Tag: افریقہ

  • وبا سے افریقی ممالک میں مشکلات، سعودی عرب کا اربوں ریال مدد کا اعلان

    وبا سے افریقی ممالک میں مشکلات، سعودی عرب کا اربوں ریال مدد کا اعلان

    ریاض: سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے براعظم افریقہ کے ممالک کی مدد کے لیے منعقدہ پیرس سربراہی کانفرنس سے آن لائن خطاب کیا اور کہا کہ سعودی عرب افریقی ممالک میں 3 ارب ریال سے زائد مالیت کے پروگرام شروع کرے گا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ سعودی ترقیاتی فنڈ افریقہ کے ساحلی ممالک کے ترقیاتی منصوبوں میں ایک ارب ریال کے لگ بھگ سرمایہ لگائے گا اور یہ کام فرانس کی ترقیاتی ایجنسی کے تعاون سے کیا جائے گا۔

    ولی عہد کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کا ترقیاتی فنڈ افریقہ کے ترقی پذیر ممالک میں 3 ارب ریال سے زائد مالیت کے پروگرام مستقبل میں نافذ کرے گا، یہ رقمیں قرضوں، عطیات اور منصوبہ جات کی شکل میں خرچ کی جائیں گی۔

    انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے 50 ارب سے زائد درختوں کی شجر کاری کے لیے گرین مشرق وسطیٰ پروجیکٹ کا اعلان کیا ہے، اس سے افریقی ممالک بھی فائدہ اٹھائیں گے۔

    شہزادہ محمد بن سلمان نے افریقی ممالک کی مدد سے متعلق عالمی کانفرنس منعقد کرنے پر فرانسیسی صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سربراہ کانفرنس براعظم افریقہ، اس کے ممالک اور اقوام کے مستقبل سے دلچسپی کا بھرپور اظہار ہے۔ خصوصا کرونا وبا کے زمانے میں براعظم افریقہ کے لیے یہ ضروری ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ وبا سرحدیں نہیں جانتی، اس نے دنیا کے مختلف علاقوں میں انسانوں کی روزمرہ کی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ۔خصوصا صحت اور معیشت پر بہت برا اثر ڈالا ہے۔

    ولی عہد کا کہنا تھا کہ کرونا وبا سے کم آمدنی والے افریقی ممالک بہت زیادہ متاثر ہوئے، اس وبا نے پائیدار ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے درکار فنڈنگ کی خلیج بڑھا دی۔ سعودی عرب نے براعظم افریقہ میں ترقیاتی عمل کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردارادا کیا ہے جبکہ سعودی پبلک انویسٹمنٹ فنڈ افریقی ممالک کے لیے متعدد منصوبے اور اسکیمیں تیار کیے ہوئے ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب افریقی ممالک میں انتہا پسندانہ اور دہشتگردانہ تنظیموں کے خلاف کارروائی میں بین الاقوامی کوششوں کی حمایت کررہا ہے اور کرتا رہے گا، دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھے گا اور افریقی ممالک کے سیکیورٹی اداروں کی استعداد بہتر بنانے کی کوششوں میں حصہ لیتا رہے گا۔

    ولی عہد کا کہنا تھا کہ اس وقت کا اہم مسئلہ یہ ہے کہ کم آمدنی والے افریقی ممالک میں ویکسین کی منصفانہ تقسیم ہو اور یہ کام تیزی سے انجام پائے، دیگر ممالک کو بھی یہ سہولت حاصل ہو۔

    انہوں نے کہا کہ سعودی عرب نے سنہ 2020 کے دوران جی 20 کی قیادت کرتے ہوئے افریقہ سمیت دنیا کے تمام کم آمدنی والے ممالک کی مدد کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ سعودی عرب کی جانب سے کم آمدنی والے ممالک کو ہنگامی امداد فراہم کی گئی۔ جی 20 نے 73 ممالک کو فوری نقد مدد مہیا کی، ان میں سے 38 کا تعلق افریقہ سے تھا۔ جی 20 نے 5 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد دی ہے۔

  • گوشت کھانے سے درجنوں افراد کی حالت غیر۔۔۔ وجہ کیا بنی؟

    گوشت کھانے سے درجنوں افراد کی حالت غیر۔۔۔ وجہ کیا بنی؟

    مشرقی افریقی ملک زیمبیا میں زہر آلود گوشت کھانے سے 24 افراد کی حالت خراب ہوگئی جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

    یہ واقعہ زیمبیا کے مغربی علاقے نالولو ضلع میں پیش آیا، مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق مشتبہ طور پر زہر آلود گوشت کھانے سے 24 افراد کی حالت غیر ہوگئی، تمام افراد کو فوری طور پر اسپتال لے جایا گیا۔

    پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ متاثرہ افراد میں 12 کم عمر ہیں جبکہ دیگر لوگ بالغ ہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ واقعہ ضلع کے ایک دور دراز علاقے میں پیش آیا ہے۔

    پولیس کے مطابق واقعے کی تفتیش بھی جارہی ہے اور ذمہ داران کا تعین کیا جارہا ہے۔

  • ایبولا وائرس دریافت کرنے والے ڈاکٹر نے دنیا کو وارننگ دے دی

    ایبولا وائرس دریافت کرنے والے ڈاکٹر نے دنیا کو وارننگ دے دی

    سنہ 1976 میں ایبولا وائرس کو دریافت کرنے والے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ نئے وائرسز انسانیت کو اپنا نشانہ بنانے کے لیے تیار ہیں اور یہ ممکنہ طور پر کووڈ 19 سے کہیں زیادہ خطرناک ہوسکتے ہیں۔

    ڈاکٹر جین جیکس نے سنہ 1976 میں ایک پراسرار قسم کی بیماری کا شکار ہوجانے والے اولین افراد کے خون کے نمونے لیے تھے، اس بیماری کو بعد ازاں ایبولا وائرس کا نام دیا گیا تھا۔

    ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ دنیا لاتعداد وائرس کے نشانے پر ہے، افریقہ کے جنگلات سے نئے اور ممکنہ طور پر جان لیوا وائرسز ظاہر ہوسکتے ہیں اور یہ وائرس کووڈ 19 سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔

    ادھر عوامی جمہوریہ کانگو میں ایک شخص کے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، ایک نئے قسم کے بخار کا شکار ہونے کی خبریں زیر گردش ہیں، ڈاکٹرز کے مطابق اس شخص کا ایبولا وائرس کا ٹیسٹ کیا گیا جو منفی آیا، جس کے بعد ڈاکٹرز نے اس پراسرار بیماری کو ڈیزیز ایکس کا نام دیا گیا جس کا مطلب کسی غیر متوقع بیماری کے ہیں۔

    ڈاکٹر جین کا کہنا ہے کہ ایسے لاتعداد وائرسز ہوسکتے ہیں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوسکتے ہیں اور ان کی ہولناکی کہیں زیادہ ہوگی۔

    دنیا ابھی تک کئی ایسی بیماریوں سے واقف ہے جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوجاتی ہیں، جیسے زرد بخار، ریبیز، انفلوئنزا وغیرہ۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں بیماریاں منتقل ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کی قدرتی پناہ گاہوں یعنی جنگلات کا تیزی سے ختم ہونا اور ان کی تجارت ہے۔

    ماہرین کے مطابق جنگلات ختم ہونے سے بڑے جانوروں کو معدومی کا خدشہ ہوتا ہے تاہم چھوٹے جانور جیسے چوہا، چمگاڈر یا کیڑے مکوڑے سروائیو کر جاتے ہیں اور یہی وائرسز کو منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔

  • موبائل اونٹ لائبریریوں نے دنیا کو حیران کر دیا

    موبائل اونٹ لائبریریوں نے دنیا کو حیران کر دیا

    ایتھوپیا: جہاں ایک طرف دنیا بھر میں کرونا وائرس وبا کی وجہ سے کروڑوں بچوں کا تعلیمی سلسلہ رکا، وہاں افریقی ملک ایتھوپیا میں دہری مصیبت آئی، ایک طرف پہلے سے جبری مشقت کی وجہ سے مقامی بچے تعلیم سے محروم رہے، دوسری طرف وبا نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔

    تاہم، ایتھوپیا کے دور دراز علاقوں میں بچوں کو جبری مشقت سے بچانے اور ان کو بہتر مستقبل فراہم کرنے کے لیے ایک ایسا منصوبہ پیش کیا گیا جس کے بارے میں جان کر دنیا حیران ہوئی، یہ انوکھا منصوبہ تھا موبائل اونٹ لائبریریوں کا۔

    ایتھوپیا میں کرونا وائرس کی وجہ سے مارچ میں اسکول بند ہو گئے تھے اور اس کے نتیجے میں تقریباً 26 ملین بچے گھروں میں بیٹھ گئے تھے، دوسری طرف ملک کے دیہی علاقوں میں پہلے ہی بچوں کو جبری مشقت اور کم عمری کی شادیوں کے خطرے کا سامنا تھا۔

    اس صورت حال میں ایک تنظیم نے ملک کے مشرقی صومالی علاقے میں بچوں کو تعلیم سے منسلک رکھنے کے لیے 20 سے زائد اونٹ وقف کر کے ان پر کتابوں سے بھری لکڑی کے صندوق لاد کر دیہات میں بچوں میں کتابیں تقسیم کرنا شروع کر دیا ہے۔

    عالمی تنظیم ‘سیو دا چلڈرن‘ کے ملکی ڈائریکٹر ایکن اوگوتوگولاری کا کہنا تھا کہ ‘یہ بہت بڑا بحران ہے لیکن ہم پرعزم ہیں کہ کرونا کے دنوں میں جہاں تک ہو سکے مالی لحاظ سے کمزور بچوں کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔

    واضح رہے کہ افریقی دیہی علاقوں میں اونٹ لائبریریوں کے اس منصوبے کا آغاز تو 10 برس قبل ہوا تھا، تاہم کرونا وبا کے باعث، ایتھوپیا کے اس علاقے میں اس منصوبے کے ذریعے 33 سے زائد دیہات میں 22 ہزار سے زائد بچوں کی مدد کی گئی ہے۔

    منصوبے کے تحت مقامی رضاکار بچوں کی کتابیں اونٹوں پر لاد کر گاؤں گاؤں جاتے ہیں اور وہاں خیمے لگا کر کم از کم 3 دن قیام کرتے ہیں، اس دوران بچے کتابیں وہاں بیٹھ کر بھی پڑھ سکتے ہیں اور گھروں میں بھی لے جا سکتے ہیں۔

  • فلائٹ کے دوران دروازہ کھولنے سے خاتون ہلاک

    فلائٹ کے دوران دروازہ کھولنے سے خاتون ہلاک

    لندن: ایک برطانوی طالبہ افریقہ کی طرف اپنی پرواز کے دوران طیارے کا دروازہ کھولنے سے ہلاک ہوگئیں، میڈیکل رپورٹس میں ان میں دماغی عارضے سائیکوسس کی تصدیق ہوگئی۔

    برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق مذکورہ طالبہ کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی اور ایک انٹرن شپ کے لیے افریقی جزائر کا دورہ کرنے روانہ ہوئی تھی۔

    اس کا جہاز جب مشرقی افریقی ملک مڈغاسکر کے اوپر سے پرواز کر رہا تھا تو اس نے اچانک اٹھ کر طیارے کا دروازہ کھول دیا، اس کے بعد وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی اور طیارے سے باہر گر گئی۔

    اب حال ہی میں جاری کی گئی میڈیکل رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ طالبہ ایک دماغی عارضے سائیکوسس کا شکار تھیں جس میں غیر حقیقی تصورات کسی انسان کے دماغ میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔

    میڈیکل رپورٹ کے مطابق طالبہ سکون آور ادویات کے زیر اثر بھی تھی۔

    آنجہانی طالبہ کے ساتھ ان کے پروجیکٹ پر کام کرنے والی ایک ساتھی کا کہنا ہے کہ روانگی سے قبل وہ ایک کرسی پر گھنٹوں بیٹھ کر خلا میں گھورتی رہی۔

    ساتھی کے مطابق وہ مختلف توہمات کا بھی شکار ہوگئی تھی، جیسے وہ اپنے کچھ قریبی افراد سے کہتی پائی گئی کہ اگر اس نے اپنی تحقیق کا کام مکمل نہیں کیا تو اسے مڈغاسکر کی کسی جیل میں قید کردیا جائے گا۔

  • کیا آپ افریقہ کی آنکھ کے بارے میں جانتے ہیں؟

    کیا آپ افریقہ کی آنکھ کے بارے میں جانتے ہیں؟

    شمال مغربی افریقی ملک موریطانیہ میں صحرائے صحارا میں واقع انسانی آنکھ نما ایک دائرہ وہ معمہ ہے جو اب تک سائنسدانوں کو پریشان کیے ہوئے ہے، یہ نیلگوں دائرہ کب اور کیسے وجود میں آیا، سر توڑ کوششوں کے باجود ماہرین اب تک معلوم نہیں کرسکے۔

    دنیا کے تیسرے بڑے صحرا صحارا میں واقعہ یہ مقام افریقہ کی آنکھ، صحارا کی آنکھ یا ریچٹ اسٹرکچر کہلاتا ہے۔ اسے خلا سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ دائرہ 25 میل رقبے پر محیط اور مختلف اقسام کے پتھروں پر مشتمل ہے۔

    اس دائرے کو 1930 سے 1940 کے درمیان پہلی بار دیکھا گیا اور تب سے اب تک اس کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقات جاری ہیں تاہم تاحال اس کے بننے کی حتمی وجہ پر نہیں پہنچا جاسکا۔

    ریچٹ اسٹرکچر کے بننے کے بارے مختلف مفروضات پیش کیے جاتے رہے ہیں تاہم کینیڈا سے تعلق رکھنے والے 2 ماہرین ارضیات نے جو مفروضہ پیش کیا اسے خاصا معتبر مانا جاتا ہے۔

    اس مفروضے کے مطابق یہ آنکھ آج سے 10 کروڑ سال پہلے اس وقت بننا شروع ہوئی جب ہماری زمین مختلف براعظموں میں بٹنا شروع ہوئی۔ اس سے قبل ہماری زمین ایک ہی براعظم پر مشتمل تھی۔

    جب زمین کی پلیٹس ایک دوسرے سے دور سرکنا شروع ہوئیں اور آج کا براعظم افریقہ اور شمالی امریکا ایک دوسرے سے الگ ہونے لگے تب زمین کی تہہ میں موجود پگھلی ہوئی چٹانیں بیرونی سطح کی طرف آنے لگیں لیکن یہ بالکل زمین کے اوپر نہ آسکیں اور نیچے ہی رک گئیں جس سے پتھریلی سطحوں کا ایک گنبد سا بن گیا۔

    اس تمام عمل سے اس گنبد کے بیچوں بیچ اور اس کے ارد گرد فالٹ لائنز بھی پیدا ہوگئیں۔ اس گنبد نے اوپر سطح پر موجود چونے کے پتھروں کو بھی پگھلا دیا جو اس آنکھ کے وسط میں موجود تھے۔

    اس طرح اس گنبد کی شکل آنکھ کی طرح بن گئی، اس آنکھ کے دائرے مختلف چٹانوں سے بنے ہوئے ہیں جو مختلف رفتار سے پگھلیں۔

    دنیا بھر کے ماہرین کی اس دائرے پر تحقیق اب بھی جاری ہے۔

  • کرونا وائرس: افریقہ میں تیار کردہ دوا آخر کار جرمنی کی لیبارٹری پہنچ گئی

    کرونا وائرس: افریقہ میں تیار کردہ دوا آخر کار جرمنی کی لیبارٹری پہنچ گئی

    مشرقی افریقی ملک مڈغاسکر میں تیار کردہ جڑی بوٹیوں کے مشروب، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ کرونا وائرس کا مؤثر ترین علاج ہے، کا جرمنی میں ٹیسٹ کیا جارہا ہے۔

    افریقی رہنماؤں اور خصوصاً مڈغاسکر کے صدر ایندرے رجولین کے بار بار زور دینے پر بالآخر اس افریقی مشروب کا ٹیسٹ کیا جارہا ہے جسے کوویڈ اورگینک کا نام دیا گیا ہے۔

    جرمنی کے میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین سمیت ڈنمارک اور امریکی محققین نے اس مشروب کے اہم جزو ارٹیمیسیا پودے کا ٹیسٹ شروع کردیا ہے۔ اس پودے کو ایک طویل عرصے سے ملیریا کے علاج میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔

    تحقیق کے ابتدائی مرحلے میں صرف اس پودے کو ٹیسٹ کیا جارہا ہے جس میں ماہرین اس پودے کے افعال اور کرونا وائرس سے اس کے تعلق کا جائزہ لے رہے ہیں۔

    مڈغاسکر نے ابھی اس دوا کے فارمولے کو ظاہر نہیں کیا ہے اور اس حوالے سے صدر رجولین کا کہنا ہے کہ وہ مشروب بنانے کے حقوق محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس پودے پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج مئی کے آخر تک سامنے آجائیں گے، تاہم اگر اس کی افادیت ثابت ہوجاتی ہے تو اس سے بنے مشروب کے کلینکل ٹیسٹ کیے جائیں گے جس میں مزید وقت لگے گا۔

    مڈغاسکر میں تیار کردہ یہ مشروب کوویڈ اورگینک افریقہ میں بے حد مقبولیت پارہا ہے، مقامی حکام کا کہنا ہے کہ اس مشروب کے استعمال سے کرونا وائرس کے مریض تیزی سے صحتیاب ہورہے ہیں۔

    مڈغاسکر کے صدر کا کہنا ہے کہ اس مشروب کی ایک ہی خوراک سے 24 گھنٹوں کے اندر کرونا وائرس کے مریض کی حالت میں بہتری آتی ہے، جبکہ اگلے 7 سے 10 دن میں مریض مکمل طور پر صحتیاب ہوجاتا ہے۔

    دیگر افریقی ممالک نے بھی بڑی مقدار میں اس مشروب کو مڈغاسکر سے منگوایا ہے۔

  • کرونا وائرس کا ممکنہ علاج: مڈغاسکر کے صدر عالمی ادارہ صحت کے خدشات پر نالاں

    کرونا وائرس کا ممکنہ علاج: مڈغاسکر کے صدر عالمی ادارہ صحت کے خدشات پر نالاں

    مشرقی افریقی ملک مڈغاسکر کے صدر ایندرے رجولین نے عالمی ادارہ صحت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ادارہ، افریقہ کی تیار کردہ کرونا وائرس کے خلاف مؤثر دوا کے استعمال کی منظوری نہیں دے رہا۔

    کوویڈ اورگینک کے نام سے یہ مشروب جو افریقی ممالک میں استعمال کیا جارہا ہے، ایک مقامی جڑی بوٹی ارٹیمیسیا اور دیگر جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ہے۔

    ارٹیمسیا ملیریا کے علاج میں نہایت مؤثر ہے اور مڈغاسکر اسے کرونا وائرس کا بھی علاج قرار دے رہا ہے، تاہم ابھی تک اس کا کوئی کلینکل ٹرائل نہیں کیا گیا اور عالمی ادارہ صحت بھی اس بارے میں تذبذب کا شکار ہے۔

    ایک انٹرویو میں مڈغا سکر کے صدر نے کہا کہ اگر کوئی یورپی ملک اس دوا کو پیش کرتا کیا تب بھی عالمی اداروں کو ایسے ہی خدشات ہوتے؟ مسئلہ یہ ہے کہ یہ افریقہ کا تجویز کردہ ہے جو دنیا کا غریب ترین خطہ ہے۔

    مزید پڑھیں: مڈغاسکر سے کرونا کی حیرت انگیز دوا سے بھرا جہاز تنزانیہ پہنچ گیا

    صدر کا کہنا تھا کہ اس مشروب کی ایک ہی خوراک سے 24 گھنٹوں کے اندر کرونا وائرس کے مریض کی حالت میں بہتری آتی ہے، جبکہ اگلے 7 سے 10 دن میں مریض مکمل طور پر صحتیاب ہوجاتا ہے۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت پہلے اس مشروب کے حوالے سے سیلف میڈیکشن سے دور رہنے کی تاکید کرتا رہا تاہم اب چند روز قبل ادارے نے دوا کے کلینکل ٹرائل کرنے کا مطالبہ کردیا ہے۔

    ادارے کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ ہم تمام ممالک کو ایسی دواؤں کے استعمال میں احتیاط کا مشورہ دیں گے جن کے کلینکل ٹیسٹ نہیں ہوئے۔

  • مڈغاسکر کا تجویز کردہ “کرونا کا علاج“ پورے افریقہ میں مقبول!

    مڈغاسکر کا تجویز کردہ “کرونا کا علاج“ پورے افریقہ میں مقبول!

    مشرقی افریقی ملک مڈغاسکر نے ایک مشروب تیار کرنے کی فیکٹری کی تعمیر شروع کردی ہے جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ یہ مشروب کرونا وائرس کا علاج ہے۔

    کوویڈ اورگینک کے نام سے فروخت کیا جانے والا یہ مشروب ایک مقامی پودے سے تیار کردہ ہے جو ملیریا کے علاج میں مؤثر ہے، افریقی لیڈرز اسے کرونا وائرس کا علاج قرار دے رہے ہیں تاہم ابھی تک اس کا کوئی بین الاقوامی کلینکل ٹیسٹ نہیں کیا گیا۔

    مڈغاسکر کے صدر ایندرے رجولین جنہوں نے کچھ عرصہ قبل اس مشروب کو دنیا کے سامنے پیش کیا تھا، کا کہنا ہے کہ وافر مقدار میں یہ مشروب تیار کرنے کے لیے فیکٹری ایک ماہ میں کام شروع کردے گی۔

    ان کا کہنا ہے کہ مقامی محققین اور سائنسدان اس دوا کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے پر کام کر رہے ہیں۔

    صدر کے مطابق سینٹرل افریقہ کے ملک ایکوٹریل گنی کے ایک نائب وزیر بہت سی مقدار میں یہ مشروب خرید کر لے گئے ہیں جبکہ تنزانیہ کے صدر نے اس مشروب کو منگوانے کے لیے ایک طیارہ بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ سینیگال سمیت دیگر افریقی ممالک بھی اس کی خریداری میں دلچسپی ظاہر کرچکے ہیں۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر افریقی صارفین نے بھی اس مشروب کے حوالے سے مثبت ردعمل دیا ہے۔

    بعض افراد کا دعویٰ ہے کہ اس مشروب سے کرونا وائرس سے صحتیابی کی شرح 72 فیصد ہے جبکہ اس کی بدولت کرونا وائرس کے 135 میں 97 مریض صحتیاب ہوچکے ہیں۔

  • کرونا وائرس ویکسین کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی اہم وضاحت

    کرونا وائرس ویکسین کے حوالے سے عالمی ادارہ صحت کی اہم وضاحت

    جنیوا: عالمی ادارہ صحت نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ کرونا وائرس کے لیے تیار کی جانے والی کسی بھی ویکسین کا کوئی تجربہ افریقہ میں نہیں کیا جائے گا۔

    عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈ روس ایڈہنم نے یہ وضاحت فرانسیسی ڈاکٹروں کے اس بیان کے تناظر میں دی ہے جس میں ڈاکٹرز نے کہا کہ کووڈ 19 کی ویکسین کا تجربہ افریقہ میں کیا جاسکتا ہے۔

    اس بارے میں دریافت کرنے پر ڈائریکٹر نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سوچ نسل پرستانہ، شرمناک اور نو آبادیاتی دور کی باقیات ہے۔

    ان فرانسیسی ڈاکٹرز نے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران کہا تھا کہ کوویڈ 19 کی ویکسین کا تجربہ افریقہ میں کیا جانا چاہیئے۔ ڈاکٹرز کے اس بیان پر سخت تنقید کی گئی جس کے بعد ایک ڈاکٹر نے اپنے الفاظ پر معافی بھی مانگی۔

    اسی بارے میں ٹیڈ روس کا کہنا ہے کہ تقریباً 20 انسٹی ٹیوٹس اور کمپنیاں ویکسین کی تیاری میں مصروف ہیں، لیکن ادویات اور ویکسین کی تیاری پر عالمی ادارہ صحت تمام ممالک اور انسانوں میں اس کی مساوی تقسیم کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فرانسیسی ڈاکٹرز کے بیانات دہشت زدہ کردینے والے ہیں، ایک ایسے وقت میں جب دنیا کو باہمی اتحاد کی ضرورت ہے، اس نوعیت کے نسل پرستانہ بیانات اس اتحاد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

    ٹیڈ روس کا مزید کہنا تھا کہ افریقہ نہ تو کسی ویکسین کی تجربہ گاہ ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا۔ ہم کووڈ 19 ویکسین کے ٹیسٹ کے لیے افریقہ اور یورپ کی تفریق کیے بغیر مساوی پروٹوکول پر عمل کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت ایسی کسی چیز کی اجازت نہیں دے گا، اکیسویں صدی میں سائنس دانوں سے ایسے بیانات سننا شرمناک ہی نہیں خوفناک بھی ہے۔ میں ان بیانات کی سختی سے مذمت کرتا ہوں۔