Tag: افریقہ

  • کم عمری کی شادیوں کے خلاف برسر پیکار افریقی لیڈر

    کم عمری کی شادیوں کے خلاف برسر پیکار افریقی لیڈر

    مشرقی افریقی ملک ملاوی میں ایک ضلع کی انتظامی صدر نے کم عمری کی شادیوں کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے زبردستی شادی کے بندھن میں بندھی ہوئی بچیوں کو اسکول بھیجنا شروع کردیا۔

    ملاوی میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان دنیا میں سب زیادہ پایا جاتا ہے۔

    یہاں ہر 2 میں سے 1 لڑکی کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کردی جاتی ہے یعنی ملک کی تقریباً نصف سے زائد بچیاں ناپسندیدہ شادی کے رشتے میں جکڑی ہوئی ہیں۔

    تاہم جھیل ملاوی کے ساتھ واقع ضلع دیدزا کی انتظامی سربراہ تھریسا اس رجحان کے خلاف بھرپور اقدامات کر رہی ہیں۔

    تھریسا اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے زبردستی کی شادی کے بندھن میں بندھی بچیوں کو نجات دلا چکی ہیں۔ وہ اب تک 24 سو شادیوں کو منسوخ کرچکی ہیں۔

    اپنے ان اقدامات کی وجہ سے تھریسا اپنے ضلع میں ایک مقبول ترین شخصیت بن چکی ہیں۔ ان کے مداحوں میں وہ والدین بھی شامل ہیں جو صرف سماجی و خاندانی روایات سے مجبور ہو کر اپنی بچیوں کو کم عمری میں بیاہ دیتے ہیں۔

    تھریسا شادی سے نجات پانے والی ان بچیوں کو دوبارہ اسکول بھیج رہی ہیں۔ اس کے لیے وہ ملک بھر سے رقم جمع کرتی ہیں جو ان بچیوں کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے میں کام آتی ہے۔

    براعظم افریقہ میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان خطرناک حد تک بلند ہے۔ کچھ ممالک میں اس رجحان کے خلاف کام کیا جارہا ہے اور کئی افریقی ممالک میں اس پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔

    سنہ 2016 کے وسط میں گیمبیا اور تنزانیہ میں کم عمری کی شادی کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔ جرم کا ارتکاب کرنے والے افراد کے لیے سخت سزاؤں کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔

    تھریسا کو امید ہے کہ ملاوی میں بھی اس رجحان کے خلاف آگاہی پیدا ہوگی اور بہت جلد وہ اس تباہ کن رجحان سے چھٹکارہ پالیں گے۔

  • جبوتی: تارکین وطن کی دو کشتیاں ڈوب گئیں، 38 افراد ہلاک، درجنوں لاپتہ

    جبوتی: تارکین وطن کی دو کشتیاں ڈوب گئیں، 38 افراد ہلاک، درجنوں لاپتہ

    جبوتی: افریقی ملک جبوتی کے ساحل پر تارکین وطن کی دو کشتیاں ڈوبنے سے اڑتیس مہاجرین ہلاک اور درجنوں لاپتہ ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق کشتیاں ڈوبنے کے باعث 130 کے قریب تارکین وطن لاپتہ ہیں، ریسکیو عملے نے کئی مہاجرین کو زندہ بچا لیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق جبوتی کا ساحل صومالیہ اور اتھوپیا کے مہاجرین کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے، جہاں سے سیکڑوں تارکین وطن بہتر روزگار کے لیے جزیرہ عرب کا رخ کرتے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے مہاجرت کا کہنا ہے کہ ان کشتیوں پر زیادہ تر ایتھوپیا کے باشندے سوار تھے اور یہ سمندر میں طغیانی کی سبب ڈوبیں، جبوتی کے کوسٹ گارڈز ڈوبنے والوں کی تلاش کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    یمن میں جاری خانہ جنگی اور انسانیت کی پامالی کے باوجود سال 2017 میں 2 ہزار 900 کے قریب اتھوپیا اور صومایہ کے مہاجرین نے یہاں کا روخ کیا تھا۔

    بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتی ڈوب گئی، 16 افراد ہلاک، متعدد لاپتہ

    اگست 2017 میں بھی جبوتی کے ساحل پر درجنوں تارکین وطن جان کی بازی ہار گئے تھے۔

    دوسری جانب گذشتہ سال جولائی میں یورپ جانے کی خواہش لیے مہاجرین اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، بحیرہ روم میں کشتی ڈوبنے سے 16 افراد ہلاک جبکہ متعدد لاپتہ ہوگئے تھے۔

    قبل ازیں 2015 میں غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونے کی کوشش میں سترہ سو سے زائد تارکین وطن بحیرہ روم میں ڈوب کر ہلاک ہوگئے تھے جبکہ اسی سال ہی اٹلی کے کوسٹ گارڈز نے ایک بڑا ریسکیو آپریشن کر کے ہزاروں مہاجرین کو ڈوبنے سے بچایا تھا۔

  • مصر کا مسلمان کھلاڑی افریقہ کا بہترین فٹ بالر قرار

    مصر کا مسلمان کھلاڑی افریقہ کا بہترین فٹ بالر قرار

    قاہرہ: مصر کے اسٹار فٹ بالر ایک اور  ایوارڈ لے اڑے، محمد صلاح نے افریقہ کے بہترین فٹ بالر کا ایوارڈ جیت لیا.

    تفصیلات کے مطابق محمد صلاح مسلسل دوسرے سال افریقہ کے بہترین کھلاڑی کا اعزاز حاصل کرنے والے فٹ بالر بن گئے۔

    [bs-quote quote=” محمد صلاح کو مصر میں اسٹار کا درجہ حاصل ہے” style=”style-7″ align=”left”][/bs-quote]

    سینیگال میں ہونے والی کنفیڈیشن آف فٹ بال ایوارڈ کی تقریب میں مصری کھلاڑی نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔

    گزشتہ سال لیورپول کو فائنل تک پہنچانے میں محمد صلاح کا اہم کردار تھا، انگلش پریمئیر لیگ کے رواں سیزن میں محمد صلاح کے تیرہ گولز کی بدولت لیورپول پوائنٹس ٹیبل پر سرفہرست ہے۔

    یاد رہے کہ محمد صلاح کو مصر میں اسٹار کا درجہ حاصل ہے، عام خیال ہے کہ اپنے آبائی وطن میں محمد صلاح صدر مملکت کے بعد مقبول ترین شخص ہیں.


    مزید پڑھیں: کیا محمد صلاح‌ پھر افریقن فٹبالر آف دی ائیر ایوارڈ اپنے نام کر لیں گے؟

    محمد صلاح برطانیہ میں بھی ہر دل عزیز شخصیت ہیں، بالخصوص لیوپورل کے مداحوں کے لیے وہ ہیرو ہیں.

    اس کیٹیگری میں محمد صلاح کا مقابلہ مراکو کے کپتان بینتیا، سینگال کے کوئیلیبیلی، سینگال کے فارورڈ مینی، الٹلانٹو میڈریڈ کے مڈ فیلڈر پارٹی سے ہے.

  • کینیا میں کرنسی سکوں پر جانوروں کی شبیہہ کندہ

    کینیا میں کرنسی سکوں پر جانوروں کی شبیہہ کندہ

    افریقی ملک کینیا میں کرنسی سکوں پر سے صدور کی شبیہیں ہٹا کر جنگلی حیات کی شبیہیں کندہ کردی گئیں۔ اقدام کا مقصد ان صدور کی جانب سے ذاتی شہرت کے لیے شروع کیے گئے اس عمل کا خاتمہ اور ملک کی معدوم ہوتی جنگلی حیات کے تحفظ کی طرف توجہ دلانا ہے۔

    اس سے قبل سکوں پر کینیا کے 3 صدور جومو کینیاتا، ڈینیئل ارپ موئی اور موائی کباکی کی شبیہیں کندہ تھیں۔ یہ تینوں صدور سنہ 1963 سے باری باری کینیا پر حکمران رہے جب یہ ملک برطانیہ سے آزاد ہوا تھا۔

    ان میں سے ڈینیئل ارپ موئی طویل ترین عرصے یعنی 24 سال تک اقتدار میں رہے۔ ان کے بعد موائی کباکی نے ان کی جگہ مسند اقتدار سنبھالا۔

    کینیا کی کرنسی پر ہمیشہ سے برسر اقتدار حکمران کی تصاویر شائع کی جاتی رہی تاہم اس عمل کو کینیا کی عوام نے سخت ناپسند کیا۔ ان کا خیال تھا کہ کرنسی پر اپنی تصاویر چھاپنے کا مقصد دراصل ذاتی تشہیر اور ملک کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھنا ہے۔

    سنہ 2002 میں جب موائی کباکی اقتدار میں آئے تو انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ کرنسی پر اپنی تصاویر نہیں چھپوائیں گے لیکن جلد ہی انہوں نے اپنا وعدہ توڑ دیا۔

    سنہ 2010 میں عوام کے بے تحاشہ دباؤ پر جہاں آئین میں کئی تبدیلیاں کی گئیں وہیں اس شق کو بھی شامل کیا گیا کہ کرنسی پر کسی انفرادی شخصیت کی تصویر نہیں چھاپی جائے گی۔

    مرکزی بینک کی جانب سے نئے سکے جاری کیے جانا اسی شق پر عملدر آمد کا حصہ ہے اور بہت جلد ایسے ہی نئے کرنسی نوٹ بھی جاری کردیے جائیں گے۔

    نئے جاری کیے جانے والے سکوں پر افریقہ میں پائے جانے والے جانور شیر، ہاتھی اور زرافہ اور رائنو کی شبیہیں کندہ کی گئی ہیں۔

    مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ سکوں پر جنگلی حیات کی شبیہیں کندہ کرنا اس بات کی علامت ہے کہ کینیا اب اپنے ماحول اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔

  • پلاسٹک کی بوتلوں سے بنی کشتیاں

    پلاسٹک کی بوتلوں سے بنی کشتیاں

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین کی سطح پر مستقل اسی حالت میں رہ کر اسے گندگی و غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل کرچکا ہے۔

    دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں استعمال شدہ پلاسٹک کے کسی نہ کسی طرح دوبارہ استعمال کے بھی نئے نئے طریقے دریافت کیے جارہے ہیں اور ایسی ہی ایک کوشش پلاسٹک کی بوتلوں سے بنی کشتیوں کی صورت میں سامنے آگئی۔

    ان کشتیوں کو بنانے کا آغاز وسطی افریقہ میں واقع ملک کیمرون کے کچھ طلبا نے کیا جس کے بعد یہ براعظم افریقہ میں تیزی سے مقبول ہوتی گئیں۔

    پانی کی پلاسٹک والی استعمال شدہ بوتلوں سے بنائی گئی یہ کشتیاں دیکھنے میں بہت منفرد معلوم ہوتی ہیں۔

    چونکہ پلاسٹک وزن میں ہلکا ہوتا ہے لہٰذا وہ پانی میں ڈوبتا نہیں، لیکن پلاسٹک کی کشتی میں کسی کے بیٹھنے کی صورت میں وہ ڈوب بھی سکتی ہیں، لہٰذا یہاں طبیعات کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی کشتیاں بنائی گئی ہیں جو سائز میں بڑی ہیں چنانچہ وہ اپنے اوپر پڑنے والے دباؤ کو توازن میں رکھتی ہیں۔

    پلاسٹک کی بے دریغ استعمال ہوتی بوتلوں کی ری سائیکلنگ کے لیے یہ ایک اچھوتا خیال ہے اور یقیناً دیگر ممالک کو بھی اس معاملے میں افریقہ کی تقلید کرنی چاہیئے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں سے متعلق مزید مضامین پڑھیں

  • 15 سالہ افریقی طالبہ اپنے علاقے کی بہتری کے لیے کوشاں

    15 سالہ افریقی طالبہ اپنے علاقے کی بہتری کے لیے کوشاں

    کئی دہائیوں سے غربت اور پسماندگی کی تصویر بنا براعظم افریقہ محروم لوگوں پر تو ضرور مشتمل ہے، تاہم وہاں ایسے افراد کی کمی نہیں جو ذہانت سے مالا مال ہیں اور اپنی اس ذہانت سے اپنے خطے کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں۔

    نائجیریا کے دارالحکومت ابوجا کی 15 سالہ انو اکانم بھی ان ہی میں سے ایک ہے۔

    صرف 15 سال کی عمر میں اسے موقع مل سکا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی بہتری کے لیے ذہن میں موجود آئیڈیاز کو حقیقت میں بدل سکے اور اس کے لیے اسے اقوام متحدہ کی معاونت حاصل ہوگئی ہے۔

    مزید پڑھیں: استاد کی انوکھی تصویر، افریقی اسکول کے بچوں کی قسمت بدل گئی

    انو کو بچپن ہی سے کمپیوٹر استعمال کرنے کا شوق تھا، وہ بتاتی ہے کہ اسے اسکول میں کمپیوٹر کی نہایت بنیادی تعلیم دی گئی جو اس کے شوق کے آگے ناکافی تھی۔

    وہ کہتی ہے، ’عموماً سمجھا جاتا ہے کہ صرف لڑکے ہی کمپیوٹر فیلڈ میں اسپیشلائزڈ کرسکتے ہیں۔ مجھے بچپن سے کمپیوٹر اور کوڈنگ میں دلچسپی تھی اور میں اس کو تفصیل سے جاننے کی خواہش مند تھی‘۔

    ’میرے پسماندہ علاقے میں بھی یہی سمجھا جاتا تھا کہ لڑکیاں کمپیوٹر سیکھ کر کیا کریں گی، لیکن جب میں اقوام متحدہ کے بین الاقوامی پلیٹ فارم پر آئی اور وہاں اپنی جیسی بہت سی لڑکیوں کو دیکھا تو میری بہت حوصلہ افزائی ہوئی‘۔

    انو کو اگست میں اقوام متحدہ کی جانب سے افریقی ملک ایتھوپیا میں منعقد کیے جانے والے کوڈنگ کیمپ میں شرکت کا موقع ملا تھا۔ یہ پروگرام اقوام متحدہ خواتین، افریقی یونین کمیشن اور بین الاقوامی ٹیلی کمیونیکیشن یونین کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا۔

    اس پروگرام کا مقصد افریقی طالبات کی سائنس و کمپیوٹر کے شعبہ میں آنے کی حوصلہ افزائی کرنا اور اس سلسلے میں انہیں تعاون فراہم کرنا تھا۔

    انو اس پروگرام سے منسلک ہونے کے بعد کمپیوٹر کوڈنگ کی مزید تربیت حاصل کریں گی۔ وہ کہتی ہیں، ’مجھے یہاں لیپ ٹاپ بھی دیا گیا ہے۔ جب میں اپنے علاقے میں واپس جاؤں گی تو اپنی جیسی کمپیوٹر سے دلچسپی رکھنے والی مزید لڑکیوں کو اس بارے میں معلومات دے سکوں گی۔‘

    انو کا آئیڈیا ہے کہ ایسا ڈرون بنایا جائے جسے ایس ایم ایس کے ذریعے کنٹرول کیا جاسکے اور یہ ڈرون افریقہ کے دیہی علاقوں میں دوائیاں پہنچانے کے کام آسکے جہاں لوگ معمولی بیماریوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    وہ کہتی ہے، ’افریقہ کے دیہات کئی صدیاں پیچھے ہیں، یہاں لوگوں کی طبی سہولیات تک رسائی نہیں‘۔

    انو کا عزم ہے کہ وہ سائنس و کمپیوٹر کے شعبے میں مہارت حاصل کرے اور مستقبل میں اس مہارت کو اپنے خطے کے لوگوں کی بہتری کے لیے استعمال کرے۔

  • جانوروں میں ’انسانیت‘ کی انوکھی مثال

    جانوروں میں ’انسانیت‘ کی انوکھی مثال

    بعض جانور آپس میں جانی دشمن ہوتے ہیں لیکن ان کے علاوہ دیگر جانوروں میں محبت، ہمدردی اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جو جذبہ ہوتا ہے وہ انسانوں کو بھی دنگ کردیتا ہے۔

    ایسا ہی ایک منظر افریقہ کے جنگلات میں دیکھنے میں آیا جہاں ہاتھی نے ایک خونخوار شیرنی کی مدد کر کے انوکھی مثال قائم کردی۔

    ہوا کچھ یوں کہ تپتی دوپہر میں ایک شیرنی اپنے ننھے سے بچے کے ساتھ کسی سایہ دار جگہ پر جانا چاہتی تھی مگر ننھا شیر کچھ بیمار بھی تھا اور گرم زمین پر چل نہیں پارہا تھا۔

    ایسے میں ہاتھی نے انہیں دیکھا تو ننھے شیر کو اٹھا کر اپنی سونڈ پر رکھ لیا اور شیرنی کے ساتھ چلتا ہوا سایہ دار مقام پر پہنچ گیا۔

    گو کہ شیرنی شکار کے معاملے میں ہاتھی کو بھی نہیں بخشتی اور اس پر حملہ کردیتی ہے لیکن ہاتھی کے اس ہمدردانہ جذبے کے بعد یقیناً وہ ساری زندگی کسی ہاتھی پر حملہ کرنے سے گریز کرے گی۔

    یہی نہیں وہ اپنے بچے کو بھی یہ بتائے گی کہ کس طرح اس کے بچپن میں ایک ہاتھی نے اس کی مدد کی لہٰذا وہ کبھی ہاتھیوں پر حملہ نہ کرے۔

    مدد اور ہمدردی کا یہ جذبہ دیکھ کر کیا آپ اب بھی ان کو جنگلی جانور کہیں گے؟

  • صحارا کا صحرا بھی سرسبز بن سکتا ہے

    صحارا کا صحرا بھی سرسبز بن سکتا ہے

    دنیا کا تیسرا اور براعظم افریقہ کا سب سے بڑا صحرا سنہ 2050 تک نصف سے زائد دنیا کی توانائی کی ضروریات پوری کرسکتا ہے اور ساتھ ساتھ خود بھی سرسبز ہوسکتا ہے۔

    حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ صحارا میں بڑی تعداد میں شمسی توانائی کے پینلز اور ہوا سے توانائی بنانے والی پن چکیاں نصب کردی جائیں تو یہ آدھی دنیا کی توانائی کی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔

    ایک زیر غور منصوبے کے مطابق 35 لاکھ اسکوائر میل کے رقبے پر لگے شمسی توانائی کے پینلز اور پن چکیاں 79 ٹیرا واٹس بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ اس بجلی سے 4 گنا زیادہ ہے جو صرف 2017 میں پوری دنیا میں استعمال کی گئی یعنی 18 ٹیرا واٹ۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے سب سے گرم ترین صحرا میں برف باری

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ تکمیل پا گیا تو ہوا سے توانائی بنانے والی ٹربائنز گرم ہوا کو نیچے کی جانب کھینچیں گی۔ اس عمل سے بارشوں میں اضافہ ممکن ہے۔

    تحقیق کے مطابق اس منصوبے سے صحارا میں ابھی ہونے والی بارشیں دگنی ہوسکتی ہیں جس سے صحرا کے سبزے میں 20 فیصد اضافہ متوقع ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صحرا کی شادابی، بارشوں میں اضافہ، اور ساتھ ساتھ ماحول دوست تونائی کی فراہمی ایسے عوامل ہیں جو افریقہ اور مشرق وسطیٰ کی معیشت، زراعت اور سماجی ترقی میں اضافہ کریں گے۔

    خیال رہے کہ صحرائے صحارا کا کل رقبہ 92 لاکھ کلو میٹر ہے جو امریکا کے رقبے سے زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق یہ صحرا غیر فطری پھلاؤ کی وجہ سے انسانی سرگرمیوں کو بھی متاثر کررہا ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صحرا جنوب کی جانب حرکت کرتے ہوئے سوڈان اور چاڈ کی حدود میں داخل ہو رہا ہے، جس کے باعث دونوں ملکوں کے سرسبز علاقے خشک ہو رہے ہیں اور فصل اگانے والی زمینیں بھی بنجر ہوتی جارہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: صحارا کے صحرا میں قدیم دریا دریافت

    جنرل آف کلائمٹ میں شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا کہ گذشتہ ایک صدی کے دوران صحارا کے رقبے میں ہونے والا اضافہ پاکستان کے رقبے سے بھی زیادہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق صحرائے اعظم میں اضافے کی بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔

  • ڈھائی ہزار سال پرانے درخت موت کے پنجوں میں

    ڈھائی ہزار سال پرانے درخت موت کے پنجوں میں

    براعظم افریقہ میں پائے جانے والے دنیا کے نایاب ترین ڈھائی ہزار سال قدیم درخت صرف ایک دہائی میں موت سے ہمکنار ہوگئے۔

    افریقہ کے یہ درخت جنہیں عام طور پر باؤباب کہا جاتا ہے 11 سو سے ڈھائی ہزار سال کی عمر کے ہیں۔ ماہرین کے مطابق موسمی تغیرات یا کلائمٹ چینج کی وجہ سے یہ درخت مر رہے ہیں۔

    سائسنی جریدے نیچر پلانٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق سب سے قدیم 13 درختوں میں سے کم از کم 9 درختوں کی جڑیں مر چکی ہیں۔ ان 9 میں سے 4 درختوں کو پورے براعظم افریقہ کے سب سے بڑے درختوں کی حیثیت حاصل ہے۔

    تحقیقاتی ٹیم کے مطابق یہ درخت اب تک زمین پر موجود سب سے طویل عمر اور سب سے بڑے پھول دینے والے درخت ہیں۔

    ان درختوں کو اڈنسونیا گرنڈیڈر بھی کہا جاتا ہے اور یہ منفرد ہیئت کے حامل ہوتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اپنے قدرتی مقام پر یہ 3 ہزار سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔

    یہ قدیم درخت اپنے اندر پانی کی بہت بڑی مقدار ذخیرہ کرسکتے ہیں، ان کے پھل انسانوں اور پرندوں دونوں کے کام آتے ہیں، ان کے پتے بھی ابال کر کھائے اور دواؤں میں استعمال کیے جاتے ہیں جن کا ذائقہ پالک جیسا ہوتا ہے۔

    ان درختوں کی چھال سے ہیٹ، کپڑے، باسکٹ اور رسیاں بنائی جاتی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ درخت بے حد مضبوط ہوتے ہیں اور آسانی سے نہیں مرتے، تاہم جس طرح ان قدیم درختوں کی موت واقع ہوئی ہے وہ نہایت تشویش ناک ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • افریقی خانہ جنگیوں سے گوریلا بھی غیر محفوظ

    افریقی خانہ جنگیوں سے گوریلا بھی غیر محفوظ

    دنیا میں بدلتے موسموں کی وجہ سے تقریباً تمام جانداروں کو خطرات لاحق ہیں اور انہی میں سے ایک جانور گوریلا بھی ہے جس کی نسل کو معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق افریقی جنگلی حیات کا اہم حصہ گوریلا کی آبادی میں پچھلی 2 دہائیوں میں خطرناک حد تک کمی آگئی ہے جس کے بعد آئی یو سی این نے اسے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ یہ درجہ معدومی سے قبل کا آخری درجہ ہے۔

    gorilla-3

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق گوریلا کی ایک نسل گروئر گوریلا کی آبادی میں 77 فیصد کمی آ چکی ہے اور سنہ 1995 سے اب تک ان کی تعداد 7 ہزار سے گھٹ کر 3 ہزار 800 ہوگئی ہے۔

    صرف براعظم افریقہ میں پایا جانے والا گوریلا مغربی افریقہ کے متعدد ممالک کے جنگلات میں رہتا ہے اور ماہرین کے مطابق گوریلاؤں کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ان افریقی ممالک میں ہونے والی خانہ جنگیاں ہیں جن کے باعث گوریلا کے زیر رہائش جنگلات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    اور صرف ایک گوریلا ہی نہیں، ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق پچھلے 14 سالوں میں افریقی جانوروں کی آبادی میں 24 فیصد کمی آچکی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان کا بے دریغ شکار ہے۔

    مزید پڑھیں: افریقی ہاتھیوں کی آبادی میں خطرناک کمی

    دوسری جانب گوریلا کی ایک اور قسم پہاڑی گوریلا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات یو این ای پی کے مطابق ان گوریلاؤں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں جو بار آور ہو رہے ہیں۔

    یو این ای پی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مختلف افریقی ممالک میں پہاڑی گوریلاؤں کی تعداد 300 سے بڑھ کر 880 ہوگئی ہے۔

    نارویجیئن سیاستدان اور یو این ای پی کے سربراہ ایرک سولہیئم کا کہنا ہے کہ گوریلا انسانوں سے بے حد مماثلت رکھتے ہیں اور ان کا ڈی این اے 99 فیصد انسانوں سے مشابہہ ہوتا ہے۔ ’انسانوں سے اس قدر مشابہت بندر سمیت کسی اور جانور میں نہیں‘۔

    gorilla-2

    افریقی حکام کا کہنا ہے کہ ان گوریلاؤں کا تحفظ افریقہ کی سیاحت میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے جو دنیا بھر میں اپنے فطری حسن اور متنوع جنگلی حیات کی وجہ سے ہی مشہور ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔