Tag: افتخار قیصر

  • یومِ وفات:‌ صرف ایک مزاحیہ مکالمہ افتخار قیصر کی ملک گیر شہرت کا سبب بن گیا

    یومِ وفات:‌ صرف ایک مزاحیہ مکالمہ افتخار قیصر کی ملک گیر شہرت کا سبب بن گیا

    افتخار قیصر کا یہ مکالمہ ‘اب میں‌ بولوں کہ نہ بولوں‌’ آپ کی سماعتوں میں بھی محفوظ ہو گا۔ وہ صدارتی ایوارڈ یافتہ فن کار تھے اور انھیں ایک اداکار ہی نہیں شاعر اور ادیب کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ 2017 میں افتخار قیصر آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

    افتخار قیصر مزاحیہ انداز میں‌ ادا کیے گئے اپنے مکالمے کی بدولت پی ٹی وی کے ناظرین میں مقبول ہوئے۔ افتخار قیصر نے فن کی دنیا کو اپنی زندگی کے تقریباً 40 سال دیے۔ وہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے فن کار تھے جنھوں نے مقامی زبان میں پروگرام سے اپنا کریئر شروع کیا تھا۔

    افتخار قیصر کم عمری میں ‘نندارہ’ کے عنوان سے پروگرام کا حصّہ بنے اور اس کے بعد ٹیلی ویژن پر پشاور سینٹر کے ہندکو زبان میں‌ پروگرام ‘دیکھتا جاندارہ’ میں اپنی مزاحیہ اداکاری سے ناظرین کو محظوظ کیا۔ افتخار قیصر ایک ایسے مزاحیہ اداکار تھے جس نے صرف ایک مکالمہ ادا کرکے پاکستان بھر میں لوگوں کو متوجہ کرلیا۔ اسی مکالمے پر اردو میں ایک ٹی وی پروگرام کا آغاز بھی کیا گیا جو بہت مقبول ہوا۔ اس پروگرام ‘اب میں بولوں کہ نہ بولوں’ کے تمام مکالمے وہ خود لکھا کرتے تھے اور یہ طنز و مزاح پر مبنی پروگرام تھا۔

    افتخار قیصر کی زندگی کے آخری ایّام نہایت کسمپرسی اور تکلیف میں بسر ہوئے۔ انھیں ذیابیطس کا مرض اور بلڈ پریشر کی شکایت تھی اور موت سے چند روز قبل برین ہیمرج بھی ہوا تھا۔ فن کار افتخار قیصر کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ اردو، پشتو، ہندکو، فارسی، پنجابی، سرائیکی اور پوٹھوہاری جانتے تھے۔

  • اپنے ایک مزاحیہ مکالمے سے ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے افتخار قیصر کی برسی

    اپنے ایک مزاحیہ مکالمے سے ملک گیر شہرت حاصل کرنے والے افتخار قیصر کی برسی

    آج صدارتی ایوارڈ یافتہ فن کار افتخار قیصر کی برسی ہے۔ وہ 2017 میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    افتخار قیصر کی شہرت اور مقبولیت کا سبب ان ایک مکالمہ ‘اب میں بولوں کہ نہ بولوں’ تھا۔ افتخار قیصر کا فنی کریئر تقریباً 40 سال پر محیط رہا۔

    افتخار قیصر کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔ وہ ایک ورسٹائل اداکار، شاعر اور ادیب بھی تھے۔

    انھوں نے کم عمری میں مشہور پروگرام ‘نندارہ’ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا جس کے بعد پشاور ٹیلی ویژن کے ایک ہندکو پروگرام ‘دیکھتا جاندارہ’ میں انھوں نے مزاحیہ اداکاری کرکے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ بعد کے برسوں میں انھیں مزاحیہ اداکار کے طور پر شہرت ملی اور وہ ایسے خوش نصیب فن کار تھے جن کا صرف ایک مکالمہ دنیا بھر میں ان کی شناخت بن گیا۔

    اسی مکالمے پر اردو میں ایک ٹی وی پروگرام کا آغاز بھی کیا گیا جو بہت مقبول ثابت ہوا۔ اس پروگرام ‘اب میں بولوں کہ نہ بولوں’ کے تمام مکالمے وہ خود لکھا کرتے تھے اور یہ طنز و مزاح پر مبنی ہوتے تھے۔

    مرحوم کی زندگی کے آخری ایّام نہایت کسمپرسی اور تکلیف میں بسر ہوئے۔ انھیں ذیابیطس اور بلڈ پریشر تھا اور موت سے چند روز قبل برین ہیمرج بھی ہوا تھا۔

    افتخار قیصر کو کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ وہ اردو، پشتو، ہندکو، فارسی، پنجابی، سرائیکی اور پوٹھوہاری جانتے تھے۔