Tag: افسانہ نگار غلام عباس

  • غلام عبّاس اور ہیرا بائی

    غلام عبّاس اور ہیرا بائی

    مجھے یاد ہے کہ جب میں عباس صاحب سے پہلی دفعہ استاذی صوفی تبسم صاحب کے ہاں ملا تو انہوں نے مجھے اپنی نیاز مندی کے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا۔ اُلٹا مجھے بتانے لگے کہ ” میں نے آپ کے سب مضامین پڑھے ہیں، آپ سے غائبانہ تعارف تو ہے، بس ملاقات نہیں ہوئی، تاثیر صاحب، فیض صاحب اور محمد حسن عسکری سے آپ کا ذکر بھی ہوتا رہا ہے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

    واقعہ یہ ہے کہ میرے بچپن کے زمانے میں ہر اُردو پڑھنے والے بچے کی سب سے پہلے جس لکھنے والے سے غائبانہ ملاقات ہوتی تھی وہ غلام عباس تھے۔ اس لیے کہ وہ ’’پھول‘‘ اخبار کے ایڈیٹر تھے اور ’پھول‘ ہر گھر میں ہفتہ وار سوغات کی طرح آتا تھا، میری بھی غلام عباس سے غائبانہ ملاقات اسی زمانے میں شروع ہوئی۔ غلام عباس کو بچوں اور نوجوان پڑھنے والوں کے دلوں میں گھر کرنے کا فن آتا تھا۔

    عباس صاحب لاہور میں بہت خوش تھے۔ یہاں کی گلیوں میں انہوں نے اپنے لڑکپن اور جوانی کے دن گزارے تھے ، ان کی بہت سی یادیں اس شہر سے وابستہ تھیں اور وہ اکثر ان یادوں کو تازہ کرتے رہتے تھے۔

    ایک دن مجھ سے کہنے لگے کہ چلیے آپ کو اس محلے میں کچھ اپنے پرانے دوستوں سے ملا لائیں۔ شام سے ذرا پہلے کا وقت تھا، ہم جب وہاں پہنچے تو عقب میں واقع بادشاہی مسجد کے میناروں سے دھوپ ڈھل چکی تھی اور محلے کی گلیوں میں شام ہو چکی تھی۔ ایک ذرا کشادہ گلی کی نکڑ پر ایک بڑے سے مکان کے سامنے عباس صاحب نے اپنا موٹر سائیکل روک لیا اور بڑی احتیاط سے پارک کیا۔ آس پاس کے دکان داروں سے علیک سلیک کی۔ مکان سے دروازے ہی پر کچھ ملازم پیشہ لوگوں نے عباس صاحب کو پہچان لیا۔ اندر اطلاع دی گئی تو ہمیں فوراً ہی بلا لیا گیا۔ ہم اوپر کی منزل کے ایک دالان میں پہنچے تو عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ یکے بعد دیگرے کئی عورتیں نمودار ہوئیں، بڑی بوڑھیوں نے عباس صاحب کی بلائیں لیں، دو ایک ہم عمروں نے گلے لگایا اور نئی نویلی لڑکیاں آداب سلام بجا لائیں۔ عباس صاحب نے میرا تعارف کرایا تو گورنمنٹ کالج میں میرے لیکچرار ہونے کا ذکر بھی کیا۔ اس پر مجھے بتایا گیا کہ ان کے عزیزوں میں سے فلاں فلاں وہاں پڑھتے رہے ہیں اور فلاں اب بھی پڑھ رہے ہیں، تھوڑی دیر بعد ایک تپائی پر چائے کا سامان رکھ دیا گیا۔ چائے کے ساتھ کھانے کے لیے گرم گرم سموسے اور شامی کباب، گاجر کا حلوہ۔ گپ شپ بھی ہوتی رہی اور کام و دہن کی تواضع بھی۔ آخر ایک مناسب موقع تلاش کر کے عباس صاحب نے میری خاطر سے گانے کی فرمائش کی۔ پہلے تو معمول کے عذر پیش کیے گئے۔ گلا خراب ہے، بہت دنوں سے ریاض نہیں کیا، یوں بھی اب تو لڑکیاں ہی گاتی ہیں وغیرہ وغیرہ مگر پھر مجھ سے یہ کہتے ہوئے کہ آپ عباس کے دوست ہیں اور پہلی دفعہ ہمارے گھر آئے ہیں، ہیرا بائی نے ہامی بھر لی۔ ساتھ والے کمرے سے طنبورہ اور طبلہ منگوائے گئے۔ ایک لڑکے نے طبلہ سنبھالا۔ ہیرا بائی نے طنبورہ ہاتھ میں لیا اور غالب کی غزل شروع کی:

    دل سے تری نگاہ جگر تک اُتر گئی
    دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

    اور اس طرح ڈوب کر گائی کہ سماں باندھ دیا۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ خود بھی غالب کے الفاظ اور اپنی آواز کے جذب و اثر میں کھوئی گئی ہیں، غزل ختم ہوئی تو میں نے جیسے ایک وجد کی سی کیفیت میں یہ شعر دہرا دیا:

    دیکھو تو دل فریبیٔ اندازِ نقشِ پا
    موجِ خرام ِ یار بھی کیا گُل کتر گئی

    ہیرا بائی فوراً بولیں۔ ’’پروفیسر صاحب! اب موجِ خرامِ یار کہاں، اب تو یار پھٹ پھٹی پر آتا ہے۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی عباس کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے ایک قہقہہ لگایا۔

    کچھ دیر اور ٹھہرنے کے بعد ہم نے اجازت چاہی، نیچے آئے تو ڈیوڑھی کے ساتھ والا دالان جگ مگ جگ مگ کر رہا تھا، سفید چاندنی پر گاؤ تکیے لگا دیے گئے تھے۔ سازندے سازوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے اور لڑکیاں سجی بنی مسند پر بیٹھی تھیں۔

    ہیرا بائی سے اپنی بھرپور جوانی کے عشق کا قصّہ عباس صاحب مجھے سنا چکے تھے، وہ ان کی زندگی میں پہلی عورت تھی جو اُن سے عمر میں کچھ بڑی بھی تھی لہٰذا اس کی محبت میں کچھ شفقت بھی شامل تھی۔

    عباس صاحب کو اس دو گونہ نشے نے دیوانہ کر دیا تھا مگر ظاہر ہے کہ ہیرا بائی کے گھر والے اس تعلق سے خوش نہیں تھے اور نہ عباس صاحب کی والدہ اِس لیے کہ انہیں اپنے ہونہار اکلوتے بیٹے سے بڑی امیدیں تھیں، وہ بیٹا جس کی لکھی ہوئی کہانیاں رسالوں میں چھپتی تھیں، جو مولوی سید ممتاز علی کے زیر سایہ’’پھول‘‘ اخبار میں کام کرتا تھا اور اہل علم لوگوں کی صحبت میں بیٹھتا تھا۔

    عباس صاحب کے لیے بھی ادب اور ادیبوں کی صحبت گویا ایک نئی دنیا کی سیر تھی، اس کی کشش نے اُن کے دل کو ایسا رِجھایا کہ رفتہ رفتہ انہوں نے اپنے اوّلین عشق سے دامن چھڑا لیا۔

    (اردو کے نام ور ادیب اور کئی مشہور افسانوں کے خالق غلام عباس پر ڈاکٹر آفتاب احمد کے تذکرے سے اقتباسات)

  • ’’آنندی‘‘ کے خالق غلام عبّاس کا یومِ وفات

    ’’آنندی‘‘ کے خالق غلام عبّاس کا یومِ وفات

    مشہور افسانہ ’’آنندی‘‘ اردو ادب کے ہر شائق اور قاری نے ضرور پڑھا ہو گا۔ غلام عبّاس نے اپنے اس افسانے میں معاشرے کی زبوں حالی کی تصویر کشی کی ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل جن افسانہ نگاروں نے نام و پہچان بنائی، ان میں غلام عبّاس بھی شامل ہیں۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    غلام عبّاس 17 نومبر 1909ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی۔ والد کی اچانک موت کے بعد خاندان کی کفالت کی ذمہ داری اُن کے کاندھوں پر آن پڑی۔ وہ مطالعے کے شوقین تھے اور خود بھی لکھتے تھے۔ جلد ہی لاہور کے ادبی جرائد میں اُن کے تراجم شائع ہونے لگے۔ یوں ان کی آمدنی کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1938ء میں غلام عباس دہلی چلے گئے جہاں وہ آل انڈیا ریڈیو کے جریدے ’’آواز‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب انھوں نے افسانہ ’’آنندی‘‘ لکھا۔ بھارت کے مشہور ہدایت کار شیام بینیگل نے اسی افسانے سے متاثر ہو کر فلم ’’منڈی‘‘ بنائی تھی۔

    1948ء میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ بھی ’’آنندی‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ان کا ایک اور یادگار افسانہ ’’حمام میں‘‘ بھی شامل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد غلام عباس پاکستان آگئے اور ریڈیو پاکستان کا جریدہ ’’آہنگ‘‘ شروع کیا۔ 1949ء میں وہ وزارتِ اطلاعات و نشریات سے وابستہ ہوئے اور بعد میں بی بی سی سے منسلک ہو گئے۔

    1952ء میں لندن سے واپسی پر انھوں نے دوبارہ ریڈیو پاکستان سے ناتا جوڑا اور 1967ء تک وہاں کام کرتے رہے۔ 1960ء میں اُن کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’جاڑے کی چاندنی‘‘ شائع ہوا جس پر انھیں آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ 1969ء میں اُن کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’کن رس‘‘ شائع ہوا۔ ان کا افسانہ ’’دھنک‘‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ 1986ء میں اپنے افسانے ’’گوندنی والا تکیہ‘‘ کو کتابی شکل میں شائع کیا۔

    وہ بچوں کے کئی رسائل کے مدیر بھی رہے۔ بچّوں کے لیے تراجم اور افسانوی ادب کی تخلیق کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

    2 نومبر 1982ء کو غلام عبّاس نے زندگی کا سفر تمام کیا۔ انھیں حکومتِ پاکستان کی طرف سے’’ستارہ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا تھا۔

  • عجلت اور بے صبری کی عادت نے کیا رنگ دکھایا، تفصیل جانیے

    عجلت اور بے صبری کی عادت نے کیا رنگ دکھایا، تفصیل جانیے

    ن م۔ راشد نے روایت سے انحراف کرتے ہوئے اردو نظم میں طرزِ نو کی بنیاد رکھی، آزاد نظم کو عام کیا، اسے مقبول بنایا۔ یہی نہیں بلکہ نئی نسل کو فکر و نظر کے نئے زاویوں سے آشنا کرتے ہوئے تخلیقی سطح پر نئے رویّوں کو متعین کیا۔

    ن م راشد مزاجاً سخت گیر اور جلد باز مشہور تھے اور اسی عادت سے متعلق ان کے ایک رفیق اور ممتاز افسانہ نگار غلام عبّاس نے نہایت دل چسپ واقعہ رقم کیا ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    "راشد کو اپنی اس بے صبری اور جلد بازی کی عادت کی ایک دفعہ اور بھی سخت سزا بھگتنی پڑی تھی۔ راشد کو جیسے ہی معلوم ہوا کہ انھیں فوج میں کمیشن مل گیا ہے اور اب صرف چند ابتدائی کارروائیاں باقی رہ گئی ہیں، مثلاً جسمانی معائنہ وغیرہ۔ تو وہ خود ہی فوج کے دفتر میں پہنچ گئے کہ میرا معائنہ کر لیجیے۔ شام کو جب واپس آئے تو ان کی بری حالت تھی۔ ان کے جسم پر جگہ جگہ چوٹیں آئی تھیں، گھٹنے زخمی تھے اور منہ سوجا ہوا۔ سارا جسم اکڑ گیا تھا، چلنا پھرنا دوبھر تھا۔

    ان کی یہ حالت دیکھ کر مجھے ملال بھی ہوا اور ہنسی بھی آئی۔ کہنے لگے بھائی یہ امتحان تو پل صراط سے گزرنے سے کم نہ تھا۔ مجھے خار دار تاروں پر سے گزرنا پڑا، خاصے اونچے اونچے درختوں پر چڑھا اور وہاں سے زمین پر چھلانگیں لگائیں۔ کبھی دوڑتا تھا، کبھی رینگتا تھا، قدم قدم پر ٹھوکریں کھاتا تھا۔

    بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے اس جسمانی معائنہ کی صعوبتیں ناحق ہی اٹھائیں۔ کیوں کہ انھیں تو اس معائنہ سے مستثنیٰ قرار دیا گیا تھا۔ یہ معائنہ تو صرف جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کے لیے لازمی تھا، لکھنے پڑھنے کا کام کرنے والوں کے لیے نہیں۔