Tag: افسانہ نگار

  • ضمیر الدین احمد: ‘اپنے بارے میں’

    ضمیر الدین احمد: ‘اپنے بارے میں’

    ضمیر الدین احمد کا نام اردو ادب میں‌ بطور فکشن رائٹر اور اردو کے ایک بڑے افسانہ نگار کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ہم عصروں کے نزدیک وہ ایک بہترین مکالمہ نویس تھے اور ضمیر الدین کی نثر کی قوت سے کام لینا جانتے تھے جس نے ان کے افسانوں کو شان دار بنا دیا۔

    یہ ضمیر الدین احمد کی زندگی کی مختصر روداد ہے جو انہی کے قلم سے نکلی ہے۔ وہ اپنے بارے میں کے عنوان سے لکھتے ہیں:

    یوپی میں مغرب میں آگرہ او رمشرق میں کانپور کے درمیان دریائے گنگا کے کنارے فتح گڑھ نام کا ایک چھوٹا سا قصبہ آباد ہے۔ وہیں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔ میٹرک کے سرٹیفکیٹ پر تاریخ پیدائش ۹/ جولائی ۱۹۲۶ء درج ہے۔ مقامی سرکاری ہائی اسکول، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، سینٹ اینڈریوز کالج گورکھ پور اور الہ آباد یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔

    تقسیم کے چند ماہ بعد کراچی چلا گیا اور پیشہ صحافت کا اختیار کیا۔ اسی سلسلے میں چار سال ہندوستان میں بہ حیثیت نمائندہ خصوصی قیام رہا۔ اس کے علاوہ برطانیہ، امریکہ اور مشرقِ وسط میں بھی بہ حیثیت صحافی اور براڈ کاسٹر کام کیا۔ برطانیہ میں بی بی سی اور امریکہ میں وی۔ او۔ اے سے وابستہ رہا۔ پاکستان میں دو ڈھائی برس فلمی صنعت سے متعلق ایک ادارے میں ملازمت کی۔ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹی وی کے لیے ڈرامے اور سیریل بھی لکھے۔

    ۱۹۵۲ء میں پہلا افسانہ بہ عنوان ’’چاندنی اور اندھیرا‘‘ لکھا جو ’’نقوش‘‘ (لاہور) میں شائع ہوا مگر ابتدا یونیورسٹی کے زمانے میں شاعری سے کی جسے اس قابل نہیں سمجھا کہ شائع کرایا جائے۔ منہ کا مزہ بدلنے کے لیے اب بھی کبھی کبھار شعر کہہ لیتا ہوں۔ ابھی تک کل ۴۲ / افسانے اور چند تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔

    دیوناگری رسم خط میں افسانوں کا ایک مجموعہ بہ عنوان ’’پہلی موت‘‘ دلی سے شائع ہوچکا ہے اور کراچی سے اردو شاعری میں محبوب کی حسیت کے موضوع پر ایک مطالعہ بہ عنوان ’’خاطرِ معصوم‘‘، افسانوں کا ایک اور مجموعہ ’’سوکھے ساون‘‘ کراچی سے بس شائع ہوا چاہتا ہے اور ایک اور مجموعہ زیر ترتیب ہے۔ ایک ناول زیر تصنیف ہے۔ اس کی تکمیل کا انحصار میری صحت پر ہوگا جو آج کل بہت خراب ہے۔

    ۱۹۷۱ء میں دوسری بار ہجرت کر کے لندن آگیا اور تب سے یہیں مقیم ہوں۔ بہ جز چند برسوں کے جو امریکا میں گزارے۔ شادی شدہ ہوں۔ دو بیٹے ہیں۔

    تقسیم سے پہلے جب لکھنا نہیں شروع کیا تھا تو کچھ عرصہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہا۔ اس کے بعد کبھی کسی ادبی تحریک یا تنظیم سے رشتہ نہیں جوڑا۔ مگر پاکستان رائٹرز گلڈ کے داعیوں میں شامل ہونے کی غلطی ضرور کی لیکن جلد ہی اس کی رکنیت ترک کر دی۔

    ضمیر الدین احمد

    ان سطور کے راقم نے اپنے بارے میں یہ تحریر نومبر ۱۹۹۰ء کو لکھی اور اس کے ایک ماہ بعد لکھنے والی انگلی نے آخری سطر لکھی،

    ۲۶/ دسمبر کو لندن میں انتقال ہوگیا۔ وہیں دفن ہوئے۔ انا اللہ وانا الیہ راجعون۔

  • اقبال متین: اردو زبان کا البیلا افسانہ نگار

    اقبال متین: اردو زبان کا البیلا افسانہ نگار

    ارضِ دکن کے بے مثال اور البیلے افسانہ نگار اقبال متین نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شعر گوئی سے کیا تھا۔ لیکن چند سال بعد ان کی شناخت اُن کی افسانہ نگاری بن گئی۔ انھوں نے سماجی جبر اور استحصال کو اپنا موضوع بنایا اور اردو ادب کو کئی متاثر کن افسانے دیے۔

    اقبال متین 2 فروری 1929ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید عبد القادر ناصر اور والدہ کا نام سیدہ آصفیہ بیگم تھا۔ اقبال متین کو شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول میسر آیا تھا ار انھوں‌ نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔ اقبال متین کی پہلی کہانی ’’چوڑیاں‘‘ تھی جو 1945ء میں ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور میں شائع ہوئی۔ رسالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور کے مدیر احمد ندیم قاسمی تھے جو اردو افسانے کے صف اول کے لکھنے والوں میں امتیازی حیثیت اور نام و مرتبہ رکھتے تھے۔ ان کا یہ رسالہ بھی اس دور کے اہم رسالوں میں سے ایک تھا۔ گویا اقبال متین کی کہانی کا اس رسالہ میں شائع ہونا ان کے لیے تو ایک اعزاز سے کم نہ تھا اور ساتھ ہی انھیں اپنے مستقبل کے لیے ایک سند بھی حاصل ہو گئی تھی۔ ’’ادبِ لطیف‘‘ کے بعد ان کی کہانیاں’’ادبی دنیا‘‘ ، ’’نیا دور‘‘ اور ’’افکار‘‘ میں شائع ہونے لگی تھیں۔

    اقبال متین نے شاعری مکمل طور پر ترک تو نہیں کی لیکن شاعری سے زیادہ کہانیوں پر توجہ دی اور ادبی حلقوں میں متاثر کن اور کام یاب افسانہ نگار کے طور پر جگہ بنائی۔ بھارت کے اس معروف اردو ادیب نے افسانہ اور ناول کے ساتھ خاکے اور مضمون بھی لکھے جو کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ اقبال متین کا ناول ’’چراغ تہ داماں 1976ء‘‘ ، ’’سوندھی مٹی کے بت 1995ء‘‘ (خاکے)، ’’باتیں ہماریاں‘‘ 2005ء (یادیں)، ’’اعتراف و انحراف 2006ء‘‘ (مضامین )، جب کہ ’’اجالے جھروکے میں ‘‘ (مضامین) 2008ء میں شائع ہوئے۔

    5 مئی 2015ء کو دکن میں‌ انتقال کرنے والے اقبال متین کو بھارت میں اردو اکادمی اور دوسری انجمنوں کی جانب سے متعدد ادبی اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا۔

  • آغا بابر کا تذکرہ جو اپنی سوانح عمری ادھوری چھوڑ گئے

    آغا بابر کا تذکرہ جو اپنی سوانح عمری ادھوری چھوڑ گئے

    آغا بابر اردو کے معروف افسانہ نگار اور صحافی تھے۔ ان کا ادبی سفر شاعری سے شروع ہوا، لیکن جلد ہی افسانہ نگاری کی طرف آگئے اور اردو ادب کو کئی خوب صورت کہانیاں دے کر 1998ء میں آج ہی کے دن دارِ فانی سے کوچ کیا۔

    آغا بابر 31 مارچ 1919 کو بٹالہ، ضلع گورداس پور میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام سجاد حسین تھا، لیکن جہانِ ادب میں‌ آغا بابر کے نام سے شہرت پائی۔ صحافت بھی آغا بابر کا معروف حوالہ ہے۔

    تقسیم کے بعد پاکستان میں افسانہ نگاری کا سلسلہ رواں دواں رہا اور 1947ء کے بعد جو نام سامنے آئے ان میں آغا بابر بھی نمایاں ہیں۔ اس زمانے میں اردو افسانے میں دو واضح رجحانات نظر آئے جس میں ایک جانب افسانہ نگار فرد کی بے بسی اور مجبوری کو موضوع بناتا رہا اور دوسری طرف فطرت کے مطابق خواب و خیال کی رنگینیوں اور رعنائیوں اور فطری مسرتوں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی۔ آغا بابر نے بھی انسانی رشتوں، تعلقات اور جنس کو موضوع بناتے ہوئے فرد کے جذبات کی عکاسی کی۔ ان کے افسانے انسان کے ظاہر و باطن کو سمجھنے کی کوشش ہیں۔

    "باجی ولایت” ان کا ایک ناقابلِ فراموش افسانہ ہے جس کا موضوع جنس ہے۔ آغا بابر کے افسانوں کا موضوع عورت، جنسی الجھنیں اور عورت کے احساسات و جذبات ہیں۔ "بیوگی، مریض، روح کا بوجھ، چال چلن جیسے افسانے آغا بابر کے اسلوب کے ساتھ اپنی مؤثر پیش کاری کے سبب ان کی پہچان ہیں۔

    آغا بابر گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے۔ وہ مشہور افسانہ نگار اور مؤرخ عاشق حسین بٹالوی اور ممتاز قانون دان اعجاز حسین بٹالوی کے بھائی تھے۔ آغا بابر نے فلموں کے لیے مکالمہ نویسی اور ڈرامے بھی لکھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ عسکری ادارے کے ایک جریدے مجاہد اور ہلال سے بحیثیت مدیر منسلک ہوگئے۔ آغا بابر ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا چلے گئے تھے اور وفات کے بعد وہیں دفن ہوئے۔

    آغا بابر کے افسانوی مجموعوں میں چاک گریباں، لبِ گویا، اڑن طشتریاں، پھول کی کوئی قیمت نہیں، حوا کی کہانی اور کہانی بولتی ہے شامل ہیں جب کہ ان کے ڈراموں کے تین مجموعے بڑا صاحب، سیز فائر اور گوارا ہو نیش عشق بھی شایع ہوئے۔

    اردو کے اس نام ور افسانہ نگار نے اپنی سوانح عمری لکھنا شروع کی تھی، لیکن فرشتۂ اجل نے انھیں‌ اس کام کو مکمل کرنے مہلت نہیں دی۔

  • شاہ کار افسانوں کے خالق انتون چیخوف کی زندگی کی کہانی

    شاہ کار افسانوں کے خالق انتون چیخوف کی زندگی کی کہانی

    روسی ادب کے عظیم افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس انتون چیخوف کی تخلیقات آج بھی دنیا بھر میں ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ چیخوف نے 1904ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    روسی ادب کے اس عظیم افسانہ نگار نے 29 جنوری 1860ء میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس میں اسے ایک سخت مزاج باپ اور ایک اچھی قصّہ گو ماں نے اسے پالا پوسا۔ وہ اپنے بچّوں کو دل چسپ اور سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھی۔ یوں‌ بچپن ہی سے وہ ادب اور فنونِ لطیفہ میں‌ دل چسپی لینے لگا اور بعد میں‌ تھیٹر کا شوقین اور کہانیوں کا رسیا بن گیا۔ اسے کم عمری میں اسٹیج پر اداکاری کا موقع بھی ملا اور پھر اس نے قلم تھام کر کئی شاہ کار افسانے تخلیق کیے۔

    چیخوف نے ابھی بچپن کی دہلیز پار نہیں کی تھی کہ اس گھرانے کے مالی حالات بگڑ گئے اور اس یوں اسے غربت اور اس سے جڑے ہوئے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ انتون چیخوف کو اپنی تعلیم جاری رکھنے کے لیے بہت سے کام کرنا پڑے۔ وہ ٹیوشن پڑھانے کے ساتھ پرندے پکڑ کر بیچنے لگا اور کسی طرح اسکیچ بنانا سیکھ کر اخبار کے لیے بامعاوضہ یہ کام بھی شروع کردیا۔

    اس زمانے میں چیخوف نے ادب کا مطالعہ شروع کر دیا تھا۔ 1879ء میں اس نے ایک میڈیکل اسکول میں داخلہ لے لیا اور تب اسے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے زیادہ محنت اور مختلف کام بھی کرنے پڑے۔ وہ اپنی آمدنی سے گھر کی ضروریات بھی پوری کرتا تھا۔

    چیخوف جو اسکیچز بناتا تھا، وہ ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ساتھ کسی مسئلے کی نشان دہی کرتے تھے۔ اس کے اسکیچز کو بہت پسند کیا جانے لگا تھا اور یوں وہ یومیہ بنیاد پر اخبار کی اشاعت کا حصّہ بننے لگے تھے۔ وہ ان میں اپنے معاشرے کی کوئی نہ کوئی تصویر پیش کرتا جس کے باعث اس کی شہرت بڑھی اور ایک بڑے پبلشر نے چیخوف کو اپنے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کر لیا۔ اس عرصے میں وہ مختلف جرائد کے لیے لکھنے لگا اور تھیٹر کے لیے بھی ڈرامہ تحریر کیا۔ اس کا ڈرامہ بہت پسند کیا گیا اور عوامی سطح پر پذیرائی کے بعد اس نے پوری توجہ لکھنے پر مرکوز کردی۔

    ڈرامہ اور افسانہ نگاری کے ساتھ چیخوف تعلیمی مدارج بھی طے کرتا رہا اور 1884ء میں فزیشن بن گیا۔ وہ ایک درد مند اور حسّاس طبع شخص تھا، جس نے غریبوں اور ناداروں کا مفت علاج کیا۔ تاہم بعد میں‌ مکمل طور پر ادبی اور تخلیقی کاموں میں‌ مشغول ہوگیا۔ چیخوف نے اپنی کہانیوں کو اکٹھا کیا اور کتابی شکل میں شایع کروایا تو اسے زبردست پذیرائی ملی اور وہ روس کا مقبول ترین ادیب بن گیا۔

    اس باکمال ادیب کو تپِ دق کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور اس زمانے میں‌ مؤثر اور مکمل علاج ممکن نہ تھا جس کے باعث وہ روز بہ روز لاغر ہوتا چلا گیا اور اسی بیماری کے سبب ایک روز زندگی کی بازی ہار گیا۔

    چیخوف کی روسی ادب میں پذیرائی اور قارئین میں اس کی مقبولیت کی وجہ وہ کہانیاں تھیں‌ جن میں اس نے اپنے معاشرے کی حقیقی زندگی کو پیش کیا۔ اس نے ہر خاص و عام کی کہانی لکھی جس میں معاشرتی تضاد، منافقت کی جھلکیاں اور سچ اور جھوٹ کے دہرے معیار کو نہایت مؤثر پیرائے میں رقم کیا گیا ہے۔ چیخوف کے افسانوں اور اس کے ڈراموں کا دنیا کی کئی زبانوں‌ میں ترجمہ ہوا جن میں اردو بھی شامل ہے۔

  • یومِ وفات: ممتاز شیریں کو اردو کی پہلی خاتون نقّاد کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: ممتاز شیریں کو اردو کی پہلی خاتون نقّاد کہا جاتا ہے

    ممتاز افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ممتاز شیریں نے 11 مارچ 1973ء کو اس دنیا سے کوچ کیا۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔ زندگی کے آخری ایّام میں وہ وفاقی وزارتِ تعلیم میں بہ حیثیت مشیر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

    ممتاز شیریں سے ایک ملاقات کے عنوان سے میرزا ادیب لکھتے ہیں: "ممتاز شیریں جس وقت دنیائے ادب میں داخل ہوئیں تو ان کی حیثیت افسانوں کے ایک سخت گیر نقاد کی تھی۔ ان کے مضامین پڑھے تو پتہ چلا کہ یہ خاتون اردو کے افسانے تو رہے ایک طرف انگریزی، روسی اور فرانسیسی افسانوی ادب کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کرچکی ہیں۔

    ان کا مقالہ” تکنیک کا تنوع” سویرا میں چھپا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ یہ مقالہ ایک ایسے ذہن کی پیداوار معلو ہوتا تھا جس نے برسوں افسانے کی متنوع تکنیک سمجھنے کی کوشش کی اور دنیا کے نام ور افسانہ نگاروں کے مشہور افسانوں کو غور و فکر کی گرفت میں لے چکا ہے۔ یہ مضمون اور ان کے دوسرے مضامین پڑھ کر میں نے ان کے بارے میں ایک خاص تصویر بنالی تھی اس کے بعد ان کے افسانے چھپنے لگے معلوم ہوا کہ وہ جتنی اچھی نقاد ہیں اسی قدر ماہر فن افسانہ نگار بھی ہیں۔

    اپنی افسانوی تحقیقات میں وہ زندگی کی ہر حقیقت کو، وہ کتنی بھی تلخ اور مکروہ کیوں نہ ہو، اس کی پوری جزیات کے ساتھ پیش کردیتی تھیں۔ جنتی موضوعات کے سلسلے میں ان کا قلم خاص طور پر بڑا بے باک تھا۔ سعادت حسن منٹو ان کا پسندیدہ افسانہ نگار تھا۔ اس سے بھی ان کے تخلیقی رجحانِ طبع کا اندازہ ہوجاتا ہے۔”

    ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ انگڑائی ادبی مجلّہ ساقی، دہلی میں 1944ء میں شائع ہوا تھا جسے ادبی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی اور بعد میں بھی انھوں نے اپنے تنقیدی مضامین اور تراجم سے علم و ادب کی دنیا کو مالا مال کیا۔ ممتاز شیریں معروف ادبی جریدے نیا دور کی مدیر بھی تھیں۔ وہ اس زمانے کی روایتی سوچ اور عورتوں سے متعلق مخصوص ذہنیت کو مسترد کرتے ہوئے اپنے افکار اور قلم کی بے باکی کی وجہ سے بھی مشہور ہوئیں۔

    ممتاز شیریں 12 ستمبر 1924ء کو ہندو پور (آندھرا پردیش) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے نانا جو میسور میں مقیم تھے، انھوں نے اپنی اس نواسی کو تعلیم و تربیت کی غرض سے اپنے پاس میسور بلا لیا۔ اس طرح بچپن ان کا ننھیال میں گزرا۔ ممتاز شیریں نہایت ذہین اور قابل طالبہ تھیں اور گھر کا ماحول بھی علمی و ادبی تھا جس نے انھیں لکھنے لکھانے کی طرف راغب کرلیا۔ یوں تعلیم کے ساتھ ان کا ادبی سفر بھی جاری رہا اور 1942ء میں ان کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی جو بعد میں پاکستان میں سرکاری عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ جوڑا بیرونِ ملک بھی مقیم رہا اور قیامِ پاکستان کے بعد اس خاندان نے کراچی میں سکونت اختیار کی تھی۔

    ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا، حدیثِ دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو، نہ نوری نہ ناری کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انھوں نے جان اسٹین بک کے مشہور ناول دی پرل کا اردو ترجمہ دُرِشہوار کے نام سے کیا تھا۔ ان کی آپ بیتی اور خطوط بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔

  • نام وَر ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی برسی

    نام وَر ادیب اور ڈرامہ نگار اشفاق احمد کی برسی

    آج اشفاق احمد کا یومِ وفات ہے جو اردو اور پنجابی کے نام وَر ادیب، افسانہ و ڈرامہ نگار، دانش وَر اور مشہور براڈ کاسٹر تھے۔

    اردو ادب کے قارئین کا اشفاق احمد سے تعارف ان کے افسانوں کے ذریعے ہوا اور پھر انھوں نے مختلف اصنافِ‌ ادب میں طبع آزمائی کی۔ ان کا پہلا افسانہ ’توبہ‘ سنہ 1944ء میں ’ادبی دنیا‘ میں شایع ہوا۔ تقسیمِ ہند کے بعد جو نئے افسانہ نگار سامنے آئے، ان میں اشفاق احمد کو بہت پسند کیا گیا۔

    ’گڈریا‘ ان کا لازوال افسانہ تھا۔ اشفاق احمد نے جہاں ادب کے قارئین کو اپنی تخلیقات سے متاثر کیا، وہیں وہ ایک صوفی اور دانا کی حیثیت سے بھی مشہور ہوئے اور ان کی نصیحتوں اور حکایات نے انھیں ہر خاص و عام میں مقبول بنایا۔

    اشفاق احمد 22 اگست 1925ء کو ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد دیال سنگھ کالج اور اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے، اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈ کاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔

    وہ ’’داستان گو‘‘ اور ’’لیل و نہار‘‘ نامی رسالوں کے مدیر رہے اور 1966ء سے 1992ء تک اردو سائنس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اردو کی نام وَر ادیبہ بانو قدسیہ ان کی شریکِ حیات تھیں۔

    ان کے افسانوی مجموعے ایک محبت سو افسانے، اجلے پھول، سفرِ مینا، پھلکاری کے نام سے شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ سفر نامے بھی لکھے۔ ان کی کہانیوں پر مبنی طویل دورانیے کے کھیل پی ٹی وی پر نشر ہوئے اور بہت پسند کیے گئے۔ اشفاق احمد نے عالمی ادب سے چند ناولوں کا اردو ترجمہ بھی کیا۔

    ریڈیو کا مشہور ڈرامہ ’’تلقین شاہ‘‘ ان کا تحریر کردہ تھا جس میں اشفاق احمد نے صدا کاری بھی کی۔

    اشفاق احمد نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے متعدد کام یاب ڈرامہ سیریلز تحریر کیے۔ 80ء کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور من چلے کا سودا نشر ہوئی جو بہت مقبول ہوئی۔ اسی عرصے میں وہ تصوّف کی طرف مائل ہوگئے تھے۔ ایک عرصے تک انھوں نے پی ٹی وی پر زاویہ کے نام سے پروگرام کیا جو دانائی اور حکمت کی باتوں پر مبنی تھا۔ یہ ایک مجلس ہوتی تھی جس میں وہ اپنے ساتھ موجود لوگوں کو نہایت پُرلطف اور اپنے مخصوص دھیمے انداز میں‌ قصّے کہانیاں اور حکایات سناتے اور ان کے سوالات کے جوابات دیتے تھے۔

    حکومتِ پاکستان نے اشفاق احمد کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور ہلالِ امتیاز عطا کیا تھا۔

    اشفاق احمد 2004ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے انھیں لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • کیا آپ پنڈت برج موہن دتاتریہ کو جانتے ہیں؟

    کیا آپ پنڈت برج موہن دتاتریہ کو جانتے ہیں؟

    پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی دہلوی اردو کے عاشقوں میں سے تھے۔

    انجمن ترقی اردو (ہند) کا مرکزی دفتر حیدر آباد دکن سے دہلی منتقل ہوا تو وہ انجمن کے ہمہ وقتی رکن بن گئے اور اردو کی ترقی اور فروغ کی کوششوں میں بابائے اردو کا ہاتھ بٹانے لگے۔

    بڑے عالم فاضل شخص تھے۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی پر تو عبور رکھتے ہی تھے، سنسکرت اور ہندی میں بھی خاصی استعداد تھی۔ اعلیٰ پائے کے ادیب اور شاعر تھے۔

    ابتدا میں اپنے کلام پر انھوں نے مولانا حالی سے اصلاح لی تھی۔ تنقید میں بھی حالی کی پیروی کرتے تھے۔ معاش کے لیے پنڈت کیفی نے درس و تدریس کا پیشہ اختیار کیا۔ عرصہ دراز تک کشمیر میں قیام پذیر رہے۔ کچھ عرصہ لائل پور (موجودہ فیصل آباد) میں بھی گزارا۔ ان کی شخصیت میں ایسی کشش تھی کہ جہاں بھی رہے وہاں کے شاعر اور ادیب ان کے پاس آئے اور ان کی صحبت سے فیض اٹھایا۔

    پنڈت کیفی ان بوڑھوں میں سے تھے جن کی صحبت میں بوڑھوں، جوانوں، بچوں سبھی کا دل لگتا۔ میری ان سے خاصی دوستی ہوگئی تھی۔ دلی تو ان کا گھر ہی تھا۔ اس کے چپے چپے کی تاریخ سے وہ واقف تھے۔ اپنے بچپن اور جوانی کی دلی کے قصے مزے لے لے کے سنایا کرتے تھے۔ کشمیر اور لائل پور کے بھی قصے سناتے اور لائل پور کے اپنے بعض دوستوں اور شاگردوں کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے۔

    کیفی دہلوی نے ادب و شعر کی مختلف اضاف میں متعدد کتابیں لکھیں جن میں سے بعض نصاب میں بھی شامل رہیں۔ وہ 13 دسمبر 1866 کو دہلی میں پیدا ہوئے اور یکم نومبر 1955 کو نواسی سال کی عمر میں دہلی کی ایک نواحی بستی غازی آباد میں وفات پائی۔

    (معروف شاعر، افسانہ نگار اور فلم ساز خلیق ابراہیم خلیق کی یادداشتوں سے ایک ورق)

  • احمد ندیم قاسمی کو گزرے 13 برس بیت گئے

    احمد ندیم قاسمی کو گزرے 13 برس بیت گئے

    اردو ادب کے نامور شاعر اورادیب احمد ندیم قاسمی کی آج تیرویں برسی منائی جارہی ہے، آپ لاہور میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے تھے۔

     احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916ء کو پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ  پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے۔ افسانہ اور شاعری میں شہرت پائی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ انہوں نے نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔

    احمد ندیم قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے، اصل نام احمد شاہ تھا اور اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ندیم ان کا تخلص تھا۔

    قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات بھری تھی۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیرباد کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی گزر بسر کا کوئی سہارا نہ تھا۔ کئی بار فاقہ کشی کی بھی نوبت آ گئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال سے باخبر کرنے سے انھیں باز رکھا۔ انھی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی۔وہ انھیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔

    یہاں تو اپنی صدا کان میں نہیں پڑتی

    وہاں خدا کا تنفس سنائی دیتا ہے

    انھی دنوں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے انھیں اپنے ماہانہ رسالے ’پھول‘ کی ادارت کی پیش کش کی جو انھوں نے قبول کر لیِ، پھول بچوں کا رسالہ تھا اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں۔

    قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتدا 1931 میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ ’سیاست‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ یہی نہیں بعد میں بھی 1934 اور 1937 کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ ’انقلاب‘ لاہوراور ’زمیندار‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انھیں عالمِ جوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔

    اُسی دور میں اُنہوں نے افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے تھے۔ اُن کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ اُس دور کے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شائع ہوا، جسے پڑھنے کے بعد اُس زمانے کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اختر شیرانی سے رابطہ قائم کیا اور اس افسانے کی تعریف کی۔ قاسمی صاحب کے بقول اِس کے بعد اُن کی منٹو سے خط و کتابت شروع ہو گئی۔

    ان کے شعری مجموعات میں میں بے گناہ، رم جھم، دھڑکنیں، جلال وجمال، لوح وخاک اوردشتِ وفا بے حد معروف ہیں جبکہ افسانوں میں چوپال، آنچل، آبلے درو دیواراور برگ حنا بے پناہ شہرت کے حامل ہیں۔

    احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصرعلالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے قریباً 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ہفتہ 8 جولائی 2006ء کو انہیں سانس کی تکلیف کے سبب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا جہاں انہیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا  ، تاہم وہ جاں بر نہ ہوسکے اور پیر 10 جولائی 2006ء کی صبح کو انتقال ہوگیا۔

    کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

    میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

  • اردو کے کلاسک ادیب سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ

    اردو کے کلاسک ادیب سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ

    آج اردو کے کلاسک ادیب اور صاحب اسلوب افسانہ نویس سعادت حسن منٹو کی 107 ویں سالگرہ ہے۔

    منٹو نے معاشرے کی ننگی سچائیوں کو افسانوں کا موضوع بنایا تو اخلاقیات کے نام نہاد علم بردار پریشانی کا شکار ہو گئے اور ان کے خلاف محاذ بنا لیا۔

    اس منفرد اور بے مثال افسانہ نگار کے قلم کی کاٹ کے سامنے منافقانہ روش رکھنے والے سماج کے اخلاق کے نام نہاد محافظ نہیں ٹک سکے، منٹو کی اس روش کے خلاف یہی بغاوت ان کی شہرت کا باعث بنی۔

    مختصر اور جدید افسانے لکھنے والے یہ بے باک مصنف 11 مئی 1912 کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ کے شہر شملہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری نسل کا یہ خوب صورت، فیشن ایبل، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والا مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والا یہ افسانہ نگار ہم عصر ادیبوں میں نمایاں شخصیت کا مالک تھا لیکن پھر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں، دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گِھر کر محض تینتالیس سال کی عمرمیں اس دارِفانی سے کوچ کر گیا۔

    منٹو اپنی بیوی صفیہ کے ساتھ

    منٹو کا قلم مخصوص طور پر تحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انھیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچار کیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پر جو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک ناقابل فراموش داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی سرجری کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر، دلالوں پر اور انسانی فطرت پر قلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جا سکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پر ابھارا جو ہند و پاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پر گناہ تصوّر کیے جاتے تھے۔

    منٹو اپنی بیٹیوں نزہت، نگہت اور نصرت کے ساتھ

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اور مزید متنازع فیہ موضوعات پر کھل کر قلم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بار انھیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگر قانون انھیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریر گھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں۔‘‘

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلوار، بلاؤز اور یزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    اپنی عمر کے آخری سات برسوں میں منٹو دی مال لاہور پر واقع بلڈنگ دیال سنگھ منشن میں مقیم رہے، جہاں اپنی زندگی کا آخری دور انھوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثر ہو چکا تھا اور آخر کار 18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کو تاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پر حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شایع کیا تھا۔

  • آدم شیر: "ہیولا” کا افسانہ نگار اور مستقبل کے امکانات

    آدم شیر: "ہیولا” کا افسانہ نگار اور مستقبل کے امکانات

    تبصرہ نگار:‌ شیخ نوید

    "اِک چپ، سو دکھ” کے افسانوں کو پڑھ کر پہلی خوشی تو یہ ہوئی کہ افسانے سردرد کا باعث نہیں‌ بنے، اردو کے کچھ جدید افسانہ نگاروں کا یہ چلن عام ہے کہ وہ حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ قاری کو افسانہ سمجھ نہ آئے، دماغ کا دہی بن جائے، قاری سر پر ڈوپٹہ باندھ، صبح شام سر درد کی گولیاں نگلتا رہے، لیکن "عظیم ترین علامتی افسانے” کی کہانی پن (اگر موجود ہو) تک اُس کی رسائی نہ ہونے پائے اور بالآخر تھک ہار، وہ افسانے کے خالق کو کافکا اور بورخیس کا استاد ماننے پر مجبور ہوجائے۔

    صاحب کتاب آدم شیر

    اردو علامتی کہانیوں کے بادشاہ نیر مسعود نے کہا تھا: "علامت افسانے میں اتنی ہی قوت پیدا کرسکتی ہے، جتنی شاعری میں، بہ شرطے کہ علامتی مفہوم سے قطع نظر کرکے بھی افسانہ اپنی جگہ قائم رہے۔ ہیمنگوے کے طویل افسانے "بوڑھا اور سمندر ” میں اگر سمندر سے محض سمندر، مچھلیوں سے محض مچھلیاں اور ماہی گیر سے محض ماہی گیر مراد لیا جائے، تو بھی یہ ایک مضبوط اور  قائم بالذات افسانہ ہوگا۔”

    آگے وہ لکھتے ہیں: "لیکن اگر علامتیں اسی طرح برتی جانے لگیں کہ انہیں سمجھے اور علامت مانے بغیر افسانہ نہ بن سکے، تو علامتی افسانہ کسی ناکام تجریدی افسانے کی طرح اذیت دے گا۔”

    نیر مسعود کا خدشہ ایک بھیانک خواب بن کر اردو قارئین کے سر پر نازل ہوا اور اردو قاری کو ایسے ایسے "علامتی افسانوں” سے جھوجھنا پڑا، جس میں سے اگر علامت کو نکالا جائے، تو  افسانے میں صرف رموز واوقاف کے نشانات اور افسانہ نگار کی کمپوزنگ غلطیاں ہی رہ جاتی ہیں۔

    آدم شیر میں اگرچہ علامتی افسانوں کی ہڑک نہیں، لیکن "کھلے پنجرے کا قیدی” ایک معیاری علامتی افسانہ شمار کیا جاسکتا ہے۔ محدب عدسہ لے کر علامت تلاش نہ کرنے کے باوجود بھی افسانہ پڑھنے والے کو مایوسی کی کھائی میں نہیں دھکیلتا۔

    آدم شیر اپنے افسانوں میں کائنات کے بڑے بڑے مسائل حل کرنے کا داعی نہیں ہے، اُسے اپنے پاؤں زمین پر ٹکائے رکھنا پسند ہے

    آدم شیر اپنے افسانوں میں کائنات کے بڑے بڑے مسائل حل کرنے کا داعی نہیں ہے، اُسے اپنے پاؤں زمین پر ٹکائے رکھنا پسند ہے، بلکہ وہ اپنے ہم عمروں کے رنگین مسائل سے زیادہ ان نوخیز کلیوں کے لئے زیادہ مضطرب ہے، جو معاشرے کی سفاکی کا اپنے ناتواں وجود کے ساتھ بے جگری سے مقابلہ کرتے ہیں۔ منٹو کی طرح اُس کے کردار بھی جیتے جاگتے اور چلتے پھرتے معاشرے سے برآمد ہوتے ہیں اور اسے ان کی تلاش میں ٹمبکٹو اور موغادیشو کی آب وہوا بیان کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

    "دبدھا”، "ایک چپ سو دکھ” اور”دس ضرب برابر دو صفر” میں بچوں کے لئے درمندی اور ہمدردی کا احساس ہمیں عروج پر نظر آتا ہے، آدم شیر کا رویہ بچوں کے بابت بلاامتیاز احساس ذمے داری کا نظر آتا ہے۔ بچے گھر کے ہوں یا سڑک پر، نرم بستر پر ہوں یا کچرے کے ڈھیر میں، مصنف کا انسانی ہمدری پر مبنی رویہ ہرجگہ نظر آتا ہے۔ ہمدردی اور درد مندی کی ایک لہر اپنی پوری قوت کے ساتھ کہانی کے بین السطور چلتی رہتی ہے۔ معذور بچوں کی بے کسی اور تیسری جنس کی معاشی بدحالی بھی مصنف کی دردمندی کے دائرے سے باہر نہیں نکلتی اور”غیر دلچسپ کہانی”اور "انسان نما” میں جابجا بکھری نظر آتی ہے۔

    تبصرہ نگار: شیخ نوید

    افسانوی مجموعے میں جس افسانے نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ "ہیولا” ہے، اگرچہ موضوع نیا نہیں، والدین کے سامنے بچے کی موت پر کئی ادیبوں نے خامہ فرسائی کی ہے، منٹو کا لکھا افسانہ آج بھی دوبارہ پڑھنے کی ہمت نہیں جُٹا پاتا جبکہ امریکی ادیب ریمنڈ کاروَر نے "زندگی” کے نام سے اِس موضوع کو ایک نئی جہت عطا کی تھی۔

    منٹو کا افسانہ پڑھنے کے بعد قاری ایک بند گلی میں داخل ہوجاتا ہے، موت اپنی پوری سفاکی اور دہشت کے ساتھ اُس کے وجود کو ہلا کررکھ دیتی ہے۔ ریمنڈ کاروَر کی کہانی موت کی شکست کا اعلان کرتی ہے اور ہمارے سامنے یہ وجودی سچائی منکشف کرتی ہے کی زندگی کا پہیہ موت کے کاروبار کے باوجود پوری آب وتاب سے چلتا رہتا ہے۔

    آدم شیر اِس موضوع میں نئی بات نکالنے میں کامیاب رہا، ماں باپ مرتے بچے کے لئے موت کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں، وہ اپنی دانست میں موت کو شکست بھی دے دیتے ہیں، لیکن وینٹی لیٹر کے ہاتھوں ہار جاتے ہیں اور اُسی کو اپنے جگر کے ٹکڑے کی موت کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ افسانے کی حیران کن اور فرحت انگیز شے اُس کی نثر ہے، رواں دواں اور سلاست سے بھرپری نثر ابتداء سے ہی قاری کو اپنی گرفت میں جکڑ کر آخر تک لے جاتی ہے۔

    مجھے امید ہے آدم شیر مزید شان دار اور یادگار افسانے لکھے گا، لیکن میری نظر میں یہ افسانہ آدم شیر کے تعارف کا ذریعہ رہے گا اور میں اُسے "ہیولا کا افسانہ نگار” ہی یاد رکھوں گا۔