Tag: افریقی ادب

  • ’دی گولڈن نوٹ بک‘ کی خالق نوبل انعام یافتہ ڈورِس لیسنگ کا تذکرہ

    ’دی گولڈن نوٹ بک‘ کی خالق نوبل انعام یافتہ ڈورِس لیسنگ کا تذکرہ

    1962ء میں ’دی گولڈن نوٹ بک‘ منظرِعام پر آیا تو تحریکِ نسواں کے حامیوں نے اِسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ ان کے نزدیک یہ ناول حقوقِ‌ نسواں اور اس حوالے سے بلند ہونے والی ہر آواز کا نمایاں حوالہ ثابت ہوسکتا تھا، لیکن ڈورِس لیسنگ جو اس ناول کی خالق تھیں، اس کے برعکس فکر اور سوچ رکھتی تھیں۔ انھیں 2007ء میں‌ ادب کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔

    ناول کی مصنّفہ ‌نے کبھی اپنے معاشرے میں عورتوں کی زندگی میں آنے والی تبدیلی، اور حقوق و آزادی کے حوالے سے ان کی کام یابیوں کو کسی ایسی تحریک اور حقوقِ‌ نسواں‌ کے نعروں کا ثمر نہیں سمجھا۔

    ڈورِس لیسنگ نے 2003ء میں ایک انٹرویو میں کہا تھا: ’’خواتین کی حالت اگر واقعی کچھ بدلی ہے تو حقوقِ نسواں کی تحریک اس کی وجہ نہیں بلکہ یہ سب سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ عورت کی زندگی واشنگ مشین، ویکیوم کلینر اور مانع حمل گولی نے بدلی ہے نہ کہ نعروں نے۔ اِس حوالے سے کمیٹیاں بنانا، اخبارات میں لکھا جانا چاہیے، عوام کے منتخب کردہ افراد کو پارلیمان میں بھیجنا چاہیے جو ایک کٹھن اور سست رفتار عمل ہو گا، لیکن اِسی طرح منزل مل سکتی ہے۔‘‘

    آج ڈورس لیسنگ کا یومِ وفات ہے۔ وہ 2013ء میں چل بسی تھیں۔ زندگی کی 94 بہاریں دیکھنے والی اس مصنّفہ نے اپنی فکر، نظریہ اور تخیلقات کے سبب دنیا بھر میں شہرت حاصل کی۔

    22 اکتوبر 1919ء کو ایران کے شہر کرمان میں مقیم ایک برطانوی فوجی افسر کے گھر جنم لینے والی بچّی کا نام ڈورِس مے ٹیلر رکھا گیا۔ یہ ہندوستان پر برطانوی راج کا زمانہ تھا۔ بعد میں یہ کنبہ ایران سے نقل مکانی کر کے برطانیہ کی ایک افریقی نو آبادی رہوڈیشیا (موجودہ زمبابوے) چلا گیا۔

    ڈورس لیسنگ ایک بیدار مغز خاتون تھیں۔ مطالعے کے سبب وہ غور و فکر کی عادی ہوگئی تھیں اور قوّتِ مشاہدہ نے انھیں حسّاس و باشعور بنا دیا تھا۔ افریقا میں انھوں‌ نے بدترین نسلی امتیاز اور اُس معاشرے میں‌ ہر سطح پر روایتی سوچ اور پستی کا مظاہرہ دیکھا اور وہاں‌ پالیسیوں پر کڑی تنقید کی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھیں‌ کئی برس تک رہوڈیشیا اور جنوبی افریقا کے سفر کی اجازت نہیں‌ تھی۔

    بیس سال کی عمر میں رہوڈیشیا میں‌ ڈورس لیسنگ نے ایک برطانوی فوجی افسر سے شادی کرلی، جس سے اُن کے دو بچّے ہوئے، لیکن بعد میں جرمنی سے جلاوطن ایک یہودی کی شریکِ سفر بنیں جو رہوڈیشیا میں مقیم تھا۔ یہ تعلق بھی 1949ء تک برقرار رہ سکا۔ ڈورس لیسنگ نے اس سے طلاق لے لی اور اپنے بیٹے پیٹر کے ساتھ انگلینڈ چلی آئیں اور وہیں باقی ماندہ زندگی بسر کی۔

    وہ اپنا پہلا ناول افریقا سے مسوّدے کی شکل میں برطانیہ ساتھ لائیں۔ اس کا نام تھا ’’دا گراس اِز سنگنگ‘‘ جس کی کہانی ایک سفید فام خاتون اور ایک سیاہ فام مرد کے ممنوع تعلق پر بُنی گئی تھی۔ تاہم اُن کا پہلا ناول ’’افریقی المیہ‘‘ 1950ء میں چھپا اور بعد کے برسوں میں ان کی پچاس سے زیادہ کتابیں شایع ہوئیں۔

    چند سال قبل برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی فائیو نے اس ناول نگار کے بارے میں خفیہ معلومات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ 20 سال تک ان کی کڑی نگرانی کی جاتی رہی۔ کیوں‌ کہ وہ بائیں بازو کے رجحانات رکھنے کے علاوہ نسل پرستی کے خلاف تحریک میں بھی متحرک رہی تھیں۔ اس حوالے سے برطانوی انٹیلی جنس نے 1964ء تک ان کی نگرانی کی تھی۔

    وہ متعدد مرتبہ ادب کے نوبل انعام کے لیے نام زد ہوئیں‌، لیکن اپنی تخلیقات پر کئی بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کرنے والی ڈورس لیسنگ کو اس کا سزاوار نہیں سمجھا گیا تھا۔ ان کا ادبی سفر تقریباً چھے عشروں پر محیط رہا جس میں ان کی شخصیت اور ادبی تخلیقات پر افریقا کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ ’میموائرز آف اے سروائیور‘ اور ’دی سمر بیفور دی ڈارک بھی ان کی مشہور تخلیقات ہیں۔

  • انصاف (ایتھوپیا کی ایک دل چسپ کہانی)

    انصاف (ایتھوپیا کی ایک دل چسپ کہانی)

    ایک دن ایک عورت بکریوں کی تلاش میں نکلی جو اپنے ریوڑ سے بچھڑ گئی تھیں۔ وہ ان کی کھوج میں کھیتوں میں اِدھر اُدھر پھرتی رہی، لیکن بے سود۔

    آخر کار وہ سڑک کے قریب پہنچی۔ یہاں ایک بہرا آدمی اپنے لیے کافی بنارہا تھا۔ عورت کو معلوم نہیں تھا کہ وہ بہرا ہے۔ اس نے اس سے پوچھ لیا، ”تم نے ادھر میری بکریاں دیکھی ہیں؟“

    بہرا آدمی سمجھا، وہ پانی کا پوچھ رہی ہے۔ اس نے دریا کی طرف اشارہ کردیا۔ عورت نے اس کا شکریہ ادا کیا اور دریا کی جانب چل پڑی۔

    یہ محض اتفاق تھا کہ اسے وہاں بکریاں مل گئیں۔ بس ایک میمنا چٹان سے گر کر اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھا تھا۔ اس نے اسے اٹھا لیا۔ جب وہ بہرے آدمی کے قریب سے گزری تو اس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے رک گئی اور اس کی مدد کے عوض اسے میمنا پیش کردیا۔

    بہرا آدمی اس کی بات نہ سمجھ سکا۔ جب اس نے میمنا اس کی طرف کیا تو وہ سمجھا عورت اسے میمنے کی بدقسمتی کا ذمے دار قرار دے رہی ہے۔ وہ ناراض ہوگیا۔

    ”میں اس کا ذمے دار نہیں۔“ اس نے واویلا کیا۔

    ”لیکن آپ نے مجھے راستہ دکھایا تھا۔“عورت بولی۔

    ”بکریوں کے ساتھ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔“ آدمی بولا۔

    ”لیکن یہ مجھے ادھر ہی ملیں، جہاں آپ نے بتایا تھا۔“

    آدمی غصے سے بولا ”چلی جاؤ اور مجھے اکیلا چھوڑ دو۔ یہ میمنا میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہیں دیکھا۔“

    لوگ اکھٹے ہوگئے اور ان کے دلائل سننے لگے۔ عورت نے انھیں بتایا، ”میں بکریوں کی تلاش میں تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ دریا کے قریب ہیں۔ اب میں اسے یہ میمنا دینا چاہتی ہوں۔“

    آدمی غصے سے چیخا۔ ”تم میری توہین نہ کرو۔ میں نے اس کی ٹانگ نہیں توڑی۔“ اور ساتھ عورت کو تھپڑ رسید کردیا۔

    ”آپ دیکھ رہے ہیں، اس نے مجھے مارا ہے۔ عورت مجمع سے مخاطب ہوئی۔ میں اسے منصف کے پاس لے کر جاؤں گی۔“

    اس طرح اپنے بازوؤں میں میمنا اٹھائے عورت، بہرا آدمی اور تماش بین منصف کی طرف چل پڑے۔

    منصف ان کی شکایت سننے گھر سے باہر آگیا۔ پہلے عورت نے اپنا مقدمہ پیش کیا۔ پھر آدمی نے اپنی داستان سنائی۔ آخر میں مجمع نے منصف کو صورت حال بتائی۔ منصف اپنا سَر ہلاتا رہا۔

    بہرے آدمی کی طرح وہ بھی کچھ نہ سمجھ سکا۔ اس کی نظر بھی کم زور تھی۔ آخر اس نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا۔ لوگ چپ ہوگئے۔

    اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔”اس طرح کے گھریلو جھگڑے بادشاہ اور کلیسا کے لیے بے عزتی کا باعث ہیں۔ پھر اس نے اپنا رخ آدمی کی طرف کیا، ”اپنی بیوی سے برا سلوک چھوڑ دو۔“

    اب وہ عورت سے مخاطب ہوا۔ ”تم سست ہوگئی ہو۔ اپنے میاں کو وقت پر کھانا دیا کرو۔“

    اس نے پیار سے میمنے کی طرف دیکھا۔”خدا اسے لمبی عمر دے اور یہ آپ دونوں کے لیے خوشی کا باعث ہو۔“

    مجمع تربتر ہوگیا اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ وہ ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے،

    ”واہ کیا فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں کتنا فاصلہ طے کرنا پڑا۔“

    ( اس کہانی کے مصنف کا نام حماتوما ہے اور اس کے مترجم حمید رازی ہیں)