Tag: افریقہ

  • افریقی بادشاہ کا انوکھا فیصلہ، ملک کا نام تبدیل کر دیا

    افریقی بادشاہ کا انوکھا فیصلہ، ملک کا نام تبدیل کر دیا

    مبابانہ: براعظم افریقا کی ایک چھوٹی سی ریاست سوازی لینڈ کے بادشاہ مسواتی سوئم کے انوکھے فیصلے نے ملک کا تبدیل کردیا.

    تفصیلات کے مطابق مسواتی سوئم نے ملک کا نام تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے، اب سوازی لینڈ‌ کو سلطنت ایسواتینی کے نئے نام سے پکارا جائے گا.

    بادشاہ مسواتی سوئم نے اپنے ملک کے پچاسویں یوم آزادی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے یہ اعلان کیا. ان کا کہنا تھا کہ بیشتر افریقی ممالک نے آزادی کے بعد اپنے پرانے نام دوبارہ اپنا لیے، لیکن سوازی لینڈ ابھی تک برطانوی کالونی کے نام سے پہچانا جاتا ہے، سو اسے تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے.

    حکومتی بیان کے مطابق اس فیصلے کا ایک سبب افریقی ملک سوازی لینڈ اور یورپی ملک سوئٹزر لینڈ کے ناموں کی صوتی مشابہت بھی ہے، جس کی وجہ سے اکثر سننے والے غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں. اسی باعث اب اس کا نام ایسواتینی کا انتخاب کیا ہے۔

    جنوبی افریقا کا یہ پسماندہ ملک سوازی لینڈ دولت مشترکہ کا رکن ملک ہے، جس پر 1968 تک برطانوی کی حکومت تھی۔ اس کی آبادی ساڑھے تیرہ لاکھ کے لگ بھگ ہے اور رقبہ 6704 مربع میل ہے. مبابانہ اس کا مرکزی شہر ہے.


    چاڈ جھیل کے سُکڑنے سے افریقی ممالک میں قحط سالی کا خدشہ


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • افریقہ کے گاؤں میں مٹی کے خوبصورت منقش گھر

    افریقہ کے گاؤں میں مٹی کے خوبصورت منقش گھر

    مغربی افریقی ملک برکینا فاسو کے ایک گاؤں طیبیل میں یوں تو لوگ عام سے مٹی سے بنے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں، لیکن ان گھروں کی دیواروں پر نہایت دیدہ زیب اور انوکھی نقش نگاری کر کے انہیں نہایت خوبصورت بنا دیا گیا ہے۔

    برکینا فاسو کا یہ گاؤں دنیا بھر میں اپنے ان خوبصورت منقش گھروں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس گاؤں کو 15 صدی عیسوی میں بسایا گیا تھا۔

    یہاں کے لوگ گھر کی دیواروں پر نقش نگاری کے لیے مٹی اور چونے میں مختلف رنگوں کی آمیزش کردیتے ہیں۔ مردوں کو دفن کرنے کے لیے مخصوص مقام بھی اسی طرح کی نقش و نگاری سے آراستہ ہے۔

    دیواروں پر بنائے جانے والے یہ نقش، اشکال اور پیٹرنز قدیم افریقی ثقافت و مصوری کا حصہ ہیں۔ یہاں موجود افراد کے مطابق گھروں کی بیرونی دیواروں کو اس طرح رنگوں سے آراستہ کرنے کی روایت کا آغاز 16 صدی عیسوی سے ہوا۔

    ان گھروں کی ایک اور خاص بات ان کے چھوٹے دروازے ہیں۔ گھروں کا داخلی دروازہ نہایت مختصر سا ہوتا ہے جو دراصل دشمنوں سے بچنے کے مقصد کے پیش نظر رکھا جاتا ہے۔

    یہاں ایک اور روایت ہے کہ کسی گھر کے مکمل ہونے کے بعد گھر کا مالک رہائش اختیار کرنے سے قبل 2 دن تک انتظار کرتا ہے۔ اگر ان 2 دنوں میں گھر میں کوئی چھپکلی نظر آئے تو ایسے گھر کو قابل رہائش سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن اگر گھر میں کوئی چھپکلی نہ دکھے تو اسے بدشگونی قرار دے گھر کو ڈھا دیا جاتا ہے۔

    اس گاؤں کے ثقافتی ورثے اور روایات کو دیکھتے ہوئے اسے سیاحتی مقام کا درجہ دینے پر غور کیا جارہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • امریکی گلوکارہ میڈونا، غریب بچوں کے لیے 4 نئے اسکول تعمیر کرنے کا اعلان

    امریکی گلوکارہ میڈونا، غریب بچوں کے لیے 4 نئے اسکول تعمیر کرنے کا اعلان

    لاہور : امریکی گلوکارہ میڈونا نے مشرقی افریقہ ملک ملاوی میں چار نئے اسکول قائم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد ان کی جانب سے کھولے گئے اسکولوں کی تعداد 14 ہوجائے گی.

    بین الااقوامی خبر رساں ایجنسی کے مطابق معروف گلوکارہ نے اس بات کا اعلان نئے سال کی آمد کی موقع پر کیا، میڈونا کا کہنا تھا کہ یہ اسکول ایک این جی او کے اشتراک کے ساتھ تعمیر کیے جا رہے ہیں جس کا مقصد پسماندہ علاقوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے۔

    اس موقع پرامریکی گلوکارہ میڈونا کا مخیر حضرات اور سماجی تنظیموں سے تعاون کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بہ حیثیت انسان محروم اور مستحق لوگوں کی مدد کرنا ہمارا  اولین فرض ہے اور علم سے بہتر کوئی مدد نہیں ہو سکتی ہے کیوں کہ علم انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے.

    انہوں نے مزید کہا کہ معیاری تعلیم کا حصول ہر بچے کا بنیادی حق ہے اور میں اس سلسلے میں سب کو دعوت دیتی ہوں کہ آئیں، ہمارے ساتھ مل کام کریں اور پھر اس تعلیمی سے انقلاب سے دنیا بھر میں برپا ہونے والی مثبت تبدیلی کو دیکھیں جس سے پُر امن اور پُر رونق دنیا کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔

    خیال رہے کہ امریکہ کی صف اول کی گلوکارہ میڈونا اس سے قبل بھی ملاوی کے پسماندہ علاقوں میں 10 اسکول تعمیر کروا چکی ہیں جہاں سیکڑوں طالب علم مستفید ہو رہے ہیں تاہم بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کے سبب مفت تعلیم کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے میڈونا نے مزید 4 اسکولز کھولنے کا اعلان کیا ہے.

    امریکی گلوکارہ اپنی جدید موسیقی، انداز اور مغربی لباس کے باعث دنیا بھر میں کافی شہرت رکھتی ہیں جب اُن کی ازدواجی زندگی بھی اکثر میڈیا میں زیر بحث رہتی ہے اور وہ آئے دن متنازعہ خبروں کا حصہ بھی رہتی ہیں تاہم سماجی کاموں میں دلچسپی نے اُن کی شخصیت کے ایک الگ پہلو کو اجاگر کرنے میں مدد دی ہے۔

  • پاکستانی خاتون سائیکلسٹ ثمرخان نے افریقہ کی بلند ترین چوٹی سَر کرلی

    پاکستانی خاتون سائیکلسٹ ثمرخان نے افریقہ کی بلند ترین چوٹی سَر کرلی

    دیر : پاکستانی باہمت لڑکی ثمرخان نے افریقا کی بلند ترین چوٹی سَر کرنے والی پہلی خاتون سائیکلسٹ کا اعزاز اپنے نام کرلیا.

    تفصیلات کے مطابق ثمر خان نے اس منفرد اعزاز کو افریقا میں واقع 5895 میٹر بلند کلیمانجارو پہاڑ کی چوٹی کو سر کرکے حاصل کیا جس پر تنزانیہ کے محکمہ سیاحت نے ایک سرکاری تقریب میں ثمرخان کو سرٹیفکیٹ سے بھی نوازا.

    خیبرپختونخواہ کے علاقے دیر سے تعلق رکھنے والی نوجوان سائیکلسٹ ثمرخان یہ اعزاز حاصل کرنے والی پہلی خاتون ہیں انہوں نے چھ ہزار میٹر لمبی چوٹی 7 دسمبر 2017 کو سَر کی.

    یاد رہے کہ ثمرخان قراقرم میں گلیشئر پر بھی سائیکلنگ کرنے والی واحد خاتون ہیں جنہوں نے کئی مقامی ریکارڈ اور اعزازات اپنے نام کر رکھے ہیں تاہم وسائل کی کمی کی وجہ سے بین الااقوامی مقابلوں میں شرکت نہیں کر پارہی تھیں.

    اسی سے متعلق : سائیکل پراسلام آباد سے خنجراب تک کا سفر طے کرنے والی قوم کی باہمت بیٹی

    آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو جب اس بہادر سائیکلسٹ کے عزائم کا پتہ چلا تو انہوں نے ثمرخان کو ہر قسم کے وسائل مہیا کرنے اور ایونٹ میں شرکت کے انتظامات پاک فوج کی جانب سے کرانے کی یقین دہانی کرائی تھی.

    پاک فوج کی جانب سے وسائل کی فراہمی اور اعانت کے بعد ثمر خان نے تنزانیہ کا دورہ کیا اور چوٹی سر کرنے کے اعزاز کے ساتھ بہ خیریت پاکستان واپس پہنچ چکی ہیں.

  • افریقی ملک ملاوی میں آدم خوروں کی موجودگی

    افریقی ملک ملاوی میں آدم خوروں کی موجودگی

    مشرقی افریقہ کے ملک ملاوی میں 5 مبینہ آدم خوروں کو ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کردیا۔ تشدد کو بڑھنے سے روکنے کے لیے حکومت نے جنوبی علاقوں میں رات کا کرفیو نافذ کردیا۔

    بین الاقوامی رپورٹس کے مطابق افریقہ کا ملک ملاوی اس وقت آدم خوروں (انسانوں کو کھانے یا ان کا خون پینے والے) کی دہشت کی لپیٹ میں آگیا جب کچھ افراد نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو دوسرے انسانوں کا خون پیتے دیکھا ہے۔

    اس افواہ کی تصدیق تو نہ ہوسکی تاہم یہ افواہ جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی اور لوگوں نے اپنے گھروں کے گرد حفاظتی باڑھ تعمیر کرلی جبکہ کچھ آدم خوروں کو مارنے کے لیے ان کی تلاش میں نکل گئے۔

    بعض اطلاعات کے مطابق یہ آدم خور پڑوسی ملک موزمبیق سے یہاں آئے۔

    گزشتہ روز ملاوی کے جنوبی علاقے میں ہجوم نے 5 مبینہ آدم خوروں کو ہلاک کردیا جس کے بعد ملک بھر میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا۔

    تشدد کو بڑھنے سے روکنے کے لیے حکومت نے متاثرہ علاقوں میں رات کا کرفیو لگا دیا۔ ملاوی کے صدرکا کہنا ہے واقعہ کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی۔

    دوسری جانب اقوام متحدہ نے بھی ملاوی کے 2 اضلاع سے اپنے عملے کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی ہدایت کردی ہے جبکہ موزمبیق میں فی الحال اپنی تمام امدادی کارروائیاں معطل کردی ہیں۔

    یاد رہے کہ ملاوی کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے جہاں جادو ٹونے کا رواج نہایت عام ہے۔

    اس سے قبل سنہ 2002 میں بھی یہاں آدم خوروں کی موجودگی کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جب کچھ بچوں اور خواتین نے دعویٰ کیا کہ ایک شخص نے ان پر حملہ کر کے ان کا خون پینے کی کوشش کی۔

    بعد ازاں اس مبینہ آدم خور کو بھی ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کردیا تھا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • افریقہ کی عظیم سبز دیوار

    افریقہ کی عظیم سبز دیوار

    براعظم افریقہ میں دیوار چین کی طرز پر ایک اور عظیم دیوار بنائی جارہی ہے۔ مگر اس دیوار کی منفرد بات یہ ہے کہ یہ دیوار درختوں پر مشتمل بالکل سبز ہوگی۔

    افریقہ میں جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور بے روزگار افراد کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے اس منصوبے پر کام شروع کیا گیا جس سے ایک طرف تو افریقہ میں لوگوں کو ملازمتیں ملیں، تو دوسری جانب یہاں جنگلات میں بھی اضافہ ہوگا۔

    یہ دیوار مغرب میں افریقی ملک سینیگال سے لے کر مشرق میں صومالیہ تک بنائی جارہی ہے جو 15 کلو میٹر چوڑی ہوگی۔

    اس عظیم منصوبے کا آغاز سنہ 2007 سے کیا گیا تھا اور سینیگال میں اس کا کام تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔ گو کہ یہ منصوبہ سینیگال کو 2 ارب ڈالرز کے قریب پڑا، تاہم اس سے ملک کی زرخیزی اور زراعت میں اضافہ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ دیوار پایہ تکمیل تک پہنچ جاتی ہے تو یہ دنیا کا سانس لیتا سب سے بڑا تعمیراتی شاہکار ہوگا۔

    مزید پڑھیں: افریقی خانہ جنگیوں سے گوریلا بھی غیر محفوظ

    تو اگر آپ کو موقع ملے، عظیم دیوار چین، اور عظیم دیوار افریقہ کی سیر کرنے کا، تو آپ کون سی دیوار کو منتخب کرنا چاہیں گے؟


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی: پاکستان افریقی ممالک سے بھی بدتر پوزیشن پر

    پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی: پاکستان افریقی ممالک سے بھی بدتر پوزیشن پر

    جیسے جیسے زمانہ آگے کی جانب بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے پرانے ادوار کے خیالات و عقائد اور تصورات میں بھی تبدیلی آتی جارہی ہے۔

    ایک وقت تھا کہ گھروں سے باہر نکل کر کام کرنے والی خواتین کو حیرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ تاہم اب وقت بدل گیا ہے۔ اب خواتین ہر شعبہ زندگی میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو کر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

    ایسا ہی کچھ حال سیاست کا بھی ہے۔

    اگر آپ پرانے ادوار میں چلنے والی سیاسی تحریکوں کی تصاویر دیکھیں تو ان میں خال ہی کوئی خاتون نظر آئے گی، تاہم خواتین اب سیاست میں بھی فعال کردار ادا کر رہی ہیں اور فی الحال دنیا کے کئی ممالک کی سربراہی خاتون صدر یا وزیر اعظم کے ہاتھ میں ہی ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا پر حکمرانی کی دوڑ میں خواتین مردوں سے آگے

    سیاست میں خواتین کے اسی کردار کی جانچ کے لیے عالمی اقتصادی فورم نے ایک فہرست مرتب کی جس میں جائزہ لیا گیا ہے کہ کس ملک کی پارلیمنٹ میں خواتین کی کتنی تعداد موجود ہے۔

    فہرست میں حیرت انگیز طور پر امریکا، برطانیہ یا کسی دوسرے یورپی ملک کے مقابلے میں افریقی ممالک کے ایوانوں میں خواتین نمائندگان کی زیادہ تعداد دیکھنے میں آئی۔

    اس فہرست میں افریقی ملک روانڈا سرفہرست رہا جس کی پارلیمنٹ میں خواتین ارکان اسمبلی کی شرح 63.8 فیصد ہے۔

    بدقسمتی سے عالمی اقتصادی فورم کی مذکورہ فہرست میں صف اول کے 10 ممالک میں کوئی ایشیائی ملک شامل نہیں۔

    اس بارے میں دنیا بھر کی پارلیمان اور ایوانوں کا ریکارڈ مرتب کرنے والے ادارے انٹر پارلیمنٹری یونین کی ویب سائٹ کا جائزہ لیا گیا تو پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد کے حوالے سے موجود فہرست میں پاکستان 89 ویں نمبر پر نظر آیا۔

    مذکورہ فہرست کے مطابق پاکستانی پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی صرف 20.6 فیصد ہے۔ یعنی 342 نشستوں پر مشتمل پارلیمان میں صرف 70 خواتین موجود ہیں جو ملک بھر کی 10 کروڑ 13 لاکھ سے زائد (مردم شماری کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق) خواتین کی نمائندگی کر رہی ہیں۔

    اس معاملے میں افغانستان جیسا قدامت پسند ملک بھی ہم سے آگے ہے جو 27.7 فیصد خواتین اراکین پارلیمان کے ساتھ 53 ویں نمبر پر موجود ہے۔

    افغان پارلیمان

    فہرست میں پڑوسی ملک بھارت 147 ویں نمبر پر موجود ہے جس کی 542 نشستوں پر مشتمل لوک سبھا میں صرف 64 خواتین موجود ہیں۔

    صنفی ماہرین کا کہنا ہے کہ پالیسی سازی کے عمل اور قومی اداروں میں خواتین کی شمولیت اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ ملک کی ان خواتین کی نمائندگی کرسکیں جو کمزور اور بے سہارا ہیں۔

    مزید پڑھیں: ہیلری کلنٹن کی شکست کی وجہ خواتین سے نفرت؟

    کسی ملک میں خواتین کو کیا مسائل درپیش ہیں، اور ان سے کیسے نمٹنا ہے، یہ ایک ایسی خاتون سے بہتر کون جانتا ہوگا جو نہ صرف اپنی انتخابی مہم کے دوران ان خواتین سے جا کر ملی ہو اور ان کے مسائل سنے ہوں، بلکہ خود بھی اسی معاشرے کی پروردہ اور انہی مسائل کا شکار ہو۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • افریقی خواتین اپنے گاؤں کو روشن کرنے کے مشن پر

    افریقی خواتین اپنے گاؤں کو روشن کرنے کے مشن پر

    طویل خانہ جنگیوں کے شکار ممالک کو جنگ ختم ہونے کے بعد اپنی معیشت اور انفرا اسٹرکچر کی بحالی، یا یوں کہہ لیجیئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے ایک طویل وقت درکار ہوتا ہے۔

    اس دور میں ملک کے ہر شخص کو، چاہے وہ تعلیم یافتہ ہو یا نہ ہو، کسی بھی شعبہ، کسی بھی ذریعہ روزگار سے تعلق رکھتا ہو، صنف اور عمر کی تفریق کے بغیر فعال کردار ادا کرنے کی ضورت ہوتی ہے تاکہ ملک کو جنگ کی تباہی سے نکالا جاسکے۔

    براعظم افریقہ اس لحاظ سے ایک بدقسمت خطہ ہے کہ وہاں کے زیادہ تر ممالک طویل عرصے سے خونی تنازعوں اور خانہ جنگیوں میں الجھے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افریقہ کا شمار تیسری دنیا میں ہوتا ہے جہاں زندگی کی بنیادی سہولیات بھی ناپید ہیں اور ہر طرف بھوک، غربت اور خوف کے سائے ہیں۔

    مغربی افریقہ کا ملک لائبیریا بھی ایسا ہی ملک ہے جو سنہ 1989 سے 1997 تک ایک طویل خانہ جنگی کا شکار رہا۔ اس جنگ میں 6 لاکھ افراد مارے گئے۔

    ابھی ملک اس جنگ کی تباہ کاریوں سے سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ سنہ 1999 میں ایک اور خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا جو بظاہر تو لائبیریا میں جمہوریت کے لیے لڑی جارہی تھی، تاہم اس جنگ نے بچی کچھی زراعت، معیشت اور انفرا اسٹرکچر کو بھی تباہ کردیا۔

    ان خانہ جنگیوں نے لوگوں سے زندگی کی بنیادی ضروریات بھی چھین لی۔ دور دور تک غربت، بے روزگاری اور جہالت کا اندھیرا ہے۔

    دو طویل خانہ جنگیوں نے اس ملک کو بجلی کی نعمت سے بھی محروم کردیا ہے۔ آج اس تباہ حال ملک کی صرف 10 فیصد آبادی ایسی ہے جسے جدید دور کی یہ بنیادی سہولت یعنی بجلی میسر ہے۔

    لائبیریا کا گاؤں ٹوٹوا بھی ایسا ہی گاؤں ہے جہاں کبھی پاور گرڈز موجود تھے مگر خانہ جنگی کے دوران یہ تباہ کردیے گئے جس کے بعد سے گاؤں والے بیٹری سے چلنے والے لالٹینوں سے اپنے گھروں کو روشن کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پناہ گزین کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر

    یہاں کچھ قریبی آبادیاں جو ذرا خوشحال ہیں، اپنے گھروں کو جنریٹرز سے روشن رکھتی ہیں۔

    توانائی کے اس ذریعہ کا مرکز قریب واقع ایک جزیرہ ہے جسے مقامی زبان میں ’540‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ دراصل خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد لائبیرین فوجیوں کو ہتھیار ڈالنے کے عوض 540 ڈالر ادا کیے گئے تھے، اور اس جزیرے سے بجلی کی سہولت سے فائدہ اٹھانے والے زیادہ تر یہی فوجی ہیں جو ان ڈالرز کی بدولت اپنے ہم وطنوں کی نسبت کچھ خوشحال ہیں۔

    یہ گاؤں یوں ہی اندھیروں میں ڈوبا رہتا، اگر اقوام متحدہ ان کی مدد کو آگے نہ بڑھتا۔

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین یو این وومین نے ان دیہاتوں کو بجلی کی فراہمی کے لیے شمسی توانائی کے ذرائع کا سوچا۔

    تاہم مسئلہ یہ تھا کہ اگر یہاں شمسی پینل نصب کردیے جائیں تو ان کی دیکھ بھال اور مرمت کون کرے گا؟ تب یو این وومین نے اس مقصد کے لیے یہاں کی خواتین کو چنا۔

    پروجیکٹ کے آغاز کے بعد لائبیریا کے علاوہ یوگنڈا، جنوبی سوڈان اور تنزانیہ کے متعدد دیہاتوں سے کچھ خواتین منتخب کی گئیں جنہیں سولر پینلز کی دیکھ بھال کی تربیت دی گئی۔ اب یہ خواتین سولر انجینئرز کہلائی جاتی ہیں۔

    شمسی توانائی کی آمد سے قبل گاؤں والے اپنے گھروں کو مٹی کے تیل سے جلنے والے لالٹینوں سے روشن رکھتے تھے جو ان کی صحت اور ماحول دونوں کے لیے خطرناک تھے۔

    تاہم اب گاؤں میں خواتین سولر انجینئر کی موجودگی کے باعث گاؤں کا بڑا حصہ روشنی کی نعمت سے مالا مال ہوگیا ہے۔

    یہ خواتین گاؤں کے مختلف گھروں میں ان پینلز کی تنصیب کا کام کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں جن گھروں میں یہ پینلز نصب ہیں، کسی خرابی کی صورت میں یہ وہاں جا کر مرمت بھی کرتی ہیں۔

    امن کی جھونپڑیاں

    لائبیریا میں خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد گاؤں کی ان خواتین نے امن کی جھونپڑیاں یا پیس ہٹس بنانے بھی شروع کردیے جن کا رجحان ملک بھر میں پھیل گیا۔ یہ جھونپڑیاں جنگ سے نفرت اور امن کے فروغ کا اظہار تھیں۔

    ان جھونپڑیوں کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے برصغیر میں چوپال کی، بس فرق یہ ہے کہ افریقہ کی یہ چوپال خواتین کے لیے ہے۔

    مزید پڑھیں: خواتین کے لیے صحت مند تفریح کا مرکز ویمن ڈھابہ

    اب جبکہ کئی دیہات شمسی توانائی کی بدولت روشن ہوچکے ہیں تو ان جھونپڑیوں میں رات کے وقت محفلیں جمتی ہیں جہاں خواتین مطالعہ کرتی ہیں، ایک دوسرے کے مسائل اور ان کے حل کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں اور کچھ پل فرصت کے گزارتی ہیں۔

    ان خواتین کا عزم ہے کہ سولر انجینئرز کی تربیت لینے کے بعد یہ ملک کے دیگر پسماندہ حصوں کی خواتین کی بھی تربیت کریں تاکہ پورے ملک سے اندھیرے دور ہوں اور لائبیریا پھر سے ایک روشن ملک بن جائے۔

    مضمون و تصاویر بشکریہ: یو این وومین


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • معدومی سے بال بال بچنے والے 5 جانور

    معدومی سے بال بال بچنے والے 5 جانور

    جانوروں کا شکار، فضائی و آبی آلودگی، ان کی پناہ گاہوں کا ختم ہونا اور موسموں میں تغیر یعنی کلائمٹ چینج، یہ تمام وہ عوامل ہیں جو انسان کے تخلیق کردہ ہیں اور ان کی وجہ سے دنیا میں موجود جانور بے شمار خطرات کا شکار ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری کائنات میں اس سے قبل 5 عظیم معدومیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں اور ہم بہت تیزی سے چھٹی عظیم معدومی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق زمین پر موجود جنگلی حیات کی 75 فیصد آبادی کے بہت جلد خاتمے کا خدشہ ہے۔

    ان جانوروں کو درجہ حرارت میں اضافے اور ان کی رہائش گاہوں جیسے جنگلات وغیرہ میں کمی کا سامنا ہے جبکہ انسانوں کی جانب سے بے تحاشہ شکار ان کی آبادی کو کم کرتا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    کچھ عرصہ قبل موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل معدوم ہوچکی ہے اور یہ پہلا ممالیہ ہے جو موسم کی وجہ سے اپنے خاتمے کو پہنچا۔

    تاہم کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں انسانوں ہی نے خاتمے سے بچانے کے لیے کوششیں کیں اور ان کوششوں کے باعث یہ معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئے۔ اب ان کی آبادی خطرے کا شکار ضرور ہے، تاہم انہیں بالکل معدومی کا خدشہ نہیں ہے۔

    :پاکستان کا قومی جانور ۔ مارخور

    markhor

    پاکستان کا قومی جانور مار خور کچھ عرصہ قبل تک اپنی بقا کے خطرے سے دو چار تھا۔ مارخور پاکستان اور چین سمیت مغربی ایشیا کے کئی ممالک میں پایا جاتا ہے۔

    اس کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ اس کا بے دریغ شکار ہے جو اس کے سینگ کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ سینگ چین کی قدیم دوائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی آبادی میں کمی کی ایک اور وجہ ٹرافی ہنٹنگ بھی ہے۔ اس مقابلے میں جیتنے والے کو کسی جانور (عموماً مارخور) کا سر انعام میں دیا جاتا ہے۔

    نوے کی دہائی میں اس جانور کی آبادی میں 70 فیصد کمی واقع ہوگئی تھی جس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر اس کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائے گئے۔ پاکستان میں مقامی قبیلوں کو تربیت دی گئی کہ وہ اپنے علاقوں میں مار خور کی حفاظت کریں اور اس کے شکار سے گریز کریں۔

    پاکستان میں اس جانور کے لیے اٹھائے جانے والے حفاظتی اقدامات نے تاجکستان کو بھی متاثر کیا اور وہاں رہنے والے قبائل نے بھی اس کا شکار کرنے کے بجائے اس کی حفاظت کرنا شروع کی۔

    :امریکا کی ننھی لومڑیاں

    fox

    امریکا کے فش اینڈ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے مطابق کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، گزشتہ برس معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئیں۔

    ماہرین کے مطابق اگلے ایک عشرے تک اس لومڑی کی 50 فیصد آبادی ختم ہونے کا خطرہ تھا۔ یہ لومڑی نوے کی دہائی میں ’کینن ڈسٹمپر‘ نامی بیماری کے باعث اپنی 90 فیصد سے زائد نسل کھو چکی تھی۔ کینن ڈسٹمپر کتوں اور لومڑیوں کو لگنے والی ایک بیماری ہے جس کا تاحال کوئی خاص سبب معلوم نہیں کیا جاسکا ہے۔

    حکام کے مطابق ان لومڑیوں کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں میں اضافے اور ویکسینیشن کے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے۔ ان لومڑیوں کو سؤر کی جانب سے بھی شکار کا خطرہ تھا جس کا حل ماہرین نے یوں نکالا کہ سؤروں کو اس علاقہ سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔

    ان اقدامات کے باعث اس لومڑی کی آبادی میں اضافہ شروع ہوا اور بالآخر یہ معدومی کی زد سے باہر نکل آئیں۔

    :افریقی جنگلات کا اہم حصہ ۔ گوریلا

    gorilla

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق افریقی جنگلی حیات کا اہم حصہ گوریلا کی آبادی میں پچھلی 2 دہائیوں میں خطرناک حد تک کمی آگئی تھی جس کے بعد آئی یو سی این نے اسے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ یہ درجہ معدومی سے قبل کا آخری درجہ ہے۔

    صرف براعظم افریقہ میں پایا جانے والا گوریلا مغربی افریقہ کے متعدد ممالک کے جنگلات میں رہتا ہے اور ماہرین کے مطابق گوریلاؤں کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ان افریقی ممالک میں ہونے والی خانہ جنگیاں ہیں جس کے باعث گوریلا کے زیر رہائش جنگلات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    تاہم گوریلا کی ایک قسم پہاڑی گوریلا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات یو این ای پی کے مطابق ان گوریلاؤں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں جو بار آور ہو رہے ہیں۔

    :سائبیرین چیتا

    tiger

    سائبیرین چیتا جسے امور ٹائیگر بھی کہا جاتا ہے مشرقی ایشیائی مقامات پر پایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں یہاں بے شمار چیتے تھے۔ لیکن پھر 90 کی دہائی میں ان کی موجودگی کے آثار ختم ہوگئے جس سے یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ ہم اس جانور کو کھو چکے ہیں۔

    تاہم کچھ عرصہ قبل آئی یو سی این نے چین اور روس میں حفاظتی پروگرام شروع کیے جن کے باعث ان کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا۔ اس وقت دنیا بھر میں 400 سائبیرین چیتے موجود ہیں۔

    :کاکاپو طوطا

    kakapo

    نیوزی لینڈ کو صدیوں سے اپنا مسکن بنائے کاکاپو طوطا 90 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ منفرد طوطا انسانوں کی جانب سے بے تحاشہ شکار کے باعث اپنے خاتمے کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔

    سنہ 1970 میں جب ان کے تحفظ پر کام شروع کیا گیا تو یہ مشکل سے درجن بھر تعداد میں تھے اور وہ بھی سب نر تھے۔ تکنیکی طور پر یہ نسل معدوم ہوچکی تھی۔

    لیکن پھر نیوزی لینڈ کے جنوبی ساحل کے قریب ایک جزیرے پر 4 مادہ طوطیاں دیکھی گئیں۔ انہیں فوری طور پر محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا اور ان کی دیکھ بھال شروع کردی گئی۔ آہستہ آہستہ ان کی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور اب یہ طوطا بھی ایک مستحکم تعداد میں موجود ہے۔

  • نمونیا کی تشخیص کرنے والی جیکٹ تیار

    نمونیا کی تشخیص کرنے والی جیکٹ تیار

    کمپالا: افریقی ملک یوگنڈا میں انجینئرز نے ایسی اسمارٹ جیکٹ ایجاد کی ہے جس کے ذریعہ نہایت کم وقت میں نمونیا کی تشخیص کی جاسکے گی۔

    اس ایجاد ک خالق اولیویا کوبورونگو نامی طالبہ ہے جسے اس ایجاد کا خیال اس وقت آیا جب اس کی دادی اس مرض کا شکار ہوگئیں اور مرض کی درست تشخیص نہ ہونے کے باعث وہ انہیں ایک سے دوسرے اسپتال تک لے کر گھومتے رہے۔

    مزید پڑھیں: نمونیا اور اس کی علامات سے آگاہی حاصل کریں

    اولیویا نے اس خیال کا اظہار کچھ انجینئرز اور ڈاکٹرز کے ساتھ کیا اور کچھ ہی عرصہ بعد ’ماما اوپ‘ (مدرز ہوپ ۔ ماں کی امید) نامی میڈیکل کٹ تخلیق کرلی گئی۔

    اس کٹ میں ایک اسمارٹ جیکٹ اور موبائل فون ایپلی کیشن شامل ہے جو نمونیا کی تشخیص کر سکتی ہے۔

    :استعمال کا طریقہ کار

    نمونیے کی تشخیص کے لیے اس جیکٹ کو متاثرہ بچے کو پہنایا جائے گا جس کے بعد جیکٹ میں موجود سینسرز بچے کے پھیپھڑوں کی آواز، اس کے درجہ حرارت اور سانس کی آمد و رفت کی رفتار سے مرض کی تشخیص کریں گے۔

    اس کے بعد یہ سینسرز بلو ٹوتھ کے ذریعہ جمع شدہ ڈیٹا کو موبائل فون کی ایپ میں بھیجیں گے جو اسی مقصد کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ ایپ میں موصول شدہ ڈیٹا کی جانچ کے بعد مرض کی نوعیت اور اس کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکے گا۔

    uganda-1

    واضح رہے کہ نمونیا، ملیریا اور ٹی بی کی تشخیص کا واحد ذریعہ اسٹیتھو اسکوپ کے ذریعہ پھیپڑوں کی آواز سننا ہے جو ان تینوں امراض میں غیر معمولی ہوجاتی ہے۔ سانس سے متعلق امراض میں پھیپھڑوں سے چرچرانے کی آوازیں آتی ہیں۔

    یکساں طریقہ تشخیص کے باعث اکثر نمونیا کو ملیریا سمجھ کر اس کا علاج کیا جاتا ہے اور اس دوران وہ وقت گزر جاتا ہے جس میں نمونیا کا بروقت علاج کر کے اسے جان لیوا ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔

    اس سے قبل عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ افریقی ممالک میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ نمونیا ہے۔ ان ممالک میں انگولا، عوامی جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا، نائجیریا اور تنزانیہ شامل ہیں۔

    دوسری جانب یونیسف کا کہنا ہے کہ صرف یوگنڈا میں ہر سال 24 ہزار سے زائد بچے نمونیا کے باعث موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان میں اکثر بچوں کی درست تشخیص نہیں ہو پاتی اور ان کے نمونیے کو ملیریا سمجھ کر اس کا علاج کیا جاتا ہے۔