Tag: افریقہ

  • جرمن چانسلر افریقی ملکوں کے دورے پر روانہ ہوگئیں

    جرمن چانسلر افریقی ملکوں کے دورے پر روانہ ہوگئیں

    برلن: جرمن چانسلر انجیلا میرکل مغربی افریقی ممالک کے تین روزہ دورے پر روانہ ہو گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق جرمن چانسلر انجیلا مرکل افریقی ممالک کا دورہ کررہی ہیں جہاں وہ حکومتی اہلکاروں سے ملاقاتیں کریں گی اس دوران خطے کی ترقی پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلر پہلے مرحلے میں شام برکینا فاسو کے دارالحکومت پہنچ گئیں، جہاں میزبان ملک کے صدر نے ان کا استقبال کیا۔

    برکینا فاسو کے علاوہ میرکل مالی اور نائجر بھی جائیں گی، اس دوران جرمن چانسلر علاقائی جی فائیو یا ساحل کہلانے والے گروپ کی سمٹ میں بھی شرکت کریں گی۔

    میرکل مالی میں تعینات جرمن فوجیوں سے آج (جمعرات کو) کو ملیں گی، جرمن چانسلر اس دورے پر ان ممالک میں جمہوری حکومتوں کی حمایت کا اظہار کریں گی اور انہیں لاحق دہشت گردی جیسے چیلنجز پر بھی تبادلہ خیال متوقع ہے۔

    خیال رہے کہ رواں سال جنوری میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی حکومت کی جانب سے تین شمالی افریقی ممالک کو محفوظ قرار دینے سے متعلق پیش کیا گیا تھا جس میں سے ایک قانونی مسودہ ملکی پارلیمان کے ایوانِ بالا نے مسترد کر دیا تھا۔

    اس قانونی مسودے کے مطابق شمالی افریقی ممالک سے ہجرت کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کے لیے ان کے آبائی ممالک کو محفوظ قرار دینے کی تجویز دی گئی تھی۔

    جرمنی میں رواں برس 3لاکھ پناہ گزینوں کی آمد کا امکان

    جرمن چانسلر انجیلا مرکل اسے سے قبل بھی افریقی ممالک کا دورہ کرچکی ہیں، جولائی 2011 میں انہوں نے اہم دورہ کیا تھا۔

  • مچھلی کی جلد سے خوبصورت ماحول دوست اشیا تیار

    مچھلی کی جلد سے خوبصورت ماحول دوست اشیا تیار

    دنیا بھر میں کئی ممالک میں ماہی گیری لوگوں کا ذریعہ معاش ہے، مچھلیاں پکڑنے کے بعد ان کی جلد نکال دی جاتی ہے جسے عموماً پھینک دیا جاتا ہے۔

    بعض افراد مچھلی کی جلد کو کھاد بنانے میں استعمال کرلیتے ہیں تاہم 70 فیصد مچھلی کی جلد کچرے کے ڈھیروں کی زینت بن جاتی ہے۔

    افریقی ملک کینیا میں ایک ڈیزائنر نے اس جلد کو مختلف ڈیزائنر اشیا میں بدل دیا ہے۔ جیمز امبانی نامی اس مقامی ڈیزائنر نے گویا نیا لیدر پیش کیا ہے جو لوگوں میں بے حد مقبول ہورہا ہے۔

    اس کے لیے ماہی گیروں سے مچھلی کی کھال خریدی جاتی ہے جس سے انہیں اضافی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ اس کھال کو دھو کر سکھایا جاتا ہے اور مختلف مرحلوں سے گزار کر اس پر مختلف رنگ کیے جاتے ہیں۔

    اب اس کھال سے مختلف اشیا بنائی جاتی ہیں جنہیں مقامی افراد اور سیاح نہایت شوق سے خریدتے ہیں۔ یہ اشیا ماحول دوست بھی ہیں اور استعمال کے بعد پھینک دیے جانے کے بعد یہ جلد زمین میں تلف ہوجائیں گی۔

    جیمز کا کہنا ہے کہ افریقہ کے کئی ممالک میں میٹھے پانی کی جھیلیں موجود ہیں جہاں سے ماہی گیری کی جاتی ہے، تاہم صرف ماہی گیری کسی خاندان کی معاشی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی نہیں۔

    ان کے مطابق مچھلی کی کھال کی فروخت ایک طرف تو مچھیروں کی اضافی آمدنی کا سبب بنے گی، دوسری طرف اسے ’لیدر‘ بنانے کے عمل کے لیے افرادی قوت درکار ہے جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

    جیمز کو امید ہے کہ یہ لیدر دنیا بھر میں بہت جلد مقبول ہوگا جس سے افریقہ سمیت دنیا بھر کے غریب ماہی گیروں کے لیے خوشحالی کا دروازہ کھلے گا۔

  • گائے کا خون پینے کی انوکھی روایت

    گائے کا خون پینے کی انوکھی روایت

    دنیا بھر میں کھانے پینے کے حوالے سے ایسی انوکھی روایات پائی جاتی ہیں جو دیگر افراد کے لیے حیران کن ہوتی ہیں، لیکن بعض روایات ایسی بھی ہوتی ہیں جو دیگر افراد کو کراہیت میں مبتلا کرسکتی ہیں۔

    کینیا میں ایسی ہی ایک روایت گائے کا خون پینے کی ہے۔

    افریقی ملک کینیا میں یہ روایت صدیوں پرانی ہے، صدیوں قبل مختلف خانہ بدوش قبائل جب صحراؤں میں سفر کرتے تھے تو پانی اور خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے گائے کا خون پیا کرتے تھے۔

    گائے کا خون ان کی جسمانی توانائی بحال کردیتا اور وہ صحرا میں کئی کئی دن بغیر کچھ کھائے پیے صرف اس خون کے سہارے سفر کیا کرتے تھے۔

    یہ روایت آج بھی کینیا کے جنگجو ماسائی قبیلے میں موجود ہے۔ آج کے جدید دور میں جب یہاں کسی تہوار کا انعقاد ہوتا ہے تو اس موقع پر گائے کا خون پیا جاتا ہے۔

    اس کے لیے گائے کو ہلاک نہیں کیا جاتا بلکہ گائے کے جسم پر زخم لگا کر اس سے نکلتے خون کو ایک مخصوص برتن میں جمع کرلیا جاتا ہے اور پھر فوراً اسے پیا جاتا ہے۔ لوگ اس خون کو دودھ کے ساتھ ملا کر بہت شوق سے نوش کرتے ہیں۔

    اس مشروب کو نہایت طاقتور اور غذائیت بھرا خیال کیا جاتا ہے۔ قبیلے کے چھوٹے بچوں اور حاملہ خواتین کو باقاعدگی سے یہ خون پلایا جاتا ہے۔

    دوسری جانب اس خون کو بطور مشروب استعمال کرنے کا تعلق اس قبیلے کی روحانی و مذہبی عقیدت سے بھی ہے۔ قبیلے کے لوگ نہایت عقیدت و احترام سے یہ مشروب نوش کرتے ہیں۔

  • پارلیمنٹ میں 68 فیصد خواتین کا ورلڈ ریکارڈ

    پارلیمنٹ میں 68 فیصد خواتین کا ورلڈ ریکارڈ

    ایک عرصے سے خواتین کی خود مختاری کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی زور دیا جارہا ہے کہ خواتین کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جائے اور حکومتی ایوانوں میں ان کی تعداد بڑھائی جائے۔

    تاہم ترقی یافتہ ممالک کے برعکس مشرقی افریقہ کے ملک روانڈا نے اس بات کی اہمیت کو سمجھا جہاں کی پارلیمنٹ میں اب دنیا میں سب سے زیادہ خواتین موجود ہیں۔

    روانڈا ایک عرصے سے پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد کے حوالے سے ورلڈ ریکارڈ کا حامل رہا ہے جہاں ارکان پارلیمنٹ میں 64 فیصد خواتین تھیں۔ گزشتہ برس ستمبر کے پارلیمانی انتخابات میں روانڈا نے اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا اور اب وہاں کی پارلیمنٹ میں 67.5 فیصد خواتین ہیں۔

    80 نشستوں کے ایوان میں 54 نشستیں خواتین کے پاس ہیں، ان خواتین کو روانڈا کی تعمیر نو کا معمار بھی کہا جاتا ہے۔

    گو کہ روانڈا میں پارلیمانی اکثریت خواتین کے پاس ہے تاہم روانڈا خواتین کے حقوق اور خود مختاری کے حوالے سے کسی مثالی پوزیشن پر نہیں ہے، اس کے باوجود پالیسی سازی میں خواتین کی شمولیت کے حوالے سے روانڈا دیگر ممالک کے لیے ایک مثال ہے۔

    اس حوالے سے اگر پاکستان کو دیکھا جائے تو یہاں بھی صورتحال پہلے سے بدتر نظر آتی ہے۔ دنیا بھر کی پارلیمان اور ایوانوں کا ریکارڈ مرتب کرنے والے ادارے انٹر پارلیمنٹری یونین کی ویب سائٹ کے مطابق سنہ 2017 میں پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد کی فہرست میں پاکستان 89 ویں نمبر پر تھا۔

    مذکورہ فہرست کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی صرف 20.6 فیصد تھی۔ یعنی 342 نشستوں پر مشتمل پارلیمان میں صرف 70 خواتین موجود تھیں جو ملک بھر کی 10 کروڑ 13 لاکھ سے زائد (مردم شماری کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق) خواتین کی نمائندگی کر رہی تھیں۔

    اب 2019 میں پاکستان اس درجہ بندی میں مزید نیچے 101 ویں نمبر پر آگیا ہے۔ صنفی ماہرین کا کہنا ہے کہ پالیسی سازی کے عمل اور قومی اداروں میں خواتین کی شمولیت ضروری ہے تاکہ وہ ملک کی ان خواتین کی نمائندگی کرسکیں جو کمزور اور بے سہارا ہیں۔

  • مالی: شکاری قبیلے کا گاؤں پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 134 ہو گئی

    مالی: شکاری قبیلے کا گاؤں پر حملہ، ہلاکتوں کی تعداد 134 ہو گئی

    بماکو: خود کو روایتی شکاری کہلوانے والے مسلح افراد کے ایک گروہ نے مغربی افریقی ملک مالی کے ایک گاؤں پر حملہ کر کے 134 افراد کو تہہ تیغ کر دیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق گزشتہ روز وسطی مالی کے گاؤں پر ڈوگن ہنٹرز نے حملہ کر کے 134 فولانی چرواہوں کو قتل کر دیا، کہا جا رہا ہے کہ مسلم نسلی گروپ فولانی اور ڈوگن قبائل میں برسوں سے نسلی فسادات ہوتے آ رہے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش کے نمائندے فرحان حق کا کہنا ہے کہ گاؤں اوگوساگو میں حاملہ خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلح افراد نے ہفتے کے دن صبح کے وقت حملے سے قبل گاؤں کا محاصرہ کیا، شکاریوں نے گاؤں میں فولانی نسلی کمیونٹی کو نشانہ بنایا جن پر الزام لگایا گیا کہ ان کے جہادیوں سے تعلقات ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  نیوزی لینڈ میں اسکارف کی مانگ بڑھ گئی، پارک میں 15 ہزار افراد کا مسلمانوں سے اظہارِ یک جہتی

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ گاؤں والوں کو آتشیں ہتھیار اور ماچس سے نشانہ بنایا گیا، گاؤں کے تمام جھونپڑے بھی جلائے گئے۔

    قریبی گاؤں کے میئر نے واقعے کو قتل عام کا واقعہ قرار دیا، دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ڈوگن اور نیم خانہ بدوش فولانی چرواہوں کے مابین تصادم پانی اور زمین پر بھی ہو سکتا ہے۔

    تاہم ڈوگن قبیلے کا الزام ہے کہ فولانیوں کا جہادی گروپس کے ساتھ تعلق ہے، جب کہ فولانیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مالی کی فوج نے شکاریوں کو حملے کے لیے اسلحہ فراہم کیا۔

  • افریقا میں طوفان، ہلاکتوں کی تعداد 700 سے بڑھ گئی

    افریقا میں طوفان، ہلاکتوں کی تعداد 700 سے بڑھ گئی

    موزمبیق: افریقا میں طوفان اڈائی کی تباہ کاریاں جاری ہیں، طوفان کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 700 سے بڑھ گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق افریقا میں طوفان اڈائی کی تباہی سے ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد سات سو تک پہنچ گئی ہے، موزمبیق میں ہلاکتوں کی تعداد چار سو سے بڑھ گئی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق افریقی ملک زمبابوے میں 260 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، ملاوی میں 60 کے لگ بھگ اموات ہوئیں۔

    مجموعی طور پر موزمبیق، زمبابوے اور ملاوی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سات سے متجاوز ہو چکی ہے، مزید اموات کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے، طوفان کی وجہ سے متعدد شہروں میں درجنوں افراد لاپتا ہیں۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ایک ہفتہ قبل آنے والے تباہ کن طوفان میں مرنے والوں کی اصل تعداد کا پتا تب چلے گا جب سارا پانی نکل جائے گا۔

    یہ بھی پڑھیں:  افریقا میں فوجی بغاوت ناکام، صورتحال قابو میں ہے، حکومت

    کہا جا رہا ہے کہ طوفان کے باعث جنوبی افریقا میں 17 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں، بجلی غائب ہے، گلیوں اور راستوں میں پانی بہہ رہا ہے، گھر بہہ چکے ہیں جب کہ سڑکیں بری طرح تباہ ہو چکی ہیں۔

    واضح رہے کہ 14 مارچ کو طوفان اڈائی پانچ لاکھ افراد پر مشتمل ایک شہر بیرا کے قریب 177 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں کے ساتھ اترا تھا۔

    ایک اندازے کے مطابق 90 ہزار موزمبیقی باشندے عارضی مقامات پر پناہ گزیں ہو چکے ہیں، جب کہ ہزاروں دیگر تا حال سیلابی پانیوں میں گھرے ہوئے ہیں۔

  • کیا ہماری زمین ٹوٹ رہی ہے؟

    کیا ہماری زمین ٹوٹ رہی ہے؟

    یوں تو زمین پر مختلف سیاسی حالات کی وجہ سے سرحدیں تبدیل ہوتی رہی ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں زمین کی سرحدیں جغرافیائی حالات کی وجہ سے خودبخود بھی تبدیل ہورہی ہیں؟

    ایسا براعظم افریقہ کے ساتھ ہو رہا ہے جو ٹوٹ رہا ہے جس کے بعد زمین پر ایک نیا براعظم تشکیل پاجائے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری زمین کے تشکیل پانے سے لے کر اب تک اس میں مختلف تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ زمین میں تبدیلی کی ایک بڑی وجہ اس کی بیرونی سطح کے نیچے موجود ٹیکٹونک پلیٹس ہیں جن کی حرکت سے زمین کے اوپر بھی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔

    ان پلیٹوں کی وجہ سے زمین کئی ہزار سال قبل سے نہایت مختلف ہے۔ براعظم افریقہ فی الحال اس تبدیلی کا سب سے زیادہ شکار ہے۔

    گزشتہ کچھ عرصے سے افریقہ کے کئی ممالک میں زمین پر دراڑیں پڑنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے جس نے مقامی آبادی کو خوف میں مبتلا کردیا ہے۔

    اس سلسلے میں ایک بڑی دراڑ سنہ 2005 میں سامنے آئی جب ایک 60 کلو میٹر طویل دراڑ نے ارضیاتی ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ یہ دراڑ صرف 10 دن میں تشکیل پائی اور ماہرین کے مطابق اس کے پھیلنے کا عمل جاری ہے۔

    اس وقت افریقہ میں رفٹ ویلی براعظم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی ہے۔ یہ دراصل وہ علاقہ ہے جہاں ایک دراڑ مسلسل پھیل رہی ہے اور ماہرین کے مطابق افریقہ کا علاقہ یہاں سے دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا اور درمیان میں ایک نیا سمندر ابھر آئے گا۔

    زمین پر دراڑ کیوں بنتی ہے؟

    ہماری زمین کی اندرونی سخت تہہ جسے لیتھو سفیئر کہا جاتا ہے ٹوٹ کر ٹیکٹونک پلیٹس کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ ٹیکٹونک پلیٹس ٹھوس پتھر کی بڑی بڑی سلیبیں ہوتی ہیں جو مختلف رفتار سے حرکت کرتی ہیں۔

    جب 2 بڑی پلیٹس حرکت کرتے ہوئے ایک دوسرے سے دور ہوتی ہیں تو ان کے بیچ میں خلا پیدا ہوجاتا ہے، جس کے بعد اوپر سے زمین نیچے دھنسنے لگتی ہے۔ رفٹ ویلی میں بھی یہی ہورہا ہے۔

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ افریقہ کا براعظم ٹوٹ جائے گا تو کیا ہوگا؟

    ارضیاتی ماہرین کے مطابق اول تو ہم اس اہم واقعے کو دیکھنے کے لیے موجود نہیں ہوں گے، کیونکہ یہ دراڑ سالانہ 6 سے 7 ملی میٹر کے حساب سے چوڑی ہورہی ہے۔ اسے مکمل طور پر ٹوٹ کر دو حصوں میں تقسیم ہونے میں 1 کروڑ سال کا عرصہ لگے گا۔

    جب یہ بہت زیادہ چوڑی ہونا شروع ہوجائے گی تو قریب واقع بحیرہ احمر کا پانی یہاں اوپر آنے لگے گا اور زمین پر ایک نیا بحیرہ تشکیل پائے گا۔

    براعظم کے مکمل طور پر ٹوٹ جانے کے بعد افریقہ کا موجودہ براعظم مزید چھوٹا ہوجائے گا، اور نیا براعظم صومالیہ اور شمالی ایتھوپیا پر مشتمل ہوگا۔

    ماہرین کے مطابق ایک وقت آئے گا کہ ہماری زمین کا چہرہ اب سے مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گا۔

  • طویل دانتوں والے ہاتھی کی آخری تصاویر

    طویل دانتوں والے ہاتھی کی آخری تصاویر

    افریقی ملک کینیا میں طویل ترین دانت رکھنے والی 60 سالہ ہتھنی کی آخری تصاویر نے لوگوں کو دم بخود کردیا۔

    کینیا کے میدانوں میں گھومتی یہ ہتھنی جسے ’ایف_ایم یو 1‘ کا نام دیا گیا، اس قدر بڑے دانت رکھتی تھی کہ یہ زمین کو چھوتے تھے، اور جب یہ چلتی تھی تو اس کے دانت زمین کو کھرچتے ہوئے آگے بڑھتے تھے۔

    برطانوی فوٹو گرافر ول بررڈ لوکس نے اس کی مرنے سے قبل آخری تصاویر کھینچیں جنہوں نے لوگوں کو حیران کردیا۔

    ول کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنی آنکھوں سے اس عظیم جانور کو نہ دیکھتے تو کبھی اس کے وجود پر یقین نہ کرتے۔ ’اگر ہاتھیوں کی کوئی ملکہ ہوتی، تو یقیناً وہ یہی ہتھنی ہوتی‘۔

    اس طرح کے بڑے اور مکمل دانت رکھنے والے ہاتھی افریقہ میں چند ہی پائے جاتے ہیں جنہیں ’سپر ٹسکرز‘ کہا جاتا ہے۔ ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی طلب کی وجہ سے اکثر ہاتھی شکاریوں کے ہاتھوں اپنے دانتوں سے محروم کردیے جاتے ہیں۔

    اس ہتھنی کی موت کے بعد اب افریقہ میں بڑے دانتوں والے صرف 30 ہاتھی رہ گئے ہیں، تاہم یہ بھی شکاریوں کی نظر میں ہیں۔

    ول کا کہنا ہے کہ اطمینان کی بات یہ ہے کہ یہ ہتھنی کسی شکاری پھندے، گولی یا زہریلے تیر کا شکار نہیں ہوئی بلکہ طبعی موت مرگئی۔ اب سے 2 سال قبل ایسے ہی ایک 50 سالہ سپر ٹسکر ہاتھی کو شکاریوں نے زہریلے تیر کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    خیال رہے کہ کچھ دن قبل کینیا میں خطرے کا شکار جنگلی حیات بشمول ہاتھی کا شکار کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

    کینیا کے وزیر برائے سیاحت و جنگلی حیات نجیب بلالا کے مطابق اب تک جنگلی حیات کا شکار کرنے پر عمر قید کی سزا اور 2 لاکھ امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد تھا تاہم یہ بھی جنگلی حیات کا شکار روکنے کے لیے ناکافی رہا جس کے بعد اب سزائے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    دوسری جانب گزشتہ کچھ عرصے سے افریقی جانوروں کے شکار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جس کے بعد ان جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ ان جانوروں کے شکار کا بنیادی سبب دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی مانگ تھی جس کے لیے ہاتھی اور گینڈے کا شکار کیا جاتا اور ان کے دانتوں اور سینگ کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    تاہم کینیا اور دیگر افریقی ممالک میں اس شکار کو روکنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کیے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔ کینیا میں شکار کے خلاف سخت قوانین کے نفاذ کے باعث ہاتھیوں کے شکار میں 78 فیصد جبکہ گینڈوں کے شکار میں 85 فیصد کمی آئی۔

  • کینیا میں جانوروں کا شکار کرنے پر سزائے موت کا فیصلہ

    کینیا میں جانوروں کا شکار کرنے پر سزائے موت کا فیصلہ

    نیروبی: افریقی ملک کینیا میں خطرے کا شکار جنگلی حیات کا شکار کرنے والوں کے لیے سزائے موت کا اعلان کردیا گیا۔

    کینیا کے وزیر برائے سیاحت و جنگلی حیات نجیب بلالا نے اعلان کیا ہے کہ جنگلی حیات کا شکار کرنے پر موجودہ سزائیں ناکافی ہیں اور اب جلد شکار کرنے پر سزائے موت کا قانون بنا دیا جائے گا۔

    نجیب بلالا کا کہنا تھا کہ اب تک جنگلی حیات کا شکار کرنے پر عمر قید کی سزا اور 2 لاکھ امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد تھا تاہم یہ بھی جنگلی حیات کا شکار روکنے کے لیے ناکافی رہا جس کے بعد اب سزائے موت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    کینیا کے اس اقدام کے بعد اسے اقوام متحدہ میں مخالفت اور تنازعے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اقوام متحدہ دنیا کے تمام ممالک میں کسی بھی جرم پر سزائے موت کی سخت مخالف ہے۔

    خیال رہے کہ کینیا میں متنوع جنگلی حیات پائی جاتی ہے جس میں شیر، زرافے، زیبرا، شتر مرغ، گینڈے اور دریائی گھوڑے شامل ہیں۔ یہ جانور کینیا سمیت دیگر افریقی ممالک کی سیاحت کا بڑا سبب ہیں۔

    گزشتہ کچھ عرصے سے افریقی جانوروں کے شکار میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا تھا جس کے بعد ان جانوروں کی نسل معدوم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ ان جانوروں کے شکار کا بنیادی سبب دنیا بھر میں ہاتھی دانت کی بڑھتی ہوئی مانگ تھی جس کے لیے ہاتھی اور گینڈے کا شکار کیا جاتا اور ان کے دانتوں اور سینگ کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    تاہم کینیا اور دیگر افریقی ممالک میں اس شکار کو روکنے کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات کیے گئے جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے۔ کینیا میں شکار کے خلاف سخت قوانین کے نفاذ کے باعث ہاتھیوں کے شکار میں 78 فیصد جبکہ گینڈوں کے شکار میں 85 فیصد کمی آئی۔

    حکام کو امید ہے کہ سزائے موت کے بعد اب ان جانوروں کے شکار میں مزید کمی آتی جائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ یہ شکار بند ہوجائے گا۔

  • پرانے ٹائرز خوبصورت فرنیچر میں تبدیل

    پرانے ٹائرز خوبصورت فرنیچر میں تبدیل

    افریقی ملک گھانا کا ایک نوجوان طالب علم پرانے ٹائرز سے دیدہ زیب فرنیچر تیار کر رہا ہے جسے سوشل میڈیا پر نہایت مقبولیت حاصل ہورہی ہے۔

    جیفری یوبوہ نامی یہ نوجوان اکنامکس کی تعلیم بھی حاصل کر رہا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اپنا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

    جیفری کچرے کے ڈھیر سے پرانے ٹائرز اکھٹے کرتا ہے جبکہ وہ سیکنڈ ہینڈ ڈیلرز سے بھی ٹائرز خریدتا ہے۔

    ان پرانے ٹائروں کو دھونے اور سکھانے کے بعد جیفری کا کام شروع ہوتا ہے۔

    وہ ان پر شیشہ، کپڑے اور رنگین رسیاں استعمال کر کے ان سے دیدہ زیب کافی ٹیبلز، کرسیاں اور دیگر فرنیچر بناتا ہے۔

    جیفری کا کہنا ہے کہ وہ خود کو معاشرے کا ایک کارآمد حصہ سمجھتا ہے کیونکہ وہ شہر کے کچرے کو کم کرنے میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔

    جیفری نے اس کام کا آغاز 5 سال قبل کیا تھا، اب اس کے پاس مدد کے لیے 2 مزید نوجوان ہیں۔ اس کا بنایا ہوا فرنیچر 30 سے 250 ڈالر کے درمیان فروخت ہوتا ہے۔

    اس کا فرنیچر خریدنے والے کچھ افراد کا کہنا ہے کہ وہ انہیں خرید کر بہت خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کے اپنے ملک میں بنا ہوا ہے۔

    جیفری کا کہنا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ لوگ چیزوں کو دوبارہ استعمال کرنا یعنی ری سائیکلنگ کرنا سیکھیں، تاکہ زمین سے کچرے میں کمی کی جاسکے۔