Tag: افسانہ نگار ممتاز شیریں

  • ممتاز شیریں: اردو ادب کی ناقابلِ فراموش شخصیت

    ممتاز شیریں: اردو ادب کی ناقابلِ فراموش شخصیت

    ممتاز شیریں اردو ادب کی وہ افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ہیں جن کی تخلیقات اور ادبی بصیرت کا اعتراف اپنے وقت کے ہر بڑے اہلِ قلم نے کیا۔ ممتاز شیریں نے ادبی سفر کے ساتھ زندگی کے آخری ایّام میں بطور مشیر وفاقی وزاتِ تعلیم کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    ممتاز شیریں نہ صرف یہ کہ خود بہت اچھی قلم کار اور صحافی تھیں، مطالعے کا نکھرا ستھرا ذوق بھی رکھتی تھیں بلکہ ان کی جستجو تھی کہ ادیبوں شاعروں کے ساتھ ساتھ با ذوق قارئین تک ہر زبان کی معیاری کتابیں بھی پہنچیں۔ چنانچہ انھوں نے اعلیٰ پیمانے پر کتابوں کی ایک فرم بھی کراچی میں قائم کر رکھی تھی۔

    اُردو ادب کو ممتاز شیریں نے اپنے ادبی شعور، تخلیقی حساسیت اور ذہانت سے عمدہ افسانے اور معیاری تنقید کے ساتھ بہترین تراجم بھی دیے۔ اسی طرح مشاہیر، ہم عصر ادیبوں اور احباب کے نام اُن کے خطوط نہ صرف ان کی شخصیت کے مختلف النوع پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہیں بلکہ اپنے دور کے حالات، ادبی تاریخ و رجحانات کے ساتھ علم و ادب کی دنیا میں مسائل اور سرگرمیوں کا احاطہ بھی بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔

    ممتاز شیریں 11 مارچ 1973ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ ممتاز شیریں سے ایک ملاقات کے عنوان سے میرزا ادیب لکھتے ہیں: "ممتاز شیریں جس وقت دنیائے ادب میں داخل ہوئیں تو ان کی حیثیت افسانوں کے ایک سخت گیر نقاد کی تھی۔ ان کے مضامین پڑھے تو پتہ چلا کہ یہ خاتون اردو کے افسانے تو رہے ایک طرف انگریزی، روسی اور فرانسیسی افسانوی ادب کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کرچکی ہیں۔

    ان کا مقالہ” تکنیک کا تنوع” سویرا میں چھپا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ یہ مقالہ ایک ایسے ذہن کی پیداوار معلو ہوتا تھا جس نے برسوں افسانے کی متنوع تکنیک سمجھنے کی کوشش کی اور دنیا کے نام ور افسانہ نگاروں کے مشہور افسانوں کو غور و فکر کی گرفت میں لے چکا ہے۔ یہ مضمون اور ان کے دوسرے مضامین پڑھ کر میں نے ان کے بارے میں ایک خاص تصویر بنالی تھی اس کے بعد ان کے افسانے چھپنے لگے معلوم ہوا کہ وہ جتنی اچھی نقاد ہیں اسی قدر ماہر فن افسانہ نگار بھی ہیں۔

    اپنی افسانوی تحقیقات میں وہ زندگی کی ہر حقیقت کو، وہ کتنی بھی تلخ اور مکروہ کیوں نہ ہو، اس کی پوری جزیات کے ساتھ پیش کردیتی تھیں۔ جنتی موضوعات کے سلسلے میں ان کا قلم خاص طور پر بڑا بے باک تھا۔ سعادت حسن منٹو ان کا پسندیدہ افسانہ نگار تھا۔ اس سے بھی ان کے تخلیقی رجحانِ طبع کا اندازہ ہو جاتا ہے۔”

    انگڑائی، ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ تھا جو مشہور ادبی مجلّہ ساقی (دہلی) میں 1944ء میں شائع ہوا تھا۔ اس افسانہ کو اس وقت کے اہل قلم نے بہت سراہا۔ ممتاز شیریں نے بعد میں‌ افسانہ نگاری کے ساتھ اپنی تنقید اور تراجم سے بھی ادب کی دنیا کو مالا مال کیا۔ وہ معروف ادبی جریدے نیا دور کی مدیر بھی رہیں۔ ممتاز شیریں کا شمار ان خواتین ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے روایتی سوچ کو مسترد کردیا اور اپنے بے باکی سے اپنے افکار کا اظہار ادبی تحریروں میں کرتی رہیں۔

    12 ستمبر 1924ء کو آندھرا پردیش کے ایک علاقہ ہندو پور میں پیدا ہونے والی ممتاز شیریں کا بچپن ننھیال میں گزرا۔ ان کے نانا میسور میں مقیم تھے اپنی نواسی کو تعلیم و تربیت کی غرض سے اپنے رکھ لیا تھا۔ ممتاز شیریں نہایت ذہین اور قابل طالبہ ثابت ہوئیں۔ گھر کا ماحول بھی علمی و ادبی تھا جس نے انھیں بھی مطالعہ کا شوقین بنا دیا اور پھر وہ لکھنے لکھانے کی طرف راغب ہوئیں۔ 1942ء میں ممتاز شیریں کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی۔ ان کے شوہر تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں سرکاری عہدے پر فائز رہے اور بیرونِ ملک بھی قیام کیا۔ ممتاز شیریں نے پاکستان میں کراچی کو اپنا مستقر ٹھہرایا تھا۔

    ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا، حدیثِ دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو، نہ نوری نہ ناری کے نام سے شایع ہوئے۔ انھوں نے جان اسٹین بک کے مشہور ناول دی پرل کا اردو ترجمہ دُرِشہوار کے نام سے کیا تھا۔ ممتاز شیریں کی آپ بیتی اور خطوط بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔

  • "موت ان کے لیے رحمت تھی!”

    "موت ان کے لیے رحمت تھی!”

    وطن کی مٹی کی کشش کتنی زبردست ہوتی ہے۔ چاہے کوئی ساری عمر باہر گزار دے۔ آخر میں یہ مقناطیسی کشش اپنی جانب کھینچ ہی لیتی ہے اور اپنی مٹی وطن کی مٹی میں مل جاتی ہے۔

    میری اپنی زندگی ایک مستقل سفر بن گئی ہے۔ ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف مغرب سے مشرق اور مشرق سے مغرب کی طرف۔ نہ جانے کہاں کس دیارِ غیر میں موت آ لے گی اور کون سی مٹی نصیب ہوگی۔ بہرحال ساری زمینیں اللہ کی ہی ہیں اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے ساری دنیا ہی اپنا وطن ہے۔

    میرا وطن کون سا ہے؟ ہندو پور جہاں میرے بزرگ رہتے آئے ہیں اور جہاں میں پیدا ہوئی یا میسور جہاں میں پلی بڑھی، تعلیم حاصل کی شادی کی، بچپن اور نوجوانی کا زمانہ گزرا اور جہاں اب بھی میرے نانا جان، امی، بہنیں، بھائی سبھی رہتے ہیں یا پاکستان جس کی تقدیر سے میں نے اپنے آپ کو وابستہ کر لیا ہے اور جو میرا روحانی وطن ہے۔

    ہمارے آبائی وطن ہندو پور کی مٹّی نے ایک اور ہستی کو جو میرے قریب تھی یا قریب ہونی چاہیے تھی، اپنی آغوش میں لے لیا۔ یہ میرے ابّا جان تھے۔ ابھی ایک سال کا عرصہ بھی نہیں ہوا کہ پچھلی عیدالفطر کے دو ہفتے بعد 15 مارچ 1963ء کو میرے ابا جان رحلت فرما گئے۔

    موت ہمیشہ بے درد نہیں ہوتی۔ یہ قیدِ حیات و بندِ غم سے آزادی کا پیام لاتی ہے۔ آخری عمر میں ابّا جان کی زندگی کچھ ایسی حسرت ناک تھی کہ موت ان کے لیے رہائی کا باعث بنی۔ طویل بیماری نے دل، جگر، پھیپھڑے سب تباہ کر دیے تھے۔ تفکرات اور پریشانیوں میں گھرے ہوئے وہ زندگی سے بیزار تھے۔ میں نے دل کڑا کر کے سوچا شاید موت ان کے لیے رحمت تھی۔

    ابّا جان کی موت کی صرف ایک اطلاع۔ ایک منحوس خبر مجھ تک پہنچی۔ میں اس وقت ڈھاکہ مشرقی پاکستان میں تھی۔ سیکڑوں میل دور، نہ ان کا آخری دیدار کر سکی۔ نہ ان کی کوئی خدمت مجھ سے ہو سکی۔ یہ سعادت میری سب سے چھوٹی بہن نجمہ نسرین کو نصیب ہوئی جو ان کی سب سے چہیتی بیٹی تھی اور جس کے گھر میں ابّا جان نے اپنے آخری دن گزارے تھے۔ میری چھوٹی بہن نجمہ نسرین نے مجھے یہ اطلاع دی تھی اور اپنے سادہ جملوں میں ابّا جان کے آخری دنوں، آخری سفر، ان کی موت اور تجہیز و تکفین کی تصویر کھینچی تھی۔

    میری بہن کے قلم میں اظہار کی قوت نہیں لیکن اس کے خط میں بے پناہ خلوص اور سچا درد و کرب تھا۔ ایک ایسا معصومانہ خلوص جو شاید اپنے اندر نہیں پاتی Sophistication نے مجھ پر تصنع کا ایک ہلکا سا ملمع چڑھا دیا ہے۔ میری بہن نے اپنے سادہ جملوں میں ابّا کے آخری دنوں، آخری سفر ان کی موت اور تجہیز و تکفین کی ایسی تصویر کھینچی تھی کہ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا میں ڈاکٹر زواگو کا آغاز اور انجام پڑھ رہی ہوں بلکہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں اور اس حقیقی المیے کے مرکزی کردار میرے اپنے ابّا ہیں۔

    ابّا جان کی چونسٹھ سالہ زندگی کا بیشتر حصہ میسور اور بنگلور میں گزرا تھا۔ لیکن مرنے سے صرف دو دن پہلے وہ بضد ہو گئے تھے کہ ہندو پور جائیں گے۔ ہندو پور میں ان کا کوئی نہ تھا۔ ماں باپ، بہن بھائی سب انتقال کر چکے تھے اور میسور میں ان کی بیوی، بیٹے بیٹیاں (سوائے میرے) سبھی موجود تھے۔ لیکن ایک بے نام آواز تھی کہ انہیں بلا رہی تھی۔ وطنِ عزیز کی مٹی انہیں اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔

    ٹرین میں اپنے آخری سفر پر روانہ ہوتے ہوئے انہوں نے اپنے کمپارٹمنٹ کی کھڑکی کھول لی اور لیٹے لیٹے ہی باہر نظریں جمائے رہے۔ انہیں ہر لمحہ یہ اندیشہ ستاتا رہا کہ کہیں غفلت میں آنکھ نہ لگ جائے اور ایسے میں ہندو پور کا اسٹیشن نہ نکل جائے۔ رات بھر وہ جاگتے رہے اور ٹکٹکی باندھے کھڑکی سے باہر دیکھتے رہے۔ ہندو پور کا اسٹیشن آگیا تو ان کے بے جان لبوں پر ایک ہلکی مسکراہٹ نمودار ہوئی ان کی منزل آگئی تھی۔ آخری منزل!

    اپنے نرم اور حساس ظاہر کے پس پردہ شاید میں بہت سخت دل ہوں۔ میں نے باپ کی موت کا وہ سوگ نہیں منایا جو ایک بیٹی کو منانا چاہیے۔ میں نے باپ کی موت کو اس طرح محسوس نہیں کیا جس طرح دو سال پہلے اپنے نوزائیدہ بچے کی موت کو محسوس کیا تھا۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ طویل جدائی ہو۔ پاکستان آنے کے بعد، پندرہ سال میں اپنے ماں باپ سے دور رہی ہوں اور اس دوران میں شاذ ہی چند ہفتے ابا جان کے ساتھ گزارے ہوں گے۔ اس پندرہ سال کے طویل عرصے میں ہم دو ہی مرتبہ ہندوستان گئے تھے اور وہ بھی قلیل مدت کے لیے۔

    لیکن کیا یہ طویل زمانی و مکانی فاصلہ بھی باپ بیٹی کے اتنے قریب اور گہرے رشتہ کے نشان دھندلا سکتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ گئی تھی کہ موت ابّا جان کے لیے ایک تکلیف دہ زندگی سے نجات کا باعث تھی۔ اس میں خدا کی مصلحت تھی اور ہمیں صبر و شکر سے کام لینا چاہیے۔

    (معروف نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور ادبی مجلّے نیا دور کی مدیر ممتاز شیریں کی خود نوشت ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے سے اقتباس)

  • یومِ وفات: ممتاز شیریں کو اردو کی پہلی خاتون نقّاد کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: ممتاز شیریں کو اردو کی پہلی خاتون نقّاد کہا جاتا ہے

    ممتاز افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ممتاز شیریں نے 11 مارچ 1973ء کو اس دنیا سے کوچ کیا۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔ زندگی کے آخری ایّام میں وہ وفاقی وزارتِ تعلیم میں بہ حیثیت مشیر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

    ممتاز شیریں سے ایک ملاقات کے عنوان سے میرزا ادیب لکھتے ہیں: "ممتاز شیریں جس وقت دنیائے ادب میں داخل ہوئیں تو ان کی حیثیت افسانوں کے ایک سخت گیر نقاد کی تھی۔ ان کے مضامین پڑھے تو پتہ چلا کہ یہ خاتون اردو کے افسانے تو رہے ایک طرف انگریزی، روسی اور فرانسیسی افسانوی ادب کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کرچکی ہیں۔

    ان کا مقالہ” تکنیک کا تنوع” سویرا میں چھپا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ یہ مقالہ ایک ایسے ذہن کی پیداوار معلو ہوتا تھا جس نے برسوں افسانے کی متنوع تکنیک سمجھنے کی کوشش کی اور دنیا کے نام ور افسانہ نگاروں کے مشہور افسانوں کو غور و فکر کی گرفت میں لے چکا ہے۔ یہ مضمون اور ان کے دوسرے مضامین پڑھ کر میں نے ان کے بارے میں ایک خاص تصویر بنالی تھی اس کے بعد ان کے افسانے چھپنے لگے معلوم ہوا کہ وہ جتنی اچھی نقاد ہیں اسی قدر ماہر فن افسانہ نگار بھی ہیں۔

    اپنی افسانوی تحقیقات میں وہ زندگی کی ہر حقیقت کو، وہ کتنی بھی تلخ اور مکروہ کیوں نہ ہو، اس کی پوری جزیات کے ساتھ پیش کردیتی تھیں۔ جنتی موضوعات کے سلسلے میں ان کا قلم خاص طور پر بڑا بے باک تھا۔ سعادت حسن منٹو ان کا پسندیدہ افسانہ نگار تھا۔ اس سے بھی ان کے تخلیقی رجحانِ طبع کا اندازہ ہوجاتا ہے۔”

    ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ انگڑائی ادبی مجلّہ ساقی، دہلی میں 1944ء میں شائع ہوا تھا جسے ادبی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی اور بعد میں بھی انھوں نے اپنے تنقیدی مضامین اور تراجم سے علم و ادب کی دنیا کو مالا مال کیا۔ ممتاز شیریں معروف ادبی جریدے نیا دور کی مدیر بھی تھیں۔ وہ اس زمانے کی روایتی سوچ اور عورتوں سے متعلق مخصوص ذہنیت کو مسترد کرتے ہوئے اپنے افکار اور قلم کی بے باکی کی وجہ سے بھی مشہور ہوئیں۔

    ممتاز شیریں 12 ستمبر 1924ء کو ہندو پور (آندھرا پردیش) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے نانا جو میسور میں مقیم تھے، انھوں نے اپنی اس نواسی کو تعلیم و تربیت کی غرض سے اپنے پاس میسور بلا لیا۔ اس طرح بچپن ان کا ننھیال میں گزرا۔ ممتاز شیریں نہایت ذہین اور قابل طالبہ تھیں اور گھر کا ماحول بھی علمی و ادبی تھا جس نے انھیں لکھنے لکھانے کی طرف راغب کرلیا۔ یوں تعلیم کے ساتھ ان کا ادبی سفر بھی جاری رہا اور 1942ء میں ان کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی جو بعد میں پاکستان میں سرکاری عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ جوڑا بیرونِ ملک بھی مقیم رہا اور قیامِ پاکستان کے بعد اس خاندان نے کراچی میں سکونت اختیار کی تھی۔

    ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا، حدیثِ دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو، نہ نوری نہ ناری کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انھوں نے جان اسٹین بک کے مشہور ناول دی پرل کا اردو ترجمہ دُرِشہوار کے نام سے کیا تھا۔ ان کی آپ بیتی اور خطوط بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔

  • افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ممتاز شیریں کا تذکرہ

    افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ممتاز شیریں کا تذکرہ

    اردو کی نام ور نقّاد، افسانہ نگار اور مترجم ممتاز شیریں 11 مارچ 1973ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ انگڑائی ادبی مجلّہ ساقی، دہلی میں 1944ء میں شائع ہوا تھا جس نے ادبی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل کی اور یوں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا اور اس سفر میں‌ ان کے قلم نے کہانیاں اور افسانوں کے ساتھ تنقیدی مضامین اور ترجمہ بھی کیا۔ وہ اردو کے معروف ادبی جریدہ نیا دور کی مدیر بھی تھیں۔

    12 ستمبر 1924ء کو ہندو پور (آندھرا پردیش) میں پیدا ہونے والی ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا، حدیثِ دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو، نہ نوری نہ ناری کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انھوں نے جان اسٹین بک کے مشہور ناول دی پرل کا اردو ترجمہ دُرِشہوار کے نام سے کیا تھا۔