Tag: افریقہ

  • ہاتھی دانت کی تجارت ۔ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ بند ہوجائے گی؟

    ہاتھی دانت کی تجارت ۔ دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ بند ہوجائے گی؟

    بیجنگ: چین نے اعلان کیا ہے کہ وہ رواں سال کے آخر تک ملک میں ہونے والی ہاتھی دانت کی تمام تجارت پر پابندی عائد کردے گا جس کے بعد امید ہے کہ ہاتھی دانت کی، دنیا کی سب سے بڑی غیر قانونی مارکیٹ کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    چین نے یہ فیصلہ ہاتھی دانت کی تجارت میں بے پناہ اضافہ اور اس کے باعث ہونے والی ہاتھیوں کی آبادی میں خطرناک کمی کے باعث دنیا بھر کے دباؤ کی وجہ سے کیا ہے۔

    چین اور امریکا ہاتھی دانت کی تجارت کے لیے دنیا کی دو بڑی مارکیٹیں سمجھی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں جمع کیا جانے والا ہاتھی دانت کا 50 سے 70 فیصد حصہ چین میں اسمگل کیا جاتا ہے۔

    ivory-3

    ہاتھی دانت ایک قیمتی دھات ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کوکین یا سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ اسے سفید سونا کہا جاتا ہے، اور یہی اس کے شکار کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    ہاتھی دانت کو زیورات، مجسمے اور آرائشی اشیا بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ خوبصورت اور شفاف ہونے کی وجہ سے یہ نہایت مہنگا ہے اور دولت مند افراد اسے منہ مانگے داموں خریدنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

    ivory

    ivory-2

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے مطابق ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی، لیکن ہاتھی دانت کے لیے ہاتھیوں کے بے دریغ شکار کی وجہ سے اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہاتھی دانت کی تجارت نہ صرف ہاتھیوں کی نسل کو ختم کر سکتی ہے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم غیر قانونی کاموں میں بھی استعمال کی جارہی ہے۔ اس غیر قانونی تجارت کو کئی عالمی جرائم پیشہ منظم گروہوں کی سرپرستی حاصل ہے۔

    elephants

    چین میں تحفظ جنگلی حیات کے لیے کام کرنے والے افراد ایک عرصہ سے ہاتھی دانت کی تجارت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے موقع پر جب چین ایک بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے، جنگلی حیات کی اس قسم کی غیر قانونی تجارت چین کا چہرہ مسخ کرنے کے برابر ہے۔

    تاہم اب ان کا کہنا ہے کہ ہاتھیوں کا تحفظ اسی صورت ممکن ہے جب اس پابندی پر خلوص نیت سے عمل کیا جائے۔

  • زرافے ’خاموش‘ معدومی کی طرف گامزن

    زرافے ’خاموش‘ معدومی کی طرف گامزن

    نیروبی: افریقی جنگلات کی خوبصورتی اور قدرتی حسن میں اضافہ کرنے والے معصوم زرافوں کو بھی اپنی بقا کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق زرافوں کی نسل بہت آہستگی سے معدومی کی طرف بڑھ رہی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی سرخ فہرست برائے خطرے کا شکار نسل کے مطابق دنیا کے سب سے طویل القامت اس جانور کی آبادی میں سنہ 1980 سے 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد خاصی گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔

    giraffe-2

    آئی یو سی این نے زرافوں کو خطرے سے دو چار جنگلی حیات کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق زرافوں کی آبادی میں سب سے زیاہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    ادارے کا کہنا ہے کہ ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    مزید پڑھیں: زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    آئی یو سی این کی سرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔ موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی اس کے دیگر عوامل ہیں۔

    giraffe-6

    سرخ فہرست میں افریقہ کے سرمئی طوطے کو بھی شامل کیا گیا ہے جو انسانوں کی ہو بہو نقل اتارنے کے لیے مشہور ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تجارتی مقاصد کے لیے اس پرندے کو پکڑ کر قید کیا جا رہا ہے جس کے بعد اسے دنیا کے مختلف علاقوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔

    دوسری جانب ماہرین متنبہ کر چکے ہیں کہ بدلتے موسموں کی وجہ سے جانوروں کو اپنی بقا کے شدید خطرات لاحق ہیں اور دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات سنہ 2050 تک معدوم ہوسکتی ہے۔

    ادھر اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: سفید رنگ کا حیرت انگیز زرافہ

    اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ مندرجہ بالا تمام عوامل مل کر ہماری زمین پر ایک اور عظیم معدومی کو جنم دے سکتے ہیں جو اس سے قبل آخری بار اس وقت رونما ہوئی جب ساڑھے 6 کروڑ سال پہلے زمین سے ڈائنو سارز کا خاتمہ ہوا۔

  • ترقی پذیر ممالک کی 2 فیصد سے بھی کم آبادی کو کمپیوٹر تک رسائی

    ترقی پذیر ممالک کی 2 فیصد سے بھی کم آبادی کو کمپیوٹر تک رسائی

    دنیا بھر میں آج کمپیوٹر شناسی کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا کو ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کی کمپیوٹر تک پہنچ، اور غیر ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کی کمپیوٹر سے محرومی کے فرق سے آگاہ کرنا ہے۔

    عالمی ادارے انٹرنیٹ سوسائٹی کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی 95 فیصد سے زائد آبادی کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے باقاعدہ استعمال کی سہولت میسر ہے۔ اس ضمن میں پہلے نمبر پر آئس لینڈ ہے جہاں کی 96 فیصد سے زائد آبادی انٹرنیٹ کی باقاعدہ استعمال کنندہ ہے۔

    آئس لینڈ کی بقیہ 3 سے 4 فیصد آبادی انٹرنیٹ کے استعمال کو پسند نہیں کرتی اور ان میں زیادہ تعداد معمر افراد کی ہے۔

    انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 3 ارب سے تجاوز *

    دوسری جانب ادارے کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں 2 فیصد سے بھی کم آبادی کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے۔ اس فہرست میں سب سے آخری نمبر پر افریقی ملک نائجر ہے جہاں کی پونے 2 فیصد آبادی کو جدید دور کی یہ سہولیات میسر ہیں۔

    africa

    ادارے کی فہرست کے مطابق پاکستان کی 10.9 فیصد آبادی جبکہ بھارت کی 15.1 فیصد آبادی کو کمپیوٹر تک رسائی حاصل ہے۔

    دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ ان ممالک کے درمیان کمپیوٹر کے استعمال میں بھی فرق پایا جاتا ہے جس کے باعث کئی طبی، نفسیاتی اور سماجی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔

    جیتا جاگتا انٹرنیٹ *

    ایک بین الاقوامی ادارے او سی ای ڈی کی جانب سے کی جانے والی تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں امیر ممالک اور غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے بچے انٹرنیٹ کو مختلف سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق وہ بچے جو خوشحال اور آسودہ گھرانوں اور ممالک سے تعلق رکھتے ہیں وہ انٹرنیٹ پر خبریں پڑھتے ہیں اور ایسی چیزیں سرچ کرتے ہیں جس سے ان کی معلومات میں اضافہ ہوسکے۔

    europe

    اس کے برعکس کم خوشحال یا غریب گھرانوں اور ممالک کے بچے اپنا زیادہ وقت انٹرنیٹ پر گیم کھیلتے اور دوستوں سے چیٹنگ کرتے ہوئے گزارتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ وہ فرق ہے جس سے ان بچوں کی صلاحیتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے اور وہ اپنی پڑھائی اور دیگر معاملوں میں بہتر کارکردگی دکھانے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ استعمال امیر بچوں کے بہتر مستقبل کی بھی ضمانت ثابت ہوسکتا ہے۔

    انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال صحت کے لیے خطرناک *

    اس کے برعکس غریب بچے انٹرنیٹ پر بے مقصد چیزوں میں وقت ضائع کرنے کے عادی بن جاتے ہیں جس کے باعث ان کی صحت اور ذہنی توجہ متاثر ہوتی اور پڑھائی کے دوران ان کی کارکردگی میں کمی دیکھنے میں آتی ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ یہ عادت آگے چل کر خاص طور پر نوکری کے حصول کے لیے ان کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے۔

  • سفید رنگ کا حیرت انگیز زرافہ

    سفید رنگ کا حیرت انگیز زرافہ

    افریقی ملک تنزانیہ کے لوگ اس وقت حیرت میں مبتلا ہوگئے جب انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھی جو تنزانیہ کے ایک نیشنل پارک میں کھینچی گئی اور اس میں ایک سفید رنگ کا زرافہ نظر آرہا ہے۔

    سفید رنگ کا یہ زرافہ تنزانیہ کے ترنجائر نیشنل پارک میں دیکھا گیا جس کی تصویر کشی ایک سائنسدان ڈاکٹر ڈیرک لی نے کی۔

    مزید پڑھیں: زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    مزید پڑھیں: زرافوں کے ساتھ ناشتہ

    یہ تصویر دنیا بھر میں مقبول ہوگئیں اور لوگوں نے خیال کیا کہ شاید یہ کوئی نایاب نسل کا زرافہ ہے جس کی پیدائش صدیوں میں ہوتی ہے۔

    giraffe-2

    تاہم ڈاکٹر لی نے یہ غلط فہمی دور کرتے ہوئے بتایا کہ یہ زرافہ دراصل ایک جینیاتی بیماری کا شکار ہے جس کے باعث اس کے قدرتی رنگ پھیکے پڑ گئے ہیں۔

    giraffe-4

    لیوک ازم نامی اس بیماری میں کسی جاندار کے جسم میں اسے رنگ دینے والے عناصر جنہیں پگمنٹس کہا جاتا ہے کم ہوجاتے ہیں، جس کے بعد ان کا قدرتی رنگ بہت ہلکا ہوجاتا ہے۔ یہ جینیاتی نقص کئی جانوروں میں ہوجاتا ہے جس کی بظاہر کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔

    ڈاکٹر لی جو تنزانیہ کے انسٹیٹیوٹ برائے جنگلی حیات کے بانی بھی ہیں، نے مزید بتایا کہ یہ غیر معمولی زرافہ جسے اومو کا نام دیا گیا ہے اپنے خاندان کے دیگر زرافوں کے ساتھ آرام سے رہتا ہے اور کسی زرافے کو اس کی رنگت سے کوئی مسئلہ نہیں۔

    giraffe-5

    ڈاکٹر لی تنزانیہ میں زرافوں کے تحفظ اور انہیں شکار سے بچانے کے اقدامات پر بھی کام کر رہے ہیں۔ زرافوں کا شکار ان کے گوشت کو حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور ڈاکٹر لی کے مطابق اومو کی غیر معمولی رنگت اسے شکاریوں کا مرکز نگاہ بنا سکتی ہے۔

    giraffe-3

    تاہم ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس کی حفاظت کے لیے بھرپور اقدامات اٹھائے ہیں اور انہیں امید ہے کہ یہ سفید زرافہ اپنی طبعی عمر پوری کرسکے گا۔

    جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شکار اور غیر قانونی تجارت کے باعث زرافہ کی نسل کو شدید خطرہ ہے اور پچھلے چند عرصہ میں اس کا اس قدر شکار کیا گیا ہے کہ افریقہ میں موجود زرافوں کی آبادی اب صرف 40 فیصد رہ گئی ہے۔

    giraffe-6

    ماہرین کے مطابق پورے براعظم افریقہ میں اب صرف 80 ہزار زرافے ہی باقی بچے ہیں۔

  • کیمرون میں ٹرین حادثہ،70افرادہلاک

    کیمرون میں ٹرین حادثہ،70افرادہلاک

    یاؤنڈے: افریقی ملک کیمرون میں ٹرین حادثے کےنتیجےمیں70 افراد ہلاک جبکہ 575افراد زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کےمطابق کمیرون میں دارالحکومت کے قریب مسافر ٹرین کی آٹھ سے زائدبوگیاں پٹری سےاترنےکےبعدالٹ گئیں جس کے نتیجے میں 70افراد جان کی بازی ہارگئے۔

    c1

    عام طور پر اس مسافر ریل گاڑی سے 600 افراد سفر کرتے ہیں لیکن اضافی مسافروں کے باعث اس میں زیادہ بوگیاں لگانے سے 1300 افراد سوار تھے۔

    خیال رہے کہ افریقی ملک کیمرون کے دو بڑے شہروں کے درمیان چلنے والی ٹرین میں گنجائش سے ذیادہ مسافروں اور موسلادھار بارش کی وجہ سے ٹرین دارالحکومت یاؤنڈے سے 2 گھنٹے کی مسافت پر موجود شہر ایسکا میں پٹڑی سے اتر گئی۔

    c4

    وزیرٹرانسپورٹ ایدگارڈ ایلان میبی نےریل گاڑی حادثےمیں70 افرادکےہلاک اور575سےزائد کےزخمی ہونے کی تصدیق کردی ہے۔حکام نے ہلاکتوں میں اضافے کابھی خدشہ ظاہرکیاہے۔

    دوسری جانب کیمرون کے صدر پائول بیا نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا۔

    c3

    مزید پڑھیں:امریکہ میں ٹرین حادثہ،3 افراد ہلاک

    واضح رہےکہ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست نیو جرسی میں مسافر ٹرین ہوبوکن اسٹیشن کی عمارت میں گھس گئی تھی اور اس حادثے میں کم از کم 3افرادہلاک اور100سے زیادہ افراد زخمی ہو گئےتھے۔

    c3

  • جنگلی حیات کے شکاریوں کو پکڑنے کے لیے خونخوار کتوں کی تربیت

    جنگلی حیات کے شکاریوں کو پکڑنے کے لیے خونخوار کتوں کی تربیت

    براعظم افریقہ میں جنگلی حیات کے شکاریوں کو پکڑنے کے لیے خونخوار کتوں کو بین الاقوامی معیار کی تربیت دی جارہی ہے تاکہ شکاری بچ کر نہ جانے پائیں۔ یہ اقدام شکار کے باعث افریقی جنگلی حیات کی آبادی میں تیزی سے ہوتی کمی کے بعد اٹھایا گیا ہے۔

    dog-1

    ایک برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ کتے اس وقت افریقہ کی جنگلی حیات کو بچانے کی جنگ میں ہر اول دستہ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انسداد شکار کا کام کرنے والے ان کتوں کو جہازوں سے پیرا شوٹ کے ذریعہ زمین پر چھلانگ لگانا بھی سکھایا جارہا ہے تاکہ وہ ہر صورت شکاریوں کو پکڑ سکیں۔

    یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اکثر شکاری شکار کرنے کے بعد وسیع جنگلات میں ہی کسی محفوظ مقام پر چھپ جاتے ہیں اور پھر ایک دو دن بعد وہاں سے نکل کر جاتے ہیں۔

    اس تربیت کا آغاز جائنٹ نامی کتے سے کیا گیا ہے۔ جائنٹ کے بھائی کلر نامی کتے نے بھی ریکارڈ خونخواری کا مظاہرہ کرتے ہوئے 18 ماہ میں شکاریوں کے 115 گروہوں کو مار گرایا تھا۔

    dog-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ میں ہاتھی دانت اور گینڈے کے سینگ کی تجارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث ان جانوروں کی نسل کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ پچھلے 7 سال میں افریقی ہاتھیوں کی آبادی میں ایک تہائی کمی واقع ہوچکی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی جو اب گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ میں ہر سال ہاتھی دانت کے حصول کے لیے 30 ہزار ہاتھی مار دیے جاتے ہیں۔

    elephants

    خیال رہے کہ ہاتھی دانت ایک قیمتی دھات ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کوکین یا سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ہاتھی دانت اور گینڈے کے سینگ کی تجارت ایک نہایت منافع بخش کاروبار ہے جس سے کروڑوں ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے اور یہ کاروبار عالمی جرائم پیشہ منظم گروہوں کی سرپرستی میں کیا جارہا ہے۔

    جانوروں کے تحفظ کی عالمی تنظیم ڈبلو ڈبلیو ایف نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ہاتھیوں کا شکار ایسے ہی جاری رہا تو اگلے 6 سال میں کئی افریقی ممالک سے ہاتھیوں کا وجود مٹ جائے گا۔

    rhino

    واضح رہے کہ جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف اقوام متحدہ کے زیر نگرانی سنہ 1975 میں ایک معاہدہ سائٹس منظور ہوچکا ہے جس پر 180 ممالک دستخط کر چکے ہیں۔ رواں برس سائٹس کی عالمی کانفرنس میں ان تمام 180 ممالک نے جنگلی حیات کے شکار کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کا حتمی فیصلہ کیا ہے۔

    افریقہ میں بھی گذشتہ سال ہاتھیوں اور گینڈوں کی معدوم ہوتی نسل کے تحفظ کے لیے ایک ’جائنٹ کلب فورم‘ بنایا جاچکا ہے جس کے پہلے اجلاس میں متفقہ طور پر ہاتھی دانت کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

  • چین کو گدھوں کی ضرورت ہے

    چین کو گدھوں کی ضرورت ہے

    آپ گدھے کو ہوسکتا ہے ایک کم تر جانور سمجھتے ہوں، اور بے شک اسے یہاں صرف بوجھ ڈھونے کے لیے استعمال کیا جاتا ہو، لیکن چینیوں کے لیے یہ ایک انتہائی ضروری جانور ہے، اتنا ضروری کہ چین اسے دوسرے ممالک سے خرید رہا ہے۔

    دنیا کی سب سے بڑی معیشت چین آج کل گدھوں کی آبادی میں کمی کے باعث پریشانی کا شکار ہے۔ ماہرین کے مطابق سنہ 1990 سے لے کر اب تک گدھوں کی آبادی میں شدید کمی واقع ہوچکی ہے اور ان کی تعداد 11 ملین سے گھٹ کر 6 ملین تک آچکی ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ اب چین دوسرے ممالک سے گدھے خرید رہا ہے۔ اس کے لیے اس نے سب سے پہلے افریقی ممالک سے رابطہ کیا تاہم کئی افریقی ممالک نے اپنے گدھے بیچنے سے انکار ردیا۔ افریقی ممالک میں سہولیات کی کمی کے باعث غیر ترقی یافتہ علاقوں اور گاؤں دیہاتوں میں گدھا اب بھی نقل و حمل اور دیگر کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

    اس مشکل موقع پر نائیجریا کا پڑوسی ملک نائیجر چین کے کام آیا اور اس نے 80 ہزار گدھے چین کو فروخت کیے۔

    میک اپ مصنوعات میں گدھے کی کھال استعمال کیے جانے کا انکشاف *

    اب سوال یہ ہے کہ چین جیسے ترقی یافتہ ملک کو آخر کس لیے گدھے درکار ہیں؟

    اس کا جواب چین کی معیشت کی ترقی سے تعلق رکھتا ہے۔ گدھے کی کھال سے ایک مادہ جیلاٹن تیار ہوتا ہے۔ یہ مادہ ’اجیاؤ‘ نامی ایک دوا بنانے میں کام آتا ہے۔ یہ دوا کئی اقسام کی تکالیف کے علاج میں معاون ہے۔ خاص طور پر خون کی کمی اور خون سے متعلق دیگر امراض کے لیے یہ دوا نہایت مؤثر ہے۔

    چین نے گذشتہ برس نائیجر سے 27 ہزار گدھے درآمد کیے تھے اور رواں برس یہ تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔ افریقی ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے آہستہ آہستہ افریقہ میں بھی گدھوں کی تعداد میں کمی ہوتی جائے گی اور اس کا اثر مجموعی معیشت پر پڑے گا جو پہلے ہی کوئی خاص بہتر نہیں ہے۔

    البتہ افریقہ میں ان افراد کی چاندی ہوچکی ہے جو اس رجحان کو دیکھتے ہوئے اب گدھوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کر رہے ہیں اور اس سے ان کی ذاتی معاشی صورتحال میں کافی بہتری آچکی ہے۔

  • پانی کو مضر صحت اجزا سے پاک کرنے کا آسان طریقہ

    پانی کو مضر صحت اجزا سے پاک کرنے کا آسان طریقہ

    کیا آپ جانتے ہیں پانی کو مضر صحت اجزا سے پاک کر کے اسے کس طرح پینے کے قابل بنایا جاسکتا ہے؟

    اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق 164 ملین افراد افریقہ، 134 ملین ایشیا اور 25 ملین افراد لاطینی امریکا میں گندے پانی سے ہونے والی بیماریوں کے خطرے کا شکار ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 3.4 ملین افراد گندے پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور ہیضہ شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    اس کی سب سے بڑی وجہ پینے کے پانی میں انسانی فضلہ کی ملاوٹ ہے۔

    پاکستان میں بھی 80 فیصد بیماریاں پینے کے گندے پانی کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ ان بیماریوں میں مبتلا 40 فیصد افراد موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کو صاف کرنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جو نہ ہی تو زیادہ سائنسی ہے اور نہ ہی اس میں زیادہ پیسہ خرچ ہوگا۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ بوتلوں میں پانی بھر کر انہیں سورج کی تیز روشنی میں رکھ دیا جائے۔

    تیز دھوپ پانی سے تمام زہریلے اور مضر صحت اجزا کو ختم کر کے پانی کو پینے کے لیے محفوظ بنا دیتی ہے۔ اس کے لیے پانی کو کم از کم 6 گھنٹے تیز دھوپ میں رکھنا ضروری ہے۔

    مزید پڑھیں: پانی کی بچت کرنے والا نلکا

    لیکن خیال رہے کہ اس کام کے لیے پلاسٹک کی عام بوتلیں نہ استعمال کی جائیں۔ تیز دھوپ میں پلاسٹک پگھل کر اس کے کچھ ذرات پانی میں شامل ہوسکتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ اس کے لیے موٹے پلاسٹک سے بنے تھرماس یا شیشے کے برتن استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

    یہ طریقہ دنیا کے کئی ممالک میں منظم انداز سے استعمال کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر افریقی ممالک میں اسی طریقے سے پانی کو صاف کر کے پینے کے قابل بنایا جارہا ہے۔

  • افریقی ہاتھیوں کی آبادی میں خطرناک کمی

    افریقی ہاتھیوں کی آبادی میں خطرناک کمی

    جوہانسبرگ: ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ کے جنگلی حیات کے اہم حصہ ہاتھی کی آبادی میں پچھلے 25 سالوں میں خطرناک حد تک کمی واقع ہوچکی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف ایک عشرے قبل پورے براعظم افریقہ میں ہاتھیوں کی تعداد 4 لاکھ 15 ہزار تھی جو اب گھٹ کر صرف 1 لاکھ 11 ہزار رہ گئی ہے۔

    elephant3

    آئی یو سی این کے مطابق اس کی سب سے بڑی وجہ کئی افریقی ممالک میں ہاتھی دانت کی غیر قانونی تجارت کے باعث ہاتھیوں کے شکار میں اضافہ کا رجحان ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ افریقہ میں ہر سال ہاتھی دانت کے حصول کے لیے 30 ہزار ہاتھی مار دیے جاتے ہیں۔ ہاتھی دانت کی قانونی و غیر قانونی تجارت ہاتھیوں کی بقا کے لیے شدید خطرہ ہے۔ ہاتھی اور افریقی گینڈے کے جسمانی اعضا کی تجارت نہ صرف ان کی نسل کو ختم کر سکتی ہے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم غیر قانونی کاموں میں بھی استعمال کی جارہی ہے۔

    خیال رہے کہ ہاتھی دانت ایک قیمتی دھات ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کوکین یا سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق اس کاروبار میں بھی پچھلی ایک دہائی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ دوسری اہم وجہ ہاتھیوں کے مساکن (رہنے کی جگہ) میں کمی واقعہ ہونا ہے۔

    آئی یو سی این نے یہ رپورٹ جنگلی حیات کی تجارت کے خلاف ہونے والی عالمی کانفرنس میں پیش کی جو جوہانسبرگ میں جاری ہے۔

    elephants

    واضح رہے کہ جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کے خلاف اقوام متحدہ کے زیر نگرانی 1975 میں ایک معاہدہ سائٹس منظور ہوچکا ہے جس پر 180 ممالک دستخط کرچکے ہیں۔

    گذشتہ سال ہاتھیوں اور گینڈوں کی معدوم ہوتی نسل کے تحفظ کے لیے افریقہ میں ایک ’جائنٹ کلب فورم‘ بھی بنایا گیا جس کا پہلا اجلاس رواں برس مئی میں منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں متعدد افریقی رہنماؤں، تاجروں اور سائنسدانوں نے شرکت کی جنہوں نے متفقہ طور پر ہاتھی دانت کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔

  • پناہ گزین کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر

    پناہ گزین کیمپ کی خواتین کا معاشی خوشحالی کا سفر

    ہجرت ایک ایسا عمل ہے جو انسان کو عشروں سے بسا ہوا اس کا گھر اور پچھلی زندگی چھوڑ کر ایک نئی زندگی شروع کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اگر آگے آنے والی زندگی بہتر ہو تو یقیناً پچھلی جگہ سے ہجرت کرنا بہتر ہے۔ لیکن اگر آگے صرف تکلیف ہو، بے سروسامانی ہو، مصائب ہوں، اور پریشانی ہو تو کوئی شخص، چاہے وہ کیسی ہی بدحال زندگی کیوں نہ گزار رہا ہو اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتا۔

    لیکن زندگی بہرحال ہر چیز سے بالاتر ہے۔ جب پرسکون گھر کے اطراف میں آگ کے شعلے گر رہے ہوں اور ہر وقت جان جانے کا دھڑکا لگا ہو تو مجبوراً ہجرت کرنی ہی پڑتی ہے۔

    پناہ گزین بچوں کے خواب *

    دنیا بھر کے مختلف ممالک میں جاری جنگوں اور خانہ جنگیوں کے باعث اس وقت دنیا کی ایک بڑی آبادی ہجرت پر مجبور ہوچکی ہے۔ یہ لوگ مختلف ممالک میں مہاجرین کے کیمپوں میں حسرت و یاس اور بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ نہ ان کے پاس مناسب غذا ہے، نہ رہائش، اور نہ تعلیم و صحت جیسی بنیادی ضروریات۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطاق اس وقت دنیا بھر میں 60 ملین افراد اپنے گھروں سے زبردستی بے دخل کردیے گئے ہیں۔ یہ انسانی تمدن کی تاریخ میں پناہ گزینوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ ان کیمپوں میں خواتین بھی ابتر حالت میں موجد ہیں۔

    اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ برائے مہاجرین ان پناہ گزینوں کی امداد کے لیے کوشاں ہے تاہم کروڑوں افراد کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے وسائل بھی ناکافی ہیں۔

    اقوام متحدہ کا ادارہ برائے خواتین یو این وومین ان مہاجر کیمپوں میں موجود خواتین کی حالت زار کو سدھارنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔ یہ ادارہ چاہتا ہے کہ یہ خواتین ان کیمپوں میں رہتے ہوئے ہی محدود وسائل کے اندر معاشی طور پر خود مختار اور ہنر مند ہوجائیں تاکہ یہ اپنی اور اپنی خاندانوں کی زندگی میں کچھ بہتری لا سکیں۔

    اسی طرح کا ایک پروگرام افریقی ملک کیمرون کے گاڈو مہاجر کیمپ میں شروع کیا گیا جہاں پڑوسی ملک، مرکزی جمہوریہ افریقہ سے ہجرت کر کے آنے والی خاندان پناہ گزین ہیں۔

    مرکزی جمہوریہ افریقہ اس وقت خانہ جنگی کا شکار ہے اور ملک کی 20 فیصد آبادی اپنی زندگیاں بچانے کے لیے ہجرت پر مجبور ہے۔ یو این وومین نے ان کیمپوں میں موجود خواتین کی معاشی و سماجی بہتری کے لیے بحالی کے پروگرام شروع کیے ہیں جن کے تحت اب تک 6250 خواتین مستفید ہوچکی ہیں۔ یہ خواتین غربت، صحت کے مسائل، صنفی امتیاز اور جنسی تشدد کا شکار تھیں۔

    یو این وومین کی ایک رپورٹ میں ان میں سے کچھ خواتین کی کہانی بیان کی گئی جو اقوام متحدہ کی مدد کے بعد اب ایک بہتر زندگی گزار رہی ہیں۔

    1
    حوا

    مرکزی جمہوریہ افریقہ کی 23 سالہ حوا 8 ماہ کی حاملہ تھی جب خانہ جنگی میں اس کا شوہر، باپ اور بھائی مارے گئے اور ماں لاپتہ ہوگئی۔ حوا مشکل وقت کو جھیلنے کے لیے بالکل تنہا رہ گئی۔ وہ ایک مہاجر گروہ کے ساتھ سرحد پار کر کے کیمرون آگئی اور یہاں اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔

    2

    یو این وومین سے تربیت لینے کے بعد اب حوا ان کیمپوں میں ہی خشک مچھلی اور خشک میوہ جات فروخت کرتی ہے۔ اس کا بیٹا ایک کپڑے کی مدد سے اس کی پشت پر بندھا ہوتا ہے جبکہ ایک پڑوسی لڑکا اس کے سامان کا ٹھیلا گھسیٹتا ہوا اس کے ساتھ چلتا ہے۔

    4
    اردو فدیماتو

    اردو فدیماتو کیمپ میں رہنے والی 12 ہزار خواتین کی نمائندہ ہیں اور وہ یو این وومین کی کئی میٹنگز میں شریک ہو کر کیمپ کے مسائل بیان کرچکی ہیں۔ جنگ کے دوران اس کے 15 میں سے 8 بچے مارے گئے جبکہ شوہر لاپتہ ہوگیا تھا۔

    وہ کہتی ہیں، ’ایک خاتون لیڈر کی حیثیت سے سب سے بڑا مسئلہ مجھے والدین کو اس بات پر راضی کرنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں۔ مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر والدین اپنے بچوں کو گھر پر ہی رکھتے ہیں اور انہیں صرف قرآن کی تعلیم دیتے ہیں‘۔

    ان کا کہنا ہے، ’یہاں رہنے والی خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی سخت ضرورت ہے تا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکیں‘۔

    5
    یایا دیا آدما

    یایا دیا آدما خانہ جنگی کے دوران اپنے 5 بچوں کے ساتھ کیمرون آگئیں۔ اب یہاں یو این وومین کے زیر نگرانی انہوں نے کپڑوں کی سلائی کا کام سیکھ کر اپنا کام شروع کردیا ہے۔ وہ ہر روز تقریباً 1 سے 2 ہزار افریقی فرانک کما لیتی ہیں۔

    یایا مزید 3 خواتین کو بھی یہ ہنر سکھا رہی ہیں تاکہ وہ بھی ان کی طرح خود مختار ہوسکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔

    6
    اوسینا حمادو

    اوسینا حمادو مہاجر کیمپ میں کھانے پینے کا ایک ڈھابہ چلاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’یو این وومین نے مجھے اس کی تربیت دی اور مالی معاونت فراہم کی۔ میں نے اس رقم سے سرمایہ کاری کی اور اب اپنے کاروبار کی بدولت میں اپنے گھر کی مالک ہوں‘۔

    7
    نینی داؤدا

    نینی داؤدا بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جو کھانے پینے کا عارضی مرکز چلا رہی ہیں۔

    اپنے شوہر کے جنگ میں مارے جانے کے بعد وہ 5 بچوں کے ساتھ کیمرون آئیں اور اب اپنے کاروبار کی بدولت اپنے بچوں کو تعلیم بھی دلوا رہی ہیں۔ ان کی بیٹی سلاماتو بھی ان کے اس کام میں ان کی معاون ہے۔

    8

    کیمرون کے مہاجر کیمپ کی رہائشی یہ خواتین گو کہ اپنے گھروں یاد کرتی ہیں مگر وہ اپنی موجودہ زندگی بدلنے کی خواہاں بھی ہیں اور اس کے لیے سخت جدوجہد کر رہی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ ایک دن وہ ضرور اپنے گھروں کو لوٹیں گی اور ایک نئی زندگی شروع کریں گی۔