Tag: اعصابی بیماری

  • وہ غیر معمولی اعصابی بیماری جس کا نام ایک مقبول ناول سے ماخوذ ہے

    وہ غیر معمولی اعصابی بیماری جس کا نام ایک مقبول ناول سے ماخوذ ہے

    لیوس کیرول وہ قلمی نام ہے جس سے لگ بھگ ڈیڑھ سو برس قبل ’ایلس اِن ونڈر لینڈ‘ (Alice in Wonderland) نامی کتاب شایع ہوئی تھی اور آج بھی دنیا بھر میں‌ مقبول ہے۔ یہ ایک ناول ہے جسے بچّے شوق سے پڑھتے ہیں اور اس کہانی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے اس پر کئی ڈرامے اور فلمیں بنائی جا چکی ہیں۔

    ناقدین نے اسے ایک ادبی شہ پارہ بھی کہا ہے جس کا قاری خود کو حیران کُن واقعات میں ڈوبتا اور ایک عجیب دنیا کی مختلف مخلوقات کے درمیان پاتا ہے۔ چارلس ڈاج سن کو اس کا مصنّف بتایا جاتا ہے جس نے قلمی نام سے اپنی یہ کہانی 1865ء میں شایع کروائی تھی۔ اس کا مرکزی کردار دس برس کی ایلس لڈل اور اس کی دو بہنیں ہیں جنھوں نے انوکھی دنیا کے حیران کن واقعات کو ہمارے سامنے رکھا ہے۔

    اس کہانی کے مصنّف اور اس کے کرداروں کے اس تذکرے کے بعد اب ہم اس بیماری کے بارے میں جانتے ہیں جو اسی مختصر ناول کے نام سے موسوم ایک اعصابی مسئلہ ہے۔ اسے ایلس اِن ونڈر لینڈ سنڈروم (Alice in Wonderland syndrome) کہا جاتا ہے اور یہ نام جان ٹوڈ نے تجویز کیا تھا۔ وہ ایک انگریز ماہرِ نفسیات تھا۔

    جان ٹوڈ نے 1955 میں لیوس کیرول کی کتاب کے مرکزی کردار ایلس کو ذہن میں‌ رکھتے ہوئے اس طبّی پیچیدگی کو یہ نام دیا تھا، دراصل کہانی میں‌ وہ لڑکی ایسے حالات سے گزرتی ہے جس میں اسے اپنے اردگرد موجود اشیا اور مخلوق کی شکل اور جسامت بگڑی ہوئی نظر آتی ہے۔

    اسے اکثر ماہرین نے ایک اعصابی بیماری قرار دیا ہے اور اسے ٹوڈز سنڈروم کے نام سے بھی شناخت کرتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ ایک غیر معمولی اعصابی پیچیدگی ہے، اس میں کسی انسان کا بصری تأثر اس طرح‌ خراب ہوسکتا ہے کہ وہ اجسام کو ان کے حقیقی نہیں مماثل روپ میں‌ دیکھنے لگتا ہے۔ اسے کسی بھی جسم کا سائز یکسر مختلف دکھائی دے سکتا ہے جس میں چہرہ، ہاتھ اور پیر شامل ہیں۔ اسے یہ اعضا چھوٹے یا بہت بڑے نظر آنے لگتے ہیں۔

    عام طور پر اسے دردِ شقیقہ جیسی حالت تصوّر کیا جاتا ہے، لیکن اس میں‌ مبتلا شخص کسی جسم کا مشاہدہ کرتے ہوئے ان میں‌ بگاڑ دیکھتا ہے یا وہ انھیں‌ غیر متناسب پاتا ہے۔ ایسے مریض فریبِ نظر اور وقت گزرنے کے احساس کی بھی شکایت کر سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس طبّی پیچیدگی کا اب تک کوئی مؤثر اور مکمل علاج دریافت نہیں کیا جاسکا ہے۔ تاہم، ایک ماہر معالج دردِ شقیقہ سے نجات کے لیے کوشش اور تدابیر اختیار کرتا ہے جب کہ دوا کے ساتھ مریض کو ضروری ہدایات دے کر اس اعصابی بیماری کو ختم کرنے میں‌ مدد دیتا ہے۔

  • نوزائیدہ بچی کو علاج کے لیے 16 کروڑ کا انجیکشن لگایا گیا

    نوزائیدہ بچی کو علاج کے لیے 16 کروڑ کا انجیکشن لگایا گیا

    ممبئی: بھارت میں ایک نوزائیدہ بچی کو عجیب و غریب بیماری کے علاج کے لیے 16 کروڑ روپے کا انجیکشن لگایا گیا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر ممبئی کے ایک اسپتال میں زیر علاج ’تیرا کامت‘ نامی ایک 6 ماہ کی بچی کو سولہ کروڑ روپے کا انجیکشن لگایا گیا ہے۔

    یہ بچی ’ایس ایم اے ٹائپ ون‘ نامی بیماری میں مبتلا ہے، یہ ایک جان لیوا بیماری ہے اور اس سے نکلنے کے لیے زولجینزما انجیکشن دیا جاتا ہے۔

    بچی کے والدین

    یہ دنیا کا سب سے مہنگا انجیکشن ہے، تیراکامت نامی اس بچی کے لیے یہ انجیکشن امریکا سے منگوایا گیا، جس پر سولہ کروڑ روپے کا خرچ آیا۔

    تیراکامت کے والدین پریانکا اور میہر کامت کے لیے یہ انجیکشن خریدنا ممکن نہیں تھا، اس لیے انھوں نے عوام سے مدد مانگی اور لوگوں نے کھلے دل سے ان کے لیے عطیات دے دیے۔

    نہ صرف عوام نے بلکہ ریاستی و مرکزی حکومت نے بھی اپنی ذمہ داری ادا کی، یہ جان کر آپ کو حیرانی ہوگی کہ اس انجیکشن پر صرف امپورٹ ڈیوٹی 6 کروڑ روپے کی تھی، جو حکومت نے معاف کر دی۔

    بتایا جا رہا ہے کہ انجیکشن لگائے جانے کے بعد اب بچی کی حالت خطرے سے باہر ہے اور چند ہی دنوں میں اسے اسپتال سے ڈسچارج کر دیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ ایس ایم اے ٹائپ ون دراصل اعصاب اور پٹھوں کی ایک بیماری ہے، انسانی جسم میں ایک جین ہوتا ہے، جو ایک پروٹین بناتا ہے جو اعصاب اور پٹھوں کو زندہ رکھتا ہے۔

    تاہم تیراکامت کے جسم میں ایسا کوئی جین نہیں ہے، اس لیے اس کے جسم میں پروٹین نہیں بنتا، جس کی وجہ سے اس کے اعصاب آہستہ آہستہ مرنے لگتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک بھارت میں 11 افراد کو زولجینزما کا انجیکشن دیا گیا ہے، جب کہ تیراکامت ممبئی کی دوسری لڑکی ہے جسے یہ انجیکشن دیا گیا۔

  • ای ایچ ایس: ایک پیچیدہ طبی کیفیت

    ای ایچ ایس: ایک پیچیدہ طبی کیفیت

    سَر درد کی عام شکایت تو چند گھنٹوں کے آرام اور درد کُش دوا کے استعمال سے دور ہو جاتی ہے۔ تاہم کبھی دورانِ‌ نیند اچانک آنکھ کھل جاتی ہے اور ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا سَر پھٹ رہا ہے۔

    یہ نیند کے عالم میں طاری ہونے والی ایک کیفیت ہے جس میں اچانک ہی محوِ استراحت فرد کوئی تیز آواز اور دھماکا سنتا ہے اور اس کی آنکھ کھل جاتی ہے، جس کے ساتھ ہی چند منٹوں کے لیے اسے شدید بے چینی اور گھبراہٹ محسوس ہوسکتی ہے۔

    طبی ماہرین اسے Exploding Head Syndrome (ای ایچ ایس) کہتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک پیچیدہ طبی کیفیت ہے، جس کی کوئی ایک وجہ نہیں‌ ہوسکتی۔ تاہم اس کا نیند اور ذہنی سکون سے گہرا تعلق ہے۔

    طبی محققین کے مطابق یہ کوئی خطرناک بیماری یا مستقل کیفیت کا نام نہیں، لیکن اس کی وجہ سے انسانی جسم دوسری پیچیدگیوں کا شکار ہوسکتا ہے۔

    اس طبی مسئلے میں محققین اور ماہرین کی مختلف آرا اور مشاہدات سامنے آئے ہیں اور اس پر مزید تحقیق کی جارہی ہے، لیکن اس مسئلے کے شکار زیادہ تر افراد کے مطابق انھیں دوران نیند اچانک گولی کے چلنے کی آواز، کسی بھی قسم کے دھماکے یا بجلی کے کڑکنے کی آواز سنائی دی اور ان کی آنکھ کھل گئی۔

    امریکا میں اس مسئلے کے شکار افراد سے پوچھا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ایسی کوئی بھی آواز بہت تیز ہوتی ہے، کبھی تو لگتا ہے کہ کمرے کی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹا ہے یا کسی نے دروازہ زور سے بند کیا ہے یا پھر کوئی بھاری چیز قریب ہی کہیں گری ہوگی، مگر گھبراہٹ کے ساتھ جب آنکھ کھلتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

    امریکا میں پبلک ہیلتھ کیئر سے متعلق سرگرم ادارے سلیپ ایسوسی ایشن (اے ایس اے) کے مطابق اس مسئلے کی علامات ہر فرد میں مختلف ہوسکتی ہیں، مگر ایک بات مشترک ہے کہ انھیں کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ بعض لوگ دورانِ نیند دھماکا سننے کے ساتھ تیز روشنی بھی دیکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھ کھل جاتی ہے۔

    وہ شدید بے چینی اور گھبراہٹ محسوس کرتے ہیں، انھیں‌ لگتا ہے کہ سَر پھٹ جائے گا، لیکن منٹوں ہی میں وہ نارمل بھی ہوجاتے ہیں، کیوں کہ بیدار ہونے پر وہ اس کی حقیقت جان جاتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق بعض افراد کو دھماکے کی آواز صرف ایک کان میں سنائی دیتی ہے، جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ ان کے دونوں کانوں میں تیز آواز آئی تھی۔ اسی طرح بعض متاثرہ افراد کے مطابق انھیں اپنے دماغ میں ایسی زور دار آوازیں یا دھماکے محسوس ہوئے۔ اسی لیے ماہرین نے اسے Exploding Head Syndrome کا نام دیا ہے۔

    ماہرین کی اکثریت کا کہنا ہے کہ شدید اسٹریس یا تھکن کی وجہ سے کبھی ایسی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے اور پچاس سال سے زائد عمر کے افراد اس کیفیت کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ بعض طبی محققین اس کا تعلق دماغ کے ایک مخصوص حصّے کی خرابی سے جوڑتے ہیں اور اکثر اسے سماعت کی خرابی کا نتیجہ بتاتے ہیں۔

  • کیا آپ بھی اونگھنے کے عادی ہیں؟

    کیا آپ بھی اونگھنے کے عادی ہیں؟

    آپ نے دیکھا ہو گا کہ بعض لوگ اونگھنے کے عادی ہوتے ہیں یا اکثر بیٹھے بیٹھے نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔

    ہمہ وقت نیند کا غلبہ رہنا یا دن بھر مختلف اوقات میں نیند کی خواہش محسوس ہو تو یہ ‘‘نارکولیپسی’’ ہے، جو طبی ماہرین کے نزدیک اعصابی بیماری ہے۔

    اس کی عام اور زیادہ نمایاں علامات میں اچانک اور شدید نیند کا احساس، پٹھوں اور عضلات کا ڈھیلا پڑ جانا شامل ہے۔

    نارکولیپسی مرد اور عورتوں کو یکساں متاثر کرنے والی بیماری ہے۔ تاہم اس کا شکار زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے ان کی اکثریت یہ نہیں جان پاتی کہ وہ نارکولیپسی کا شکار ہیں۔

    اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اچانک نیند آنے کو کسی بھی فرد کی مصروفیات، کام کاج کی تھکن اور جسمانی یا اعصابی کم زوری سے جوڑ دیا جاتا ہے اور یوں کسی مستند معالج اور ماہر ڈاکٹر سے باقاعدہ تشخیص یا طبی معائنہ نہیں کروایا جاتا جو اس مسئلے کی اصل وجہ بتا سکتا ہے۔

    محققین کے مطابق ایسا اس وقت ہوتا ہے جب ہمارے دماغ کے خلیات ایک کیمیائی مادّہ جسے ہائپوکریٹن کہتے ہیں، ضرورت سے کم مقدار میں خارج کرنا شروع کردیتے ہیں۔ طبی سائنس کے مطابق یہی وہ مادّہ ہے جو ہماری نیند اور بیداری سے متعلق نظام کو کنٹرول کرتا ہے۔

    اس کے بگاڑ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ متاثرہ فرد نیند پر اپنا کنٹرول کھو دیتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ شدت اختیار کر جاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق اس کا کوئی باقاعدہ علاج ابھی تک دریافت نہیں کیا جاسکا ہے، مگر ماہر معالج سے رابطہ کرکے اس کی ہدایات پر عمل کیا جائے تو اس کے بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

    طبی ماہرین کے مطابق کاﺅنسلنگ، مختلف تھراپیز اور طرز زندگی میں بدلاﺅ کے ذریعے اس اعصابی مرض کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔