Tag: اعجاز درانی

  • اعجاز درّانی:‌ پاکستانی فلمی صنعت کے معروف اداکار اور کام یاب فلم ساز

    اعجاز درّانی:‌ پاکستانی فلمی صنعت کے معروف اداکار اور کام یاب فلم ساز

    اعجاز درانی فلم انڈسٹری کے ان فن کاروں میں سے ایک تھے جو شہرت اور دولت کے پیچھے نہیں بھاگے اور ہمیشہ اپنے کام کو اہمیت دی۔ وہ خوش اخلاق اور ملنسار مشہور تھے۔ اعجاز درانی 1960 اور 1970 کی دہائی کے معروف اداکار تھے اور بعد میں بطور فلم ساز بھی کام کیا۔ یکم مارچ 2021ء کو اعجاز درانی انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    اعجاز درانی نے ڈیڑھ سو کے قریب اردو اور پنجابی فلموں میں بطور اداکار کام کرنے کے علاوہ ہدایت کار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری کو کئی کام یاب فلمیں بھی دیں جن میں پنجابی زبان کی سپر ہٹ فلم ‘ہیر رانجھا’ بھی شامل ہے۔

    اداکار اور فلم ساز اعجاز درانی 18 اپریل 1935 کو جلال پور جٹاں کے قریب ایک ضلع کے نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جہلم سے بی اے پاس کیا اور اس وقت متحدہ ہندوستان کے ایک فلمی مرکز کے طور پر پہچان رکھنے والے شہر لاہور آ گئے۔ یہاں 21 سالہ اعجاز نے فلم ‘حمیدہ’ سے اداکاری کا سفر شروع کیا۔ اعجاز درانی وجیہ صورت اور جاذبِ نظر شخصیت کے مالک تھے اور جلد ہی وہ فلمی دنیا کے دیگر مرد اداکاروں میں نمایاں‌ ہوگئے۔ ان کی اداکاری اور شخصیت نے انھیں سنیما بینوں میں مقبول بنایا۔

    1960 کی دہائی میں اعجاز درانی کی کئی فلمیں کام یاب ہوئیں جن میں ‘شہید’، ‘بدنام’، ‘لاکھوں میں ایک’، ‘بہن بھائی’ اور ‘زرقا’ کے نام شامل ہیں۔ ان فلموں میں اعجاز کی اداکاری کو سب نے پسند کیا۔ اداکارہ اعجاز نے اپنے وقت کی مقبول ہیروئن اور گلوکارہ نورجہاں سے شادی کی تھی لیکن بعد میں‌ نور جہاں‌ نے ان سے طلاق لے لی تھی۔

    ‘لاکھوں میں ایک’ ، ‘بدنام’ جیسی فلموں کے بعد اعجاز کو 70 کی دہائی میں بھی کام یابی ملتی رہی۔ ان کی پنجابی فلم ‘انورہ’ اور پھر ‘ہیر رانجھا’ نے انھیں شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا۔ اعجاز نے رانجھا کا کردار نبھا کر سنیما بینوں کے دل جیت لیے۔ یہ وہ فلم تھی جس کا خوب شہرہ ہوا اور خوب صورت نین نقش والی اداکارہ فردوس کے ساتھ اعجاز کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔ اعجاز نے اپنے وقت کے مقبول اور باکمال فن کاروں کے ساتھ کام کیا اور منفی کردار بھی بخوبی نبھائے۔ہیر رانجھا کے بعد اعجاز کی ایک کام یاب فلم ‘دوستی’ تھی جس کا گانا ‘چٹھی زرا سیاں جی کے نام لکھ دے’ آج بھی سماعتوں‌ میں‌ رس گھول رہا ہے اور لوگ اسے سننا پسند کرتے ہیں۔ ملکۂ ترنم میڈم نور جہاں سے علیحدگی کے بعد اعجاز نے فلم ‘دوستی’ کے ہدایت کار کی بیٹی سے شادی کر لی تھی۔

    اعجاز درانی لاہور اور راولپنڈی میں سنگیت سنیما کے مالک بھی تھے۔ انھوں نے بطور فلم ساز پنجابی فلم ‘شعلے’ اور ‘مولا بخش’ بھی فلمی صنعت کو دیں جو باکس آفس پر نہایت کام یاب رہیں۔بطور اداکارہ اعجاز درانی کی آخری فلم ‘جھومر چور’ تھی جو 1986 میں ریلیز ہوئی۔

  • فردوس بیگم: اُس ‘ہیر’ کا تذکرہ جو گوشۂ گم نامی میں چلی گئی تھی!

    فردوس بیگم: اُس ‘ہیر’ کا تذکرہ جو گوشۂ گم نامی میں چلی گئی تھی!

    عرصۂ دراز سے گوشۂ گم نامی میں زندگی بسر کرنے والی فردوس بیگم کو ہیر رانجھا میں ان کے فلمی کردار نے بے مثال شہرت عطا کی۔ یہ پاکستانی فلم 19 جون 1970ء کو بڑے پردے پر پیش کی گئی تھی۔ آج اس فلم کی ہیروئن فردوس بیگم کی برسی ہے۔ وہ 16 دسمبر 2020ء کو انتقال کر گئی تھیں۔

    ہیر رانجھا وہ فلم تھی جس کے بعد فردوس اور اعجاز درانی کے معاشقے کا چرچا ہوا اور شادی کی افواہیں بھی گردش میں‌ رہیں۔ فردوس کا اصل نام پروین بتایا جاتا ہے۔ ان کا سنہ پیدائش 1947 ہے۔ وہ لاہور کے مشہور علاقہ ہیرا منڈی میں پیدا ہوئی تھیں جہاں انھیں شروع ہی سے رقص اور موسیقی کی تربیت اور اپنے فن کے مظاہرے کا موقع ملا۔ ہیرا منڈی میں پاکستانی فلم ساز اور ہدایت کار نئے چہروں کی تلاش میں آتے جاتے تھے جن میں‌ بابا قلندر بھی شامل تھے۔ انھوں نے پروین کا رقص دیکھا تو اپنی پنجابی فلم کی ہیروئن بننے کی پیشکش کر دی۔ پروین نامی نوجوان رقاصہ کی یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ بعد میں وہ فلم ‘گل بکاؤلی‘ میں ایک معمولی کردار نبھاتی نظر آئیں، مگر فلم ناکام رہی۔ پھر شباب کیرانوی کی فلم ‘انسانیت‘ میں انھوں نے اداکارہ زیبا اور وحید مراد کے ساتھ ایک اور معمولی کردار نبھایا اور فلم ساز کے کہنے پر فلمی نام فردوس اپنا لیا۔

    فردوس بیگم دراز قد تھیں۔ غلافی آنکھیں‌ اور خوب صورت نین نقش والی فردوس بیگم کو ‘ہیر رانجھا’ میں ‘ہیر’ کا کردار ملا تو جیسے اُن کی شہرت اور مقبولیت کو بھی پَر لگ گئے۔ اس فلم کے ہیرو اعجاز درانی تھے۔ فردوس بیگم اپنی اداکاری اور رقص کی بدولت فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی نظروں میں اہمیت اختیار کر گئیں اور شائقینِ سنیما ان کے پرستار ہوگئے۔ وارث شاہ کی اس عشقیہ داستان پر بننے والی یہ فلم کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔

    اداکارہ فردوس نے فلم ‘ہیر رانجھا‘ میں بہترین پرفارمنس پر نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔ 1973 میں پنجابی فلم ‘ضدی‘ کے لیے بھی بہترین اداکارہ کا ایوارڈ حاصل کیا مگر بعد میں ان شہرت کا سفر تھم گیا۔ نئے چہرے ان کے سامنے کام یابی کے زینے طے کرتے چلے گئے اور فردوس بیگم اسکرین سے دور ہوتی چلی گئیں۔

    ان کی فلموں کی مجموعی تعداد 192 بتائی جاتی ہے جن میں 155 فلمیں پنجابی، 29 اردو اور 8 فلمیں پشتو زبان میں تھیں۔ اداکارہ کی آخری فلم ‘دہ جرمونو بادشاہ‘ تھی جو 1991 میں پشتو زبان میں تیار ہوئی تھی۔

    اداکارہ فردوس نے بھرپور زندگی گزاری۔ وہ خوش مزاج، ملن سار اور زندہ دل خاتون مشہور تھیں۔ فردوس بیگم کو برین ہیمرج ہوا تھا۔ انھوں نے لاہور میں‌ 73 برس کی عمر میں وفات پائی۔

    فردوس بیگم نے اپنے زمانے کے تقریباً تمام مشہور مرد اداکاروں کے ساتھ کام کیا جن میں اکمل، اعجاز درانی، حبیب، سدھیر اور یوسف خان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔