Tag: افتخار عارف

  • افتخار عارف، انور مسعود، راحت فتح سمیت ادیبوں، فنکاروں کو قومی اعزازات سے نوازا گیا

    افتخار عارف، انور مسعود، راحت فتح سمیت ادیبوں، فنکاروں کو قومی اعزازات سے نوازا گیا

    لاہور: افتخار عارف، انور مسعود اور راحت فتح علی خان سمیت ادیبوں اور فنکاروں کو قومی اعزازات سے نوازا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق یوم پاکستان کے موقع پر ملک کے معروف شاعر افتخار عارف اور انور مسعود کو نشان امتیاز سے نوازا گیا ہے، جب کہ قوال اور گلوکار راحت فتح علی خان کو ہلالِ امتیاز دیا گیا۔

    ہدایت کار بلال لاشاری، گلوکار جاوید بشیر، اور فاخر محمود کو ستارہ امتیاز سے نوازا گیا، گلوکارہ شازیہ منظور، موسیقار ذوالفقار علی عطرے، اداکار عدنان صدیقی کو پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔

    ادکارہ مہربانو عرف جگن کاظم اور استاد رستم فتح علی خان کو تمغہ امتیاز، چیئرمین پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر شاہد منیر کو اعلیٰ تعلیم، بہترین تعلیمی اداروں کی تشکیل میں نمایاں خدمات کے اعتراف میں تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز کو بھی شعبہ تعلیم میں نمایاں کارکردگی دکھانے پر تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔

    بلوچستان

    کوئٹہ یوم پاکستان پر گورنر ہاؤس میں اعزازات دینے کی تقریب میں قائم مقام گورنر بلوچستان عبدالخالق نے اعزازات تقسیم کیے، فن و ادب کے شعبے میں عبدالکریم بریالی کو ستارہ امتیاز سے نوازا گیا، خدمات عامہ کے شعبے میں لال جان جعفر کو ستارہ امتیاز، قانون و خدمات عامہ کے شعبے میں جسٹس (ر) محمد نور مسکان زئی کو ستارہ امتیاز، خدمات عامہ کے شعبے میں ڈاکٹر مریم کو تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔

    فن شعبہ بلوچی دستکاری میں شکر بی بی کو تمغہ برائے حسن کارکردگی، خالد باقی، محمد بالاچ شہید کو تمغہ شجاعت، ادب و تحریر کے شعبے میں ڈاکٹر عبدالصبور بلوچ کو تمغہ امتیاز، ادب و شاعری کے شعبے میں غلام قادر بزدار کو تمغہ امتیاز، خدمات عامہ کے شعبے میں بشیر احمد بنگلزئی، عبدالرؤف بلوچ اور محمد امتیاز بزدار کو تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔

    کراچی میں یوم پاکستان پر گورنر ہاؤس میں اعزازات دینے کی تقریب میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے اعزازات تقسیم کیے، 18 کو ستارہ امتیاز، 8 کو صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا، 7 کو تمغہ شجاعت اور 43 افراد کو تمغہ امتیاز دیا گیا۔

    سندھ

    اداکار عدنان صدیقی، قادر بخش مٹو کو تمغہ برائے حسن کارکردگی، مفتی منیب الرحمان کو ستارہ امتیاز، عارف حبیب اور مرزا اختیار بیگ کو ستارہ امتیاز، سابق چیف سیکریٹری سندھ سہیل راجپوت کو ستارہ امتیاز، عزیز میمن کو خدمات عامہ کے شعبے میں ستارہ امتیاز، سابق آئی جی سندھ پولیس کلیم امام کو بھی ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔

    شعبہ طب میں نمایاں خدمات پر ڈاکٹر امجد سراج کو ستارہ امتیاز، آرٹ اور آرکیٹیکچر میں نمایاں خدمات پر ملائکہ جنید، سائرہ فرقان کو سماجی خدمات پر ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔

  • ’کسوٹی‘ والے عبید اللہ بیگ کا تذکرہ

    ’کسوٹی‘ والے عبید اللہ بیگ کا تذکرہ

    عبید اللہ بیگ کی پہچان ’کسوٹی‘ بنا جو پاکستان ٹیلی ویژن کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ ذہانت، قوی حافظے اور وسیع مطالعے کے ساتھ عبید اللہ بیگ ایک لائق فائق اور وسیع علم کے ساتھ اپنے شفیق روّیے اور انکسار کے سبب ہر دل عزیز ٹھیرے۔ انھیں پاکستان کے علمی و ادبی حلقوں اور ذرائع ابلاع میں وہ احترام حاصل تھا جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ آج عبید اللہ بیگ کی برسی ہے۔

    مداحوں کے لیے معلوماتِ عامہ کا میدان عبیداللہ بیگ کی بنیادی شناخت بنا۔ لیکن وہ ایک مدیر، صدا کار، دستاویزی فلم ساز، ناول اور ڈرامہ نگار، فیچر رائٹر، سیاح اور شکاری بھی تھے۔ ٹیلی ویژن کے بعد وہ ماحولیات کے تحفظ کی غیر سرکاری تنظیم سے منسلک ہوئے اور بقائے ماحول کے لیے رپورٹنگ کے ساتھ بطور ماہرِ ابلاغ تربیت دینے کا کام کیا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے صدر دفتر میں شعبۂ تعلقاتِ عامّہ میں بھی خدمات انجام دیں اور ایک جریدہ ’’ٹی وی نامہ‘‘ بھی جاری کیا۔

    عبید اللہ بیگ کا اصل نام حبیب اللہ بیگ تھا۔ ان کے والد محمود علی بیگ بھی علم دوست شخصیت تھے اور یوں گھر ہی میں مطالعے کی طرف رجحان ہوا اور کتابیں پڑھنے کا شوق پروان چڑھا۔ ان کا خاندان بھارت کے شہر رام پور سے نقل مکانی کر کے پاکستان آیا تھا۔ یہ بات ہے 51ء کی۔ عبید اللہ بیگ نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ ان کا بچپن اور نو عمری کا دور رام پور اور مراد آباد میں گزرا۔ ان کا خاندان شکار کا شوقین تھا اور عبید اللہ بیگ بھی گھر کے بڑوں کے ساتھ اکثر شکار کھیلنے جایا کرتے تھے۔ اسی نے ان کے اندر سیر و سیاحت کا شوق پیدا کیا۔

    کسوٹی وہ پروگرام تھا جس میں افتخار عارف، قریش پور اور غازی صلاح الدین جیسی نام ور اور قابل شخصیات بھی ان کے ساتھ رہیں۔ عبید اللہ بیگ نے پاکستان ٹیلی وژن کے متعدد پروگراموں کی کمپیئرنگ بھی کی جن میں پگڈنڈی، منزل، میزان، ذوق آگہی اور جواں فکر کے علاوہ اسلامی سربراہ کانفرنس بھی شامل ہیں۔حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی دیا گیا تھا۔

    عبید اللہ بیگ ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ رہے۔ ٹی وی پر کسوٹی سے پہلے ‘سیلانی’ بھی ان کا ایک فلمی دستاویزی سلسلہ تھا جو بہت مشہور ہوا۔ تاہم یہ پروگرام چند وجوہ کی بناء پر بند کردیا گیا، پی ٹی وی کے لیے عبید اللہ بیگ نے تین سو سے زائد دستاویزی فلمیں بنائی تھیں جن کو عالمی سطح پر سراہا گیا اور عبید اللہ بیگ کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی فلم وائلڈ لائف اِن سندھ کو 1982ء میں 14 بہترین فلموں میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔ عورتوں کے مسائل پر ایک فلم کو 18 زبانوں میں ڈھال کر پیش کیا گیا۔ سندھ میں قدرتی حیات اور ماحول سے متعلق ان کی دستاویزی فلمیں بہت شان دار ہیں اور اس کام پر انھیں ایوارڈ بھی دیے گئے۔

    قلم اور کتاب سے ان کا تعلق فکر و دانش اور معلوماتِ عامہ کی حد تک نہیں تھا بلکہ وہ ایک ادیب بھی تھے جن کا پہلا ناول ’اور انسان زندہ ہے‘ ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوا تھا۔ دوسرا ناول ’راجپوت‘ 2010ء میں نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد نے شائع کیا۔

    عبید اللہ بیگ فارسی، عربی اور انگریزی زبانیں بھی جانتے تھے۔ ہمہ جہت شخصیت کے مالک عبید اللہ بیگ علم و ادب کے شیدائیوں کے لیے یونیورسٹی کا درجہ رکھتے تھے۔ فلسفہ، تاریخ، تہذیب و تمدن، سیاحت، ماحولیات، ادب کے ہر موضوع پر عبیداللہ بیگ کے بات کرنے کا انداز بھی منفرد اور دل چسپ تھا۔

    22 جون 2012ء کو عبید اللہ بیگ نے دارِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور وفات سے چند ماہ پہلے پیٹ کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ وہ ڈی ایچ اے گزری قبرستان میں سپردِ خاک کیے گئے۔