Tag: افریقہ

  • افریقہ : غیرقانونی تارکین وطن کی کشتی الٹ گئی، 25 ہلاک

    افریقہ : غیرقانونی تارکین وطن کی کشتی الٹ گئی، 25 ہلاک

    نیروبی : افریقہ کے سمندر میں اسمگلروں کی ایک کشتی الٹنے کے نتیجے میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔ ہلاک ہونے والے تمام افراد غیرقانونی تارکین وطن تھے۔

    اس حوالے سے اقوام متحدہ کے مہاجرین کے ادارے آئی او ایم کے مطابق کشتی الٹنے کا تین ماہ میں یہ تیسرا واقعہ ہے۔ حادثہ کوموروس کے دو جزیروں کے درمیان گزشتہ رات پیش آیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق وہاں موجود مقامی مچھیروں نے اپنی مدد آپ کے تحت فوری کارروائی کرتے ہوئے 5افراد کو ڈوبنے سے بچا لیا۔

    آئی او ایم کوموروس نے ایک بیان میں کہا کہ آئی او ایم کوموروس کو یہ بات جان کر دکھ ہوا کہ اسمگلرز کی جانب سے جان بوجھ کر کشتی کو ڈبویا گیا۔

    کشتی الٹنے کے باعث کم از کم 25 افراد ہلاک ہوگئے جس میں تقریباً 30 افراد سوار تھے ان افراد کا تعلق مختلف قومیتوں سے تھا جن میں سات خواتین اور چار بچے بھی شامل تھے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل ستمبر میں بھی ایک کشتی جس میں 12 افراد سوار تھے، انجوان سے روانہ ہو کر مایوٹ تک پہنچنے میں ناکام رہی تھی۔ جبکہ اگست میں ایک اسی طرح کے واقعے میں آٹھ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ آئی او ایم  نے مزید کہا کہ 2011 سے مایوٹ تک پہنچنے کی کوشش میں اب تک ہزاروں افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

    مزید پڑھیں : کشتی میں چھپ کر اسپین جانے والے 4 پاکستانی دم گھٹنے سے جاں بحق

    یاد رہے کہ غیر قانونی طریقے سے اسپین جانے کی کوشش کرنے والے 4 پاکستانی کشتی میں دم گھٹنے سے جاں بحق ہوگئے۔

    اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ جاں بحق ہونے والوں میں ایک نوجوان کا تعلق پاکستان کے شہر وزیرآباد کی جناح کالونی سے ہے۔

    چاروں نوجوانوں کی ہلاکت دم گھٹنے سے ہوئیں، کشتی موریطانیہ سے اسپین جا رہی تھی۔ حادثے میں جاں بحق وزیر آباد سے تعلق رکھنے والے نوجوان ابوھریرہ کی دو سال قبل شادی ہوئی تھی۔

  • جنوبی افریقہ ویسٹ انڈیز کو ہرا کر سیمی فائنل میں پہنچ گیا

    جنوبی افریقہ ویسٹ انڈیز کو ہرا کر سیمی فائنل میں پہنچ گیا

    آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے اہم میچ سنسنی خیز مقابلے کے بعد جنوبی افریقہ نے ویسٹ ایڈیز کو شکست دے کرسیمی فائنل میں رسائی حاصل کرلی۔

    سپر ایٹ کے گروپ 2 میں شامل دونوں ٹیمیں نارتھ ساؤنڈ میں آمنے سامنے تھیں، جہاں جنوبی افریقہ نے ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ کیا تھا۔

    ویسٹ انڈیز کی ٹیم پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں 8 وکٹوں کے نقصان پر 135 رنز اسکور کرسکی اور جنوبی افریقہ کو جیت کے لیے 136 رنز کا ٹارگٹ دیا۔

    روسٹن چیز 52، کائل مائرز 35 اور آنڈرے رسل 15 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے، جبکہ الزاری جوزف 11 رنز بنا کر ناؤٹ رہے، اس کے علاوہ کوئی کھلاڑی ڈبل فیگر میں داخل نہیں ہو سکا۔

    جنوبی افریقہ کی جانب سے تبریز شمسی نے 3، مارکو جانسن، ایڈن مارکرم، کیشو ماہراج اور کگیسو رباڈا نے ایک ایک کھلاڑی کو پویلین کی راہ دکھائی۔

    جنوبی افریقہ نے ہدف کے تعاقب میں اپنی اننگز کا آغاز کیا تو 2 اوورز کے بعد بارش ہو گئی اور کھیل روک دیا گیا، جس کی وجہ سے جنوبی افریقہ کو 17 اوورز میں جیت کے لیے 123 رنز کا ہدف ملا۔

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: کوئنٹن ڈی کک کا بڑا کارنامہ

    جنوبی افریقہ کے ٹرسٹن اسٹبز 29، ہنرک کلاسن 22، کپتان ایڈن مارکرم 18 اور کوئنٹن ڈی کک 12 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جبکہ مارکو جانسن نے ناقابل شکست 21 اسکور کئے۔

  • ’پاکستان میں سیلاب کے باعث بیماریاں مختلف سطح پر چلی گئی ہیں‘

    ’پاکستان میں سیلاب کے باعث بیماریاں مختلف سطح پر چلی گئی ہیں‘

    عالمی امدادی ادارہ گلوبل فنڈ نے خبر دار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث متعدی امراض میں اضافہ ہوگا، پاکستان میں سیلاب کے باعث بیماریاں مختلف سطح پر چلی گئی ہیں۔

    خبر رساں ادارے کے مطابق گلوبل فنڈ کے ڈائریکٹر پیٹر سینڈز نے کہا کہ رواں سال کے دوران ماحولیاتی تبدیلیوں کے صحت پر بڑھتے ہوئے اثرات سامنے آئے ہیں جبکہ سیلاب اور طوفانوں میں اضافے کے باعث ملیریا کے کیسز میں بھی اضافہ ہوا۔

    گلوبل فنڈ کے ڈائریکٹر پیٹر سینڈز کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے تو (بیماریاں) ایک مختلف سطح پر چلی گئی ہیں، ماحولیاتی تبدیلیوں کے متعدی بیماریوں پر اثرات ہی اموات کا سبب بنیں گے۔

    گلوبل فنڈ کے ڈائریکٹر نے کہا کہ افریقہ کے وہ علاقے جو ملیریا سے متاثر نہیں تھے، وہاں بھی درجہ حرارت میں اضافے اور مچھروں کی افزائش سے بیماری کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ رہا ہے۔

    ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ ان علاقوں کے رہائشیوں میں  بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت نہ ہونے کی وجہ سے بھی اموات میں اضافے کا خطرہ ہوتا ہے۔

     پیٹر سینڈز نے صورتحال کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بے گھر افراد میں ٹی بی کے علاوہ دیگر بیماریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ایسے میں جب انتہائی دباؤ کا شکار افراد خوراک اور چھت کے بغیر ایک ساتھ رہ رہیں ہوں تو ٹی بی جیسی بیماریوں کے پھلنے کا موقع زیادہ ہوتا ہے۔

    انکا مزید کہنا تھا کہ جتنا زیادہ موحولیاتی تبدیلیوں کے باعث لوگ نقل مکانی کریں گے، اتنا ہی زیادہ ایسے حالات پیدا ہوں گے جو بیماریوں کی افزائش کا سبب بنیں گے۔

  • افریقہ میں رنگ گورا کرنے والی کریموں سے اسکن کینسر پھیلنے لگا

    افریقہ میں رنگ گورا کرنے والی کریموں سے اسکن کینسر پھیلنے لگا

    دنیا بھر میں رنگ گورا کرنے والی کریمز خواتین میں بے حد مقبول ہیں تاہم وقتاً فوقتاً ان کریمز کے نقصانات سامنے آتے رہتے ہیں، حال ہی میں کئی افریقی ممالک میں ایسی کریمز کے استعمال سے جلد کے کینسر کے کیسز سامنے آئے ہیں۔

    اپنے چہرے کو سورج کی تیز شعاعوں سے بچانے کے لیے بڑے ہیٹ کا استعمال کرنے والی افریقی ملک کیمرون کی 63 سالہ جین اب جلد کے کینسر کی تشخیص کے بعد جلد کو گورا کرنے والی مصنوعات استعمال کرنے پر پچھتا رہی ہیں۔

    جین کیمرون کی ان خواتین میں سے ای ہیں جنہوں نے ایسی متنازع مصنوعات کا استعمال کیا جن پر سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد پابندی لگ چکی ہے۔

    دارالحکومت یاؤندے میں اس طرح کی مصنوعات فروخت کرنے والی ایک خاتون دکان دار کا کہنا ہے کہ جب لوگ میری طرف دیکھتے ہیں تو مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔

    دوسری جانب 5 مہینوں میں چہرے پر ایک زخم کے بڑھنے کے بعد جین ایک ڈاکٹر کے پاس گئیں، جس نے ان میں کینسر کی تشخیص کی، ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ انہیں کینسر 40 برس سے جلد کو گورا والی مصنوعات کے استعمال سے ہوا ہے۔

    جین جیسے کروڑوں افراد اس دنیا میں ہیں جو رنگت گورا کرنے والی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں۔

    کیمرون ڈرمٹالوجی سوسائٹی کے مطابق سنہ 2019 میں اقتصادی دارالحکومت ڈوالا کے تقریباً 30 فیصد رہائشیوں اور اسکول کی ایک چوتھائی لڑکیوں نے رنگ گورا کرنے والی مصنوعات کا استعمال کیا۔

    20 سالہ طالب علم اینیٹ جیسے کچھ افراد کے لیے ایسی مصنوعات کے اثرات کافی نقصان دہ ہوتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ان کے چہرے پر سرخ دھبے پڑ گئے ہیں، جلد چھیل رہی ہے اور جل رہی ہے۔ سورج کی تیز روشنی میں میرا چہرہ گرم ہو جاتا ہے اور مجھے رکنا پڑتا ہے۔

    وائٹ ناؤ اور سپر وائٹ جیسے ناموں والی مصنوعات کو فوری طور پر دکان کی شیلفوں پر ان کی پیکجنگ پر آویزاں صاف رنگت کی خواتین کی تصویروں سے پہچانا جا سکتا ہے۔

    یہ ہنگامہ موسم گرما میں اس وقت شروع ہوا جب سوشل میڈیا صارفین نے حزب اختلاف کی رکن پارلیمنٹ نورین فوٹسنگ کی رنگ گورا کرنے والی مصنوعات فروخت کرنے والی کمپنی پر تنقید کی۔

    عموماً بہت ساری مصنوعات کا سائنسی طور پر کبھی تجزبہ نہیں کیا گیا، ان میں خطرناک سطح کے کیمیکل ہوتے ہیں جو میلانین کی پیداوار کو روکتے ہیں، یہ مادہ سورج کی گرمی سے جسم میں پیدا ہوتا ہے۔

    ان کیمیکلز میں سے ایک ہائیڈروکوئنون ہے، جس پر یورپی یونین نے سنہ 2001 میں کینسر اور جینیاتی تغیرات کے خطرے کی وجہ سے پابندی عائد کی تھی۔

    کیمرون کی وزارت صحت نے رواں برس 19 اگست کو کاسمیٹک اور ذاتی حفظان صحت سے متعلق ایسی مصنوعات کی درآمد، پیداوار اور تقسیم پر پابندی عائد کر دی تھی، جن میں ہائیڈروکوئنون اور مرکری جیسے خطرناک مادے ہوتے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق رنگ گورا کرنے والی مصنوعات عام طور پر بہت سے افریقی، ایشیائی اور کیریبیئن ممالک میں خواتین اور مرد دونوں ہی استعمال کرتے ہیں۔ یورپ اور شمالی امریکا میں سیاہ رنگت والے افراد بھی ایسی مصنوعات استعمال کرتے ہیں۔

    خوفناک نتائج کے باوجود مرد اور خواتین اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ ان مصنوعات کے استعمال کے بعد وہ مزید خوبصورت ہو جائیں گے۔

  • ہاتھیوں کا عالمی دن: سفید سونا جس نے ہاتھیوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی

    ہاتھیوں کا عالمی دن: سفید سونا جس نے ہاتھیوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی

    اردو زبان میں ایک کہاوت ہے، ہاتھی زندہ ہو تو لاکھ کا، مرا ہوا ہو تو سوا لاکھ کا۔ یہ جملہ عموماً کسی انسان، مقام یا شے کی قدر و قیمت کو ظاہر کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، لیکن ہاتھی کے پاس ایسا کیا ہے جس نے اسے اس قدر بیش قیمت جانور بنا دیا ہے؟

    ہاتھی کو یہ دولت اس کے لمبے دانتوں کی صورت میں حاصل ہے، ہاتھی دانت جسے سفید سونا بھی کہا جاتا ہے دنیا کی بیش قیمت ترین دھاتوں میں سے ایک ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کوکین یا سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

    اور اسی قیمتی دولت نے ہاتھی کی نسل کو خطرات لاحق کردیے۔

    ہاتھیوں کی حفاظت کے بارے میں آگاہی کے لیے آج 12 اگست کو ہاتھی کا دن منایا جارہا ہے، اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 2012 میں کیا گیا۔

    ہاتھی دانت جسے زیورات، مجسمے اور آرائشی اشیا بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے، خوبصورت اور شفاف ہونے کی وجہ سے نہایت مہنگا ہے اور دولت مند افراد اسے منہ مانگے داموں خریدنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

    براعظم افریقہ ہاتھی دانت کی فراہمی کا اہم مرکز رہا جہاں غربت اور ہاتھیوں کی بہتات کی وجہ سے ہاتھی دانت کی خرید و فروخت سہل ترین کاروبار بنتی چلی گئی، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہاتھیوں کی تعداد خطرناک حد تک گھٹ گئی۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق صرف ایک صدی قبل افریقہ میں 1 کروڑ جبکہ ایشیا میں 1 لاکھ ہاتھی موجود تھے، لیکن اب ان کی تعداد تشویش ناک حد تک کم ہوچکی ہے۔

    سال 2021 تک جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں اب صرف 5 لاکھ ہاتھی ہی بچے ہیں جن میں سے 4 لاکھ 15 ہزار ہاتھی افریقہ اور تقریباً 40 ہزار ایشیا میں موجود ہیں۔

    ماہرین کے مطابق ہاتھی دانت کی قانونی و غیر قانونی تجارت ہاتھیوں کی بقا کے لیے شدید خطرہ بن گئی تھی اور یہ نہ صرف ہاتھیوں کی نسل کو ختم کر سکتی تھی بلکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم غیر قانونی کاموں میں بھی استعمال کی جارہی تھی۔

    ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت کو کئی عالمی جرائم پیشہ منظم گروہوں کی سرپرستی بھی حاصل رہی۔

    ایک اندازے کے مطابق افریقہ میں ہر سال ہاتھی دانت کے حصول کے لیے 40 ہزار ہاتھیوں کا شکار کیا جاتا رہا۔

    ہاتھی دانت کی تجارت کے لیے کچھ عرصہ قبل تک چین اور امریکا دنیا کی 2 بڑی مارکیٹیں سمجھی جاتی تھیں، دنیا بھر میں جمع کیا جانے والا ہاتھی دانت کا 50 سے 70 فیصد حصہ چین میں اسمگل کیا جاتا تھا۔

    تاہم ہاتھی کی نسل کو لاحق خطرات دیکھتے ہوئے دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی تجارت کے خلاف سخت اقدامات کیے گئے، اس حوالے سے افریقی ممالک کی کوششیں قابل ذکر ہیں جن کی سیاحت جنگلی حیات پر مشتمل ہے اور ہاتھی اس کا ایک اہم حصہ ہے۔

    سنہ 2015 میں افریقہ میں ایک ’جائنٹ کلب فورم‘ بھی بنایا گیا جس کے پہلے ہی اجلاس میں افریقی رہنماؤں، تاجروں اور سائنسدانوں نے دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔

    خود افریقی ممالک میں بھی ہاتھی سمیت دیگر جنگلی حیات کے شکار پر سخت سزائیں متعارف کروا دی گئیں، سنہ 2018 میں چین نے جرات مندانہ قدم اٹھاتے ہوئے ملک میں چلنے والی ہاتھی دانت کی تمام مارکیٹس بند کرنے کا اعلان کردیا اور ملک میں ہاتھی دانت کی تجارت کو غیر قانونی قرار دے دیا۔

    سنگا پور اور ہانگ کانگ نے بھی ہاتھی دانت کی تجارت پر پابندی لگا دی تاہم امریکا، برطانیہ، جاپان اور تھائی لینڈ میں اب بھی قانونی طور پر سفید سونے کی تجارت جاری ہے۔

  • صومالیہ: خود کش دھماکے میں، میئر سمیت 20 ہلاک

    صومالیہ: خود کش دھماکے میں، میئر سمیت 20 ہلاک

    موغادیشو: صومالیہ میں ایک خود کش دھماکے میں 20 ہلاک ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق افریقی ملک صومالیہ میں خود کش دھماکے کے نتیجے میں بیس افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔

    صومالی حکام کا کہنا ہے کہ زیریں شبیل کے علاقے میں بدھ کو ہونے والے 2 دھماکوں میں علاقے کے دارالحکومت کے میئر سمیت کم از کم بیس افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

    شدت پسند تنظیم الشباب نے خود کش حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔

    پہلا حملہ خود کش تھا جس میں صومالیہ کے زیریں شبیل علاقے کے دارالحکومت مرکا قصبے میں اہل کاروں کو نشانہ بنایا گیا، دھماکے میں قصبے کے میئر عبداللہ علی وافو اور میئر کے مشیروں سمیت 12 دیگر افراد ہلاک ہوئے۔

    بدھ کو ایک دوسرے واقعے میں، افگوئے قصبے میں مویشیوں کی ایک مصروف منڈی میں بم کا دھماکہ ہوا، پولیس کا کہنا تھا کہ یہ ایک بارودی سرنگ کا دھماکا تھا، جس میں 7 افراد ہلاک ہوئے۔

    اپنے فیس بک پیج پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں، جنوب مغربی ریاست کے صدر عبدالعزیز حسن محمد نے الشباب اور خودکش حملہ آور کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خود کش حملہ آور مسلمان نہیں ہو سکتا جس نے صومالی عوام کو مارا۔

    انھوں نے مزید کہا کہ خود کش بمبار آج صومالیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، جلد یہ پڑوسی ممالک میں دھماکے کریں گے، اس لیے ہمیں مل کر ان دہشت گردوں کے خلاف اقدامات کرنے ہوں گے۔

  • سمندر سے محروم ”ملاوی“ کی کہانی

    سمندر سے محروم ”ملاوی“ کی کہانی

    جمہوریہ ملاوی، جسے ماضی میں ”نیسا لینڈ“ کہا جاتا تھا، سمندر سے محروم ملک ہے۔

    افریقا کے جنوب مشرق واقع یہ ملک سطح مرتفع اور جھیلوں کی خوب صورت سرزمین رکھتا ہے جس کے شمال میں تنزانیہ، مشرق اور جنوب میں موزمبیق اورمغرب میں زمباوے واقع ہے۔ اس مختصر سی مملکت کا کل رقبہ 46 ہزارمربع میل سے کچھ کم ہے جب کہ اس رقبہ میں ایک بہت بڑی جھیل بھی شامل ہے جس کا مقامی نام تو کچھ اور ہے لیکن دنیا کے نقشوں پر اسے ”ملاوی جھیل“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    ایک زمانے تک ”زومبا“ اس مملکت کا دارُالحکومت تھا جو ملک کے جنوب میں واقع تھا لیکن 1975ء کے بعد سے نسبتاََ وسطی علاقے کا شہر”للونگوے“ یہاں کا دارُالحکومت ہے، یہ شہر ملک کا صنعتی اور کاروباری مرکز بھی ہے۔ اس سرزمین پر انسانی قدموں کی تاریخ پچاس ہزار سال قدیم ہے۔

    ”بنٹو“ زبان بولنے والے قبائل نے یہاں تیرہویں صدی سے پندرہویں صدی کے درمیان حکومت کی ہے، ان خاندانوں کا طرّۂ امتیاز ہے کہ انہوں نے تعلیم و تعلم کی اس قدر سرپرستی کی کہ اس دوران اور اس کے بعد کی مکمل تاریخ رقم کی گئی اور بہت کچھ جزیات تک بھی کتابوں میں میسر ہیں جب کہ افریقا جیسی سرزمین پر اس حد تک معلومات کی فراہمی شاذ و نادر ہی ہوا کرتی ہے۔

    اٹھارویں صدی کے آخر میں یورپی فاتحین نے یہاں یلغار کی اور ان کا مقصد انسانوں کے شکار کے ذریعے غلاموں کی فراہمی تھا، چنانچہ جب تک یورپی سامراج یہاں رہا ”ملاوی“ کا علاقہ غلام فراہم کرنے والی بہت بڑی منڈی بنا رہا۔ 6 جولائی 1964ء کو ملاوی نے آزادی پائی۔

    آبادی میں اضافے کی شرح پورے براعظم افریقا میں یہاں سب سے زیادہ ہے۔ اس ملک میں شہری زندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور آبادی کی اکثریت دیہات میں ہی رہتی ہے۔

    ملاوی کا نصف علاقہ قابلِ زراعت ہے اور لگ بھگ اتنے ہی علاقے پر وسیع و عریض جنگلات قائم ہیں۔ ملاوی کی جھیل یہاں پانی کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اسی کے کنارے پر غلاموں کی خرید و فروخت کا بہت بڑا مرکز تھا جو اب ایک طرح سے بندرگاہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ تمباکو، چائے اور گنّا یہاں کی نقد آور فصلیں ہیں۔ زرعی ترقی کے باعث ملاوی افریقہ کا واحد ملک ہے جو خوراک میں خود کفیل ہے۔ یہاں کی آبادی میں افریقا کی تقریباََ تمام زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ”چچوا“ یہاں کی مقامی و قومی زبان ہے اور کم و بیش دو تہائی اکثریت یہ زبان بولتی ہے۔ برطانوی سامراجی حکومت کی باقیات کے طور پر انگریزی کو دفتری زبان کا درجہ حاصل ہے اور پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت انگریزی سے بھی شناسا ہے۔

    افریقی جنگلوں کی طرح یہاں بھی چیتے، شیر، ہاتھی اور زیبرے کثرت سے پائے جاتے ہیں اور کسی حد تک ان کے شکار کی اجازت بھی ہے۔

    (مترجم: ڈاکٹر ساجد خاکوانی)

  • افریقی سوشل میڈیا اسٹار علی ظفر کے گانے پر جھوم اٹھے

    افریقی سوشل میڈیا اسٹار علی ظفر کے گانے پر جھوم اٹھے

    معروف پاکستانی گلوکار علی ظفر کا گانا جھوم گو کہ کئی سال پہلے ریلیز کیا گیا تھا لیکن وہ اب ایک بار پھر سے مشہور ہورہا ہے۔

    عالمی شہرت یافتہ سوشل میڈیا اسٹار کلی پال بھی علی ظفر کے گانے پر جھوم اٹھے۔

    تنزانیہ سے تعلق رکھنے والے سوشل میڈیا اسٹار کلی پال اور ان کی بہن نے اس مرتبہ پاکستان کے معروف گلوکار علی ظفر کے مشہور گانے جھوم کا انتخاب کیا اور اس پر لپسنگ ویڈیو بنائی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Kili Paul (@kili_paul)

    کلی پال نے علی ظفر کے گانے کے لیے پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی پوسٹ کے کیپشن میں جھوم کو ماسٹر پیس قرار دیتے ہوئے اپنی پوسٹ میں انہیں ٹیگ بھی کیا۔

  • جب اسکول کے درجنوں بچوں نے اڑن طشتری اترتے ہوئے دیکھی

    جب اسکول کے درجنوں بچوں نے اڑن طشتری اترتے ہوئے دیکھی

    اڑن طشتری اور خلائی مخلوق کے بارے میں دنیا میں ان گنت دعوے موجود ہیں، سینکڑوں افراد اڑن طشتریوں کو دیکھنے کا دعویٰ کر چکے ہیں۔

    ایسا ہی ایک دعویٰ ایک اسکول کے 62 بچوں نے بھی کیا تھا جس کے بعد ابلاغ عامہ میں ہلچل مچ گئی تھی۔

    16 ستمبر 1994 کو افریقی ملک زمبابوے کے ایک اسکول کے 62 بچوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے اسکول کے باہر اڑن طشتری اتری ہے۔

    بچوں کا کہنا تھا کہ ایک چپٹی جسامت کی شے ان کے اسکول کے باہر میدان میں آسمان سے اتری۔

    اڑن طشتری کو دیکھنے کا دعویٰ اب تک مغرب میں تو بہت سے افراد نے کیا تھا لیکن افریقہ میں ایسا دعویٰ کم ہی سامنے آیا تھا چنانچہ بین الاقوامی میڈیا میں اسے خاصی مقبولیت ملی۔

    اس واقعے پر ایک دستاویزی فلم ایریل فینامنن بھی بنائی گئی تھی جس میں کچھ بچوں کے انٹرویو کیے گئے۔

    ماہرین کے مطابق اتنی زیادہ تعداد کے بچوں کا ایک ساتھ کسی غیر موجود شے کو دیکھنا ماس ہسٹیریا بھی ہوسکتا ہے جس میں ایک شخص دوسرے کا تصور سن کر اسے اپنا تصور خیال کرنے لگتا ہے۔

    بچوں میں یہ کیفیت زیادہ ہوسکتی ہے۔

    ماہرین آج تک اس واقعے کی کوئی توجیہہ پیش کرنے میں ناکام ہیں۔

  • براعظم افریقہ کا حسن، جنگلی جانور معدوم ہونے کے قریب

    براعظم افریقہ کا حسن، جنگلی جانور معدوم ہونے کے قریب

    حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ براعظم افریقہ میں جنگلی جانور معدوم ہو رہے ہیں، تحقیق کے مطابق انسانی سرگرمیوں کے باعث سنہ 2100 کے اواخر تک افریقی ممالیہ جانوروں اور پرندوں کی نصف نسلیں معدوم ہوسکتی ہیں۔

    دنیا بھر سے 550 ماہرین کی تیار کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حیاتی نظام کے تنوع میں کمی سے انسانی کا معیار زندگی متاثر ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں یورپ اور وسطی ایشیا میں زمین پر بسنے والے جانوروں اور پودوں میں 42 فیصد کمی آئی ہے۔

    یہ اعداد و شمار دنیا کے آخری نر شمالی سفید گینڈے کی موت کے بعد سامنے آئے ہیں۔ ان انکشافات کے باوجود تحقیق میں کئی جنگلی حیات میں کامیاب اضافے کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

    انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آف بائیو ڈائیورسٹی ایںڈ ایکوسسٹم سروسز (آئی پی بی ای ایس) کے مطابق چین اور شمال مشرقی ایشیا میں سنہ 1990 اور 2015 کے درمیان برساتی جنگلوں میں 20 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

    تحقیق سے یہ بھی سامنے آیا کہ ماضی میں معدومی کا شکار ہونے والے آمور تیندوے کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

    کولمبیا میں بائیو ڈائیورسٹی سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے برطانوی سائنس دان سر رابرٹ واٹسن کا کہنا ہے کہ ہمیں اس عمل کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے اور قدرت کے غیرمستحکم استعمال سے پلٹنا ہوگا ورنہ پھر ہم جو مستقبل چاہتے ہیں اس کو خطرے کا سامنا ہوگا۔

    اس تحقیق میں 10 ہزار سے زائد سائنسی مضامین کا جائزہ لیا گیا اور اسے سنہ 2005 کے بعد حیاتی نظام پر سب سے جامع تحقیق کہا جا رہا ہے۔

    خوراک اور پانی کے حوالے سے لاحق خطرات میں آلودگی، موسمی تبدیلی اور جنگلات کا کٹاؤ سر فہرست ہیں۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے حکومتیں، کاروبار اور انفرادی طور پر افراد جب کھیتی باڑی، ماہی گیری، جنگلات، کان کنی یا انفراسٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے فیصلے کریں تو وہ ان کے حیاتی نظام پر اثرات کو بھی ضرور ملحوظ خاطر رکھیں۔