Tag: افسانوی ادب

  • موچی (انگریزی ادب سے انتخاب)

    موچی (انگریزی ادب سے انتخاب)

    میں اسے تب سے جانتا تھا، جب میں بہت چھوٹا تھا۔ وہ میرے ابو کے جوتے بناتا تھا۔

    چھوٹی سی ایک گلی میں دو دکانیں ملا کر انھیں ایک دکان میں کر دیا گیا تھا۔ مگر اب وہ دکان نہیں رہی، اس کی جگہ ایک بے حد جدید طرز کی دکان تیار ہوگئی ہے۔

    اس کی کاری گری میں کچھ خاص بات تھی۔ شاہی خاندان کے لیے تیار کیے گئے کسی بھی جوتے کی جوڑی پر کوئی نشان نہیں ہوتا تھا سوائے ان کے اپنے جرمن نام کے’’گیسلر بردرس۔‘‘ اور کھڑکی پر جوتوں کی صرف چند جوڑیاں رکھی رہتیں۔ مجھے یاد ہے کھڑکی پر ایک ہی طرح کی جوڑیوں کو بار بار دیکھنا مجھے کھلتا تھا، کیوں کہ وہ آرڈر کے مطابق ہی جوتے بناتا تھا۔ نہ کم نہ زیادہ۔ اس کے تیار کردہ جوتوں کے بارے میں یہ سوچنا غیر تصوراتی تھا کہ وہ پاؤں میں ٹھیک سے نہیں آئیں گے؟ تو کیا کھڑکی پر رکھے جوتے اس نے خریدے تھے۔ یہ سوچنا بھی تصور سے دور تھا۔ وہ اپنے گھر میں ایسا کوئی چمڑا رکھنا برداشت نہیں کرتا تھا جس پر وہ بذاتِ خود کام نہ کرے۔ اس کے علاوہ پمپ شو کا وہ جوڑا بے حد خوبصورت تھا، اتنا شان دار کہ بیان کرنا مشکل تھا۔ وہ اصل چمڑے کا تھا جس کی اوپری تہہ کپڑے کی تھی۔ انھیں دیکھ کر ہی جی للچانے لگتا تھا۔

    اونچے اونچے بھورے چمک دار جوتے، حالانکہ نئے تھے مگر ایسا لگتا تھا جیسے سیکڑوں برسوں سے پہنے جارہے ہوں۔ واقعی جوتوں کا وہ جوڑا ایک مثالی نمونہ تھا۔ جیسے تمام جوتوں کی روح اس میں منتقل ہوگئی ہو۔

    دراصل یہ سارے خیالات میرے ذہن پر بعد میں ابھرے۔ حالانکہ جب میں صرف چودہ برس کا تھا، تب سے اسے جانتا تھا اور اسی وقت سے میرے دل میں اس کے اور اس کے بھائی کے لیے احترام کا جذبہ پیدا ہو چکا تھا۔ ایسے جوتے بنانا جیسے وہ بناتا تھا تب بھی اور اب بھی میرے لیے ایک عجوبہ یا حیرت انگیز بات تھی۔

    مجھے بخوبی یاد ہے، ایک دن میں نے اپنا چھوٹا سا پیر آگے بڑھا کر شرماتے ہوئے اس سے پوچھا تھا،’’مسٹر! کیا یہ بہت مشکل کام نہیں ہے؟‘‘

    جواب دیتے وقت سرخی مائل داڑھی سے ایک مسکان ابھر آئی تھی،’’ہاں، یہ مشکل کام ہے۔‘‘

    چھوٹے قد کا وہ آدمی جیسے بذات خود چمڑے سے بنایا گیا ہو، اس کا زرد چہرہ جھریوں بھرا چہرہ اور سرخی مائل گھنگھرالے بال اور داڑھی، رخساروں سے اس کے منہ تک دائروی شکل میں ابھری چہرے کی لکیریں، گلے سے نکلی ہوئی بھاری بھرکم آواز۔ چمڑا ایک نافرمان چیز ہے۔ سخت اور آہستہ آہستہ آکار لینے والی چیز۔ اس کے چہرے کی بھی یہی خاصیت تھی۔ اپنے آدرش کو اپنے اندر پوشیدہ رکھے ہوئے، محض اس کی آنکھیں اس سے عاری تھیں۔ جو بھوری نیلی تھیں اور جن میں ایک سادگی بھری گہرائی تھی۔

    اس کا بڑا بھائی بھی تقریباً اس جیسا ہی تھا بلکہ اس کا رنگ کچھ زیادہ زردی مائل تھا۔ شروعات میں میرے لیے دونوں میں فرق کر پانا دشوار مرحلہ تھا۔ پھر میری سمجھ میں آگیا۔ جب کبھی میں اپنے بھائی سے پوچھوں گا، ایسا نہیں کہا جاتا تو میں جان لیتا تھا کہ یہ وہی ہے اور یہ الفاظ دہرائے جاتے تو یقیناً وہ اس کا بڑا بھائی ہوتا۔

    کئی بار برسوں بیت جاتے اور بل میں اضافہ ہوتا جاتا، مگر گیسلر بھائیوں کی رقم کوئی بقایا نہیں رکھتا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ اس نیلے فریم کے چشمے والے جوتا ساز کی کسی پر دو جوڑیوں سے زیادہ رقم باقی ہو۔ اس کے پاس جانا ہی طمانیت کا احساس جگا دیتا تھا کہ ہم بھی اس کے گاہک ہیں۔

    اس کے پاس بار بار جانے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، کیوں کہ اس کے بنائے جوتے بہت مضبوط ہوتے تھے۔ ان کا کوئی ثانی نہیں ہوتا۔وہ جوتے ایسے ہوتے جیسے جوتوں کی روح ان کے اندر سِل دی گئی ہو۔

    وہاں جانا کسی عام دکان پر خریداری کرنے کے مترادف نہیں تھا۔ ایسا قطعی نہیں تھا کہ آپ دکان میں داخل ہوئے اور بس کہنے لگیں کہ ’’ذرا مجھے یہ دکھاؤ‘‘ یا ’’ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر اٹھے اور چل دیے۔یہاں پورے اطمینان کے ساتھ جانا پڑتا تھا، بالکل اسی طرح جیسے کسی گرجا گھر میں داخل ہوا جاتا ہے۔ پھر اس کی اکلوتی لکڑی کی کرسی پر بیٹھ کر انتظار کریں، کیوں کہ اس وقت وہاں کوئی نہیں ہوتا۔جلد ہی چمڑے کی بھینی بھینی بو اور تاریکی سے بھری اوپر کی کنوئیں نما کوٹھری سے اس کا یا اس کے بڑے بھائی کا چہرہ نیچے جھانکتا ہوا نظر آتا۔ ایک بھاری بھرکم آواز اور لکڑی کی تنگ سیڑھیوں سے قدموں کی چاپ سنائی دیتی۔ پھر وہ آپ کے سامنے کھڑا ہوتا، بنا کوٹ کے تھوڑا جھکا جھکا سا، چمڑے کا ایپرن پہنے، آستین اوپر چڑھائے، آنکھیں اور پلکیں جھپکاتے ہوئے جیسے اسے جوتوں کے خوبصورت خواب سے جگایا گیا ہو یا جیسے وہ الّو کی طرح دن کی روشنی سے حیرت زدہ اور خواب میں خلل کی وجہ سے جھنجھلایا ہوا ہو۔

    میں اس سے پوچھتا،ــ کیسے ہو بھائی گیسلر؟ کیا تم میرے لیے روسی چمڑے سے ایک جوڑی جوتے بنا دو گے؟‘‘ بنا کچھ کہے وہ دکان کے اندر چلا جاتا اور میں اسی لکڑی کی کرسی پر آرام سے بیٹھ کر اس کے پیشے کی بو اپنی سانسوں میں اتارتا رہتا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ لوٹتا۔ اس کے کمزور اور اُبھری ہوئی نسوں والے ہاتھوں میں گہرے بھورے رنگ کے چمڑے کا ایک ٹکڑا ہوتا۔ اس کی آنکھیں اس پر گڑی رہتیں اور وہ کہتا،’’کتنا خوبصورت ٹکڑا ہے!‘‘جب میں بھی اس کی تعریف کردیتا تو وہ سوال کرتا، آپ کو جوتے کب تک چاہیے؟‘‘اور میں کہتا،’’اوہ بنا کسی دقت کے جتنی جلد ممکن ہوسکے بنا کر دے دو۔‘‘ اور پھر وہ سوالیہ انداز میں کہتا،’’کل دوپہر؟‘‘یا اگر اس کا بڑا بھائی ہوتا تو وہ کہتا،’’میں اپنے بھائی سے پوچھوں گا۔‘‘

    پھر میں آہستہ سے کہتا،’’شکریہ مسٹر گیسلر، اب اجازت، خدا حافظ۔‘‘

    ’’خدا حافظ!‘‘ وہ کہتا۔ مگر اس کی نگاہ ہاتھ تھامے ہوئے چمڑے پر ہی ٹکی رہتیں۔ میں دروازے کی جانب مڑتا۔ مجھے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی۔ جو اسے جوتوں کی اسی خوابوں بھری دنیا میں لے جاتی۔ مگر ایسا کوئی نیا جوتا بنوانا ہو، جو اس نے ابھی تک میرے لیے نہ بنایا ہو تو وہ جیسے مخمصے میں پڑ جاتا۔ مجھے میرے جوتے سے آزاد کر کے دیر تک ہاتھ میں لے کر اس جوتے کو دیکھتا رہتا۔ مسلسل شفقت بھری پارکھی نظروں سے نہارتا رہتا۔ جیسے اس گھڑی کو یاد کرنے کی کوشش کررہا ہو جب بڑے جتن سے انھیں بنایا گیا تھا۔ اس کے ہاؤ بھاؤ میں کرب جھلکتا تھا کہ آخر کس نے اس قدر عمدہ نمونے کو اس حال میں پہنچایا ہے۔ پھر کاغذ کے ایک ٹکڑے پر میرا پیر رکھ کر وہ پینسل سے دو تین بار پیر کے گھیرے کا نشان بناتا، اس کی حرکت کرنے والی انگلیاں میرے انگوٹھے اور پیروں کو چھوتی رہتیں، جیسے میں نے یوں ہی اس سے کہہ دیا،’’بھائی گیسلر، آپ کو پتہ ہے، آپ نے جو پچھلا جوتا بنا کر دیا تھا، وہ چرمراتا ہے۔‘‘

    کچھ کہے بغیر اس نے پل بھر میری طرف دیکھا، جیسے امید کر رہا ہو کہ یا تو میں اپنا جملہ واپس لے لوں یا اپنی بات کا ثبوت پیش کروں۔

    ’’ایسا تو نہیں ہونا چاہیے تھا۔‘‘وہ بولا۔

    ’’ہاں مگر ایسا ہوا ہے۔‘‘

    ’’کیا تم نے انھیں بھگویا تھا؟‘‘

    ’’میرے خیال سے تو نہیں۔‘‘

    یہ سن کر اس نے اپنی نظریں جھکا لیں۔ جیسے وہ ان جوتوں کو یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو، مجھے بے حد افسوس ہوا کہ میں نے یہ بات کیوں کہہ دی۔

    ’’جوتے واپس بھیج دو۔ میں دیکھوں گا۔‘‘وہ بولا۔ اپنے چرمراتے ہوئے جوتوں کے بارے میں میرے اندر رحم دلی کے جذبات ابھر آئے۔ میں بخوبی تصور کرسکتا تھا کہ دکھ بھری طویل بے چینی کے ساتھ نہ جانے کتنی دیر تک وہ ان کی مرمت کرے گا؟

    ’’کچھ جوتے۔‘‘اس نے آہستگی سے کہا،’’پیدائشی خراب ہوتے ہیں، اگر انھیں درست نہ کرسکا تو آپ کے بل میں اس کے پیسے نہیں جوڑوں گا۔‘‘

    اک بار، محض ایک بار، میں اس کی دکان میں بے خیالی سے ایسے جوتے پہن کر چلا گیا جو جلد بازی کی وجہ سے کسی مشہور دکان سے خرید لیے تھے۔ اس نے بنا کوئی چمڑا دکھائے میرا آرڈر لے لیا۔میرے جوتوں کی گھٹیا بناوٹ پر اس کی آنکھیں ٹکی ہوئی تھیں۔ میں اس بات کو محسوس کر رہا تھا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا اور وہ بول اٹھا،’’یہ میرے بنائے ہوئے جوتے تو نہیں ہیں؟‘‘

    اس کے لہجے میں نہ غصہ تھا نہ دکھ کا اظہار نہ نفرت کے جذبات۔مگر کچھ ایسا ضرور تھا، جو لہو کو سرد کر دے۔ اس نے ہاتھ اندر ڈال کر انگلی سے بائیں جوتے کو دبایا، جہاں جوتے کو فیشن ایبل بنانے کے لیے غیر ضروری کاری گری کی گئی تھی۔ مگر وہاں وہ جوتا کاٹتا تھا۔

    ’’یہاں، یہ آپ کو کاٹتا ہے نا؟‘‘اس نے پوچھا،’’یہ جو بڑی کمپنیاں ہیں انھیں عزت کا پاس نہیں ہوتا۔‘‘ پھر جیسے اس کے دماغ میں کچھ بیٹھ گیا ہو، وہ زور زور سے کڑواہٹ بھرے لہجے میں بولنے لگا۔ یہ پہلی مرتبہ تھا، جب میں نے اسے اپنے پیشے سے پیدا ہونے والے ناگفتہ بہ حالات اور دقتوں کے بارے میں کچھ کہتے ہوئے سنا۔ ’’انھیں سب کچھ حاصل ہوجاتا ہے۔‘‘اس نے کہا،’’ وہ کام کے بوتے پر نہیں، بلکہ اشتہار کے بوتے پر سب کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ ہمارے گاہک چھین لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج میرے پاس کام نہیں ہے۔‘‘ اس کی جھریوں سے بھرے چہرے پر میں نے وہ سب دیکھا جو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بے انتہا تکلیف، کڑواہٹ اور جدوجہد۔ اچانک اس کی سرخ مائل داڑھی میں سفیدی لہرانے لگی تھی۔

    اپنی جانب سے میں اتنا کرسکتا تھا کہ اسے حالات روشناس کراتا۔جس کی بنا پر میں اس گھٹیا جوتوں کو خریدنے پر مجبور ہو گیا تھا۔مگر ان چند لمحات میں اس کے چہرے اور آواز نے مجھے اس قدر متاثر کیا کہ میں نے کئی جوڑی جوتوں کے بنانے کا آرڈر دے دیا اور اس کے بعد یہ تو ہونا ہی تھا۔ وہ جوتے گھسنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ تقریباً دو برس تک میں وہاں نہ جا سکا۔

    آخر جب میں گیا تو یہ دیکھ کر بڑا تعجب ہوا کہ اس کی دکان کی دو چھوٹی کھڑکیوں میں سے ایک کھڑکی کے باہر کسی دوسرے کے نام کا بورڈ آویزاں ہوگیا تھا۔ وہ بھی جوتے بنانے والا ہی تھا۔ شاہی خاندان کے جوتے۔ اب صرف ایک کھڑکی پر وہی جانے پہچانے جوتے رکھے ہوئے تھے۔ وہ الگ سے نہیں لگ رہے تھے۔ اندر بھی دکان کی وہ کنوئیں نما کوٹھری پہلے کی بہ نسبت زیادہ تاریک اور بُو سے اٹی ہوئی لگ رہی تھی۔ اس بار ہمیشہ سے کچھ زیادہ ہی وقت لگا۔ کافی دیر بعد وہی چہرہ نیچے جھانکتا ہوا دکھائی دیا۔ پھر چپلوں اور قدموں کی آواز گونجنے لگی۔ آخر وہ میرے روبرو تھا، زنگ آلود ٹوٹے پرانے چشمے میں سے جھانکتا ہوا۔ اس نے پوچھا،ــ’’آپ مسٹر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں نا؟‘‘

    ’’ہاں مسٹر گیسلر۔‘‘میں نے کچھ ہچکچاتے ہوئے کہا،’’کیا بتلائوں، آپ کے جوتے اتنے اچھے ہیں کہ گھستے ہی نہیں۔ دیکھیے یہ جوتے بھی ابھی تک چل رہے ہیں۔‘‘ اور میں نے اپنا پیر آگے بڑھا دیا۔ اس نے انھیں دیکھا۔

    ’’ہاں۔‘‘وہ بول اٹھا۔’’مگر لگتا ہے لوگوں کو اب مضبوط جوتوں کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘

    اس کی طنز بھری نظروں اور آواز سے نجات پانے کے لیے میں نے فوراً کہا،’’یہ تم نے اپنی دکان کو کیا کر ڈالا ہے؟‘‘ اس نے اطمینان سے کہا،’’بہت مہنگا پڑ رہا تھا۔ کیا آپ کو جوتے چاہییں؟‘‘ میں نے تین جوڑی جوتوں کا آرڈر دیا۔ حالانکہ مجھے ضرورت صرف دو جوڑی جوتوں کی ہی تھی اور جلدی سے میں وہاں سے باہر نکل آیا۔نہ جانے کیوں مجھے لگا کہ اس کے ذہن میں کہیں یہ بات ہے کہ اسے یا سچ کہیں تو اس کے جوتوں سے متعلق جو سازش رچی جارہی ہے اس میں، مَیں بھی شامل ہوں۔ یوں بھی کوئی ان چیزوں کی اتنی پروا نہیں کرتا۔ مگر پھر ایسا ہوا کہ میں کئی مہینوں تک وہاں نہیں گیا۔ جب میں وہاں گیا تو میرے ذہن میں بس یہی خیال تھا، اوہ!میں بھلا اس بوڑھے کو کیسے چھوڑسکتا ہوں۔ شاید اس بار اس کے بڑے بھائی سے سامنا ہوجائے۔

    میں جانتا تھا کہ اس کا بڑا بھائی تیکھے لہجے میں یا نفرت آمیز لہجے میں بات نہیں کرسکتا۔ واقعی دکان میں جب مجھے بڑے بھائی کی شبیہ دکھائی دی تو میں نے راحت محسوس کی۔ وہ چمڑے کے ایک ٹکڑے پر کام کررہا تھا۔

    ’’ہیلو مسٹر گیسلر کیسے ہیں آپ؟‘‘میں نے پوچھا۔ وہ اٹھا اور غور سے مجھے دیکھنے لگا۔

    ’’میں ٹھیک ہوں۔‘‘اس نے آہستگی سے کہا،’’مگر میرے بڑے بھائی کا انتقال ہوگیا۔‘‘

    تب میں نے دیکھا کہ یہ تو وہ خود تھا۔ کتنا بوڑھا اور کمزور ہوگیا تھا۔ اس سے پہلے میں نے کبھی اسے اپنے بڑے بھائی کا ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا تھا۔ مجھے بڑا دکھ ہوا۔ میں نے آہستہ سے کہا، ’’یہ تو بہت ہی برا ہوا۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘وہ بولا،’’وہ نیک دل انسان تھا، اچھے جوتے بناتا تھا، مگر اب وہ نہیں رہا۔‘‘ پھر اس نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا، جہاں سے اچانک اس کے بہت زیادہ بال جھڑ گئے تھے۔ اس کے بدقسمت بھائی کی طرح۔ مجھے محسوس ہوا شاید وہ اس طرح اپنے بھائی کی موت کا سبب بتارہا تھا۔ ’’بھائی اس دوسری دکان کو کھو دینے کا غم برداشت نہیں کر پایا۔ خیر، کیا آپ کو جوتے چاہییں؟‘‘ اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا چمڑا اٹھا کر دکھایا۔’’یہ بہت خوبصورت ٹکڑا ہے!‘‘
    میں نے کئی جوتوں کا آرڈر دیا۔ بہت دنوں بعد مجھے وہ جوتے ملے جو بے حد شان دار تھے۔ انھیں بڑے سلیقے سے پہنا جاسکتا تھا۔ اس کے بعد میں بیرونِ ملک چلا گیا۔

    لوٹ کر لندن آنے میں ایک برس سے بھی زیادہ وقت گزر گیا۔ لوٹنے کے بعد سب سے پہلے میں اپنے اسی بوڑھے دوست کی دکان پر گیا۔میں جب گیا تھا وہ ساٹھ برس کا تھا۔ اب جسے میں دیکھ رہا تھا وہ پچھہتر سے بھی زیادہ کا دکھائی دے رہا تھا۔ بھوک سے بے حال، تھکا ماندہ، خوفزدہ اور اس بار واقعی اس نے مجھے نہیں پہچانا۔

    ’’اور مسٹر گیسلر۔‘‘میں نے کہا۔ دل ہی دل میں دکھی تھا، ’’تمھارے جوتے تو واقعی کمال کے ہیں! دیکھو، میں بیرونِ ملک یہی جوتے پہنتا رہا اور اب بھی یہ اچھی حالت میں ہیں۔ ذرا بھی خراب نہیں ہوئے ہیں، ہیں نا؟‘‘

    بڑی دیر تک وہ جوتوں کو دیکھتا رہا۔ روسی چمڑے سے بنے ہوئے جوتے۔ اس کے چہرے پر ایک چمک سی لوٹ آئی۔ اپنا ہاتھ جوتے کے اوپری حصّے میں ڈالتے ہوئے وہ بولا۔’’کیا یہاں سے کاٹتے ہیں؟مجھے یاد ہے ان جوتوں کو بنانے میں مجھے کافی پریشانی ہوئی تھی۔‘‘

    میں نے اسے یقین دلایا کہ وہ ہر طرح سے بہترین ہیں۔ ذرا بھی تکلیف نہیں دیتے۔

    ’’کیا آپ کو جوتے بنوانے ہیں؟‘‘اس نے پوچھا، میں جلد ہی بنا کر دوں گا، یوں بھی مندی کا دور چل رہا ہے۔‘‘

    ’’میں بالکل نئے ماڈل کے جوتے بناؤں گا۔ آپ کے پیر تھوڑے بڑے ہوگئے۔‘‘ اور آہستگی سے اس نے میرے پاؤں کو ٹٹولا اور انگوٹھے کو محسوس کیا۔ اس دوران صرف ایک بار اوپر دیکھ کر وہ بولا،’’کیا میں نے آپ کو بتایا کہ میرے بھائی کا انتقال ہوگیا ہے؟‘‘
    اسے دیکھنا بڑا تکلیف دہ تھا، وہ بہت کمزور ہوگیا تھا، باہر آکر میں نے راحت محسوس کی۔

    میں ان جوتوں کی بات بھول ہی چکا تھا کہ ایک شام اچانک وہ آپہنچے۔ جب میں نے پارسل کھولا تو ایک کے بعد ایک چار جوڑی جوتے نکلے۔ بناوٹ، آکار، چمڑے کی کوالٹی اور فٹنگ ہر لحاظ سے اب تک بنائے گئے جوتوں سے بہتر اور لاجواب۔ عام موقع پر پہنے جانے والے جوتے میں مجھے اس کا بل ملا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح ہی دام لگایا تھا۔ مگر مجھے تھوڑا دھچکا لگا۔ کیوں کہ وہ کبھی تین ماہ کی آخری تاریخ سے قبل بل نہیں بھیجتا تھا۔ میں دوڑتے ہوئے نیچے گیا، چیک بنایا اور فوراً پوسٹ کر دیا۔

    ایک ہفتے بعد میں اس راستے سے گزر رہا تھا تو سوچا کہ اسے جاکر بتاؤں کہ اس کے جوتے کتنے شان دار اور بہترین ناپ کے بنے ہیں۔ مگر جب میں وہاں پہنچا جہاں اس کی دکان تھی تو اس کا نام غائب تھا۔ کھڑکی پر اب بھی وہی سلیقہ دار پمپ شو رکھے ہوئے تھے۔ اصل چمڑے کے اور کپڑے کی اوپری تہ والے۔

    بے چین ہو کر میں اندر گیا، دونوں دکانوں کو ملا کر دوبارہ ایک دکان کردی گئی تھی۔ایک انگریز نوجوان ملا۔’’مسٹر گیسلر اندر ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا۔

    ’’نہیں سر۔‘‘وہ بولا،’’مسٹر گیسلر نہیں ہیں۔ مگر ہم ہر طرح سے آپ کی خدمت کرسکتے ہیں، یہ دکان ہم نے خرید لی ہے، آپ نے باہر ہمارا بورڈ دیکھا ہوگا۔ ہم نامی گرامی لوگوں کے لیے جوتے بناتے ہیں۔‘‘

    ’’ہاں، ہاں۔‘‘میں نے کہا،’’مگر مسٹر گیسلر؟‘‘

    ’’اوہ!‘‘وہ بولا،’’ان کا انتقال ہوگیا۔‘‘

    ’’کیا، انتقال ہو گیا؟ مگر انھوں نے مجھے پچھلے ہفتے ہی تو یہ جوتے بھیجے تھے۔‘‘

    ’’اوہ! بے چارہ بوڑھا، بھوک سے ہی مر گیا۔‘‘اس نے کہا۔’’بھوک سے آہستہ آہستہ موت، ڈاکٹر یہی کہتے ہیں! آپ جانتے ہیں وہ دن رات بھوکا رہتا تھا اور کام کرتا تھا۔ اپنے علاوہ کسی کو بھی جوتوں پر ہاتھ لگانے نہیں دیتا تھا۔ جب اسے آرڈر ملتا تو اسے پورا کرنے میں رات دن ایک کر دیتا۔ اب لوگ بھلا کیوں انتظار کرنے لگے۔ اس کے سبھی گاہک چھوٹ گئے تھے۔ وہ وہاں بیٹھا لگاتار کام کرتا رہتا۔ وہ کہتا کہ پورے لندن میں اس سے بہتر جوتے کوئی نہیں بناتا۔ اس کے پاس بہترین چمڑا تھا مگر وہ اکیلا ہی سارا کام کرتا تھا۔ خیر! چھوڑیے اس طرح کے آدرش میں کیا رکھا ہے۔‘‘

    ’’مگر بھوک سے مرجانا؟‘‘

    ’’یہ بات عجیب سی لگتی ہے مگر میں جانتا ہوں دن رات اپنی آخری سانس تک وہ جوتوں پر لگا رہا۔ انھیں دیکھتا رہتا۔ اسے کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا تھا۔ جیب میں پھوٹی کوڑی تک نہیں تھی۔ سب کچھ گروی رکھ دیا تھا۔ مگر اس نے چمڑا نہیں چھوڑا۔ نہ جانے کس طرح وہ اتنے دن زندہ رہا۔ وہ مسلسل فاقے کرتا رہا۔ وہ ایک عجیب انسان تھا، مگر ہاں، وہ جوتے بہت عمدہ بناتا تھا۔‘‘

    ’’ہاں۔‘‘میں نے کہا،’’وہ عمدہ جوتے بناتا تھا۔‘‘

    (نوبیل انعام یافتہ انگریز ادیب جان گالزوردی (John Galsworthy) کا یہ افسانہ کوالٹی کے نام سے شایع ہوا تھا جس کا اردو زبان میں ترجمہ قاسم ندیم نے کیا ہے۔)

  • آتش فشاں پر بنا گھر

    آتش فشاں پر بنا گھر

    اس نے جوں ہی دراز کو ہاتھ لگایا، یکایک دادی کی غصہ بھری آواز نے پیچھے سے جکڑ لیا۔

    ’کیا پریشانی ہے تجھے؟‘ وہ گھبرا کر پلٹی۔ موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے دادی کی آنکھیں انگارے بنی دہک رہی تھیں۔ ’تجھے کتنی بار منع کیا ہے کہ ان درازوں کو ہاتھ مت لگایا کر۔ تجھے سمجھ میں نہیں آتا کیا؟‘

    وہ سہم گئی۔ ماں جیسا نازک بدن کپکپانے لگا۔ وہ دادی کو اکثر غصے میں دیکھتی، مگر اس لمحے یوں لگا کہ جیسے وہ مار ہی ڈالیں گی۔ چند دنوں سے یہ سلسلہ کچھ زیادہ ہی تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ وہ جوں جوں بڑی ہورہی تھی، دادی کی روح میں کسی بت کی طرح سر اٹھائے کھڑا اضطراب اپنا قد بڑھاتا جا رہا تھا۔ وہ جب بھی سامنے آتی، دادی کی آنکھوں میں بے چینی مچلنے لگتی۔ اسے گھر میں ہر طرف آنے جانے کی آزادی تھی۔ وہ اپنے کھلونوں سے کھیلے یا انہیں توڑے۔ اپنی کتابوں میں بنی تصویروں میں رنگ بھرے یا بد رنگ کرے۔ اسے ہر بات کی آزادی تھی۔ مگر جب کبھی دادی کے کمرے میں بنی الماری کی طرف ہاتھ بڑھاتی، چاروں سمت پھرتی شاطر آنکھیں اس کی گردن دبوچ لیتیں اور وہ سہم جاتی۔ ایسے میں نہ جانے کیوں ماں یاد آتی، جو برسوں پہلے اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اسے دادی نے یہی بتایا تھا، بلکہ اکثر دادی یہ سبق اسے حفظ کروانے کی حد تک دہراتی رہتی تھیں۔ وہ کہتیں۔

    ’تیری ماں کو تجھ سے محبت نہیں تھی۔ ورنہ مائیں اپنی اولاد کو اس طرح چھوڑ کر نہیں جاتیں۔ بہت ظالم تھی تیری ماں اور اس سے ظالم تیرا نانا تھا۔ سور کا بچہ۔۔۔‘

    نانا کا ذکر آتے ہی دادی کے چہرے پر وحشت برسنے لگتی۔ نفرت کی شدید تمازت بوڑھے چہرے پر پھیلی جھریوں کو اور گہرا کر دیتی۔ جب وہ چھوٹی تھی تو ذہن سوالوں، الجھنوں سے بے نیاز تھا، مگر جوں جوں وہ بڑی ہو رہی تھی، الجھے سوالوں کا ڈھیر بھی اونچا ہوتا جا رہا تھا۔ ہر گزرتے لمحے سلجھے جوابوں کی خواہش شدید ہوتی جا رہی تھی۔ کچھ دنوں سے اس نے اپنے ذہن کے نہاں خانے میں پوشیدہ شفاف ورق پر سوال لکھنا شروع کر رکھے تھے۔

    ماں کیوں چھوڑ کر چلی گئی؟ نانا اتنے برے آدمی کیوں ہیں؟ دادی میرا چہرہ دیکھ کر چھوٹی اور بڑی تائی امی سے کیا کھسر پھسر کرتی ہیں؟ اس الماری کی درازوں میں کیا ہے جسے دادی مجھ سے چھپارہی ہیں؟ میرے امی بابا، کا رشتہ ناکام ہونے میں غلطی کس کی تھی، یا کس کس کی تھی؟ نانا نے مجھے نہ لینے کا فیصلہ کیوں کیا؟ کیا میں ان پر بوجھ بن جاتی؟

    اس کا معصوم ذہن کہتا کہ دادی اور گھر کے تمام لوگ سارے جواب جانتے ہیں۔ اسے لگتا کہ سچ وہ نہیں ہے جو اسے بتایا جاتا ہے۔ شاید اصل حقیقت دادی کے چہرے کی دبیز جھریوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ یا تائی امی کے چہرے پر پھیلے تمسخر سے کہیں دور پوشیدہ ہے۔ ممکن ہے بابا کی جھکی ہوئی گردن میں کہیں اٹکا ہوا ہو۔ یا پھر خود ساختہ احساسِ تفاخر کے اونچے مگر کمزور تخت پر بیٹھے ہوے دادا کے ادھورے اور ناکام فیصلوں تلے دھنسا ہوا کراہ رہا ہے۔

    ایک دن سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کے کانوں سے دادی کی آواز ٹکرائی۔ ’شکل و صورت میں بالکل اپنی ماں جیسی بنتی جا رہی ہے۔‘

    تب وہ دیر تک آئینے میں اپنے چہرے کے خط و خال کو گھورتی رہی۔ وہ جانتی تھی کہ دادی اس کی ماں سے نفرت کرتی ہیں۔ ایسے میں اس کے چہرے میں ماں کی شباہت اتر آنا دادی کو تکلیف دیتا ہے۔ تب اس نے بے دھیانی میں ناخنوں سے اپنا چہرہ نوچ ڈالا۔ جب وہ اپنی ہی سسکیوں کے بوجھ تلے دبنے لگی تو چیخ نکل گئی۔ آواز سن کر اس کے بابا نے اسے پکڑا اور چیخ کر بولے۔

    ’یہ کیا کر رہی ہو؟‘

    ’میرے چہرے میں دادی کو امی نظر آتی ہیں۔ میں انہیں کھرچ رہی ہوں‘۔ اس نے معصومیت سے جواب دیا۔

    باب نے پیار سے اس کی طرف دیکھا اور پھر گردن جھکا لی۔ باپ کے سپاٹ چہرے پر بے چارگی ابھرنے لگی۔ وہ جان ہی نہ سکی کہ بے چارگی کا یہ بد رنگ احساس اس کی ذہنی سوچ اور صحیح یا غلط کے درمیان فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت کو نچلے درجے کی حد تک کمزور سے کمزور تر کیے ہوئے ہے۔

    وہ جب گردن جھکا کے پلٹنے لگا تو اس نے اپنے باپ سے کہا۔ ’’بابا آپ دادی کو نہیں بتائیں گے کہ میں نے ایسا کیوں کیا تھا۔‘‘

    ’ٹھیک ہے نہیں بتاؤں گا۔‘ اس کے باپ نے وعدہ کیا۔ مگر جب وہ کچھ دیر بعد لاؤنج میں گئی تو دادی نے تڑاخ سے کہا۔

    ’تیری ماں سے پیچھا چھڑانا اتنا آسان ہوتا تو میں نہ کھرچ دیتی تیرے چہرے سے۔‘

    یہ سن کر وہ حیران رہ گئی۔ لمحہ بھر کو اسے بابا پر بہت غصہ آیا۔ اسے یاد آیا کہ پہلے بھی کئی بار اس نے کمرے میں ہونے والی گفتگو دادی کو بتانے سے منع کیا تھا۔ مگر ہر بار اس کے بابا دادی کو جا کر سب بتا دیتے ہیں۔ آخر وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وہ سوچنے لگی۔

    مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ بابا کی ایسی بہت سی حماقتوں کی وجہ سے وہ اپنی ماں سے دور ہوئی تھی۔ اس نے پوشیدہ شفاف ورق پر ایک اور سوال کا اضافہ کر لیا۔ جوں جوں الجھے سوال بڑھ رہے تھے، اس کا اضطراب بھی دو چند ہوتا جا رہا تھا۔ ایک دن وہ ٹیرس میں لٹکے جھولے میں جھولتے ہوئے بے دھیانی میں گیت گنگنا رہی تھی۔

    اماں میرے نانا کو بھیجو ری کہ ساون آیا۔ اچانک اس کے نزدیک اس کا تایا زاد بھائی آیا اور بولا۔

    ’میری مما کہتی ہیں کہ جس دن میری تمہاری شادی ہو گی، تم اپنی ماں اور نانا کو ہمیشہ کے لیے بھول جاؤ گی۔‘ یہ سن کر وہ پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے دادی سے جا لپٹتی۔ وہ بولیں۔

    ’اس میں رونے کی کیا بات ہے۔ یہ تو بچپن ہی میں طے ہو گیا تھا۔ تیری اماں کو اس رشتے پر بہت اعتراض تھا، مگر اب تیری اماں تو یہاں نہیں ہے۔ اب فیصلہ تو ہم کریں گے۔‘

    ’مگر بچپن میں رشتہ طے کرنا تو بہت ظلم ہے۔‘ اس نے تجربے کی بھٹی میں پکا اینٹ سا جواب دے مارا۔

    ’چپ کر۔‘ دادی نے ڈانٹتے ہوئے کہا۔ ’بالکل اپنی ماں کی طرح سوچتی ہے۔‘

    وہ ایک جھٹکے سے دادی سے دور ہوتے ہوئے بولی۔ ’اس میں غلط کیا ہے؟ بچپن میں جوڑے ہوئے رشتوں کا خراب نتیجہ پہلے سے آپ اس گھر میں بھگت تو رہی ہیں۔‘

    اس کے واضح اشارے کو محسوس کرتے ہی دادی کے چہرے پر کئی رنگ بکھر گئے۔ انہوں نے غصے میں چیختے ہوئے کہا۔

    ’بہت زبان چل گئی ہے تیری۔ کاٹ کر پھینک دوں گی۔‘

    وہ اپنے بڑے بیٹے، جسے انہوں نے اپنے تصور میں بہت اونچے سنگھاسن پر بٹھا رکھا تھا، کے بارے میں سچ سننے کو تیار نہیں تھیں۔ انہوں نے لرزتی جھریوں کے ساتھ غراتے ہوئے کہا۔

    ’تو اس گھر کا کھاتی ہے اور اسی کے بارے میں ایسے گھناؤنے انداز سے سوچتی ہے۔‘ وہ ایک لمحے کو رکیں اور پھر کچھ سوچتے ہوئے بولیں۔’ ایک بات کان کھول کر سن لے، اپنے نانا اور اماں کے انداز میں سوچنا بند کر، ورنہ ان چھوٹے لوگوں کی طرح ہی ہو جائے گی۔‘

    اس نے حیرت سے دادی کو دیکھا۔ نانا کے بارے میں یہ لفظ اس نے پہلے بھی دادا دادی سے سنا تھا۔ اس نے پوشیدہ شفاف ورق پر ایک اور سوال درج کرنے کے بارے میں سوچا۔ اس اثنا میں اس کی چھوٹی تائی امی کمرے میں داخل ہوئیں اور بولیں۔

    ’کل اس کے لیے تعویذ بنوا کر لاؤں گی، تاکہ اس کا دماغ درست رہے۔‘

    ’میں کوئی تعویذ واویذ نہیں پہنوں گی۔‘ اس نے فوراً کہا۔

    ’چپ رہ! یہ جو تیرے اندر چار کتابیں پڑھ کر اپنے آپ کو طرم خان سمجھنے والا نانا بولنے لگا ہے، اسے چپ کرنا بہت ضروری ہے۔ کمبخت نہ جانے کیسی سخت مٹی کا بنا ہوا ہے۔ اتنے تعویذ جادو گنڈے کیے، کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ سور کا بچہ۔۔۔ نہ اندھا ہوا اور نہ مر کے دیا۔‘

    دادی نے آخری جملہ بہت دھیرے سے کہا تھا، مگر پھر بھی اس نے سن لیا۔ لیکن کچھ نہ بولی۔ وہ اکثر تائی امی کو کھانوں پر کچھ پڑھ پڑھ کر پھونکتے، دوسروں کو پڑھی ہوئی شکر والی چائے پلاتے، دادی کے پیروں کے درد اور دادا کے فشار خون کو معتدل کرنے والے تعویذ باندھتے ہوے دیکھا کرتی تھی، مگر وہ حیران تھی کہ برسوں سے نہ دادی کے پیروں کا درد دور ہوا اور نہ دادا کا بلڈ پریشر اعتدال پر آیا۔ البتہ دن بہ دن گھر پر چھوٹی تائی امی کا قبضہ مضبوط ہوتے ہوئے وہ ضرور دیکھ رہی تھی۔

    گھر میں ہونے والی چھوٹی چھوٹی باتیں اس کے تجسّس کو بڑھاوا دے رہی تھیں۔ اکثر اس کا دھیان دادا دادی کے کمرے میں موجود الماری کی درازوں کی طرف چلا جاتا، جنہیں کھولنے کی اسے اجازت نہیں تھی۔ یقیناً وہاں کچھ ایسا ہے جو میری زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ وہ اکثر سوچتی۔ کچھ دنوں سے وہ اپنی بے چین طبیعت کی وجہ سے دادی کے کمرے کی طرف زیادہ جانے لگی تھی، مگر وہاں اکثر دادا ٹی وی پر کرکٹ میچ دیکھ رہے ہوتے یا پھر قوی الجثہ ریسلرز کے طے شدہ اور ڈیزائن کردہ اسکرپٹ والے مقابلے دیکھتے ہوئے پاتی۔ اس نے کہیں پڑھا تھا کہ انسان میں ماورائیت سے دلچسپی اور سپر ہیومن نیچر سے لگاؤ کمزور ارادوں کی وجہ سے جنم لیتا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے دادا منصوبے تو بڑے بڑے بناتے ہیں اور اکثر دوسروں کو سناتے بھی بہت ہیں، مگر عملاً کچھ نہیں کرتے۔ کیوں کہ ان کے اندر کنڈلی مارے بیٹھا ہوا آج کے کاموں کو کل پر ٹالنے والا ریٹائر سرکاری افسر کاغذوں پر منصوبے بنا کر اور تصور میں ایورسٹ کی چوٹی سر کرتا رہتا ہے۔ ان تمام باتوں کے علاوہ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کے دادا اس سے آنکھیں ملاتے ہوے جھجھکتے ہیں۔ ایک دن اس نے دادی کی غیر موجودگی میں ڈرتے ڈرتے دادا سے سوال کر ڈالا۔

    ’دادا! ایک بات پوچھوں؟‘ ’ہوں۔۔۔انہوں نے ٹی وی اسکرین سے نظریں ہٹائے بغیر کہا۔

    ’اس الماری میں کیا ہے؟ اس نے الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

    ’دادی سے پوچھو۔‘ وہ بولے۔

    ’وہ نہیں بتاتیں۔۔۔‘ اس نے مایوس لہجے میں جواب دیا۔

    ’انہی سے پوچھو۔‘ دادا نے پھر دہرایا۔ ’ویسے تم اس قدر کھوج میں کیوں رہتی ہو؟‘

    ’اگر آپ مجھے ڈانٹیں نہیں تو میں ایک بات کہوں؟‘ اس نے سہمے ہوے لہجے میں کہا۔

    ’کہو‘۔ انہوں نے ہاتھ میں پکڑا ٹی وی کا ریموٹ بیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔

    ’دادا مجھے اپنے حوالے سے گھر کی فضا میں جھوٹ تیرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔‘ اس نے اپنی ٹوٹی پھوٹی ہمت کو یکجا کرتے ہوئے کہا۔

    ’تم ابھی بہت چھوٹی ہو‘۔ داد نے اپنے مخصوص انداز میں گردن ہلائی اور ماتھے پر سلوٹیں ڈالتے ہوئے مزید کہا۔ ’تمہیں معلوم نہیں کہ یہ گھر کتنی محنت سے بنا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر بات لڑکیوں کو بتائی جائے۔‘

    وہ مایوس ہو گئی۔ دبیز کارپٹ میں پیر کا انگوٹھا رگڑتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور پلٹ کر جانے لگی۔ یکایک دادا پیچھے سے بولے۔ ان کے لہجے میں حقارت نمایاں تھی۔

    ’سنو۔۔۔اس الماری میں تمہاری ماں کے ہاتھ کا لکھا ہوا خلع نامہ ہے اور اس سے بڑھ کر تمہارے نانا کا وہ خط ہے جس نے سب کچھ تہس نہس کرکے رکھ دیا۔‘ وہ چند ساعتوں کے لیے خاموش ہوئے اور پھر بولے۔ ’ہم اس سے بڑے تھے، اسے ہمارا احترام کرنا چاہیے تھا۔‘

    ’جہاں تک مجھے معلوم ہے انہوں نے آپ اور دادی کے احترام میں کوئی کمی نہیں کی۔ دادا یہ ضروری تو نہیں کہ جو آپ کی عزت کرتے ہیں وہ آپ کی نالائق اولاد کو بھی سر پر بٹھائیں۔‘ اس نے دادا کی طرف دیکھتے ہوئے ایک سچ اگل دیا۔ دادا کے بوڑھے چہرے پر نخوت بھری دبیز جھریاں لرزنے لگیں۔ وہ بولے۔

    ’وہ میرا بیٹا ہے۔ آنے والے کل میں وہ اس خاندان کا سربراہ بنے گا۔ کوئی اس سے آگے نکلے، یہ میں برداشت نہیں کر سکتا۔

    ’دادا آپ کے اس غرور اور گھمنڈ نے مجھے تنہا کر دیا۔‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ وہ کپکپاتے ہونٹوں پر فریاد لیے پلٹ کر جانے لگی۔ اس کی پشت پر پتھر جیسے لفظ ٹکرائے۔

    ’خلع نامے اور خط میں کیا لکھا ہوا، اس کے مندرجات پر جانے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں۔ آئندہ اس حوالے سے کوئی بات نہ کرنا۔‘

    وہ گردن جھکائے دروازے کی طرف بڑھی، مگر جوں ہی ادھ کھلے دروازے کی دہلیز پار کرنے کی کوشش کی تو کاٹن کا کُرتا ہینڈل میں اٹک کر چِرتا چلا گیا۔ اس نے بے بسی سے پھٹے ہوئے کُرتے کو دیکھا۔ یہ سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں میں تیرتے آنسو چھلک پڑے کہ اس گھر کی دہلیز پار کرنا کتنا مشکل ہے۔

    (محمد امین الدّین کا ایک افسانہ)ٰ

  • ”میری دو معصوم بچیاں ہیں!“

    ”میری دو معصوم بچیاں ہیں!“

    آپ لوگوں کی بڑی مہربانی کہ آپ مجھے اس قابل سمجھتے ہیں کہ ہر سنیچر کی رات میری باتیں سننے میرے غریب خانے پر تشریف لاتے ہیں، حالاں کہ لاکھ بار کہا کہ میں آپ ہی کی طرح کا عام آدمی ہوں۔ بس تھوڑا بہت مطالعہ کر لیتا ہوں اور اخبار بینی کا شوق ہے، ورنہ میں کوئی مفکر تو ہوں نہیں، اور ویسے بھی دو شادیاں کرنے والا بھلا مفکر ہو بھی کیسے سکتا ہے، آپ خود سوچیں!

    آپ حضرات اب مجھ سے یہ ضرور پوچھیں گے کہ میں نے دو شادیاں کیوں کر رکھی ہیں؟

    ارے بھئی، سیدھی سی بات ہے، اولادِ نرینہ کے لیے اور کس لیے! میری پہلی بیوی سے دو بیٹیاں ہیں۔ دوسری بیٹی کی پیدایش کے وقت کوئی طبّی پیچیدگی ہوگئی، جس کی وجہ سے مجبوراً پیدایش کا سلسلہ مستقل طور پر بند کرنا پڑا۔ اب آپ لوگ ہی بتائیں کہ کیا مجھے اپنی نسل اور نام آگے بڑھانے کا کوئی حق نہیں تھا؟

    آپ اسلم صاحب کو تو جانتے ہی ہوں گے، ارے وہی اسلم صاحب، جن کا چند روز پہلے انتقال ہوا ہے۔ ان کے کوئی بیٹا نہیں تھا، صرف ایک بیٹی ہے، جسے رخصت کرنے کے بعد وہ اور اُن کی بیوی گھر میں تنہا رہ گئے تھے۔ پھر بیوی کے انتقال کے بعد تو وہ بالکل ہی اکیلے ہوگئے۔ جب بھی بیمار پڑتے، ان کی بیٹی کو ان کی خبر گیری کے لیے سسرال سے میکے آنا پڑتا۔ ان کی وفات سے ایک ہفتے پہلے اُن کی بیٹی نے اپنا بوریا بستر اُٹھا کر اُن کے گھر میں ڈال دیا۔ سُسرال جو بے چاری کا اتنا دور تھا، روز روز آنے جانے میں اُسے تکلیف ہوتی تھی، پھر آخری دنوں میں اسلم صاحب کی طبیعت بھی ایسی نہ تھی کہ انھیں ایک پل کے لیے بھی تنہا چھوڑا جا سکتا۔

    بزرگوں نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہیں، اُن کا اصل گھر میکا نہیں، سُسرال ہوتا ہے۔ اگر اسلم صاحب کے کوئی بیٹا ہوتا تو کیا بیٹی کو اس طرح باپ کے پیچھے خوار ہونا پڑتا؟

    جی! کیا کہا آپ نے؟ پھر توصیف صاحب اور ان کی بیوی کو اپنے دو شادی شدہ بیٹوں کے ہوتے ہوئے ایدھی اولڈ ہوم میں کیوں رہنا پڑ رہا ہے؟

    آپ نے مجھ پر خوب چوٹ کی ہے، لیکن یہ تو سوچیں کہ اس طرح کے معاملات کسی کسی کے ساتھ ہوتے ہیں، ورنہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بیٹا ہی باپ کا سہارا بنتا ہے۔

    ہاں ہاں، مجھے پتا ہے، ابھی آپ اکرام صاحب کی مثال دیں کر کہیں گے کہ اُن کا بیٹا بڑھاپے کا سہارا بننے کی بہ جائے الٹا بوجھ بن گیا ہے اور اکرام صاحب کو اس عمر میں بھی اپنے تیس سالہ جوان بیٹے کو پالنا پڑ رہا ہے۔ ہیروئن کا نشہ جو کرنے لگا ہے!

    ارے بھئی، یہ بھی ایک استثنائی معاملہ ہے، ہمارے محلے یا شہر میں بھلا کتنے لوگ ہیں، جو ہیروئن کا نشہ کرتے ہوں گے؟

    میں پھر اپنی بات پر زور دوں گا کہ بیٹا ہی باپ کی نسل اور نام کو آگے بڑھاتا ہے۔

    اچھا ایک بات بتائیں، اگر میں مر گیا تو میری قبر کا خیال کون رکھے گا۔ اسلام میں تو عورت کا قبرستان جانا منع ہے۔

    بس صاحبو! اسی لیے میں دوسری شادی پر مجبور ہوا اور اوپر والے کے فضل و کرم اور آپ بھائیوں کی دعاؤں سے میری دوسری بیوی سے ایک بیٹا ہوا ہے۔ میں نے زندگی میں ہی اپنی قبر کی حفاظت کا سامان کر لیا ہے۔

    کیا کہا تم نے برخوردار، عورت بھی قبرستان جا سکتی ہے، اسلام اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا۔

    دیکھو میاں، ابھی تم بچے ہو، اور تمھیں نیا نیا کتابیں پڑھنے کا شوق چڑھا ہے۔ دین کی باریکیاں سمجھنے میں ابھی تمھیں وقت لگے گا۔ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے اور ہمیں اس میں پڑنا نہیں چاہیے۔ پھر یہ بھی تو دیکھو کہ ویران قبرستان میں اکیلی عورت کیسے جائے گی۔ ایک مرد کو لازماً اس کے ساتھ جانا پڑے گا۔ میرے ہونے والے دامادوں کو اتنی فرصت کہاں ہوگی کہ وہ میری بیٹیوں کو قبرستان میں لیے پھریں۔ میں نے زندگی میں کبھی کسی کا احسان لیا ہے، جو مرنے کے بعد لوں گا؟ ویسے بھی بیٹے اور داماد میں فرق ہوتا ہے۔

    آپ لوگوں کو پتا ہے کہ اکہتر کی جنگ کے بعد پاکستان اور انڈیا کے وزرائے اعظم کے درمیان شملہ میں جو بند کمرے میں مذاکرات ہوئے تھے تو پاکستانی وفد نے اپنے لیے ایک کوڈ (اشارہ) وضع کر لیا تھا، یعنی اگر مذاکرات کام یاب ہوئے تو ہم کہیں گے بیٹا پیدا ہوا ہے اور اگر ناکام ہوگئے تو کہیں گے بیٹی پیدا ہوئی ہے۔
    واہ! واہ! واہ! سبحان اللہ کیا مردانہ شاونزم ہے، واہ بھئی واہ مزا آگیا۔

    سیاست دانوں کے اور میرے خیالات کتنے ملتے جلتے ہیں۔ بھئی سیدھی سی بات ہے، اُس وفد میں شامل لوگ بھی میری طرح حقیقت پسند رہے ہوں گے۔ اس لیے میں بار بار آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ حقیقت کا سامنا کرنا سیکھیں، ہم کب تک کتابی باتیں دہراتے رہیں گے۔ منافقت یہی تو ہے کہ دل میں کچھ ہو اور زبان پر کچھ اور۔

    دیکھیں میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ بُرا نہ مانیے گا، ہمارے محلے کے نکڑ پر جو اشرف صاحب رہتے ہیں، اللہ نے جب انھیں بیٹی کی صورت میں پہلی اولاد سے نوازا تو انھوں نے محلے میں مٹھائی تقسیم کی تھی۔

    ٹھہریں ٹھہریں، میں اپنے موقف کی خود نفی نہیں کر رہا، میری بات تو مکمل ہونے دیں۔ پھر جب ان کے ہاں بیٹا ہوا تو انھوں نے مٹھائی پر اکتفا نہیں کیا، بل کہ پورے محلے کی شان دار دعوت کر ڈالی۔

    آپ لوگوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا اور اپنے سر کو کیوں جھکا رکھا ہے۔ دیکھیں، مسئلہ شرمندہ ہونے کا نہیں، بلکہ تسلیم کرنے کا ہے۔ میں کھلے دل سے تسلیم کرتا ہوں کہ میں نے دوسری شادی بیٹے کی خواہش کے لیے کی ہے۔ آپ لوگ بھی میری طرح سوچتے ہیں، لیکن تسلیم نہیں کرتے۔ اگر تسلیم کرتے تو میری اس بات کی بھی تائید کرتے کہ ہم میں سے کتنے لوگ اپنی بیٹیوں کو گلی محلوں میں قایم معمولی فیس والے اسکولوں میں بھیجتے ہیں اور ہمارے بیٹے منہگے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔

    لو بھئی چائے آگئی، آپ حضرات بلا تکلف نوش فرمائیں، باتوں کے ساتھ چائے کا دور بھی چلتے رہنا چاہیے، ویسے بھی دسمبر کے آخری دن چل رہے ہیں اور گیارہ بجے کے بعد سردی کو ہمارے مزاجوں کی فکر ستانے لگتی ہے۔

    اچھا ایک اور بات مجھے کہنے دیں، کہیں چائے کے چکر میں بھول نہ جاؤں۔ بعض لوگ شادی کارڈ پر اپنے بیٹے کا نام فخر سے لکھواتے ہیں، لیکن بیٹی کا نام گول کر جاتے ہیں اور اپنے نام کے حوالے کو کافی جانتے ہیں۔

    ”اختر حسین کی ’بیٹی‘ کی شادی شیخ رمضان کے بیٹے ’معین‘ سے ہونا قرار پائی ہے۔“ اس رویے کو آپ کیا نام دیں گے؟

    شادی کارڈ پر لڑکی کا نام لکھنے سے انھیں شاید اس بات کا دھڑکا رہتا ہوگا کہ کہیں لوگ اس نام سے جنسی لذت حاصل نہ کرنے لگیں۔ بے پردگی کا احتمال بھی اُن کے پیشِ نظر رہتا ہوگا۔ اگر بات اتنی سی ہوتی تو ٹھیک تھا، ہر شخص کو حق ہے کہ وہ شادی کارڈ پر اپنی بیٹی کا نام لکھوائے یا نہ لکھوائے، میں اور آپ اس پر اعتراض کرنے والے کون ہوتے ہیں۔ لیکن دوستو! پھر سیکڑوں باراتیوں کی موجودگی میں نکاح پڑھاتے وقت مولوی کو دلہن کا نام پکارنے سے روکا کیوں نہیں جاتا۔ اُس وقت تو سب خاموشی سے ”نامحرم“ کا نام سُن رہے ہوتے ہیں۔ کیا لڑکی کا نام سُننا جائز اور لکھنا ناجائز ہے؟

    ارے چھوڑیں، میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا، یہ جائز اور ناجائز کے فتوے ملاؤں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

    ہاں تو دوستو! یہ تو ہوا شادی کے موقع پر ہمارا عام رویہ۔ اب ذرا جنازے کا ماجرا بھی سُن لیجیے۔

    ابھی چند ماہ پہلے عقیل بھائی کا اٹھارہ سالہ بیٹا فوت ہوگیا۔ اُس کے جنازے میں ایک صاحب نے ان سے اس طرح تعزیت کی، ”اللہ آپ کو یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ دے۔ ایک تو جوان موت، اوپر سے بیٹا!“

    آپ حضرات کی خاموشی سے لگتا ہے کہ آپ میری دلیل سے متفق ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارے دل کے کسی کونے کھدرے میں بیٹا اور بیٹی کے فرق کا احساس جاگزیں ہے، جس کی گواہی اکثر مواقع پر ہماری زبانیں دے بیٹھتی ہیں۔ میری طرح کے لوگ اسے فوراً تسلیم کر لیتے ہیں، لیکن آپ لوگ کنّی کاٹ جاتے ہیں۔

    لیکن بھائیو! میری ان تمام باتوں کے باوجود میرے ساتھ ایک ایسا عجیب واقعہ پیش آیا، جس کی میں کوئی توجیہ نہیں پیش کر سکا، کوئی پھانس سی ہے، جو مسلسل میرے دل میں چبھے جا رہی ہے اور کسی طرح نکلنے کا نام نہیں لیتی۔

    ٹھہریے ٹھہریے، صبر کریں، بتاتا ہوں….. آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ پچھلے ماہ ایک لٹیرے نے ٹی ٹی دکھا کر میرا موبائل فون چھین لیا تھا۔ اس واقعے کی تفصیل میں نے کسی کو نہیں بتائی۔ لیکن آج میں آپ کو بتا ہی دیتا ہوں۔

    ہُوا یہ کہ جب اُس لٹیرے نے پستول دکھا کر مجھ سے میرا موبائل فون مانگا تو میرے دل میں مزاحمت کا خیال آیا۔ جسے ہی اُس لٹیرے کی نظر چوکی، میں نے اس کے اسلحہ بردار ہاتھ پر اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ ہم دونوں میں کشمکش ہونے لگی۔ میں اُس لٹیرے پر غالب آنے ہی والا تھا کہ شو مئی قسمت، اس کا دوسرا ساتھی جو قریب کے ایک درخت کی آڑ میں کھڑا تھا، اس کی مدد کو لپکا اور میں دوسرے ہی لمحے بے بسی کے عالم میں زمین پر پڑا ہوا تھا۔ میری مزاحمت نے پہلے والے لٹیرے کو غضب ناک کر دیا تھا، اُس نے میرے اوپر پستول تانی اور ٹریگر پر انگلی کا دباؤ بڑھانے لگا۔ اس سے پہلے کہ اس کی گولی مجھے آپ کو یہ قصّہ سنانے کے قابل نہ چھوڑتی، بے ساختہ میرے منہ سے نکلا۔

    ”مجھے مت مارنا، میری چھوٹی چھوٹی دو معصوم بچیاں ہیں۔“

    جی! آپ نے کیا فرمایا، اس میں ایسی کیا بات ہے جو مجھے پریشان کر رہی ہے، کوئی بھی شخص خدا اور اپنی اولاد کا واسطہ دے کر ڈاکو اور پولیس والوں سے رحم کی بھیک مانگ سکتا ہے۔

    آپ ٹھیک کہتے ہیں، لیکن یہ تو سوچیں کہ میرا ایک بیٹا بھی ہے، پھر میں نے خاص کر اپنی بچیوں کا ہی حوالہ کیوں دیا۔ یہ کیوں نہ کہا کہ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ یہ گتھی اب تک مجھ سے نہیں سلجھ رہی۔ اگر آپ حضرات کے پاس اس سوال کا جواب ہو تو مجھے ضرور مطلع فرمائیے گا۔

    اب آپ لوگ اپنے اپنے گھر جائیں، رات کافی بیت گئی ہے، میرا بیٹا گھوڑے گدھے بیچ کر سو رہا ہوگا، لیکن میری بچیاں میرے انتظار میں جاگ رہی ہوں گی۔ جب تک میں انھیں پیار نہ کر لوں، کم بخت سوتی ہی نہیں ہیں!

    (پیشِ نظر افسانے کے خالق شفیع موسیٰ منصوری ہیں جنھیں‌ پرنٹ میڈیا میں علمی و تحقیقی صحافت کے لیے پہچانا جاتا ہے، وہ ایک مؤقر روزنامے کے لیے فیچر نگاری کے علاوہ کئی اہم شخصیات کے انٹرویوز کرچکے ہیں)

  • کہانیاں کیسے شفا بخشتی ہیں؟ جانیے

    کہانیاں کیسے شفا بخشتی ہیں؟ جانیے

    ’’روایت ہے کہ ایک بار تین چار انگریز ڈاکٹروں کے جی میں آیا کہ کسی دور افتادہ افریقی گاؤں چلتے ہیں، جا کر دیکھیں تو سہی کہ اہلِ قریہ بیماروں کا علاج کس طرح کرتے ہیں اور تیمار داری کا کیا انداز اپناتے ہیں۔

    وہاں پہنچے تو یہ جان کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ علاج معالجے کو صرف دو افراد کا آپس کا معاملہ کوئی نہیں سمجھتا۔ یہ نہیں کہ ایک طرف طبیب اور دوسری طرف مریض۔ اور باقی لوگوں کو اس مسئلے سے یا تو کوئی سروکار نہیں یا اگر ہے بھی تو برائے نام۔ اس کے برعکس پورے کا پورا قبیلہ گا بجا کر، ناچ کر، کہانیاں سنا کر، دعوتیں اڑا کر علاج میں حصّہ لیتا ہے۔ اپنے درمیان سے بیماری دور کرنے کا یہ طریقہ نہ صرف انوکھا تھا بلکہ بڑی حد تک اجتماعی عمل تھا۔ گویا اہلِ قبیلہ کو اس مشترکہ کارروائی سے یہ جتانا مقصود تھا کہ اگر ہم میں سے ایک شخص بیمار ہے تو ہم سب بیمار ہیں اور اگر ہم میں کوئی آدمی طبیب ہے تو ہم سب طبیب ہیں اور جب مریض ہی معالج ہے اور معالج مریض تو ہم سب مل جل کر اپنا علاج آپ کریں گے۔

    کیا مذکورہ بالا ماجرے کو قصہ گوئی کے فن یا فنونِ لطیفہ کی معالجانہ توظیف کی اتفاقی مثال سمجھا جائے؟ ایسی بات بالکل نہیں۔ برونو بیٹل ہائیم نے اپنی کتاب The Uses of Enchantment میں لکھا ہے کہ پری کہانیاں باطنی کیفیتوں، الجھنوں اور انتشار کو، ان کی کایا بدل کر، ظاہر کا لباس پہنا دیتی ہیں۔ چنانچہ جب یہ داخلی کیفیات کہانی کے افراد اور واقعات کا روپ دھار کر سامنے آتی ہیں تو ان کی تفہیم ممکن ہو جاتی ہے۔

    بیٹل ہائیم کے بقول یہی وجہ ہے کہ روایتی ہندو طریقِ علاج میں نفسیاتی اختلال کے شکار آدمی کو نسخے کے طور پر کوئی ایسی پری کہانی تجویز کی جاتی تھی جس میں اس کی مخصوص الجھن کو افسانوی شکل دی گئی ہو، اس توقع پر کہ کہانی کو پڑھنے اور اس کے بارے میں سوچتے رہنے سے ذہنی اختلال میں مبتلا شخص کی الجھن واضح شکل اختیار کرنے لگے گی۔

    کہانی پڑھنے سے پہلے وہ یہ محسوس کرتا رہا تھا کہ کسی ایسی جگہ آ پھنسا ہے جہاں سے باہر جانے کا راستہ کوئی نہیں۔ لیکن کہانی سمجھ میں آتے ہی اسے پتا چلے گا کہ یہ احساس کیوں طاری ہوا تھا اور در پیش مشکل سے نمٹنے کے لیے عمل کی کیا کیا راہیں اس کے سامنے ہیں۔ بھول بھلیاں میں ٹکراتے پھرتے آدمی کے حق میں کہانی ایسی ستلی بن جاتی ہے جس کے سہارے چل کر وہ بھٹکتے رہنے کی اذیت سے آزاد ہو سکتا ہے۔

    اگر ہم دیکھنا چاہیں کہ کہانیاں کیسے شفا بخشتی ہیں تو اس کی ایک عمدہ مثال الف لیلہ و لیلہ کی صورت میں ہمارے پاس ہے۔ کہانیوں کے اس سلسلے کا آغاز ہوتے ہی پتا چلتا ہے کہ بیوی کی بے محابا بدکاری کے باعث شہریار نامی بادشاہ صنفِ نازک سے متنفر ہو چکا ہے۔ جب اس پر انکشاف ہوا کہ بھائی کی بیوی بھی کچھ کم بد چلن نہیں تو اس کے تعقل کی بنیادیں متزلزل ہو گئیں اور اسے ذہنی مریض بنتے دیر نہ لگی۔ ہر رات وہ کسی باکرہ لڑکی سے ہم بستر ہوتا اور صبح اٹھ کر اسے قتل کرا دیتا۔ رفتہ رفتہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ سلطنت میں ایسی باکرہ لڑکی کوئی نہ بچی جو شاہی سیج کے لائق ہو۔ جب بحران نے اپنی انتہا کو چھو لیا تو وزیرِ مملکت کی بیٹی شہر زاد سامنے آئی۔ وہ اس بے مقصد خوں ریزی کو ختم کر کے بادشاہ کا ذہنی توازن بحال کرنے کا عزم کر چکی تھی۔

    اس کا طریقِ علاج جتنا سادہ تھا، اتنا ہی پُر لطف بھی۔ وہ ہر رات، مسلسل ایک ہزار اور ایک رات، یکے بعد دیگرے کہانیاں سناتی گئی۔ رات ختم ہونے پر کہانی ادھوری رہ جاتی اور بادشاہ کو اشتیاق ہوتا کہ باقی کہانی بھی سنے۔

    کہانیوں کے طلسم کا اسیر ہو کر وہ شہر زاد کی جان لینے سے باز رہتا۔ شہر زاد کی ترکیب کام کر گئی۔

    آخرش ہوش مندی کا بول بالا ہوا اور بادشاہ کے مزاج میں جو وحشت سما گئی تھی وہ جاتی رہی، لیکن خیال رہے کہ بادشاہ نے تقریباً تین برس تک کہانیوں کو بغور سنا۔ کہیں جا کر اس کی شکستہ و ریختہ شخصیت کی از سر نو شیرازہ بندی ممکن ہو سکی۔ گویا کہانیاں سنا کر آئی کو ٹالا جا سکتا ہے۔

    اس موضوع کو الف الیلہ میں بار بار دہرایا گیا ہے۔ مثال کے طور پر بغداد کے حمال اور تین لڑکیوں کی طویل افسانہ در افسانہ داستان میں حمال، تین کانے درویشوں، خلیفہ اور اس کے وزیر اور جلاد کی جان بخشی اس امر سے مشروط ہے کہ پہلے وہ اپنی اپنی سرگزشت سنائیں گے اور اگر ان کی آپ بیتیاں سچ مچ بہت ہوش ربا ثابت ہوئیں تو انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ کانے درویشوں کی کہانیاں اتنی حیرت انگیز تھیں کہ ان سب کی جان بچ گئی۔‘‘

    (ممتاز ادیب، شاعر، مترجم اور مضمون نگار سلیم الرّحمٰن کی تحریر سے اقتباسات)

  • جب شیر اڑ سکتا تھا!

    جب شیر اڑ سکتا تھا!

    کہتے ہیں کہ بہت پرانے زمانے میں شیر اڑ سکتا تھا۔ اور اس وقت کوئی بھی شے اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی تھی۔

    وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کے شکار کیے ہوئے جانوروں کے ڈھانچوں کی ہڈیوں کو توڑے۔ وہ ان کے ڈھانچے جوں کے توں رکھنا چاہتا تھا ( وہ اسی طرح اپنی اڑنے کی صلاحیت برقرار رکھ سکتا تھا)۔ لہٰذا اس نے ان کی رکھوالی کے لیے دو سفید کوؤں کا ایک جوڑا بنایا۔ انہیں، اس نے ہڈیوں کے گرد بنائے گئے حصار کی دیوار پر بٹھایا اور خود شکار کرنے کے لیے نکل گیا۔

    اب یہ اس کا معمول بن چکا تھا، لیکن ایک دن بڑا مینڈک ادھر آن پہنچا۔ اس نے تمام ہڈیوں کو ٹکڑے کر دیا، ’’آدمی اور جانور زیادہ زندہ کیوں نہیں رہتے؟‘‘ اس نے کوؤں سے کہا، ’’جب وہ آئے تو اسے یہ بھی کہنا کہ میں ادھر جوہڑ کے کنارے رہتا ہوں، اگر وہ مجھ سے ملنا چاہتا ہے تو پھر اسے خود وہاں آنا ہو گا۔‘‘

    ادھر شیر کچھ آرام کرنے کے لیے گھاس پر لیٹا ہوا تھا، اس نے اڑنا چاہا لیکن اس نے محسوس کیا کہ وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ اب وہ سخت غصّے میں تھا۔ اس نے سوچا کہ حصار پر یقیناً کچھ نہ کچھ ہوا ہے لہٰذا وہ گھر کی طرف چل دیا۔

    ’’تم نے کیا کیا ہے کہ میں اب اڑ نہیں سکتا؟‘‘ وہ جب گھر پہنچا تو اس نے کوؤں سے پوچھا۔

    ’’کوئی یہاں آیا تھا اور اس نے ہڈیوں کے ٹکڑے کر دیے۔‘‘ کوؤں نے جواب دیا اور بولے، ’’اگر تم اس سے ملنا چاہتے ہو تو وہ تمہیں جوہڑ کے کنارے مل سکتا ہے!‘‘

    شیر جب وہاں پہنچا تو مینڈک جوہڑ میں پانی کے کنارے کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ’’ہو!‘‘ وہ شیر کو دیکھتے ہی اونچی آواز میں بولا اور فوراً پانی میں غوطہ لگا کر جوہڑ کے دوسرے کنارے پر جا نکلا۔

    بچوں کی مزید کہانیاں

    شیر بھی چکر لگا کر وہاں پہنچ گیا، لیکن مینڈک دوبارہ غوطہ لگا گیا۔ بڑی کوشش کے باوجود شیر جب اسے نہ پکڑ سکا تو مایوس ہو کر گھر واپس آگیا۔

    کہا جاتا ہے کہ تب سے آج تک شیر اپنے پیروں پر چلتا ہے۔ اور سفید کوّے بھی تب سے بالکل بہرے ہوچکے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ہوا ہے؟ انہوں نے جواب میں بس اتنا کہا تھا کہ ’’اس معاملے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔‘‘

    کیا تم میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ ہوا کیا تھا؟

    (افریقی لوک ادب سے انتخاب)

  • اردو کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کی برسی

    اردو کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کی برسی

    آج اردو زبان کی نام وَر افسانہ نگار خدیجہ مستور کا یومِ وفات ہے۔ خدیجہ مستور کا شمار اردو کی اُن ناول نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی تخلیقی وفور اور شعور سے افسانہ اور ناول نگاری کے میدان میں نام و مقام بنایا اور ان اصنافِ ادب کا وقار بڑھایا۔ وہ 26 جولائی 1982ء کو لندن میں وفات پاگئی تھیں۔

    خدیجہ مستور 11 دسمبر 1927ء کو بریلی میں پیدا ہوئیں۔ انھوں نے افسانہ نگاری کا آغاز 1942ء میں کیا۔ 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان لاہور آ بسا تھا۔ یہاں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا اور تین افسانوی مجموعے چند روز اور، تھکے ہارے اور ٹھنڈا میٹھا پانی کے نام سے شایع ہوئے۔ اسی عرصے میں ان کے دو ناول ’’آنگن‘‘ اور ’’زمین‘‘ کے نام سے بھی منظرِ عام پر آئے جنھیں بہت پسند کیا گیا، خاص طور پر آنگن کو بہترین ناول مانا گیا جس پر 1962ء میں خدیجہ مستور کو آدم جی انعام بھی دیا گیا تھا۔

    خدیجہ مستور کو واقعہ نگاری میں کمال حاصل ہے۔ وہ واقعات کو اس طرح بیان کرتی ہیں کہ ان سے متعلق سیاسی اور معاشرتی منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ان کی کہانیاں عموما متوسط طبقہ کے مسائل کے گرد گھومتی ہیں۔ ان کے موضوعات وسیع اور سماجی اقدار پر مبنی ہیں جن کا پس منظر سیاسی اور اخلاقی ہے۔

    خدیجہ مستور کی چھوٹی بہن ہاجرہ مسرور بھی اردو کی صف اوّل کی افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جب کہ ان کے بھائی خالد احمد کا نام جدید شاعری کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔

    خدیجہ مستور کو لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • "تیسری دفعہ کا ذکر ہے”

    "تیسری دفعہ کا ذکر ہے”

    تیسری دفعہ کا ذکر ہے کہ تیسری دنیا کے ایک ملک کے تیسرے کنارے پر ایک جنگل تھا۔

    اس جنگل میں ظاہر ہے کہ جنگل ہی کا قانون نافذ تھا۔ جو جانور نہ تین میں ہوتا نہ تیرہ میں اس جنگل میں گلچھرے اڑاتا۔ دوسرے جنگلوں کی طرح اس جنگل میں بھی ایک بادشاہ موجود تھا۔ جو بھی اس کے سامنے تین پانچ کرتا، یہ بادشاہ اس کا تیا پانچا کر دیتا۔

    ہر طرف زاغ و زغن منڈلاتے پھرتے تھے۔ ہر شاخ پر بوم و شپر کا آشیاں تھا۔ تمام جانور اپنی اپنی دھن میں مگن مستقبل سے بے خبر سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کررہے تھے۔ سب سے زیادہ مست توتے تھے جو جی بھر کر چُوری کھاتے اور ٹیں ٹیں کر کے اس درندے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے، دوسرے طیور آوارہ، حشرات اور جانوروں کو سبز باغ دکھاتے اور بہتی گنگا میں چونچ دھو کر خوشی سے پروں میں پھولے نہ سماتے۔

    وقت سدا ایک جیسا نہیں رہتا۔ ایک رات موسلادھار بارش ہوئی۔ آسمانی بجلی گرنے سے شیر کا غار جل گیا۔ یہ خون آشام درندہ مرنے سے تو بچ گیا، مگر آگ سے بچ نکلنے کی کوشش میں اس کی چاروں ٹانگیں بری طرح جھلس گئیں اور وہ مکمل طور پر اپاہج ہو کر رہ گیا۔ اب وہ چلنے سے معذور تھا۔ اس عذاب میں بھی وہ اپنی عیاری، شقاوت اور لذت ایذا سے باز نہ آیا، اس نے کچھ ایسے گماشتے تلاش کر لیے جس اس کے لیے راتب بھاڑا فراہم کرتے، اس کے بدلے کچھ بچا کھچا مال انھیں بھی مل جاتا جس سے وہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھر لیتے، لیکن اندر ہی اندر انھیں یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ انھیں شیر کا بچا کھچا گوشت، اوجھڑی، ہڈیاں، پسلیاں، گردن اور سری پائے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔

    ان گماشتوں میں بجو، لومڑی اور بھیڑیا شامل تھے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس جنگل میں نافذ جنگل کے قانون کے خلاف جو بھی صدائے احتجاج بلند کرتا اس کی ہڈی پسلی ایک کر دی جاتی تھی۔

    سیانے کہتے ہیں کبھی کبھی کوڑے کے ڈھیر کو بھی اپنی اہمیت کا احساس ہو جاتا ہے۔ بجو، لومڑی اور بھیڑیا ایک شام شیر کے پاس گئے اور احتجاج پیش کیا۔ بجو نے اپنی مکروہ آواز میں کہا۔

    ’’مجھے قبروں سے تازہ دفن ہونے والے مردوں کا گوشت بہت پسند ہے، مگر کیا کروں آج کل جو بھی مردے دفن کیے جاتے ہیں وہ محض ڈھانچے ہوتے ہیں۔ ان کے جسم سے تمام گوشت تو دنیا والے پہلے ہی نوچ لیتے ہیں۔ یہ مظلوم زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ میں تو اس آس پر فربہ جانوروں کو بہلا پھسلا کر یہاں لاتا ہوں کہ مجھے کچھ چربیلا گوشت ملے گا، مگر یہاں بھی سوائے ہڈیوں کے کچھ نہیں ملتا، یہ ہمارا استحصال ہے۔ اپنے جائز حقوق کی بحالی تک ہم مزید شکار نہیں لا سکتے۔ تمام جانور ہماری فریب کاری، غداری اور ضمیر فروشی کی وجہ سے ہم سے بیزار ہیں۔ ہماری غداری کا مناسب صلہ ملنا چاہیے۔‘‘

    بھیڑیا جو اپنی لاف زنی کے لیے مشہور تھا، اس نے بجو کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔ ’’میں علی الصبح ایک ننھا بھیڑیا آپ کے پاس ورغلا کر لاتا جس کا آپ خون پی جاتے اور تمام گوشت ہڑپ کر جاتے۔ میں نے اب تک ساٹھ بھیڑیے آپ کے ناشتے کے لیے پیش کیے، مگر کبھی مجھے نرم گوشت آپ نے نہیں دیا۔ میں اپنے ساتھیوں کا غدار ضرور ہوں، مگر احمق نہیں۔ مناسب معاوضے کے بغیر میں اب مزید اپنے ساتھی پکڑ کر آپ کے حوالے نہیں کرسکتا۔‘‘

    وقت کی بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر جاندار کو کبھی نہ کبھی بے بسی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ جنگل کے بادشاہ شیر پر بھی ایسا ہی کٹھن وقت آ گیا تھا۔ درندوں کی زندگی میں جب سخت مقام آتے ہیں تو وہ حکمتِ عملی کے تحت شتر گربہ کی پالیسی اپناتے ہیں اور نرم رویہ اپنا کر نہ صرف اپنا الو سیدھا کرتے ہیں بلکہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے گدھے کو بھی اپنا باپ کہنے میں تامل نہیں کرتے۔ شیر نے بڑی خند ہ پیشانی سے یہ سب باتیں خاموشی سے سنیں اور آنکھیں بند کر لیں۔ اب اس نے لومڑی سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ بھی اپنا موقف بیان کرے۔لومڑی نے اپنی قبیح عادت کے مطابق چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے جنگل کے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا۔

    ’’انسانوں کو اپنے ابنائے جنس سے غداری کرنے پر ہر دور میں بھاری انعام ملتے رہے ہیں۔ ہماری ضمیر فروشی کا مناسب معاوضہ ہمیں آج تک کبھی نہیں مل سکا۔ اب ہم مزید یہ شقاوت آمیز ناانصافی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم شکار میں سے اپنا مساوی حصہ لیے بغیر اب کبھی جانوروں کے بے گنا ہ قتلِ عام میں شریکِ جرم نہیں رہ سکتے۔‘‘

    شیر یہ سب باتیں سن کر دہاڑا۔ ’’مجھے تمھارے تمام خیالات سے اتفاق ہے۔ آئندہ تم جو بھی شکار لاؤ گے اس کے چار برابر حصے کیے جائیں گے۔ اب جلدی جاؤ اور ایک نرم و نازک ہرن کو گھیر کر لاؤ ظل تباہی آج کا ناشتہ ہرن کے گوشت سے کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

    جنگل کے بادشاہ کا فیصلہ سن کر تینوں جانوروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور ان کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک پیدا ہو گئی۔ وہ اسی وقت ایک جھیل پر پہنچے، ایک کم سن ہرن پانی پی رہا تھا۔ لومڑی نے اس سے کہا،

    ’’اے میرے چاند ادھر میرے ساتھ آ، میں تمھیں آج جنگل کے بادشاہ کی زیارت کے لیے لے جاؤں گی۔‘‘

    ’’نہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ چھوٹا ہرن بولا۔’’تم نے وہ مثل نہیں سنی کہ ’’اس ہرنی کی خیر نہیں جو شیر کی جانب جائے گی۔‘‘

    بجو بولا۔ ’’ہرن چاند تم کس قدر خوب صورت ہو؟ میرا دل چاہتا ہے کہ تم ہی ہمارے بادشاہ بن جاؤ۔‘‘

    ’’ واہ کیا اچھی بات کہی ہے۔‘‘ بھیڑیا بولا۔

    ’’اگر ہرن جنگل کا بادشاہ بن جائے تو انقلاب آ جائے گا۔ ہرن راج آج وقت کی ضرورت ہے۔ اس طرح جنگل کے جانور تیزی سے آگے بڑھ سکیں گے۔‘‘

    ’’میں کیسے بادشاہ بن سکتا ہوں؟‘‘ہرن نے فرطَ اشتیاق سے کہا۔ ’’اس وقت جنگل کا بادشاہ تو شیر ہے۔ اسے کون ہٹائے گا؟‘‘

    لومڑی نے برف پگھلتی دیکھی تو بولی۔ ’’جنگل کا بادشاہ شیر اس وقت قریب المرگ ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنا جانشیں تمھیں بنا دے، اس نے ہمیں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے۔ آج ہی تمھاری تاج پوشی کر دی جائے گی۔ اس کے بعد جنگل میں ہرن راج کا آغاز ہو جائے گا۔‘‘

    ہرن اسی وقت آمادہ ہو گیا اور لومڑی، بجو اور بھیڑیے کے ہمراہ لولے لنگڑے جنگل کے بادشاہ کے غار میں داخل ہو گیا۔ لومڑی، بھیڑیے اور بجو نے شیر کو ہرن کے ساتھ طے پانے والی تمام شرائط سے آگاہ کر دیا۔

    شیر نے کہا۔ ’’میرا جانشین ہرن ہی ہو گا، ہرن مینار کے بعد اب ہرن کی لاٹھ تعمیر ہو گی، ہر طرف ہرن کے نعرے بلند ہوں گے۔ آؤ میرے عزیز ہرن، میں تمھاری تاج پوشی کی رسم ادا کر کے اپنی ذمہ داری پوری کروں۔آؤ جنگل کے مستقبل کے حکمران میں اپنی بادشاہت تمھیں منتقل کروں۔‘‘

    یہ سنتے ہی ہرن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ شیر کی آغوش میں جا بیٹھا۔ پلک جھپکتے میں شیر کے دانت ہرن کی شہ رگ میں پیوست ہو گئے۔ ہرن کی شہ رگ کا خون پینے کے بعد شیر نے ہرن کی کھال اپنے نوکیلے پنجوں سے ادھیڑ دی۔ اور تمام گوشت کے چار برابر حصے کر دیے۔ لومڑی، بجو اور بھڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا۔ انھیں یقین تھا کہ آج شیر اپنا وعدہ وفا کرے گا۔ وہ سب دل ہی دل میں متاسف تھے کہ اب تک ناحق شیر کی نیت پر شک کرتے تھے۔

    اچانک شیر زور سے دہاڑا۔ شیر کی آواز سن کر سارا جنگل گونج اٹھا۔ شیر نے کہا۔

    ’’میں نے حسبِ وعدہ شکار کے چار حصے کر دیے ہیں۔‘‘

    لومڑی بولی، ’’ اب ہمارے حصے ہمیں دیں۔ کل سے کچھ کھانے کو نہیں ملا۔ اس کم بخت ہرن کو بڑی مشکل سے فریب دے کر یہاں لائے ہیں۔‘‘

    ’’چار حصے تو میں نے کر دیے۔‘‘ شیر نے گرج کر کہا۔

    ’’اب تقسیم اس طرح سے ہو گی کہ پہلا حصہ میں لوں گا کیوں کہ میں علیل ہوں اور مجھے غذا کی ضرورت ہے۔دوسرا حصہ بھی میرا ہے کیوں کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں، تیسرا حصہ مجھے جنگل کے قانون کی شق آٹھ کے تحت ملے گا، جسے کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اور رہ گیا آخری اور چوتھا حصہ وہ یہ میری ناک کے نیچے پڑا ہے جس کو ضرورت ہے وہ آگے آئے اور اسے اٹھا کر لے جائے۔‘‘

    یہ سن کر لومڑی، بجو اور بھیڑیا وہاں سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدے کے سر سے سینگ۔

    انتخاب از حکایات اور کہانیاں