Tag: افریقہ

  • تمام افریقی ممالک اپنی کرنسی چھاپنے سے قاصر، پھر ان کی کرنسی کہاں چھپتی ہے؟

    تمام افریقی ممالک اپنی کرنسی چھاپنے سے قاصر، پھر ان کی کرنسی کہاں چھپتی ہے؟

    کسی ملک کی کرنسی اس قوم کی شناخت کا ایک علامتی عنصر ہوتی ہے، لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت براعظم افریقہ کے تمام ممالک اپنی کرنسی چھاپنے سے قاصر ہیں اور اس کے لیے دیگر ممالک کی خدمات لیتے ہیں؟

    گزشتہ برس جولائی میں گیمبیا کے ایک وفد نے ہمسایہ ملک نائجیریا کے مرکزی بینک کا دورہ کیا اور درخواست کی کہ وہ انہیں اپنے پاس موجود گیمبیا کی کرنسی دلاسی فراہم کریں تاکہ ملک میں نوٹوں کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔

    مسئلہ یہ تھا کہ گیمبیا اپنی ملکی کرنسی خود پرنٹ نہیں کرتا بلکہ اس نے ملکی لیکوئیڈ کرنسی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے برطانیہ کو آرڈر کر رکھا تھا اور اس آرڈر میں ابھی تاخیر تھی۔

    اس ملک میں پیدا ہونے والی نوٹوں کی کمی کا یہ معاملہ ملک کی معیشت کے ایک دلچسپ پہلو کو نمایاں کرتا ہے۔ گیمبیا ایک خود مختار ملک ہے لیکن کرنسی کی پیداوار کے حوالے سے اس کا انحصار کسی دوسرے ملک پر ہے۔

    تاہم گیمبیا اس معاملے میں تنہا نہیں ہے، براعظم افریقہ کے 54 ممالک میں سے دو تہائی سے زیادہ ملک اس وقت اپنے نوٹ بیرون ملک چھاپتے ہیں، بنیادی طور پر یورپی اور شمالی امریکی ممالک میں۔

    برطانوی کرنسی پرنٹنگ کمپنی ڈی لا رو، سویڈن کی کرین اے بی اور جرمنی کی گیزیکے پلس ڈیورینٹ ایسی ٹاپ نجی کمپنیوں میں شامل ہیں، جنہوں نے افریقی ممالک کی قومی کرنسیاں پرنٹ کرنے کی معاہدے کر رکھے ہیں۔

    یہ بات بہت سے لوگوں کو حیران کر سکتی ہے کہ تقریباً تمام افریقی ممالک اپنی کرنسیاں درآمد کرتے ہیں اور بہت سے لوگوں کے لیے یہ حقیقت قومی فخر اور قومی سلامتی پر سوالات اٹھاتی ہے۔

    کئی افریقی ماہرین کا کہنا ہے کہ جو ممالک اپنی کرنسیاں خود پرنٹ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ بدعنوان افسران کا شکار ہو سکتے ہیں یا پھر ہیکروں کا، جو کرنسی کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ان ماہرین کی رائے میں بہت سے معاملات میں آؤٹ سورسنگ یا غیر ملکی کمپنیوں سے پیسہ پرنٹ کروانا زیادہ محفوظ ہے۔

    لیکن نوٹ درآمد کرنے کے حوالے سے بھی کئی چیلنجز کا سامنا رہتا ہے۔ سنہ 2018 میں سویڈن سے بھیجے گئے لائبیرین ڈالر کے کنٹینرز غائب ہو گئے تھے لیکن بعد ازاں اس کی ذمہ داری حکومت پر ہی عائد کی گئی تھی۔

    اسی طرح نوٹ منتقل کرنے کے لیے خصوصی جہاز بک کیے جاتے ہیں اور اس پر بھی کافی رقم خرچ ہوتی ہے۔

    اس کے باوجود ڈی لا رو جیسی کمپنیاں سینکڑوں برسوں سے موجود ہیں اور دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے لیے بڑے پیمانے پر نوٹ چھاپتی ہیں، ان کے پاس پولیمر جیسی کرنسی کی اختراعات کے لیے ٹولز اور تجربہ ہے۔

    یہ فرمز اضافی طور پر قومی پاسپورٹ اور دیگر شناختی دستاویزات بھی تیار کرتی ہیں اور ان کمپنیوں کی سیکیورٹی سخت ہوتی ہے تاکہ ہیکرز وغیرہ سے محفوظ رہ سکیں۔

    علاوہ ازیں ان کے مقامات بھی نامعلوم ہوتے ہیں کہ نوٹ کس جگہ پرنٹ کیے جاتے ہیں۔ واٹر مارکس، تصاویر اور دیگر مشکل نقاشی، جو بینک نوٹوں میں عام طور پر ہوتے ہیں، کا مرحلہ انتہائی پیچیدہ اور مہنگا ہوتا ہے۔

    اس کے علاوہ جیسے جیسے دنیا نئی کیش لیس ٹیکنالوجیز کی طرف بڑھ رہی ہے، ویسے ہی متعدد ممالک کے لیے پیداواری لاگت اٹھانا بے معنی ہوتا جا رہا ہے۔ نئے بینک نوٹوں کی طلب میں کمی نے ڈنمارک کو بھی سنہ 2014 میں آؤٹ سورسنگ پر جانے پر مجبور کر دیا تھا اور اب یہ یورپی ملک بھی ایک دوسرے ملک میں نوٹ چھپواتا ہے۔

    لیکن کسی دوسرے ملک میں نوٹ پرنٹ کروانے کے نقصانات بھی ہیں، کچھ حکومتیں دوسرے ممالک پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے اسے بطور ہتھیار استعمال کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر اقوام متحدہ کی طرف سے لیبیا کے سابق حکمران معمر قذافی پر پابندیوں کے بعد برطانیہ نے ڈی لا رو کو لیبیائی دینار پرنٹ کرنے سے روک دیا تھا۔

    کئی افریقی ممالک اس منصوبے پر بھی کام کر رہے ہیں کہ افریقی ممالک کی کرنسی اسی براعظم میں پرنٹ کی جائے لیکن افریقی ممالک آپس میں ایک دوسرے پر اس حوالے سے کم ہی اعتبار کرتے ہیں۔ ان ممالک کو بیرون ملک بیٹھی کمپنیوں پر اعتبار زیادہ ہے۔

  • کرپٹو کرنسی: کینیا کے شہریوں کے ساتھ کروڑوں ڈالرز کا فراڈ

    کرپٹو کرنسی: کینیا کے شہریوں کے ساتھ کروڑوں ڈالرز کا فراڈ

    کرپٹو کرنسی کی بڑھتی مالیت کی وجہ سے جہاں ایک طرف تو لوگ راتوں رات امیر بن رہے ہیں، وہیں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو اس کی سرمایہ کاری کے پیچھے زندگی بھر کی جمع پونجی گنوا بیٹھے۔

    دنیا بھر کی طرح افریقہ کے پسماندہ ملک کینیا میں بھی کرپٹو کرنسی خصوصاً بٹ کوائن کو بہت مقبولیت حاصل ہے، تاہم حکومتی اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال جعل سازوں نے کرپٹو کرنسی کی آڑ میں کینیائی شہریوں کو 120 ملین ڈالر کی خطیر رقم سے محروم کردیا۔

    اس حوالے سے کینیا کی وزارت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے کیبنٹ سیکریٹری جومو کیرون کا کہنا ہے کہ لوگوں کو کرپٹوکرنسی کے بارے میں بہت کم معلومات ہے۔

    دھوکے باز گروہ شہریوں کی اسی لاعلمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گزشتہ سال ان سے لاکھوں ڈالر کی رقم لوٹ کر فرار ہوچکے ہیں۔

    حکام کا مزید کہنا تھا کہ افریقی ممالک نائجیریا، کینیا، تنزانیہ اورجنوبی افریقہ میں کرپٹو مارکیٹ کی نمو 12 سو فیصد تک بڑھ چکی ہے، ایک سال کے عرصے میں ڈیجیٹل کرنسی کی مارکیٹ 106 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔

    تجارتی حجم کے لحاظ سے کینیا دیگر افریقی ممالک کی نسبت پہلے نمبر پر ہے۔

  • افریقہ میں 23 سال بعد پولیو کیس رپورٹ

    افریقہ میں 23 سال بعد پولیو کیس رپورٹ

    للنگوے: افریقی ملک ملاوی میں 23 سال بعد پولیو کیس رپورٹ کیا گیا ہے، فی الوقت دنیا کے صرف 2 ممالک پاکستان اور افغانستان میں پولیو وائرس موجود ہے، ملاوی کو 23 سال قبل پولیو سے پاک ملک کا درجہ دیا جاچکا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق افریقی ملک ملاوی میں 23 سال بعد 3 سالہ بچی میں پولیو وائرس کی تشخیص نے عالمی ادارہ برائے صحت کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    عالمی ادارہ برائے صحت کا کہنا ہے کہ ملاوی کو 23 سال قبل پولیو سے پاک ملک کا درجہ دے دیا گیا تھا، تاہم اب وہاں ایک 3 سالہ بچی میں اس وائرس کی موجودگی پائی گئی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق ملاوی میں پولیو کا آخری کیس 1999 اور براعظم افریقہ میں 2016 میں سامنے آیا تھا۔

    ڈبلیو ایچ او افریقہ کے علاقائی ڈائریکٹر ڈاکٹر متشیدیو موئتی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ لیباریٹری میں کی گئی جانچ سے پتہ چلا کہ اس وائرس کا تعلق پاکستان میں ابھی تک گردش کرنے والی قسم سے ہے۔

    انہوں نے کہا کہ دارالحکومت للنگوے میں رپورٹ ہونے والے اس کیس میں مذکورہ بچی کی ایک ٹانگ متاثر ہوگئی ہے۔

    ڈائریکٹر کا مزید کہنا تھا کہ پولیو کے تدارک کے لیے کیے گئے سخت اقدامات کی وجہ سے فوراً اس بچی میں وائرس کی شناخت کر لی گئی ہے، اوراس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

    خیال رہے کہ اس وقت دنیا کے صرف 2 ممالک پاکستان اور افغانستان میں پولیو وائرس موجود ہے۔

  • ایبولا وائرس کے بارے میں خوفناک انکشاف

    ایبولا وائرس کے بارے میں خوفناک انکشاف

    کچھ عرصہ قبل افریقہ میں سامنے آنے والے ایبولا وائرس کے بارے میں ایک پریشان کن انکشاف ہوا ہے جس کی تصدیق دوبارہ اس کے کیسز سامنے آنے کے بعد ہوگئی ہے۔

    حال ہی میں ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ ایبولا وائرس علاج کے بعد بھی دماغ کے کسی گوشے میں کئی برس تک چھپ کر بیٹھا رہتا ہے اور غالب امکان ہے کہ مریض کو دوبارہ متاثر کر سکتا ہے۔

    سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن کی تحقیق کےمطابق ایبولا وائرس ایک جان لیوا مرض کی وجہ بنتا ہے۔ مونوکلونل اینٹی باڈیز سے اس کا علاج کیا جاتا ہے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ علاج کے بعد بھی یہ دماغ میں کہیں موجود رہتا ہے۔

    حال ہی میں افریقہ میں ایبولا کے بعض کیسز سامنے آئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا خیال اسی جانب گیا ہے، کیونکہ پہلے یہ تمام افراد ایبولا سے شفایاب ہوچکے تھے۔ یہ تحقیق امریکی آرمی کے تحقیقی مرکز برائے انفیکشن امراض کے سائنسدانوں نے کی ہے۔

    ان کے مطابق افریقی ملک گنی میں ٹھیک پانچ برس بعد 2021 کے اختتام پر ایبولا کے کئی کیسز سامنے آئے ہیں اور پہلے شفایاب ہونے والے مریض دوسری مرتبہ اس کے شکار بنے ہیں۔

    بندروں کے دماغ پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ وینٹریکل سسٹم میں ایبولا وائرس چھپا بیٹھا تھا، اس سے بندروں کو شدید دماغی سوزش کا سامنا بھی تھا۔

    اسی طرح افریقہ میں لوگوں کی خدمت کرنے والی ایک برطانوی نرس بھی شفایابی کے بعد دوبارہ ایبولا کی شکار بنی تھی جس کی تصدیق حالیہ تجربات سے ہوچکی ہے۔

  • پاکستان سفارتی حوالے سے انگیج افریقہ کی پالیسی پر گامزن ہے: وزیر خارجہ

    پاکستان سفارتی حوالے سے انگیج افریقہ کی پالیسی پر گامزن ہے: وزیر خارجہ

    اسلام آباد: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جمہوریہ کانگو کے مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف سے ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان سفارتی حوالے سے انگیج افریقہ کی پالیسی پر گامزن ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جمہوریہ کانگو کے مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف کی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات ہوئی، ملاقات میں سفارتی، اقتصادی، علاقائی اور سلامتی سے متعلقہ امور پر تبادلہ خیال ہوا۔

    وزیر خارجہ نے معزز مہمان کو پاکستان آمد پر خوش آمدید کہا۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افریقہ میں جمہوریہ کانگو کو ایک کلیدی ملک کی حیثیت حاصل ہے، انہوں نے کانگو میں پرامن جمہوری حکومت کی منتقلی پر مبارک باد بھی دی۔

    شاہ محمود قریشی نے جمہوریہ کانگو کے وزیر خارجہ کے لیے دورہ پاکستان کی دعوت کا پیغام بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان سفارتی حوالے سے انگیج افریقہ کی پالیسی پر گامزن ہے۔

    فریقین کے درمیان دفاع، تربیت اور دو طرفہ تعاون کے فروغ پر بھی گفتگو ہوئی، شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان علاقائی امن کے حوالے سے کانگو کے کردار کا معترف ہے، جمہوریہ کانگو میں قیام امن کے لیے کردار جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہیں۔

    جمہوریہ کانگو کے مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف نے بھی پاکستانی فورسز کی خدمات کو سراہا۔

  • نسل پرستی کے خلاف ایک توانا آواز خاموش، ڈیسمنڈ ٹوٹو انتقال کر گئے

    نسل پرستی کے خلاف ایک توانا آواز خاموش، ڈیسمنڈ ٹوٹو انتقال کر گئے

    کیپ ٹاؤن: نسل پرستی کے خلاف ایک توانا آواز خاموش ہو گئی، ڈیسمنڈ ٹوٹو انتقال کر گئے۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے نوبیل انعام یافتہ آرچ بشپ ڈيسمنڈ ٹوٹو کا گزشتہ روز 26 دسمبر کو انتقال ہو گیا، ان کی عمر 90 سال تھی۔

    نسلی امتیاز کے خلاف ایک آئیکون شخصیت ڈیسمنڈ ٹوٹو کی موت کے بعد انھیں خراج تحسین کے طور پر جنوبی افریقہ بھر پر ایک عمومی اداسی چھائی ہوئی ہے، نسلی امتياز کے خلاف آواز بلند کرنے کی وجہ سے ملکی و عالمی سطح پر سراہا جاتا ہے۔

    ڈيسمنڈ ٹوٹو 1948 سے 1991 تک جنوبی افریقہ میں سیاہ فام اکثریت کے خلاف سفید فام اقلیتی حکومت کی طرف سے نافذ نسلی علیحدگی اور امتیازی سلوک کی پالیسی کو ختم کرنے کی تحریک میں عالمی شہرت یافتہ رہنما نیلسن منڈیلا کے ساتھی رہے تھے۔

    ڈیسمنڈ ٹوٹو کو 1984 میں نسل پرستی کے نظام کے خاتمے کی جدوجہد میں کردار ادا کرنے پر نوبیل انعام سے نوازا گیا تھا، جنوبی افریقی صدر رامافوسا نے ان کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ نسل پرستی کے خلاف سرگرم کارکن اور انسانی حقوق کی عالمی مہم چلانے والے رہنما تھے۔

    وزیر اعظم عمران خان نے ڈيسمنڈ ٹوٹو کی موت پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ آزادی اور قومی مفاہمت میں ڈیسمنڈ ٹوٹو کا اہم کردار آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ٹوئٹر‘ پر جاری کردہ اپنے بیان میں انھوں نے کہا نیلسن منڈیلا کے معتمدِ خاص، نسلی عصبیت کے خلاف جدوجہد کے پیکر اور انسانی حقوق کے علم بردار نوبل انعام یافتہ آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو کے انتقال پر دلی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔

  • ایک اور ملک میں اومیکرون کا کیس رپورٹ

    ایک اور ملک میں اومیکرون کا کیس رپورٹ

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون دنیا کے مختلف ممالک میں پھیل رہی ہے، ایک اور افریقی ملک تیونس میں بھی اومیکرون کا کیس سامنے آگیا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق تیونس کے وزیر صحت نے کہا ہے کہ اومیکرون ویرینٹ کا پہلا کیس سامنے آگیا ہے، متاثرہ شخص استنبول سے تیونس پہنچا تھا۔

    وزیر صحت علی مرابط کا کہنا ہے کہ کانگو کے 23 سالہ شخص کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے، ترکی سے آنے والی پرواز کے تمام مسافروں نے بھی تیونسی حکام سے رابطہ کیا ہے تاکہ ان کا بھی ٹیسٹ کیا جائے۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ اس نے کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے کیسز دنیا کے 38 ممالک میں سامنے آئے ہیں تاہم اس سے کوئی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی ہے۔

    ڈبلیو ایچ او کے مطابق وہ تشویش کا باعث بننے والے ویریئنٹ کے بارے میں شواہد اکٹھے کر رہا ہے کیونکہ دنیا بھر کے ممالک اسے پھیلنے سے روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

  • دوسری پاکستان افریقہ تجارتی کانفرنس نائیجیریا میں ہوگی: مشیر تجارت

    دوسری پاکستان افریقہ تجارتی کانفرنس نائیجیریا میں ہوگی: مشیر تجارت

    اسلام آباد: مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ دوسری پاکستان افریقہ تجارتی کانفرنس نائیجیریا میں ہوگی، وزارت تجارت متنوع اور جیوگرافک برآمدات کے لیے کوشاں ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد کا کہنا ہے کہ دوسری پاکستان افریقہ تجارتی کانفرنس نائیجیریا میں ہوگی، تجارتی کانفرنس 23 نومبر سے 25 نومبر تک لے گوس میں ہوگی۔

    مشیر تجارت کا کہنا ہے کہ پاکستان سے 100 سے زائد کمپنیاں تجارتی کانفرنس میں شرکت کریں گی، یہ کانفرنس کینیا میں ہونے والی پہلی کانفرنس کا تسلسل ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ وزارت تجارت متنوع اور جیوگرافک برآمدات کے لیے کوشاں ہے۔

  • پلاسٹک کی بالٹی افریقا میں کیسے "انقلاب” کا باعث بنی، جانیے

    پلاسٹک کی بالٹی افریقا میں کیسے "انقلاب” کا باعث بنی، جانیے

    ہم ایتھیوپیا میں دو ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر چکے ہیں۔

    سڑکیں ویران پڑی ہیں۔ سال کے اس حصّے میں (یورپ میں یہ جاڑوں کا موسم ہے) پہاڑ، جو بادلوں تک اونچے ہیں، سرسبز ہیں اور دھوپ میں شان دار لگ رہے ہیں۔ سنّاٹا اندر تک اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

    اگر آپ رک کر سڑک کے کنارے بیٹھ جائیں تو آپ کو بہت فاصلے پر اونچی، یک آہنگ آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ آوازیں پہاڑیوں میں گاتے ہوئے بچّوں کی ہیں، گلّہ بانوں کے بیٹوں اور بیٹیوں کی جو لکڑیاں اکٹھی کر رہے ہیں اور اپنے مویشیوں کے لیے گھاس کاٹ رہے ہیں۔ آپ کو ان کے ماں باپ کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ یوں لگتا ہے جیسے پوری دنیا بچّوں کے ہاتھ میں ہو۔

    افریقا کی نصف آبادی پندرہ سال سے کم عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ بچے ہر طرف ہیں: فوجوں اور پناہ گزیں کیمپوں میں، کھیتوں میں کام کرتے اور بازاروں میں خرید و فروخت کرتے ہوئے۔ اور گھر پر بھی بچّے ہی ہیں جو خاندان کے لیے اہم ترین کام سرانجام دیتے ہیں، یعنی پانی بھر کر لاتے ہیں۔ صبح منہ اندھیرے، جب اکثر لوگ نیند میں ہوتے ہیں، کم عمر لڑکے تیز قدموں سے کنوؤں، تالابوں اور دریاؤں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی ان کی اچھی حلیف ثابت ہوئی ہے۔ اس نے ان کو ایک کارآمد شے فراہم کی ہے: پلاسٹک کی بالٹی۔

    پلاسٹک کی بالٹی نے افریقی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ گرم اُستوائی علاقوں میں پانی کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے، پانی کی ہمیشہ شدید قلّت رہتی ہے۔ اس لیے پانی حاصل کرنے کی غرض سے بہت دور، اکثر درجنوں کلومیٹر کے فاصلے تک، جانا پڑتا ہے۔ پلاسٹک کی بالٹی کے ایجاد ہونے سے پہلے پانی مٹی یا پتھر کے بنے ہوے بھاری گھڑوں میں لے جایا جاتا تھا۔ پہیا اور ایسی سواریاں جن میں پہیے استعمال ہوتے ہیں __ افریقی کلچر کا مانوس پہلو نہیں تھا، ہر چیز، پانی سے بھرا گھڑا بھی، سر پر اٹھا کر لے جانا ہی واحد طریقہ تھا۔

    گھر کے کام کی تقسیم کے مطابق پانی لانے کا کام عورتوں کے حصّے میں آتا تھا۔ بچّے اتنے بھاری گھڑے نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اور غربت اس قدر شدید تھی کہ بہت کم خاندان ایک سے زیادہ گھڑے رکھنے کے متحمل ہو سکتے تھے۔

    پلاسٹک کی بالٹی کی آمد ایک معجزہ تھی۔ ایک تو یہ نسبتاً سستی تھی (اگرچہ بہت سے گھرانے ایسے ہیں جن کے پاس اس سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں)، یعنی کوئی دو ڈالر کے برابر۔ پھر یہ چھوٹے بڑے ہر سائز میں دست یاب تھی۔ اور چند لیٹر کی بالٹی چھوٹے بچّے بھی اٹھا سکتے تھے۔
    چناں چہ پانی لانا اب بچّوں کی ذمے داری ہے۔

    دور کسی کنویں کی طرف اپنے سفر کے دوران کھیلتے اور ہنسی مذاق کرتے بچّے عام دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ تبدیلی کام کے بوجھ تلے دبی افریقی عورتوں کے لیے کس قدر تسکین کی بات ہے۔ ان کی زندگیوں میں کیسا خوش گوار تغیر آ گیا ہے! درحقیقت پلاسٹک کی بالٹی کی لائی ہوئی مثبت تبدیلیاں بے شمار ہیں۔

    قطار ہی کو لیجیے۔ جب پانی مٹکوں میں لایا جاتا تھا تو اکثر دن دن بھر قطار میں کھڑے رہنا پڑتا تھا۔ استوائی سورج بڑا بے رحم ہوتا ہے۔ اور اپنا گھڑا قطار میں چھوڑ کر خود سائے میں جا کھڑے ہونے کا خطرہ نہیں لیا جا سکتا تھا۔ یہ بڑی قیمتی چیز تھی۔

    آج ایسا کرنا ممکن ہے۔ بالٹی نے قطار میں کھڑے ہونے والے فرد کی جگہ لے لی ہے، اور آج کل پانی کی قطار بے شمار رنگ برنگی پلاسٹک کی بالٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے جب کہ ان کے مالک سائے میں کھڑے انتظار کرتے ہیں، بازار سے سودا سلف لانے چلے جاتے ہیں یا کسی دوست سے مل آتے ہیں۔

    (پولستانی مصنّف، شاعر، صحافی اور ماہر فوٹو گرافر ریشارد کاپوشِنسکی
    کی تحریر کا انگریزی سے اردو ترجمہ، اردو مترجم اجمل کمال ہیں)

  • دنیا بھر میں شادی کی عجیب و غریب رسومات

    دنیا بھر میں شادی کی عجیب و غریب رسومات

    دنیا بھر میں زندگی کے ہر موقعے کے لیے عجیب و غریب رسمیں موجود ہیں، شادی بھی ایسا ہی موقع ہے جب ہر ملک میں مختلف رسموں کی ادائیگی کی جاتی ہے۔

    براعظم افریقہ رسومات کے حوالے سے نہایت منفرد اور انوکھا ہے۔ افریقہ کے ایک علاقے میں شادی والے دن ساس اپنے داماد کو مرغا بنا کر اس کے ٹخنوں پر ڈنڈے مارتی ہے۔

    اسی طرح ایک قبیلہ شادی کے قابل ہوجانے والے نوجوانوں کے ساتھ ایک تکلیف دہ رسم منعقد کرتا ہے، ان نوجوانوں کے ہاتھ ایک ایسے بیگ یا لفافے میں بند کردیے جاتے ہیں جس میں سرخ چیونٹیاں ہوتی ہیں۔

    ان چیونٹیوں کا ڈنک نہایت خطرناک ہوتا ہے اور نوجوانوں کو اسے برداشت کرنا ہوتا ہے، جو نوجوان تڑپ کر لفافے سے ہاتھ نکال لے اسے شادی کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔

    اسی طرح ایک قبیلے میں لڑکے کے لیے لازمی ہے کہ وہ شادی سے قبل 12 سے 15 گائیں پالے، اور پھر ایک دن ان پر گوبر مل کر ایک ساتھ چھلانگ مارے۔ اگر اس دوران وہ گر پڑا تو اس کی شادی کا پروگرام منسوخ کردیا جاتا ہے۔

    ایسی ہی کچھ رسومات خواتین کے لیے بھی ہیں۔ ایک قبیلے کی خواتین کے لیے لازمی ہے کہ شادی سے قبل وہ اپنے دانتوں کو کلہاڑے سے نوکیلے کروائیں۔ اس کے بغیر ان کی شادی ہونا ناممکن ہے۔