Tag: اعجاز الحق قدوسی

  • دکن کے شوقیہ گلوکار

    دکن کے شوقیہ گلوکار

    دکن کے شوقیہ موسیقاروں میں، جن کا ہر مجلس میں چرچا تھا سب سے پہلا نمبر عبدالرّؤف کا تھا۔

    عبدالرّؤف غالباً محکمہ رجسٹریشن بلدہ میں سب رجسٹرار تھے، لیکن شوقیہ گاتے تھے۔ گلے میں نور تھا۔ میں نے ان کو مختلف مجلسوں میں گاتے دیکھا ہے، جب وہ سُر کو تال سے ہم آہنگ کرتے تو ہر طرف سے داد و تحسین کی صدائیں بلند ہوتیں۔

    جب وہ آواز کا جادو جگاتے تو پوری محفل پر سناٹا چھا جاتا۔ ان کی آواز پپیہے کی آواز کی طرح تھی۔ حیرتؔ (شاعر) صاحب کی بدولت میری ان سے رسمی ملاقات تھی۔

    آج سے 40 سال پہلے میں نے رفیقانِ حیدرآباد کے عنوان سے نظم کہی تھی جس میں اپنے دوستوں سے شکوہ کیا تھا کہ وہ عہدِ ماضی کو یاد نہیں کرتے۔ ان میں رؤف، میر ابن علی، ماہر، حیرت، جوش، حکیم آزاد انصاری کا خاص طور پر ذکر کیا تھا۔

    میر ابن علی، میر محفوظ علی کے صاحبزادے تھے۔ محلہ ملہ پلی میں رہتے تھے۔ علی گڑھ کے گریجویٹ تھے۔ علم، مجلس اور حاضر جوابی کے ساتھ موسیقی میں بھی دسترس رکھتے۔ موسیقی کی محفلیں ان کے دم سے رونق پاتی تھیں۔ پولیس ایکشن کے بعد وہ مددگار کوتوالی بلدہ ہوگئے تھے۔ ایک گیت جس کے بول تھے، ”کایہ کا پنجرہ ڈولے“ بہت ہی عمدہ گاتے تھے۔

    طبلے کی تھاپ اور ہارمونیم پر جب یہ گیت گاتے تو اہل محفل وارفتہ ہوجاتے۔ میں نے اکثر ان کی محفلوں میں شرکت کی ہے۔

    معزالدین صدر محاسبی میں ملازم تھے۔ موسیقی کے رسیا تھے۔ حیرت صاحب سے گہرے مراسم تھے۔ ان کی بدولت میں بھی ایک دو مرتبہ ان کی بزم موسیقی میں شریک ہوا تھا۔ گاتے اچھا تھے۔ ان کے گانے میں بڑا کیف تھا۔


    (معروف نثر نگار، شاعر اور تاریخ نویس اعجاز الحق قدوسی کی کتاب ”میری زندگی کے 75سال“ سے ایک ورق)

  • مجذوب کا کہا سچ ہوا!

    مجذوب کا کہا سچ ہوا!

    میں مدرسۂ دینیات کے وظیفے کی تگ و دو میں تھا اور نواب صدر یار جنگ، صدر الصدور امورِ مذہبی کے بنگلے پر چکر لگاتا تھا۔ ان کا بنگہ خیریت آباد (حیدر آباد دکن) میں تھا۔

    ایک دن علی الصباح میں نواب صد یار جنگ سے ملنے خیریت آباد اپنی سائیکل پر جا رہا تھا کہ اسٹیشن کے قریب مجھے ایک شخص ملا جو ننگ دھڑنگ تھا۔

    اس نے میری سائیکل کے سامنے کھڑے ہو کر سائیکل روک لی۔ پھر نہایت درشت لہجے میں مجھ سے پوچھا کہاں جارہا ہے؟ میں نے جواب دیا نواب صدر یار جنگ سے ملنے۔ اس نے کہا کہ ان کا نام تو ہمارے یہاں سے کٹ گیا ہے۔ میں نے کہا۔ تمھارے یہاں سے کٹا ہو گا، مگر ہمارے یہاں سے نہیں۔ اس نے کہا تمھارے یہاں سے بھی چھے ماہ میں کٹ جائے گا۔

    یہ کہہ کر وہ سڑک کے ایک کنارے ہو گیا اور میں نے اپنا راستہ لیا۔ میں راستے میں اسے دیوانے کی بڑ سمجھتا رہا اور مجذوب کی اس بات کو بھول گیا۔ اس بات کو چھے ماہ گزرے ہوں گے کہ نواب لطفُ الدّولہ، صدر المہام امورِ مذہبی ہوئے۔ پہلے تمام کاغذات اعلیٰ حضرت کی پیشی میں صدر الصدور پیش کرتا تھا، اب یہ کاغذات بتوسط صدر المہام پیش ہونے لگے۔

    نواب صدر یار جنگ کے اختیار میں زوال آنا شروع ہوا۔ کہتے ہیں کہ نواب لطفُ الدولہ اور نواب صدر یار جنگ میں چلی ہوئی تھی۔ یہ اختلافات وسیع ہوتے چلے گئے۔ اگر نواب صدر یار جنگ دن کو دن کہتے تو وہ رات۔ اس صورتِ حال نے نواب صدر یار جنگ کو دل شکستہ کر دیا۔

    یہ واقعہ اعجاز الحق قدوسی نے اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب میں رقم کیا ہے۔ مجذوب سے ملاقات کے بعد انھوں نے وہی کچھ دیکھا جو اس نے بیان کیا تھا۔ یعنی لگ بھگ چھے ماہ بعد صدر یار جنگ عہدے پر نہ رہے۔ دونوں کے مابین اختلافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ صدر یار جنگ مستعفی ہو کر اپنے وطن حبیب گنج چلے گئے۔

  • کس احمق نے آپ کو اس جگہ بٹھایا ہے؟

    کس احمق نے آپ کو اس جگہ بٹھایا ہے؟

    سندھی ادبی بورڈ میں میرا واسطہ سب سے زیادہ پیر حسام الدین راشدی سے پڑا۔

    میری اس نئی ملازمت کو دو چار ہی دن گزرے تھے کہ بورڈ میں ایک صاحب تشریف لائے۔ سوٹ بوٹ میں ملبوس، ہیٹ سَر پر، نفاست پسندی چہرے اور مہرے سے عیاں، پیکرِ شرافت و سیادت، کچھ کتابیں بغل میں دبائے ہوئے میری میز کے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ کتابیں میز پر رکھ کر کہنے لگے جہاں جہاں میں نے نشان ڈالے ہیں براہِ کرم آپ ان اقتباسات کو نقل کردیجیے، مگر غلطی بالکل نہ ہو، تین چار روز میں مجھے یہ کام ختم کرکے دے دیجیے۔

    پیر حسام الدین راشدی کا نام اور ان کے کتب خانے کی شہرت میں نے سب سے پہلے مولوی عبدالحلیم چشتی سے سنی تھی، جب میں مولانا احتشام الحق تھانوی کے یہاں اپنی ہجرت کے شروع زمانے میں پندرہ دن کے لیے ملازم ہوا تھا۔ وہ ہر بات میں کہتے تھے کہ میں نے یہ کتاب راشدی صاحب کے کتب خانے میں دیکھی ہے۔

    میرے ذہن میں راشدی صاحب کی جو تصویر ابھرتی وہ عبا و قبا، جبّہ و دستار اور مریدین کی فوج ظفر موج کے ساتھ ابھرتی تھی، لیکن آج پہلی مرتبہ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ تو پیرِ طریقتِ جدید ہیں۔

    چند روز کے بعد وہ پھر آئے اور میری میز کے سامنے کھڑے ہوکر کہا،
    "غالباً آپ نے وہ مسودات تیار کر دیے ہوں گے۔”
    میں نے کہا جی ہاں وہ تیار ہیں۔ پھر وہ انہیں عقاب کی نظر سے دیکھتے رہے۔ میں نے ان کے چہرے پر طمانیت کے آثار پائے۔ ان تمام مسودات کا انہوں نے بغور جائزہ لیا اور پھر کہنے لگے۔

    "آپ کو کس احمق نے اس جگہ پر بٹھایا ہے، آپ تو اس قابل ہیں کہ مسودات کو ایڈٹ کریں۔”

    میں نے کہا، "اس جگہ مجھ کو میری قسمت نے بٹھایا ہے۔ آپ چاہیں تو بورڈ میں میری صلاحیتوں کی تصدیق کرکے میری ترقی کی سفارش کریں۔”

    راشدی صاحب نے کہا کہ میں ضرور آپ کی سفارش کروں گا۔ انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور دو ماہ کے بعد میری تنخواہ 120 روپے ہوگئی۔

    میں پہلی مرتبہ جمشید روڈ پر کسی سرکاری کام سے ان کے گھر گیا۔ بڑے تپاک سے ملے اور چلتے ہوئے رکشا کرایا پیش کیا۔ ہر چند میں نے انکار کیا، مگر ان کا اصرار بڑھتا گیا۔ آخر میں نے یہ کہہ کر رکھ لیے کہ یہ پیروں کا تبرک ہے، اس لیے انکار کرتے نہیں بنتی۔

    تکلف اور افسری ماتحتی کی حدود ٹوٹی، بے تکلفی اور دوستی ان کی جگہ لیتی گئی۔ یہاں تک کہ ہم دونوں اس منزل میں آگئے کہ جہاں ہماری دوستی علمی دنیا میں مشہور ہوگئی۔ ہم نے دوستی اور افسری و ماتحتی کے خانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرلیا تھا جو ایک دوسرے پر اثر انداز نہیں ہوتے تھے۔

    (معروف ادیب، محقق، مترجم اور شاعر اعجاز الحق قدوسی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب سے ایک ورق)

  • غزل سنانے پر شعرا میں‌ تکرار، مشاعرہ درہم برہم!

    غزل سنانے پر شعرا میں‌ تکرار، مشاعرہ درہم برہم!

    ایک دن شام کو اپنے کوارٹر کی دیوار پر ایک قلمی پوسٹر چسپاں دیکھا جس میں بزمِ بہارِ ادب کے ماہانہ مشاعرے کا زیرِ صدارت حضرت بہار کوٹی، ان کے مکان پر منعقد ہونے کا اعلان تھا۔

    کسی مشاعرے میں شریک ہوئے مدت ہوچکی تھی۔ یہ مشاعرہ میرے گھر کے قریب منعقد ہورہا تھا۔ عزم مصمم کیا کہ کل رات کو اس میں ضرور شریک ہوں گا۔

    چناں چہ دوسرے دن رات کو میں اس مشاعرے میں پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ بہار صاحب کا برآمدہ اور صحن شعرا اور سامعین سے بھرا ہوا ہے۔ جان پہچان نہ ہونے کی وجہ سے مجھے جوتوں کے قریب جگہ ملی۔ میں وہیں بیٹھ گیا اور اپنی حالت زار پر افسوس ہوا کہ اس طرح بھی مشاعروں میں شریک ہونا مقدر تھا۔

    دس بجے شب کو یہ مشاعرہ شروع ہوا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ عنبر چغتائی اس مشاعرے کو اناؤنس کررہے تھے۔ عام طور پر مشاعروں کا اصول یہ ہے کہ اناؤنسر یا تو ابتدا میں غزل پڑھ لیتا ہے، یا پھر زیادہ سے زیادہ وسط میں۔ عنبر چغتائی نے اس مشاعرے میں غلطی یہ کی کہ وہ دوسروں سے غزلیں پڑھواتے رہے۔ خود غزل نہیں پڑھی۔

    جب دو چار شاعر باقی رہ گئے تو اس پر جمیل بدایونی مرحوم کا اچانک ناریل چٹخ گیا اور انہوں نے نہایت خشمگیں آواز میں عنبر چغتائی کو للکارا۔

    عنبر! تمہارا یہ رویہ غلط ہے کہ تم نے اب تک مشاعرے خود غزل نہیں پڑھی اور دوسروں سے غزلیں پڑھواتے جارہے ہو۔ یہاں تک کہ اساتذہ اب غزلیں پڑھ رہے ہیں۔ کیا تم اپنے آپ کو اس شہر کے اساتذہ سے بھی بلند تصّور کرتے ہو، حالاں کہ ابھی تمہارا شمار مبتدیوں میں ہے۔ اگر حوصلہ ہے تو آؤ اور یہیں زانو سے زانو ملاکر کوئی طرح مقرر کرکے غزل کہو۔ ابھی معلوم ہوجائے گا کہ کتنے پانی میں ہو۔

    عنبر نے یہ غیر متوقع جملہ سنا۔ ان کی آواز ویسے بھی منحنی ہے۔ جمیل کے اس غیر متوقع جملے نے گھگیا دیا۔ ہر طرف سے موافقت اور مخالفت کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ شور تھا کہ کان پڑی آواز سننے میں نہ آتی تھی۔

    بہار صاحب کبھی جمیل بدایونی کو سمجھاتے، کبھی عنبر چغتائی کو روکتے، مگر بات بڑھتی جارہی تھی۔ یہ محفل مشاعرہ نہایت بدمزگی سے درہم برہم ہوئی۔
    (نوٹ: یہ واقعہ معروف ادیب اعجاز الحق قدوسی کی یادداشتوں پر مبنی کتاب سے لیا گیا ہے)