Tag: افریقی ملک زیمبیا

  • افریقی ملک میں روزانہ بجلی کی 17 گھنٹے لوڈ شیڈنگ

    افریقی ملک میں روزانہ بجلی کی 17 گھنٹے لوڈ شیڈنگ

    افریقی ملک زیمبیا میں ہائیڈرو پاور ڈیم خشک ہونے کی وجہ سے اگلے مہینے سے روزانہ 17 گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔

    طویل خشک سالی کے باعث زیمبیا میں ہائیڈرو پاور ڈیم خشک ہورہے ہیں جس کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں اور کئی ملازمتوں کو خطرات لاحق ہیں، ایسے میں افریقی ملک کی حکومت نے اگلے ماں سے 17 گھنٹے کی طویل لوڈ شیدنگ کا منصوبہ بنا لیا ہے۔

    افریقہ کے جنوب میں واقع ملک نے فروری میں خشک سالی کی وجہ سے قومی آفت کا اعلان کیا تھا، وہ آہستہ آہستہ عوام کو بجلی کی فراہمی میں کمی لارہا ہے جبکہ پڑوسی ممالک سے بجلی درآمد کی جارہی ہے۔

    ملک میں 80 فیصد سے زیادہ بجلی فراہم کرنے والے ہائیڈرو پاور ڈیم قریب قریب خالی ہوچکے ہیں، حکومت نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا تھا جولائی میں متعارف کرائے گئے 14 گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ کو بڑھا کر 17 گھنٹے کردیا جائے گا۔

    زیمبیا کے وزیر توانائی ماکوزو چیکوٹے نے بتایا کہ یہ اقدام یکم ستمبر سے شروع ہوگا تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا ملک میں یہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کب تک چلے گی۔

    وزیر نے کہا کہ کریبا ڈیم زیمبیا کے ہائیڈرو بجلی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں، تاہم کریبا ڈیم میں بجلی کی پیداوار کے لیے صرف 10 فیصد پانی دستیاب ہے۔

    زیمبیا میں اگلا برسات کا موسم عام طور پر نومبر کے آس پاس شروع ہوگا لیکن کریبا پاور اسٹیشن ممکنہ طور پر ستمبر میں بند ہو جائے گا۔
    اتیزہی-تیزہی نامی ہائیڈرو پاور ڈیم میں پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے جولائی میں اسکے دو ٹربائنوں میں سے ایک کو پہلے ہی روک دیا گیا تھا۔

    کچی آبادی میں رہنے والے ایک ویلڈر، کرس بندا نے اپنے کام کے اوقات کو بھی تبدیل کر دیا ہے جب بھی بجلی ہو چاہے آدھی رات میں دسیتاب ہو وہ اس وقت کام کرتا ہے۔

    40 سالہ کرس بندا نے کہا کہ یہ مشکل ہے مجھے نیند نہیں آتی، میں اب کسی بھی وقت کام کرتا ہوں جب بجلی دستیاب ہوتی ہے، اس چیز نے زندگی کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔

  • فریڈرک فائیری:‌ افریقی ملک زیمبیا کا آرٹ کنگ

    فریڈرک فائیری:‌ افریقی ملک زیمبیا کا آرٹ کنگ

    دنیا میں ایسے لوگ‌ بھی ہیں جو اپنی ذہانت اور عقل سے کام لے کر خود کو جدت طراز، طباع اور صنّاع ثابت کرتے ہیں۔ وہ خود کو منوانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ راستہ اختیار کرتے ہیں‌ جس پر ان سے پہلے کسی نے قدم نہ رکھا ہو۔

    فریڈرک فائیری کا شمار انہی لوگوں میں‌ ہوتا ہے جس نے اپنے پیشے میں خود کو دوسروں سے منفرد اور ایک فن کار ثابت کیا ہے۔

    زیمبیا سے تعلق رکھنے والا فریڈرک فائیری ایک ویلڈر ہے۔ اس کی عمر 22 سال ہے۔

    وہ لوہے یا کسی دوسری دھات کے ساتھ شرارے اڑانے والی ویلڈنگ مشین سے دیگر ہنرمندوں کی طرح کام نہیں‌ لیتا بلکہ وہ اس سے فن پارے تیار کرتا ہے۔ وہ ناکارہ دھاتی ٹکڑوں کو کمال مہارت سے آرٹ پیس میں تبدیل کرتا ہے۔

    افریقی ملک کے اس فن کار ویلڈر نے اسکریپ سے پیچیدہ ساخت کے منفرد مجسمے تیار کرکے آرٹ کے شائقین کی توجہ حاصل کر لی ہے۔

    وہ کم عمری میں شفقتِ پدری سے محروم ہوگیا تھا۔ ایک روز فریڈرک فائیری کی والدہ بھی اس کی بہن کو لے کر دوسرے شہر چلی گئیں اور فریڈرک کو اس کے دادا کے ساتھ رہنا پڑا۔

    دادا نے فریڈرک کی ابتدائی تعلیم کے تمام اخراجات اٹھائے اور اسے پڑھاتے رہے، لیکن سیکنڈری جماعت میں‌ پہنچنے پر فریڈرک کو خود مختلف چھوٹے موٹے کام کرکے اپنے اسکول کی فیس ادا کرنا پڑی۔

    وہ تصویریں بنانے کا شوق رکھتا تھا۔ ڈرائنگ کرنا اس کا مشغلہ تھا۔ جیسے تیسے فریڈرک نے گریجویشن کی ڈگری حاصل کرلی اور اب اسے معاش کی فکر تھی اور ایک ایسے ملک میں جہاں بہت کم اجرت یا تنخواہیں دی جاتی تھیں، اسے بھی کام کرنا تھا۔

    فریڈرک ذہین بھی تھا اور فن کار بھی۔ اس نے دھاتی تاروں سے مختلف کھلونے اور مجسمے بنا کر سیاحوں اور مقامی لوگوں‌ فروخت کرنا شروع کیا اور خوش قسمتی سے اس کی بنائی ہوئی اشیا مقبول ہونے لگیں، یہی نہیں بلکہ یہ کام مقامی سطح پر اس کی وجہِ شہرت بن گیا تھا۔

    اسی عرصے میں کسی نے اسے فووی (Mfuwe) شہر میں‌ تعلیم و معیشت کی بہتری کے لیے سرگرم ایک خیراتی ادارے کے ڈائریکٹر کیرن بیٹی کے بارے میں‌ بتایا اور یوں‌ فریڈرک ان تک پہنچا۔

    فریڈرک فائیری نے عام ویلڈر کی حیثیت سے خود کو متعارف کرواتے ہوئے ان سے ماہانہ وظیفے پر کام دینے کی درخواست کی۔

    2017 میں فائیری کو ایک ماہر ویلڈر کے سپرد کر دیا گیا اور اسے سیاحتی مقصد کے لیے جاری ایک منصوبے پر کام کے دوران اپنے ہنر کو آزمانے کا موقع ملا۔

    کیرن بیٹی ایک روز اسے کام کرتا ہوا دیکھ رہے تھے کہ اچانک ان کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ انھوں‌ نے بہت سا دھاتی اسکریپ فائیری کو تھما دیا اور کہا کہ اسے کوئی قابلِ ذکر شکل دو اور وہ حوصلہ افزائی بہت کام آئی، آج فائیری زیمبیا کا ایک عام ویلڈر نہیں‌ بلکہ آرٹسٹ ہے اور لوگوں میں‌ مقبول ہے۔

    فریڈرک فائیری کو مقامی لوگوں نے ناکارہ دھاتی ٹکڑے، چابیاں، خراب اور گلی سڑی بائیکیں، اسپارک ہو جانے والے پلگ اور الیکٹرک وائر اور اسی قسم کا دوسرا سامان پہنچانا شروع کردیا ہے جسے وہ پھینک دینا چاہتے ہیں اور وہ ان کے لیے کارآمد نہیں‌ رہا۔ یہ نوجوان ان سے بیش قیمت فن پارے تیار کررہا ہے۔ وہ انھیں جانور، مختلف عمارتوں اور انسانی شکلوں میں‌ ڈھال دیتا ہے۔

    یہ نوجوان ویلڈر اپنے فن پاروں کی فروخت سے حاصل ہونے رقم فلاحی منصوبے پر خرچ کررہا ہے۔ وہ آرٹ کی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور اپنے سہانے مستقبل کے لیے پُرامید ہے۔

    (تلخیص و ترجمہ: عارف حسین)