Tag: افسانہ نگار انتقال

  • اقبال متین: اردو زبان کا البیلا افسانہ نگار

    اقبال متین: اردو زبان کا البیلا افسانہ نگار

    ارضِ دکن کے بے مثال اور البیلے افسانہ نگار اقبال متین نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شعر گوئی سے کیا تھا۔ لیکن چند سال بعد ان کی شناخت اُن کی افسانہ نگاری بن گئی۔ انھوں نے سماجی جبر اور استحصال کو اپنا موضوع بنایا اور اردو ادب کو کئی متاثر کن افسانے دیے۔

    اقبال متین 2 فروری 1929ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام سید عبد القادر ناصر اور والدہ کا نام سیدہ آصفیہ بیگم تھا۔ اقبال متین کو شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول میسر آیا تھا ار انھوں‌ نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔ اقبال متین کی پہلی کہانی ’’چوڑیاں‘‘ تھی جو 1945ء میں ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور میں شائع ہوئی۔ رسالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور کے مدیر احمد ندیم قاسمی تھے جو اردو افسانے کے صف اول کے لکھنے والوں میں امتیازی حیثیت اور نام و مرتبہ رکھتے تھے۔ ان کا یہ رسالہ بھی اس دور کے اہم رسالوں میں سے ایک تھا۔ گویا اقبال متین کی کہانی کا اس رسالہ میں شائع ہونا ان کے لیے تو ایک اعزاز سے کم نہ تھا اور ساتھ ہی انھیں اپنے مستقبل کے لیے ایک سند بھی حاصل ہو گئی تھی۔ ’’ادبِ لطیف‘‘ کے بعد ان کی کہانیاں’’ادبی دنیا‘‘ ، ’’نیا دور‘‘ اور ’’افکار‘‘ میں شائع ہونے لگی تھیں۔

    اقبال متین نے شاعری مکمل طور پر ترک تو نہیں کی لیکن شاعری سے زیادہ کہانیوں پر توجہ دی اور ادبی حلقوں میں متاثر کن اور کام یاب افسانہ نگار کے طور پر جگہ بنائی۔ بھارت کے اس معروف اردو ادیب نے افسانہ اور ناول کے ساتھ خاکے اور مضمون بھی لکھے جو کتابی شکل میں شایع ہوئے۔ اقبال متین کا ناول ’’چراغ تہ داماں 1976ء‘‘ ، ’’سوندھی مٹی کے بت 1995ء‘‘ (خاکے)، ’’باتیں ہماریاں‘‘ 2005ء (یادیں)، ’’اعتراف و انحراف 2006ء‘‘ (مضامین )، جب کہ ’’اجالے جھروکے میں ‘‘ (مضامین) 2008ء میں شائع ہوئے۔

    5 مئی 2015ء کو دکن میں‌ انتقال کرنے والے اقبال متین کو بھارت میں اردو اکادمی اور دوسری انجمنوں کی جانب سے متعدد ادبی اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا۔

  • معروف افسانہ نگار اپندر ناتھ اشکؔ اور پرچون کی دکان

    معروف افسانہ نگار اپندر ناتھ اشکؔ اور پرچون کی دکان

    متحدہ ہندوستان میں‌ ترقی پسند تحریک کا شور تھا اور اردو ادب پر تازہ فکر اور نئے رجحانات کا سایہ۔ اپندر ناتھ اشکؔ اسی دور میں اردو افسانے کا جھنڈا اٹھائے دکھائی دیے۔ زرخیز ذہن کے مالک اپندر ناتھ اشک نے اپنے قلم کے زور پر خود کو معاشرے کا زبردست نباض ثابت کیا۔ انھیں ہندوستانی معاشرے کا ایک ناصح بھی کہا جاسکتا ہے جس کی کہانیوں پر اخلاقی رنگ غالب ہے۔

    آج افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اپندر ناتھ اشک کا تذکرہ ان کے یومِ وفات کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ 1996ء میں آج ہی کے دن اشک چل بسے تھے۔

    اپندر ناتھ اشکؔ نے طویل عرصہ تک ادب کے قارئین کو اصلاحی کہانیاں‌ دیں اور اپنے وطن کی معاشرت میں‌ پنپتی خامیوں، اور لوگوں کی کم زوریوں‌ کی نشان دہی کرتے رہے۔ اشکؔ کے موضوعات میں سیاست کو بھی دخل رہا، لیکن یہاں بھی ان کا انداز ناصحانہ نظر آتا ہے اور وہ خرابیوں کو دور کرنے کی بات کرتے ہیں۔

    اردو زبان کے معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس اپندر ناتھ اشکؔ نے پنجابی زبان میں‌ شاعری بھی کی۔ وہ ہندوستان میں اردو زبان و ادب سے وابستہ ایسے اہلِ‌ قلم تھے جسے اپنی قوم، اپنی تہذیب اور روایات کا بڑا درد تھا اور جو اپنے لوگوں کی اصلاح اور ان کی خرابیوں کو دور کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔ اشک 14 دسمبر 1910ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے۔ 1930ء تک وہ لاہور میں مقیم رہے اور پھر ہندوستان چلے گئے۔ ان کے ادبی سفر کا آغاز تو پنجابی شاعری سے ہوا تھا لیکن پھر اشک نے نثر کا سہارا لیا اور مختلف اخبارات اور رسائل میں لکھنے لگے۔ اپندر ناتھ اشکؔ کا پہلا ہندی کہانیوں کا مجموعہ جدائی کی شام کے گیت لاہور سے شائع ہوا تھا۔ انھوں نے آل انڈیا ریڈیو میں ایک عرصہ گزارا اور جب بمبئی گئے تھے تو وہاں فلم نگری سے وابستہ ہوگئے۔ ریڈیو کے لیے اشک کئی ریڈیائی ڈرامے اور اسکرپٹ لکھ چکے تھے اور فلموں میں ان کا یہ تجربہ کام آیا۔ انھوں‌ نے فلمی کہانیاں اور اسکرین پلے تحریر کیے۔

    اپندر ناتھ اشکؔ اپنی تحریروں میں پنجاب کی روزمرہ دیہی زندگی کی عکاسی بڑے خوب صورت انداز میں کرتے ہیں۔ افسانہ نگاری میں ان کی مضبوط گرفت اور زبان کی روانی بہت متاثر کن ہے۔ اشک کے افسانوں میں پاپی، کونپل، پلنگ اور ڈراموں میں ‘چھٹا بیٹا، انجو دیدی اور قید بہت مشہور ہوئے۔

    اپندر ناتھ اشک نے 85 سال کی عمر میں الٰہ آباد میں وفات پائی۔ معروف براڈ کاسٹر، محقّق اور مصنّف رضا علی عابدی نے ان پر ایک مضمون میں لکھا:

    "یہ میرا بی بی سی لندن کی اردو سروس کا زمانہ تھا۔ اپندر ناتھ اشک الہٰ آباد سے چل کر لندن آئے اور بی بی سی کی تاریخی عمارت’بُش ہاؤس‘ میں تشریف لائے۔ اسی ادارے کی ہندی سروس میں ان کا بیٹا نیلابھ کام کرتا تھا، اس سے کہا کہ مجھے رضا علی عابدی سے ملواؤ۔ وہ باپ کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لے آیا۔ یوں لگا جیسے بچپن میں اکٹھے کنچے کھیلنے والا کوئی دوست چلا آیا ہو۔ میں نے چاہا قدموں میں بیٹھوں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سَر پر بٹھالیں۔”

    "واپس الہ آباد چلے گئے مگر وہاں کی خبریں ملتی رہیں۔ پتہ چلا کہ اپندر ناتھ اشک کی کتابوں کی فروخت برائے نام رہ گئی ہے اور یہ کہ بددیانت افسر سرکاری اداروں کے لیے ان کی کتابیں نہیں خرید رہے۔ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی مگر کوئی اثر نہ ہوا، یہاں تک کہ اتنے بڑے شاعر اور ادیب کی مالی حالت جواب دینے لگی۔ وہ ٹھہرے سدا کے ادیب اور شاعر۔ معاشرے کے منہ پر تھپڑ رسید کرنے کے لیے انہوں نے اپنے گھر کے باہر آٹے دال کی دکان کھول لی تاکہ اخباروں میں سرخی لگے کہ سرکردہ ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھول لی۔ یہی ہوا۔ اخباروں کو چٹپٹی خبر مل گئی۔ کیسا عجب اتفاق ہوا کہ میں اپنے پروگرام ’جرنیلی سڑک‘ کی تیاری کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے دورے پر نکلا۔ چونکہ الہ آباد اسی سڑک پر واقع ہے، ایک صبح میں نے خود کو اپندر ناتھ اشک کے گھر پر پایا۔ باہر پرچون کی دکان کھلی ہوئی تھی اور ان کی بیگم کوشلیا سودا سلف بیچ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر کھل اٹھے اور بہت پیارا انٹرویو ریکارڈ کرایا۔”

  • جب نام وَر بھارتی ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھولی!

    جب نام وَر بھارتی ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھولی!

    اپندر ناتھ اشک معاشرت پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے سماج کی برائیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے سیاست کو بھی اپنی کہانیوں میں‌ پیش کیا جن پر اخلاقی اور اصلاحی رنگ غالب رہا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ وہ اردو زبان کے معروف افسانہ نگار، ڈرامہ نویس اور پنجابی زبان کے شاعر تھے۔

    اشک کا تعلق بھارت سے تھا۔ انھوں نے 14 دسمبر، 1910ء کو جالندھر میں آنکھ کھولی۔ 1930ء تک لاہور میں رہائش پزیر رہے اور بعد میں ہندوستان چلے گئے تھے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز پنجابی شاعری سے ہوا۔ بعد میں وہ مختلف اخبارات اور رسائل میں لکھنے لگے۔ ان کا پہلا ہندی کہانیوں کا مجموعہ جدائی کی شام کے گیت لاہور سے شائع ہوا تھا۔ ایک بڑا عرصہ آل انڈیا ریڈیو میں گزرا اور جب بمبئی میں رہائش اختیار کی تو فلم نگری سے وابستہ ہوگئے۔ ریڈیو کے لیے لکھنے کے بعد انھوں نے کئی فلموں کی کہانیاں اور اسکرین پلے بھی تحریر کیے۔

    اپندر ناتھ اشک اپنی تحریروں میں پنجاب کی روزمرہ دیہی زندگی کی عکاسی بڑے خوب صورت انداز میں کرتے ہیں۔ افسانہ نگاری میں ان کی مضبوط گرفت اور زبان کی روانی بہت متاثر کن ہے۔ ان کے زرخیز ذہن اور قلم کی روانی نے اردو افسانے کے ذخیرے میں بہت اضافہ کیا۔ اشک کے افسانوں میں پاپی، کونپل، پلنگ اور ڈراموں میں ‘چھٹا بیٹا، انجو دیدی اور قید بہت مشہور ہوئے۔ ان کے افسانوں پر ناصحانہ اور اخلاقی رنگ غالب رہا۔

    19 جنوری 1996ء کو انھوں نے الٰہ آباد، ہندوستان میں وفات پائی۔ ان کی عمر 85 سال تھی۔ اپندر ناتھ اشک کے بارے میں معروف صحافی، نام ور محقّق اور مصنّف رضا علی عابدی نے ایک مضمون میں لکھا تھا:

    "اچھے زمانوں میں ایک مضمون پڑھا تھا جو ہمیشہ یاد رہا۔ عنوان تھا ’منٹو میرا دشمن‘۔ مصنف تھے اُپندر ناتھ اشک۔ ترقی پسندوں کی انقلابی تحریک میں اردو افسانے کا پرچم اٹھائے آگے آگے چلنے والوں میں یادگار شخصیت۔ قلم پر ایسی گرفت تھی کہ دشمن کا نام دے کر ایسے مثالی دوستی کے پُل باندھے کہ اس ہنر مندی پر عقل عرصے تک حیران رہی۔”

    "یہ میرا بی بی سی لندن کی اردو سروس کا زمانہ تھا۔ اپندر ناتھ اشک الہٰ آباد سے چل کر لندن آئے اور بی بی سی کی تاریخی عمارت’بُش ہاؤس‘ میں تشریف لائے۔ اسی ادارے کی ہندی سروس میں ان کا بیٹا نیلابھ کام کرتا تھا، اس سے کہا کہ مجھے رضا علی عابدی سے ملواؤ۔ وہ باپ کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس لے آیا۔ یوں لگا جیسے بچپن میں اکٹھے کنچے کھیلنے والا کوئی دوست چلا آیا ہو۔ میں نے چاہا قدموں میں بیٹھوں۔ ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ سَر پر بٹھالیں۔”

    "واپس الہ آباد چلے گئے مگر وہاں کی خبریں ملتی رہیں۔ پتہ چلا کہ اپندر ناتھ اشک کی کتابوں کی فروخت برائے نام رہ گئی ہے اور یہ کہ بددیانت افسر سرکاری اداروں کے لیے ان کی کتابیں نہیں خرید رہے۔ انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی مگر کوئی اثر نہ ہوا، یہاں تک کہ اتنے بڑے شاعر اور ادیب کی مالی حالت جواب دینے لگی۔ وہ ٹھہرے سدا کے ادیب اور شاعر۔ معاشرے کے منہ پر تھپڑ رسید کرنے کے لیے انہوں نے اپنے گھر کے باہر آٹے دال کی دکان کھول لی تاکہ اخباروں میں سرخی لگے کہ سرکردہ ادیب نے مالی حالات سے تنگ آکر پرچون کی دکان کھول لی۔ یہی ہوا۔ اخباروں کو چٹپٹی خبر مل گئی۔ کیسا عجب اتفاق ہوا کہ میں اپنے پروگرام ’جرنیلی سڑک‘ کی تیاری کے لیے ہندوستان اور پاکستان کے دورے پر نکلا۔ چونکہ الہ آباد اسی سڑک پر واقع ہے، ایک صبح میں نے خود کو اپندر ناتھ اشک کے گھر پر پایا۔ باہر پرچون کی دکان کھلی ہوئی تھی اور ان کی بیگم کوشلیا سودا سلف بیچ رہی تھیں۔ مجھے دیکھ کر کھل اٹھے اور بہت پیارا انٹرویو ریکارڈ کرایا۔”

  • ’’آنندی‘‘ کے خالق غلام عبّاس کا یومِ وفات

    ’’آنندی‘‘ کے خالق غلام عبّاس کا یومِ وفات

    مشہور افسانہ ’’آنندی‘‘ اردو ادب کے ہر شائق اور قاری نے ضرور پڑھا ہو گا۔ غلام عبّاس نے اپنے اس افسانے میں معاشرے کی زبوں حالی کی تصویر کشی کی ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل جن افسانہ نگاروں نے نام و پہچان بنائی، ان میں غلام عبّاس بھی شامل ہیں۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    غلام عبّاس 17 نومبر 1909ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ والد کی اچانک موت کے بعد خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اُن کے کاندھوں پر آن پڑی۔ وہ مطالعے کے شوقین تھے اور خود بھی لکھتے تھے۔ جلد ہی لاہور کے ادبی جرائد میں اُن کے تراجم شائع ہونے لگے۔ یوں ان کی آمدنی کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1938ء میں غلام عباس دہلی چلے گئے جہاں وہ آل انڈیا ریڈیو کے جریدے ’’آواز‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انھوں نے افسانہ ’’آنندی‘‘ لکھا۔ بھارت کے مشہور ہدایت کار شیام بینیگل نے اسی افسانے سے متاثر ہو کر فلم ’’منڈی‘‘ بنائی تھی۔

    1948ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ بھی ’’آنندی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ان کا ایک اور یادگار افسانہ ’’حمام میں‘‘ بھی شامل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد غلام عباس پاکستان آگئے اور ریڈیو پاکستان کا جریدہ ’’آہنگ‘‘ شروع کیا۔ 1949ء میں وہ وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ ہوئے اور بعد میں بی بی سی سے منسلک ہو گئے۔

    1952ء میں لندن سے واپسی پر انھوں نے دوبارہ ریڈیو پاکستان سے ناتا جوڑا اور 1967ء تک وہاں کام کرتے رہے۔ 1960ء میں اُن کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’جاڑے کی چاندنی‘‘ شائع ہوا جس پر انھیں آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ 1969ء میں اُن کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’کن رس‘‘ شائع ہوا۔ ان کا افسانہ ’’دھنک‘‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ 1986ء میں اپنے افسانے ’’گوندنی والا تکیہ‘‘ کو کتابی شکل میں شائع کیا۔

    وہ بچوں کے کئی رسائل کے مدیر بھی رہے۔ بچّوں کے لیے تراجم اور افسانوی ادب کی تخلیق کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

    2 نومبر 1982ء کو غلام عبّاس نے زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے’’ستارہ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔