاش بشاش اٹھے، کتاب کھول کر ایک بار پھر نائیٹروجن پر نظر ڈالی اور اپنے حافظے کو داد دیتے ہوئے امتحان گاہ کی طرف روانہ ہو گئے، وہاں حالت یہ تھی کہ ہم بلاوجہ گنگنا رہے تھے بلکہ جب امتحانی پرچہ ہمیں دیا گیا تو ہم نے قہقہہ تک لگا دیا، پھر وہ قیامت خیز لمحہ آیا جب ہم نے پرچے پر نظر ڈالی اور اچانک نظروں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ یوں لگا جیسے یہ کائنات آکسیجن کی طرح بالکل بے بُو، بے رنگ اور بے ذائقہ ہو چکی ہے۔ پرچے میں نائیٹروجن کا ذکر بالکل نہیں تھا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خواص بیان کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ ہمارے پاؤں لرزنے لگے، ذہن چکرانے لگا، دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ آنکھوں میں پھرنے لگا اور اپنے قریب کھڑے نگرانی کرنے والے شخص کی صورت ہمیں بالکل ملکُ الموت جیسی نظر آنے لگی مگر کرتے تو کیا کرتے کہ نائیٹروجن کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا اور کاربن ڈائی آکسائیڈ ہمیں یوں لگ رہی تھی جیسے ہم ناشتے میں چائے کے ساتھ کوئی دستی بم نگل کر آئے ہوں، مجال ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کبھی ہماری ذرا سی بھی واقفیت یا سلام دعا رہی ہو… ہم نے نائیٹروجن کے بارے میں زیرِ لب کچھ ایسے الفاظ کہے جن سے اس شریف گیس کی توہین کا نہایت غیر اخلاقی پہلو نکلتا تھا، پھر قلم سنبھالا اور دوسرے سوالات حل کرنے کے لئے بساط بھر کوشش شروع کردی مگر کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بچنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ سوال لازمی تھا، چنانچہ آخر میں ہم نے اس لڑکے کو چند نہایت دل گداز اور عبرت انگیز کوسنے دیے جس نے ہمیں نائیٹروجن کے بارے میں بتایا تھا۔ لگے ہاتھوں ایسا مشکل پرچہ ترتیب دینے والے کے لئے بھی کچھ جدید کوسنے ایجاد کئے اور قلم سنبھال کر پرچے کو ایک بار پھر دیکھا کہ سہو نظر نہ ہوا ہو مگر وہاں نائیٹروجن کی جگہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہی لکھا تھا لہٰذا ہم نے نہایت خوش خط انداز میں امتحانی کاپی پر لکھا ” کاربن ڈائی آکسائیڈ “ اور اس کے نیچے وہ سب کچھ لکھ دیا جو نائیٹروجن کے بارے میں یاد کیا تھا۔ ہمارا اشہبِ قلم تیزی سے دوڑ رہا تھا اور ہم نے نائیٹروجن کے خواص کے علاوہ اس کے عادات و خصائل تک کے بارے میں ایک وسیع و عریض مقالہ تحریر کر ڈالا!

    اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میٹرک کے سالانہ امتحان کا نتیجہ آنے پر ہم نہایت امتیازی نمبروں سے فیل ہوئے ہوں گے… جی نہیں! ہم پاس ہوگئے تھے اور وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں، یعنی جسے اللہ رکھے اسے کون ممتحن چکھے!! پاس ہونے کی خبر پاتے ہی ہم نے شکرانے کے نفل پڑھے اور آخر میں کیمسٹری کے پرچے کے نابینا ممتحن کی درازیٴ عمر کے لئے رقت انگیز انداز میں دعا مانگی کہ اس کے درجات بلند ہوں، وہ ہیڈ ماسٹر بنے، رزق کشادہ ہو، بال بچے روز افزوں ترقی کریں اور آخر میں شدت جذبات سے یہ تک کہہ بیٹھے کہ اللہ اس کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے!

    اب اتنے برسوں کے بعد پھر ایک سائنسی مسئلہ ہمارے سامنے ہے جسے حل کرنا یا سمجھنا ہمارے لئے اتنا ہی مشکل ہے جتنا وزیر توانائی و بجلی کے لئے یہ سمجھنا کہ جب ملک میں بارہ چودہ گھنٹے روز تک کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے تو بجلی کی قیمتوں میں ایسے ہوش ربا اضافے کا جواز کیا ہے۔ اخباری خبر مختصر طور پر کچھ یوں ہے کہ ” آج دنیا میں طبعیات کا سب سے طاقتور تجربہ کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد کائنات میں Big bang کے چند لمحوں کے بعد حالات کو ایک مرتبہ پھر تخلیق کرنا ہے۔ نیو کلیائی ریسرچ کے یورپی ادارے کے زیرِ اہتمام ہونے والے اس تجربے کے دوران انجینئرز اور سائنسدان ایٹم کے مثبت چارج والے ” ذرات “ ” پروٹانز “ کو ستائیس کلومیٹر طویل زیر زمین سرنگ نما مشین سے گزاریں گے اور دو مخالف سمت سے آنے والی پروٹانز کی شعاعوں کو تقریباً روشنی کی رفتار سے 10 کھرب ڈگری سینٹی گریڈ پر آپس میں ٹکرادیا جائے گا۔ مادے کے باریک ذرات کو حرکت دینے والی مشین انسانی تاریخ کی سب سے بڑی مشین ہے، بیس برس کی تیاریوں کے بعد 10 ارب ڈالر لاگت سے تیار ہونے والی 27 کلومیٹر سرنگ نما اس مشین میں پروٹان کی شعاعوں کو دہشت ناک طاقت سے آپس میں ٹکرایا جائے گا جس سے نئی طبعیات میں ” بگ بینگ “ جیسی کیفیت پیدا کی جا سکے، کئی ایسے سائنسدان بھی ہیں جو کائنات کی تخلیق کے آغاز کے لئے بگ بینگ جیسے کسی مفروضے کو نہیں مانتے اور ہم تو بحیثیت مسلمان کسی بھی بگ بینگ پر یقین نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس کائنات کی تخلیق کسی بھی بگ بینگ نے نہیں خداوند کریم نے لفظ ” کُن “ کہہ کر کی تھی اور کُن فیکون پر ہمارا پختہ ایمان ہے مگر وہ دوسرے سائنسدان بھی جو بگ بینگ تھیوری پر یقین نہیں رکھتے آخر اس منصوبے پر 10 ارب ڈالر خرچ کر دینے والے ان فضول خرچ سائنس دانوں سے یہ احتجاج کیوں نہیں کرتے کہ بھوک اور افلاس کی ماری ہوئی اس دنیا میں اتنی بڑی رقم خوراک اور صاف پانی جیسے وسائل کی فراہمی پر خرچ کی جاتی تو کتنے پسماندہ ممالک اور ان کے کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔

    سائنس دانوں کے ایک گروپ کی جانب سے یہ خدشہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ اس بڑے لرزہ خیز دھماکے کے نتیجے میں زمین پر ایک بڑا بلیک ہول بھی پیدا ہو سکتا ہے اور بلیک ہول کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ بڑی سے بڑی اشیاء کو نگل لیتا ہے۔ اگر ایسا کوئی بلیک ہول پیدا ہو تو ہماری خوش گوار خواہش ہے کہ اس کا پہلا نوالا یہ خطرناک تجربہ کرنے والے ہزاروں سائنس دان ہی بنیں، اگر دو چار آدمی کم پڑ جائیں تو ہم اپنے ملک کے چند بے مصرف موقع شناس سیاست داں بھجوانے پر تیار ہیں۔

    (از قلم: اطہر شاہ خان جیدیؔ)

  • کیا کوئی شاعر مَر گیا…!

    کیا کوئی شاعر مَر گیا…!

    شاعروں نے رات بھر بستی میں واویلا کیا
    داد کے ہنگامہ سے پورا محلہ ڈر گیا
    اک ضعیفہ اپنے بیٹے سے یہ بولی اگلے روز
    رات کیسا شور تھا کیا کوئی شاعر مر گیا

    یہ مزاحیہ قطعہ اطہر شاہ خان جیدی کا ہے جو شاعر ہی نہیں‌ ایک اسکرپٹ رائٹر، ہدایت کار اور اداکار بھی تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2020ء میں ہمیشہ کے لیے دنیا سے چلے گئے تھے۔

    اطہر شاہ خان کی پیدائش رام پور کی تھی۔ تقسیم کے بعد پاکستان ہجرت کی تو کراچی میں‌ سکونت پذیر ہوئے۔ انھوں نے اپنے تعلیمی مراحل مختلف شہروں میں مکمل کیے۔ ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی اور بعد میں پشاور اور پھر کراچی سے گریجویشن کیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے صحافت کے شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری لی۔ جیدی اُن کا وہ روپ تھا جس میں انھوں نے اپنے دیکھنے والوں کو قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا اور اس کردار کے ذریعے لوگوں کو صاف ستھرا مزاح اور بامقصد تفریح کا موقع دیا۔ ان کے اس کردار کو وہ مقبولیت اور پسندیدگی حاصل ہوئی کہ جیدی ان کے اصل نام کے ساتھ ہی جڑ گیا۔

    ریڈیو پاکستان سے سفر کا آغاز کرنے والے اطہر علی شاہ عرف جیدی نے لگ بھگ بیس برسوں میں سات سو ڈرامے لکھے۔ 70 اور 80 کی دہائی میں وہ نہایت مشہور ہوئے اور ان کے مزاحیہ ڈرامے اور جیدی کا کردار ہر گھر میں‌ پسند کیا جاتا تھا۔ پی ٹی وی پر ان کے ڈراموں میں انتظار فرمائیے، با ادب باملاحظہ ہوشیار، لاکھوں میں تین بہت مقبول ہوئے۔

    اطہر شاہ خان جیدی نے ڈرامہ نگاری کے ساتھ فلمیں بھی لکھیں۔ ان کی پہلی فلم بازی، سپر ہٹ ثابت ہوئی، جس میں فلم اسٹار ندیم اور محمد علی پہلی بار آمنے سامنے آئے اور اس میں اداکارہ نشو کو بھی متعارف کرایا گیا۔ ان کی دیگر فلموں میں گونج اٹھی شہنائی، ماں بنی دلہن، منجی کتھے ڈھاواں شامل ہیں۔ اطہر شاہ خان جیدی نے ڈرامہ نگاری، کردار نگاری اور شاعری میں منفرد شناخت بنائی۔ انھوں نے مزاحیہ شاعر کی حیثیت سے بڑا نام کمایا اور مشاعروں میں انھیں خوب سنا جاتا تھا۔

    ’’جیدی‘‘ ان کا تخلیق کردہ ایک ایسا کردار تھا جو ان کی وجہ شہرت بنا اور ناقابلِ فراموش ثابت ہوا۔ اس کردار کے لیے انھوں نے ایک بڑا سا کوٹ، ایک بڑے فریم کی عینک پہنی اور بولنے کا مخصوص انداز اپنایا جس میں مٹھاس اور ایسی کشش تھی کہ ہر ایک کو جیدی اپنا لگنے لگا، جب کہ اپنے مکالموں اور مخصوص فقروں کی بدولت وہ سبھی کے دل میں‌ گھر کر گئے۔ اطہر شاہ خان نے تھیٹر، ریڈیو، ٹیلی ویژن اور فلموں کے لیے معیاری اسکرپٹ، خاکے لکھے اور ساتھ ساتھ اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔

    2001ء میں اطہر شاہ خان کو حکومت پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔