Tag: افسانہ

  • وبالِ جاں

    وبالِ جاں

    میرے ڈاک والے بکسے میں ایک موٹا لفافہ میرا منتظر تھا۔ میں نے اسے کھولا اور رقم گنی۔ یہ پوری تھی۔ اس میں ایک رقعہ بھی تھا جس پر آدمی کا نام اور تفصیل کہ وہ مجھے کہاں مل سکتا تھا۔ اس میں، اس کی ایک پاسپورٹ سائز تصویر بھی تھی۔ میں نے خود پر لعنت بھیجی۔مجھے نہیں معلوم کہ مجھ سے ایسا کیوں ہوا۔ میں پیشہ ور ہوں اور ایک پیشہ ور کو ایسا نہیں کرنا چاہیے، لیکن یہ بس منہ پر آ ہی گئی۔

    مجھے بندے کا نام پڑھنے کی ضرورت پیش نہ آئی، میں نے تصویر سے ہی اس بندے کو پہچان لیا تھا۔ گریس۔ پیٹرک گریس، یہ امن کا نوبل انعام یافتہ ایک اچھا آدمی تھا۔ واحد اچھا بندہ جسے میں جانتا تھا۔ اور اگر اچھے بندوں کی بات کی جائے تو دنیا میں شاید ہی کوئی اور ہو، جو اس کا مقابلہ کر سکے۔

    میں پیٹرک سے صرف ایک بار ہی ملا تھا۔ اور یہ ملاقات اٹلانٹا کے ایک یتیم خانے میں ہوئی جہاں وہ ہم سے جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے۔ ہم سارا سال گندگی اور غلاظت میں گزارتے اور وہ ہمیں پیٹ بھر کھانا بھی نہ دیتے۔ اور اگر کوئی احتجاج میں اپنا منہ کھولتا تو وہ ہماری پٹائی چمڑے کی پیٹی سے کرتے۔ اکثر تو وہ یہ تکلیف بھی گوارا نہ کرتے کہ اس پیٹی کا بکسوا الگ کر دیں۔ لیکن جب وہاں گریس آیا تو انہوں نے یہ بات یقینی بنائی کہ ہم سب صاف ستھرے ہوں۔۔۔ ہم اور وہ موتری بھی، جسے وہ یتیم خانہ کہتے تھے۔ اس کے آنے سے پہلے، ڈائریکٹر نے ہمیں تنبیہہ کی کہ اگر کسی نے بھی منہ کھولا تو اسے اس کا نتیجہ بھگتنا پڑنا تھا۔ اس کی تقریر سے ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہو گیا کہ وہ جو کہہ رہا تھا، وہ اس نے کرکے بھی دکھانا تھا۔

    گریس، جب، ہمارے کمرے میں داخل ہوا تو ہم چوہوں کی طرح خاموش اور دبکے ہوئے تھے۔ اس نے ہم سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ہم آگے سے کچھ بھی نہ بو لے۔ ہر لڑکے نے اس سے تحفہ وصول کیا، اس کا شکریہ ادا کیا اور واپس اپنے بستر پر چلا گیا۔ مجھے ایک ڈارٹ بورڈ ملا۔ میں نے جب اس کا شکریہ ادا کیا تو وہ میرے قریب ہوا۔ میں دبک گیا۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ شاید مجھے مارنے لگا تھا۔ گریس نے پیار سے میرے بالوں کو سہلایا اور بغیر کچھ بولے، میری قمیض اوپر اٹھائی۔ میں ان دنوں میں خاصی بکواس کیا کرتا تھا۔ گریس نے میری کمر پر نظر ڈال کر اس کا اندازہ کر لیا تھا۔ اس نے پہلے تو کچھ نہ کہا، لیکن پھر اس کے منہ سے مسیح کا نام تین چار بار نکلا۔ بالآخر اس نے میری قمیض چھوڑی اور مجھے گلے لگا لیا۔ اور جب اس نے مجھے گلے لگایا تو اس نے یقین دلایا کہ آئندہ کسی نے بھی مجھے ہاتھ نہیں لگانا تھا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں نے اس کی بات پر یقین نہ کیا۔ لوگ بلا جواز آپ کے ساتھ اچھی طرح سے پیش نہیں آتے۔ مجھے لگا کہ یہ ایک طرح کا مکر تھا؛ اس نے کسی بھی لمحے اپنی پیٹی اتارنی تھی اور مجھے پیٹنا تھا۔ جتنی دیر اس نے مجھے گلے لگائے رکھا، میں یہ خواہش کرتا رہا کہ وہ وہاں سے چلا جائے۔ وہ چلا گیا اور اسی شام ہمارے یتیم خانے کا سارا عملہ بدل دیا گیا اور ہمیں ایک نیا ڈائریکٹر بھی مل گیا۔ اور تب سے کسی نے بھی مجھے دوبارہ ہاتھ نہ لگایا، سوائے اس سیاہ فام کے، جسے میں نے’جیکسن وِل‘ میں مار بھگایا تھا۔ کیا یہ ایک ایسا کام تھا جسے میں نے بغیر کسی معاوضے کے کیا تھا؟ اس کے بعد تو کسی کی بھی جرأت نہ ہوئی کہ میری طرف انگلی بھی اٹھا سکے۔

    میں اس کے بعد پیٹرک گریس سےکبھی نہ مل پایا۔ لیکن میں اس کے بارے میں اخبارات میں بہت کچھ پڑھتا رہا۔ ان لوگوں کے بارے میں، جن کی اس نے مدد کی اور ان سارے اچھے کاموں کے بارے میں، جو وہ کرتا تھا۔ وہ ایک اچھا آدمی تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس سے اچھا انسان کہیں اور نہ تھا۔ وہ اس بد رنگ اور مکروہ دنیا میں واحد آدمی تھا، جس کا میں دین دار تھا۔ اور اب دو گھنٹے بعد ہی مجھے اس سے دوبارہ ملنا ہے۔ اور دو گھنٹے بعد ہی مجھے اس کے سَر میں ایک گولی داغنی ہے۔

    میں اکتیس برس کا ہوں۔ میں جب سے اس کام میں پڑا ہوں، مجھے اب تک انتیس ٹھیکے مل چکے ہیں۔ ان میں سے چھبیس کو تو میں ایک ہی ہلّے میں پار کر گیا تھا۔ میں جن کو قتل کرتا ہوں، انہیں جاننے کی کبھی کوشش نہیں کرتا۔ اور نہ ہی یہ جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ میں انہیں کیوں مار رہا ہوں۔ دھندا، دھندا ہوتا ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ میں ایک پیشہ ور قاتل ہوں۔ اور کام میں میری ساکھ بہت اچھی ہے۔ اور ایسے پیشے میں، جیسا کہ میرا ہے، اچھی ساکھ ہی اہم ہوتی ہے۔ آپ اخبار میں اشتہار نہیں دیتے یا ایسے لوگوں کے لیے خصوصی بھاﺅ نہیں لگاتے جن کے پاس اچھی مالیت والے کریڈٹ کارڈ ہوں۔ اس دھندے میں آپ تبھی کامیاب ہوتے ہیں جب لوگوں کو آپ پر اعتماد ہو کہ آپ ان کا کام کر دیں گے۔ اسی لیے میری یہ پالیسی ہے کہ میں، اپنے معاہدے سے کبھی نہیں پھرتا۔ جب بھی کوئی بندہ میرا ریکارڈ دیکھتا ہے تو اسے سوائے مطمئن گاہکوں کے اور کچھ نہیں ملتا؛ مطمئن گاہگ اور سخت گیر کھرا پن۔

    میں نے کیفے کے بالکل سامنے گلی میں ایک کمرہ کرایے پر لیا اور اس کے مالک کو دو ماہ کا کرایہ پیشگی دیتے ہوئے بتایا کہ میرا باقی کا سامان پیر وار کو پہنچنا تھا۔ میرا اندازہ تھا کہ اسے وہاں پہنچنے میں لگ بھگ آدھا گھنٹہ لگنا تھا، مطلب قتل کرنے میں ابھی آدھ گھنٹہ باقی تھا۔ میں نے اپنی بندوق جوڑی اور اس کی انفرا۔ ریڈ روشنی میں اس کا نشانہ بٹھایا۔ چھبیس منٹ ابھی باقی تھے۔ سگریٹ سلگا کر میں اس کوشش میں تھا کہ کسی شے کے بارے میں کچھ نہ سوچوں۔ میں نے سگریٹ پی کر اس کا بچا ہوا ٹکڑا کمرے کے ایک کونے میں پھینکا۔ اس جیسے بندے کو کون مارنا چاہے گا؟ وہ یا تو کوئی جانور ہو سکتا ہے یا کوئی ایسا بندہ جو مکمل طور پر پاگل ہو چکا ہو۔ میں گریس کو جانتا ہوں۔ اس نے مجھے تب گلے لگایا تھا جب میں ابھی بچہ تھا۔ لیکن دھندا تو دھندا ہے۔ ایک بار جب آپ احساسات کو در آنے دیتے ہیں تو سمجھیں دھندے میں آپ کا انت ہو گیا۔ اس کونے سے جہاں سگریٹ کا ٹکڑا گرا، قالین سے دھواں اٹھنے لگا۔ میں بستر سے اٹھا اور سگریٹ کے ٹکڑے کو مسلا۔ ابھی اٹھارہ منٹ باقی تھے۔ اٹھارہ منٹ اور، اور پھر یہ کام ختم ہو جانا تھا۔ مجھے فٹ بال کے بارے میں خیال آیا، ڈین مارینو۔۔۔ 42 ویں اسٹریٹ کی وہ طوائف بھی جو مجھے کار کی اگلی سیٹ پر بٹھا کر فلیتو کرنے لگتی ہے۔۔۔ میں نے کوشش کی کہ میں کسی بھی شے کے بارے میں نہ سوچوں۔

    وہ بالکل وقت پر آیا۔ اس کی اچھل اچھل کر چلنے والی چال اور کندھوں تک لمبے بالوں نے مجھے اس کو پہچاننے میں مدد دی۔ وہ کیفے کے باہر ایک انتہائی روشن جگہ پر پڑی میز کے پاس ایسے بیٹھا کہ اس کا چہرہ بالکل میرے سامنے تھا۔ یہ درمیانی دوری والے نشانہ کے حوالے سے ایک کامل زاویہ تھا۔ اور میں اسے آنکھیں بند کرکے بھی لگا سکتا تھا۔ انفرا۔ ریڈ کا نقطہ اس کے سر کے ایک طرف بائیں سے تھوڑا آگے تھا۔ میں اسے دائیں طرف اس وقت تک موڑتا رہا جب تک وہ بالکل وسط میں نہ پہنچ گیا اور تب میں نے اپنی سانس روک لی۔

    اور جب، میرے لیے سب کچھ تیار تھا، ایک بوڑھا آدمی دو تھیلوں میں اپنا متاعِ حیات لیے، گھومتا گھماتا وہاں پہنچا۔۔۔ ایک عام بے گھر بندہ، جن سے یہ شہر بھرا پڑا ہے۔ جیسے ہی وہ کیفے کے سامنے پہنچا، اس کے تھیلوں میں ایک کا دستہ ٹوٹا اور تھیلا نیچے گر گیا اور اس میں موجود سارا کاٹھ کباڑ باہر نکلنے لگا۔ مجھے نظر آیا کہ گریس کے جسم میں ایک تناﺅ آیا اور اس کے منہ کے ایک کونے میں اینٹھن پیدا ہوئی، اور وہ ساتھ ہی بوڑھے کی مدد کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ فٹ پاتھ پر گھٹنوں کے بل جھکا اور ردی اخبار اور ٹین کے خالی ڈبے اکٹھے کرتے ہوئے تھیلے میں واپس رکھنے لگا۔ میری شِست اس پر بندھی ہوئی تھی اور اس کا چہرہ اب میرا تھا۔ لال نقطہ اب اس کے ماتھے کے وسط میں یوں چمک رہا تھا جیسے کسی انڈین کے ماتھے پر روغنی ٹیکا لگا ہو۔ یہ چہرہ جو کہ اب میرا تھا، بوڑھے کو دیکھ کر مسکرایا تو اس پر ایک چمک آئی۔ ایسی چمک جو کسی گرجا گھر میں دیوار پر ٹنگی مقدس مذہبی پیشواﺅں کی پینٹنگز میں ان کے چہروں پر ہوتی ہے۔

    میں نے شِست سے نظر ہٹائی اور اپنی انگلی کو غور سے دیکھا۔ یہ ٹریگر کی پکڑ پر کانپ رہی تھی۔ یہ نہ صرف باہر بلکہ سُن بھی تھی۔ میں اس انگلی کے ساتھ کام پورا نہیں کر سکتا تھا۔ خود کو دھوکہ دینے کی ضرورت نہیں ، مجھ سے یہ کام ہونا ہی نہ تھا۔ میں نے سیفٹی کیچ لگایا، بولٹ کو واپس دھکیلا اور گولی اپنے چیمبر میں واپس چلی گئی۔

    میں بندوق کو اس کے بکسے میں رکھا اور اسے ساتھ لیے کیفے کی طرف بڑھا۔ اب یہ بندوق نہیں تھی، یہ اس کے پانچ بے ضرر حصے تھے۔ میں گیا اور گریس کی میز پر اس کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا اور ایک کافی منگوائی۔ اس نے مجھے فوراً پہچان لیا۔ اس نے مجھے پچھلی بار تب دیکھا تھا جب میں فقط گیارہ برس کا لڑکا تھا لیکن اسے، مجھے پہچاننے میں کوئی دِقت نہ ہوئی۔ اسے میرا نام تک یاد تھا۔ نوٹوں سے بھرا لفافہ میز پر رکھ کر میں نے اسے بتایا کہ کسی نے، اسے قتل کرنے کے لیے میری خدمات کرایے پر لیں تھیں۔ میری کوشش تھی کہ خود کو ٹھنڈا رکھوں اور ایسا ظاہر کروں کہ جیسے میں نے یہ کام کرنے کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ گریس مسکرایا اور اس نے کہا کہ اسے یہ پتہ تھا۔ اور یہ کہ یہ بندہ وہ خود ہی تھا جس نے لفافے میں مجھے پیسے بھجوائے تھے کیونکہ وہ مرنا چاہتا تھا۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ میں اس سے اس جواب کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ میں ہکلایا اور پوچھا کہ کیوں؟ کیا اسے کوئی مہلک بیماری لاحق تھی؟ ”بیماری؟“ ،اس نے قہقہہ لگایا۔ ” ہاں، ایک طرح سے۔ تم یہ کہہ سکتے ہو۔“ اس کے منہ کے ایک کونے میں پھر سے اینٹھن ابھری، ویسی ہی جیسی میں کھڑکی میں سے، پہلے بھی دیکھ چکا تھا، اور پھر اس نے بولنا شروع کیا؛

    ”میں جب بچّہ ہی تھا، یہ بیماری تب سے مجھے لاحق ہے۔ اس کی نشانیاں بہت واضح تھیں، لیکن کسی نے بھی اس کا علاج کرانے کی کوشش نہ کی۔ میں ہمیشہ اپنے کھلونے دوسرے بچّوں کو دے دیتا تھا۔ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا تھا، میں نے کبھی کوئی شے چرائی نہ تھی۔ مجھے کبھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ اسکول میں لڑائی کے دوران جوابی حملہ کروں۔ مجھے ہر بار یہ پتہ ہوتا کہ میں نے اپنا دوسرا گال ہی آگے کرنا تھا۔ میرے دل کی اچھائی ایک مجبوری کی طرح دن بدن بڑھتی گئی لیکن کوئی بھی اس پر توجہ دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس کے برعکس اگر میں اندر سے برا ہوتا تو وہ مجھے کسی نہ کسی طور اسے کم کرنے پر مائل کرتے یا کچھ اور کرتے۔ وہ اسے ختم کرنے کی بھی کوشش کرتے۔ لیکن جب آپ اچھے ہوتے ہیں ؟۔۔۔ تو ہمارے سماج میں لوگوں کو یہ بات زیادہ راس آتی ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں اسے وصول کرتے رہیں۔۔۔ اور جواب میں خوشی کا اظہار کرتے ہوئے چند تعریفی کلمات کہتے رہیں۔ یوں میری حالت مزید بگڑتی گئی۔ یہ اس حد تک بگڑ گئی کہ میں تسلی سے کھانا بھی نہیں کھا سکتا اور میں ہر نوالہ چبانے کے بعد رُک جاتا اور ڈھونڈتا کہ مجھ سے زیادہ بھوکا کہیں کوئی اور تو نہیں۔۔۔ تاکہ میں اپنا کھانا اس سے بانٹ کر کھا سکوں۔ اور تو اور راتوں میں میرا سونا حرام ہو گیا۔ خود ہی سوچو کہ ایک بندہ، نیو یارک میں رہتے ہوئے سونے کے بارے میں کیسے سوچ سکتا ہے، جبکہ اس کے گھر سے ساٹھ فٹ کے فاصلے پر پارک میں، بینچوں پر بیٹھے لوگ سردی سے ٹھٹھر رہے ہوں؟

    اس کے منہ کے کونے پر اینٹھن پھر سے چھائی اور اس کا سارا بدن لرز اٹھا۔ ”میں اس طرح زندہ نہیں رہ سکتا، نیند کے بغیر، کھانے کے بغیر، محبت کے بغیر، زندگی کیسے گزر سکتی ہے۔ ایسا بندہ جس کے پاس محبتیں لٹانے کے لیے وقت ہے، جب کہ اس کے گردا گرد بے تحاشہ تکلیفیں ہیں، زبوں حالی ہے؟ یہ ایک برا خواب ہے۔ میرے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرو۔ میں نے تو ایسا کبھی نہیں چاہا تھا۔ یہ تو ایک طرح کا ’ ڈائی بُک‘ ہے، فرق بس اتنا ہے کہ شیطان کی جگہ آپ میں ایک فرشتہ گھس جائے۔ لعنت ہے۔ اگر شیطان مجھ میں گھسا ہوتا تو کسی نہ کسی نے مجھے کب کا ختم کر دینا تھا۔ لیکن یہ فرشتہ پن؟“ گریس نے ہولے سے آہ بھری اور اپنی آنکھیں بند کیں۔

    ” سنو۔“ ، وہ پھر سے بولنے لگا، ” یہ ساری رقم لو۔ جاﺅ اور کسی چھت یا بالکنی میں جا کر اپنی جگہ سنبھالو اور اپنا کام ختم کرو۔ ظاہر ہے کہ میں یہ کام خود نہیں کر سکتا۔ اور میرے لیے زندہ رہنا ہر آنے والے دن کے ساتھ مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ مہربانی کرو، اوپر کسی چھت پر جاﺅ اور یہ کام کر دو۔ میں تم سے التجا کرتا ہوں۔“ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ یہ ایک اذیت بھرا چہرہ تھا، ویسے ہی جیسے صلیب پر لٹکے ہوئے مسیح کا ہو۔۔۔۔ بالکل مسیح جیسا۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ مجھے پتہ ہی نہ تھا کہ میں کیا کہوں۔ میں، جس کے پاس ہمیشہ جواب ہوتا تھا، اقرار لینے والے پادری کے لیے، مئے خانے میں بیٹھی ایک طوائف کے لیے یا کسی وفاقی پلسیے کے لیے، لیکن اس کے لیے؟ میں اس کے سامنے یتیم خانے والا وہی ایک ننھا، ڈرا ہوا بچّہ تھا، جو ہر غیر متوقع حرکت پر دبک جاتا تھا۔ اور وہ ایک اچھا بندہ تھا اور میں اسے کبھی بھی کھونا نہیں چاہتا تھا۔ میں تو اسے مارنے کی کوشش بھی نہیں کر سکتا تھا۔ میری انگلی نے تو ٹریگر کے گرد لپٹنا ہی نہیں تھا۔

    ”مسٹر گریس، میں معذرت خواہ ہوں۔“ میں کافی دیر بعد ہولے سے بولا، ” میں یہ نہیں۔۔۔“
    ” تم مجھے مار بھی نہیں سکتے۔“ ، وہ مسکرایا ، ” چلو ٹھیک ہے۔ تمہیں پتہ ہے کہ تم پہلے نہیں ہو۔ تم سے پہلے بھی دو بندے اور تھے جنہوں نے مجھے لفافہ لوٹا دیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ یہ سب بد دعا کا حصہ ہے۔ تم، یتیم خانہ اور سب۔۔۔ “، اس نے کندھے اچکائے، ” اور میں روز بروز کمزور ہوتا جا رہا ہوں۔ ایسے ہی مجھے خیال آیا تھا کہ شاید تم میری بھلائی کا بدلہ چکا دو گے۔“

    ”مسٹر گریس، میں معذرت خواہ ہوں۔“ میں نے پھر سے سرگوشی کی۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے، ” کاش کہ میں ایسا کر سکتا۔۔۔“

    ”اس کا ملال مت کرو۔“ اس نے کہا، ” میں سمجھتا ہوں۔ کچھ نہیں بگڑا۔ چھوڑو دفع کرو۔“، اور جب اس نے مجھے کافی کا بل اٹھاتے دیکھا تو وہ منہ ہی منہ میں مسکرایا۔ ” کافی میرے کھاتے میں، اور میں اس پر اصرار کرتا ہوں، تمہیں پتہ ہی ہے کہ ایسا کرنا ہی تو میری بیماری ہے۔“ مڑا تڑا نوٹ جیب میں واپس رکھتے ہوئے، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور وہاں سے چل دیا۔ جب میں چند قدم آگے بڑھ گیا تو اس نے مجھے آواز دی۔ میں اپنی بندوق وہیں بھول گیا تھا۔

    میں، دل ہی دل میں خود پر لعنت بھیجتا، اسے لینے واپس گیا اور مجھے لگا جیسے میں اس پیشے میں نووارد ہوں۔

    تین دن بعد، ڈیلس میں کوئی سینیٹر میرے ہاتھوں مرا۔ یہ مشکل کام تھا۔ دو سو گز کی دوری، آدھا چھپا آدھا نظر آتا بندہ، اوپر سے ایک طرف کو کھینچتا ہوا کا دباﺅ، پھر بھی وہ فرش پر گرنے سے پہلے مر چکا تھا۔

    (ایٹگر کریٹ کا عبرانی افسانہ جس کا ترجمہ قیصر نذیر خاورؔ نے کیا ہے)

  • پھسلتے ہوئے چہرے (عالمی ادب سے منتخب افسانہ)

    پھسلتے ہوئے چہرے (عالمی ادب سے منتخب افسانہ)

    اگر یہ بات اصولی طور پر تسلیم کر لی جائے کہ محبت کرنا، محبت کیے جانے سے بہتر ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ کامیاب ترین قسم کی محبت وہ ہے جس کی جوابی کارروائی کی کوئی توقع ہو نہ امید، یعنی یک طرفہ محبت اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس سے مزید استخراج یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہماری محبت کے لطیف ترین جذبات صرف ایسے چہروں کے لیے ہونے چاہئیں جن سے ہماری کبھی ملاقات ہی نہ ہو سکتی ہو یا ہم ان سے گفتگو نہ کر سکتے ہوں۔

    بازار سے گزرتی ہوئی مناسب خد و خال والی لڑکی کا وہ خوبصورت چہرہ جو ایک جھلک دکھا کر بھیٹر میں گم ہو جاتا ہے یا ریلوے اسٹیشن پر کھڑی گاڑی کی کھڑ کی سے جھانکنے والی لڑکی یا بس کے سفر میں برابر والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی کسی نو خیز کلی کا عکس ذہنوں پر مرتسم ہو کر رہ جاتا ہے جس کے پارہ پارہ بدن سے بجلیاں چمک رہی ہوتی ہیں لیکن افسوس کہ اس سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔ چند منٹ میں بس سٹاپ آ جائے گا اور وہ اتر کر کہیں کھو جائے گی۔ وہ آنکھیں دوبارہ نہیں آئیں گی۔ وہ چہرہ بھی اور وہ بدن بھی دکھائی نہ دے گا۔ کبھی دکھائی نہ دے گا۔

    وہ بھی یقیناً ایک ایسی ہی اچانک ملاقات تھی جس نے ہیری کی کہانی کو جنم دیا لیکن اس فرق کے ساتھ کہ ہیری نے اس لڑکی کو یخ بستہ فضاؤں میں برف پر اسکیٹنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا اور پھسلتی ہوئی اس لڑکی کی جھلک دیکھتے ہی وہ خود بھی پھسل گیا تھا۔ یہ اوائلِ جنوری کی خنک دو پہر تھی جب ہیری سیرِ تنہائی سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ ہاگا کے علاقے میں سفید قالینوں نے زمین کو پوری طرح ڈھانپ رکھا تھا اور ہر طرف نوجوانوں کے گروہ لکڑی کے لیے لمبے جوتے پہنے مناسب ڈھلوانوں پر اسکیٹنگ میں مشغول تھے۔ سورج دن کا طویل سفر طے کرنے کے بعد اب خاصا تھک چکا تھا اور دور افق کے دامن میں شب بسری کے لیے مناسب جگہ تلاش کر رہا تھا۔ نوجوان لڑکے اور من چلی لڑکیاں اس ابدی توانائی کی آخری کرنوں سے زندگی کی خوشیاں نچوڑتے ہوئے ہنسی خوشی اپنے اپنے کھیل میں مصروف تھیں۔ ہیری بھی ان کھلی فضاؤں میں گہرے گہرے سانس لیتا ہوا آہستہ آہستہ ٹہل رہا تھا۔ گردن گھما کر سورج کی جانب آخری مرتبہ دیکھتے ہوئے ہیری نے سوچا کہ زمین پر تمام رنگ روشنی کے دم قدم سے ہیں اور پھر اسے محسوس ہوا کہ لوگ بھی انسان نہیں بلکہ چلتے پھرتے سائے ہیں جو سورج غروب ہوتے ہی اپنے اپنے سایوں کی طرح غائب ہو جائیں گے۔

    نگاہیں نیچی کیے ہیری ابھی انہی خیالات میں مگن تھا کہ اچانک اسے اپنے قدموں میں ایک اجنبی سا سایہ دکھائی دیا اور پھر یہ سایہ اس کے اپنے سائے کے متوازی تیز تیز آگے کی جانب دوڑنے لگا۔ ہیری لمحے بھر کو چونکا اور اس نے مڑ کر سورج دیوتا کی جانب دیکھا جو اس کی پشت پر تھا اور اپنی زرتشتی روشنی سے ایک سائے کو آگے کی جانب دھکیل رہا تھا۔ ہیری کی نگاہیں پل بھر کو اس سائے کی مالکہ کی نظروں سے ٹکرائیں اور ابھی وہ اس لمحے سے پوری طرح حظ اندوز بھی نہ ہو پایا تھا کہ خوب صورت چہرہ اس کی نگاہوں سے پھسل مسل کر اس کے شعور کی حدوں کو چھونے لگا۔ اسکیٹنگ بھی عجیب دلچسپ کھیل ہے۔ بعض اوقات تو اسکیٹر سلوموشن میں اپنی ٹانگوں کو حرکت دیتا ہے لیکن اکثر اوقات لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے ہوا ہو جاتا ہے۔ ہیری نے بھی آگے نکل جانے والے نسوانی سائے کے تعاقب میں اپنی رفتار تیز کر دی لیکن آہ بیچارہ ہیری! جسے بس کے سفر کا بھی کوئی خاص تجربہ نہ تھا، اسکیٹنگ کے پیچیدہ عمل سے کیسے واقف ہو سکتا تھا۔ اس ایک لمحے کے انمٹ نقوش، اُس کے ذہن پر ثبت ہو چکے تھے اور اب وہ دیدار کی بجائے حسرت دیدار کا مرقع بنا کھڑا تھا۔

    جذب ہوتے ہوئے سایوں کے عکس اس کی نگاہوں میں آہستہ آہستہ دھندلانے لگے اور اس کے تپتے ہوئے جسم سے نکلنے والی ٹھنڈی آہیں خنک موسم سے ہمکنار ہونے لگیں۔

    وہ کیا شے تھی جو ابھی ابھی اُس کے قریب سے گزری تھی۔ حسنِ مجّسم، تصورات کی دیوی، اس کے علاوہ اور کوئی لفظ صحیح مفہوم ادا نہیں کر سکتا۔ اس کے ہونٹ، آنکھیں، پیشانی، بال بلکہ جسم کے تمام اعضا ہی تکمیل کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔ اس نے سوچا کیا اس کی نظریں آرٹ کے اس نادر نمونے کو پھر کبھی نہ چھو سکیں گی۔

    کیا تمام عمر بس اسی عکس پر گزارا کرنا پڑے گا جو اس کے ذہن پر مرتسم ہو چکا ہے۔ سوچتے سوچتے اسے ایک شدید دھچکا لگا، مایوسی کے عالم میں اس نے اپنے ارد گرد کے ماحول پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی، وہ کب کی گزر چکی ہے اور وہ کب کا یہاں کھڑا ہے، اُسے کچھ یاد نہ تھا۔ خوف کے پھیلتے ہوئے سائے ہیری کی سوچوں کو منجمد کرنے لگے اور اگلے لمحے اُس نے اپنے قدموں کو متحرک محسوس کیا۔ اس نے نیم شعوری حالت میں اس برفانی علاقے کو خدا حافظ کہا اور واپسی کا سفر اختیار کیا۔ ہوٹل کے کمرے میں پہنچ کر بھی اس کے تذبذب میں کمی نہ آسکی۔ احساس شدید تھا اور جذبہ سچا۔ کبھی وہ اپنے کمرے کی تمام روشنیاں گل کر دیتا اور کبھی اسے بقعٔہ نور بنا دیتا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرے۔ تنگ آ کر اس نے پرانی وضع کے ایک ایسے ریسٹورنٹ میں جانے کا ارادہ کیا جو اپنی گونا گوں رنگینیوں کے باعث خاصا مشہور تھا۔

    ریسٹورنٹ کے بڑے ہال میں مختلف الاقسام میزوں پر مختلف النوع جوڑے راز و نیاز میں مصروف تھے۔ اس نے بھی اپنے لیے خالی میز کا انتخاب کیا اور آرکسٹرا کی مدھم سروں سے وقت کی رفتار ماپنے لگا۔ سفید وردیوں میں ملبوس بیروں کی ایک ٹیم پورے ہال میں پھیلی ہوئی تھی۔ ان میں سے چند بیروں نے اُس کی میز کا رخ کیا تو اُسے یوں محسوس ہوا جیسے روحیں کفن پہن کر اس کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ ساتھ والے میز پر بیٹھا ہوا بوڑھا جوڑا ایام جوانی کی یادداشتیں باآوازِ بلند دہرا رہا تھا۔ گاہے گاہے کھوکھلے قہقہوں اور کھسیانی ہنسی کی آوازیں بھی اس کی سماعت سے آ ٹکراتیں لیکن ان سب رنگینیوں کے باوصف وہ تنہا تھا۔ بالکل تنہا اور خالی۔ اپنے من کے مندر میں مگن۔ بنیادی طور پر وہ رومانوی مزاج کا حامل تو نہیں تھا لیکن آج اسے یہ کیا ہو گیا تھا۔ وہ خود بھی حیران تھا۔ شاعرانہ تخیلات اس کی سوچوں کو مہمیز لگا ر ہے تھے اور وہ نیلی آنکھوں … دراز پلکوں والی اس لڑکی کے بارے میں مسلسل سوچے چلا جارہا تھا جس کا دھنگ رنگ عکس اس کی نگاہوں کی پتلیوں میں ابھی تک رقصاں تھا۔ اس لڑکی نے مجھے حسن کا ایک زندہ معیار دے کر تمام عمر کے لیے حسین لڑکیوں سے محروم کر دیا ہے۔ بلاشبہ تکمیل حسن کا دعوٰی اُسے ہی زیب دیتا ہے۔ دنیا کی کوئی اور لڑکی اس دعوے کی دلیل فراہم نہیں کر سکتی۔ میرے خدا! اب میں کیا کروں۔ کاش میں ہاگا کے علاقے میں نہ گیا ہوتا!!

    پکّی عمر کا ہیری ان سب تو ہمات کے باوجود ناامید ہرگز نہیں تھا۔ عورت ایک ایسی منزل ہے جس کو پانے کے لیے مرد تمام عمر مسافر بنا رہتا ہے۔ "شاید وہ بھی کل صبح کی ٹرین سے مالم جا رہی ہو۔” اس کے ذہن نے مفروضے گھڑ نے شروع کر دیے تاہم یہ طے ہے کہ میں کل صبح مالم ضرور روانہ ہو جاؤں گا اور اب بقایا زندگی۔ یقیناً اس کے تصور میں گزرے گی۔

    دوپہر کو جب گاڑی نارنگ کے پرانے سے بے رونق ریلوے سٹیشن پر رکی تو مسافروں میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ کوئی سوار ہو رہا تھا تو کوئی اپنا سامان اتارے لیے جا رہا تھا۔ ریلوے کینٹین کے ملازم مسافروں کو ان کی مرضی کے کھانے فراہم کر کے اپنی مرضی کے دام وصول کرنے میں مشغول تھے۔ ہیری کو بھوک تو نہیں تھی تاہم لنچ کے نام پر تھوڑا بہت کھا لینے میں کچھ حرج نہ تھا۔ اس نے کھانا منگوایا اور چند لقمے حلق میں دھکیل کر واپس کر دیا۔ گارڈ نے وِسل دی اور گاڑی آہنی سڑک پر آہستہ آہستہ رینگنے لگی۔ ہرے بھرے کھیتوں کے پاس کھڑے ہوئے چند دیہاتی لڑکے ہاتھ ہلا ہلا کر مسافروں کو الوداع کہہ رہے تھے۔ انھیں دیکھنے والے مسافر بھی جواباً اپنے ہاتھوں کو ہوا میں لہرانے لگے۔ ہیری نے زانوؤں پر پڑے ہوئے اپنے ہاتھوں کو بے بسی کے عالم میں دیکھا اور سوچا ان ہاتھوں کو کیا ہو گیا ہے۔ الوداع کہنے والوں کے جواب میں یہ ہاتھ کیوں نہیں اٹھے۔ یقیناً اب مجھے کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اپنے آپ کو جگانے کے لیے اپنے جسم سے انتقام لینا ہو گا۔ آئندہ سے شراب کی مقدار میں اضافہ تیز، کام کم اور خرچ زیادہ۔ ایسے ہے تو ایسے ہی سہی اور یہ منشور اسی لمحے سے نافذ العمل ہوگا اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔

    ان سنہری اصولوں پر عمل کرنے سے عادت میں کچھ تبدیلیاں تو آئیں گی مگر یہ تبدیلیاں مثبت ہوں گی اور زندگی کا سفر خوب سے خراب کی طرف نہیں خوب سے خوب تر کی طرف ہوگا۔

    ابھی وہ نئے پروگرام کی پہلی ممکن العمل آئٹم کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا کہ ڈبے میں ایک فقیر داخل ہوا اور خیرات کے عوض من کی مرادیں تقسیم کرنے لگا۔ ہیری نے اپنے پروگرام کے آخری حصے "خرچ زیادہ ” کے پیشِ نظر پینٹ کی داہنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جو کچھ ہاتھ لگا وہ فقیر کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ فقیر نے پیسے سمیٹ کر دعاؤں کی ایک طویل فہرست ہیری کے سپرد کی اور زیادہ دیر ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا۔ ہیر ی اب اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا لیکن چند ہی لمحوں بعد جب گاڑی اسٹیشن پر رکی تو اس کی طبیعت پھر خراب ہونے لگی۔ وہ اسٹیشن پر اتر گیا اور شہر جا کر اپنے چند پرانے دوستوں سے ملا، جنھوں نے اسے اس حالت میں دیکھا تو مصنوعی ذرائع سے خوش کرنے کی کوشش کرنے لگے اور وہ بظاہر خوش نظر آنے لگا۔ پرانے دوستوں سے مل کر کسے خوشی نہیں ہوتی لیکن اندرونی طور پر وہ بالکل نروس ہو چکا تھا اور پوری طرح اعصابی تناؤ کا شکار۔

    اگلی صبح اس نے لندن کے لیے بحری سفر اختیار کیا۔ اس کا خیال تھا کہ شاید ذریعۂ سفر کی تبدیلی سے مزاج میں کچھ خوشگوار تبدیلی آ جائے۔ دراصل وہ ایک ایسا بے وقوف شخص تھا جو لمحے بھر کے لیے دیکھی ہوئی عورت کے بارے میں عمر بھر کے لیے پریشان رہنا چاہتا تھا۔ وہ ایک ایسے جذبے کا اسیر ہو چکا تھا جسے باآسانی دوسرے جذبوں سے تبدیل کیا جا سکتا تھا لیکن یہ بات کم از کم ہیری کے بس میں نہ تھی، وہ بالکل بے بس تھا۔ اس نے بحری سفر اختیار کیا حالانکہ ٹرین کے مقابلے میں بحری سفر کہیں زیادہ بور ہوتا ہے اور کچھ نہیں تو ٹرین میں بیٹھا ہوا آدمی کھڑکی سے باہر جھانک کر ہر آن متحرک اور سرسبز زندگی کا نظارہ تو کر سکتا ہے جب کہ بحری جہاز میں سوائے لہراتے ہوئے نیلے پانی کے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ دور دور تک گہرا سمندر اور پانی کو چیرتی ہوئی واحد آواز بحری مسافر کا مقدر ہوتی ہے۔ جہاز کے روانہ ہونے میں ابھی کچھ دیر تھی۔ ہیری نے مسافروں کی لسٹ اُٹھائی اور حقیقت گزاری کے لیے اسے پڑھنے لگا۔ لسٹ میں درج پہلے نام نے ہی اسے چونکا دیا کیونکہ وہ ایک خاتون کا نام تھا۔ کیا یہ وہی لڑکی تو نہیں؟ ممکن ہے وہی ہو بلکہ یقیناً وہی ہے کیونکہ اس کا ایڈریس بھی ہاگا کا ہے۔ اُس نے لسٹ دوبارہ انکوائری ٹیبل پر رکھ دی اور ایک سگریٹ سلگا کر دھوئیں کے لمبے لمبے کش لینے لگا۔ شدتِ جذبات سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور اگلے چند لمحوں میں کسی کی متوقع آمد سے پریشان کیے جارہی تھی۔

    اب بحری جہاز کی روانگی کا وقت قریب آچکا تھا اور ساحلِ سمندر پر کھڑے مسافر جلدی جلدی جہاز پر سوار ہو رہے تھے۔ اچانک ہیری کی نگاہوں میں ایک بجلی سی چھپکی۔ وہی لڑکی، یقیناً وہی جو گزشتہ کئی دنوں سے اس کے اعصاب پر سوار تھی۔ فرطِ جذبات سے ہیری کا دل زور زور سے دھڑ کنے لگا۔ بزدل، ڈرپوک، کم گو اور شرمیلے عاشقوں کی طرح ساتھ ہی اُسے اپنے سینے میں سرسراہٹ سی محسوس ہوئی۔

    اس نے کیبن کی دیوار سے ٹیک لگا کر اپنے کپکپاتے ہوئے جسم کو سہارا دیا اور رومان پسندوں کی طرح سوچنے لگا کہ تمام لوگ اُسے دیکھ دیکھ کر ہنس رہے ہیں۔

    وہ چند لمحوں کے لیے جہاز کے ڈیک پر رکی اور ایک لطیف جھٹکے کے ساتھ سَر کے بالوں کو درست کرتے ہوئے جہاز پر چڑھنے لگی۔ اکیلی لڑکی نگاہیں نیچے کیے سب سے الگ تھلگ چلی آ رہی تھی اور پھر وہ جہاز کے پنچ سیلون کی جانب مڑ گئی۔ ہیری بھی آہستہ آہستہ اس کے تعاقب میں ہولیا۔ ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے بظاہر وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ کسی اور کو تلاش کر رہا ہے لیکن اُس کی نگاہیں بار بار اس مجسم حسن پر آ ٹکتیں۔

    اس نے اس اچانک ملاقات پر اپنے آپ کو مبارک باد دی اور سوچنے لگا کہ اب کامیابی کی دولت یقیناً اس کے قدموں پر نچھاور ہونے والی ہے۔ حسین جسم کا ایک اور نظارہ چرانے کی غرض سے جب ہیری نے نظریں گھمائیں تو یہ دیکھ کر اس کی توانائی سلب ہونے لگی کہ وہ لڑکی اپنی سیٹ پر بیٹھی اُسے گھور رہی ہے۔ لڑکی کا اس طرح دیکھنا اُس کے لیے بے حد پریشان کن ثابت ہوا اور وہ خوفزدہ ہو کر پاس کی ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جہاز اپنی پوری رفتار سے منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ زیادہ سگریٹ پی لینے کے باعث اُسے گلے میں خراش محسوس ہو رہی تھی۔ دماغ میں تھکاوٹ کے آثار بھی نمایاں تھے اور وہ اپنے فطری شرمیلے پن کو کوس رہا تھا۔ اسے اس دوسرے چانس کے مس ہو جانے کا بے حد افسوس تھا۔ کاش اس میں ہمت ہوتی اور وہ بڑھ کر اُس سے گفتگو کر سکتا۔ سمندری لہریں جہاز کو بار بار رقص پر مجبور کر رہی تھیں اور مسافر اپنی سیٹوں پر بیٹھے ہچکولے کھا رہے تھے لیکن ہیری کا دماغ مناسب بہانوں کی تلاش میں تھا۔ اخبار پڑھتے ہوئے بھی وہ کسی ایسی صورت حال کا متلاشی تھا جس کے باعث بے وقوف بنے بغیر اس کی ایک آدھ مسکراہٹ وصول کر سکے۔ جہاں تک اس لڑکی کا تعلق تھا تو وہ بڑے سکون سے بیٹھی خط لکھنے میں مصروف تھی۔ پنچ سیلون میں بیٹھے ہوئے دوسرے مسافر بھی اپنی اپنی گفتگو میں مگن تھے اور ہیری سوچ رہا تھا کہ اسے گفتگو کا اس سے بہتر موقع پھر کبھی نہیں مل سکتا۔ اب یا کبھی نہیں۔ اس نے حیلے ایجاد کرنے شروع کر دیے اور اپنے آپ سے دریافت کیا۔ کیا یہی وہ لڑکی ہے جس نے مجھے بے وقوف بنا رکھا ہے۔ یہ چاہتے ہوئے بھی کہ میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ اس کی شخصیت میچ نہیں کرتی، میں کچھ نہیں کر سکتا۔ بات کرنے کا کیا ہے میں اس سے بات تو کر لوں لیکن اس کی ضمانت کون دے گا کہ وہ آگے سے میری بے عزتی نہیں کرے گی۔ خدانخواستہ اگر ایسی صورت حال پیدا ہوگئی تو میں ہمیشہ کے لیے اس تجربے کے حظ سے محروم ہو جاؤں گا جو میرے رگ وپے میں سرایت کر چکا ہے۔ مکمل انکار کے بجائے خوش فہمی میں رہنا زیادہ بہتر ہے۔ ہیری نے دوبارہ اس لڑکی کو اپنی نگاہوں کا مرکز بناتے ہوئے سوچا۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ انتہائی شائستگی سے پیش آئے اور پھر خیالوں ہی خیالوں میں ہیری کے کانوں نے وہ میٹھی میٹھی گفتگو سنی جو ایسی صورت حال میں متوقع تھی۔

    ہیری ہمت کر کے اٹھا اور لڑکی کی جانب قدم بڑھانے لگے۔ ابھی اس کا چوتھا قدم فرش پر نہ پڑا تھا کہ جہاز نے ایک زبردست ہچکولا لیا۔ اس نے اپنے جسم کو بڑی مشکل سے سنبھالا۔ جہاز مسلسل طوفانی لہروں کی زد میں تھا اور ہر نیا لمحہ ایک نئے خوف کو جنم دے رہا تھا۔ ہیری نے کھڑکی میں سے باہر کھلے سمندر کی جانب دیکھا اور پھر کیپٹن کی آواز گونجی کہ جہاز ایک بہت بڑے طوفان میں پھنس چکا ہے۔ خوف کا ایک مہیب سایہ اس کے پورے جسم کا احاطہ کر چکا تھا۔ خوف، موت کا خوف۔ وہ جلدی جلدی لنچ سیلون سے نکلا اور اپنے کیبن میں آ گیا جہاں بہت زیادہ آرام تھا۔ چند لمحوں میں وہ سب کچھ فراموش کر چکا تھا اور گہری نیند اس کی آنکھوں میں ڈورے ڈال رہی تھی۔

    بیری جب صبح اٹھا تو اسے ہلکی ہلکی بھوک محسوس ہو رہی تھی۔ سفر ختم ہونے میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا لہٰذا اس نے ناشتے کے لیے لنچ سیلون کا رخ کیا۔ سیلون میں داخل ہوتے ہی یہ دیکھ کر اس کا دل ڈوبنے لگا کہ وہی لڑکی دو نوجوانوں کے درمیان بیٹھی کافی سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ ہیں! یہ کیا کیا، واقعی نہیں، نہیں اُسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیا ہے؟ جونہی وہ اس ناقابلِ تردید حقیقت سے فرار حاصل کرنے کے لیے واپس مڑا، فضا میں تین قہقہوں کی آواز گونجی۔ وہ لوگ آہستہ آہستہ کچھ گفتگو کر رہے تھے لیکن شور کے باعث مفہوم ہیری کے پلے نہیں پڑ رہا تھا لیکن یہ سب فراڈ ہے۔ ایک فلرٹ ہے، چند ثانیے قبل تو وہ خاموش بیٹھے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی ہنسنے لگے آخر اس ہنسی کا مطلب کیا ہے۔ سچ ہے محبت صرف دل والوں کا حصہ نہیں اس میں دلیری بھی چاہیے اور میں ٹھہر اطبعاً بزدل۔ ہوئی نا وہی بات جو لوگ باتونی تھے وہ سرِ منزل پہنچ گئے۔

    ہیری اُن دونوں نوجوانوں کو رشک کی نگاہوں سے دیکھتا ہوا باہر نکل گیا۔ اب وہ آخری تیاریاں کر رہا تھا۔ جہاز ساحل کے قریب پہنچ چکا تھا اور لنگر انداز ہونے ہی والا تھی۔ اس نے جلدی جلدی اپنا سامان وغیرہ پیک کیا اور ایک بیگ بنا کر عرشے پر آگیا۔ زمین کو اپنے پاؤں کے نیچے محسوس کرنا کتنا خوشگوار ہو سکتا ہے یہ تو بحری سفر کے بعد ہی پتا چلتا ہے۔ ہیری بھی انہی محسوسات کو ذہن میں سمیٹے بیرونی دروازے سے آہستہ آہستہ گزرا اور جب وہ پلیٹ فارم پر مالم کے لیے ٹکٹ خرید نے لگا تو اُسے پھر وہی لڑکی دکھائی دی۔ وہ ایک بوڑھے آدمی کا بازو تھامے آ رہی تھی۔ ہیری ان دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر کچھ پریشان سا ہوا اس نے اس بوڑھے کو ہوائی جہاز میں تو کہیں نہیں دیکھا تھا پھر یہ کہاں سے آ ٹپکا۔ دوسرے لمحے اس کی پریشانیاں سمٹنے لگیں۔ لڑکی کولھے مٹکا مٹکا کر چل رہی تھی اور اپنی آنکھوں کو ادھر ادھر گھماتے ہوئے ہر بار ہیری کی طرف ضرور دیکھتی تھی۔ اُمید کی معصوم کی کرن ہر لمحے ہیری کو اس لڑکی کے قریب کیے چلی جا رہی تھی تا آنکہ فاصلہ سمٹ کر چند قدموں تک محدود ہو گیا۔ لڑکی نے ہیری کی جانب دیکھا اور پہلی بار دونوں کی نگاہیں ایک دوسرے میں پیوست ہو گئیں۔ وہ مسکرائی اور ایک محبت بھری مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے دھیمے سروں میں بولی:

    "اوہ سویڈش۔۔۔۔ معاف کیجیے ۔۔۔۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے آپ کو ایک مرتبہ ہاگا میں دیکھا تھا۔ آپ سویڈش جانتے ہیں؟ میں نے مالم تک اپنی اور ڈیڈی کی ریزرویشن کرائی تھی لیکن اب ٹکٹیں کہیں کھوگئی ہیں، کیا آپ کچھ رہنمائی کر سکتے ہیں، ہم یہاں بالکل اجنبی ہیں۔“

    یقیناً یقینا ً! ہیری بولا اور اس کا دل بلیوں اچھلنے لگا۔ اسٹیشن پر چمکتے قمقموں کی روشنی کچھ اور تیز ہوگئی اور وہ انہیں اسٹیشن پر کھڑی ہوئی گاڑی کے آخری ڈبے میں لے گیا جہاں اُسے پتا تھا کہ تقریباً تمام سیٹیں خالی ہوتی ہیں۔ انہوں نے لندن تک ایک ساتھ سفر کیا اور راستہ بھر ان کی گفتگو ایک لمحے کے لیے بھی نہ رکی۔

    ہیری اور وہ لڑکی آج کل گزشتہ سات سال سے میاں بیوی کی حیثیت سے اکٹھے رہ رہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہیری اب بھی اپنے آپ کو ہی اس افسانے کا ہیرو سمجھتا ہے۔

    (ولیم سیمسن کے اس افسانے کا اردو ترجمہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے کیا ہے)

  • دھرتی کے نیچے بیل…

    دھرتی کے نیچے بیل…

    ٹھٹھی کھار امرتسر سے زیادہ دور نہیں تھا اور وہاں تک پہنچنا کافی آسان تھا، کیونکہ وہ ان گاؤں میں سے ایک تھا جو پکی سڑک پر واقع تھے۔

    لیکن جس مسرت آمیز جذبے کے تحت مان سنگھ سفر کر رہا تھا اس سے کوئی بھی فاصلہ خوش گوار اور مختصر معلوم ہونے لگتا۔ حالانکہ شام کے سائے تیزی سے پھیلتے جا رہے تھے اور تانگے کی گھوڑی کی چال سے اس کی تھکن ظاہر ہو رہی تھی لیکن مان سنگھ ذرا بھی فکرمند نہیں تھا۔

    مان سنگھ فوجی تھا اور اپنی رجمنٹ سے چھٹی لے کر اپنے دوست کرم سنگھ کے گاؤں جارہا تھا۔ فوج سے زیادہ گہری اور پکی دوستی دنیا میں کہیں اور نہیں ہوتی۔ مان سنگھ اور کرم سنگھ دونوں ایک ہی رجمنٹل سینٹر میں تھے اور اب ایک ہی بٹالین میں برما کے مورچہ پر تعینات تھے۔ کرم سنگھ پہلے بھرتی ہوا تھا اور اب حوالدار بن گیا تھا جب کہ مان سنگھ حال ہی میں نائک کے عہدے تک پہنچا تھا۔

    کرم سنگھ کے گاؤں کے لوگ ہمیشہ اس کے باپ سے اس کی اگلی چھٹیوں کے بارے میں دریافت کرتے رہتے۔ اس کا کرم سنگھ یار باش آدمی تھا اس کا بات چیت کرنے کا انداز بہت ہی پرکشش تھا اور لوگ جنگ اور بہادری کے قصے سننے کے لیے اس کے پاس بیٹھنا بہت پسند کرتے تھے۔ اس کے علاوہ گاؤں کے اور کئی نوجوان بھی فوج میں تھے۔ لیکن جب وہ گاؤں آتے تو لوگوں سے بات چیت کرنے کے لیے موضوع ہی تلاش کرتے رہتے۔ زیادہ تر لوگوں کے ساتھ وہ سلام و دعا سے آگے نہیں بڑھتے تھے مگر کرم سنگھ کا معاملہ دوسرا تھا۔ جب وہ گاؤں میں ہوتا تو صبح کے وقت غسل کے لیے لوگ کنویں پر عام دنوں سے زیادہ دیر تک رہتے اور سردیوں میں لوگ آدھی رات تک بھڑبھونجے کی بھاڑ کی گرم راکھ کے گرد جمع ہوتے اور کرم سنگھ کی بے تکان اور پرجوش بات چیت کا سلسلہ جاری رہتا۔

    رجمنٹ میں کرم سنگھ اپنے اچوک نشانے کے لیے مشہور تھا۔ نشانے بازی کے مقابلوں میں اس کی گولیاں ٹھیک نشانے پر لگتیں تھیں، جیسے کسی نے ہاتھ سے سوراخ کر دیا ہو۔ جنگ کے دوران پیڑوں کی شاخوں میں چھپے ہوئے بہت سے جاپانی سپاہی پراسرار طور پر ان کی تباہ کن گولیوں کا شکار ہوئے تھے۔ اس طرح اس نے جاپانیوں کی گولیوں سے مرنے والے اپنے دوستوں کا حساب برابر کر کے اپنی رجمنٹ کے بجھے ہوئے حوصلے کو بڑھایا تھا۔ جہاں پوری مشین گن کی میگزین نشانے تک پہنچنے میں ناکام رہتی وہاں کرم سنگھ کی ایک گولی ہی کافی ہوتی۔ حالانکہ اس کا جسم جوانی کی پھرتی کھو چکا تھا مگر اب بھی ورزش گاہ میں اس کے کمالات لوگوں کو حیرت زدہ کر دیتے تھے۔

    جنگ کے دوران ورزش اور بہت ساری سرگرمیاں ملتوی کر دی گئی تھیں۔ اب چست وردیوں میں بینڈ کے ساتھ پریڈ نہیں ہوتی تھی اور قرب و جوار میں کوئی بازار بھی نہیں تھا جہاں سادے کپڑوں میں گھوما جا سکے۔ راستے میں اپنے گاؤں یا قصبہ کے کسی آدمی سے ملاقات کا بھی کوئی امکان نہیں تھا۔ اس لیے مان سنگھ کا چھٹی پر جانے کا نمبر آیا تو کرم سنگھ کو جلن نہیں ہوئی۔ کاش اسے بھی چھٹی مل سکتی اور وہ ساتھ ساتھ گھر جاتے اورچھٹیاں ساتھ گزار سکتے اور پھر چوپڑ کانا امرتسر سے کوئی ایسا دور بھی تو نہیں تھا۔ دونوں کے گاؤں میں صرف پچاس میل کا فاصلہ تھا۔ ایک ماجھا کے علاقے میں تھا دوسرا بار کے علاقے میں۔ ایک کے ساتھ لمبا ماضی جڑا ہوا تھا اور دوسرا قدرے جدید تھا اور حال میں بسایا گیا تھا۔

    لیکن ان دنوں چھٹی حاصل کرنا بہت مشکل تھا۔ چھٹی صرف خوش قسمت لوگوں کو ہی ملتی تھی اور بہادری دکھانے اور تمغہ حاصل کرنے کے لیے مواقع کی طرح نادر تھی۔

    جب مان سنگھ رخصت ہونے کے لیے سڑک پر چڑھنے لگا تو کرم سنگھ نے اسے الوداعی پیغام دیا، ’’واپسی سے پہلے میرے گاؤں ضرور جانا۔ میرے لوگوں سے ملنا نہ بھولنا، وہ تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوں گے۔ تم انہیں میری خیریت کی خبر دینا۔ انہیں بالکل ایسا لگے گا جیسے میں ہی ان سے مل رہا ہوں اور جب میں تم سے دوبارہ ملوں گا اور تم مجھے ان کے بارے میں بتاؤ گے تو مجھے لگے گا میں خود ان سے مل رہا ہوں۔‘‘ پھر اپنے گاؤں کے جغرافیہ کے بارے میں مان سنگھ کو متوجہ کرتے ہوئے بولا، ’’کیا تم کبھی ادھر گئے ہو؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ مان سنگھ نے جواب دیا، ’’میں امرتسر سے تو گزرا ہوں مگر کبھی آگے نہیں گیا۔‘‘

    ’’وہاں دیہات کے اطراف میں کئی گوردوارے ہیں۔ ترن تارن کھدور صاحب اور گوینددال۔ تم ان مقامات کی زیارت کرنے کے ساتھ میرے گاؤں والوں سے بھی مل سکتے ہو۔ میں انہیں خط لکھوں گا۔۔۔‘‘ کرم سنگھ اپنے آپ میں کھویا ہوا پرجوش انداز میں بولتا رہا۔

    اسی وجہ سے اب اپنی چھٹیوں کے اختتام کے قریب مان سنگھ تانگے میں کرم سنگھ کے گاؤں جا رہا تھا۔

    ’’میں مان سنگھ ہوں باپو جی۔۔۔ چوپڑ کانا سے آیا ہوں۔‘‘ مان سنگھ نے کرم سنگھ کے گھر میں ڈیوڑھی میں بیٹھے ہوئے بوڑھے کو ہاتھ جوڑ کر ست سری اکال کرتے ہوئے کہا۔

    ’’جی آیاں نوں۔‘‘

    ’’آؤ، بیٹھو۔‘‘ بوڑھے نے کھوئے ہوئے سے انداز میں کہا۔ مان سنگھ جاکر چارپائی پر بیٹھ گیا۔ بوڑھا مان سنگھ کی آمد سے تھوڑا مضطرب لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں اجنبی کے چہرے سے ہٹ کر اب زمین پر گڑ گئی تھیں۔ کسی بھی لحاظ سے مان سنگھ کے مزاج میں بے صبری نہیں تھی مگر پھر بھی اس طرح کا استقبال اسے عجیب سا لگا۔ ایک لمحہ کے لیے اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا کہ یہ بوڑھا کرم سنگھ کا باپ نہیں ہے۔

    ’’آپ کرم سنگھ کے والد ہیں۔‘‘ مان سنگھ نے اپنی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے کہا، ’’کیا اس نے آپ کو میرے بارے میں لکھا تھا۔‘‘

    ’’ہاں۔ اس نے لکھا تھا کہ تم ہم لوگوں سے ملنے آؤ گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بوڑھا اٹھا اور صحن کی طرف چل پڑا۔ اس نے کٹرے کو ایک کھونٹے سے کھول کر دوسرے سے باندھ دیا اور اسے تھپتھپانے لگا اور اپنا ہاتھ چاٹنے کے لیے کٹرے کے سامنے کر دیا اور پھر وہ مان سنگھ کی آمد کی اطلاع دینے اور باہر چائے بھیجنے کو کہنے کے لیے گھر کے اندر چلا گیا۔ اب کی بار وہ گھوڑی کے پاس رک گیا جیسے وہ ڈیوڑھی میں آتے ہوئے ڈر رہا ہو پھر اس نے چارہ کو الٹا پلٹا اور کچھ چنے اس میں ڈالے۔ بالآخر وہ مہمان کے پاس لوٹ آیا لیکن وہ پہلے کی طرح ہی کھویا ہوا تھا۔

    ’’جسونت سنگھ کہاں ہے؟‘‘ مان سنگھ نے خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔ اسے معلوم تھا کہ کرم سنگھ کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا۔

    ’’وہ چارے کی گاڑی لے کر آتا ہی ہوگا۔‘‘

    اس بیچ میں کرم سنگھ کی ماں چائے لے آئی۔

    ’’ست سری اکال بے جی۔‘‘ مان سنگھ کے لہجہ میں ایک بیٹے کی سی محبت کی جھلک تھی۔ بوڑھی عورت کے ہونٹ لرزے اور ایسا لگا جیسے وہ کچھ کہنے والی ہے لیکن اس نے کچھ نہیں کہا۔ مان سنگھ نے پیالی اور چائے دانی اس کے ہاتھ سے لے لی اور وہ واپس چلی گئی۔ یہ مجھیل بھی عجیب لوگ ہیں، مان سنگھ نے اپنے آپ سے کہا۔ اس کے احساسات مجروح ہوئے تھے۔ بہرحال اب وہ واپس بھی تو نہیں جا سکتا تھا۔ اس کو رات اس گھر میں ہی گزارنی پڑے گی لیکن اس نے صبح سویرے نکلنے کا فیصلہ کیا۔

    رات کو جب جسونت سنگھ واپس آیا تو باتوں میں کچھ بے تکلفی ضرور پیدا ہو گئی۔

    ’’کرم سنگھ کی گولی اس برما کی جنگ میں بڑی مشہور ہو گئی ہے۔ ادھر وہ لبلبی دباتا ہے ادھر ایک جاپانی گرتا ہے۔ کسی کو پتہ نہیں کہاں سے، اس کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ہمیں بالکل پتہ نہیں چلتا کہ وہ کیسے انہیں ڈھونڈ لیتا ہے۔‘‘

    مان سنگھ اس امید میں کچھ وقفے کے لیے چپ ہوگیا کہ اس سے کرم سنگھ کے بارے میں جاپانیوں اور جنگ کے بارے میں بہت سے سوالات پوچھے جائیں گے۔ اس کے پاس بہت ساری باتیں جمع تھیں، جنہیں بتاکر وہ اپنے سینے کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اسے لگا جیسے کسی کو اس کی باتیں سننے میں دلچسپی نہیں تھی۔

    ’’جسونت ہمیں نہر کا پانی کب ملے گا؟‘‘ باپ نے کافی لمبے اور بوجھل وقفے کے بعد پوچھا۔

    ’’پرسوں، صبح تین بجے۔‘‘ وقت کے بارے میں اس حوالے نے مان سنگھ کو اپنی بات دوبارہ شروع کرنے کا ایک اور موقع دیا، ’’ہاں۔ فوج میں کرم سنگھ اتنے سویرے اٹھنے کے جھنجھٹ میں بہت کم پڑتا ہے۔ اسے صبح کی نیند بہت عزیز ہے اور وہ ہمیشہ سب سے آخر میں اٹھتا۔‘‘ مان سنگھ اپنے دوست کے بارے میں بغیر رکے بے تکان بول سکتا تھا لیکن یہ آخری جملہ بھی سننے والوں میں کوئی دلچسپی جگانے میں ناکام رہا۔ پھر کھانا آ گیا۔ مہمان کے لیے خصوصی پکوان تیار کیے گئے تھے۔ وہ کھاتا رہا اور جسونت سنگھ پنکھا جھلتا رہا۔

    مان سنگھ کا یہ احساس کہ اسے زیادہ توجہ نہیں ملی، اب کچھ کچھ کم ہوتا جارہا تھا۔ جب وہ کھانا ختم کرنے ہی والا تھا تو کرم سنگھ کا ننھا بچّہ چھوٹے چھوٹے قدم رکھتا ہوا وہاں آ گیا۔ اگر وہ گھر میں کسی اور سے کرم سنگھ کے بارے میں بات نہیں کر پا رہا تھا تو بچے سے کر ہی سکتا تھا۔ اس نے اٹھا کر اسے گود میں بٹھاتے ہوئے کہا، ’’ہمارے ساتھ اپنے باپو کے پاس چلو گے؟ وہاں بہت بارش ہوتی ہے۔ تمہیں کھیلنے کے لیے بہت سارا پانی ملے گا۔‘‘

    مان سنگھ کی اس بات نے جیسے بوڑھے کا سینہ چیر کر رکھ دیا ہو، ’’بچّے کو لے جاؤ۔‘‘ وہ چلّایا، ’’یہ ہمیں چین سے کھانے نہیں دے گا۔‘‘ ماں آئی اور بچّے کو لے گئی۔ کھانا مان سنگھ کے حلق میں پھنسنے لگا۔ گھر کے اس ماحول میں سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ اسے دم سا گھٹتا محسوس ہوا۔ پھر وہ اگلی صبح واپسی کے سفر کے بارے میں معلومات کرنے لگا۔

    ’’یہاں سے ترن تارن کتنی دور ہے؟‘‘

    ’’تقریباً چار میل۔‘‘

    ’’کیا صبح سویرے مجھے تانگا مل جائےگا۔‘‘

    ’’اس کے بارے میں فکر نہ کرو۔ ہم جسونت کو تمہارے ساتھ بھیجیں گے تاکہ تم دونوں بھائی ساتھ ساتھ ان سب مقامات کی زیارت کر سکو۔‘‘ مان سنگھ اس پیش کش سے کافی مطمئن ہوا کیونکہ جسونت دوسروں کی طرح کم گو نہیں تھا۔ لیکن باہر نکلنے کے بعد جسونت سنگھ کے بھی ہونٹ سیل ہو گئے تھے۔ اگر راستہ میں کوئی دوست یاشنا سا مل جاتا تو دھیمے لہجہ میں ست سری اکال کہتا اور چل پڑتا۔ مان سنگھ رک کر لوگوں سے بات کرنا چاہتا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اسے بار بار ان جگہوں پر آنے کا موقع نہیں ملے گا۔

    ’’کرم سنگھ نے فوج میں اتنا نام کمایا ہے۔۔۔ تم بھی کیوں بھرتی نہیں ہو جاتے۔‘‘ مان سنگھ نے بات دوبارہ چھیڑتے ہوئے کہا۔ جسونت چونکا پھر اپنے آپ کو قابو میں کرتے ہوئے بولا، ’’کیا فوج میں ایک کافی نہیں ہے؟‘‘ اور پھر جلدی سے موضوع بدلتے ہوئے پوچھنے لگا، ’’تمہارے ضلع میں گنے کی فصل کتنی اونچی ہے؟‘‘ وہ اب ایک کھیت سے گزر رہے تھے۔

    ’’آدمی کے قد سے بھی اونچی ہے۔‘‘ مگر مان سنگھ کا دھیان تو کہیں اور تھا۔ وہ اپنے دوست کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔

    گھر لوٹ کر وہ واپسی کے سفر کا پروگرام بنانے لگا۔ اس نے سوچا کہ وہ امرتسر سے رات کی گاڑی پکڑے گا۔ حالانکہ انہوں نے اس کے آرام کا بے حد خیال رکھا تھا مگر اسے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی اسے توقع تھی۔ اب جب کہ اس کے لیے چائے بنائی جا رہی تھی، وہ ڈیوڑھی میں اکیلا بیٹھا تھا۔ اس نے گلی میں جھانکا تو ڈاکیہ کو کندھے پر جھولا لٹکائے قریب آتے دیکھا۔ لگ رہا تھا وہ سیدھا جائے گا مگر وہ مڑا اور اندر آکر مان سنگھ کے قریب چارپائی پر بیٹھ گیا۔

    ’’کیا لائے ہو تم؟‘‘

    ’’ارے کیا ہو سکتا ہے؟ بیچارے کرم سنگھ کی پنشن سے متعلق کاغذات ہوں گے۔‘‘

    ’’کرم سنگھ کی پنشن؟ تمہارا مطلب کیا ہے؟‘‘

    ’’کیا تم کو نہیں معلوم؟ اس گاؤں کے تو پیڑ اور پرندے بھی کرم سنگھ کے غم میں ڈوبے ہوئے ہیں۔‘‘

    ’’پندرہ دن پہلے خط آیا تھا۔‘‘

    اس کو اپنے گلے اور سینہ میں سخت گھٹن محسوس ہوئی اور اسے لگا کہ اس کا جسم اچانک سن ہو گیا۔ پھر اس کے جذبات کا بندھ ٹوٹ پڑا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ کرم سنگھ کے گھر، اس کے باپ اور اس کے ننھے بچّے نے اس عمل کو اور تیز کر دیا تھا۔

    باپ نے ڈاکیہ کو دیکھ لیا تھا اور فوراً سمجھ گیا تھا کہ وہ کرم سنگھ کے دوست سے خبر چھپانے میں ناکام رہا۔ اب تو بوجھ اتار پھینکنا ہی بہتر ہے۔ ضبط کا بندھ جو انہوں نے اپنے اوپر لگایا ہوا تھا، اچانک ٹوٹ گیا۔ کافی دیر تک وہ ساتھ بیٹھے رہے اور آنسو بہاتے رہے۔

    ’’تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا؟‘‘ مان سنگھ نے درد ناک لہجہ میں پوچھا۔

    ’’ہم نے سوچا کہ لڑکے کی چھٹیاں خراب کرنے سے کیا فائدہ؟ بہتر ہے کہ اسے رجمنٹ میں جاکر معلوم ہو۔ تمہیں کرم سنگھ کی طرح یا اس سے زیادہ چھٹیاں عزیز ہیں۔ باہر کے علاقہ کے لوگ زیادہ آسائشوں کے عادی ہیں۔۔۔ لیکن ہم یہ خبر تم سے چھپانے میں ناکام رہے۔ ہمیں معاف کرنا۔‘‘

    واپس جاتے ہوئے مان سنگھ کی تجسس آمیز نگاہیں اس گاؤں کا جائزہ لینے لگیں، جس کے ماحول میں کرم سنگھ کا باپ پلا بڑھا تھا۔ وہاں کے مقبرے اور تاریخی عمارتیں اپنے سینوں میں بیرونی حملہ آوروں کے خلاف جرأت مندانہ جنگوں کی داستان چھپائے ہوئے تھیں۔ اسی میں بوڑھے کی ہمّت اور صدمات برداشت کرنے کی قوت کا راز پنہاں تھا۔ وہ دوسروں کو تکلیف سے بچانے کے لیے ان کا غم بخوشی اپنے اوپر لے لیتا تھا۔

    مان سنگھ نے سن رکھا تھا کہ دھرتی کے نیچے ایک بیل ہے جس نے اپنے سینگوں پر ساری دنیا کا بوجھ اٹھا رکھا ہے۔ کرم سنگھ کا باپ بھی ایسا ہی نیک صفت انسان تھا جو اپنے دکھوں کے کمر توڑ بوجھ تلے دبے ہونے کے باوجود دوسروں کے غموں کا بوجھ بانٹنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا تھا۔

    (مصنّف:‌ سردار کلونت سنگھ)

  • کل اور آج (اطالوی ادب سے انتخاب)

    کل اور آج (اطالوی ادب سے انتخاب)

    جنگ کا آغاز حال ہی میں ہوا تھا۔

    مارینو لرنا نے رضا کارانہ طور پر افسران کے اسکول میں داخلہ لیا اور تیزی سے نصاب مکمل کر کے انفنٹری لیفٹیننٹ کے درجے پر فائز ہوا۔ اپنے کنبے کے ہمراہ آٹھ دن کی تعطیلات گزارنے کے بعد وہ اپنے یونٹ کیسیل بریگیڈ کی بارہویں رجمنٹ میں مکیراٹا چلا گیا۔ اسے امید تھی کہ محاذ پر جانے سے پہلے ایک یا دو ماہ بھرتی ہونے والے تربیتی کیمپ میں گزارے گا، لیکن توقع کے برعکس تین دن بعد جب وہ بیرک کے احاطے میں تھا، دفعتاً کسی نے اس کا نام پکارا اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے، اس نے خود کو ان دیگر گیارہ لیفٹیننٹوں میں پایا جو مختلف افسران کے اسکولوں سے مکیراٹا پہنچے تھے۔

    ”تو اب کہاں؟ کیوں؟“

    ”اوپر، ہال میں کرنل صاحب انتظار کر رہے ہیں۔“

    کارابینیری کا کرنل بیرکوں کے کمانڈنٹ کے طور پر فرائض سر انجام دیتا تھا۔ اس نے جوں ہی پہلا لفظ منہ سے نکالا۔ مارینو لرنا سمجھ گیا کہ انہیں بھیجنے کا حکم مل چکا ہے۔ وہ کاغذات سے ڈھکی ایک بڑی میز کے سامنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ ان کی آنکھیں ابھی باہر چمکتے جون کے سورج کی روشنی میں سے آ کر ہال کی دھندلی اداس روشنی کی عادی نہیں ہوئی تھیں۔ وہ بس کرنل کی وردی کے کالر پر لگے چاندی کے بَیجوں، اس کے گھوڑے جیسے لمبے گلابی چہرے کے خد و خال اور گھڑ سوار سپاہی کی طرح دو حصوں میں بٹی ہوئی بڑی مونچھوں کو پہچان رہے تھے۔

    آغاز میں مارینو اپنے احساس اور خیالات کے ہجوم میں تیز اور کرخت آواز میں کہے گئے الفاظ کا مفہوم نہیں سمجھ سکا۔ پھر اپنی توجہ مرکوز کی۔ ہاں، یہی بات تھی، اگلی شام کو نکلنے کا حکم دیا جا رہا تھا۔ سب جانتے تھے کہ بارہویں رجمنٹ کی بٹالین پوڈگورا کے قریب ایک انتہائی خطرناک اور مشکل پوزیشن پر قابض ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ بے شمار اور بے نتیجہ حملوں میں بہت سے جوان افسر مارے گئے تھے۔ اس لیے فوری طور پر نفری بھیجنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

    جوں ہی نوجوان افسروں کو کرنل سے خلاصی ملی۔ ان کا اندرونی تناؤ حیرت انگیز طور پر بے حسی کی شکل میں جھلکنے لگا، جیسے وہ ہڑبڑا کر رہ گئے ہوں، لیکن پھر اچانک ان پر گہری شوخی کی لہر دوڑ گئی۔ تاہم جلد ہی وہ ہوش میں آئے اور ایک دوسرے کو یقین دلانے لگے کہ ان کی خوشی خالص اور سچی ہے۔ ایک کے علاوہ ہر کسی نے اکیلے یا ٹولی کی شکل میں ٹیلی گراف کے دفتر جانے اور محتاط لفظوں میں اپنے رشتہ داروں کو متوقع روانگی کے بارے میں مطلع کرنے کا فیصلہ کیا۔

    وہ ان اَسّی زیرِ تربیت افسران میں سے ایک تھا، جنہوں نے مارینو لرنا کے ساتھ روم کے آفیسرز اسکول سے گریجویشن کیا تھا اور انہیں بارہویں رجمنٹ میں تفویض کیا گیا تھا، وہ ”ساری“ کی عرفیت سے مشہور تھا۔ ساری، نوجوان مارینو کو بطور رفیقِ کار پسند نہیں کرتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ قسمت نے جان بوجھ کر اسے رومن افسر اسکول سے منتخب کیا اور اس رجمنٹ میں بھیج دیا ہے۔ ساری کے پاس روانگی کی اطلاع دینے والا کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے تین دن میکراٹا میں ایک ساتھ گزارے تھے۔ اگرچہ اس دوران مارینو نے اس کے بارے میں اپنی رائے مکمل طور پر تبدیل نہیں کی تھی، اس کے باوجود وہ بہتر برتاؤ کرنے لگا تھا، غالباً اس لیے کہ ساری نے تنہائی میں اس تحقیر آمیز رویے کو ترک کر دیا تھا، جس کے باعث اس کی کمپنی اسے ناپسند کرتی تھی۔

    مارینو لرنا کو احساس ہو گیا تھا کہ ساری کی نفرت اس کے مزاج اور فطرت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ عام میلان رکھنے والے لوگوں کے ساتھ چلنا نہیں چاہتا تھا، بلکہ کسی بھی قیمت پر اور ہر صورت میں ہجوم سے الگ رہنا چاہتا تھا۔ وہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ اس کی سوچ عام افراد کی طرح نہیں ہے، بلکہ ان سے مختلف ہے اور کامریڈ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں، اسے اس کی کوئی پروا نہیں۔ مختصر یہ کہ ساری کی ذات اس قدر ناپسندیدہ نہیں تھی، جس طرح اس نے خود کو پیش کیا تھا۔ اسے اس پر فخر بھی تھا۔ ساری متمول دنیا میں اکیلا تھا، اس لیے وہ جو چاہے کر سکتا تھا۔

    ساری روم سے اپنے ساتھ ایک خوش مزاج لڑکی بھی میکراٹا لے آیا تھا، جسے اس نے تین ماہ تک ساتھ رکھا۔ وہ کمپنی کے ساتھیوں میں اچھی طرح جانی جاتی تھی۔ ساری کو توقع تھی کہ وہ کم از کم ایک ماہ عقب میں رہے گا اور اس دوران جسمانی اور ہر طرح کی لذتوں سے لطف اندوز ہو گا۔ ساری کو یہ بھی یقین تھا کہ اس کا مقدر محاذ پر مرنا ہے۔ مزید برآں اسے یہ خیال ناقابلِ برداشت محسوس ہوتا تھا کہ جنگ کے خاتمے پر اسے ہیروز اور ان کے مداحوں سے بھرے ملک میں رہنا پڑے گا۔

    مارینو لرنا نے ٹیلی گراف کے دفتر جاتے ہوئے دیکھا کہ ساری کہیں نہیں جا رہا تو پوچھا۔ ”تم نہیں جا رہے؟“ ساری نے کندھے اچکائے۔

    ”میرا مطلب۔۔ میں یہ کہنا چاہتا تھا۔“ مارینو نے اپنے مضحکہ خیز سوال پر شرمندہ ہوتے ہوئے خود کو سنبھالا، ”دراصل، میں تم سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔“

    ”مجھ سے کیوں؟“

    ”مجھے نہیں معلوم۔۔ لیکن تم نے دیکھا ہوگا، تین دن پہلے جب میں روم چھوڑ رہا تھا تو میں نے اپنے والدین کو امید دلائی تھی۔“

    ”کیا تم ان کے اکلوتے بیٹے ہو؟“

    ”ہاں۔“

    ”اوہ، مجھے افسوس ہے۔“

    ”میں نے انہیں امید دلائی تھی کہ ایک ماہ سے پہلے مجھے محاذ پر نہیں بھیجا جائے گا اور وعدہ کیا تھا کہ جانے سے پہلے ان سے ضرور ملوں گا۔“

    ”آخری بار۔۔۔“ اس کی نوک زبان پر چلا آیا تھا، لیکن وہ رک گیا۔

    ساری مسکرایا۔ ”کہو کہو، آخری بار!“

    ”اچھا، تم کیا ہو یار۔ خدا نہ کرے، آخری بار نہیں۔“

    ”اچھا ٹھیک ہے، پھر؟“

    ”والد نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ اگر چھٹی نہ دی گئی تو میں پیشگی اطلاع دوں گا، تاکہ وہ اور ماں یہاں آ کر مجھے الوداع کہہ سکیں۔ اب پتہ چلا ہے کہ ہم کل شام پانچ بجے روانہ ہو رہے ہیں۔“

    ”اگر وہ آج شام کی ٹرین پکڑ لیتے ہیں تو کل صبح سات بجے یہاں ہوں گے اور پورا دن تمہارے ساتھ گزار سکتے ہیں۔“ ساری نے کہا۔

    ”تو تم مجھے اس کا مشورہ دے رہے ہو؟“ مارینو نے پوچھا۔

    ”نہیں!“ ساری نے کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہا، ”مجھے بتاؤ، کیا تم اتنے خوش قسمت تھے کہ بنا آنسوؤں کے چلے آئے تھے؟“

    ”نہیں، ماں رو رہی تھی۔“

    ”پھر یہ تمہارے لیے کافی نہیں ہے؟ تم اسے دوبارہ روتا دیکھنا چاہتے ہو؟ انہیں بتاؤ کہ ہم آج رات جا رہے ہیں اور ابھی الوداع کہہ دو۔ یہ تمہارے اور ان کے لیے بہتر ہوگا۔“

    پھر یہ دیکھ کر، کہ مارینو لرنا ہچکچاہٹ کا شکار ہے، وہ بولا، ”میں نینا کو بتاؤں گا کہ ہم جا رہے ہیں۔ اسے ہنسی آئے گی۔ وہ مجھ سے پیار کرتی ہے۔ اگر اس نے رونے کا سوچا تو میں اسے ماروں گا۔“ یہ کہہ کر ساری چلا گیا۔

    مارینو لرنا ٹیلی گراف کے دفتر پہنچا۔ وہ ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ ساری کے مشورے پر عمل کرنا چاہیے یا نہیں۔ وہاں اسے ایسے کئی کامریڈ ملے جو الوداعی ٹیلی گرام بھیج رہے تھے۔ مارینو نے بھی ایسا ہی کیا، لیکن پھر اسے خیال آیا یہ بے چارے ماں باپ کے ساتھ دھوکہ ہے اور فوراً دوسرا ٹیلیگرام بھیج کر تجویز دی کہ اگر وہ آج شام دس بجے کی ٹرین سے روانہ ہو جائیں تو وقت پر پہنچیں گے اور اسے الوداع کہہ سکے گے۔

    مارینو لرنا کی ماں ایک سخت اور مربیانہ رویے کی حامل خاتون تھیں جو اب بھی اکثر صوبے میں پائی جاتی ہیں۔ لمبی اور پتلی دبلی، ایک موٹے کارسیٹ میں ابھرے ہوئے سینے کے ساتھ، ان کی تیز اور بے چین آنکھیں چوہے کی آنکھوں سے مشابہت رکھتی تھیں۔ جب وہ یونیورسٹی میں داخل ہوا تو انہوں نے اکلوتے بیٹے کی بے پناہ محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ابروزو میں اپنا آرام دہ پرانا گھر چھوڑ دیا تھا، تاکہ اس سے جدا نہ ہوں اور دو سال قبل دارالحکومت چلی آئیں۔ جہاں وہ اب انتہائی بے آرامی محسوس کر رہی تھیں۔

    ٭٭٭
    اگلی صبح وہ اس حالت میں مکیراٹا پہنچیں کہ مارینو کو انہیں بلانے پر افسوس ہوا۔ وہ ’نہیں نہیں۔۔‘ کی تکرار کرتی تیزی سے گاڑی سے اتریں اور اس کے سینے سے لگ کر سسکیاں لینے لگی۔

    ”ایسا مت کرو، رینوچیو۔ ایسا مت کرو۔“ باپ نے سخت نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر اس کے شانے پر تھپکی دی اور بولا، ”تم مرد ہو۔ مرد نہیں روتے۔“

    اس نے روم میں روانگی سے پہلے ایک اجنبی سے بات چیت کی تھی، جس کا بیٹا جنگ کے آغاز سے محاذ پر تھا اور گھر میں اس کے دو چھوٹے بچے تھے۔ بالکل ایک عام سی گفتگو اور کچھ نہیں۔۔ صرف دو والدین کے درمیان بات چیت اور کوئی نہیں رویا تھا۔

    تاہم اس نے سختی سے اپنی سوجی ہوئی آنکھوں میں آنے والی نمی کو روکنے کی کوشش کی، جس نے اس باوقار اور کسرتی جسم کے آدمی کو ذہنی تناؤ میں مبتلا کر دیا تھا، جس کے باعث وہ کچھ مضحکہ خیز اور سنجیدہ نظر آ رہا تھا۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ ماں کا بے قابو ہو کر رونا تھا۔ باپ انتہائی پرجوش تھا۔ وہ تمام وقت اس اجنبی آدمی کے ساتھ اپنی گفتگو کا ذکر کرتا رہا۔ جیسے اپنے جذبات کو چھپا رہا ہو۔ یہ سب ایک غیر متوقع نتیجہ پر ختم ہوا۔ ایسا لگتا تھا، جیسے اس نے سکون کی بناوٹی نقاب کے نیچے اپنے چہرے کو چھپا رکھا ہے اور اس درد کو پوری طرح محسوس کر رہا ہے جو ماں کے آنسوؤں کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور دل کی گہرائیوں میں بیٹے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ جیسا کہ ساری نے پیش گوئی کی تھی، الوداعیہ سب کے لیے فضول اور غیر ضروری اذیت میں بدل گیا تھا۔

    اپنے والدین کو ہوٹل لے جانے کے بعد مارینو لرنا کو فوراً بیرکوں کی طرف لوٹنا پڑا۔ جہاں سے وہ دوپہر کے قریب واپس آیا۔ اس کے پاس ہوٹل کے کمرے میں ناشتہ کرنے کا بمشکل وقت تھا۔ کیوں کہ ماں کی آنکھیں آنسوؤں سے سوجی ہوئی تھیں اور وہ ریسٹورنٹ میں نہیں جا سکتی تھی۔ وہ بمشکل اپنے پیروں پر کھڑی تھی، پھر اسے آخری ہدایات کے لیے دوبارہ بیرک بھاگنا پڑا۔ چنانچہ ماں باپ نے اسے جانے سے چند منٹ قبل دوبارہ دیکھا۔

    جب وہ تنہا رہ گئے تو باپ نے ماں کو محتاط لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ کافی دیر تک آہیں بھرتے اور کانپتے ہاتھوں سے اپنے ہونٹوں کو چھوتے ہوئے اٹک اٹک کر توجہ سے باتیں کرتا رہا، ”رینوچیو۔۔ کیا اس طرح رونا ٹھیک ہے؟ خدا نہ کرے۔ جو کچھ ہو۔۔۔ ہو سکتا ہے، رجمنٹ کو دوسرے محاذ پر منتقل کر دیا جائے۔ وہ پہلے دن سے اگلے محاذ پر ہے۔ علاوہ ازیں اگر دشمن مارے گئے تو۔۔ یہ سب ختم ہو جائے گا۔۔ بلکہ۔۔ وہ ذرا سا زخمی ہو جائے۔ مثال کے طور پر ہاتھ پر۔ خدا ہمارے بیٹے کی مدد کرے گا۔۔ اسے رو کر کیوں تکلیف پہنچائی جائے؟ ہاں ہاں۔۔۔ رینوچیو، یہ درد بھری سسکیاں اس کے لیے تکلیف دہ ہیں۔۔ وہ پریشان ہوگا۔“

    لیکن ماں نے کہا، ”میں قصوروار نہیں۔ یہ سب آنکھوں کا کیا دھرا ہے۔ ہاں آنکھیں۔۔ تم ان کا کیا کر سکتے ہو؟ اس کی ہر بات، ہر عمل عجیب اثر ڈال رہا ہے، جیسے یہ سب کچھ ماضی میں ہوا ہو۔۔ کیا تم سمجھ رہے ہو؟ ہر لفظ۔۔ میرے کانوں میں ایسے آتا ہے، جیسے ماضی سے جڑا ہو۔۔ جیسے وہ اب نہیں بول رہا، بلکہ ماضی میں بول چکا ہو۔۔ مجھے۔۔۔ مجھے ایسا لگتا ہے وہ پہلے ہی جا چکا ہے۔۔ میں کیا کر سکتی ہوں؟ اوہ خدا، اوہ خدا۔“

    ”کیا یہ گناہ نہیں ہے؟“

    ”ہوش میں آؤ! کیا کہہ رہے ہو؟“

    ”میں کہتا ہوں کہ یہ گناہ ہے۔ میں ہنسوں گا۔۔ تم دیکھنا، میں ہنسوں گا، جب وہ چلا جائے گا۔“

    ایسا لگتا تھا کہ وہ ضرور جھگڑا کریں گے۔ بیٹا ابھی گیا نہیں تھا کہ وہ انگاروں پر لَوٹنے لگے تھے۔ ٹھیک ہے، کیا اعلیٰ افسران نہیں سمجھتے کہ وہ آخری لمحات بے چاری ماں اور غمزدہ باپ کے ہونے چاہئیں؟

    جب مارینو کے ساتھی ایک ایک کر کے ہوٹل پہنچنے لگے تو انتظار کی اذیت ناقابلِ برداشت ہو گئی۔ نوجوان افسروں نے عجلت میں اپنا سامان باندھا اور فوراً اسٹیشن کی طرف بھاگے۔ پورٹروں نے ڈبوں، بوریوں، اوور کوٹوں اور کرپانوں کو نیچے اتارا اور عملہ بھی تیزی سے اسٹیشن کی طرف روانہ ہو گیا۔

    مارینو بیرک سے نکلنے والا تقریباً آخری آدمی تھا۔ وہ اپنے فیلڈ جوتے لینے کے لیے دوڑا جو اس نے ایک دن پہلے مرمت کے لیے دیے تھے۔ اسے دیر ہو چکی تھی۔ اسے بہت جلدی کرنی پڑی، لیکن جب وہ اور اس کے والدین اسٹیشن پر پہنچے تو ٹرین کے دروازے بند ہو رہے تھے۔ اس کے پاس بمشکل چھلانگ لگانے کا وقت تھا۔ ساتھیوں نے اسے پکڑ لیا اور اسی لمحے ٹرین چل پڑی، چیخ و پکار کرتے اور روتے ہوئے لوگوں نے ہاتھوں میں پکڑے رومال اور ٹوپیاں لہرائیں۔

    سینورا لرنا آخری لمحے تک اپنی ٹوپی لہراتا رہا۔ حالاں کہ اسے یقین نہیں تھا کہ بیٹا اسے دیکھ رہا ہے اور جب اس حقیقت سے جھلا کر کہ اسے مارینو کو الوداع کہنے کے لیے کافی وقت نہیں ملا، وہ اپنی بیوی کی طرف متوجہ ہوا تو اسے اپنے قریب نہ پایا۔ وہ بے ہوش ہو گئی تھی اور اسے انتظار گاہ میں لے جایا گیا تھا۔

    ٭٭٭
    کچھ ہی دیر میں اسٹیشن پرسکون ہو گیا۔ پلیٹ فارم پر اب کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ موسمِ گرما کی دوپہر کے چمکدار سورج کے نیچے صرف پٹریاں چمک رہی تھیں اور کچھ فاصلے پر آپ ٹڈوں کی مسلسل سرسراہٹ سن سکتے تھے۔ الوداع کہنے والوں کے ساتھ عملہ شہر واپس چلا گیا۔ جب مارینو کی ماں کو ہوش آیا اور محسوس کیا کہ وہ ہوٹل واپس جا سکتی ہیں تو اسٹیشن پر کوئی کوچوان نہیں ملا۔ اسٹیشن گارڈ کو اس پر ترس آیا اور رضا کارانہ طور پر قریبی گیراج میں اومنی بس لینے کے لیے چلا گیا، جو غالباً پہلے ہی شہر سے واپس آ چکی تھی۔

    آخری لمحات میں جب تھکی ہوئی رینوچیو کو اومنی بس میں لے جایا جا رہا تھا اور بس روانہ ہونے ہی والی تھی، گلابوں سے سجی تنکوں والی ٹوپی پہنے ایک نوجوان سنہرے بالوں والی لڑکی نے معلوم نہیں کہاں سے دروازے پر قدم رکھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی اور اس نے عجیب کھلا لباس پہن رکھا تھا، اس کی پلکیں اور ہونٹ رنگے ہوئے تھے، مگر وہ سسک سسک کر رو رہی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ میں نیلے رنگ کا ایک چھوٹا کڑھائی والا رومال پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے شرمسار ہو کر اپنا دایاں گال چھپا رکھا تھا، جس پر تھپڑ کا ایک خوفناک سرخ نشان نظر آ رہا تھا۔

    یہ وہی نینی تھی، جسے لیفٹیننٹ ’ساری‘ روم سے لایا تھا۔ مارینو لرنا کے والد کو فوراً احساس ہو گیا کہ یہ سنہرے بالوں والی لڑکی کس قسم کا پرندہ ہے۔ ماں نے بہرحال اندازہ نہ کیا اور اپنے سامنے ایک عورت کو اپنی طرح آنسو بہاتے دیکھ کر پوچھنے سے گریز نہ کر سکی، ”کیا اس نے اپنے شوہر کو رخصت کیا ہے؟“

    اس نے ننھے سے رومال سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے انکار میں سر ہلایا۔

    ”بھائی؟“ مارینو کی ماں نے پوچھا۔ یہاں آدمی نے غیر محسوس انداز میں اسے اپنی کہنی سے ٹہوکا دیا۔ لڑکی نے یقیناً دیکھ لیا ہوگا یا محسوس کر لیا ہوگا کہ بوڑھے کے اشارے سے اب زیادہ دیر اس کے بارے میں غلط فہمی قائم نہیں رہے گی، لہٰذا اس نے کوئی جواب نہیں دیا، لیکن اس کے ساتھ ہی اسے کچھ اور احساس بھی ہوا جو بہت زیادہ پریشان کن تھا۔ اسے لگا کہ اس نے اپنی ماں کو رونے نہیں دیا تھا۔ اب یہ بوڑھی عورت اپنے آنسوؤں کو اس کے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہی تھی، لیکن کیا اس کے آنسو سچے نہیں ہیں؟

    کیا یہ تکلیف سے نہیں نکلے، کیا ماں کے آنسو قابلِ فہم اور فطری درد سے زیادہ بھرپور ہیں؟ روم میں نینی صرف ساری کے ساتھ ہی نہیں تھی۔ اس کا تعلق اسکول کے افسروں، اس کے بہت سے ساتھیوں اور کون جانتا ہے شاید اس نوجوان سے بھی تھا، جس کے لیے بوڑھی ماں رو رہی تھی۔ آج بھی اس نے ان میں سے دس کے ساتھ لنچ کیا۔ یہ ایک حقیقی بدمستیوں کی محفل تھی، جس میں اس نے ہر چیز کی اجازت دے دی، انہیں وہ کرنے دیا جو وہ چاہتے تھے۔

    کیوں کہ وہ پاگل ہو رہے تھے۔ وہ پیارے لڑکے جنگ میں جانے سے پہلے سب کچھ فراموش کر دینا چاہتے تھے۔ آخر میں وہ اس کی چھاتیوں کو وہیں ٹریٹوریا میں سب کے سامنے عریاں کرنا چاہتے تھے۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ وہ کتنی مخروطی اور تقریباً نوعمر لڑکی جیسی ہیں۔ وہ جنونی ان پر شیمپین چھڑکنے پر آمادہ تھے۔ اس نے انہیں سب کچھ کرنے کی اجازت دی، تاکہ وہ اپنے ساتھ اس کے جسم کی زندہ یادوں کو جو محبت کے لیے بنایا گیا ہے، جنگ میں لے جائیں۔

    آہ۔۔ وہ خوبصورت بیس سالہ نوجوان۔ جنہیں کل موت نے ایک ایک کر کے اپنے ساتھ لے جانا تھا۔ وہ ان کے ساتھ زور زور سے قہقہے لگاتی رہی اور پھر۔۔ اوہ خدا۔۔۔ جب وہ انہیں آخری بوسے دے رہی تھی تو رونے لگی۔ تب اسے ’ساری‘ کی طرف سے وہ زور دار تھپڑ لگا جو اس کے گال کو اب بھی ڈنک کی طرح چبھتا تھا، لیکن نہیں، وہ اس سے بالکل ناراض نہیں تھی۔

    لہٰذا اسے بھی حق حاصل ہے کہ وہ بوڑھی ماں کو ناراض کیے بغیر اپنے آنسو بہائے۔ یہ سچ تھا کہ ماں نے اسے رونے سے نہیں روکا، لیکن نینی نے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کی تاکہ وہ پریشان نہ ہو، لیکن یہ مشق بیکار تھی۔ اس نے آنسوؤں کو جتنی سختی سے روکا، وہ اتنی ہی شدت سے بہہ نکلے۔ بالآخر اس نے تھک کر آنسو پیتے اور کراہتے ہوئے کہا، ”خدا کے لیے۔۔ خدا کے لیے۔۔۔ رینوچیو! میں اپنے لیے نہیں رو رہی۔ میرے یہ آنسو۔۔۔ مجھے بھی رونے کا حق ہے۔ آپ اپنے بیٹے کا نوحہ کریں۔ اور میں۔۔۔ میں دوسرے کا۔ جس نے مجھے رونے پر مارا۔ آپ ایک کے لیے روتی ہیں۔۔ اور میں سب کے لیے۔۔۔ مجھے سب کے لیے افسوس ہے۔ آپ کے بیٹے۔۔۔ اور سب۔ سب۔۔۔“

    اس نے اپنے ہاتھوں سے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ وہ ماں کی سخت نگاہوں کو برداشت کرنے سے قاصر تھی جو غیرت اور مذمت سے بھری ہوئی تھیں اور جو تمام مائیں اپنی اولاد کی عورتوں کے لیے محسوس کرتی ہیں۔ ماں بیٹے کے جانے سے پریشان تھی۔ اسے سکون اور خاموشی کی ضرورت تھی۔ لڑکی نے اسے نہ صرف ناراض کیا تھا، بلکہ ایذا بھی پہنچائی تھی۔ خوش قسمتی سے اسٹیشن سے شہر زیادہ دور نہیں تھا۔ جیسے ہی اومنی بس رکی وہ اپنے ہم سفروں کی طرف دیکھے بغیر اتر گئی۔

    اگلے دن رینوچیو لرنا اور اس کے شوہر روم واپس اپنے گھر جا رہے تھے۔ فیبریانو اسٹیشن پر درجہ اول کے ڈبے کی کھڑکی سے انہوں نے دیکھا کہ ایک سنہرے بالوں والی مسافر لڑکی کو ڈبے میں خالی نشست کی تلاش ہے۔ اس کے ساتھ ایک نوجوان تھا۔ وہ پھولوں کا گلدستہ پکڑے ہنس رہی تھی۔ رینوچیو لرنا اپنے شوہر کی طرف متوجہ ہوئی اور بلند آواز میں بولی، تاکہ سنہرے بالوں والی سن لے، ”اوہ! دیکھو یہ وہی ہے، جس نے سب کا نوحہ کیا تھا۔“

    لڑکی خاموشی سے مڑی اور بنا غصے یا جھنجھلاہٹ کے اس کی طرف دیکھنے لگی۔

    ”بیچاری ماں۔۔ مہربان اور بے وقوف۔“ جیسے اس کی شکل پر لکھا تھا۔ ”کیا آپ نہیں سمجھتی کہ یہ زندگی کیا ہے؟ کل میں ایک کے لیے روئی تھی۔ آج مجھے کسی اور کے لیے ہنسنا ہے۔“

    (اطالوی ادب سے لیوگی پیراندیلو کا افسانہ جس کے مترجم جاوید بسام ہیں)

  • ظالم محبّت

    ظالم محبّت

    دوسرے دن میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ حسین صبح اپنی سحر انگیز آنکھوں کو کھول رہی ہے۔ باغ کی طرف کے دریچے کھلے ہوئے تھے اور آفتاب کی اچھوتی کرنیں گرجنے والے نیلے سمندر پر مسکرا رہی تھیں۔ باغیچے میں راگ گانے والے پرند مصروفِ نغمہ تھے مگر میرا دل اس دل فریب صبح میں بھی پریشان تھا۔

    میں نے سرہانے کی کھڑکی کا سنہرا پردہ ہٹایا اور جھانک کر باغ میں دیکھنے لگی۔

    عین دریچے کے نیچے ایک بڑا سا سرخ گلاب بہار کی عطر بیز ہواؤں میں والہانہ جھوم رہا تھا۔ نہ جانے زندگی کی کون سی تفسیر بیان کررہا ہے! کسے معلوم محبت کے کس پیچیدہ مسئلہ کی تشریح کررہا ہے! میں نے پریشان لہجہ میں اپنے آپ سے کہا۔ اتنے میں پردہ ہٹا۔ دیکھا تو زوناش (بوڑھی حبشی خادمہ) اپنی موٹی کمر سمیت اندر داخل ہورہی ہے: "خاتون روحی!” اس نے قدرے حیران ہوکر کہا۔

    "آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئیں؟ بیگم زبیدہ ناشتہ کے لئے آپ کا انتظار کررہی ہیں۔”

    صبح کے وقت میں کچھ زیادہ تنک مزاج ہوتی ہوں۔ زوناش سے خصوصاً کچھ چڑ سی ہوتی ہے۔ لہٰذا میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ جھک کر صوفے کے پیچھے سے ستار اٹھا لیا اور اس کے تاروں کو درست کرنے لگی۔ زوناش ایک خوش رنگ ایرانی قالین پر کھڑی مجھ سے سوال پر سوال کئے جارہی تھی۔ اتنے میں دادی زبیدہ کی خادمہ صنوبر اندر آئی۔ خاتون روحی، چائے تیار ہے بیگم آپ کی منتظر ہیں۔

    میں ایک بیزار ادا سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ قد آدم آئینہ کے آگے کھڑی بالوں پر ایک پن لگا رہی تھی کہ ایک خیال نے مجھے چونکا دیا۔

    "زوناش! چائے کی میز پر دادی زبیدہ تنہا ہیں یا چشمی صاحب بھی موجود ہیں؟ مجھے کیا معلوم بی بی؟ زوناش کے ان روکھے سوکھے جوابوں سے مجھے دلی نفرت تھی۔ اور منیر کو رات بخار تو نہیں ہو گیا؟ کیسے رہے؟ یہ سوال میں نے مصلحتاً کیا۔

    "نہیں۔ وہ اچھے ہیں۔” میں تبدیلیٔ لباس کے بعد چپ شاپ نچلی منزل میں آگئی۔ دیکھا تو دادی زبیدہ ایک نفیس ریشمی لباس میں بیٹھی ناشتہ کے لئے میرا انتظار کر رہی تھیں۔ ایک ہاتھ فاختائی رنگ کے دستانہ میں ملفوف تھا۔ دوسرا دستانہ سے خالی تھا۔ اس کی انگلیوں میں سگریٹ پکڑ رکھا تھا جس کا مسلسل دھواں اٹھ اٹھ کر دائرہ کی شکل میں گھوم رہا تھا۔ سامنے حسبِ عادت اخبار پڑا تھا جسے وہ کبھی کبھی پڑھ لیتی تھیں۔ میں نے جاکر انہیں پیار کیا۔ آداب دادی جان پیاری! آداب۔ تم بڑی دیر میں آئی پیاری۔ میں سویرے اٹھ گئی تھی۔ نماز میں کچھ دیر لگ گئی۔ یہ کہہ کر میں نے اپنے مقابل والی خالی کرسی پر نگاہ ڈالی۔ پھر کچھ تأمل کے بعد پوچھا، چشمی صاحب کہاں ہیں؟ کیا وہ چائے پی چکے؟ وہ آج صبح سے باہر گئے ہوئے ہیں۔ دادی زبیدہ نے بے پروائی سے کہا: مربہ لو گی؟ لے لوں گی۔ وہ کہاں گئے ہیں دادی جان؟ میں نے بے چین ہوکر پوچھا۔

    یہ لو گاجر کا حلوا۔ اور یہ شہتوت کا مربہ۔ اس موسم میں صبح کے ناشتہ پر تازہ پھل ضرور کھانے چاہئیں۔ انناس کے قتلے لے لو۔ میں نے بادلِ ناخواستہ ایک ٹکڑا لیا اور چھری سے کاٹ کر کھانے لگی۔ دو منٹ بعد ہمت کر کے وہی سوال دہرایا۔ تو چشمی صاحب کہاں گئے ہیں دادی جان؟

    جو انناس تم کھا رہی ہو وہ ترش تو نہیں؟ اگر ترش ہو تو کیلا لے لو۔ چشمی صاحب کشتی کی سیر کے لئے گئے ہیں۔ غریب دن رات منیر کے کمرہ میں رہتا ہے۔ آج اس نے چھٹی منائی۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس لڑکے کو نہایت شریف پایا۔ یہ انجیر لو بیٹی۔

    میں چپ تھی اور سوچ رہی تھی ۔ منیر کی تیمار داری نے آخر چشمی کو مضمحل کر دیا۔ میں جانتی تھی کہ دوسرے کی تیمار داری ایک دن خود انہیں بیمار کر ڈالے گی۔ میں نے دبی زبان سے پوچھا: "تو کیا چشمی صاحب علیل ہیں دادی جان؟”

    "نہیں۔ ویسے ہی تفریحاً باہر گئے ہیں۔ لڑکی! تمہاری آنکھیں گلابی ہو رہی ہیں۔ طبیعت کیسی ہے؟” "جب سے یہاں آئی ہوں طبیعت کچھ سست سی رہتی ہے ، دادی جان۔”

    دادی زبیدہ نے فکر مندی کے الفاظ میں کہا۔ "سمندر کی ہوا تمہارے لئے مفید ہوتی ہے۔ مجھے معلوم ہوتا تو میں چشمی صاحب سے التجا کرتی کہ تمہیں کشتی کی سیر کے لئے ساتھ لے جائیں۔ بڑا شریف آدمی ہے۔” مالک جانے میرا دل کیوں دھڑکنے لگا ۔ کشتی کی سیر! لہروں کی خاموش موسیقی! جھکی ہوئی خم دار ٹہنیوں کے سایہ میں چشمی جیسے ملاح کے ساتھ ایک نامعلوم آبی راستہ پر چلا جانا! یہ سب کچھ کس قدر رومان آفریں تھا۔

    "شام تک وہ لوٹ آئیں گے۔ میں ان کے ساتھ شام کو باہر جاسکتی ہوں دادی جان؟” میں نے بھولی شکل بناکر پوچھا۔ "ہاں کیوں نہیں مگر منیر سے پوچھ لو۔ منیر سے پوچھ لو!” میری خوشیوں کے افق پرایک سیاہ بدلی ابھرنے لگی۔

    ناشتہ کے بعد میں منیر کی مزاج پرسی کے لئے ان کے کمرے کی طرف گئی۔ دروازہ تک جا کر رک گئی ۔ کہیں چشمی نے اس بد نصیب آدمی کو میرا پیام پہنچا تو نہیں دیا۔ دل دھک سے رہ گیا۔ ڈرتے ڈرتے پردہ ہٹا کر اندر آگئی مگر آثار کچھ ایسے معلوم نہ ہوئے۔ کیونکہ مجھے دیکھ کر منیر کے چہرے پر وہی پرانی شگفتہ مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ نہ جانے کیوں اسے دیکھ کر میرا دل دکھا۔ کچھ دیر بعد میں نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو ملامت کی کہ میں کیوں اس سے محبت نہیں کر رہی، کیا باوجود کوشش کے میں اس سے محبت نہ کر سکوں گی؟ اپنے منسوب سے!! اپنے ظلم پر خود اپنی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور میں نے چہرہ دریچہ کی طرف پھیر لیا۔ پھر بڑی ملائمت سے سوال کیا:

    "منیر! آج تم بہت شگفتہ نظر آرہے ہو ۔ کہو رات کیسی کٹی؟ ”

    "شکریہ! بہت اچھی کٹی۔ نیز محسوس کررہا ہوں کہ صحت بڑی سرعت سے مجھ پر عود کر رہی ہے۔” اسی وقت دادی جان اندر آئیں اور کہنے لگیں: "خدا نے چاہا تو ایک ہفتہ میں بالکل تندرست ہوجاؤ گے۔ پھر انشاء اللہ میں تم دونوں کو ایّام عروسی بسر کرنے کوہ فیروز کے پُر فضا مرغ زاروں میں چھوڑ دوں گی۔” منیر مسکرا پڑا۔ میں دور کہیں فضا میں تک رہی اور تشنج کی سی کیفیت محسوس کررہی تھی۔

    کچھ دیر بعد دادی زبیدہ چہل قدمی کے لئے باہر چلی گئیں اور کمرے پر موت کی سی خاموشی طاری ہوگئی۔ ہم دونوں اپنے اپنے خیالات میں غرق تھے۔ ایک ڈوب ڈوب کر ابھر رہا تھا، دوسرا ابھر ابھر کر ڈوب جاتا تھا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے منیر کو دیکھا۔ وہ بغور مجھے تک رہا تھا۔ اس کے گلابی ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور اس کا نوجوان چہرہ وفور مسرت سے آفتاب کی طرح دمک رہا تھا۔ وہ مجھ پر جھک کر کہنے لگا۔ "تمہیں کوہ فیروز کے مرغ زار پسند ہیں؟”

    "بہت منیر!” دھڑکتے ہوئے دل سے میں نے کہا۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ میرے کندھے پر رکھ دیا۔ نہایت دھیمے لہجہ میں بولا: "میری جان! زندگی کی کلی ایسے ہی مرغزاروں میں کھل کر پھول بنتی ہے۔ روحی اس دن کا خیال کرو جس دن ہم دونوں۔۔۔ پھولوں سے سجے ہوئے پھلوں سے لدے ہوئے باغیچوں میں چنبیلی کی معطر بیلوں تلے ایک دوسرے کی محبت کا اعتراف کریں گے۔”

    میرے دل پر ایک تیر سا لگا کیونکہ میں ابھی تک اس کشتی کا خواب دیکھ رہی تھی جس کا ملاح چشمی تھا۔ دو منٹ بعد مجھے اپ نی خاموشی کا احساس ہوا۔ بولی: "واقعی منیر! باغیچوں میں چنبیلی کی بیلوں تلے محبت کا رات گانا بے حد پرلطف ہوگا۔”

    "اور پھر ہم دونوں”۔۔۔ منیر نے جملہ ختم نہ کیا۔ مگر "ہم دونوں” کے لفظ نے میرے کاہیدہ جسم میں ایک ارتعاش پیدا کردیا۔ کون دونوں۔۔۔؟ منیر اور میں۔۔؟ یا دو محبت کرنے والے دل؟

    کچھ دیر بعد میں منیر کے کمرے سے باہر نکل آئی۔ باغ کے زینے پر کھڑی سوچتی رہی۔ آہ! میری زندگی کا پلاٹ کتنا عجیب ہے! اگر میں منیر سے نفرت کر سکتی تو میں ان الجھنوں میں مبتلا نہ ہوتی۔ اگر محبت کر سکتی تو ان تمام مصائب کا خاتمہ ہو جاتا! مگر آہ! اس شخص سے نہ میں محبت کر سکتی نہ نفرت! میرے دل میں منیر کے لئے ہمدردی موجود تھی۔ میں اپنے آپ کو اس کی گنہگار محسوس کر رہی تھی۔ آہ! گناہ کا احساس! محبت کی مجبوری!

    میں باغ میں چلی گئی اور فوارہ کے قریب ایک کوچ پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں بار بار نہر کی طرف دیکھ رہی تھی ۔ چشمی کی کشتی واپس آ رہی ہوگی مگر نہ آئی۔ جب دوپہر کی گرم ہوائیں چلنے لگیں تو میں اپنے کمرے میں آ گئی۔ بہت دیر ایک صوفے پر پڑے موجودہ حالات پر غور کرتی رہی۔ چشمی دوپہر کے کھانے پر بھی نہ آئے تو مجھے شبہ ہوا کہ وہ مصلحتاً گھر سے باہر رہنا پسند کرتے ہیں۔

    جب سائے ڈھل گئے اور ہواؤں میں دوپہر کے آفتاب کی تمازت کم ہوگئی تو میں بلاارادہ پھر باغ میں گھاٹ پر نکل آئی اور آنے والی کشتیوں کو غور سے دیکھنے لگی۔ میں انتظار کی درد انگیز خلش محسوس کر رہی تھی۔

    سورج زیتون کی ٹہنیوں کے اوپر تھا۔ کچھ دیر بعد وہ درختوں کی شاخوں تلے نظر آنے لگا۔ نہر کا پانی خالص سونے کی طرح سنہرا ہو گیا اور پورا باغیچہ دھوپ کی لہروں میں جگمگا اٹھا۔ دور۔۔ سنہری سنہری لہروں میں ایک ننھی سی نیلے رنگ کی کشتی نظر آنے لگی۔ میرا دل دھڑکا۔

    اللہ جانے کیوں یہ آج کل غیر معمولی طور پر دھڑکنے لگا تھا۔ کچھ دیر بعد میں گنگنانے لگی

    چشم قمر کو بھی مرے خوابوں پہ رشک ہے
    پیش نظر ترا رخ روشن ہے آج کل
    جس آستاں کو سجدۂ پرویں بھی بار تھا
    وہ آستاں جبیں کا نشیمن ہے آج کل

    بانس کے سر بلند درختوں پر ایک ہد ہد زور سے گا رہا تھا کہ اتنے میں وہ نیلی کشتی گھاٹ پر آ لگی۔ ادھر میرے دیکھتے دیکھتے چشمی اتر آئے۔ ان کی نظر مجھ پر پڑی۔”

    آپ یاں کیا کررہی ہیں خاتون روحی؟” انہوں نے بچوں کے سادہ لہجہ میں پوچھا۔

    لیکن میں کیا جواب دیتی؟ کیا یہ کہہ دیتی کہ آپ کے انتظار نے قریب المرگ کر رکھا تھا۔ توبہ توبہ۔ یہ کس طرح کہہ سکتی تھی۔ کچھ بوکھلا سی گئی۔ بولی: "میں؟ یوں ہی یہاں بیٹھی تھی۔ اندر بہت گرمی تھی۔ آج کا دن بڑا گرم رہا۔ آپ کہاں گئے تھے؟” یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی جاپانی وضع کی نارنجی چھتری کھول لی۔

    "میں ذرا دل بہلانے نکل گیا تھا۔”

    "ہاں” میں نے کہا۔

    "گھر میں وحشت ہوتی ہوگی۔ تیمار داری کوئی دل چسپ کام نہیں۔”

    "یہ آپ کیا فرماتی ہیں خاتون روحی!” چشمی نے مؤثر لہجے میں کہا۔ "منیر صاحب کی تیمار داری میرا ایک مرغوب فرض ہے۔ آپ نہیں جانتیں مجھے ان سے کتنی محبت ہے۔”

    "میں جانتی ہوں” میں نے سنجیدگی سے کہا۔ "آپ نہیں جانتیں” چشمی ہنس کر بولے: "اس کا اندازہ یا تو منیر لگا سکتے ہیں یا پھر میرا دل۔”

    میں اب بھی سنجیدہ تھی: "افوہ! اتنی گہری محبت ہے؟” یہ کہتے ہوئے میں نے ایک بے چینی سی محسوس کی اور اٹھ کھڑی ہوئی۔ چشمی نے میری وحشت کو محسوس کیا پھر کہنے لگے: "آپ گھبرائی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یہاں بہت گرمی ہے۔ شمشاد کے درختوں کی طرف چلیے، اس چبوترے پر ہمیشہ ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔” اس نے میرا بازو تھام لیا اور شمشاد کے درختوں کے پاس سنگ مرمر کے ایک سفید چبوترہ پر لے گیا۔

    "میں گھبرائی ہوئی نہیں ہوں، صبح سے ایک افسانہ لکھ رہی تھی۔ ایک جگہ پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں تو سوچنے کے لئے ادھر نکل آئی۔ کیا اپنے افسانہ کا پلاٹ آپ کو سناؤں؟ آپ کوئی رائے دے سکیں گے؟”

    "زہے نصیب!” چشمی نے کہا: "مگر میں صائب الرّائے نہیں۔ ویسے افسانے بڑی دل چسپی سے پڑھتا ہوں۔ فرمائیے۔”

    "تو سنئے!” میں نے کہا: "مگر افسانہ کچھ زیادہ رنگین ہے۔ آپ مجھ پر عریاں بیانی کا الزام تو نہ لگائیں گے۔”

    "میری مجال نہیں۔ میں موپاساں کے افسانے پڑھ چکا ہوں”۔ چشمی نے کہا۔
    "توبہ کیجئے۔ یہ افسانہ ایسا نہیں۔ اس کی عریانی میں بھی زندگی کا درد پوشیدہ ہے”۔

    "فرمائیے”۔

    میں نے احتیاطاً ایک دفعہ اور کہا: "مجھ پر شوخی کا الزام کسی طرح بھی نہیں لگ سکتا کیونکہ یہ پلاٹ میرا اپنا نہیں۔ میں نے کہیں سے لیا ہے۔ اس لئے اس کی کوئی ذمہ داری مجھ پر نہیں بلکہ اس کے مصنف پر عائد ہوتی ہے۔”

    "بالکل”۔ میں کہنے لگی: "افسانہ دو مردوں اور ایک عورت سے شروع ہوتا ہے۔”

    "اف!” چشمی نے کہا: "یہ پلاٹ بڑا خطرناک ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم میں۔۔۔”
    "ٹھہریے، دیکھئے چشمی صاحب! پہلے آپ پلاٹ سن لیجئے پھر آپ سے آپ کی رائے پوچھی جائے گی۔”

    "بہت اچھا!”

    "تو ایک عورت اور دو مرد۔ عورت اس مرد سے بے پروا ہے جو اس سے محبت کرتا ہے۔ مرد اس عورت کو نہیں چاہتا جس سے یہ عورت محبت کرتی ہے۔ تو ایسے موقع پر عورت کو کیا کرنا چاہئے؟” چشمی کہیں دور ہری ہری دوب کے اس پار سنہری لہروں کو دیکھ رہے تھے۔

    "میں زود فہم نہیں ہوں۔ اک دفعہ پھر آسان زبان میں کھول کر فرمائیے۔”

    کھول کر! یہ ظالم اس کتاب کو کھول کر پڑھنا چاہتا ہے! آہ۔۔۔ میں بولی: "آپ نہیں سمجھے۔ عورت اس مرد کو چاہتی ہے جس کے متعلق اسے خود خبر نہیں کہ وہ مرد بھی اس سے محبت کر رہا ہے یا نہیں اور اس مرد کو نہیں چاہتی جس کے متعلق اسے علم ہے کہ اس سے محبت کر رہا ہے۔ میں کسی قدر کانپ رہی تھی۔

    "اب میں سمجھ گیا”۔ چشمی نے دور کہیں فضا میں تکتے ہوئے کہا۔

    "تو پھر ایسے موقع پر عورت کو کیا کرنا چاہئے؟”

    "مگر سوال یہ ہے”۔ چشمی کہنے لگے: "عورت جس مرد کو چاہتی ہے اس کے متعلق اس کے پاس اس بات کا ثبوت کیا ہے کہ وہ مرد بھی اس پر جان نہیں دے رہا۔”

    "کیا۔۔۔؟” بیساختہ میں بول پڑی ۔ میرے چہرے پر سرخی دوڑ گئی: "آپ نے کیا کہا ؟وہ مرد؟۔۔۔”

    چشمی کے چہرے پر بے چینی اور اضطراب کی علامات نمودار ہوئیں، کہنے لگے: میں۔۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اپنے محبوب سے عورت کو گمان ہونے کے اسباب کیا ہیں؟”

    واقعی میرے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔ بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا: "تو۔۔۔ تو کیا وہ مرد بھی۔” اتنا کہہ کر میں یک لخت رک گئی۔

    "ہاں تو آپ چپ کیوں ہو گئیں؟ پورا پلاٹ سنا ڈالیے۔”

    "ختم ہو گیا۔” میں نے کہا: "بس اتنی ہی بات پوچھنی تھی۔ آج کئی دن سے اس پلاٹ کو سوچ رہی تھی کہ ایسے موقع پر عورت کو کیا کرنا چاہئے؟ کیا وہ مرد بھی۔ اس سے محبت کرتا ہے؟” میری آواز لرز گئی۔ میرا چہرہ کیلے کے نوخیز پتے کی طرح زرد پڑ گیا۔

    ہائے کبھی کاہے کو میں نے ایسی مصیبتیں اٹھائی تھیں؟ میرے معبود مجھ پر رحم کر۔ چشمی نے ایک گہری سانس لی۔ ان کے چہرے پر فکرمندی کے آثار تھے۔ سنجیدہ لہجہ میں بولے: "تو کیا عورت کو اس دوسرے مرد سے جس کی محبت کا اسے یقین نہیں، واقعی محبت ہے۔”

    "ہائے، ہاں۔ شدید شدید ہے چشمی صاحب !” میرے منہ سے نکل گیا۔ پھر میں سہم گئی۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔ دعا کے پیرایہ میں میرے ہونٹوں سے اک آہ نکل گئی کہ اے عشق! نسوانی خودداری کو اس طرح پامال نہ کرو۔ یہ سچ ہے کہ تیرے آہنی ہاتھوں نے شاہنشاہوں کے تاج چکنا چور کر دیے مگر ایک بے بس مظلوم لڑکی پر رحم کر۔ آہ محبت کی مجبوریاں!

    بڑی دیر تک ہم خاموش رہے۔ نارنجی رنگ کا بڑا سا آفتاب سمندر کی لہروں میں غرق ہونے لگا۔ باغ پر ایک افسردگی سی چھا گئی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے چشمی کی طرف دیکھا۔ ان کا چہرہ سفید ہو رہا تھا۔ ان کی گہری نیلی آنکھیں اداس نظر آ رہی تھیں۔ لیکن دفعتاً انہوں نے کہا:
    "آپ نے افسانہ کے تیسرے فرد کے متعلق کچھ نہیں پوچھا۔ اس کا کیا ہوگا؟”

    میں بوکھلا سی گئی۔ غم ناک لہجہ میں بولی: "یہ ایک نامکمل پلاٹ ہے چشمی صاحب۔ میں اسے ختم نہیں کر سکی۔ نہیں معلوم، اس پلاٹ کے اختتام پر کتنی زندگیوں کا انحصار ہے۔”

    میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ جھٹ میں نے چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔
    "ایسے پلاٹ عموماً بہت مشکل ہوتے ہیں خاتون روحی! بہرحال ایسی افسانوی باتوں پر آپ زیادہ غور نہ فرمایا کیجیے۔”

    "شعر اور افسانہ تو میری جان ہے اور اس پر غور کرنا میری زندگی۔” میں نے بمشکل کہا اور اٹھ کھڑی ہوئی: "چلیے دادی جان چائے پر انتظار کر رہی ہوں گی۔”

    (نوٹ:‌ بیسویں صدی کی حجاب امتیاز علی کا نام اردو فکشن نگاروں میں سرفہرست ہے۔ ان کی تحریروں کا دل کش انداز اور اردو زبان و ادب کی ترقی میں ان کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔ حجاب امتیاز علی کا یہ دل چسپ اور یادگار افسانہ "ظالم محبت” کے عنوان سے پہلی بار 1938 میں شائع ہوا تھا۔)

  • مچھلیاں مت پکڑنا!

    مچھلیاں مت پکڑنا!

    یہ جاتک کتھا اور تاریخی واقعات پر مبنی افسانہ ہے۔ سمندر کے کنارے ایک بستی ہے، اس بستی کے لوگ مچھلی کا شکار کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔ انھیں ایک خاص دن کو مچھلی پکڑنے سے منع کیا جاتا ہے، لیکن لوگ بات کو ان سنا کر کے مچھلی پکڑتے ہیں اور وہ بندر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ بس ایک شخص بچتا ہے جو بندر نہ بننے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔

    اردو کے ممتاز فکشن رائٹر اور منفرد حکایتی اسلوب کے حامل ادیب انتظار حسین نے یہ کہانی آخری آدمی کے عنوان سے تحریر کی تھی انتظار حسین وہ پہلے پاکستانی ادیب تھے جن کا نام مین بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا۔ ان کی کہانی پڑھیے۔

    الیاسف اس قریے میں آخری آدمی تھا۔ اس نے عہد کیا تھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور میں آدمی ہی کی جون میں مروں گا۔ اور اس نے آدمی کی جون میں رہنے کی آخر دم تک کوشش کی۔

    اور اس قریے سے تین دن پہلے بندر غائب ہو گئے تھے۔ لوگ پہلے حیران ہوئے اور پھر خوشی منائی کہ بندر جو فصلیں برباد اور باغ خراب کرتے تھے نابود ہو گئے۔ پر اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا کرتا تھا یہ کہا کہ بندر تو تمہارے درمیان موجود ہیں مگر یہ کہ تم دیکھتے نہیں۔ لوگوں نے اس کا برا مانا اور کہا کہ کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے اور اس نے کہا کہ بے شک ٹھٹھا تم نے خدا سے کیا کہ اس نے سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کیا اور تم نے سبت کے دن مچھلیوں کا شکار کیا اور جان لو کہ وہ تم سے بڑا ٹھٹھا کرنے والا ہے۔

    اس کے تیسرے دن یوں ہوا کہ الیعذر کی لونڈی گجر دم ، الیعذر کی خواب گاہ میں داخل ہوئی اور سہمی ہوئی الیعذر کی جورو کے پاس الٹے پاؤں آئی۔ پھر الیعذر کی جورو خواب گاہ تک گئی اور حیران و پریشان واپس آئی۔ پھر یہ خبر دور دور تک پھیل گئی اور دور دور سے لوگ الیعذر کے گھر آئے اور اس کی خواب گاہ تک جا کر ٹھٹھک ٹھٹھک گئے کہ الیعذر کی خواب گاہ میں الیعذر کی بجائے ایک بڑا بندر آرام کرتا تھا اور الیعذر نے پچھلے سبت کے دن سب سے زیادہ مچھلیاں پکڑی تھیں۔

    پھر یوں ہوا کہ ایک نے دوسرے کو خبر دی کہ اے عزیز! الیعذر بندر بن گیا ہے۔ اس پر دوسرا زور سے ہنسا، تو نے مجھ سے ٹھٹھا کیا۔ اور وہ ہنستا چلا گیا، حتٰی کہ منہ اس کا سرخ پڑ گیا اور دانت نکل آئے اور چہرے کے خد و خال کھینچتے چلے گئے اور وہ بندر بن گیا۔ تب پہلا کمال حیران ہوا۔ منہ اس کا کھلا کا کھلا رہ گیا اور آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں اور پھر وہ بھی بندر بن گیا۔

    اور الیاب، ابن زبلون کو دیکھ کر ڈرا اور یوں بولا کہ اے زبلون کے بیٹے تجھے کیا ہوا ہے کہ تیرا چہرا بگڑ گیا ہے۔ ابن زبلون نے اس بات کا برا مانا اور غصے سے دانت کچکچانے لگا۔ تب الیاب مزید ڈرا اور چلّا کر بولا کہ اے زبلون کے بیٹے! تیری ماں تیرے سوگ میں بیٹھے، ضرور تجھے کچھ ہو گیا ہے۔ اس پر ابن زبلون کا منہ غصے سے لال ہو گیا اور دانت بھینچ کر الیاب پر جھپٹا۔ تب الیاب پر خوف سے لرزہ طاری ہوا اور ابن زبلون کا چہرہ غصے سے اور الیاب کا چہرہ خوف سے بگڑتا چلا گیا۔ ابن زبلون غصے سے آپے سے باہر ہوا اور الیاب خوف سے اپنے آپ میں سکڑتا چلا گیا اور وہ دونوں کہ ایک مجسم غصہ اور ایک خوف کی پوٹ تھے آپس میں گتھ گئے۔ ان کے چہرے بگڑتے چلے گئے۔ پھر ان کے اعضا بگڑے۔ پھر ان کی آوازیں بگڑیں کہ الفاظ آپس میں مدغم ہوتے چلے گئے اور غیر ملفوظ آوازیں بن گئے۔ پھر وہ غیر ملفوظ آوازیں وحشیانہ چیخ بن گئیں اور پھر وہ بندر بن گئے۔

    الیاسف نے کہ ان سب میں عقل مند تھا اور سب سے آخر تک آدمی بنا رہا۔ تشویش سے کہا کہ اے لوگو! ضرور ہمیں کچھ ہو گیا ہے۔ آؤ ہم اس شخص سے رجوع کریں جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا ہے۔ پھر الیاسف لوگوں کو ہمراہ لے کر اس شخص کے گھر گیا۔ اور حلقہ زن ہو کے دیر تک پکارا کیا۔ تب وہ وہاں سے مایوس پھرا اور بڑی آواز سے بولا کہ اے لوگو! وہ شخص جو ہمیں سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا کرتا تھا آج ہمیں چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ اور اگر سوچو تو اس میں ہمارے لئے خرابی ہے۔ لوگوں نے یہ سنا اور دہل گئے۔ ایک بڑے خوف نے انہیں آ لیا۔

    دہشت سے صورتیں ان کی چپٹی ہونے لگیں۔ اور خد و خال مسخ ہو تے چلے گئے۔ اور الیاسف نے گھوم کر دیکھا اور بندروں کے سوا کسی کونہ پایا۔

    جاننا چاہیے کہ وہ بستی ایک بستی تھی۔ سمندر کے کنارے۔ اونچے برجوں اور بڑے دروازوں والی حویلیوں کی بستی، بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ کٹورا بجتا تھا۔ پر دم کے دم میں بازار ویران اور اونچی ڈیوڑھیاں سونی ہو گئیں۔ اور اونچے برجوں میں عالی شان چھتوں پر بندر ہی بندر نظر آنے لگے اور الیاسف نے ہراس سے چاروں سمت نظر دوڑائی اور سوچا کہ میں اکیلا آدمی ہوں اور اس خیال سے وہ ایسا ڈرا کہ اس کا خون جمنے لگا۔ مگر اسے الیاب یاد آیا کہ خوف سے کس طرح اس کی صورت بگڑتی چلی گئی اور وہ بندر بن گیا۔ تب الیاسف نے اپنے خوف پر غلبہ پایا اور عزم باندھا کہ معبود کی سوگند میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا ہوں اور آدمی ہی کی جون میں مروں گا اور اس نے ایک احساسِ برتری کے ساتھ اپنے مسخ صورت ہم جنسوں کو دیکھا اور کہا۔ تحقیق میں ان میں سے نہیں ہوں کہ وہ بندر ہیں اور میں آدمی کی جون میں پیدا ہوا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں سے نفرت کی۔ اس نے ان کی لال بھبوکا صورتوں اور بالوں سے ڈھکے ہوئے جسموں کو دیکھا اور نفرت سے چہرہ اس کا بگڑنے لگا مگر اسے اچانک زبان کا خیال آیا کہ نفرت کی شدت سے صورت اس کی مسخ ہو گئی تھی۔ اس نے کہا کہ الیاسف نفرت مت کر کہ نفرت سے آدمی کی کایا بدل جاتی ہے اور الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا۔

    الیاسف نے نفرت سے کنارہ کیا اور کہا کہ بے شک میں انہی میں سے تھا اور اس نے وہ دن یاد کئے جب وہ ان میں سے تھا اور دل اس کا محبت کے جوش سے امنڈنے لگا۔ اسے بنت الاخضر کی یاد آئی کہ فرعون کے رتھ کی دودھیا گھوڑیوں میں سے ایک گھوڑی کی مانند تھی۔ اور اس کے بڑے گھر کے در سرو کے اور کڑیاں صنوبر کی تھیں۔ اس یاد کے ساتھ الیاسف کو بیتے دن یاد آ گئے کہ وہ سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے مکان میں عقب سے گیا تھا اور چھپر کھٹ کے لئے اسے ٹٹولا جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور اس نے دیکھا لمبے بال اس کی رات کی بوندوں سے بھیگے ہوئے ہیں اور چھاتیاں ہرن کے بچوں کے موافق تڑپتی ہیں۔ اور پیٹ اس کا گندم کی ڈیوڑھی کی مانند ہے اور پاس اس کے صندل کا گول پیالہ ہے اور الیاسف نے بنت الاخضر کو یاد کیا اور ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیر اور صندل کے گول پیالے کے تصور میں سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے گھر تک گیا۔ ساس نے خالی مکان کو دیکھا اور چھپر کھٹ پر اسے ٹٹولا۔ جس کے لئے اس کا جی چاہتا تھا اور پکارا کہ اے بنت الاخضر! تو کہاں ہے اور اے وہ کہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ دیکھ موسم کا بھاری مہینہ گزر گیا اور پھولوں کی کیاریاں ہری بھری ہو گئیں اور قمریاں اونچی شاخوں پر پھڑپھڑاتی ہیں۔ تو کہاں ہے؟ اے اخضر کی بیٹی! اے اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر آرام کرنے والی، تجھے دشت میں دوڑتی ہوئی ہرنیوں اور چٹانوں کی دراڑوں میں چھپے ہوئے کبوتروں کی قسم تو نیچے اتر آ۔ اور مجھ سے آن مل کہ تیرے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ الیاسف بار بار پکارتا کہ اس کا جی بھر آیا اور بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا۔

    الیاسف بنت الاخضر کو یاد کر کے رویا مگر اچانک الیعذر کی جورو یاد آئی جو الیعذر کو بندر کی جون میں دیکھ کر روئی تھی۔ حالانکہ اس کی ہڑکی بندھ گئی اور بہتے آنسوؤں میں اس کے جمیل نقوش بگڑتے چلے گئے۔ اور ہڑکی کی آواز وحشی ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ اس کی جون بدل گئی۔ تب الیاسف نے خیال کیا۔ بنت الاخضر جن میں سے تھی ان میں مل گئی۔ اور بے شک جو جن میں سے ہے وہ ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا کہ اے الیاسف ان سے محبت مت کر مبادا تو ان میں سے ہو جائے اور الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا اور الیاسف نے ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کو فراموش کر دیا۔

    الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور اپنے ہم جنسوں کی لال بھبوکا صورتوں اور کھڑ ی دم دیکھ کر ہنسا اور الیاسف کو الیعذر کی جورو یاد آئی کہ وہ اس قریے کی حسین عورتوں میں سے تھی۔ وہ تاڑ کے درخت کی مثال تھی اور چھاتیاں اس کی انگور کے خوشوں کی مانند تھیں۔ اور الیعذر نے اس سے کہا تھا کہ جان لے کہ میں انگور کے خوشے توڑوں گا اور انگور کے خوشوں والی تڑپ کر ساحل کی طرف نکل گئی۔

    الیعذر اس کے پیچھے پیچھے گیا اور پھل توڑا اور تاڑ کے درخت کو اپنے گھر لے آیا اور اب وہ ایک اونچے کنگرے پر الیعذر کی جوئیں بن بن کر کھاتی تھی۔ الیعذر جھری جھری لے کر کھڑا ہو جاتا اور وہ دم کھڑی کر کے اپنے لجلجے پنجوں پر اٹھ بیٹھی۔ اس کے ہنسنے کی آواز اتنی اونچی ہوتی کہ اسے ساری بستی گونجتی معلوم ہوئی اور وہ اپنے اتنی زور سے ہنسنے پر حیران ہوا مگر اچانک اسے اس شخص کا خیال آیا جو ہنستے ہنستے بندر بن گیا تھا اور الیاسف نے اپنے تئیں کہا۔ اے الیاسف تو ان پر مت ہنس مبادا تو انہیں کی جنس بن جائے اور الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔

    الیاسف نے ہنسی سے کنارہ کیا۔ الیاسف محبت اور نفرت سے غصہ اور ہمدردی سے رونے اور ہنسنے سے ہر کیفیت سے گزر گیا اور ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا۔ ان کا درختوں پر اچکنا، دانت پیس پیس کر کلکاریاں کرنا، کچے کچے پھلوں پر لڑنا اور ایک دوسرے کو لہو لہان کر دینا۔ یہ سب کچھ اسے آگے کبھی ہم جنسوں پر رلاتا تھا، کبھی ہنساتا تھا۔ کبھی غصہ دلاتا کہ وہ ان پر دانت پیسنے لگا اور انہیں حقارت سے دیکھتا اور یوں ہوا کہ انہیں لڑتے دیکھ کر اس نے غصہ کیا اور بڑی آواز سے جھڑکا۔ پھر خود اپنی آواز پر حیران ہوا۔ اور کسی کسی بندر نے اسے بے تعلقی سے دیکھا اور پھر لڑائی میں جٹ گیا۔ اور الیاسف کے تئیں لفظوں کی قدر کی جاتی رہی۔ کہ وہ اس کے اور اس کے ہم جنسوں کے درمیان رشتہ نہیں رہے تھے اور اس کا اس نے افسوس کیا۔ الیاسف نے افسوس کیا اپنے ہم جنسوں پر، اپنے آپ پر اور لفظ پر۔ افسوس ہے ان پر بوجہ اس کے وہ اس لفظ سے محروم ہو گئے۔ افسوس ہے مجھ پر بوجہ اس کے لفظ میرے ہاتھوں میں خالی برتن کی مثال بن کر رہ گیا۔ اور سوچو تو آج بڑے افسوس کا دن ہے۔ آج لفظ مر گیا۔ اور الیاسف نے لفظ کی موت کا نوحہ کیا اور خاموش ہو گیا۔

    الیاسف خاموش ہو گیا اور محبت اور نفرت سے، غصے اور ہمدردی سے، ہنسنے اور رونے سے در گزرا۔ اور الیاسف نے اپنے ہم جنسوں کو نا جنس جان کر ان سے کنارہ کیا اور اپنی ذات کے اندر پناہ لی۔ الیاسف اپنی ذات کے اندر پناہ گیر جزیرے کے مانند بن گیا۔ سب سے بے تعلق، گہرے پانیوں کے درمیان خشکی کا ننھا سا نشان اور جزیرے نے کہا میں گہرے پانیوں کے درمیان زمین کا نشان بلند رکھو ں گا۔

    الیاسف اپنے تئیں آدمیت کا جزیرہ جانتا تھا۔ گہرے پانیوں کے خلاف مدافعت کرنے لگا۔ اس نے اپنے گرد پشتہ بنا لیا کہ محبت اور نفرت، غصہ اور ہمدردی، غم اور خوشی اس پر یلغار نہ کریں کہ جذبے کی کوئی رو اسے بہا کر نہ لے جائے اور الیاسف اپنے جذبات سے خوف کرنے لگا۔ پھر جب وہ پشتہ تیار کر چکا تو اسے یوں لگا کہ اس کے سینے کے اندر پتھری پڑ گئی ہے۔ اس نے فکر مند ہو کر کہا کہ اے معبود میں اندر سے بدل رہا ہوں تب اس نے اپنے باہر پر نظر کی اور اسے گمان ہونے لگا کہ وہ پتھری پھیل کر باہر آ رہی ہے کہ اس کے اعضاء خشک، اس کی جلد بد رنگ اور اس کا لہو بے رس ہوتا جا رہا ہے۔ پھر اس نے مزید اپنے آپ پر غور کیا اور اسے مزید وسوسوں نے گھیرا۔ اسے لگا کہ اس کا بدن بالوں سے ڈھکتا جا رہا ہے۔ اور بال بد رنگ اور سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ تب اسے اپنے بدن سے خوف آیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ خوف سے وہ اپنے اندر سمٹنے لگا۔ اسے یوں معلوم ہوا کہ اس کی ٹانگیں اور بازو مختصر اور سر چھوٹا ہوتا جا رہا ہے تب اسے مزید خوف ہوا اور اعضاء اس کے خوف سے مزید سکڑنے لگے اور اس نے سوچا کہ کیا میں بالکل معدوم ہو جاؤں گا۔

    اور الیاسف نے الیاب کو یاد کیا کہ خوف سے اپنے اندر سمٹ کر وہ بندر بن گیا تھا۔ تب اس نے کہا کہ میں اندر کے خوف پر اسی طور غلبہ پاؤں گا جس طور میں نے باہر کے خوف پر غلبہ پایا تھا اور الیاسف نے اندر کے خوف پر غلبہ پا لیا۔ اور اس کے سمٹتے ہوئے اعضاء دوبارہ کھلنے اور پھیلنے لگے۔ اس کے اعضاء ڈھیلے پڑ گئے۔ اور اس کی انگلیاں لمبی اور بال بڑے اور کھڑے ہونے لگے۔ اور اس کی ہتھیلیاں اور تلوے چپٹے اور لجلجے ہو گئے اور اس کے جوڑ کھلنے لگے اور الیاسف کو گمان ہوا کہ اس کے سارے اعضاء بکھر جائیں گے تب اس نے عزم کر کے اپنے دانتوں کو بھینچا اور مٹھیاں کس کر باندھا اور اپنے آپ کو اکٹھا کرنے لگا۔

    الیاسف نے اپنے بد ہیئت اعضاء کی تاب نہ لا کر آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اسے لگا کہ اس کے اعضاء کی صورت بدلتی جا رہی ہے۔

    اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے آپ سے پوچھا کہ میں، میں نہیں رہا۔ اس خیال سے دل اس کا ڈھینے لگا۔ اس نے بہت ڈرتے ڈرتے ایک آنکھ کھولی اور چپکے سے اپنے اعضاء پر نظر کی۔ اسے ڈھارس ہوئی کہ اس کے اعضاء تو جیسے تھے ویسے ہی ہیں۔ اس نے دلیری سے آنکھیں کھولیں اور اطمینان سے اپنے بدن کو دیکھا اور کہا کہ بے شک میں اپنی جون میں ہوں مگر اس کے بعد آپ ہی آپ اسے پھر وسوسہ ہوا کہ جیسے اس کے اعضاء بگڑتے جا رہے ہیں اور اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔

    الیاسف نے آنکھیں بند کر لیں اور جب الیاسف نے آنکھیں بند کیں تو اس کا دھیان اندر کی طرف گیا اور اس نے جانا کہ وہ کسی اندھیرے کنویں میں دھنستا جا رہا ہے اور الیاسف کنویں میں دھنستے ہوئے ہم جنسوں کی پرانی صورتوں نے اس کا تعاقب کیا۔ اور گزری راتیں محاصرہ کرنے لگیں۔ الیاسف کو سبت کے دن ہم جنسوں کا مچھلیوں کا شکار کرنا یاد آیا کہ ان کے ہاتھوں مچھلیوں سے بھر ا سمندر مچھلیوں سے خالی ہونے لگا۔ اور اس کی ہوس بڑھتی گئی اور انہوں نے سبت کے دن بھی مچھلیوں کا شکار شروع کر دیا۔ تب اس شخص نے جو انہیں سبت کے دن مچھلیوں کے شکار سے منع کرتا تھا کہا کہ رب کی سو گند جس نے سمندر کو گہرے پانیوں والا بنایا اور گہرے پانیوں کی مچھلیوں کا مامن ٹھہرایا، سمندر تمہارے دستِ ہوس سے پناہ مانگتا ہے اور سبت کے دن مچھلیوں پر ظلم کرنے سے باز رہو کہ مباد ا تم اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے قرار پاؤ۔ الیاسف نے کہا کہ معبود کی سوگند میں سبت کے دن مچھلیوں کا شکار نہیں کرو ں گا اور الیاسف عقل کا پتلا تھا۔ سمندر سے فاصلے پر ایک گڑھا کھودا اور نالی کھود کر اسے سمندر سے ملا دیا اور سبت کے دن مچھلیاں سطحِ آب پر آئیں تو تیرتی ہوئی نالی کی راہ گڑھے پر نکل گئیں۔ اور سبت کے دوسرے دن الیاسف نے اس گڑھے سے بہت سی مچھلیاں پکڑیں۔ وہ شخص جو سبت کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر بولا کہ تحقیق جس نے اللہ سے مکر کیا اللہ اس سے مکر کرے گا۔ اور بے شک اللہ زیادہ بڑا مکر کرنے والا ہے اور الیاسف یہ یاد کر کے پچھتایا اور وسوسہ کیا کہ کیا وہ مکر میں گھر گیا ہے۔ اس گھڑی اسے اپنی پوری ہستی ایک مکر نظر آئی۔ تب وہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑایا کہ پیدا کرنے والے نے تو مجھے ایسا پیدا کیا جیسے پیدا کرنے کا حق ہے۔ تو نے مجھے بہترین کینڈے پر خلق کیا۔ اور اپنی مثال پر بنایا۔ پس اے پیدا کرنے والے تو اب مجھ سے مکر کرے گا اور مجھے ذلیل بندر کے اسلوب پر ڈھالے گا اور الیاسف اپنے حال پر رویا۔ اس کے بنائے ہوئے پشتہ میں دراڑ پڑ گئی تھی اور سمندر کا پانی جزیرے میں آ رہا تھا۔

    الیاسف اپنے حال پر رویا اور بندروں سے بھری بستی سے منہ موڑ کر جنگل کی سمت نکل گیا کہ اب بستی اسے جنگل سے زیادہ وحشت بھری نظر آتی تھی۔ اور دیواروں اور چھتوں والا گھر اس کے لئے لفظ کی طرح معنی کھو بیٹھا تھا۔ رات اس نے درخت کی ٹہنیوں پر چھپ کر بسر کی۔

    جب صبح کو وہ جاگا تو اس کا سارا بدن دکھتا تھا اور ریڑھ کی ہڈی درد کرتی تھی۔ اس نے اپنے بگڑے اعضاء پر نظر کی کہ اس وقت کچھ زیادہ بگڑے بگڑے نظر آ رہے تھے۔ اس نے ڈرتے ڈرتے سوچا کیا میں، میں ہی ہوں اور اس آن اسے خیال آیا کہ کاش بستی میں کوئی ایک انسان ہوتا کہ اسے بتا سکتا کہ وہ کس جون میں ہے اور یہ خیال آنے پر اس نے اپنے تئیں سوال کیا کہ کیا آدمی بنے رہنے کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ آدمیوں کے درمیان ہو۔ پھر اس نے خود ہی جواب دیا کہ بیشک آدم اپنے تئیں ادھورا ہے کہ آدمی، آدمی کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔ اور جو جن میں سے ہے ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اور جب اس نے یہ سوچا تو روح اس کی اندوہ سے بھر گئی اور وہ پکارا کہ اسے بنت الاخضر تو کہا ں ہے کہ تجھ بن میں ادھورا ہوں۔ اس آن الیاسف کو ہرن کے تڑپتے ہوئے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کی یاد بے طرح آئی۔

    جزیرے میں سمندر کا پانی امنڈا چلا آ رہا تھا اور الیاسف نے درد سے صدا کی۔ کہ اے بنت الاخضر اے وہ جس کے لئے میرا جی چاہتا ہے۔ تجھے میں اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر اور بڑے درختوں کی گھنی شاخوں میں اور بلند برجیوں میں ڈھونڈوں گا۔ تجھے سرپٹ دوڑی دودھیا گھوڑیوں کی قسم ہے۔ قسم ہے کبوتروں کی جب وہ بلندیوں پر پرواز کرے۔ قسم ہے تجھے رات کی جب وہ بھیگ جائے۔ قسم ہے تجھے رات کے اندھیرے کی جب وہ بدن میں اترنے لگے۔ قسم ہے تجھے اندھیرے اور نیند کی۔ اور پلکوں کی جب وہ نیند سے بوجھل ہو جائیں۔ تو مجھے آن مل کہ تیرے لئے میراجی چاہتا ہے اور جب اس نے یہ صدا کی تو بہت سے لفظ آپس میں گڈ مڈ ہو گئے جیسے زنجیر الجھ گئی ہو۔ جیسے لفظ مٹ رہے ہوں۔ جیسے اس کی آواز بدلتی جا رہی ہو اور الیاسف نے اپنی بدلتی ہوئی آواز پر غور کیا اور زبلون اور الیاب کو یاد کیا کہ کیوں کر ان کی آوازیں بگڑتی چلی گئی تھیں۔ الیاسف اپنی بدلتی ہوئی آواز کا تصور کر کے ڈرا اور سوچا کہ اے معبود کیا میں بدل گیا ہوں اور اس وقت اسے یہ نرالا خیال سوجھا کہ اے کاش کوئی ایسی چیز ہوتی کہ اس کے ذریعے وہ اپنا چہرہ دیکھ سکتا۔ مگر یہ خیال اسے بہت انہونا نظر آیا۔ اور اس نے درد سے کہا کہ اے معبود میں کیسے جانوں کہ میں نہیں بد لاہوں۔

    الیاسف نے پہلے بستی کو جانے کا خیال کیا مگر خود ہی اس خیال سے خائف ہوگیا، اور الیاسف کو خالی بستی اور اونچے گھروں سے خفقان ہونے لگا، اور جنگل کے اونچے درخت رہ رہ کر اسے اپنی طرف کھینچتے تھے، الیاسف بستی واپس جانے کے خیال سے خائف چلتے چلتے جنگل میں دور نکل گیا۔ بہت دور جاکر اسے ایک جھیل نظر آئی کہ پانی اس کا ٹھہرا ہوا تھا۔ جھیل کے کنارے بیٹھ کر اس نے پانی پیا، جی ٹھنڈا کیا۔ اسی اثنا میں وہ موتی ایسے پانی کو تکتے تکتے چونکا۔ یہ میں ہوں؟ اسے پانی میں اپنی صورت دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی چیخ نکل گئی اور الیاسف کو الیاسف کی چیخ نے آلیا۔ اور وہ بھاگ کھڑا ہوا۔

    الیاسف کو الیاسف کی چیخ نے آلیا تھا۔ اور وہ بے تحاشا بھاگا چلا جاتا تھا۔وہ یوں بھاگا جاتا تھا جیسے جھیل اس کا تعاقب کررہی ہے۔ بھاگتے بھاگتے تلوے اس کے دکھنے لگے اور چپٹے ہونے لگے اور کمر اس کی درد کرنے لگی، پر وہ بھاگتا رہا اور کمر کا درد بڑھتا گیا اور اسے یوں معلوم ہوا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی دوہری ہوا چاہتی ہے اور دفعتا جھکا بے ساختہ اپنی ہتھیلیاں زمین پر ٹکا دیں۔

    الیاسف نے جھک کر ہتھیلیاں زمین پر ٹکا دیں اور بنت الاخضر کو سوگھتا ہوا چاروں ہاتھوں پیروں کے بل تیر کے موافق چلا۔

  • "جب دیکھو ترقی…ترقی اور ترقی”

    "جب دیکھو ترقی…ترقی اور ترقی”

    بھاڑ میں جاؤ تم اور تمھاری ترقی۔ جب دیکھو ترقی، ترقی اور ترقی۔ کوئی اور بات ہی نہیں کرتا۔

    تو میں کیا غلط کہہ رہا ہوں، دیکھ نہیں رہا، اندھا ہوگیا ہے کتنی آسانی ہوگئی ہے۔ ہر میدان میں نت نئی ایجادات، اتنے بڑے بڑے فلائی اوورز، سڑکیں اور ان پر بھاگتی دوڑتی رنگ برنگی گاڑیاں۔

    رابطے کی تو دنیا ہی بدل گئی، اب آپ کہیں بھی نہیں چھپ سکتے۔ ایک چھوٹے سے آلے نے کتنی آسان کردی زندگی۔ دنوں کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے۔ چھوٹے سے آئی پوڈ نے موسیقی کی دنیا بدل دی، ایک چھوٹے سے ڈبے نے خبروں کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا۔ ای کامرس نے جدید معیشت کی بنیاد ڈال دی۔۔۔۔۔

    کتنے پرسکون اور تاب ناک ہوگئے ہیں ہمارے چہرے۔ ایک چھوٹے سے پلاسٹک کارڈ سے تم دنیا کی ہر شے خرید سکتے ہو۔ پیسے ہوں نہ ہوں کریڈٹ کارڈ ہو تو جو چاہو خریدو، پیسے بعد میں دو۔ ہر طرف معلومات کا سمندر، بڑے بڑے بورڈ۔ اور ان پر عوام کی آگہی کے لیے درج کردیا گیا، یہ دودھ اچھا ہے، یہ کپڑا اچھا ہے، یہ رنگ خوب صورت ہے، یہ برش عمدہ ہے۔ مقابلے کی کتنی پُرکشش دنیا تخلیق ہوگئی ہے۔ اور دیکھ میں تجھے بتاتا ہوں کہ۔۔۔۔۔

    بند کر اپنی بکواس، بہت سن لی میں نے۔ جا کسی اور کو یہ رام کتھا سنا۔ تیری ترقی تجھے مبارک۔ جا چاٹ جاکر اسے، مجھے تو ہر طرف، اندھیرا ہی اندھیرا، بربادی اور تباہی نظر آتی ہے۔ یہ سحر انگیز گفت گو بھی ایک فریب ہے۔ بڑا آیا مجھے سمجھانے۔ جا اپنا رستہ لے۔

    لیکن تجھے ہر طرف، اندھیرا ہی اندھیرا، بربادی اور تباہی کیوں دکھائی دے رہی ہے۔ تیرے کہنے سے تھوڑی اندھیرا ہوگا، بربادی ہوگی۔ اور سن آج کل تو طب کی دنیا میں بھی ترقی ہوگئی ہے۔ جدید طبی آلات اور دوائیں انسانی زندگی کو طول دینے، پُرلطف بنانے کی جستجو میں ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ تو نفسیاتی مسائل کا شکار ہوگیا ہے۔ کسی اچھے ماہر نفسیات سے مشورہ کرتے ہیں۔ اس میں بھی بہت ترقی ہوگئی ہے۔ تُو جلد صحت یاب ہوجائے گا اور پھر تُو بھی کہے گا ترقی ہوگئی۔

    تُو باز نہیں آئے گا نا۔ اگر یہ بیماری ہے تو مجھے بہت پیاری ہے۔ جاں سے زیادہ عزیز ہے یہ مجھے۔ چل اب یہاں سے۔

    تُو میری بات کیوں نہیں سمجھتا۔ یہ تو اور زیادہ خطرناک بات ہے کہ تو اسے بیماری بھی نہیں سمجھتا۔ قنوطی انسان۔ پاگل ہوگیا ہے تو اسی لیے تو ہلکان رہتا ہے، اداس رہتا ہے۔ میری مان آ چل میرے ساتھ تجھے لے چلوں کسی ماہر کے پاس۔

    اچھا۔ اب تو ایسے باز نہیں آئے گا۔ بیمار میں نہیں تو ہے ذہنی بیمار۔ تو اسے ترقی کہتا ہے۔ اتنی دیر سے سن رہا ہوں تیری بکواس، یہ بتا یہ ساری ترقی جسے تُو اور تیرے جیسے کوڑھ مغز ترقی کہتے ہیں، کس کے لیے ہے؟ انسان کے لیے نا۔ میں مانتا ہوں ترقی ہوگئی، لیکن انسان تو دکھوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔ اتنی بڑی بھیڑ میں، ہجوم میں تنہا ہوگیا ہے۔ یہ ساری ترقی مٹھی بھر انسانوں کے شاطر ذہن کی پیداوار ہے، چند مٹھی بھر سرمایہ داروں نے دنیا کے ہر انسان کو جو آزاد پیدا ہوا تھا غلام بنالیا ہے۔۔۔۔۔

    ذہنی غلام، جسمانی غلام، ایسا سحر ہے اس کا کہ انسان غلامی کو غلامی ہی نہیں سمجھتا۔ اسے آزادی کا نام دے کر اترانے لگا ہے۔ بڑی بڑی کاریں، سڑکیں، آسائشیں انسان کو تن آسان بنا رہی ہیں اور تن آسانی انسان کو انسان نہیں رہنے دیتی۔ اسے بے حس خود غرض، مفاد پرست بناتی ہے۔ اشتہار کی دنیا انسان کو یہ سکھاتی ہے کہ کسی چیز کی ضرورت ہو، نہ ہو۔ ضرور خریدی جائے۔ یہ لے لو، وہ لے لو۔ اگر پیسے نہیں تو کریڈٹ کارڈ ہے۔ اس کے ذریعے خرید لو۔ اور پھر غلام بنے رہو۔ ان مٹھی بھر لوگوں نے انسان کو تباہ و برباد کردیا۔ لالچی بنا دیا۔ اسے ناامید کردیا۔ خوف زدہ کر دیا، انسان، انسان نہیں رہا پیسا کمانے اور خرچ کرنے کی مشین بن گیا۔۔۔۔۔

    یہ ایک مایا جال ہے جو سرمایہ داروں کے وحشی گروہ نے بُنا ہے، اسے پُرکشش بنایا ہے تاکہ دنیا کے معصوم اور آزاد انسان اس جال میں پھنس جائیں اور کوئی یہ سوچنے بھی نہ پائے کہ چند سرمایہ داروں نے دنیا بھر کے انسانوں کو غلام بنالیا ہے، بس ان کا کام چلتا رہے۔۔۔۔۔۔

    اصل ترقی انسان کو بامِ عروج تک پہنچاتی ہے۔ اسے زنجیروں سے آزاد کرتی ہے، لیکن یہ ترقی کے نام پر دھوکا ہے۔ اب کوئی سوچتا ہی نہیں کہ وہ کیوں اس دنیا میں آیا ہے؟ اسے کیا کرنا ہے؟ اس مصنوعی ترقی نے انسان کو تنہائی، اداسی، کرب، دکھوں کے جہنم میں دھکیل دیا، یہ سب آسائشیں ہوتے ہوئے بھی سب ناآسودہ ہیں، سب دُکھی ہیں۔ مصنوعی خوشی خوشی نہیں ہوتی۔ خوشی انسان کے اندر سے پھولتی ہے۔۔۔۔۔۔۔

    آزاد انسان حقیقی خوشی حاصل کرتا ہے، غلام نہیں۔ ہاں میں اس دن مان لوں گا جب انسان یہ سوچنے لگے گا کہ خود کو اس ہشت پا بلا سے کیسے چھڑایا جائے اور پھر وہ دن ہوگا سب سے عالی شان، جب دنیا کے وسائل پر قابض مٹھی بھر لوگوں سے وہ سب کچھ چھین لیا جائے گا جس پر دنیا بھر کے انسانوں کا حق ہے۔ ہاں پھر میں مان لوں گا ترقی ہوگئی، انسان نے خود کو پہچان لیا۔

    اچھا، اچھا بس کر، بہت ہوگیا تیرا بھاشن۔ نہ جانے کیسے کیسے قنوطی بستے ہیں اس دنیا میں، جو ترقی کو غلامی کہتے ہیں، مایا جال کہتے ہیں۔

    میں وہاں سے نکلنے لگا تو وہ بولا، ہر نئی ایجاد اپنے ساتھ ہزار فتنے بھی تو لائی ہے اس پر کب بات کرے گا؟

    مصنف عبداللطیف ابُوشامل نے اپنی اس کہانی کو "سراب” کا نام دیا ہے، جو ہماری ترقی اور مشینی دور کی آسانیوں‌ سے جھلکتی بدصورتی کو بے نقاب کرتی ہے
  • طاقت کا امتحان

    طاقت کا امتحان

    کھیل خوب تھا، کاش تم بھی وہاں موجود ہوتے۔ مجھے کل کچھ ضروری کام تھا مگر اس کھیل میں کون سی چیز ایسی قابلِ دید تھی جس کی تم اتنی تعریف کر رہے ہو؟

    ایک صاحب نے چند جسمانی ورزشوں کے کرتب دکھلائے کہ ہوش گم ہوگیا۔
    مثلاً….!
    مثلاً کلائی پر ایک انچ موٹی آہنی سلاخ کو خم دینا۔
    یہ تو آج کل بچے بھی کر سکتے ہیں۔
    چھاتی پر چکی کا پتھر رکھوا کر آہنی ہتھوڑوں سے پاش پاش کرانا۔
    میں نے ایسے بیسیوں شخص دیکھے ہیں۔
    مگر وہ وزن جو اس نے دو ہاتھوں سے اٹھا کر ایک تنکے کی طرح پرے پھینک دیا کسی اور شخص کی بات نہیں، یہ تمہیں بھی ماننا پڑے گا۔
    بھلے آدمی یہ کون سا اہم کام ہے، وزن کتنا تھا آخر۔
    کوئی چار من کے قریب ہوگا، کیوں؟
    اتنا وزن تو شہر کا فاقہ زدہ مزدور گھنٹوں پشت پر اٹھائے رہتا ہے۔
    بالکل غلط ۔
    وہ کیوں؟
    غلیظ ٹکڑوں پر پلے ہوئے مزدور میں اتنی قوت نہیں ہوسکتی۔ طاقت کے لیے اچھی غذا کا ہونا لازم ہے۔ شہر کا مزدور… کیسی باتیں کر رہے ہو۔
    غذا والے معاملے کے متعلق میں تم سے متفق ہوں، مگر یہ حقیقت ہے۔ یہاں ایسے بہتیرے مزدور ہیں جو دو پیسے کی خاطر چار من بل کہ اس سے کچھ زیادہ وزن اٹھا کر تمھارے گھر کی دوسری منزل پر چھوڑ آ سکتے ہیں، کہو تو اسے ثابت کر دوں؟

    یہ گفت گو دو نوجوان طلبہ میں ہو رہی تھی جو ایک پُر تکلف کمرے کی گدی دار کرسیوں پر بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔

    میں اسے ہرگز نہیں مان سکتا اور باور آئے بھی کس طرح قاسم چوب فروش کے مزدور ہی کو لو۔ کم بخت سے ایک من لکڑیاں بھی تو اٹھائی نہیں جاتیں۔ ہزاروں میں ایک ایسا طاقت ور ہو تو اچنبھا نہیں ہے۔

    چھوڑو یار اس قصے کو، بھاڑ میں جائیں یہ سب مزدور اور چولھے میں جائے ان کی طاقت۔ سنائو آج تاش کی بازی لگ رہی ہے؟

    تاش کی بازیاں تو لگتی ہیں رہیں گی، پہلے اس بحث کا فیصلہ ہونا چاہیے۔

    سامنے والی دیوار پر آویزاں کلاک ہر روز اسی قسم کی لا یعنی گفت گو سے تنگ آکر برابر اپنی ٹک ٹک کیے جا رہا تھا۔ سگریٹ کا دھواں ان کے منہ سے آزاد ہوکر بڑی بے پروائی سے چکر لگاتا ہوا کھڑکی کے راستے باہر نکل رہا تھا۔

    دیواروں پر لٹکی ہوئی تصاویر کے چہروں پر بے فکری و بے اعتنائی کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ کمرے کا فرنیچر سال ہا سال سے ایک ہی جگہ پر جما ہوا کسی تغیر سے ناامید ہو کر بے حس پڑا سوتا تھا۔ آتش دان کے طاق پر رکھا ہوا کسی یونانی مفکر کا مجسمہ اپنی سنگین نگاہوں سے آدم کے ان دو فرزندوں کی بے معنی گفت گو سن کر تعجب سے اپنا سر کھجلا رہا تھا۔ کمرے کی فضا ان بھدی اور فضول باتوں سے کثیف ہو رہی تھی۔

    تھوڑی دیر تک دونوں دوست تاش کی مختلف کھیلوں، برج کے اصولوں اور روپیہ جیتنے کے طریقوں پر اظہارِ خیالات کرتے رہے۔ دفعتاً ان میں وہ جسے مزدور کی طاقت کے متعلق پورا یقین تھا اپنے دوست سے مخاطب ہوا۔
    باہر بازار میں لوہے کا جو گارڈر پڑا ہے وہ تمہارے خیال میں کتنا وزن رکھتا ہوگا۔

    پھر وہی بحث۔
    تم بتائو تو سہی۔
    پانچ چھے من کے قریب ہوگا۔
    یہ وزن تو تمہاری نظر میں کافی ہے نا؟
    یعنی تمہارا یہ مطلب ہے کہ لوہے کی یہ بھاری بھر کم لاٹھ تمہارا مزدور پہلوان اٹھائے گا۔ گدھے والی گاڑی ضرور ہوگی اس کے ساتھ ۔

    یہاں کے مزدور بھی گدھوں سے کیا کم ہیں۔ گیہوں کی دو تین بوریاں اٹھانا تو ان کے نزدیک معمولی کام ہے۔ مگر تمہیں کیا پتا ہوسکتا ہے۔ کہو تو، تمہارے کل والے کھیل سے کہیں حیرت انگیز اور بہت سستے داموں ایک نیا تماشا دکھائوں۔
    اگر تمہارا مزدور لوہے کا وہ وزنی ٹکڑا اٹھائے گا تو میں تیار ہوں۔
    تمہاری آنکھوں کے سامنے اور بغیر کسی چالاکی کے۔

    دونوں دوست اپنے اپنے سگریٹ کی خاک دان میں گردن دبا کر اٹھے اور باہر بازار کی طرف مزدور کی طاقت کا امتحان کرنے چل دیے۔ کمرے کی تمام اشیا کسی گہری فکر میں غرق ہوگئیں، جیسے انہیں کسی غیر معمولی حادثے کا خوف ہو، کلاک اپنی انگلیوں پر کسی متعینہ وقت کی گھڑیاں شمار کرنے لگا۔ دیواروں پر آویزاں تصویریں حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔ کمرے کی فضا خاموش آہیں بھرنے لگ گئی۔

    لوہے کا وہ بھاری بھر کم ٹکڑا لاش کا سا سرد اور کسی وحشت ناک خواب کی طرح تاریک، بازار کے ایک کونے میں بھیانک دیو کی مانند اکڑا ہوا تھا۔ دونوں دوست لوہے کے اس ٹکڑے کے پاس آ کر کھڑے ہوگئے اور کسی مزدور کا انتظار کرنے لگے۔

    بازار بارش کی وجہ سے کیچڑ میں لت پت تھا، جو راہ گزروں کے جوتوں کے ساتھ اچھل اچھل کر ان کا مضحکہ اڑا رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا گویا وہ اپنے روندنے والوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اسی آب و گل کی تخلیق ہیں جسے وہ اس وقت پائوں سے گوندھ رہے ہیں۔ مگر وہ اس حقیقت سے غافل اپنے دنیاوی کام دھندوں کی دھن میں مصروف کیچڑ کے سینے کو مسلتے ہوئے ادھر ادھر جلد جلد قدم اٹھاتے ہوئے جا رہے تھے۔

    کچھ دکان دار اپنے گاہکوں کے ساتھ سودا طے کرنے میں مصروف تھے اور کچھ سجی ہوئی دکانوں میں تکیہ لگائے اپنے حریف ہم پیشہ دکان داروں کی طرف حاسدانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور اس وقت کے منتظر تھے کہ کوئی گاہک وہاں سے ہٹے اور وہ اسے کم قیمت کا جھانسا دیکر گھٹیا مال فروخت کردیں۔

    ان منیاری کی دکانوں کے ساتھ ہی ایک دوا فروش اپنے مریض گاہکوں کا انتظار کر رہا تھا۔ بازار میں سب لوگ اپنے اپنے خیال میں مست تھے اور یہ دو دوست کسی دنیاوی فکر سے بے پروا ایک ایسے مزدور کی راہ دیکھ رہے تھے جو ان کی دلچسپی کا سامان مہیا کر سکے۔

    دور بازار کے آخری سرے پر ایک مزدور کمر کے گرد رسی لپیٹے اور پشت پر ٹاٹ کا ایک موٹا سا ٹکڑا لٹکائے کیچڑ کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھتا ہوا چلا آ رہا تھا۔

    نان بائی کی دکان کے قریب پہنچ کر وہ دفعتاً ٹھٹکا، سالن کی دیگچیوں اور تنور سے تازہ نکلی ہوئی روٹیوں نے اس کے پیٹ میں نوک دار خنجروں کا کام کیا۔

    مزدور نے اپنی پھٹی ہوئی جیب کی طرف نگاہ کی اور گرسنہ دانتوں سے اپنے خشک لبوں کو کاٹ کر خاموش رہ گیا، سرد آہ بھری اور اسی رفتار سے چلنا شروع کر دیا۔ چلتے وقت اس کے کان بڑی بے صبری سے کسی کی دل خوش کن آواز ”مزدور“ کا انتظار کر رہے تھے مگر اس کے دل میں نہ معلوم کیا کیا خیالات چکر لگا رہے تھے۔

    دو تین دن سے روٹی بہ مشکل نصیب ہوئی ہے اب چار بجنے کو آئے ہیں مگر ایک کوڑی تک نہیں ملی۔ کاش آج صرف ایک روٹی کے لئے ہی کچھ نصیب ہو جائے بھیک؟ نہیں خدا کارساز ہے۔

    اس نے بھوک سے تنگ آ کر بھیک مانگنے کا خیال کیا مگر اسے ایک مزدور کی شان کے خلاف سمجھتے ہوئے خدا کا دامن تھام لیا اور اس خیال سے مطمئن ہو کر جلدی جلدی اس بازار کو طے کرنے لگا، اس خیال سے کہ شاید دوسرے بازار میں اسے کچھ نصیب ہو جائے۔

    دونوں دوستوں نے بیک وقت ایک مزدور کو تیزی سے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھا، مزدور دبلا پتلا نہ تھا چناں چہ انہوں نے فوراً آواز دی۔

    مزدور…. یہ سنتے ہی گویا مزدور کے سوکھے دھانوں میں پانی مل گیا، بھاگا ہوا آیا اور نہایت ادب سے پوچھنے لگا۔

    جی حضور؟
    دیکھو، لوہے کا یہ ٹکڑا اٹھا کر ہمارے ساتھ چلو، کتنے پیسے لو گے؟
    مزدور نے جھک کر لوہے کے بھاری بھر کم ٹکڑے کی طرف دیکھا اور دیکھتے ہی اس کی آنکھوں کی وہ چمک جو مزدور کا لفظ سن کر پیدا ہوئی تھی، غائب ہوگئی۔

    وزن بلا شک و شبہ زیادہ تھا مگر روٹی کے قحط اور پیٹ پوجا کے لیے سامان پیدا کرنے کا سوال اس سے کہیں وزنی تھا۔

    مزدور نے ایک بار پھر اس آہنی لاٹھ کی طرف دیکھا اور دل میں عزم کرنے کے بعد کہ وہ اسے ضرور اٹھائے گا، ان سے بولا۔

    جو حضور فرمائیں؟
    یعنی تم یہ وزن اکیلے اٹھا لوگے؟ ان دو لڑکوں میں سے اس نے مزدور کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا جو کل شب جسمانی کرتب دیکھ کر آیا تھا۔
    بولو کیا لو گے؟ یہ وزن بھلا کہاں سے زیادہ ہوا؟ دوسرے نے بات کا رخ پلٹ دیا۔
    کہاں تک جانا ہوگا حضور؟
    بہت قریب، دوسرے بازار کے نکڑ تک۔
    وزن زیادہ ہے، آپ تین آنے دے دیجیے۔
    تین آنے؟
    جی ہاں، تین آنے کچھ زیادہ تو نہیں ہیں۔
    دو آنے مناسب ہے بھئی۔
    دو آنے آٹھ پیسے، یعنی دو وقت کے لیے سامانِ خورد و نوش، یہ سوچتے ہی مزدور راضی ہوگیا۔ اس نے اپنی کمر سے رسی اتاری اور اسے لوہے کے ٹکڑے کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا، دو تین جھٹکوں کے بعد وہ آہنی سلاخ اس کی کمر پر تھی۔

    گو وزن واقعی ناقابلِ برداشت تھا مگر تھوڑے عرصے کے بعد ملنے والی روٹی نے مزدور کے جسم میں عارضی طور پر ایک غیر معمولی طاقت پیدا کر دی تھی، اب ان کاندھوں میں جو بھوک کی وجہ سے مردہ ہو رہے تھے، روٹی کا نام سن کر طاقت عود کر آئی۔

    گرسنہ انسان بڑی سے بڑی مشقت فراموش کر دیتا ہے، جب اسے اپنے پیٹ کے لیے کچھ سامان نظر آتا ہے۔

    آئیے۔ مزدور نے بڑی ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا۔

    دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور زیرِ لب مسکرا دیے، وہ بہت مسرور تھے۔

    چلو، مگر ذرا جلدی قدم بڑھائو، ہمیں کچھ اور بھی کام کرنا ہے۔
    مزدور ان دو لڑکوں کے پیچھے ہو لیا، وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ موت اس کے کاندھوں پر سوار ہے۔

    کیوں میاں، کہاں ہے وہ تمہارا کل والا سینڈو؟
    کمال کردیا ہے اس مزدور نے، واقعی سخت تعجب ہے۔
    تعجب؟ اگر کہو تو اس لوہے کے ٹکڑے کو تمھارے گھر کی بالائی چھت پر رکھوا دوں۔
    مگر سوال ہے کہ ہم لوگ اچھی غذا ملنے پر بھی اتنے طاقت ور نہیں ہیں۔
    ہماری غذا تو کتابوں اور دیگر علمی چیزوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ انہیں اس قسم کی سر دردی سے کیا تعلق؟ بے فکری، کھانا اور سو جانا۔
    واقعی درست ہے۔
    لڑکے مزدور پر لدے ہوئے بوجھ اور اس کی خمیدہ کمر سے غافل آپس میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔

    وہاں سے سو قدم کے فاصلے پر مزدور کی قضا کیلے کے چھلکے میں چھپی ہوئی اپنے شکار کا انتظار کر رہی تھی۔ گو مزدور کیچڑ میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا مگر تقدیر کے آگے تدبیر کی ایک بھی پیش نہ چلی۔ اس کا قدم چھلکے پر پڑا، پھسلا اور چشم زدن میں لوہے کی اس بھاری لاٹھ نے اسے کیچڑ میں پیوست کر دیا۔
    مزدور نے مترحم نگاہوں سے کیچڑ اور لوہے کے سرد ٹکڑے کی طرف دیکھا، تڑپا اور ہمیشہ کے لیے بھوک کی گرفت سے آزاد ہوگیا۔

    دھماکے کی آواز سن کر دونوں لڑکوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مزدور کا سر آہنی سلاخ کے نیچے کچلا ہوا تھا، آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہ معلوم کس سمت ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھیں۔ خون کی ایک موٹی سی تہ کیچڑ کے ساتھ ہم آغوش ہو رہی تھی۔

    چلو آئو چلیں، ہمیں خواہ مخواہ اس حادثے کا گواہ بننا پڑے گا۔
    میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ وزن اس سے نہیں اٹھایا جائے گا لالچ!

    یہ کہتے ہوئے دونوں لڑکے مزدور کی لاش کے گرد جمع ہوتی ہوئی بھیڑ کو کاٹتے ہوئے اپنے گھر روانہ ہو گئے۔
    سامنے والی دکان پر ایک بڑی توند والا شخص ٹیلی فون کا چونگا ہاتھ میں لیے غالباً گندم کا بھائو طے کرنے والا تھا کہ اس نے مزدور کو موت کا شکار ہوتے دیکھا اور اس حادثے کو منحوس خیال کرتے ہوئے بڑبڑا کر ٹیلی فون کا سلسلہ گفت گو منقطع کردیا۔

    کم بخت کو مرنا بھی تھا تو میری دکان کے سامنے۔ بھلا ان لوگوں کو اس قدر وزن اٹھانے پر کون مجبور کرتا ہے!
    تھوڑی دیر کے بعد اسپتال کی آہنی گاڑی آئی اور مزدور کی لاش اٹھا کر عمل جراحی کے لیے ڈاکٹروں کے سپرد کر دی۔

    دھندلے آسمان پر ابر کے ایک ٹکڑے نے مزدور کے خون کو کیچڑ میں ملتے ہوئے دیکھا، اس کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔ ان آنسوئوں نے سڑک کے سینے پر اس خون کے دھبوں کو دھو دیا۔

    آہنی لاٹھ ابھی تک بازار کے ایک کنارے پڑی ہوئی ہے، مزدور کے خون کا صرف ایک قطرہ باقی ہے جو دیوار کے ساتھ چمٹا ہوا نہیں معلوم کس چیز کا اپنی خونیں آنکھوں سے انتظار کر رہا ہے۔

    مصنف: سعادت حسن منٹو

  • حیات اللہ انصاری: صحافت، ادب اور سیاست تک کام یاب سفر کی مختصر کہانی

    حیات اللہ انصاری: صحافت، ادب اور سیاست تک کام یاب سفر کی مختصر کہانی

    کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی جیسے لکھاریوں کے زمانے میں حیات اللہ انصاری نے ادبی فضا کو اپنے افسانے ‘‘بڈھا سود خور’’ سے جھنجھوڑا۔

    یہ اس قلم کار کے حقیقت پسند اور انسان دوست ہونے کا ثبوت تھا۔ یہ کہانی روایتی ڈگر سے ہٹ کر تھی جو حیات اللہ انصاری کی پہلی مطبوعہ تخلیق تھی۔ یہ بات ہے 1930 کی۔ بعد کا دور جس حیات اللہ انصاری کا ہے، اس کا تعارف کچھ یوں ہے۔

    حیات اللہ انصاری افسانہ نویس، ناول نگار، ناقد اور جید صحافی کی حثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ مختصر کہانی اور افسانہ نگاری میں کمال رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں ان کو ایک ماہرِ تعلیم ہی نہیں بلکہ تحریکِ اردو کا متحرک کارکن بھی کہا جاتا ہے۔ حیات اللہ انصاری کے ہم عصروں میں کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی کے علاوہ جو لکھاری قابلِ ذکر تھے ان میں مجنوں گورکھ پوری اور نیاز فتح پوری کا نام بھی افسانوی ادب کے حوالے سے ابھر رہا تھا۔

    ‘‘بڈھا سود خور’’ میں اس دور کی سماجی اور سیاسی صورتِ حال کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ بعد کے زمانے میں بھی ان کی جو تخلیقات قارئین تک پہنچیں ان میں حقیقت پسندی اور انسان دوستی حاوی ہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ حیات اللہ انصاری کے افسانوں میں انسانیت کی توقیر، زندگی کی قدر و قیمت اور حقیقت پسندی کا ہر رنگ ملتا ہے۔ وہ مختصر افسانے لکھنے والوں میں اہم مانے جاتے ہیں۔

    حیات اللہ انصاری نے اپنے مختصر افسانوں میں اپنے اسلوب اور طرزِ بیان سے قارئین اور ناقدین سبھی کو متاثر کیا۔ خوب صورت اور دل نشیں طرزِ تحریر کے ساتھ بلند خیالی اور مقصد ان کی کہانیوں کو مقبول بناتا ہے۔

    حیات اللہ انصاری کا پہلا افسانوی مجموعہ ‘‘بھرے بازار میں’’ کے نام سے 1935 میں شایع ہوا۔ دوسرا ‘‘انوکھی مصیبت’’ اور تیسرا ‘‘شکستہ کنگورے’’ کے عنوان سے شایع ہوا۔ 1991 میں دہلی سے ‘‘ٹھکانہ’’ کی اشاعت ہوئی جو ان کی چوتھی کتاب تھی۔ ‘‘ لہو کے پھول’’ ان کا وہ ناول تھا جس کا موضوع ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد تھا۔ یہ پانچ جلدوں پر مشتمل ناول تھا جس پر بھارت میں ڈراما بھی بنایا گیا۔

    لکھنؤ ان کا وطن تھا۔ 1912 میں پیدا ہوئے اور اس دور کے رواج کے مطابق تعلیم کے لیے مدرسے بھیجے گئے۔ بعد میں علی گڑھ سے بی اے کی سند لی۔ لکھنے کی طرف مائل ہوئے تو ترقی پسند تحریک سے جڑے مگر سیاسی نظریہ انھیں کانگریس کے پلیٹ فارم پر لے گیا اور وہ سیاست داں کے طور پر بھی متحرک نظر آئے۔

    1999 ان کی زندگی کا آخری سال تھا۔ دہلی میں اس باکمال افسانہ نگار اور کہنہ مشق صحافی نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لیں۔

  • منٹو کی تین مختصر کہانیاں

    منٹو کی تین مختصر کہانیاں

    تقسیمِ ہند کے اعلان اور بٹوارے کے بعد ہجرت کرنے والوں پر جو قیامتیں گزریں، اسے اس دور میں خاص طور پر ادیبوں نے اپنی تخلیقات کا موضوع بنایا۔ پاک و ہند کے نام ور مصنفین نے ہجرت کرتے انسانوں کا دکھ اور اس راستے میں انسانیت کی پامالی کو اپنی تحریروں میں پیش کیا ہے۔

    ہم اردو افسانے کے ایک معتبر نام سعادت حسن منٹو کی وہ کہانیاں آپ کے سامنے رکھ رہے ہیں جو مختصر نویسی میں مصنف کے کمال کی نظیر ہیں اور ظلم و ناانصافی کے اس ماحول کی عکاس ہیں۔ یہ کہانیاں منٹو کے مجموعہ ‘‘سیاہ حاشیے’’ سے لی گئی ہیں۔

    دعوتِ عمل
    آگ لگی تو سارا محلہ جل گیا۔
    صرف ایک دکان بچ گئی، جس کی پیشانی پر یہ بورڈ آویزاں تھا
    ‘‘ یہاں عمارت سازی کا جملہ سامان ملتا ہے’’

    خبردار
    بلوائی مالکِ مکان کو بڑی مشکلوں سے گھسیٹ کر باہر لے آئے۔
    کپڑے جھاڑ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور بلوائیوں سے کہنے لگا۔
    ‘‘تم مجھے مار ڈالو لیکن خبردار جو میرے روپے پیسے کو ہاتھ لگایا۔’’

    پیش بندی
    پہلی واردات ناکے کے ہوٹل کے پاس ہوئی، فوراً ہی وہاں ایک سپاہی کا پہرہ لگا دیا گیا۔
    دوسری واردات دوسرے ہی روز شام کو اسٹور کے سامنے ہوئی، سپاہی کو پہلی جگہ سے ہٹا کر دوسری واردات کے مقام پر متعین کردیا گیا۔
    تیسرا کیس رات کے بارہ بجے لانڈری کے پاس ہوا۔
    جب انسپکٹر نے سپاہی کو اس نئی جگہ پہرہ دینے کا حکم دیا تو اس نے کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا۔
    ‘‘ مجھے وہاں کھڑا کیجیے جہاں نئی واردات ہونے والی ہے۔’’